Sunday 6 August 2017

کیا قرآن کا واقعہ ذوالقرنین پہلی صدی کے یہودی مورخ فلیویس جوزیفس کی کتاب Antiquity of Jewsسے لیا گیا ہے؟

قرآن پاک پر ملحدین و مستشرقین کا ایک اور سنگین اعتراض یہ ہے کہ قرآن کا واقعہ ذوالقرنین نعوذ بااللہ پہلی صدی عیسوی کے یہودی مورخ فلیویس جوزیفس کی کتاب Antiquity of jews سے لیا گیا ہے۔آج تک اس اعتراض کا عالم اسلام میں مکمل اور تحقیقاتی جواب نہیں دیا گیا تھا۔لہذا یہ لازمی تھا کہ اس پر مکمل تحقیق کے بعد اس کا جواب مرتب کیا جائے جس کا خلاصہ درج ذیل ہے۔ 
پہلی صدی عیسوی کے یہودی مورخ فلیویس جوزیفس نے اپنی کتاب اینٹی کوٹی آف جیوز کے کے باب Jewish Wars VII میں لکھا ہے
"ایلنز۔۔۔Alans...کی ایک قوم جسے ہم پہلے سکتھین۔۔۔Sycthian...قرار دے چکے ہیں،ان راستوں سے گزر کر آتی تھی جن کوسکندر نے لوہے کے دروازوں سے بند کر دیا۔"
فلیویس جوزیفس کا یہ واقعہ قرآن کے واقعہ ذوالقرنین سے کسی حد تک مشابہت رکھتا تھا جس میں حضرت ذوالقرنین نے یاجوج ماجوج کے شر سے عوام کو محفوظ کرنے کے لیے ان کے پہاڑی راستوں پر ایک دیوار تعمیر کر دی تھی۔جوزیفس یہ بھی کہتا ہے کہ یہ سکتھین لوگ یاجوج ماجوج تھے۔فلیویس جوزیفس کے بیان کردہ اس واقعے کی بنیاد پر مستشرقین و ملحدین نے قرآن پر یہ اعتراض کیا کہ قرآن کا واقعہ ذوالقرنین نعوذ بااللہ فلیویس جوزیفس سے لیا گیا ہے۔اینڈریو رنی اینڈرسن کے مطابق یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ قرآن کے واقعہ ذوالقرنین کے کچھ عناصر نزول قرآن سے پانچ سو سال قبل تحریری صورت میں موجود تھے اور نعوذ بااللہ قرآن نے یہ واقعہ وہاں سے نقل کیا۔ملحدین و مستشرقین کا محض فرضی اندازوں کی بنیاد پر کہنا ہے کہ اس کتاب کا کوئ عربی نسخہ حجاز میں میسر ہوگا جہاں سے نعوذ بااللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واقعہ لے کر اسے قرآن میں نقل کر دیا۔کچھ نے تو یہاں تک کہ دیا کہ یہ عربی نسخہ قرآن سے پہلے موجود تھا اور نعوذ بااللہ قرآن نے یہ واقعہ وہاں سے نقل کیا۔
اس الزام کی حقیقت یہ ہے کہ عربی زبان تحریری صورت میں نزول قرآن سے پہلے شاذ و نادر ہی موجود تھی اور جو موجود تھی وہ پتھروں اور چٹانوں پر کندہ حالات و شاعری کے بارے میں تھی۔اگر فلیویس جوزیفس کی کتاب کا یہ عربی نسخہ عرب میں موجود تھا تواس زمانے کی عرب تاریخ کی کسی بھی کتاب میں اس کا ذکر کیوں نہیں آیا۔نہ ہی کوئ مسلم یا غیر مسلم مورخ یہ دعوی کرتا ہے۔آج تک ملحدین و مستشرقین اس کے اس عربی نسخے کا کوئ ثبوت نہیں دے سکے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ یا اس سے قبل عرب میں موجود رہا ہو۔نہ ہی اس زمانے میں تحریری صورت میں موجود کوئ یہودی ادب عرب میں فروغ پذیر تھا۔دوسری بات یہ کہ قرآن کی سورہ کہف جس میں واقعہ ذوالقرنین بیان کیا گیا ہے،مکہ مکرمہ میں نازل ہوئ جب کہ یہود کا مسکن مدینہ تھا۔اگر نعوذ بااللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تعلیمات پہلے ہی کسی یہودی عالم سے حاصل کر رکھی تھی تو اس کا ثبوت ملحدین و مستشرقین آج تک کیوں نہیں دے سکے۔یہ بات حقیقت ہے کہ فلیویس جوزیفس کی کتاب اینٹی کوٹی آف جیوز کا کوئ عربی نسخہ مکہ مکرمہ یا عرب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یا اس سے قبل موجود نہیں تھا اور اس طرح قرآن کا واقعہ ذوالقرنین اپنے بیان میں خالص ہے۔
