Monday 11 December 2017

ملحدین کے گٹر گروپ میں درج ذیل حدیث بیان کر کے اسلام پر اعتراض کیا گیا ہے۔براہ مہربانی اسکی وضاحت اور جواب عنایت فرمائیں۔

ملحدین کے گٹر گروپ میں درج ذیل حدیث بیان کر کے اسلام پر اعتراض کیا گیا ہے۔براہ مہربانی اسکی وضاحت اور جواب عنایت فرمائیں۔

مشہور صحابیہ حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ ایک رات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک برتن میں پیشاب فرمایا۔ مجھے پیاس محسوس ہوئی، میں اٹھی،

'''''فشربت ما فیھا وانا لا اشعر انہ بول لطیب رائحۃ'''''

میں نے اس پیشاب کو پانی سمجھ کر پی لیا وہ اپنی پیاری پیاری مہک کی وجہ سے مجھے پیشاب محسوس تک نہ ہوا۔ (بحوالہ المواہب مع الزرقانی جلد ۱ ص ۲۳۱)

صبح حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مجھے بلا کر حکم دیا کہ فلاں برتن میں پیشاب ہے اسے باہر پھینک دو۔ میں نے عرض کیا یار سول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے میں نے پانی سمجھ کر پی لیا ہے۔

''''فضحک رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم حتی بدت نواجذہ ثم قال واللہ لا یبجعن بطنک ابدا'''''

یہ سن کر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اتنے مسکرائے کہ آپ کی مبارک داڑھیں نظر آنے لگیں اور پھر فرمایا اے ام ایمن! آج کے بعد تیرے پیٹ کو بیماری لاحق نہ ہو گی۔
(بحوالہ اشرف الوسائل الی فہم الشمائل ص ۷۷)
براہ مہربانی  اس کی وضاحت اور جواب دیں

الجواب۔۔۔۔۔۔
عشق کا کیا علمی جواب دیا جا سکتا ہے ؟ کیا لاجک نکالی جا سکتی ہے کہ ایک انسان کو ایک ہستی سے اتنا عشق ہو کہ کچھ بھی کر گزرے؟؟
یہ عمل تو بذات خود جواب ہے ان لوگوں کے سوال کا جو دن رات اس نبی کی ذات میں کیڑے نکالتے رہتے ہیں۔
اور یہ تو اس دور کا واقعہ ہے۔ میں آپ کو اپنی گارنٹی دیتا ہوں کہ اگر مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پیشاب پینا پڑے تو پی جاوں اور کسی دوسرے کے لیے نہ چھوڑوں۔
یہ روایت شبابة بن سوار حدثني أبو مالك النخعي عن الأسود بن قيس عن نبيح العنزي : عن أم أيمن کی سند کے ساتھ المعجم الکبیر للطبرانی 89/25اور حلیۃ الاولیاء 67/2میں موجود ہے۔ اس کی سند میں عبد الملك بن الحسين ابو مالک النخعی ضعیف و متروک راوی ہے۔ (دیکھئے التاریخ الکبیر411/15والضعفاء الصغیر73/1للبخاری ، الجرح والتعدیل 347/5، الکامل لابن عدی 303/5، المجروحین لابن حبان 134/2،الضعفاء للعقیلی 22/3)
لہذا یہ روایت ضعیف ہے۔ اسی طرح کی ایک اور روایت بھی مروی ہے، جس کی سند میں حکیمہ بنت امیمہ راویہ مجہولہ ہے۔ تفصیل کیلئے دیکھئے تلخیص الحبیر 31/1۔
لہذا ایسا کوئی واقعہ پایہ ثبوت تک نہیں پہنچتا۔ واللہ اعلم۔
لہذا پہلی بات تو یہ کہ یہ واقعہ ایک ضعیف راوی کی وجہ سے غیر مستند ہے۔دوسری بات یہ کہ اگر یہ واقعہ مستند ثابت کوبھی جائے تو بھی اعتراض کی کوئ وجہ نہیں بنتی کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خون،پیشاب اور نجاست سب ہوئ تھی اور اس کو عام انسانوں کی نجاست سے تشبیہ دے کر اعتراض کرنا انتہائ غلط ہے۔
جواب منجانب۔۔۔خاور نعیم
محمد عامر حسن



مولانا یوسف لدھیانوی رح نے اس طرح کے سوال کا جواب دیا جو درج ذیل
 ہے:
 قال ابن حجر: وبھذا استدل جمع من ائمتنا المتقدمین وغیرھم علیٰ طھارة فضلاتہ صلی الله علیہ وسلم، وھو المختار، وفاقاً لجمع من المتأخرین فقد تکاثرت الادلة علیہ وعدہ الائمة من خصائصہ صلی الله علیہ وسلم۔

