Sunday 6 August 2017

حضرت آدم علیہ السلام کے مٹی سے پیدا کیے جانے کی سائنسی وضاحت


مذاہب کا انسان کے مٹی سے پیدا ہونے کے نظریے کاسیکولر طبقے اور ملحدین کی طرف سے بہت مذاق اڑایا جاتا تھا یہاں تک کہ 1982ء میں ناسا کے ایمز ریسرچ سنٹر۔۔۔NASA Ames Research center....نے دریافت کیا کہ جسم میں پایا جانے والا ہر کیمیاوی عنصر یا ایلیمنٹ زمین میں موجود (Reader's Digest 1982) مذہب پر یقین نہ رکھنے والے سائنس دان اور یقین رکھنے والے سائنسدان سب اس بات پر یقین کرتے ہیں کہ انسان مٹی سے پیدا کیا گیا۔بگ بینگ نظریے کے مطابق زمین کی پیدائش ستاروں کی مٹی یا Star Dust سے ہوئ جس سے بعد میں انسان کو پیدا کیا گیا۔ قرآن پاک میں اللٰہ تعالٰی نے جس مٹی کے ذریعے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اسے مختلف ناموں سے پکارا ہے۔آدم علیہ السلام کی مٹی سے پیدائش کے مختلف مرحلے پر مٹی کو ہر نام دیا گیا ہے۔اللٰہ تعالٰی نے اس کو چکنی مٹی کا نام بھی دیا ہے۔جب یہ پانی سے ملتی ہے تو کیچڑ اور گارے میں تبدیل ہو جاتی ہے اور اگر اسے ہوا میں رکھ دیا جائے تو اس میں موجود پانی کی مقدار کم ہوجاتی ہے،اس کا رنگ گہرا ہوجاتا ہے اوریہ سیاہی مائل ہموار شکل اختیار کر لیتی ہے۔یہی وہ مٹی ہے جس سے اللٰہ تعالٰی نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا۔ان کا بے روح مجسمہ پڑا رہا اور خشک ہو کر کھنکتی مٹی میں تبدیل ہوگیا۔
درحقیقت قرآن میں آدم علیہ السلام کی پیدائش کے مختلف مقامات پر بیان کردہ ان سب مراحل کی سائنسی وضاحت کی جاسکتی ہے جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ محض کوئ فرسودہ مذہبی نظریہ دیومالائ کہانی نہیں بلکہ منطق اور سائنس دونوں حوالوں سے ممکن ہے۔
جدید سائنسی تحقیقات کے مطابق زمین پر موجود تمام زندگی کا آغاز مٹی سے ہوا جیسا کہ بائیبل،قرآن اور قدیم ،چینی میاسٹو لوگوں۔۔۔Miausto People Of China... و یونانی حکایات کا ہزاروں سال پرانا تصور ہے۔یاد رہے کہ یہ یونانی حکایات بذات خود بابل سے لی گئی یعنی عراق کی سرزمین میں جہاں نوح علیہ السلام اور ابراہیم علیہ السلام جیسے انبیاء اس تصور کی تعلیم دے چکے تھے اور چینی حکایات نوح علیہ السلام کے بیٹے یافث بن نوح سے اخذ کی گئی جن کو وہ اپنا جد امجد قرار دیتے ہیں۔ان سب تعلیمات میں ایک ایسے انسان کا ذکر ہے جسے اللٰہ تعالٰی مٹی سے پیدا کر کے اس میں اپنی روح پھونکتا ہے۔
سائنس کے مطابق مٹی زمین میں موجود معدنیات یا منرلز کا مجموعہ ہے۔یہ چھوٹے مالیکیول اور کیمیائی مادوں کے لیے ایک چوس لینے والی سپونج کا کام کرتی ہے۔خود سائنسدان اس تصور کی تردید کرتے ہیں جیسا کہ یہ بات سائنس دانوں نے جرنل سائینٹفک رپورٹس کو بتائی۔دونوں تصورات میں فرق یہ ہے کہ خدا کی ذات پہ یقین نہ رکھنے والے لوگ اسے ارتقاء کا نتیجہ قرار دیتے ہیں جب کہ اللٰہ تعالٰی کی ذات پہ ایمان رکھنے والے اسے اللٰہ تعالٰی کی تخلیق قرار دیتے ہیں جس میں اس نے ہر چیز خالص اصل حالت میں اپنے حکم سے پیدا کی۔اور ارتقا کا نظریہ کئ خامیوں کی وجہ سے نہیں مانا جاسکتا۔
