Sunday, 6 August 2017

انسان کے آسمان سے زمین پر بھیجے جانے کے نظریے کے سائنسی دلائل پر اعتراضات اور ان کے جوابات


اعتراض نمبر ایک۔۔۔۔پہلا اعتراض یہ ہے کہ اگر انسان زمیں کی بجائے کسی اور سیارے یا کہیں اور پیدا ہوا اس کا ارتقا نہیں ہواتو انسان اور چمپنزی کے ڈی این اے میں 99% مشابہت کیوں ہے؟
اعتراض نمبر 2۔۔۔۔ڈاکٹر صاحب یعنی میں نے اعتراف کیا تھا کہ انسان اور چمپینزی کے ڈی این اے میں ننانوے فیصد مشابہت ہے؟
اعتراض نمبر تین۔۔۔۔پاکستان میں سائنسی نظریات نہیں بلکہ سازشی تھیوریز بہت ہیں
اعتراض نمبر چار۔۔۔۔جانداروں کا فوسل ٹری مکمل ہے اور جینیٹکس کے مطابق ارتقا ثابت کیا جا سکتا ہے
اعتراض نمبر پانچ۔۔۔۔زندگی کے کسی دوسری جگہ یا کائنات میں ہر جگہ موجود ہونے یا پیدا ہونے کا نظریہ یعنی Panspermia محض ایک مفروضہ ہے جس کی کوئ سائنسی بنیاد نہیں
اعتراض نمبر چھ۔۔۔اگر زندگی آسمان سے زمین پر بھی لائ گئ تو وہاں بھی اس کا ارتقا ہوا ہو گا
جوابات۔۔۔۔
اس کا جواب یہ ہے کہ انسان اور چمپینزی کے ڈی این اے میں ننانوے فیصد مشابہت کا دعوی جھوٹ ہے۔کئ سائنسدانوں کے مطابق انسان اور چمپینزی کے ڈی این اے میں محض ستر سے اسی فیصد مشابہت ہے اور اس مشابہت کو بھی ارتقا کے ثبوت کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا۔اگر یہ مشابہت ارتقاء کا ثبوت ہے تو سب جانداروں کی ایک ہی خالق کی طرف سے پیدائش کا ثبوت کیوں نہیں۔پھر اس مشابہت کو کیسے محض ارتقا کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔جب یہ مشابہت ہے ہی اس وجہ سے کہ ان سب کا خالق ایک ہے تو پھر وہ جاندار خواہ زمین پر پیدا کیا جائے خواہ آسمان پر،اس سے کس طرح اس کے آسمان پر پیدا ہونے اور زمین پر اتارے جانے کا نظریہ غلط ثابت ہوتا ہے۔
اعتراض نمبر دو کا جواب۔۔۔
یہ مجھ پر بہتان ہے۔میں نے چمپینزی اور انسان کے ڈی این اے میں ننانوے فیصد مشابہت نہیں بلکہ ستر سے اسی فیصد مشابہت کہی تھی۔لیکن ملحدین نے اس کو بڑھا چڑھا کر ننانوے کر دیا۔اور آگے میں نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ مشابہت ارتقاء کی وجہ سے نہیں بلکہ سب جانداروں کے ایک ہی خالق کی طرف سے پیدا کرنے کی وجہ سے ہے اور یہ اس بات کی نشانی ہے کہ ان سب کا خالق ایک ہے۔
اعتراض نمبر تین کا جواب۔۔۔
جاہل ملحدین جب ارتقا کا نظریہ ثابت کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں تو ارتقاء کے مخالف نظریات کو بجائے دلیل سے جواب دینے کے سازشی تھیوری اور سوڈو سائنس قرار دیتے ہیں۔ان میں جرات نہیں ہوتی کہ دلیل سے ارتقاء کو ثابت کر کے دکھائیں۔کسی جدید سائنسی تحقیقات کو سازشی تھیوری کہنا سائنسی جہالت ہے اور کچھ نہیں۔یہ ایک پروپیگنڈہ ہے جس سے ملحد اپنے ارتقاء کو جھوٹا ثابت ہونے سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اعتراض نمبر چار کا جواب۔۔۔فوسل ریکارڈ ارتقاء کو سچ ثابت نہیں کرتا۔کئ ملین سال پرانے فوسل ملے ہیں جن میں جاندار اسی حالت میں ہیں جس حالت میں آج ہیں اور یہ بات نظریہ ارتقاء کی تردید کرتی ہے۔جینیٹکس کسی طرح ارتقاء کو ثابت نہیں کرتی۔حقیقت یہ ہے کہ ملحدین سے ارتقا کے نظریے پر پانچ دن بحث ہوئ اور ملحد فوسل ریکارڈ اور جینیٹکس دونوں سے نظریہ ارتقاء ثابت کرنے میں ناکام رہے۔الحمد للٰہ۔
