Saturday, 23 December 2017

بے خدا تہذیب کی پریشانی

تحریر۔۔۔بنیامین مہر


بے خدا تہذیب کی پریشانی

جواہر لال نہرو دنیا کے تیسرے سب سے بڑے ملک کے وزیر اعظم تھے ،جنوری 1964ء کے پہلے ہفتے میں مستشرقین کی بین الاقوامی کانگریس نئی دہلی میں ہوئی جس میں ہندوستا ن اور دوسرے ممالک کے بارہ سو ڈیلی گیٹ شریک ہوئے ،پنڈت نہرو نے اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے کہا:

“میں ایک سیاست داں ہوں اور مجھے سوچنے کے لئے وقت کم ملتا ہے پھر بھی بعض اوقات میں یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہوں کہ آخر یہ دنیا کیا ہے،کس لئے ہے،ہم کیا ہیں اور ہم کیا کررہے ہیں،میرا یقین ہے کہ کچھ طاقتیں ہیں جو ہماری تقدیر بناتی ہیں۔”

(National Herald, Jan, 6, 1964)

یہ ایک عدم اطمینان ہے ،جو ان تمام لوگوں کی روحوں پر گہرے کہر کی طرح چھایا رہتا ہے جنہوں نے خدا کو اپنا الہٰ اور معبود بنانے سے انکار کیا،دنیا کی مصروفتوں اور وقتی دلچسپیوں میں عارضی طور پر کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اطمینان سے ہم کنار ہیں،مگر جہاں یہ مصنوعی ماحول ختم ہوا،حقیقت اندر سے زور کرنا شروع کردیتی ہے، اور انہیں یاد دلاتی ہے کہ وہ سچے اطمینان سے محروم ہیں۔

خدا سے محروم قلوب کا یہ حال صرف ایک دنیوی بے اطمینانی کا معاملہ نہیں ہے بلکہ وہ اس سے بہت زیادہ اہم ہے ،یہ چند روزہ مسئلہ نہیں بلکہ دائمی مسئلہ ہے،یہ دراصل اس تاریک اور بے سہارا زندگی کے آثار ہیں جس کےکنارے وہ کھڑا ہوا ہے،یہ اس ہولناک زندگی کی ابتدائی گھٹن ہے جس میں ایسے ہر آدمی کو موت کے بعد داخل ہونا ہے اور اس خطرے کا ایک پیشگی الارم ہے جس میں اس کی روح کو بالآخر مبتلا ہونا ہے ،گھر میں آگ لگ جائے تو اس کا دھواں سوتے ہوئے آدمی کے دماغ میں گھس کر اس کو آنے والے خطرے سے باخبر کرتا ہے،اگر وہ دھوئیں کی گھٹن سے جاگ گیا تو اپنے آپ کو بچا لے جائے گا،لیکن جب شعلے قریب آجائیں تو وہ انتباہ کا وقت نہیں ہوتا،بلکہ وہ ہلاکت کا فیصلہ ہوتا ہے،جو اس کو چاروں طرف سے گھیر لیتا ہے،اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ تمہاری بے حسی اور بے خبری نے تمہارے لئے مقدر کردیا ہے کہ تم آگ میں جلو۔

کیا کوئی ہے جو وقت سے پہلے بیدار ہوجائے؟

1۔میک گل ینیورسٹی کے پروفیسر بریچر(Michael Brecher) نے پنڈت جواہر لال نہرو کی سیاسی سوانح حیات لکھی ہے اس سلسلے میں مصنف نے پنڈت نہرو سے ملاقات بھی کی تھی،نئی دہلی کی ایک ملاقات میں 13جون 1956ء کو انہوں نے پنڈت نہرو سے سوال کیا: “آپ مختصر طور پر بتائیں کہ آپ کے نزدیک اچھے سماج کے لئے کیا چیزیں ضروری ہیں اور آپ کا بنیادی فلسفہ زندگی کیا ہے؟”