ترجمہ:…”ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: ہمارے ائمہ متقدمین کی ایک جماعت اور دیگر حضرات نے احادیث سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فضلات کی طہارت پر استدلال کیا ہے، متأخرین کی جماعت کی موافقت میں بھی یہی مختار ہے، کیونکہ اس پر دلائل بہ کثرت ہیں اور ائمہ نے اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں شمار کیا ہے۔

امام العصر مولانا محمد انور شاہ کشمیری نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں:

ثم مسألة طہارة فضلات الانبیاء توجد فی کتب المذاھب الاربعة۔” (فیض الباری ج:۱ ص:۲۵۰)

ترجمہ:…”فضلاتِ انبیاء کی طہارت کا مسئلہ مذاہبِ اربعہ کی کتابوں میں موجود ہے۔

محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوری نور اللہ مرقدہ لکھتے ہیں:

وقد صرح اھل المذاھب الاربعة بطہارة فضلات الانبیاء ․․․․ الخ۔” (معارف السنن ج:۱ ص:۹۸)

ترجمہ:…”مذاہبِ اربعہ کے حضرات نے فضلاتِ انبیاء کے پاک ہونے کی تصریح کی ہے۔

الحمدللہ! ان دونوں نکتوں کی وضاحت تو بقدرِ ضرورت ہوچکی، یہ واقعہ مستند ہے اور مذاہبِ اربعہ کے ائمہ فقہاء نے ان احادیث کو تسلیم کرتے ہوئے فضلاتِ انبیاء علیہم السلام کی طہارت کا قول نقل کیا ہے۔ اس کے بعد بھی اگر اعتراض کیا جائے تو اس کو ضعفِ ایمان ہی کہا جاسکتا ہے!

اب ایک نکتہ محض تبرعاً لکھتا ہوں، جس سے یہ مسئلہ قریب الفہم ہوجائے گا۔ حق تعالیٰ شانہ کے اپنی مخلوق میں عجائبات ہیں، جن کا ادراک بھی ہم لوگوں کے لئے مشکل ہے، اس نے اپنی قدرتِ کاملہ اور حکمتِ بالغہ سے بعض اجسام میں ایسی محیرالعقول خصوصیات رکھی ہیں جو دوسرے اجسام میں نہیں پائی جاتیں۔ وہ ایک کیڑے کے لعاب سے ریشم پیدا کرتا ہے، شہد کی مکھی کے فضلات سے شہد جیسی نعمت ایجاد کرتا ہے، اور پہاڑی بکرے کے خون کو نافہ میں جمع کرکے مشک بنادیتا ہے۔ اگر اس نے اپنی قدرت سے حضراتِ انبیاء کرام علیہم السلام کے اجسامِ مقدسہ میں بھی ایسی خصوصیات رکھی ہوں کہ غذا ان کے ابدانِ طیبہ میں تحلیل ہونے کے بعد بھی نجس نہ ہو، بلکہ اس سے جو فضلات ان کے ابدان میں پیدا ہوں وہ پاک ہوں تو کچھ جائے تعجب نہیں۔ اہل جنت کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ کھانے پینے کے بعد ان کو بول و براز کی ضرورت نہ ہوگی، خوشبودار ڈکار سے سب کا کھایا پیا ہضم ہوجائے گا، اور بدن کے فضلات خوشبودار پسینے میں تحلیل ہوجائیں گے۔ جو خصوصیت کہ اہل جنت کے اجسام کو وہاں حاصل ہوگی، اگر حق تعالیٰ شانہ حضراتِ انبیاء علیہم الصلوٰة والتسلیمات کے پاک اجسام کو وہ خاصیت دنیا ہی میں عطا کردیں تو بجا ہے، پھر جبکہ احادیث میں اس کے دلائل بہ کثرت موجود ہیں، جیسا کہ اوپر حافظ ابن حجر کے کلام میں گزر چکا ہے، تو انبیاء علیہم السلام کے اجسام کو اپنے اوپر قیاس کرکے ان کا انکار کردینا، یا ان کے تسلیم کرنے میں تأمل کرنا صحیح نہیں، مولانا رومی فرماتے ہیں:

ایں خورد گردد پلیدی زو جدا

واں خورد گردد ہمہ نور خدا

آخر میں حضراتِ علمائے کرام اور خطبائے عظام سے بھی گزارش کرتا ہوں کہ عوام کے سامنے ایسے امور نہ بیان کریں جو ان کے فہم سے بالاتر ہوں، ولله الحمد أولًا واٰخرًا!
محمد ندیم
 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