جینیٹکس کے مطابق نظریہ ارتقاء کیسے غلط ہے۔اس پر ایک تفصیلی مضمون پیش کروں گا۔انگلش میں لکھ چکا ہوں۔اس کا اردو ترجمہ پیش کروں گا ان شاء اللہ
اعتراض نمبر پانچ کا جواب۔۔۔یہ مفروضہ اب مفروضہ نہیں رہا۔ڈاکٹر ایلس سلور پی ایچ ڈی ماحولیات اور نمایاں سائنس دان ہیں۔ان کی اپنی تحقیق اس نظریے پر سائنسی وضاحت بیان کر رہی ہے۔مزید دمدار ستاروں اور سیارچوں پر ملنے والے الجی اور دیگر چھوٹے فوسل اس نظریے کو تقویت دے رہے ہیں۔بیشک یہ نظریہ ابھی مزید تحقیق کے مراحل میں ہے لیکن اب تک کی تحقیقات اس نظریے کی تائید کر رہی ہیں۔اور اس کو محض ایک مفروضہ کہ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔حقیقت یہ ہے کہ یہ نظریہ ارتقاء کے مقابلے میں زندگی کی ابتدا کے مقابل ایک دوسرے نظریے کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔
اعتراض نمبر چھ کا جواب۔۔۔ملحد بد حواسی کا شکار ہوچکے ہیں۔کبھی تو زندگی کے زمین کے علاوہ کسی دوسرے سیارے پر پیدا ہونے کا انکار کرتے ہیں اور کبھی یہ کہتے ہیں کہ اگر زندگی کہیں اور شروع بھی ہوئ تو وہاں بھی اس کا ارتقا ہوا۔آج تک ملحد زمیں پر نظریہ ارتقاء ثابت نہیں کر سکے۔آسمان سے کیا ڈارون فوسل لے آئے گا جو وہاں بھی نظریہ ارتقاء ثابت ہوجائے گا۔یہ محض ایک ارتقائ دعوی ہے جو اپنے نظریہ ارتقاء کو اپنے مقابل ایک دوسرے نظریے پر مسلط کرنے کی کوشش ہے جب کہ ملحدین کے پاس آسمان پر زندگی کے ارتقا کے ذریعے وجود میں آنے کا کوئ ثبوت نہیں۔آسمان سے زمین پر زندگی بھیجے جانے کا نظریہ ملحدین کی بات ثابت نہیں کرتا بلکہ ہمارا دعوی ثابت کرتا ہے کہ آدم علیہ السلام کو پیدا کرکے آسمان سے زمین پر اتارا گیا۔لیکن یہ اعزاز بھی ملحدین نے زبردستی خود لینے کی کوشش کی ہے اسے ارتقا قرار دے کر اور اس کا ان کے پاس کوئ ثبوت نہیں۔

انسان کے آسمان سے زمین پر بھیجے جانے کا نظریہ اور اس کی سائنسی وضاحت 
(نظریہ ارتقاء کو ایک اور سائنسی جھٹکا)
شروع ہی سے کئ سائنسدانوں کو نظریہ ارتقاء کی صحت اور اسکی سچائ پر شک تھا۔یہی وجہ ہے کہ نظریہ ارتقاء کے پیش کیے جانے سے اب تک کئ سائنسدانوں نے اس نطریے کو ماننے سے انکار کیا۔ان کا کہنا تھا اور ہے کہ زمین پر انسان اور زندگی ارتقا پذیر نہیں ہوئ بلکہ اپنی خاص حالت میں تخلیق کی گئ۔حال ہی میں انسان کے بن مانس جیسے کسی جاندار سے ارتقا کے نظریے پر سائنسدانوں نے مزید سوال اٹھائے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ انسان زمین پر ارتقاء پذیر نہیں ہوا بلکہ کسی اور سیارے یا خلا سے زمین پر بھیجا گیا جیسا کہ مذہب کا تصور ہے کہ اللٰہ تعالٰی نے آدم و حوا علیہ السلام کو جنت سے زمین پر بھیجا۔