یہ بات یاد رکھیں کہ جو بات جوزیفس یا کوئ اور سکندر اعظم کے حوالے سے اس طرح کی کہتا ہے جو قرآن نے ذوالقرنین کے بارے میں کہی ہے،اس کی ذاتی رائے ہے۔بذات خود فلیویس جوزیفس کتنا قابل اعتماد ہے۔اس کے لیے جوزیفس کی کتاب کے ماہر لوئس فیلڈمین کی رائے پر غور کیجیے۔اس کا کہنا ہے کہ فلیویس جوزیفس کے زمانے یعنی پہلی صدی عیسوی میں یہود کے بارے میں روم میں کئ غلط فہمیاں موجود تھیں۔خصوصا یہ سمجھا جاتا تھا کہ یہود میں کوئ قابل ذکر تاریخی شخصیت موجود نہیں اور نہ ہی ان کی کوئ تاریخ موجود ہے۔ان کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ ان کا رویہ غیر یہود سے بہت متعصبانہ ہے اور وہ وفاداری،قانون کے احترام اور سخاوت سے عاری ہیں۔ان الزامات کی وجہ سے فلیویس جوزیفس یا جوزف بن متھیاس نے یہودی تاریخ کا ایک یونانی مجموعہ لکھنے کا فیصلہ کیا۔تاریخ میں ایسی تصنیف کو Apologia یا معذرت نامہ کہا جاتا ہے جس میں ایک گروہ یا قوم دوسری بڑی قوم کے سامنے گڑگڑاتی اور اپنی صفائی پیش کرتی ہے۔ یونانیوں اور رومیوں کو خوش کرنے کے لیے فلیویس جوزیفس نے یہود کی اصل تاریخ کے کئ حقائق اپنی تصنیف میں چھپا لیے بلکہ یہود کی تاریخ کو یونانی رنگ دینے کی کوشش بھی کی۔واقعہ ذوالقرنین بھی اسی کی ایک مثال ہے جس میں اس نے ذوالقرنین سے منسوب سب واقعات کو سکندر اعظم مقدونی کی طرف منسوب کرنے کی کوشش کی۔بحیرہ احمر پار کرنے کے دوران حضرت موسٰی علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کی طرف سے کہی گئ ایک نظم کی یہودی تاریخ بھی جوزیفس نے چھپا لی۔اس نے اس کتاب میں یہود کی کئ اہم شخصیات جیسا کہ موسٰی علیہ السلام کو یونانی و فلسفیانہ شخصیات کے طرز پر پیش کرنے کی کوشش کی۔اس کام میں جوزیفس کے معاون یونانی تھے۔ان میں سے دو جوزیفس کی تصنیف کے بعد کے بابوں میں بہت نمایاں ہیں جس سے لگتا ہے کہ مصنف نے یہاں کتاب کی تدوین مکمل طور پر ان کے حوالے کر دی ہے۔باب پندرہ سولہ ایک ایسے معاون کی تصنیف ہیں جس نے یہودی جنگوں کی تاریخ پر بھی کام کیا جو کہ یونانی شاعروں کا بہت مداح ہے۔اس ساری بحث سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ فلیویس جوزیفس نے کس طرح اپنے رومن آقا کو خوش کرنے کے لیے تاریخ میں ردو بدل کیا اور تاریخ یہود سے منسوب کئ واقعات کی نسبت مشہور یونانی افراد کی طرف کی جن میں سے ایک واقعہ ذوالقرنین بھی ہے۔
فلیویس جوزیفس کی کتاب اینٹی کوٹی آف جیوز کی تمام موجودہ نقول عیسائ ذرائع سے میسر ہوئ ہیں جن میں کچھ متنازعہ جملوں میں حضرت عیسٰی علیہ السلام کا ذکر بھی ہے۔اگر یہ حقیقی ہے تو یہ وحی کے علاوہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے وجود کا واضح تاریخی ثبوت ہے۔
