Monday, 28 August 2017

قرآن کی سائنسی تشریح پیش کرتے ہوئے ہمارا طرز عمل کیا ہونا چاہیے

ملحدین کے اکثر اعتراضات قرآن و حدیث کو سائنس کے ذریعے غلط قرار دینے کی کوشش پہ مبنی ہوتے ہیں۔پھر ان کے سائنسی جوابات کی نوعیت کیا ہونی چاہیے۔
لیکن اعلی تعلیم یافتہ طبقہ ہم سے اعتراضات کا جواب چاہتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ ہمیں قرآن کی تفسیر اور حدیث کی تشریح سے اس بات کا جواب دیا جائے۔کوئی اور راستہ اس کا ایمان بچانے کا ہمارے پاس موجود نہیں تو اس صورت میں ہمارا طرز عمل کیا ہونا چاہئے۔
اگر کوئی ملحد قرآن و حدیث کو سائنس کے خلاف ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے تو ہمارا رد عمل کیا ہوگا۔ہم قرآن و حدیث پہ ان سائنسی اعتراضات کا جواب کس طرح سائنس کی تشریح سے پیش کریں گے یا بالکل نہیں کریں گے تاکہ لوگ گمراہ اور ملحد ہوتے رہیں اور ہم قرآن کو سائنس سے الگ ہونے کا ڈھنڈھورا پیٹتے رہیں گے؟ 
جب کہ قرآن و حدیث کی واضح سائنسی تشریح موجود ہے
قرآن پارہ پچیس سورہ حم السجدہ کی آیت ہے
سَنُرِيْهِـمْ اٰيَاتِنَا فِى الْاٰفَاقِ وَفِىٓ اَنْفُسِهِـمْ حَتّـٰى يَتَبَيَّنَ لَـهُـمْ اَنَّهُ الْحَقُّ ۗ اَوَلَمْ يَكْـفِ بِرَبِّكَ اَنَّهٝ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ شَهِيْدٌ (53)
عنقریب ہم اپنی نشانیاں انہیں کائنات میں دکھائیں گے اور خود ان کے نفس میں یہاں تک کہ ان پر واضح ہو جائے گا کہ وہی حق ہے، کیا ان کے رب کی یہ بات کافی نہیں کہ وہ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔
یعنی اس آیت کے مطابق اللٰہ تعالٰی کائنات میں اور خود ان کے اپنے جسم میں اللٰہ تعالٰی انسان کو نشانیاں بتائے گا۔یہاں سائنسی تحقیقات اور اج کی دریافتوں کی طرف اشارہ ہے تو جب تک ہم یہ سائنسی تحقیقات اور دریافتیں اپنے مذہب سے ثابت نہیں کریں گے قرآن کی اس آیت یعنی ان پہ ان تحقیقات اور دریافتوں کی وجہ سے ہمارا کہا واضح ہوگا کی وضاحت کیسے ہوگی۔
یہاں قرآن خود کہ رہا ہے کہ ہم نشانیاں دکھائیں گے کائنات میں تو اب ان نشانیوں کا بیان قرآن کے بیان کے بغیر کیسے ممکن ہے۔
اس بارے میں ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ قرآن کی جس آیت کی واضح سائنسی تشریح موجود ہو وہ کر دی جائے لیکن جہاں واضح سائنسی تشریح موجود نہ ہو وہاں امکان اور ممکنہ تشریح بیان کر دی جائے کہ یہ مراد ہو سکتا ہے لیکن بہتر اللٰہ تعالٰی جانتا ہے
اور ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ جب بھی سائنسی تشریح پیش کی جائے عوام کو یہ بتا دیا جائے کہ انسان تو غلط ہوسکتا ہے لیکن خالق کا کلام نہیں۔لہذا ممکنہ تشریح موجود ہے سائنس میں لیکن ترجیح پھر بھی خالق کے کلام کو دی جائے گی جس میں غلطی کا کوئی امکان نہیں۔
سائنسی حوالے سے قرآن کی آیات دو طرح کی ہیں۔ایک وہ جن کا معنی و مفہوم واضح ہے۔دوسری وہ جن کا معنی و مفہوم واضح نہیں۔لہذا ہمارا طریقہ یہ ہوگا کہ جن آیات کی واضح سائنسی تشریح اور بیان قرآن میں موجود ہوگا ان کو ہم بیان بھی کریں گے اور ان کی تشریح بھی پیش کریں گے لیکن جہاں واضح معنی مراد نہیں ہوگا جیسا کہ بلیک ہول کے بارے میں کچھ لوگ قرآنی آیات پیش کرتے ہیں۔ اس میں صرف اور صرف ممکنہ معنی بیان کیا جائے گا یہ کہ کر یہ معنی ہوسکتا ہے لیکن تصدیق نہیں کیوں کہ قرآن نے اس بات کی مکمل تفصیل بیان نہیں کی۔لہذا جہاں بات واضح طور پہ ہماری سمجھ میں آنے والی نہ ہو وہاں زبردستی اس سے کوئی سائنسی نقطہ ثابت کرنے کی بجائے اس کی ممکنہ تشریح پیش کی جائے لیکن یہ نہ کہا جائے کہ لازمی طور پہ یہی معنی ہے۔