کارنل یونیورسٹی۔۔۔Cornell University....نیویارک،امریکہ کے نینو سکیل سائنس کے شعبے کے حیاتیاتی انجنیئر۔۔۔Biological Engineers....یقین رکھتے ہیں کہ مٹی زمین پر زندگی کی جنم گاہ تھی۔
سائنسی تحقیقات کے مطابق سمندر کے پانی میں مٹی ایک ہائیڈروجل یا گیلی مٹی کی ایک جیلی بناتی ہے جس میں چھوٹے چھوٹے خلا۔۔۔۔Tiny Spaces...ہوتی ہیں۔یہ اپنے اردگرد سے چھوٹے چھوٹے کیمیاوی مادوں کو جذب کر لیتی ہیں۔جن سے اللٰہ تعالٰی نے انسان و مخلوقات کی تخلیق فرمائ۔
کارنل کے پروفیسر ڈان لو۔۔ Dan Lou....نے کہا کہ زمین کی ابتدائی تاریخ میں اس ہائیڈروجل یا گیلی مٹی کی جیلی نے حیاتیاتی یا بائیو مالیکیولز اور حیاتیاتی کیمیاوی یا بائیو کیمیکل تعاملات کے لیے ان کو اکٹھا کرنے اور مجتمع کرنے کا عمل قرار دیا۔سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ مٹی پروٹین کی تیاری کی شرح بڑھا دیتی ہے۔یہی وہ مٹی تھی جس سے اللٰہ تعالٰی نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور انسان کا جسم گیارہ فیصد سے زیادہ تک لحمیات یا پروٹین پر مشتمل ہوتا ہے۔
درحقیقت انسانی جسم کی کیمیاوی ساخت اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ انسان مٹی سے پیدا ہوا۔انسانی جسم 54۔70 فیصد پانی،11_17% پروٹین یالحمیات،14_26% چکنائ یا Fat اور باقی دیگر مادوں اور غیر نامیاتی مرکبات۔۔۔۔Inorganic Compounds....پر مشتمل ہوتا ہے۔انسانی جسم کے بنیادی مادوں کی کیمیائی ساخت کے تجزئے سے پتہ چلتا ہے کہ انسانی جسم اندازاً 65% آکسیجن،18% کاربن،10% ہائیڈروجن،3% نائٹروجن،7%فاسفورس اور 4•1،% کیلشیم پر مشتمل ہے۔اس کے علاوہ کم مقدار میں آئیوڈین،فلورین،برومین، آئرن یا فولاد،تانبا یا کاپر،میگنیشیم،جست یا زنک،کرومیم،کوبالٹ،نکل،مولیبیڈینم،ٹن یا قلعی،وینیڈیم،سلیکان اور ایلومینیم پر مشتمل ہے۔یہ سب کے سب اجزا مٹی میں موجود ہیں جس مٹی سے انسان کی تخلیق کی گئی۔یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ انسان مٹی سے ہی پیدا ہوا۔
انسانی جسم کے اجزاء گیلی مٹی سے مطابقت رکھتے ہیں۔عمومی طور پر مٹی کئ معدیناتی عناصر پر مشتمل ہے جن کی ساخت کا انحصار پانی زدہ ایلومینیم سلیکا۔۔۔Hydrated Aluminium Silica...پر ہے۔ان کا فرق ان میں موجود پانی کی مقدار یا ایلومینیم اور سلیکان کی مقدار یا ان میں دوسرے عناصر جیسا کہ میگنیشیم ،پوٹاشیم کے مل جانے کی وجہ سے ہوتا ہے۔اس کے علاوہ مٹی کے معدنیات یا منرلز ریت کے زروں یعنی کوارٹز،ایلومینیم اور دوسری دھاتوں کے سلیکیٹ یا Feldsparابرق یا Micaفولاد کے تکسیدی مرکبات یا آئرن آکسائیڈ،آتش فشانی راکھ،سمندری لیٹی چونے یا لائم،نمک کے ذرات اور عمل احتراق یا جلنے سے بننے والے مرکبات سے ملے ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ یہ پولن یا پودوں کے پھولوں کے زردانوں،جراثیم یا بیکٹیریا،کائناتی مٹی اور دوسری زندہ اشیاء کے تحلیل شدہ نامیاتی مرکبات سے ملے ہوتے ہیں۔