اب اگر ہم اس بات کا جائزہ لیں کہ فلیویس جوزیفس کی کتاب اینٹی کوٹی آف جیوز کے نسخوں کی تاریخ کیا ہے تو یہ بات ہم پر واضح ہوتی ہے کہ اس کا پہلا مکمل یونانی نسخہ The Ambrosiana 370 or F128 گیارویں صدی عیسوی کا ہے جوملن میں ببلیو تھیکا امبروسیانا میں موجود ہے۔آج تک اس کتاب کا موجود کوئ نسخہ ایسا دریافت نہیں ہوسکا جس کی عمر کا اندازہ ریڈیو کاربن ڈیٹنگ سے گیارویں صدی عیسوی سے پہلے کا لگایا جائے اور قدیم ترین نسخے سارے کے سارے یونانی ہیں،کوئ بھی عربی نسخہ نہیں۔اور جو موجود ہیں ان کے بارے میں خود یورپی مورخین کا کہنا ہے کہ ان میں بار بار تبدیلیاں اور اضافہ کیا گیا۔جوزیفس کے موجود 120 نسخے یونانی ہیں جن میں سے تینتیس چودہویں صدی عیسوی سے قبل کے ہیں اور ان میں سے بھی دو تہائی گیارویں سے بارہویں صدی عیسوی کے درمیان کے Comnenoi period کے ہیں۔
اب اس ساری بحث سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ فلیویس جوزیفس کی کتاب کا عربی نسخہ تو دور کی بات، کوئ موجود یونانی نسخہ بھی ایسا نہیں جس کے بارے میں یہ ثابت کیا جا سکے کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یا اس سے قبل موجود تھا اور نعوذ بااللہ قرآن نے یہ واقعہ وہاں سے نقل کیا۔جب موجود کوئ بھی نسخہ خواہ یونانی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کا نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے پانچ سو سال بعد مرتب ہونے والے نسخے کی بنیاد پر یہ اعتراض کیسے کیا جا سکتا ہے کہ یہ واقعہ جوزیفس میں موجود تھا اور نعوذ بااللہ قرآن نے یہ واقعہ وہاں سے نقل کیا۔یہ الزام ثابت کرنے کے لیے پہلے ملحدین و مستشرقین ہمیں جوزیفس کا ایک ایسا یونانی یا عربی نسخہ لا کے دیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے یا اس سے قبل کا ہو اور پھر ہمیں اس میں یہ لکھا ہوا دکھائیں کہ یہ واقعہ اس وقت جوزیفس کی کتاب میں موجود تھا۔جب کہ آج تک ملحدین و مستشرقین ایسا نہیں کر سکے اور دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ خود جوزیفس میں بار بار تبدیلیاں اور اضافہ کیا گیا تو یہ بات عین ممکن ہے کہ جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کے رومانس آف الگزینڈر کے شامی نسخوں میں اسلام سے متاثر ہوکر واقعہ ذوالقرنین سکندر سے منسوب کر کے نقل کیا گیا بالکل اسی طرح یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جوزیفس میں قرآن سے نقل کر کے سکندر کی طرف منسوب کر کے لکھا گیا۔اگر یہ تاریخی حقائق دیکھے جائیں تو چوری کا الزام قرآن پر نہیں بلکہ شامی رومانس آف الگزینڈر اور جوزیفس پر آتا ہے۔
دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ فلیویس جوزیفس کی کتاب کا پہلا عربی نسخہ 1971ء میں شولمو پائنز نے دریافت کیا جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے تین سو سال بعد دسویں صدی عیسوی میں بشپ اگاپیس ہیراپولس۔۔۔Agapius Hierapolis.... نے لکھا تھا۔اسی شولمو پائنز نے جوزیفس کا بارہویں صدی عیسوی کا ایک شامی نسخہ بھی دریافت کیا جو کہ مائیکل شامی کا تحریر کردہ ہے۔لیکن کوئ نسخہ آج تک شامی یا عربی دریافت نہیں ہوسکا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کا یا اس سے قبل کا ہو جس کی بنیاد پر کہا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واقعہ نعوذ بااللہ وہاں سے نقل کیا۔اگر ایسا نسخہ مل بھی جائے تو یہ کسی طرح ثابت نہیں ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واقعہ وہاں سے نقل کیا کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ پڑھنا لکھنا جانتے تھے اور نہ ہی کسی یہودی یا عیسائ عالم سے یا کسی بھی اور سے تعلیم حاصل کی تھی جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ واقعات پڑھاتا۔
میں نے بہت کوشش کی مجھے فلیویس جوزیفس کا کوئ ایسا عربی یا شامی نسخہ مل جائے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے یا اس سے قبل کا ہو لیکن مجھے کوئ نسخہ ایسا نہیں ملا اور نہ ہی مورخین کو آج تک اس کا کوئ ثبوت ملا ہے۔لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ الزام دینا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعہ ذوالقرنین فلیویس جوزیفس سے نقل کیا،سراسر بہتان اور جھوٹ ہے۔
دوسری بات یہ کہ ذوالقرنین کا تذکرہ اور نام سکندر اعظم سے بہت پہلے بھی موجود تھا لہذا یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ سکندر اعظم کی شخصیت سے مرعوب لوگوں نے ذوالقرنین سے منسوب واقعات کی نسبت سکندر اعظم کی طرف کر دی اور جب قرآن نے ذوالقرنین کے واقعات نقل کیے تو قرآن پر یہ الزام عائد کر دیا گیا کہ قرآن نے یہ واقعہ نعوذ بااللہ دوسرے ذرائع سے نقل کیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذوالقرنین کے بارے میں پوچھنے والے یہودی ربی لازمی ذوالقرنین کے بارے میں جانتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کے نزول کے ثبوت کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریش مکہ کے مدینہ سے بلائے جانے پر ذوالقرنین کے بارے میں وہ بات پوچھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یا وہاں کے عرب بالکل نہ جانتے ہوں۔
ذوالقرنین کو یہود میں بالقرنین بھی کہا جاتا تھا۔مائیکل لنڈیمنز کے مطابق اندازہ ایک ہزار قبل مسیح کے لگ بھگ کی پرانی تہذیب فونیشیا کے ایک دیوتا کا نام بالقرنین تھا۔تاریخ کے مطابق سریانی و فونشین لفظ بال قدیم شام و فلسطین کی شمال مغربی سامی زبانوں میں عزت کے طور پر معزز افراد کے لیے استعمال ہوتا تھا اور یہ بات ایک ہزار قبل مسیح کی ہے یعنی سکندر اعظم سے سات سو سال قبل۔