مثال کے طور پہ اگر ملحدین اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قرآن سورج کو ساکن کہتا ہے زمین کی حرکت کے خلاف ہے،قرآنی ایمبریالوجی نعوذ بااللہ غلط ہے تو ہم قرآن کی سائنسی تشریح کیے بغیر کیسے جواب دے سکتے ہیں۔
جب ملحدین کی طرف سے اس قسم کے اعتراضات کی بنیاد پہ نوحوان اعلی تعلیم یافتہ لیکن دین کی سمجھ نہ رکھنے والے نوجوانوں کو الحاد کی طرف دھکیلا جائے تو آپ اسی قرآن و حدیث سے سائنسی جواب دیے بغیر اعتراضات کا جواب کیسے دے سکتے ہیں کیوں کہ اعتراض جس چیز پہ ہے جواب بھی اسی چیز سے دینا ہوگا۔اس صورت میں قرآن و حدیث کو سائنس سے الگ کیسے کیا جا سکتا ہے۔
کئی دن سے ملحدین کی طرف سے یہ سوال اٹھایا جا رہا تھا کہ قرآن کا واقعہ فرعون و موسی اور فرعون کی لاش کے محفوظ ہونے کا بیان تاریخی،آرکیالوجیکل اور سائنسی طور پہ غلط ہے نعوذ بااللہ۔اس کے جواب کے لئے ہم نے مسلسل ایک ہفتہ تحقیق کی اور اس کے جواب میں دو پوسٹس آپریشن ارتقائے فہم و دانش اور اس گروپ میں بھی دے چکے ہیں۔تیسری پوسٹ جو ہماری اس تحقیق کا نتیجہ ہے ان شاء اللہ جلد دیں گے۔
ہم خود اس بات کے خلاف ہیں کہ قرآن کی ان آیات کو حتمی طور سائنس کے معنی میں بیان کریں جہاں قرآن نے واضح بات کی بجائے اشاروں یا کنایوں میں کوئی بات کی۔اس صورت میں ممکنہ تشریح پیش کی جائے۔یہی طریقہ اج تک قرآن کے تمام مفسرین کا رہا ہے کیونکہ صرف سائنسی نہیں ہر موضوع پہ قرآن کی کچھ آیات ایسی ہیں جن کا واضح مفہوم ہماری نظر میں سمجھ نہیں آتا۔لہذا حتمی طور پہ کچھ کہنے کی بجائے ممکنہ تشریح کی جائے لیکن جہاں بات اور قرآن کا بیان مکمل واضح ہو جیسا کہ انسان کی پیدائش کے مراحل زمین و سورج کی حرکت اور اس طرح کے دیگر مسائل وہاں ان آیات کی سائنسی بنیاد پیش کرنے میں کوئی عیب نہیں جب کہ قرآن خود کہتا ہے کہ ہماری کائنات میں موجود نشانیاں یعنی سائنسی تحقیق پیش کرو
اس صورت میں ہمارا طرز عمل یہ ہونا چاہیے کہ جہاں واضح سائنسی تشریح موجود ہے تو ٹھیک ورنہ ممکنہ تشریح پیش کی جائے یہ نہ کیا جائے کہ زبردستی اپنی طرف سے حتمی معنی پیش کیے جائیں۔یہی ہمیشہ سے قرآن کے مفسرین کا طریقہ رہا ہے۔ اور یہ بھی بتا دیا جائے کہ کئی سائنسی تحقیقات قرآن سائنس سے چودہ سو سال پہلے پیش کر چکا ہے لہذا یہ تو ہوسکتا ہے کہ سائنس غلط ہو لیکن خالق کے کلام میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں۔جدید تعلیم یافتہ طبقہ ہم سے اعتراضات کے جوابات چاہتا ہے۔اگر ہم نے جواب کی بجائے صرف پہلو تہی والا راستہ اپنایا تو عوام الحاد کی گمراہی میں جا گرے گی۔ایسی ایک نہیں بیسیوں مثالیں ہم دیکھ چکے ہیں۔ 
