Sunday 6 August 2017

نظریہ ارتقاء کی جینیاتی اساس اور اس میں پای جانے والی سائنسی غلطیاں

انسان کے 46 کروموسوم ہیں اور بن مانس کے 48۔ارتقا کے مطابق بن مانس کے دو کروموسوم مل کر انسان کے کروموسوم نمبر 2 میں بدل گئے اور بن مانس انسان میں تبدیل ہوگیا۔
یہ تصور 1991 میں پہلی بار ان سائنسدانوں نے پیش کیا جن کے مطابق انسان اور چمپینزی کروموسوم کا سٹیننگ پیٹرن خورد بین میں ایک سا نظر آتا ہے۔لیکن انسان کے کروموسوم کے ایسے حصے بھی ہیں جو بن مانس سے نہیں ملتے۔لہزا انسانی کروموسوم مکمل طور پر بن مانس کے کروموسوم جیسا نہیں۔
ارتقاء والوں کے مطابق جس جگہ انسان اور بن مانس کے کروموسوم ملے وہاں 800 جینیاتی اساسوں یا ڈی این اے بیس کا ایک سلسلہ موجود ہے۔لیکن یہ بہت ہی چھوٹا ہے یعنی صرف 800 اساس یا بیسز پر مشتمل اور یہ degenerate ہے یعنی اس میں تین کوڈان کا سلسلہ ایک ہی امایینو ایسڈ کوڈ کرتا ہے۔زندہ جانوروں میں جہاں بھی ڈی این اے کی فیوژن ہوتی ہے وہاں ایک خاص ڈی این اے کا سلسلہ ہوتا یے جسے satellite DNA یا sat DNA کہتے ہیں۔ٹیلومییر کسی ڈی این اے کے آخری سرے پر خاص نیوکلیوٹائیڈ کا ایک سلسلہ ہوتا ہے جو ڈی این اے کی حفاظت کرتا ہے اور اسے فیوژن سے بچاتا ہے۔یہ ایک طرح ڈی این اے کی کیپ کی طرح کام کرتا ہے۔یہ ٹیلو میئر نیوکلیوٹائیڈ کے ہزاروں سلسلوں پر مشتمل ہوتا ہے جو TTAGG اساس کا ایک سلسلہ ہوتے ہیں۔جہاں فیوژن ہوتی ہے وہاں سیٹ ڈی این اے ٹیلو میئر سے ملتا ہے یا سیٹ ڈی این اے دوسرے سیٹ ڈی این اے سے ملتا ہے۔لیکن یہ کبھی نہین ہوتا کہ فیوژن والی جگہ ٹیلو میئر ٹیلو میئر سے ملے جو کہ ارتقا والے دعوی کرتے ہیں۔ایسی کوئ مثال جینیٹکس میں نہیں ملتی فیوژن کی۔
2002 ء میں کروموسوم نمبر دو کی جس جگہ کو ارتقا والے فیوژن کی جگہ کہتے ہیں وہاں کے اردگرد کے 614000 ڈی این اے بیس کا سلسلہ کیا گیا اور پتہ چلا کہ یہ فیوژن والی جگہ ایک جین کے درمیان میں ہے جب کہ جینیٹکس میں ایسا نہیں ہوتا کہ فیوژن والی جگہ جین کے درمیان ہو۔پہلے اس جین کو سوڈو جین کہا گیا تھا لیکن اب جن جین کو سوڈو جین کہا جاتا ہے ان کا کام بھی دریافت کیا جا چکا ہے۔اس طرح یہ جگہ سوڈو جین کی بھی نہیں۔
یہ جین جو انسانی فیوژن والی جگہ کہی جانے والی جگہ پر ہیں وہ بن مانس کے کروموسوم 2A اور 2 B پر نہیں اور یہ بات فیوژن کا تصور غلط ثابت کر رہی ہے۔اگر فیوژن 2 اے 2 بی کروموسوم کی سے انسانی کروموسوم نمبر دو بنا تو پھر آپس کے جین کیوں مختلف ہیں۔اس،متضاد جین کے تصور کو جینیٹکس میں Lack of synteny کہا جاتا ہے۔
یہ سائٹ ایک جین DDX11L2 کے علاقے میں ہے جو کہ transcription factor binding site رکھتا ہے جو کہ جین کے پہلے انٹران میں موجود ہے۔جب کہ فیوژن والی جگہ کبھی جین نہیں ہوتا۔بلکہ سیٹ ڈی این اے یا ٹیلو میئر ہوتا ہے۔یہ بات بھی ارتقا کے فیوژن کے دعوے کے خلاف ہے۔اور بات یہ کہ اس فیوژن کے علاقے میں موجود DDX11L2 جین ریورس ڈی این اے سٹرینڈ پر یے اور یہ الٹی سمت میں ڈی کوڈ ہوتا یے نہ کہ آگے کی سمت میں۔اور یہ ایک خاص ریگولیٹری سویچ کوڈ کرتا ہے نہ کہ سیٹ ڈی این اے جو کہ فیوژن والی جگہ ہونا چاہیے۔فیوژن کہی جانے والی یہ جگہ ایک جین DD X11L2 کا لازمی حصہ ہے اور یہاں کوئ سیٹ ڈی این اے نہیں جو کہ فیوژن والی جگہ ہونا چاہیے۔یہ بات فیوژن کے تصور کو غلط ثابت کررہی ہے۔