ایک امریکی ماہر ماحولیات کا کہنا ہے کہ انسان کی کمر کے نقائص،سورج کی روشنی سے جلد پر پڑنے والے زخم یا Sun burns ظاہر کرتے ہیں کہ انسان زمین پر ارتقاء پذیر نہیں ہوا۔اس امریکی ماہر ماحولیات کا نام ڈاکٹر ایلس سلور۔۔۔۔Dr Ellis Silver....ہے۔ان کا کہنا ہے کہ کسی خلائ مخلوق نے آج سے اندازہ ایک لاکھ سال پہلے انسان کو آسمان سے زمین پر اتارا۔۔۔جیسا کہ مذہب کا تصور ہے۔واضح رہے کہ ڈاکٹر ایلس سلور خود ارتقا کے حامی ہیں لیکن وہ انسان کے بارے میں خود کہ رہے ہیں کہ انسان زمین پر ارتقاء پذیر نہیں ہوا۔
ان کا کہنا ہے کہ کائنات میں زمین کی حیثیت ایک قیدی سیارے کی ہے۔چونکہ انسان ایک تندخو مخلوق ہے لہذا اسے اس کی اصلاح کے لیے یہاں رکھا گیا ہے۔
اس پر ایلس سلور نے ایک پوری کتاب لکھی ہے جس کا نام Humans are not from earth ہے۔اس کتاب کو ایمیزون نے شائع کیا ہے۔ڈاکٹر ایلس سلور ماہر ماحولیات ہیں اور پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حامل ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ انسان کی کمر کی کمزوری اور کمر کے نقائص ظاہر کرتے ہیں کہ انسان کسی کم کشش ثقل یا گریویٹی والی جگہ پر پیدا ہوا لیکن زمین پر ارتقاء پذیر نہیں ہوا۔ان کا کہنا تھا کہ سورج کی روشنی سے جلد پر پڑنے والے زخم اور بچے کی پیدائش میں ہونے والی تکلیف ،پرانی بیماریاں،قدرتی خوراک کی ناپسندیدگی اس بات کے مزید دلائل ہیں۔اس بارے میں ان کی کتاب کا پورا نام HUMANS ARE NOT FROM EARTH: A SCIENTIFIC EVALUATION OF THE EVIDENCE ہے۔وہ کہتے ہیں کہ انسانی جسم میں پائے جانے والے یہ نقائص انسان کے زمینی مخلوق ہونے پر سوال اٹھاتے ہیں۔
مزید ان کا کہنا ہے کہ انسان نشوونما کے اعتبار سے زمین کی اعلٰی ترین مخلوق ہے لیکن یہ مکمل طور پر زمین کے ماحول سے مطابقت نہیں رکھتا۔ان کا کہنا ہے کہ یہ عجیب بات ہے کہ انسان کے بچے کا پیدائش کے وقت سر بڑا ہوتا ہے جس سے پیدائش کا عمل مشکل ہوجاتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ یہ وہ خاصیت ہے جو زمین پر اور جانوروں میں نہیں پائی جاتی۔
ان کا کہنا ہے کہ انسان کو زمین کے ماحول کے مطابق بنایا ہی نہیں گیا جیسا کہ دوسرے جانور ہیں۔وہ دوسرے جانوروں جیسا کہ سوسمار یا لیزرڈ کے برعکس ایک سے دو دن سے زیادہ دھوپ برداشت نہیں کر سکتا۔
مزید ان کا کہنا ہے کہ انسان اکثر بیمار رہتا ہے کیونکہ اس کی جسمانی ساخت صرف پچیس گھنٹے کے حیاتیاتی دورانیے۔۔۔بیالوجیکل کلاک۔۔۔کے مطابق بنی ہے جیسا کہ نیند پر تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کا کہنا ہے۔
دوسرے سائنسدانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ انسان کا وراثتی مادہ یا ڈی این اے زمین سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ یہ کسی اور سیارے یا خلا سے آیا ہے جیسا کہ مذہب کا تصور ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ انسان کسی کہکشاں پر پیدا ہوا اور آج سے چار ارب سال پہلے کسی دمدار ستارے کے ذریعے زمین پر اتارا گیا۔جیسا کہ مذہب کا تصور ہے کہ آدم و حوا کو جنت سے زمین پر اتارا گیا۔
سائنسی نظریہ جس کے مطابق انسانی وراثتی مادہ یا ڈی این اے خلا یا کسی اور سیارے سے تعلق رکھتا ہے،پین سپرمیا۔۔۔۔Panspermia.....کہلاتا ہے۔یہ نظریہ 1871ء میں پیش کیا گیا اور جدید تحقیقات نے اس کو مزید پختگی دی ہے۔