اس طرح اس سب اشتراک سے مٹی کی ساخت انسانی جسم کی کیمیاوی ساخت کے مشابہ ہو جاتی ہے۔اگر مٹی میں پانی کی مقدار بڑھ جائے تو یہ گارے یا کیچڑ میں تبدیل ہو جاتی ہے۔سائنس کے مطابق وہ مادہ جس سے انسان تخلیق ہوا ان مادوں اور مرکبات پر مشتمل تھا جو پانی میں حل اور مٹی کی دھاتوں کے ذرات اوراس مٹی کے سوراخوں میں موجود تھے۔آکسیجن مٹی اور انسانی جسم دونوں میں سب سے زیادہ مقدار میں موجود ہے۔آکسیجن،نائٹروجن اور ہائیڈروجن ہمارے جسم کا 96% بناتے ہیں۔باقی چار فیصد دوسرے عناصر سے بنتا ہے جن کا تذکرہ اوپر گزرا۔ان عناصر کی ترتیب مکمل طور پر انسانی جسم سے مطابقت نہیں رکھتی جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یہ محض اتفاق یا ارتقا نہیں تھا بلکہ خالق نے اس مٹی سے پیدا کیا لیکن اس کی مقدار جسم میں مقرر کردی۔
دوسری بات یہ کہ انسان خوراک کے لیے پودوں پر انصار کرتا ہے جو کہ اس کا مٹی سے تعلق واضح کرتی ہے جس میں مٹی سے پیدا شدہ ایک تخلیق اپنی جسمانی تعمیر کے لیے لازمی اجزا دوبارہ مٹی سے حاصل کرتی ہے۔
اللٰہ تعالٰی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا کہ وہ تمام عناصر جن سے انسان تخلیق کیا گیا اس کے عمود فقرات یا ریڑھ کی ہڈی۔۔۔Vertebral column....کے آخر میں ایک ہڈی یعنی Coccyx میں جمع ہوتے ہیں۔جو کہ موت کے بعد بھی تحلیل نہیں ہوتی اور سائنس اس کی تصدیق کر چکی ہے(Hans Spemann ،1935)۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا کہ قیامت کے دن اللٰہ تعالٰی آسمان سے پانی برسائے گا اور لوگ اسی ہڈی سے دوبارہ ایسے اٹھیں گے جیسے پودہ بیج سے اگتا ہے۔موت کے بعد انسانی جسم جراثیم یا بیکٹیریا،وائرس،پھپھوندی یا فنجائ اور اللہ کے زیر اثر تحلیل۔۔۔۔Decompose...ہونا شروع ہو جاتا ہے،اس میں موجود پانی ختم ہوجاتا ہے اور یہ سخت پتھر کی طرح ہوجاتا ہے،پھر یہ سیاہی مائل مٹی کی طرح ہوجاتا ہے اور اسی مٹی میں مل جاتا ہے جس سے پیدا کیا گیا۔اس طرح قدرت فنا میں وہی مراحل دہراتی ہے جن مراحل سے پیدا کیا گیا تھا اور اس طرح یہ فنا اور پیدا کا توازن برقرار رکھتی ہے جس پر پوری کائنات کی بنیاد رکھی گئ ہے۔اس طرح سائنسی و مذہبی نظریے دونوں مٹی سے پیدائش اور اس میں تحلیل ہوجانے پر یقین رکھتے ہیں۔
یہاں ایک سوال اٹھتا ہے کہ انسان مٹی سے پیدا ہوا تو ہو سکتا ہے وہ بغیر کسی خدائ مداخلت کے ارتقاء پذیر ہوا ہو۔یہ سوال غلط ہے۔مٹی انسان کی پیدائش کے سب اسباب اور عناصر مہیا کرتی ہے لیکن یہ ان عناصر کو ترتیب دینے اور زندگی چلانے کے لیے وہ جینیاتی معلومات فراہم نہیں کرسکتی جو کسی شخص کے ڈی این اے میں موجود ہوتی ہیں۔یہ بات اے ای ولڈر سمتھ۔۔۔A.E.Wilder Smith...نے کی۔