بعد میں یہ لفظ دیوتاؤں کے لیے بھی استعمال ہونے لگا۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن میں کہلائے جانے والے ذوالقرنین اورقدیم یہود میں مشہور بالقرنین سکندر اعظم سے بہت پہلے زمانہ قبل از تاریخ کی کوئ مشہور شخصیت تھے جن کے واقعات کی نسبت بعد میں لوگوں نے سکندر اعظم کی طرف کردی۔بال کا لفظ قدیم شام و فلسطین کی کئ تحریروں میں کندہ کیا ہوا ملا ہے۔اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان بال کہلائے جانے والے معزز افراد میں سے ایک بالقرنین یا ذوالقرنین بھی تھے۔بال کا لفظ یہود کے سریانی ادب میں مختلف دیوتاؤں کے لیے نوے بار استعمال ہوا ہے۔
یہودی مذہبی کتاب تناخ یا سریانی بائیبل کے قدیم ترین نسخے گیارویں صدی سے دسویں صدی قبل مسیح کے ہیں۔جب کہ سب سے نیا باب Pentateuch چھٹی صدی قبل مسیح میں مرتب کیا گیا۔قرطبی کی روایت کے مطابق یہود نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ایک ایسے نبی کا نام بتائیں جن کا ذکر تورات میں صرف ایک بار ہو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ وہ ذوالقرنین ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ ذوالقرنین کا ذکر قدیم تورات میں موجود تھا لیکن جدید تورات میں نہیں کیوں کہ سالانہ ایڈیشن کے ساتھ یہ بہت سی تحریفات سے گزر چکی ہے اور تورات سکندر اعظم سے قبل کی ہے۔اس کا مطلب ہے کہ ذوالقرنین کا ذکر سکندر اعظم سے بہت پہلے ایک حقیقت کے طور پر موجود تھا اور قرآن کو یہ الزام دینا کہ اس نے یہ واقعہ رومانس آف الگزینڈر یا جوزیفس سے نقل کیا،سراسر بہتان ہے کیونکہ جب ایک بات حقیقت ہو تو اس کا مختلف کتابوں میں بیان ایک کتاب کا دوسری کتاب سے نقل نہیں کہلاتا بلکہ ایک مشترکہ سچائی کا مختلف صورتوں میں بیان کہلاتا ہے کیونکہ چوری کے جھوٹ الزام کی بنیاد پر حقائق نہیں بدلے جاتے خواہ مشابہت کتنی ہی کیوں نہ ہو۔
کچھ علماء کے مطابق ذوالقرنین کا تذکرہ یہود کی تاریخی و مذہبی کتاب تلمود میں بھی موجود ہے اور تلمود کا ایک حصہ مشنہ ہے جو دوسو قبل مسیح میں زبانی یاد تورات کی بنیاد پر مرتب کیا گیا اور دوسرا حصہ گیمارہ ہے جو پانچ سو قبل مسیح میں مرتب کیا گیا یعنی سکندر اعظم سے بہت پہلے۔یہ باتیں ثابت کرتی ہیں کہ ذوالقرنین کا ذکر سکندر اعظم سے بہت پہلے ہی موجود تھا اور وہ ایک حقیقی شخصیت تھے۔اب یہ کہنا کہ ذوالقرنین ایک فرضی شخصیت تھے اور نعوذ بااللہ قرآن نے یہ فرضی واقعات جوزیفس سے نقل کیے،سراسر بہتان ہے۔بعد میں یونانی یہود اور کچھ عیسائیوں نے ان واقعات کی نسبت سکندر اعظم کی طرف کر دی اور لوگوں نے یہ گمان کیا کہ ذوالقرنین سکندر اعظم ہے اور قرآن نے واقعہ ذوالقرنین نعوذ بااللہ رومانس آف الگزینڈر یا جوزیفس سے نقل کیا ہے جب کہ مذہبی اور تاریخی حقائق ہمیں دوسری کہانی بتا رہے ہیں۔
