قرآن مجید میں ایک جگہ فرعون کے متعلق ارشاد ہے: فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ آیَةً اللہ تعالیٰ نے فرعون کو مخاطب کرکے فرمایا ہے کہ غرقابی کے بعد ہم تیرے بدن کو پانی سے نکال دیں گے تاکہ تیرا بدن پچھلے لوگوں کے لیے قدرتِ خداوندی کی نشانی اور عبرت بن جائے۔
دوسروں کی عبرت کے لیے فرعون کی لاش کو دریا کی موج کے ذریعہ باہر ڈال دیا جس کو دیکھ کر لوگوں نے اس کی ہلاکت کا یقین کرلیا اور یہ لاش سب کے لیے نمونہ عبرت بن گئی پھر معلوم نہیں اس لاش کا کیا ہوا۔
تایخ سے پتا چلتا ہے کہ فرعون کوئی ایک شخص تو رہا ہی نہیں ہے۔ فرعون ایک بادشاہی لقب تھا اپنے وقت کے مصر کے بادشاہ اپنے لیے استعمال کرتے تھے جیسے پاکستان کے حکمران وزیر اعظم کہلاتے ہیں۔ مصر سے سینکڑوں، ہزاروں کی تعداد میں حنوط شدہ لاشیں دریافت کی گئی ہیں کیوںکہ ان دنوں مصر میں لاشوں کو حنوط کرنے کا رواج تھا۔ اسی طرح چین میں ہزاروں کی تعداد میں ممیاں پائی گئے ہیں جو اسلام سے پہلے کی ہیں۔
قران میں فرعون کا ذکر ہے لیکن قرآن میں اس فرعون کا نام نہیں ذکر کیا گیا جو حضرت موسی علیہ السلام کا پیچھا کرتے ہوئے اپنی فوج سمیت بحیرہ احمر میں غرق ہو گیا تھا۔ قرآن نے کسی خاص فرعون کا زکر نہیں کیا۔
ویسے اختلاف اس میں نہیں ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام والے فرعون کی لاش محفوظ ہے یا نہیں بلکہ اس میں ہے کہ وہ کون سا فرعون تھا۔ بعض لوگ اس کا نام رعمسیس دوم کہتے ہیں اور بعض اس کے جانشین اور بیٹے مرنفتاح اور بعض کے بقول تھٹموسس سوم(Thutmosis iii) لیکن زیا دہ قول اور شبہ رعمسس دوم پہ ہے۔
مصر کے میوزیم میں جو لاش ہے اس کے متعلق یقین سے نہیں کہاجاسکتا کہ یہ وہی فرعون ہے جس کا مقابلہ حضرت موسیٰ سے ہوا تھا یا کوئی دوسرا فرعون ہے کیوں کہ فرعون کسی ایک شخص کا نام نہیں۔ اس زمانے میں مصر کے ہربادشاہ کو فرعون کا لقب دیا جاتا تھا، مگر کچھ عجب نہیں کہ قدرت نے جس طرح غرق شدہ لاش کو عبرت کے لیے کنارہ پر ڈال دیا تھا اسی طرح آئندہ نسلوں کے لیے عبرت کے لیے اسے گلنے اور سڑنے سے محفوظ رکھا ہو اور وہ اب تک موجود ہو، بہرحال موجودہ لاش کے بارے میں یقین سے کچھ کہنا بہت مشکل ہے۔
رعمسس دوم کا ممی شدہ جسم 1898ء میں دریائے نیل کے قریب تبسیہ کے مقام پر شاہوں کی وادی سے اوریت نے دریافت کیا تھا۔جہاں سے اس کو قاہرہ منتقل کر دیا گیا۔اس نے اس عمل کا تفصیلی تذکرہ اورجسم کے جائزے کا حال اپنی کتاب ''شاہی ممیاں ''(1912ء) میں درج کیا ہے۔اس وقت یہ ممی محفوظ رکھنے کے لیے تسلی بخش حالت میں تھی حالانکہ ا س کے کئی حصے شکستہ ہوگئے تھے۔ اس وقت سے ممی قاہرہ کے عجائب گھر میں سیاحو ں کے لیے سجی ہوئی ہے۔ اس کا سر اورگردن کھلے ہوئے ہیں اورباقی جسم کو ایک کپڑے میں چھپاکرر کھا ہواہے۔ محمد احمد عدوی ''دعوة الرسل الی اللہ'' میں لکھتے ہیں کہ اس نعش کی ناک کے سامنے کا حصہ ندارد ہے جیسے کسی حیوان نے کھا لیا ہو۔