ہندوستان کے سابق وزیر اعظم نے جواب دیا:”میں کچھ معیاروں کا قائل ہوں،آپ ان کو اخلاقی معیارMoral Standards کہہ لیجئے یہ معیار ہر فرد اور سماجی فرد کے لئے ضروری ہیں،اگر وہ باقی نہ رہیں تو تمام مادی ترقی کے باوجود آپ کسی مفید نتیجے تک نہیں پہنچ سکتے،ان معیاروں کو کیسے قائم رکھا جائے،یہ مجھے نہیں معلوم،ایک تو مذہبی نقطہِ نظر ہے لیکن یہ اپنے تمام رسوم اور طریقوں کے ساتھ مجھے تنگ نظر آتا ہے،میں اخلاقی اور روحانی قدروں کو مذہب سے علیٰحدہ رکھ کر بڑی اہمیت دیتا ہوں،لیکن میں نہیں جانتا کہ ان کو ماڈرن زندگی میں کس طرح قائم رکھا جاسکتا ہے یہ ایک مسئلہ ہے۔”(Nehru :A Political Biography,London,1959,p.607-8)

یہ سوال و جواب جدید انسان کے دوسرے خلا   کو بتاتا ہے ،جس میں آج وہ شدت سے گرفتار ہے،افراد کو دیانت و اخلاق کے ایک خاص معیار پر باقی رکھنا ایک سماجی گروہ کی ایک ناگزیر ضرورت ہے،اس کے بغیر تمدن کا نظام صحیح طور پر برقرار نہیں رہ سکتا،مگر یہ خلا کیسے پُر ہو اور وہ ماحول کیسے بنے جس میں عوام اور سرکاری کارکن دیانتداری اور اتحاد کے ساتھ ترقیاتی کاموں میں اپنے آپ کو صرف کریں،اس سوال کا کوئی جواب جدید مفکرین کے پاس نہیں ہے،اور حقیقت یہ ہے کہ بے خدا تہذیب کے ماحول میں نہیں ہوسکتا،بے خدا تہذیب کے اندر ہر ترقیاتی اسکیم ایک زبردست تضاد کا شکار ہوتی ہے اور وہ یہ کہ اس کا شخصی نظریہ اس کے سماجی تصور سے ٹکراتا ہے،اس کا اجتماعی پروگرام یہ ہے کہ ایک پُر امن اور خوشحال سماج کی تعمیر کی جائے،مگر اسی کے ساتھ اس کے مفکرین جب یہ کہتے ہیں کہ”انسان کا مقصد مادی خوشی حاصل کرنا ہے”تو وہ اپنی پہلی بات کی تردید کردیتے ہیں۔

مادی خوشی کو زندگی کا مقصد بنانے کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص اپنی اپنی خواہش پوری کرنا چاہے،لیکن اس محدود دنیا میں یہ ممکن نہیں ہے کہ ہر شخص دوسرے کو متاثرکئے بغیر یکساں طور پر اپنی اپنی خواہش پوری کرسکے،نتیجہ یہ ہے کہ ہر آدمی جب اپنی تمام خواہشیں پوری کرنا چاہتا ہے تو وہ دوسروں کے لئے مصیبت بن جاتا ہے۔فردکی خوشی ،سماج کی خوشی کو درہم برہم کردیتی ہیں،ایک محدود آمدنی والا شخص جب دیکھتا ہے کہ اس کی اپنی آمدنی اس کی خواہشوں کی تکمیل کے لئے کافی نہیں ہورہی ہے تو وہ حق ماری،بددیانتی،چوری،رشوت اور غبن کے ذریعہ اپنی آمدنی کی کمی کو پورا کرتا ہے،مگر اس طرح جب وہ اپنی خواہش پوری کرلیتا ہے تو وہ سماج کو اسی محتاجی میں مبتلا کردیتا ہے جس میں وہ خود پہلے مبتلا تھا۔