یہ جین بذات خود RNA helicase DDX11L genes کے کمپلیکس کا حصہ ہے جو ریگولیٹری آر این اے کوڈ کرتا ہے اور انسان کے 225 سیلز اور ٹشوز میں موجود ہے۔اس جگہ پر کوئ degenerate fusion sequence نہیں جو کہ فیوژن والی جگہ ہوتا ہے اور کوئ فنکشنل جین نہیں رکھتا جب کہ یہاں فنکشنل جین موجود ہے اور یہ بات فیوژن کے تصور کو غلط ثابت کررہی ہے۔
ڈی این اے ہائبریڈائزیشن اور سٹیننگ فیوژن کا گمان ظاہر کررہی تھی لیکن جین سیکونسنگ نے یہ تصور غلط ثابت کر دیا ہے۔فیوژن کے نتیجے میں دو ٹیلو میئر کے دہرائے جانے والے بیس بننے چاہیے ۔فیوژن کے مقام پر ہزاروں intact motifs in tandem ہونے چاہیے۔فیوژن والی جگہ کے التی طرف TTAGGG کے 35 سے کم موٹف ہین جب کہ فیوژن والی جگہ پر ایک انسانی ٹیلو میئر کے 1667-2500 موٹف ہونے چاہیے جب کہ ایسا نہیں ہے۔جب کہ سیدھے طرف 150 اور الٹی طرف 35 سے کم موٹف ہیں۔یہ بات بھی فیوژن کے تصور کے خلاف ہے۔یہ موٹف فیوژن کی جگہ کی بجائے اس کے دونوں طرف بکھرے ہوئے ہیں اور تعداد میں بھی بہت کم ہیین۔دونوں طرف فارورڈ اور ریورس کمپلیمنٹ کے ٹیلو میئر ہیں جب کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔یہ ریپیٹ بھی کم،ہیں بھی فیوژن کہی جانے والی جگہ کے دونوں طرف یہ بھی فیوژن کے خلاف ھے۔
فیوژن والی جگہ کے ٹیلو میئر پر کوئ فنکشنل جین نہیں پائے جاتے لیکن یہاں فنکشنل جین موجود ہے جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا جب کہ فیوژن والی جگہ کے ٹیلو میئر پر کوئ فنکشنل جین نہیں ہونا چاہیے۔
جب کہ اس جگہ پر 24 فنکشنل اور 16 سوڈو جین پائے گئے ہیں سائنسدان دانوں کے مطابق کے اور یہ سوڈو جین بھی نئ تحقیق کے مطابق حقیقت میں سوڈو نہیں ہوتے۔فیوژن والی جگہ پر فنکشنل جین کی موجودگی ٹیلو میئر کے تصور اور فیوژن کے خلاف ہے۔
اس جگہ کے بالکل قریب دو اور جین بھی پائے گئے ہیں جو ان ایکٹو ہیں لیکن human ENCODE (Encyclopedia of DNA Elements) project کے مطابق یہ سوڈو جین بھی ریگولیٹری میکنزم کی وجہ سے فنکشنل ہوسکتے ہیں۔
دو ٹیلو میئر کا فیوژن میں ہونا ایک اور سائنسی اصول کو جنم دیتا ہے کیونکہ ٹیلو میئر فیوژن کو روکتے ہیں اور جب بھی aberrant fusion ہو تو سیل کی موت کا نظام حرکت میں آجاتا ہے۔
cryptic second centromere site کی فیوژن ماڈل کے مطابق کوئ گواہی ہو جب کہ یہ بھی نہیں ہے۔
فیوژن ماڈل میں دو سینٹرو میئر ہوں جب کہ دوسرے سینٹرو مئییر کی کوئ گواہی نہیں ہے ارتقا والوں کے پاس سوا یہ جھوٹا دعوی کرنے کے کہ دوسرا سینٹرو میئر ڈیلیٹ ہو گیا۔اس کی کوئ سائنسی گواہی موجود نہیں۔
اگر کوئ یہ کہے کہ دوسرے سینٹرو میئر کا ڈی این اے الفائیڈ ڈی این اے کی صورت میں کروموسوم نمبر دو میں موجود ہو تو اس کو صرف کروموسوم نمبر دو میں ہونا چاہئے جب کہ یہ انسانی کروموسوم کے نان سنٹرو میئر حصوں میں بھی ہے۔اور یہ الفائیڈ ڈی این اے بھی سنٹر و میئر ڈی این اے سے کوئ قریبی تعلق نہیں رکھتا۔انسان اور بن مانس کے الفائیڈ ڈی این اے۔ میں سوا کسی حد تک ایکس کروموسوم کے سینٹرو میئر کے کوئ ارتقائ یکسانیت نہیں۔