ملحدین کہتے ہیں کہ فرعون کا قد تو محض چند فٹ ہے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے مطابق قدیم لوگوں کے قد بہت بڑے ہوتے تھے۔اعتراض ہی غلط ہے۔فرعون کی تاریخ محض تین ہزار سال پرانی ہے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث شریف جس میں قد بڑے ہونے کا ذکر ہے وہ حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے کے حوالے سے ہے اور اس کے بعد بتدریج قد چھوٹے ہوتے گئے۔واضح رہے کہ سائنس کے مطابق آدم علیہ السلام کا زمانہ اج سے ایک سے ڈیڑھ لاکھ سال پہلے بتایا جاتا ہے اور فرعون کا زمانہ محض اج سے تین ہزار سال پہلے کا ہے۔اب ستانوے ہزار سے ایک لاکھ سنتالیس ہزار سال کے عرصے میں بتدریج میوٹیشن یعنی جینیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے انسانوں کے قد چھوٹے ہونا سائنسی طور پہ عین ممکن ہے۔
ڈاکٹر مورس بوکائیے کی تحقیق کے مطابق بنی اسرائیل پر ظلم وستم کرنے والے حکمران کا نام رعمسس دوم تھا۔ بائیبل کے بیا ن کے مطابق اس نے بنی اسرائیل سے بیگا رکے طور پر کئی شہر تعمیر کروائے تھے جن میں سے ایک کانام ''رعمسس ''رکھا گیا تھا۔ جدیدِ تحقیقات کے مطابق یہ تیونس اورقطر کے اس علاقے میں واقع تھا جو دریائے نیل کے مشرقی ڈیلٹے میں واقع ہے۔
جب ڈاکٹر مورس بکائیل کو بتایا گیا کہ مسلمانوں کی مقدس کتاب میں یہ لکھا ہواہے کہ فرعون کو غرق کر کے اس کی لاش کو عبرت کے لیے محفوظ کردیا ہے یہ سن کر ڈاکٹر حیران ہوئے اور حقیقت جاننے کے لیے مسلمان سائنسدان سے رجوع کیا۔ انھیں سورۃ یونس کی آیت 90۔92 پڑھ کر سنائی گئی ان آیات کو سن کر انھیں بہت حیر ت ہوئی کہ قرآن کا نزول فرعون کی موت سے 2 ہزارسال بعد ہوا اور کوئی فرعون کی لاش کے مطابق نہیں جانتا تھا لیکن قرآن کی پیشنگوئی سچ ثابت ہوئی اور انھوں نے اسلام قبول کیا ان کی کتاب ” بائبل ،قرآن اور سائنس ” نے دنیا میں دھوم مچائی ہوئی ہے ۔
فرعون کی لاش کے حنوط کیے جانے یا کسی بھی دوسرے طریقے سے محفوظ ہونے کا کوئ ذکر بائبل یعنی انجیل میں نہیں ہے۔لہذا مورس بکالے نے اس بات کی تصدیق کی کہ فرعون کے بارے میں قرآن کا بیان بائبل کے مقابلے میں حقیقت پہ مبنی ہے۔مورس بکائے ان حقائق کی بنیاد پہ تصدیق کرتے ہیں کہ قرآن اللٰہ تعالٰی کا کلام ہے۔ان کی قرآن کے تاریخی و سائنسی حقائق کی تصدیق نے یورپ میں اہل علم حضرات کے ایک ایسے مکتبہ فکر کو فروغ دیا ہے جسے Bucailleism کہتے ہیں جن کے مطابق قرآن اپنے تاریخی و سائنسی حقائق کے حوالے سے ثابت کرتا ہے کہ وہ اللٰہ تعالٰی کا کلام ہے۔غیر مسلم بھی قرآن کی حقانیت کا اقرار کر چکے ہیں۔
جون1975ء میں ڈاکٹر مورس بوکائیے نے مصری حکمرانوں کی اجازت سے فرعون کے جسم کے ان حصوں کا جائزہ لیا جو اس وقت تک ڈھکے ہوئے تھے اور ان کی تصاویر اتاریں۔ پھر ایک اعلیٰ درجہ کی شعاعی مصوری کے ذریعے ڈاکٹر ایل میلجی اورراعمسس نے ممی کا مطالعہ کیا اورڈاکٹر مصطفی منیالوی نے صدری جدارکے ایک رخنہ سے سینہ کے اندرونی حصوں کاجائزہ لیا۔ علاوہ ازیں جوف شکم پر تحقیقات کی گئیں۔ یہ اندرونی جائزہ کی پہلی مثال تھی جو کسی ممی کے سلسلے میں ہوا۔اس ترکیب سے جسم کے بعض اندرونی حصوں کی اہم تفصیلات معلوم ہوئیں اور ان کی تصاویر بھی اتاری گئیں۔ پروفیسر سیکالدی نے پروفیسر مگنواورڈاکٹر دوریگون کے ہمراہ ان چند چھوٹے چھوٹے اجزا کاخوردبینی مطالعہ کیا جوممی سے خود بخود جد اہوگئے تھے۔