جدید دنیا ایک عجیب و غریب قسم کی نہایت خطرناک مصیبت میں مبتلا ہے جس کا تاریخ میں کبھی تجربہ نہیں ہوا تھا۔ ایک جرم کم سنی ہے،جو جدید زندگی کا ایک لازمہ بن چکا ہے۔یہ کمسن مجرمین کہاں سے پیدا ہوتے ہیں،ان کی پیدائش کا سرچشمہ وہی مادی خوشی کو پورا کرنا ہے،ایک شادی شدہ جوڑا کچھ دنوں ساتھ رہنے کے بعد ایک دوسرے سے اکتا جاتے ہیں اور اپنی جنسی خوشی کے لئے ضروری سمجھتے ہیں کہ نیا جسم اور نیا چہرہ تلاش کریں،اس وقت وہ طلاق لےکر ایک دوسرے سے علیٰحدہ ہوجاتے ہیں،اس علیٰحدگی کی قیمت سماج کو چند ایسے بچوں کی شکل میں ملتی ہے،جو اپنے ماں باپ کی موجودگی میں”یتیم” ہوگئے ہیں،یہ بچے والدین سے چھوٹنے کے بعد ماحول کے اندر اپنی کوئی جگہ نہیں پاتے،ایک طرف وہ بالکل آزاد ہوتے ہیں اور دوسری طرف ماحول سے بیزار،یہ صورتِ حال بہت جلد انہیں جرائم تک پہنچادیتی ہے۔سرالفرڈڈیننگAlfred Denning نےبہت صحیح لکھا ہے کہ

“اکثر کمسن اور نابالغ مجرمین اجڑے ہوئے گھرانوں(Broken Homes) سے نمودار ہوتے ہیں۔” (The Changing Law,p.111)

اسی طرح موجودہ زندگی میں تمام خرابیوں کی جڑ صرف یہ واقعہ ہے کہ جدید دنیا کا انفرادی فلسفہ اور اس کے اجتماعی مقاصد ایک دوسرے سے متضاد ہیں،وہ تمام واردات جن کو ہم نا پسند کرتے ہیں اور ان کو جرم ،برائی اور بدعنوانی کہتے ہیں وہ دراصل کسی شخص یا پارٹی یا قوم کی اپنی مادی خوشی حاصل کرنے کی کوشش ہی ہوتی ہے اور اسی کوشش کا سماجی انجام قتل،بدکاری،لڑائی،اغواء،جعل سازی،ڈاکہ،لوٹ کھسوٹ،جنگ اور اس طرح کی دوسری بے شما ر صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے۔

یہ تضاد بتاتا ہے کہ زندگی کا مقصد اس کے سوا کچھ اور نہیں ہوسکتا جو علوم وحی سے پتا چلتا ہے کہ دنیا کی مادی چیزوں کے بجائے آخرت میں خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کو مقصد بنایا جائے یہی وہ مقصد ہے جو فرد اور سماج کو باہمی تضاد سے بچا کر متوافق ترقی کی راہ پر گامزن کرتا ہے،نظریہِ آخرت کی یہ خصوصیت جہاں یہ ثابت کرتی ہے کہ وہی وہ واحد بنیاد ہے،جو ترقیاتی اسکیموں کو صحیح طور پر کامیاب کرسکتی ہے،اسی کے ساتھ وہ یہ بھی ثابت کرتی ہے کہ وہی حقیقی مقصد ہے کیونکہ غیر یقینی چیز زندگی کے لئے اتنی اہم اور اس سے اتنی ہم آہنگ نہیں ہوسکتی۔

موجودہ زمانے میں طب اور سرجری میں حیرت انگیز ترقی ہوئی ہے،یہ خیال کیا جانے لگا ہے کہ سائنس موت اور بڑھاپے کے سوا ہر جسمانی تکلیف پر قابو پاسکتی ہے مگر اسی کے ساتھ بیماری کی اقسام میں نہایت تیزی سے ایک نئے نام کا اضافہ ہورہا ہے،اعصابی بیماریNervous Diseases یہ اعصابی بیماریاں کیا ہیں،یہ دراصل اسی تضاد کا ایک عملی ظہور ہے،جس میں جدید سوسائٹی شدت سے مبتلا ہے،مادی تہذیب نے انسان کے اس حصے کو جو نمکیات معدنیات اور گیسوں کا مرکب ہے،ترقی دینے کی کافی کوشش کی،مگر انسان کا وہ حصہ جو شعور ،خواہش اور ارادہ پر مشتمل ہے،اس کی غذا سے اس کو محروم کردیا،نتیجہ یہ ہوا کہ پہلا حصہ تو بظاہر فربہ اور خوش منظر دکھائی دینے لگا،مگر دوسرا حصہ جو اصل انسان ہے،وہ طرح طرح کے عوارض میں مبتلا ہوگیا۔