ڈیلی میل کی رپوٹ کے مطابق ابھی تک اس کی براہ راست کوئ گواہی نہیں پای گئ لیکن یہ نظریہ اب حقیقی سائنس سے اتنا دور نہیں رہا جتنا پہلے تھا۔
یونیورسٹی آف واشنگٹن کے پیٹر وارڈ۔۔۔۔Peter Ward....کے مطابق ہو سکتا ہے کہ انسان زمین پر ارتقاء پذیر ہونے کی بجائے مریخ پر پیدا ہوا۔
کافی سارے سائنسدانوں نے آج سے 8•3بلین سال پہلے زندگی کے زمین پر اچانک شروع ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔کچھ سائنسدانوں کا یہاں تک کہنا ہے کہ پوری ملکی وے کہکشاں پر زندگی موجود ہو سکتی ہے۔
یونیورسٹی آف بوکنگھم کے حیاتیاتی فلکیات دان۔۔۔آسٹرو بیالوجسٹ۔۔چندرا وکراما سنگھ۔۔۔Chandra Wikramasinghe کے مطابق زمین لمبا عرصہ دوسرے سیاروں سے نامیاتی و حیاتیاتی مادے کا تبادلہ کرتی رہی ہے۔جیسا کہ مذہب کا تصور ہے کہ آدم کی تخلیق کے لیے زمین سے مٹی لی گئی۔اس نے کئ ایسے سائنسی آرٹیکل پبلش کیے ہیں جس کے مطابق دمدار ستاروں میں خلائ جانداروں کے فوسل اور الجی کی طرح کے جاندار پائے گئے ہیں جو کہ خلا سے زمین پر ان کے ذریعے لائے گئے۔پروفیسر وکرام سنگھ کا کہنا ہے کہ پہلے یہ ایک نظریہ تھا بس لیکن اب ہمارے پاس اس کی سائنسی دلیل موجود ہے۔اس کا کہنا ہے کہ آہستہ آہستہ یہ بات ایک حقیقت بنتی جا رہی ہے۔
ناسا اور یورپین سپیس ایجنسی اس بات پر تحقیق کا اردہ رکھتے ہیں کہ کس طرح زندگی خلا یا کسی اور سیارے سے زمین پر لائ گئی۔
آج کل کئ سائنسدان اس بات پر تحقیق میں مصروف ہیں کہ انسان زمین پر ارتقاء پذیر نہیں ہوا۔ان کا کہنا ہے کہ پیدائش کے وقت انسان کا بچہ ماحول اور زمین سے بالکل مطابقت نہیں رکھتا۔ان کا کہنا ہے کہ اس۔ حوالے سے انسان بن مانس اور گوریلا سے بھی بہت مختلف ہے جن کے بچے آٹھ سے دس سال کی عمر میں مکمل جوان ہوجاتے ہیں۔مزید ان کا کہنا ہے کہ اگر زمین کی کشش ثقل یا گریویٹی موجودہ حالت سے 6•0 جتنی ہوتی تو کرے اور بلی کی طرح انسان کو بھی گرنے سے چوٹ نہ لگتی۔لیکن ایک انسان کا بچہ جو نیا نیا پیدا ہوتا ہے وہ اس کشش ثقل کی وجہ سے روتا چیختا چلاتا ہے جو اس کے جسم میں درد کا احساس پیدا کرتی ہے۔
1972ء میں غاروں کے علوم کے ماہر ۔۔۔۔Peleologist..ایک فرانسیسی مائیکل سیفر۔۔۔Ciffre...نے زمین کے نیچے چھ ماہ گزارے اور اپنے آپ کو دنیا سے بالکل قطع تعلق کر لیا۔اس دوران اس نے اپنے تجربات کا سارا ریکارڈ رکھا۔اسے غار میں اپنے قیام کا 179 واں دن 151 دن لگا۔جس کا مطلب تھا کہ اس نے پورا ایک شمسی نہیں کھو دیا۔اس پر یہ گمان کیا گیا کہ اس کا حیاتیاتی دورانیہ یا بیالوجیکل کلاک زمین کے دن رات کی بجائے کسی اور سیارے سے مطابقت رکھتا تھا۔
انسان واحد زمینی جاندار ہے جس کو سورج کی شعاعوں سے حفاظت نہیں دی گئی۔نہ ہی اس مقصد کے لیے اس کے جسم میں پای جانے والی چکنائ یا فیٹ کی تہہ موٹی ہے۔
1984ء میں سائنسدانوں نے انسانی ڈی این اے پر تحقیق سے دریافت کیا کہ دنیا کے سب انسانوں کی ایک مشترک ماں ہے جو آج سے تین لاکھ پچاس ہزار سال پہلے زندہ تھی لیکن زمین پر انسانی آثار ایک لاکھ سال پرانے ہیں۔اس پر سائنسدان یہی نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ باقی دو لاکھ پچاس ہزار سال انسان کسی اور سیارے پر مقیم گیا جیسا کہ مذہب کا تصور ہے کہ آدم و حوا علیہ السلام جنت میں رہے۔