ان تحقیقات سے حاصل ہونے والے نتائج نے ان مفروضوں کو تقویت بخشی جو فرعون کی لاش کے محفوظ رہنے کے متعلق قائم کیے گئے تھے۔ ان تحقیقات کے نتائج کے مطابق فرعون کی لاش زیادہ عرصہ پانی میں نہیں رہی تھی اگر فرعون کی لاش کچھ اورمدت تک پانی میں ڈوبی رہتی تو اس کی حالت خراب ہوسکتی تھی ،حتیٰ کہ اگر پانی کے باہر بھی غیر حنوط شدہ حالت میں ایک لمبے عرصے تک پڑی رہتی تو پھر بھی یہ محفوظ نہ رہتی۔
جیساکہ ان نتائج سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرعون کی لاش کو محفوظ رکھنے کا خا ص اہتمام کیا تھا جس کی وجہ سے یہ ہزاروں سال تک زمانے کے اثرات سے محفوظ رہی اورآخرکار اس کو انیسویں صدی میں دریافت کیاگیا اورانشاء اللہ یہ قیامت تک آنے والی نسلوں کے لیے سامان عبرت رہے گی۔
فرعون کی لاش کے متلعق سادہ مسلمانوں کی غلط فہمیاں درج ذیل ہیں۔
2:رعمسس دوم(Ramses ii)ہی وہ فرعون ہے جس نے بنی اسرائیل کو اذیت میں ڈالا اور بعد میں حضرت موسی علیہ السلام اور بنی اسرائیل کا پیچھا کرتے ہوئے بحیرہ قلزم یعنی بحیرہ احمر میں غرق ہوا۔یہ بات درست ہے کہ زیادہ تر قیاس یہی ہے کہ رعمسس دوم ہی فرعونِ موسٰی ہے لیکن یہ بات پہ بھی تاریخی طور پہ مکمل طور پہ ثابت شدہ نہیں ہے۔تھٹموسس سوم،رعمسس دوم،مرنفتاح وہ فرعون ہیں جن کے بارے میں دعوی کیا جاتا ہے کہ وہ فرعون موسی علیہ السلام ہیں لیکن کسی کے بارے میں یقینی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے۔فرعون موسی کون تھا اج بھی یہ عنوان مورخین اور ماہرین آثار قدیمہ میں لمبی بحث کا عنوان ہے۔
2:یہ کہ رعمسس دوم ہی فرعون موسی علیہ السلام ہے اور اس فرعون کی لاش 1898ء میں سمندر میں تیرتی ہوئی ملی۔یہ بات غلط ہے۔فرعون کی لاش قدیم مصری بادشاہوں کے مقبرے میں باقی فرعونوں کی ممیوں کے ساتھ ملی۔یہ بات میں پہلے ہی بیان کر چکا ہوں کہ رعمسس دوم یقینی طور پر فرعون موسی علیہ السلام نہیں ہے۔اگر وہ فرعون موسی علیہ السلام ہے بھی سہی تو عین ممکن ہے کہ سمندر میں غرق ہونے کے بعد اس کی لاش جب ملی تو اس کی قوم نے اس کی لاش کو حنوط کرکے محفوظ کر لیا جیسا کہ یہ اس زمانے کا رواج تھا کہ قدیم مصری اپنے سرکردہ افراد اور بادشاہوں کی لاشوں کو حنوط کرکے ان کی لاش کے قیمتی زیورات اور نوادرات کو لٹیروں اور چوروں سے محفوظ کرنے کے لیے انہیں خفیہ قبرستانوں میں دفن کر دیتے تھے۔