موجودہ امریکہ کے بارے میں وہاں کے ذمہ دار ذرائع کا اندازہ ہے کہ وہاں کے بڑے بڑے شہروں میں اسّی 80فیصد مریض ایسے ہیں جن کی علالت بنیادی طور پر نفسیاتی سببPsychic Causation کے تحت واقع ہوتی ہے،ماہرین نفسیات نے اس سلسلے میں جو تحقیقات کی ہیں،ان سے پتہ چلتا ہے کہ ان بیماریوں کے پیدا ہونے کے چند اہم ترین وجوہ جرم،ناراضگی،اندیشہ،پریشانی،مایوسی،تذبذب،شبہ،خودغرضی اور اکتاہٹ ہیں ۔ ان سارے عوارض اگر گہرائی کے ساتھ غور کیجئے تو بے خدا زندگی کا نتیجہ ہیں،خدا پر ایمان آدمی کے اندر وہ اعتماد پیدا کرتا ہے،جو مشکلات میں اس کے لئے سہارا بن سکے، وہ ایسا برتر مقصد اس کے سامنے رکھ دیتا ہے،جس کے بعد وہ چھوٹے چھوٹے مسائل کو نظر انداز کرکے اسکی طرف بڑھ سکے،وہ اس کو ایسا محرک دیتا ہے،جو سارے اخلاقی محاسن کی واحد بنیاد ہے،وہ عقیدے کی طاقت دیتا ہے جس کے متعلق سرولیم اوسلرSir William Osler نے کہا ہے “وہ ایک عظیم قوت محرکہ(Great Moving Force) ہے جس کو نہ کسی ترازو میں تولا جاسکتا ہے اور نہ لیبارٹری میں اس کی آزمائش کی جاسکتی ہے”یہی عقیدے کی طاقت دراصل نفسیاتی صحت کا خزانہ ہے،جو نفسیات اس سرچشمہ سے محروم ہو وہ بیماریوں کے سوا کسی اور انجام سے دوچار نہیں ہوسکتی،یہ انسان کی بدقسمتی ہے کہ وقت کے ماہرین نفسیاتی یا اعصابی عوارض کا کھوج لگانے میں تو کمال درجے کی ذہانت کا ثبوت دیا ہے،مگر ان نو دریافت بیماریوں کا صحیح علاج تجویز کرنے میں وہ سخت ناکام ہوئے ہیں ،ایک عیسائی عالم کے الفاظ میں “نفسیاتی علاج کے ماہرین صرف اس تالے کی باریک تفصیلات بتانے میں اپنی کوشش صرف کررہے ہیں،جو ہمارے اوپر صحت کے دروازے بند کرنے والے ہیں۔”

جدید معاشرہ بیک وقت دو متضاد عمل کررہا ہے،ایک طرف وہ مادی ساز و سامان فراہم کرنے میں پوری قوت صرف کررہا ہے،دوسری طرف مذہب کو ترک کرکے وہ حالات پیدا کررہا ہے جس سے زندگی طرح طرح کےعذاب میں مبتلا ہوجائے،وہ ایک طرف دوا کھلا رہا ہے،اور دوسری جانب زہر کا انجیکشن دے رہا ہے،یہاں میں ایک امریکی ڈاکٹر ارنسٹ اڈولف(Paul Ernest Adolph) کا ایک اقتباس نقل کروں گا جو اس کے سلسلے میں ایک دلچسپ شہادت فراہم کرتا ہے:

