Sunday 6 August 2017

نینڈر تھال کی حقیقت


کیا نینڈر تھال حقیقی انسان نہیں تھے؟کیا جدید انسان میں موجود نینڈر تھال کے ڈی این اے سے انسان کے آدم و حوا سے پیدا ہونے کا تصور غلط ہو گیا ہے؟
ایک ملحد کا اعتراض ہے کہ انیسویں صدی کے آخر میں جرمنی اور سپین سے دریافت ہونے والے نینڈر تھال حقیقی انسان نہیں تھے اور آج کے انسانوں میں 4-5% ڈی این اے نینڈر تھال انسانوں سے آیا ہے اور یہ بات ثابت کرتی ہے کہ انسان آدم و حوا سے نہیں بلکہ ارتقاء سے وجود میں آیا۔مزید اس کا کہنا ہے کہ اس طرح آدم و حوا علیہ السلام کے حوالے سے قرآن و بائیبل کا تصور نعوذ بااللہ غلط ثابت ہوتا ہے اور مذہب کے پیروکار اس کا ابھی تک کوئ جواب نہیں دے سکے۔اس الزام کی حقیقت کیا ہے۔اس کا جائزہ ہم اس مضمون میں لیں گے۔
ملحدین اکثر دعوی کرتے ہیں کہ آج تک خدا کے وجود پہ کوئ سائنسی تحقیقات نہیں آئ جب کہ مخلوقات کو ارتقاء کی بجائے خدائ تخلیق قرار دینے والے سائنسدان اپنی ہر تحقیق میں خدا کی ذات کے ثبوت پہ بات کرتے ہیں۔ملحدین چونکہ اپنے نظریات سے چپکے ہوئے ہیں۔اس لیے انہیں دوسرے فریق کے نقطہ نظر کو جاننے اور اس معاملے کی چھان بین سے زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔
مخلوقات کی خدائ تخلیق پہ یقین رکھنے والے سائنسدان۔۔۔۔۔۔Creationists..... اکثر کہتے ہیں کہ انیسویں صدی کے آخر میں جرمنی و سپین میں دریافت ہونے والے نینڈر تھال جانور درحقیقت انسان ہی تھے جب کہ ارتقاء کے حامی ان کو جدید انسان کے مشابہ نہیں بلکہ انسان کے ارتقاء میں ایک درمیانی سلسلہ یا مسنگ لنک قرار دیتے ہیں۔آج ارتقاء کے حامی بھی مان چکے ہیں کہ یہ نینڈر تھال انسان تھے۔یہ نینڈر تھال جدید انسان سے زیادہ مختلف نہیں تھے۔ان کا جدید انسان سے فرق صرف اتنا ہے جتنا آج انسان کی مختلف اقوام کا ایک دوسرے سے ہے(Morris and Park 1982)۔
آج نینڈر تھال انسان کو آج کے انسانوں کی طرح Homospiens کہا جاتا ہے(Huse 1983)۔درحقیقت ان نینڈر تھال انسانوں کو آج Homosapiens neanderthalensis کا نام دیا گیا ہے یعنی انسان کی ہی ایک قسم یا sub species کیونکہ ان کا جدید انسان سے فرق بہت کم ہے جیسا کہ ان کے ابرو کے ابھار تھوڑے ذیادہ،لمبی کم بلند کھوپڑی اور طاقتور ڈھانچہ۔لیکن کچھ سائنسدان ان کو الگ سپی شیز قرار دینے پہ مصر ہیں جسے وہ Homo neanderthalensisکا نام دیتے ہیں۔(1)
تحقیقات ظاہر کرتی ہیں کہ ان نینڈر تھال انسانوں کا ڈی این اے وسیع پیمانے پر آج کے انسانوں میں موجود ہے لیکن ان تحقیقات میں کچھ مسائل ہیں۔پہلا یہ کہ نینڈر تھال انسانوں کے ڈی این اے کے متعلق ہمارا علم صرف چند نینڈر تھال انسانوں پہ مبنی ہے جس میں سے صرف ایک کا جینیاتی سلسلہ یا Genomic Sequence مکمل اور بہتر ہے۔کس طرح صرف چند نینڈر تھال انسانوں کے ڈی این اے کو استعمال کر کے دنیا بھر کے آج کے انسانوں کے جینوم یعنی ڈی این اے کے بارے میں اتنا بڑا شماریاتی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ تحقیقات کرنے والوں کو کئ شماریاتی ماڈل استعمال کرنے پڑے اور ان کی بنیاد پہ ایک اکثریت کا اصول۔۔۔۔۔Majority Rule.....مرتب کر کے یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ کونسا نتیجہ قابل اعتماد ہے اور کونسا نہیں۔