3:غلط فہمی یہ ہے کہ فرعون کی لاش بغیر جنوط کیے اج تک تروتازہ ہے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اللٰہ تعالٰی نے قرآن مجید میں فرعون کی لاش کو محفوظ کرنے اور اسے بعد میں آنے والے لوگوں کے لیے عبرت کے طور پہ محفوظ کرنے کا ذکر کیا لیکن یہ کہیں پہ نہیں کہا کہ وہ ہمیشہ سے پانی میں تیر رہی تھی اور بغیر حنوط کیے محفوظ ہے۔لہذا جب قرآن فرعون کی لاش کو دنیا کے لیے عبرت بنانےکی بات کی تو لازمی نہیں کہ وہ بغیر حنوط یعنی ممی کیے عبرت بنانے کا ذکر ہو نہ ہی قرآن ایسا کچھ کہتا ہے بلکہ ممی بننے کے بعد اج بھی فرعونوں کی لاشیں دنیا کے لیے قابل عبرت ہیں کہ کس طرح اللٰہ تعالٰی کے احکامات کا انکار اور دیوتاؤں کی پوجا کرنے والے اور خدا کہلوانے والے فرعون بے بس پڑے عبرت کا نشان بنے ہوئے ہیں۔
4:کچھ لوگ کہتے ہیں کہ رعمسس دوم یعنی ان کے خیال میں فرعون موسی علیہ السلام کی ممی پہ گوشت بڑھتا رہتا ہے اور آخر کار اس پہ چوہے چھوڑے جاتے ہیں اور وہ اس ممی کا اضافی گوشت کھا لیتے ہیں اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ رعمسس دوم یعنی فرعون موسی علیہ السلام کی ممی کی اللٰہ تعالٰی کی طرف سے حفاظت کی جا رہی ہے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ فراعین مصر کی لاشوں کو اللٰہ تعالٰی نے حنوط کے ذریعے محفوظ کرکے ان کو باقی دنیا کے لیے عبرت بنایا ہے کہ کس طرح اتنے طاقتور بادشاہ موت اور فنا کے ہاتھوں نہ بچ سکے لیکن اس بات کا کوئی حوالہ ہمیں نہیں ملا جس کے مطابق رعمسس دوم یعنی فرعون موسی تصور کیے جانے والے فرعون کی لاش پہ خود بخود گوشت بڑھتا ہے جس کو کم کرنے کے لیے اس کی ممی پہ چوہے چھوڑے جاتے ہیں۔اس بات کا کوئ مستند حوالہ کسی ساتھی کے پاس ہو تو وہ فراہم کردے تاکہ اس بات کی حقیقت کا تعین کیا جا سکے۔
5:کچھ سادہ مسلمان کہتے ہیں کہ ایلیٹ اسمتھ نے 8جولائی 1907ء کو ا س کے جسم سے غلافوں کو اتارا، تو اس کی لاش پر نمک کی ایک تہہ جمی پائی گئی تھی جو کھاری پانی میں اس کی غرقابی کی ایک کھلی علامت تھی ۔ یہ غلط ہے۔حقیقت یہ ہے کہ حنوط کرنے کے عمل میں بذات خود مصالحہ جات استعمال کیے جاتے ہیں جن میں نمک بھی ہوتا ہے۔لہذا لاش پہ نمک ملنا اس کی لاش کے سمندر میں غرق ہونے کی نشانی نہیں ہے۔حنوط کے عمل کے دوران اعضا سے تہی نعش کو نیٹرون یعنی سوڈیم کاربونیٹ کے نمک سے اندر اور باہر سے خشک کیا جاتا۔۔۔ہمیں اسلام کی تصدیق کے لیے ایسی بغیر ثبوت باتیں نہیں کرنی چاہیے جن کی بنیاد پہ ملحدین و غیر مسلمین بعد میں مسلمانوں کا مذاق اڑائیں۔
خلاصہ یہ کہ اسلام اپنی سچائی کے لیے ثبوتوں کا محتاج نہیں لیکن ایسے ثبوت نہیں پیش کرنے چاہیے جن کی حقیقت غیر مستند ہو۔
نزول قرآن کے وقت فرعون کے غرق ہونے کے واقعہ کا ذکر صرف بائیبل کے مخطوطات میں تھا اور اس میں بھی صرف اتنا لکھا تھا: "خداوند نے سمندر کے بیچ ہی مصریوں کو تہ و بالا کر دیا اور فرعون کے سارے لشکر کو سمندر میں غرق کر دیا۔" (خروج 14:28) اس وقت قرآن نے حیرت انگیز طور پر یہ اعلان کیا کہ فرعون کا جسم محفوظ ہے اور وہ دنیا والوں کے لیے سبق بنے گا۔
"اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر پار کرا دیا تو ان کا پیچھا کیا فرعون اور اس کے فوجیوں نے، سرکشی اور زیادتی کی غرض سے۔ یہاں تک کہ جب وہ ڈوبنے لگا تو بول اٹھا کہ ایمان لایا کہ نہیں ہے کوئی معبود، مگر وہی جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے، میں اس کے فرماں برداروں میں بنتا ہوں۔ جواب دیا گیا۔ اب ایمان لاتا ہے، حالانکہ تم نے اس سے پہلے نافرمانی کی اور تو فساد برپا کرنے والوں میں سے تھا۔ پس آج ہم تیرے جسم کو بچائیں گے تاکہ تو اپنے بعد والوں کے لیے نشانی بنے اور بے شک بہت سارے لوگ ہماری نشانیوں سے غافل رہتے ہیں۔"
(یونس 10: 92 تا95)
جب قرآن کی یہ آیت اتری تو یہ نہایت عجیب بات تھی۔ اس وقت کسی کو خیال تک نہ تھا کہ فرعون کا جسم کہیں محفوظ موجود ہوگا، مگر پروفیسر لاریٹ نے 1898ء میں آیت کے نزول سے تقریباً تیرہ سو سال بعد اس فرعون کے جسم کو مصر کے ایک قدیم مقبرے میں دریافت کر لیا۔
اسلام کے دور کے لوگو ں کو مصر میں فرعونوں کی لاشوں کو مومیائی کئے جانے کا علم نہیں تھا ۔
بوکائے برسوں جدید علمی انکشافات اور قرآن کریم کی آیات کے بارے میں تحقیق اور آپس میں مطابقت کرتے رہے لیکن انھوں نے حتی ایک مورد بھی علمی حقائق کے خلاف یا متضاد نہیں پایا۔جس کی وجہ سے ان کے ایمان میں روزبروز اضافہ ہوتا گیا اور وہ قرآن کی طرف سے بلکل مطمئن ہوگئے کہ اس میں باطل کے داخل ہونے کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔اس فرانسیسی دانشور کی برسوں کی تحقیق کے نتیجہ میں قرآن، توریت ، انحیل اور علم کے نام سے ایک کتاب مرتب ہوئی ، انھوں نے اس کتاب کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ قرآن کے علمی پہلوؤں نے مجھے بہت زیادہ حیرت میں ڈال دیا ہے ۔میں کبھی بھی فکر نہیں کرتا تھا کہ قرآن کریم نے مختلف موضوعات کواتنی باریکی کے ساتھ بیان کیا ہوگا۔ ایسے مطالب جو مکمل طور پر جدید علمی انکشافات کے مطابق ہیں اور وہ بھی چودہ سو سال قبل بیان کئے گئے ہیں ۔بوکائے کی کتاب نے مغربی ممالک کو ہلاکر رکھدیا اور دانشوروں کوحیرت میں ڈال دیا ہے ۔یہ کتاب پہلی اشاعت کے بعد ہی نایاب ہوگئی جس کے بعد اس کے ہزاروں نسخے پھر سے شائع کئے گئے۔اس کتاب کا انگریزی ،عربی، فارسی ،ملایو ،صربیائی ،یوکراینی،ترکی، اردو، اور جرمنی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے ۔ مغرب کے بعض افراد نے بوکائے کی اس کتاب کو مسترد کرنے کی کوشش کی لیکن جب انھوں نے اس کتاب کے مضمون میں دقت کی اور قرآن کریم کے علمی اعجاز سے آشنا ہوئے تو عظمت قرآن کا اعتراف کرلیااور کلمہ شہادتین اپنی زبانوں پر جاری کیا۔
مورس بکائے کے مطابق وہ خود اس بات پہ حیران ہیں کہ تیرہ سو سال قبل نازل ہونے والا قرآن وہ سائنسی حقائق بیان کر رہا ہے جو اج کی جدید سائنس اب تیرہ سو سال بعد دریافت کر رہی ہے۔
حوالہ جات:
www.mubashirnazir.org/ER/L0014-00-Safarnama.htm
http://lifetips.pk/archives/27653
http://shianswers.blogspot.com/2013/08/blog-post_27.html?m=1
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/History--Biography/2958
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