وجود باری تعالی اور معجزات کو سائنس سے ثابت کرنا تب لازمی ہے جب اسی سائنس سے ملحدین ان کو جھٹلانے کی کوشش کرتے ہیں جب کہ یہ باتیں سائنس کے خلاف نہیں بلکہ اب سائنس واضح الفاظ میں ان کی تصدیق کئی نوبل انعام یافتہ سائنسدانوں کی طرف سے کرا چکی ہے۔ایمان بالغیب سائنس کا محتاج نہیں لیکن کمزور ایمان والے لوگوں کا ایمان پختہ کرنے اور اعتراض کرنے والوں کے اعتراض کے جواب کے لیے یہ بہت لازمی ہے ورنہ ہمارا آدھے سے زیادہ معاشرہ جن کا ایمان بالغیب تو دوسری جگہ کلمہ اور دعائے قنوت تک ٹھیک نہیں آتی،الحاد کے گہرے گڑھوں میں گر چکا ہوگا۔
پارہ تین سورہ ال عمران میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ ہے۔
انہوں نے اللٰہ تعالٰی سے مردہ زندہ کرنے کا ثبوت مانگا۔
اور حضرت عزیر علیہ السلام کا واقعہ اسی سورت میں ہے۔ انہوں نے بھی اللٰہ تعالٰی سے مردہ زندہ کرنے کا ثبوت مانگا۔وہ تو پیغمبر تھے۔ان کا ایمان بالغیب ہم سے زیادہ تھا۔پھر انہوں نے کیوں اللہ تعالی سے واضح مشاہدے کا ثبوت مانگا۔
سورہ البقرۃ پارہ تین
اَوْ كَالَّـذِىْ مَرَّ عَلٰى قَرْيَةٍ وَّّهِىَ خَاوِيَةٌ عَلٰى عُرُوْشِهَا ۚقَالَ اَنّـٰى يُحْيِىْ هٰذِهِ اللّـٰهُ بَعْدَ مَوْتِـهَا ۖ فَاَمَاتَهُ اللّـٰهُ مِائَةَ عَامٍ ثُـمَّ بَعَثَهٝ ۖ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ ۖ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا اَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ۖ قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانْظُرْ اِلٰى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ ۖ وَانْظُرْ اِلٰى حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ اٰيَةً لِّلنَّاسِ ۖ وَانْظُرْ اِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ نُـنْشِزُهَا ثُـمَّ نَكْسُوْهَا لَحْمًا ۚ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَـهٝ قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللّـٰهَ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيْرٌ (259)
یا تو نے اس شخص کو نہیں دیکھا جو ایک شہر پر گزرا اور وہ (شہر) اپنی چھتوں پر گرا ہوا تھا، کہا اسے اللہ مرنے کے بعد کیسے زندہ کرے گا؟ پھر اللہ نے اسے سو برس تک مار ڈالا پھر اسے اٹھایا، کہا تو یہاں کتنی دیر رہا، کہا ایک دن یا اس سے کچھ کم رہا، فرمایا بلکہ تو سو برس رہا ہے اب تو اپنا کھانا اور پینا دیکھ وہ تو سڑا نہیں، اور اپنے گدھے کو دیکھ اور ہم نے تجھے لوگوں کے واسطے نمونہ چاہا ہے، اور ہڈیوں کی طرف دیکھ کہ ہم انہیں کس طرح ابھار کر جوڑ دیتے ہیں پھر ان پر گوشت پہناتے ہیں، پھر اس پر یہ حال ظاہر ہوا تو کہا میں یقین کرتا ہو ں کہ بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
یہ حضرت عزیر علیہ السلام تھے جنہوں نے اپنے ایمان الغیب کے باوجود اللٰہ تعالٰی سے مشاہدے کا ثبوت مانگا اور اللہ تعالٰی نے یہ ثبوت دے کر ان کا ایمان مزید پختہ کر دیا۔لہذا مشاہدات کا علم حیسا کہ سائنس کا بیان ایمان پختہ کرنے کے لیے غلط نہیں بلکہ یہ قرآن سے ثابت ہے اور جہاں تک بات آئے اعتراضات کے جوابات کی تو پھر یہ بہت لازمی اور اشد ضروری ہے۔
تو جو ایمان نہیں لا رہا اسے ہم قرآن و حدیث سے واضح سائنسی نشانیاں کیوں پیش نہیں کریں گی