اس طرح اس کی پیدائش کے وہ مادی اسباب جو خدا کی مداخلت کے بغیر نامکمل تھے ان کو جینیاتی معلومات فراہم کر کے انسان کو خدائ تخلیق کا مرتبہ دیا گیا۔یہ جینیاتی معلومات کسی بھی مادے میں خود بخود پیدا نہیں ہوسکتی اور نہ ہی مادہ بذات خود سیل یا خلیوں،بافتوں یا ٹشوز اور اعضاء کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔یہ ایک با مقصد شکل تب تک حاصل نہیں کر سکتا جب تک اسے خدا کی طرف سے جینیاتی معلومات نہ دی جائیں۔گرے پارکر لکھتا ہے
"اگر سیل یا خلیوں کو مناسب توانائ اور مادہ ملتا رہے اور اگر ڈی این اے کی پروٹین میں تبدیلی کے مراحل یعنی ڈی این اے کی آر این اے میں نقل نگاری یا Transcription اور آر این اے کی پروٹین میں تبدیلی یا Translationکے لیے درکار سب مادے صحیح وقت اور صحیح جگہ پر میسر ہوں،زندہ اشیاء منظم انداز اور مقرر کردہ سائنسی قوانین کے تحت اپنے عوامل انجام دیں تو زندگی کی یہ ساری تنظیم و ترتیب ایک تخلیق کا نتیجہ ہے، ایک اتفاق یعنی ارتقا کا نہیں۔اس ترتیب کے کئ اور مراحل ہیں جن کی ترتیب میں نے مشاہدہ کی اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ان سب کی ترتیب خدا کی طرف سے طے کی گئی ہے۔" 
قدرت نے انسانی جسم میں کیمیائی عناصر کا اتنا گہرا توازن رکھا ہے کہ انسانی جسم میں 5•2کلوگرام کیلشیم موجود ہے۔اگر یہ مقدار کم ہوجائے تو ہڈیاں اور دانت ٹوٹنے اور فریکچر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ہمارے جسم کو 120 ،گرام پوٹاشیم کی ضرورت ہے۔اگر یہ مقدار کم ہوجائے تو پٹھوں کا اکڑاؤ یا Cramps،تھکاوٹ،اور خفقان یا دل کی تیز دھڑکن۔۔۔Palpitations...کا مسئلہ لاحق ہوجاتا ہے۔ہمیں صرف 3_2گرام زنک کی ضرورت پڑتی ہے۔اگر یہ مقدرا کم ہوجائے تو یادداشت ک کمی،نامردی اور چکھنے اور سوگھنے کی حس کمزور ہو جاتی ہے۔سیلینیم کی کمی سے عضلات یا مسلز کمزور اور شریانیں یا Arteries اور دل کے پٹھے یاCardiac muscles سخت ہوجاتے ہیں۔کیا ی سب ایک اتفاق ہے کہ ارتقا ہوا اور یہ ترتیب بن گئ۔ایک صاحب بصیرت شخص اس کو ارتقا نہیں بلکہ ذہین تخلیق قرار دے گا۔
نیوز ویک میگزین میں شائع شدہ ایک آرٹیکل Life From Clay کے مطابق ناسا کے کیمیادانوں یا کیمسٹس جیسا کہ لیلیا کوئنی۔۔۔۔Lelia Coyne... نے اس بات کی سائنسی گواہی پیش کی ہے کہ زمیں پر زندگی کا آغاز مٹی سے ہوا جو ان نامیاتی یا Organic Compounds اور توانائ کو اپنے اندر قید رکھتی ہے جو زندگی کے بنیادی اجزا کی تیاری کے لیے لازمی ہیں۔
انسان کا مٹی سے تعلق اتنا گہرا ہے کہ جدید تحقیقات کے مطابق وہ لوگ جو مٹی والی آبادیوں یعنی دیہات سے تعلق رکھتے ہیں ان میں مدافعاتی نظام یا Immune System کی بیماریوں اور دمہ کی شرح شہری آبادیوں سے کم ہے۔اس نظریے کو Overcleanliness theory....کہا جاتا ہے اور اس میں ڈاکٹر سٹریچن۔۔۔۔Dr.Strachan...نے کافی پیشرفت کی۔