مخلوقات کی خدائ تخلیق پہ یقین رکھنے والے سائنسدانوں۔۔۔۔۔۔۔۔Creationists.....کے نزدیک نینڈر تھال انسان انسانی نسل میں ایک اور سلسلے کو ظاہر کرتے ہیں اور کچھ نہیں۔یعنی یہ انسان ہی ہیں اور ارتقاء کا کوئ درمیانی سلسلہ نہیں۔(2)
مئ 2010 میں سائنسدانوں نے دعوی کیا کہ انہوں نے نینڈر تھال انسانوں کے جینیاتی سلسلے یا جینوم کا ایک مکمل مسودہ یا نقل تیار کر لی ہے۔یہ تحقیق جرمنی میں میکسویل پلانک انسٹٹیوٹ کے ارتقائ حجری حیاتیات۔۔۔۔Evolutionary Anthropology.....کے شعبے میں کی گئ جس کے سربراہ سوانتے پابو۔۔۔۔۔Svante Paabo.....تھے۔سائنسی محقیقین کے ایک گروہ نے وندیجا کی غار۔۔۔۔۔Vindija Cave....کروشیا سے ملنے والے ایک نینڈر تھال انسان کی ہڈی سے جزوی تحلیل شدہ ڈی این اے کے ٹکڑے لیے،ان کو ترتیب دیا اور ان سلسلوں کو ہٹا دیا جن کا ماخذ جراثیم یعنی بیکٹیریا تھے۔انہوں نے دیکھا کہ ان نینڈر تھال انسانوں کے ڈی این اے میں جدید انسان سے مختلف 78 سلسلے تھے جو ان کے خیال میں تب وجود میں ا یے جب یہ نینڈر تھال جدید انسان آباؤ اجداد سے آج سے کئ لاکھ سال قبل جدا ہوئے۔انہوں نے دیکھا کہ صرف جدید افریقی لوگوں کے جینوم یعنی مکمل وراثتی مادے میں یہ نینڈر تھال جینوم کے سلسلے نہیں تھے۔اس سے انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جدید انسان اور نینڈر تھال کے درمیان باہم جنسی ملاپ تب ہوا جب جدید انسان افریقہ سے ہجرت کر چکے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ آج کے یورپ اور ایشیا کے انسانوں کا 4-5% ڈی این اے جنسی ملاپ کے نتیجے میں نینڈر تھال انسانوں سے آیا ہے۔اس نتیجے پر اعتماد کرنا اس لیے مشکل ہے کہ اس تحقیق میں شامل ڈی این اے کم معیار کا تھا۔دوسری بات یہ بھی ہے کہ یہ یقین نہیں ہے کہ اس میں سے کونسا ڈی این اے حقیقت میں نینڈر تھال کا تھا اور کونسا موت کے بعد مائیٹو کونڈریا میں ڈی این اے کی توڑ پھوڑ کا نتیجہ تھا۔مائیٹو کونڈریا کا ڈی این اے نیوکلیائی ڈی این اے سے زیادہ قیام پذیر ہوتا ہے جب کہ ان سائنسدانوں نے جینوم یعنی نیوکلیائی ڈی این اے کا سلسلہ استعمال کیا تھا۔لیکن اس کے باوجود بھی اس بات کی گواہی موجود ہے کہ نینڈر تھال انسان کا جدید انسان سے جنسی ملاپ ہوا تھا جیسا کہ ایک تخلیقی سائنسی ماڈل کہ سکتا ہے۔(3)
ارتقاء کے حامی آج کے انسان اور نینڈر تھال کو الگ الگ سپی شیز یا جانوروں کی نوع قرار دیتے ہیں جو ایک دوسرے سے آج سے پینتیس سے اسی ہزار سال پہلے بچھڑ گئے۔لیکن خدائ تخلیق کے تصور پہ یقین رکھنے والے سائنسدان۔۔۔۔۔۔Creationists.....کے مطابق یہ دو الگ الگ سپی شیز نہیں بلکہ نینڈر تھال جدید انسان کا ہی ایک سلسلہ ہے جو ان سے بچھڑ گیا تھا اور گزشتہ کچھ سالوں کی سائنسی تحقیقات اس تصور کی حمایت کر رہی ہیں جیسا کہ جلد کے زرد رنگ،او بلڈ گروپ کے جین انسانوں سے بہت مشابہ ہیں جب کہ ارتقاء کے ماہرین ان کو اب تک صرف جدید انسان تک محدود سمجھتے تھے۔مزید برآں نینڈر تھال جدید انسان کی طرح بولنے اور اعلٰی ذہنی سوچ ک صلاحیت رکھتے تھے۔اس طرح نینڈر تھال درحقیقت انسانی نسل کے اندر ایک تھوڑا سا مختلف جینوم رکھتے ہیں۔یعنی یہ حقیقت میں انسان ہی تھے جن کو ارتقاء کے حامیوں نے انسانی ارتقائ کی علامت قرار دے کے قرآن و بائیبل پہ حملے شروع کر دیئے اور آدم و حوا کے تصور کو فرضی قرار دے دیا۔(4)