یاجوج موجوج کے واقعے کی طرح لوگوں نے دیوار چین کی نسبت بھی سکندر اعظم کی طرف کی جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ دیوار سکندر اعظم سے انیس سو سال پہلے یعنی 2200 قبل مسیح میں تعمیر کی جا چکی تھی۔وقت کے ساتھ ساتھ حقائق کیسے مسخ کر دیے جاتے ہیں،اس کا اندازہ آپ اس بات سے کر سکتے ہیں۔خود سکندر کی طرف سے کسی بھی دیوار کی تعمیر تاریخی طور پر آج تک ثابت نہیں ہوسکی اور اس طرح مذہبی کے علاوہ تاریخی طور پر بھی ذوالقرنین کے واقعہ یاجوج ماجوج کو سکندر اعظم سے منسوب کرنا بالکل غلط ہے اور تاریخ کے مطابق وسط ایشیا اور کاکیشس کی دیواریں سکندر اعظم نے نہیں بلکہ اس سے دوسو سال پہلے قدیم ایرانی و فارسی بادشاہوں نے تعمیر کی تھی۔ان دیواروں کی تعمیر قدیم ایرانی،ہندی اور چینی حکمرانوں کی طرف سے تاریخی طور پر ثابت ہے اور اس زمانے میں دشمن کے حملوں سے بچاؤ کے لیے یہ رواج عام تھا۔لہذا جب قرآن یاجوج ماجوج کے خلاف ذوالقرنین کی طرف سے ایک دیوار کی تعمیر کا ذکر کرتا ہے تو یہ بات ہمیں اس وقت کے تاریخی حقائق کے بالکل مطابق معلوم ہوتی ہے۔لیکن بخاری میں حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالی عنہا کی بیان کردہ ایک روایت کے مطابق اس وقت اس دیوار میں ایک سوراخ ہوچکا تھا اور اب اس دیوار کو دنیا میں ڈھونڈنا یا محض اس کے عدم وجود کی بنیاد پر اس حدیث کا انکار کرنا غلط ہے۔
مزید تاریخی حقائق جو ذوالقرنین کو سکندر اعظم سے بہت پہلے کی شخصیت ثابت کرتے ہیں ان میں سے ایک مقریزی کا ہے جس میں وہ ذوالقرنین کو یمنی قرار دیتے ہیں اور ان لوگوں کی تردید کرتے ہیں جو ان کو رومی،ایرانی یا سکندر اعظم قرار دیتے ہیں۔اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ قدیم ایرانی بھی ذوالقرنین کے وجود اور شخصیت کے قائل تھے۔
ذوالقرنین کے وجود اور سکندر اعظم سے بہت پہلے ہونے کے اور تاریخی حقائق ہمیں حضرت سلیمان علیہ السلام کے تذکرے سے ملتے ہیں جن کے مطابق وہ ایک ایسا تاج پہنتے تھے جس پر دو سینگ بنے ہوئے تھے اور اسی وجہ سے ان کو ذوالقرنین بھی کہا جاتا تھا اور تاریخ کے مطابق کئ ہزار سال قبل یہ رواج تھا کہ معزز لوگ ایسا تاج پہنتے تھے جس پر دو سینگ بنے ہوتے تھے جیسا کہ زبور میں ہے کہ میں فرمانبرداروں کے سینگ اونچے کروں گا اور شریروں کے سینگ کاٹ ڈالوں گا(زبور 75:4)۔
اس طرح یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ دوسینگوں والا تاج پہننا ایک قدیم رواج تھا اور محض اس بنیاد پر سکندر اعظم کو ذوالقرنین قرار دینا اور ذوالقرنین سے منسوب سب واقعات کو سکندر اعظم سے منسوب کرنا بالکل غلط ہے۔اب تک کی بحث سے ہم نے آج سے تین ہزار سال یا اس سے پہلے یعنی سکندر اعظم سے بہت قبل بال یا معزز شخص کہلائے جانے والے افراد بھی موجود تھے اور ان میں سے ایک شخص قرنین بھی تھے جن کو بالقرنین یا ذوالقرنین کہا جاتا ہے۔
قبل از تاریخ کے قدیم ایرانی لوگوں میں بھی ذوالقرنین کا نام موجود تھا۔الجوزی لکھتے ہیں
کتاب المنتظم فی تاريخ الأمم والملوك از ابن الجوزی (المتوفى: 597هـ) کے مطابق
الخضر قَدْ كَانَ قبل موسى، قَالَ الطبري : كَانَ فِي أَيَّام أفريدُونَ الْمَلِك بْن أثفيان. قَالَ: وقيل: إنه كَانَ عَلَى مقدمة ذي الْقَرْنَيْنِ الأكبر، الَّذِي كَانَ أَيَّام إِبْرَاهِيم.