“جن دنوں میں میڈیکل اسکول میں زیر تعلیم تھا،میں ان تبدیلیوں سے آگاہ ہوا جو زخم ہوجانے کی صورت میں جسم کے اخلاط(Body Tissues) میں رونما ہوتی ہیں،خوردبین کے ذریعہ نسیجوں کا مطالعہ کرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ نسیجوں پر مختلف موافق اثرات کے واقع ہونے سے زخم کا اطمینان بخش ریکوری ہوتی جاتی ہے۔۔اسپتال میں جن مریضوں کی نگرانی میرے سپرد کی گئی ان میں ایک ستر سال کی بوڑھی عورت تھی جس کا کولھا زخمی ہوگیا تھا،ایکسرے تصاویر کے معائنہ سے معلوم ہوا کہ اس کی نسیجیں(Tissues) بڑی تیزی سے ٹھیک ہورہی ہیں،میں نے اس سرعت کے ساتھ شفایابی پر اس کو مبارکباد پیش کی،انچارج سرجن نے مجھے ہدایت کی کہ اس خاتون کو 24گھنٹے میں رخصت کردیا جائے،کیونکہ اب وہ کسی سہارے کے بغیر چلنے پھرنے کے قابل ہوگئی ہے۔

اتوار کا دن تھا،اس کی بیٹی ہفتہ وار ملاقات کے معمول کے مطابق اسے دیکھنے آئی،میں نے اس سے کہا کہ چونکہ اس کی ماں اب صحت یاب ہے،اس لئے وہ کل آکر اسے اسپتال سے گھر لے جائے،لڑکی اس کے جواب میں کچھ نہیں بولی اور سیدھی اپنی ماں کے پاس چلی گئی،اس نے اپنی ماں کو بتایا کہ اس نے اپنے شوہر سے اس کے بارے میں مشورہ کیا ہے،اور یہ طے ہوا ہے کہ وہ اس کو اپنے گھر نہ لے جاسکیں گے،اس کے لئے زیادہ بہتر انتظار کی صورت یہ ہے کہ اس کو کسی دارلضعفاء(Old People’s Home) میں پہنچادیا جائے۔جند گھنٹوں کے بعد جب میں اس بڑھیا کے پاس گیا تو میں نے دیکھا کہ بڑی تیزی کے ساتھ اس پر جسمانی انحطاط طاری ہورہا ہے،چوبیس گھنٹے کے اندر ہی وہ مرگئی،کولھے کے زخم کی وجہ سے نہیں بلکہ دل کے صدمے کی وجہ سے(Not of her broken hip, but of a broken heart) ہم نے ہر قسم کی ممکن طبی امداد اسے پہنچائی،مگر وہ جانبرنہ ہوسکی،اس کے کولھے کی ٹوٹی ہوئی ہڈی تو بلکل درست ہوچکی تھی،مگر اس کے ٹوٹے ہوئے دل کا کوئی علاج نہ تھا،وٹامن،معدنیات اور ٹوٹی ہوئی ہڈی کو اپنی جگہ لانے کے لئے سارے ذرائع استعمال کرنے کے باوجود صحت یاب نہیں ہوئی،یقینی طور اس کی ہڈیاں جڑچکی تھیں،اور عنصر جو درکار تھا،وہ وٹامن نہیں تھا،نہ معدنیات تھے اور نہ ہڈیوں کا جرنا تھا،یہ صرف امنگ(Hope) تھی،اور جب زندگی کی امنگ ختم ہوگئی تو صحت بھی رخصت ہوگئی۔

اس واقعہ نے مجھ پر گہرا اثر کیا ہے،کیونکہ اس کے ساتھ مجھے یہ شدید احساس تھا کہ اس بوڑھی خاتون کے ساتھ ہرگز یہ حادثہ پیش نہ آتا ،اگر یہ خاتون خدائی امید(God of Hope) سے آشنا ہوتی،جس پر ایک عیسائی حیثیت سے میں اعتقاد رکھتا ہوں۔” (The Evidence of God,p.212-14)

اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جدید ترقی یافتہ دنیا کس قسم کے تضاد سے دوچار ہے،وہ ایک طرف سارے علوم کو اس نہج پر ترقی دے رہی ہے جس سے خدا کا وجود غلط ثابت ہوجائے،تعلیم و تربیت کے پورے نظام کو اس ڈھنگ سے چلایا جارہا ہے،جس سے خدا اور مذہب کے احساسات دلو ں سے رخصت ہوجائیں،اس طرح روح اصل انسان کو موت کے خطرے میں مبتلا کرکے اس کے جسم مادی وجود کو تقویت دینے کی سعی کی جارہی ہے،نتیجہ یہ ہے کہ عین اس وقت جبکہ بہترین ماہرین اس کی ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کو جوڑنے میں کامیابی حاصل کرچکے ہوتے ہیں،عقیدے کی اندرونی طاقت جو اسکو امید دلاتی سے اس کا دل ٹوٹ جاتا ہے،اور بظاہر جسمانی صحت کے باوجود وہ موت کے آغوش میں چلا جاتا ہے۔