کروموسوم نمبر دو کے لانگ آرم پر فیوژن کے مطابق سینٹرو مییرک ڈی این اے کی بہت مقدار ہونی چاہیے تھی جب کہ ایسا نہیں ہے۔انسانی کروموسوم نمبر دو کا سنٹر و میئر فیوژن ماڈل کے کہے گئے مقام سے مختلف حالت میں ہے۔کروموسوم فیوژن سے نسل آگے نہیں بڑھتی خواہ فیوژن کسی بھی طریقے سے ہو۔اگر حمل ہو بھی جائے تو ایمبریو یا جنین ضائع ہوجاتا ہے۔جب نسل ہی آگے نہ بڑھی تو ارتقا کیسے ہوا۔لیکن اس سائٹ پر فنکشنل جین فیوژن کے تصور کے خلاف ہے۔
دو کروموسوم کے ملنے یا فیوژن سے صرف کروموسوم کی پیکنگ بدلتی ہے جب کہ جینیاتی معلومات نہیں۔اگر یہ فیوژن۔ ہوئ تو اج انسانوں کے دو گروہ ہونے چاہیے تھے۔ایک 48 کروموسوم والا اور دوسرا 46 کروموسوم۔ والا جیسا کہ 48 کروموسوم والے بن مانس موجود ہیں۔لیکن آج تک کوئ 48 کروموسوم والا انسان نہیں ملتا۔ارتقا والے کہ دیتے ہیں کہ پہلے یہ تھا اور اس کی نسل مٹ گئی۔لیکن ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں اس کا کہ کوئ 48 کروموسوم والا انسان بنا ہو۔
انسان اور بن مانس کروموسوم کے وائے کروموسوم میں 30% سے زیادہ فرق ہے جس کو ارتقا والے صرف 5-2 فیصد بیان کرتے ہیں جب کہ باقی کروموسوم کا فرق ابھی تک بیان نہیں کیا گیا۔
میملز میں اج تک ساری فیوژن سٹیلائٹ ڈی این اے کے مقام پر ہے۔ارتقائ فیوژن کی جینیٹکس میں کوئ مثال نہیں۔جس کا جینیٹکس میں کوئ ثبوت نہیں محض ارتقا والوں کا دعوی ہے تو اس کو بغیر کسی سائنسی گواہی کے کیسے مانا جا سکتا ہے۔
کروموسوم فیوژن کے علاقے میں کمپلیکس ملٹی ایگزان نہیں بنا سکتی جب کہ یہاں فنکشنل جین موجود۔فیوژن والی جگہ بن مانس کا سیٹ ڈی این اے ہونا چاہیے جب کہ یہ بھی نہیں ہے۔فیوژن کی جگہ کے اردگر پایا جانے والا جین مادہ بن مانس سے کوئ مطابق نہیں رکھتا۔یہ بات بھی فیوژن کے خلاف ہے۔جب کہ اپنے دعوے کے ثبوت کے لیے ارتقا والے کہتے ہیں کہ باقی ڈی این اے دوسرے سیلز سے آیا۔اس بات کی کوئ گواہی نہیں ن کے پاس۔جھوٹ پر جھوٹ بولے جا رہے ہیں جب کہ اس کی جینیاتی گواہی کوئ نہیں ارتقا والوں کے پاس۔مزید یہ جینیٹکس کی ریسرچ پڑھیں
putative, but degenerate head-to-head telomere fusion-like sequence of about 800 bases is one of the key pieces of evidence used by evolutionists to support the human chromosome 2 fusion model of two smaller ape-like chromosomes. However, the DNA sequence features do not match evolutionary expectations, being surprisingly small in size and extremely degenerate (Fan et al. 2002a; Tomkins and Bergman 2011a). In addition, the putative fusion site is not characterized by the presence of satellite DNA, a hallmark of known fusion events in living mammals, which was a surprise to researchers who first discovered it (Ijdo et al. 1991).