وذي الْقَرْنَيْنِ عِنْدَ قوم هُوَ أفريدُونَ، وزعم بَعْضهم أَنَّهُ من ولد من كَانَ آمن بالخليل عَلَيْهِ السَّلام، وهاجر مَعَهُ من أرض بابل.
وَقَالَ عَبْد اللَّهِ بْن شوذب: الخضر من ولد فارس .
وَقَالَ ابْن إِسْحَاق: هُوَ من سبط هَارُون بْن عمران.
وقول من قَالَ: إنه كَانَ فِي زمان أفريدُونَ أَكْثَر من ألف سَنَة، والخضر قديم إلا أَنَّهُ لما كَانَ ذكره لَمْ ينبغ إلا في زمان موسى ذكرناه هاهنا.
اور ذكر ملك أفريدون میں ابن اثیر کے مطابق 
وهو أفريدون بن أثغيان ، وهو من ولد جم شيد . وقد زعم بعض نسابة الفرس أن نوحا هو أفريدون الذي قهر الضحاك ، وسلبه ملكه ، وزعم بعضهم أن أفريدون هو ذو القرنين صاحب إبراهيم الذي ذكره الله في كلامه العزيز ، وإنما ذكرته في هذا الموضع لأن قصته في أولاده الثلاثة شبيهة بقصةنوح على ما سيأتي ولحسن سيرته ، وهلاك الضحاك على يديه ، ولأنه قيل إن هلاك الضحاك كان على يد نوح .
اس ساری عربی تحریر کا خلاصہ یہ ہے کہ خضر اور موسٰی علیہ السلام ہم عصر تھے اور ذوالقرنین ان دونوں حضرات سے بھی پہلے کی ایک شخصیت تھے جب تاریخ لکھنے کا آغاز نہیں ہوا تھا۔زمانہ قبل از تاریخ کے قدیم ایرانی و فارسی لوگوں کے مطابق افریدون بن الغثیان ایرانی بادشاہ جو جمشید کی اولاد سے تھا،ذوالقرنین تھا۔جمشید اور افریدون زرتشت مذہب کے پیروکاروں کے مطابق پیغمبر تھے۔
میری ساری تحقیق سے یہ بات سامنے آتی ھے کہ ذوالقرنین ایک فرضی شخصیت نہیں بلکہ سکندر اعظم سے بھی پہلے شاید زمانہ قبل از تاریخ کی ایک نامور شخصیت تھے جن کا ذکر کئ تہذیبوں میں موجود تھا اور قرآن نے واقعہ ذوالقرنین فلیویس جوزیفس سے بالکل نہیں لیا کیونکہ جب حقیقت ایک ہو تو اس کا بیان بھی ایک ہی ہوتا ہے اور مشترکہ سچائی کا مختلف صورتوں میں بیان ایک کی طرف سے دوسرے کی چوری نہیں کہلاتا اورجوزیفس کا کوئ عربی نسخہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یا اس سے قبل موجود نہیں تھا اور قرآن پر یہ الزام کہ قرآن نے واقعہ ذوالقرنین فلیویس جوزیفس سے لیا سراسر بہتان،فریب اور جھوٹ پر مبنی اور قرآن سے بد ظن کرنے کے لیے ایک مکارانہ اور پر فریب کوشش ہے۔
ھذا ما عندی۔و اللہ اعلم باالصواب

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