انسان کے مٹی سے پیدا ہونے کے نظریے پر مزید تحقیقات ایموری یونیورسٹی۔۔۔۔Emory University...نے 1998ء میں فراہم کی جس کے مطابق انسانی جسم وزن کے لحاظ سے 62%!پانی پر مشتمل ہے۔
نئی تحقیق سے یہ بات سامنے آئ ہے کہ زندگی کے دو بنیادی اجزاء یعنی جینیاتی معلومات اور خلوی جھلی یا سیل ممبرین ایک دوسرے سے مٹی کے ذریعے ملائے گئے۔Montmorillonite مٹی پر کی گئی تحقیق جو کہ مارٹن ہینکزک۔۔۔Martin Hanczyc...شیلی فوجیکاوا۔۔۔Shelly Fujikawa...اور جیک زوسٹیک۔۔۔Jack Szostak....نے میسی چوسٹس ہسپتال بوسٹن میں کی،نے واضح کیا ہے کہ مٹی جھلی دار مائع سے بھری تھیلیوں۔۔۔Membranous Fluid Filled Sacs....کے بننے کی رفتار بڑھا دیتی ہے۔
یہ ساری بحث واضح کرتی ہے کہ مٹی کے اندر زندگی کی پیدائش کی ساری خصوصیات اس خالق نے رکھ دی ہیں جو اس مٹی کا بھی خالق ہے۔اور یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ مذہب کا مٹی سے آدم علیہ السلام کی پیدائش کا نظریہ جس کا ملحد بار بار مذاق اڑاتے ہیں، کوئ دیومالائ کہانی یا جادوئ مفروضہ نہیں بلکہ ایک سائنسی حقیقت ہے۔اور اس پیدائش کو اس میں پائ جانے والی واضح ترتیب و تنظیم کی وجہ سے ارتقا کانتیجہ نہیں قرار دیا جا سکتا کیونکہ یہ مٹی زندگی پیدا کرنے کی ساری خصوصیات و اسباب رکھنے کے باوجود جینیاتی معلومات حاصل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی جو کہ زندگی کی پیدائش کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ان سب دلائل سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ خالق نے اس مٹی سے زندگی کو پیدا فرما کر اسے جینیاتی معلومات رکھنے والے آدم علیہ السلام نی میں تبدیل کیا۔آدم علیہ السلام کی جینیاتی معلومات اور ان میں پائ جانے والی روح دونوں باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ آدم کسی ارتقا کا نتیجہ نہیں بلکہ خالق کی شاندار تخلیق تھے جنہیں خاص منصوبے اور ترتیب سے پیدا کیا گیا۔یہ جینیاتی معلومات اور روح کی موجودگی آدم علیہ السلام کی ارتقا سے پیدائش کے نظریے کی تردید کرتی ہیں۔واضح رہے کہ سائنس روح کا ثبوت بھی پیش کر چکی ہے اور روح واضح طور پر کائناتی و خدائ خاصیت ہے کسی ارتقا کی پیداوار نہیں اور نہ ہی ارتقا والے روح کو اج تک ارتقا کی پیدوار کہنے کا دعوی کر سکے ہیں۔روح کی جدید سائنسی تحقیقات ملحدین و ارتقا کے حامیوں کے گلے میں پھنسی وہ ہڈی ہیں جسے وہ نہ نگل سکتے ہیں نہ اگل سکتے ہیں۔واضح رہے کہ روح کے سائنسی دلائل پر ایک تفصیلی مضمون حوالہ جات کے ساتھ میں پہلے ہی پیش کر چکا ہوں الحمداللہ۔
اس ساری بحث کے بعد کارل مارکس،چارلس ڈارون،رچرڈ ڈاکنز،سگمنڈ فرائیڈ،برٹرینڈ رسل،سبط حسن،علی عباس جلال پوری،ارشد محمود کے پیروکاروں یعنی ملحدین کو چاہیے کہ ان حقائق کو تسلیم کر کے مذہب پر ایمان لے آئیں کیونکہ ان سب ک مذہبی و سائنسی تصورات جدید سائنس غلط ثابت کر چکی ہے۔الحمداللہ
تحریر۔۔۔ڈاکٹر احید حسن

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