یہ نینڈر تھال (جن کو ارتقا کے حامی نینڈر تھال Hominid یا Homo neanderthalensis کہتے ہیں)یورپ کے اکثر و بیشتر حصوں اور شمالی افریقہ میں آباد تھے۔ارتقاء کے حامیوں کے مطابق انسان کے مائیٹو کونڈریا کے ڈی این اے۔۔۔۔mtDNA....کا نینڈر تھال کے ڈی این اے سے موازنہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ نینڈر تھال جدید انسان کے ارتقائ سلسلے سے ساتھ ہزار سال پہلے الگ ہوگئے اور جدید انسان کی نسل میں مائیٹو کونڈریا کے ڈی این اے میں ان کا زیادہ حصہ نہیں اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ نینڈر تھال جدید انسان سے ایک الگ سپی شیز تھے۔لیکن یہ بات سائنس سے تصدیق شدہ نہیں ہے۔لیوبینو۔۔۔۔Lubenow....نے 1998ء میں کہا کہ جدید 1669 انسانوں کے 994 جینیاتی سلسلوں۔۔۔۔Gene sequence...کا صرف ایک نینڈر تھال سے موازنہ غلط ہے۔مذید برآں جدید انسانوں کے مائیٹو کونڈریا کے ڈی این اے کافرق ایک سے چوبیس جگہ ہوتا ہے جس کی اوسط آٹھ بنتی ہے جب کہ جدید انسان اور نینڈر تھال کے مائیٹو کونڈریا کے کے جینیاتی سلسلے کا فرق 22 سے 36 جگہ پہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ فرق بہت معمولی ہے اور نینڈر تھال ایک مختلف سپی شیز نہیں بلکہ حقائق کے مطابق انسان کی ہی ایک نسل تھے(Neanderthals are still human!Dave Phillips,Impact Vol.323,May 2000)اس طرح ملحدین کا یہ کہنا غلط ہے کہ نینڈر تھال انسان نہیں تھے اور آدم و حوا کے وجود کا تصور غلط ہے۔
یہ ممکن ہے کہ جدید انسانی نسل میں نینڈر تھال کا بھی حصہ ہے لیکن ان کا مائیٹو کونڈریا کا ڈی این اے جینیاتی تنوع۔۔۔۔Genetic Diversity...کے ختم ہونے سے غائب ہو گیا۔جیسا کہ کان اور گبن۔۔۔Kahn And Gibbon....لکھتے ہیں
"جدید انسان جینیاتی حوالے سے جدید حد تک مشابہ ہیں کیونکہ ان کے آباؤ اجداد میں ست کچھ کو آبادی بڑھانے میں رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑا جس سے کئ جینیاتی تغیرات۔۔۔۔Genetic Variation....ختم ہوگی۔"
اس طرح نینڈر تھال انسانوں کی بھی کئ جینیاتی تغیرات جدید انسان میں منتقل نہ ہوسکے۔
انسان اور نینڈر تھال کے درمیان مائیٹو کونڈریا کے ڈی این اے کا فرق
جین میں تبدیلی یا۔۔۔۔۔۔Mutational Hotspot....کے مقانات پہ ہے جہاں کافی جینیاتی تبدیلیاں مختصر عرصے میں وقوع پذیر ہوسکتی ہیں۔ان سائنسی تحقیقات کو دیکھتے ہوئے نینڈر تھال اور جدید انسان میں جینیاتی فرق زیادہ نہیں اور نینڈر تھال حقیقت میں انسان ہی ہیں۔ اور اس فرق کے علاوہ نینڈر تھال کا ڈی این اے 99.5 سے 99.9 تک جدید انسان سے ہی ملتا ہے اور ملحدین کا یہ دعوی غلط ہے کہ نینڈر تھال انسان نہیں تھے اور آدم و حوا کے وجود کا تصور غلط ہے۔