ان کا کہنا ہے کہ باقی دو لاکھ پچاس ہزار سال انسان جس سیارے پر رہا اس کی گریویٹی یا کشش ثقل زمین کی کشش کا نصف ہے اور اس کی محوری گردش کا دورانیہ تیس گھنٹے ہے۔اس سیارے کا محوری جھکاؤ زیرو تھا اس لیے اس سیارے پر موسم ہمیشہ ایک رہتا۔ وہاں کوئ برفانی یا گلیشیل دور نہیں آیا۔اس کا موسم معتدل تھا۔یہی وجہ ہے کہ انسان اسی سیارے کی خاصیت رکھتے ہیں اور زمین پر ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کو برداشت نہیں کر سکتے۔
دنیا کے کچھ دیگر نامور سائنسدانوں کا بھی یہی کہنا ہے کہ زمین پر زندگی کی ابتدا کے لیے شروع میں دو عناصر نہیں تھے جو زندگی کے لیے لازمی ہیں۔یہ بات ویستھیمر انسٹٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنولوجی فلوریڈا امریکا کے نامور سائنسدان سٹیون بینر نے کی۔ان کا کہنا ہے کہ آر این اے کو زندگی کی تخلیق کی زمین پر ابتدا کا نظریہ نہیں مانا جا سکتا کیونکہ یہ پانی میں تحلیل ہوجاتا ہے۔اس طرح وہ خود زمین کے شروع میں گرم پانی و بالائے بنفشی شعاعوں سے زمین پر زندگی کے آغاز کے نظریے کی تردید کر رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ آر این اے کی تخلیق کے لیے ایک عنصر بورون لازمی ہے اور یہ زمین پر شروع میں نہیں تھا جب کہ مریخ پر موجود تھا۔یہ بعد میں شہابیوں کے ذریعے زمین پر اترا۔بینر کا کہنا ہے کہ پری بائیوٹک گرم شوربے میں زندگی کے آغاز کا نظریہ زندگی کی ابتدا کی وضاحت نہیں کرتا۔ان کا کہنا ہے کہ جب حیاتیاتی عناصر گرمی یا شعاعوں سے متاثر ہوتے ہیں تو یہ آر این اے بنانے کی بجائے ٹار میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اب سائنسدانوں نے زمین پر زندگی کی ابتدا کے نظریے پر سوالات اٹھانا شروع کر دیے ہیں اور ہر گزرتے وقت کے ساتھ نظریہ ارتقاء کم سے کم قابل اعتماد ہوتا جارہا ہے۔بینر کا کہنا ہے کہ زمین پر زندگی مریخ سے آئ۔اب ارتقا کو زمین کی بجائے مریخ پر ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن اب تک کی ساری تحقییق یہ بات ظاہر کر رہی ہے کہ زندگی زمین پر خود بخود پیدا ہونے کی۔ جائے زندگی کے لیے موزوں خلا میں کسی اور مقام پر پیدا ہوئ اور بعد میں اسے زمین پر اتارا گیا جیسا کہ مذہب کا تصور ہے۔
یونیورسٹی آف شیفیلڈ کے پروفیسر وینرائیٹ کا کہنا ہے کہ زمین پر پیدا نہ ہونے والی زندگی مسلسل خلا سے زمین پر اتر رہی ہے۔
اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ جدید سائنسی تحقیقات کے ساتھ ساتھ نظریہ ارتقاء کم سے کم قابل اعتماد ہوتا جارہا ہے اور اب سائنسدان زندگی کی ابتدا کو زمین کی بجائے خلا یا کسی اور سیارے سے واضح کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ایلس سلور کے نظریے پر اعتراضات ھو سکتے ہیں لیکن یہ بحث ظاہر کر رہی ہے کہ سائنس دان ارتقا کی بجائے زندگی کے دوسرے نظریات پر غور کرنے لگے ہیں۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