چمپینزی یا بن مانس کے ٹیلومیر کے علاقے میں خاص سیٹ ڈی این اے ہوتا ہے جو کہ انسانی جینوم میں نہیں پایا جاتا۔جب کہ فیوژن کے نتیجے میں اسے موجود ہونا چاہیے تھا۔ارتقا والے کہتے ہیں کہ انسان سے یہ ڈی این اے ضائع ہوگیا جب کہ اس کی ان کے پاس کوئ گواہی نہیں۔اور جھوٹا دعوی بغیر کسی سائنسی گواہی کے محض اپنا لولا لنگڑا نظریہ ارتقاء ثابت کرنے کے لیے جس کی جینیٹکس میں کوئ سائنسی گواہی موجود نہیں۔
اور گوریلا بن مانس انسان کی کیپ ڈی این اے خاص ہوتا ہے جب کہ فیوژن میں بھی یہ نہیں آیا۔یہ بات بھی فیوژن کے خلاف ہے۔اگر ان سب کا ارتقا ایک مشترک جانور سے ہوا تو یہ کیپ ڈی این اے کسی نہ کسی طرح ملتا لیکن کیپ ڈی این اے ہر سپی شیز میں مختلف ہے یعنی بن مانس انسان گوریلا سب میں۔
کافی سارے یہ حقائق جو ہم نے بیان کیے چمپینزی کروموسوم فیوژن کے تصور کے خلاف ہیں۔
جینیٹکس کی یہ ساری سائنسی وضاحت ثابت کرتی ہے کہ ایک سپی شیز کا ارتقا کے مطابق دوسری سپی شیز میں تبدیل ہونا اور بغیر کسی پیدا کرنے والے کے سب جاندار اشیاء کا خود بخود بننا جینیٹکس کی مستند سائنسی تحقیقات کے خلاف ہے۔جب کہ مذموم فری میسن ہاتھوں میں قید میڈیا نصاب سائنسی طبقہ خدا کے انکار کی حقیقت کھلنے اور نظریہ ارتقاء کے غلط ہوجانے کے ڈر سے یہ ساری سائنسی تحقیق نصاب میں نہیں آنے دیتا اور عوام کو وہ سائنسی تحقیق پڑھای جاتی ہے جو خود سائنسی تصورات کے خلاف ہے اور جس کو تخلیق کے نطریے پر پقین کرنے والے سائنسدانوں کے مقابلے میں ارتقائ سائنسدان آج تک ثابت نہیں کر سکے۔اور اپنا جھوٹ پکڑے جانے کے ڈر سے ان سائنسدانوں کو کئی باریورپ و امریکا میں ہراساں کیا جاتا ہے انہیں ڈگری دینے سے انکار کیا جاتا ہے اور ان کی ترقی روکی جاتی ہے اور ان کی سائنسی تحقیقات کو اپنے جریدوں میں شائع نہیں ہونے دیتے اور دعوی کرتے ہیں کہ ان کے پاس ارتقا کے حق میں لاکھوں آرٹیکل ہیں اور ارتقا کے حامی سائنسدان۔یہ دعوی ہمیشہ نہیں چلے گا۔اب ارتقا کے سائنسی جھوٹ عوام کو پتہ لگنا شروع ہوگئے ہیں۔ایک وقت آئے گا کہ چارلس ڈارون اور نظریہ ارتقاء کا نام بھی ایک گالی بن جائے گا ان شاء اللٰہ
تحریر۔۔۔ڈاکٹر احید حسن

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