Saturday 23 December 2017

"جدید سائنسی ایجادات اور 1439 سال پہلے نازل شدہ اللہ کا قرآن"

"جدید سائنسی ایجادات اور 1439 سال پہلے نازل شدہ اللہ کا قرآن"

جدید سائنسی تحقیقات کے مطابق خلاء میں جب بھی سورج سے تین یا چار یا اس سے بھی زیادہ ماس رکھنے والا ستارہ اپنی طبعی عمر گزارنے کے بعد مرنے کے قریب آتا ہے تو اس وقت اسکے مرکز میں بہت سارے عناصر(elements) پیدا ہوجاتے ہیں جیسے (Hydrogen, Helium, carbon) پھر جب لوہا (iron) بھی پیدا ہو جائے تو وہ ستارہ اپنا ایندھن ختم کر کے ایک خوفناک دھماکے سے پھٹ کر کائنات میں بکھر جاتا ہے، لیکن اس کے مرکز میں شدید کشش کی وجہ سے ایک ایسا کالا بھمر وجود میں آجاتا ہے جو بعد میں (black hole) بن جاتا ہے... اور یہی ستارہ اس (black hole) میں ڈوب جاتا ہے.

اس(black hole) کی کشش کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اتنی زیادہ ہے کہ کسی بڑی جسامت کے حامل مادہ کو معمولی وجود میں تبدیل کر کے یہ اپنے اندر جذب کرلیتا ہے..

اللہ قرآن کی سورت واقعہ کی آیت نمبر 75 تا 76 میں ارشاد فرماتا ہے کہ:
"قسم ہے ستاروں کے ڈوبنے کے مقام کی اور اگر تم سمجھ سکو تو یہ بہت بڑی قسم ہے"

سائنس کہتی ہے ان(Block Hole) کی اقسام تین ہوسکتی ہیں....
نمبر ایک: (Miniature) اس قسم کے بلیک ہول کا سائز اتنا چھوٹا ہوتا ہے جیسے ایٹم (atom) کا ایک زرا لیکن اس کی کشش اس قدر ہوتی ہے یہ پہاڑ جتنے جسم کو آرام سے ایک معمولی جسم میں تبدیل کر کے اپنے اندر ڈباء سکتے ہیں.

نمبر دو: (Stellar) انکا سائز سورج سے 20 گناہ زیادہ ہوتا ہے اور سائینسی تحقیقات کے مطابق یہ ہماری کہکشاں (Milky way) میں لاتعداد ہوسکتے ہیں.

نمبر تین:(Super Massive) یہ بلیک ہول کائنات کی ہر کہکشاں کے مرکز میں ضرور موجود ہوسکتے ہیں اور جو ہماری کہکشاں یعنی(milky way) کے مرکز میں پائے جانے والے بلیک ہول کو( Sagittarius A) کا نام دیا گیا ہے جس کی جسامت تقریباً چالیس لاکھ سورج کے برابر ہیں....

اب بات کرلیتے ہیں قرآن میں موجود بلیک ہول کی موجودگی کی واضح اشاروں کی..

کائنات میں بلیک ہول کے مقام کی جگہ کا تعین ہم اس طرح لگاتے ہیں کہ اسکے مرکز سے ایک روشنی جو دودھ کی دھاڑ کی مانند اندھیرے میں سوراخ کر کے دور تک چلی جاتی ہے. چونکہ خلاء کا رنگ کالا ہے اور بلیک ہول کی یہ روشنی سفید ہے تو اس وجہ سے سائینسدان بلیک ہول کی موجودگی کا پتہ اسکی اس روشنی سے لگالیتے ہیں... اگر ہم قرآن کی سورہ طارق کی ابتداء کی آیات پر غور کریں تو ہمیں بلیک ہول کی موجودگی کے اشارے 1439 سال پہلے ہی مل چکے ہیں، اللہ سورہ طارق کی آیات 1 تا 3 میں فرماتا ہے کہ :

"آسمان اور طارق کی قسم اور تمہیں کیا معلوم طارق کیا ہے، یہ وہ ستارہ ہے جو ثاقب ہے"

عربی زبان میں طارق اور ثاقب کے بہت سے مطلب نکلتے ہیں جیسے راستہ، آر پار شگاف، دودھ کی دھار کی طرح سفید روشنی بھی اس کے معنوں میں شامل ہیں، کہا جارہا ہے کہ بلیک ہول کے مرکز سے نکلنے والی یہ روشنی در حقیقت ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک کا راستہ ہوسکتا ہے جیسا کہ سورہ مؤمنون، آیت 17 میں ارشاد ہے کہ :

"ہم نے تمہارے اوپر سات آسمان بنائے ہیں اور ہم مخلوقات سے غافل نہیں ہیں"

سائنس بھی اب یہ کہتی ہے کہ آسمان یا کائناتے ایک نہیں بلکہ ایک ہی وقت میں متعدد ہیں، اس حقیقت کو اللہ نے کچھ یوں بیان کیا ہے کہ

"کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے اوپر طلے کس طرح سات آسمان پیدا کئیے ہیں"
سورہ نوح، آیت15

اللہ سورۃ الحجر آیت 16 میں مزید فرماتا ہے کہ:
" یقیناً ہم نے آسمان میں برج بنائے ہیں اور دیکھنے والوں کیلے اسے سجا دیا گیا ہے"

برج عربی زبان میں قلعے، قصر اور مستحکم عمارت کو کہتے ہیں. قدیم زمانے میں
" برج" کا لفط ان بارہ منزلوں کے لیے استعمال ہوتا تھا جن پر سورج کے مدار کو تقسیم کیا گیا تھا. اس وجہ سے بعض مفسرین نے یہ سمجھا کہ قرآن کا اشارہ انہی بروج کی طرف ہے. بعض دوسرے مفسرین اس سے مراد سیارے لیتے ہیں...
لیکن بعد کے مضمون پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ عالم بالا کے وہ خطے ہیں جن میں سے ہر خطے کو نہایت مستحکم سرحدوں نے دوسرے خطوں سے الگ کر رکھا ہے لیکن ان سرحد کو پار کر کے کسی چیز کا ایک خطے سے دوسرے خطے میں چلے جانا سخت مشکل ہے..... یعنی ہر خطے میں کوئی نہ کوئی روشن سیارہ یا ستارہ رکھ دیا اور اس طرح سارا عالم جگمگا اٹھا.

#Muhammad #Laraib #Abdullah

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