Sunday 6 August 2017

احسن تقویم اور جسمانی نقص کا اعتراض

ایک ملحد کا اعتراض کہ قرآن کہتا ہے ولقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم ' ، پھر لوگ لولے ،لنگڑے کیوں پیدا ہوتے ہیں؟
جواب:
 جس کو تخلیق کا نقص سمجھا جارہا ہے وہ  حقیقت میں تخلیق میں نقص نہیں ہے کیونکہ  انسان کو جو کچھ دیا گیا ہے وہ خالق کا ودیعت کردہ ہے۔ نقص کا سوال وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں کوئی شے لازمی طور پر کسی دوسری شے کا استحقاق ہو اور اس کو اس سے محروم کر دیا جاے۔ بحثیت انسان، ہمارا کسی شے پرکوئی لازمی استحقاق (unconditional privilege) نہیں ہے۔ اگر خدا نے کسی کو ایک ٹانگ نہیں دی تو یہ اللہ کی تخلیق میں کوئی نقص نہیں۔ بلکہ خالقِ ارض و سما کی صفت خلاقیت ہی کا ایک منفرد پہلو ہے۔ جس کی اس ڈائیورسٹی اور آزمائش کی دنیا میں مختلف حکمتیں ہیں ۔۔نقص یہ ہے کسی شے کو اس کے کسی ایسے اساسی جوہر سے محروم کر دیا جاے جس پر فی نفسہہ اُس کا ایک لازمی استحقاق ہو اور جس کے بغیر وہ اپنی حثیت قائم نہ رکھ سکے۔ مثلا ہم اس گاڑی کو گاڑی نہیں کہہ سکتے جس میں انجن نہ ہو۔ لیکن ہم کبھی بھی ایک نابینا انسان کو منصب انسانیت سے برخاست نہیں کرتے۔ لہذا مرد ہونا، یا عورت ہونا یا پھر خواجہ سرا ہونا کوئی نقص نہیں۔ اور نہ ہی ان میں سے کوئی زمرہ اپنے لیے کوئی خاص وجہ تفاخر رکھتا ہے۔