وَاِذْ قَالَ اِبْـرَاهِـيْمُ رَبِّ اَرِنِىْ كَيْفَ تُحْيِى الْمَوْتٰى ۖ قَالَ اَوَلَمْ تُؤْمِنْ ۖ قَالَ بَلٰى وَلٰكِنْ لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِىْ ۖ قَالَ فَخُذْ اَرْبَعَةً مِّنَ الطَّيْـرِ فَصُرْهُنَّ اِلَيْكَ ثُـمَّ اجْعَلْ عَلٰى كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا ثُـمَّ ادْعُهُنَّ يَاْتِيْنَكَ سَعْيًا ۚ وَاعْلَمْ اَنَّ اللّـٰهَ عَزِيْزٌ حَكِـيْمٌ (260)
اور یاد کر جب ابراھیم نے کہا اے میرے پروردگار! مجھ کو دکھا کہ تو مردے کو کس طرح زندہ کرے گا، فرمایا کہ کیا تم یقین نہیں لاتے؟ کہا کیوں نہیں لیکن اس واسطے چاہتا ہوں کہ میرے دل کو تسکین ہو جائے، فرمایا تو چار جانور اڑنے والے پکڑ پھر انہیں اپنے ساتھ مانوس کرلے پھر (انہیں ذبح کرنے کے بعد) ہر پہاڑ پر ان کے بدن کا ایک ایک ٹکڑا رکھ دے پھر ان کو بلا تیرے پاس جلدی سے آئیں گے، اور جان لے کہ بے شک اللہ زبردست حکمت والا ہے۔
اس آیت میں ایک پیغمبر حضرت ابراہم علیہ السلام اپنے ایمان کے باوجود اگرچہ ان کا ایمان ہم سے کئ گنا زیا دہ تھا اللٰہ تعالٰی سے مشاہدات کی دلیل کیوں طلب کر رہے ہیں۔لہذا قرآن سے ثابت ہوتا ہے کہ ایمان کی پختگی اور اعتراضات کے جوابات کے لیے مشاہدے کے علم جیسا کہ سائنس کا بیان قرآن کے خلاف نہیں ہے
جب اسی سائنس سے ملحدین وجود باری تعالی اور معجزات کا انکار کریں گے اور ہم سے سائنسی جواب بھی طلب کریں گے تو ان کے سائنسی جواب کے بغیر اعتراض کرنے والے یا شک کرنے والے آپ کی بات پہ مکمل یقین کیسے کریں گے جب کہ ان کی بےشمار سائنسی دلیلیں موجود ہیں
میرا ایمان ہے کہ میرا مذہب اور میری کتاب کا ایک نقطہ بھی سائنس کے خلاف نہیں۔پھر جب ہم ہیں ہی حق پہ تو اس حق کو دلیل سے ثابت کیوں نہ کریں۔
اگر ایمان بالغیب کے لیے مشاہدہ لازمی نہیں ہے تو خود قرآن کے بیان کے مطابق حضرت ابراھیم علیہ السلام اور حضرت عزیر علیہ السلام نے اللٰہ تعالٰی سے واضح دلیل کیوں طلب کی اور دوسری بات یہ کہ جب ہر شخص کا ایمان پیغمبر جیسا نہیں تو پھر قرآن کے واضح سائنسی انکشافات کا بیان اور اعتراضات کا جواب کیوں نہ دیا جائے۔
اسلام اور جدید سائنس میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ اور قرآن مجید میں ایک ہزار سے زیادہ آیات سائنس کے متعلق گفتگو کرتی ہیں۔ قرآن میں موجود آیات کے متعلق حقائق جدید سائنس سے مکمل مطابقت رکھتے ہیں۔جب ہم ہیں ہی حق پہ تو اس حق کے بیان سے کیوں ڈریں۔
ہم سب جانتے ہے کہ کئی مرتبہ سائنس قہقرائی حرکت (یوٹرن Uturn) کرتی ہے (یعنی طے شدہ نظریات کے خلاف جاتی ہے) اس لئے قرآنی تعلیمات کے ساتھ موازنے کے لئے صرف تسلیم شدہ سائنسی حقائق کو ہی پیش کیا جائے گا۔ قیاسات، تخمینوں اور مفروضوں سے بحث نہیں کی جا سکتی جو خود سائنسی طور پر ثابت نہیں ہیں۔
لہذا ہم قرآن کو سائنسی طور پہ بیان کرنے کے لیے صرف مستند اور تسلیم شدہ سائنسی تحقیق کا بیان کریں گے اور باقی سب صورتوں میں ممکنہ تشریح پیش کریں گے تاکہ عوام شک میں نہ پڑے
ایمان کا تعلق لازمی یقین سے ہے لیکن ایمان کی پختگی کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت عزیر علیہ السلام جیسے پیغمبروں نے بھی اللٰہ تعالٰی سے مشاہدے کی دلیل طلب کی جن کا ایمان ہم سے لاکھوں گنا زیادہ تھا لہذا مشاہدے کے علم جیسا کہ سائنس کی دلیل ایمان کی پختگی اور اعتراضات کے جوابات کے لیے دینا خود قرآن سے ثابت ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