یہ وہ تضاد ہے جس نے آج پوری انسانیت کو تباہ کررکھا ہے،خوش پوش جسم حقیقی سکون سے محروم ہیں،عالی شان عمارتیں اجڑے ہوئے دلوں کامسکن ہیں،جگمگاتے ہوئے شہر جرائم اور مصائب کا مرکز ہیں،شاندار حکومتیں اندرونی سازش اور بے اعتمادی کا شکار ہیں،بڑے بڑے منصوبے کردار کی خامی کی وجہ سے ناکام ہوررہے ہیں،غرض مادی ترقیات کے باوجود زندگی بالکل اجڑ گئی ہے،اور یہ سب نتیجہ ہے صرف ایک چیز کا کہ انسان نے اپنے خدا کو چھوڑ دیا،اس نے اس سرچشمہ سے اپنے آپ کو محروم کرلیا،جو اس کے خالق و مالک نے اس کے لئے مہیا کیا تھا۔

نفسیاتی امراض کی نوعیت جو اوپر بیان کی گئی ہے،وہ اتنی واضح حقیقت ہے کہ خود اس فن کے ماہر نے اس کا اعتراف کیا ہے،نفسیات کے مشہور عالم پروفیسر نیگ(C.G. Jung) نے اپنی زندگی بھر کا تجربہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔

“پچھلے تیس برسوں میں روئے زمین کے تمام متمدن ممالک کے لوگوں نے مجھ سے (اپنے نفسیاتی امراض کے سلسلے میں)مشورہ حاصل کرنے کے لئے رجوع کیا ہے،میرے مریضوں میں زندگی کے نصف آخر میں پہنچنے والے تمام لوگ جوکہ 35سال کے بعد کہی جاسکتی ہے کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں تھا جس کے مسئلہ کا حل مذہبی نقطہِ نظر پانے کے سوا کچھ اور ہو،یہ کہنا صحیح ہوگا کہ ان میں سے ہر شخص کی بیماری یہ تھی کہ اس نے وہ چیز کھودی تھی جوکہ موجودہ مذاہب ہر دور میں اپنے پیروؤں کو دیتے رہے ہیں(ایمان، امید اور محبت)،اور ان مریضوں میں سے کوئی بھی حقیقۃً اس وقت تک شفایاب نہ ہوسکا،جب تک اس نے اپنا مذہبی تصور دوبارہ نہیں پالیا۔”

(Quoted by C.A. Coulson, Science and Christian Belief, p.110)

یہ الفاظ اگرچہ سمجھنے والے کے لئے بجائے خود بالکل واضح ہیں،تاہم اگر میں نیویارک اکیڈمی آف سائنس کے صدر اے،کریسی مارلسین کے الفاظ نقل کردوں تو بات بالکل مکمل ہوجائے گی:

“ادب و احترام،فیاضی،کردار کی بلندی،اخلاق،اعلیٰ خیالات اور وہ سب کچھ جس کو خدائی صفات(Divine Attributes) کہاجاسکتا ہے،وہ کبھی الحاد سے پیدا نہیں ہوسکتیں جوکہ دراصل خود بینی کی عجیب و غریب قسم ہے،جس میں آدمی خود اپنے آپ کو خدا کے مقام پر بٹھا لیتا ہے،عقیدے اور یقین کے بغیر تہذیب تباہ ہوجائے گی،نظم،بے نظمی میں تبدیل ہوجائے گی،ضبط نفس اور اپنے آپ پر کنٹرول کا خاتمہ ہوجائے گا اور برائی ہر طرف پھیل جائے گی،ضرورت ہے کہ ہم خدا پر اپنے یقین کو دوبارہ مضبوط کریں۔”

(Man Does not Stand Alone, p.123)ٌ

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