احسن تقویم سے کیا مراد ہے؟:
احسن تقویم سے مراد جنس انسانی کی بنیادی تخلیق ہے۔یعنی دوسرے مخلوقات کے مقابلے میں انسان کی خصوصی تخلیق ایسی کی گئی ہے جو سب سے احسن ہے۔مفسرین کرام نے مختلف احادیث سے اس کی تفسیر یہ بیان فرمائی ہے کہ انسان دیگر مخلوقات میں سب سے احسن اس لیے ہے کیونکہ انسان میں یہ خاصیت ہے کہ انسان اللّٰه تعالٰی کے بعض صفات اپنا سکتا ہے۔ اور اسی لیے انسان کو پیدا بھی کیا گیا ہے۔ تاکہ وہ زمین پر اللہ تعالی کا نائب اور خلیفہ بنے۔ اور دیگر مخلوقات کے لیے اور آپس میں ایک دوسرے کے لیے اپنے اندر اللہ تعالی کی رحمانی صفات پیدا کرے۔ اللّٰه تعالٰی نے فرشتوں کو یہ بتایا تھا،  اذ قال ربک للملائکۃ انی جاعل فی الارض خلیفۃ ۔ ۔ ۔ تو فرشتوں نے یہ سوال کیا ، اتجعل فیھا من یفسد فیھا ویسفک الدماء ؟  کہ کیا ایسی مخلوق جو فساد پھیلائے گی زمین میں اور ناحق خون بہائے گی ، یعنی شیطانی صفات کے حامل مخلوق کو کیوں بنایا جا رہا ہے؟ کیونکہ یہ بااختیار اور عقل اور نفس کے ساتھ پیدا ہوگا تو فساد اسکا لازمی جزء ہوگا۔  تو اللہ تعالٰی نے فرمایا، انی اعلم مالا تعلمون۔بے شک میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔
یعنی اس مخلوق کی راہنمائی کا انتظام بھی میں کرونگا اور ان میں ایسے بہت سے لوگ ہونگے جو اپنے اختیار سے میری ہدایات اور پیغامات پر ایمان لائیں گے اور مجھ سے  خصوصی تعلق رکھیں گے اور مجھے دیکھے بغیر مجھ سے محبت رکھیں گے اور میرے احکامات پر عمل کریں گے۔چنانچہ احسن تقویم سے ایک مراد یہ ہے کہ، جس میں تخلیقی پہلو مراد ہے،  اس بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے کہ اللہ تعالی نے باقی مخلوقات کو اپنے ارادے یعنی کلمہ کن سے یکلخت پیدا فرمایا، اور انسان کو اپنے ہاتھوں سے بنایا، یعنی بنایا انسان کو بھی ارادے سے ہی لیکن اس کی تخلیق میں خصوصی توجہ اور دیگر مخلوقات کی نظر میں اس کو بہت ذیادہ اہمیت دی ، اور انکے سامنے بھی انسان کی قدر و منزلت بڑھائی، مثلا فرشتوں کو حکم دیا کہ انسان کو سجدہ کرو ۔ ۔ ۔
دوسرا پہلو انسان کے احسن تقویم میں صفاتی پہلو ہے۔ اور وہ انسان کا اللّٰه تعالٰی کے رنگ میں رنگ جانا،  قرآن مجید میں ارشاد ہے، صبغۃ اللہ ومن احسن من اللہ صبغۃ، 
یہ وہ انسان کی خصوصیت ہے جو دیگر مخلوقات میں نہیں ہے اور اسی وجہ سے اللہ تعالی نے انسان کو دیگر مخلوقات پر فوقیت و عزت بھی دی ہے، اللّٰه تعالٰی کا ارشاد ہے،
ولقد کرمنا بنی آدم ۔ ۔ ۔ یقینا ہم نے آدم علیہ السلام کے اولاد کو عزت دی ہے۔یہ صفاتی پہلو یہ ہے کہ انسان اپنے اندر ایمانی صفات پیدا کرسکتا ہے۔یعنی اللہ تعالی رحیم ہیں تو انسان رحم کی صفات پیدا کرسکتا ہے انسان مہربان بن جاتا ہے اور اللّٰه تعالٰی کے قریب ہوجاتا ہے۔اللّٰه تعالٰی سچا ہے انسان سچائی و صداقت و امانت پیدا کرسکتا ہے،
اس طرح اللّٰه تعالٰی کے دیگر صفات ہیں جو انسان اپنے اندر پیدا کر سکتا ہے انکو ایمانی صفات کہا جاتا ہے، مثلا سخاوت ، اللّٰه تعالٰی کے مخلوقات سے محبت ان سے الفت، ان پر رزق خرچ کرنا ان کی مدد کرنا وغیرہ وغیرہ ، اور اللہ تعالٰی چاہتے ہیں کہ انسان اپنے اندر وہ صفات پیدا کرلیں تو میں ان سے محبت کرونگا، یہ وہ صفات ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام میں پیدا کیں،اور ہر نبی اپنے صحابہ میں یہ صفات پیدا کرتے تھے، اور انبیاء خود ان صفات سے بھرپور ہوتے تھے،
اور نبی کی تین ذمہ داریوں میں ایک یہ بھی ہوتی ہے،لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیھم رسولا منھم یتلو علیھم آیاتہ ویزکیھم و یعلمھم الکتاب والحکمۃ،ویزکیھم یہ وہ ذمہ داری ہے۔
اب انسان اور دیگر مخلوقات میں بنیادی فرق اختیار کا ہے۔انسان اپنے اختیار سے یہ پیدا کر سکتا ہے جبکہ دیگر مخلوقات اس کام میں با اختیار نہیں ہیں۔اور اسی اختیار کی وجہ سے جو کہ عقل اور علم کی وجہ سے انسان کو ملی ہے صرف اس کی وجہ سے انسان کو دیگر مخلوقات پر فوقیت دی گئی ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