جہاں تک نینڈر تھال کے ڈھانچوں کے جدید انسان سے زیادہ طاقتور ہونے کی بات ہے،اس کے بارے میں جیک کوزو۔۔۔۔Jack Couzzo....جس نے پہلی بار نینڈر تھال انسانوں کے ڈھانچوں کے ایکسرے لیے،کا کہنس ہے کہ نینڈر تھال اور جدید انسان کے ڈھانچوں کا فرق اس وجہ سےہے کہ ان کی عمر لمبی ہوتی تھی۔ یہ نتیجہ انہوں نے نینڈر تھال جی کھوپڑی اور انسانی نشوونما کے موازنے سے اخذ کیا جب کہ ان کے بچے نشوونما مکمل نہ ہونے کی وجہ سے جدید انسان جیسے تھے اور ان میں جدید انسان کی طرح ابرو کے ابھار زیادہ واضح نہیں تھے اور کھوپڑی زیادہ لمبی نہیں تھی۔کوزو کا یہ بھی کہنا ہے کہ نینڈر تھال انسان دیر سے بوڑھے ہوتے تھے اور کچھ سیکولر تحقیقات کے مطابق وہ مضبوطی اور چابکدستی میں بھی جدید انسان سے زیادہ تھے۔اس طرح یہ حقائق قرآن و بائیبل کے اس تصور کی تصدیق کرتے ہیں جس کے مطابق قدیم انسانوں کی عمر بہت لمبی ہوتی تھی۔اور ملحدین کا یہ نظریہ پھر غلط ہوتا ہے کہ نینڈر تھال انسان نہیں تھے اور آدم و حوا کا تصور نعوذ بااللہ فرضی ہے۔
2004 ء میں اخباروں میں پروفیسر وان زیٹن،جو کہ فرینکفرٹ،جرمنی میں گاتھ یونیورسٹی۔۔۔۔۔۔Goethe University....کے شعبہ انسانی جینیات یعنی ،Institute of anthropology and human genetics کا سابق سربراہ تھا،کے فوسل یا حجری حیاتیات کی عمر معلوم کرنے کے طریقوں میں سنجیدہ غلطیوں کا انکشاف ہوا۔پہلے پروفیسر وان زیٹن کا فوسل یا رکاز یا حجری حیاتیات کا کاربن ڈیٹنگ کے ذریعے عمر معلوم کرنے کا نتیجہ Hahnhofer sand man اور Binschof_Speyer woman لے لئے بھی استعمال کیا گیا تھا۔ان کو وان زیٹن نے 36 ہزار سال قدیم قرار دیا تھا جب کہ آکسفورڈ کی تحقیقات نے ظاہر کا کیا کہ یہ محض 7500 سال قدیم ہے جو کہ اس عرصے کے بھی بہت بعد کا وقت ہے جب ارتقاء کے حامیوں کے مطابق نینڈر تھال کی نسل مٹ چکی تھی۔ اور بنشاف سپیئر کی عمر محض 3000 سال قدیم تھی جس کو پہلے 21300 سال قدیم قرار دیا گیا تھا اور اس کے بارے میں سگریٹ پینے والے پروفیسر وان زیٹن نے بڑے فخر سے دعوی کیا تھا کہ یہ جدید انسان اور نینڈر تھال کے درمیان ارتقاء کا ایک مسنگ لنک تھا۔اس طرح یہ واضح ہوا کہ وان زیٹن نے بڑے منظم انداز میں جان بوجھ کر ارتقاء کے تصور کو تائید دینے کے لیے کچھ رکاز یا حجری حیاتیات یا فوسل کی عمر زیادہ بتای تھی۔ماہرین کے مطابق یہ اتنی بڑی غلطی ہے کہ انسانی نشونما کی تاریخ پھر لکھنی پڑے گی جس کا مطلب ی ہے کہ انسانی ارتقا کا سارا نظریہ ہی مشکوک ہے۔تھامس ٹربرگر۔۔۔Terberger.....نے کہا کہ اب بشریات یا Anthropology کے مطابق جدید انسان کی تاریخ چالیس ہزار سال سے ایک لاکھ سال لکھنی پڑے گی۔اس طرح انسانی ارتقا کا ارتقاء کے حامیوں کا سارا نظریہ ہی غلط ٹھہرتا ہے۔
نینڈر تھال اور جدید انسان کے درمیان مائیٹو کونڈریا کے ڈی این کے 25 فرق 225 ڈی این اے میں ایسے مقامات پہ ہیں جو زندہ انسانوں میں بھی مختلف ہیں۔باقی دو میں سے ایک فرق ایسے مقام پہ تھا جو بن مانس میں بھی باہم مختلف ہے جس کو ارتقاء کے مطابق قرار دیا گیا۔لیکن صرف ایک بات میں اشتراک شماریاتی طور پر اتنا زیادہ نہیں۔جب انہوں نے بن مانس سے فرق کا موازنہ کیا انہوں نے صرف 333 مقامات استعمال کیے جو انسان اور بن مانس میں مشترک تھے۔اس نتیجہ کے مطابق نینڈر تھال جدید انسان سے مختلف ہیں کا مطلب یہ نہیں کہ وہ انسان ہی نہیں تھے۔کیونکہ آج بھی ایسے زندہ انسان موجود ہیں جن کا مائیٹو کونڈریا کا ڈی این اے کا فرق نینڈر تھال سے زیادہ ہے۔اس طرح یہ نہیں کیا جا سکتا کہ ہم انسان ہیں اور نینڈر تھال انسان نہیں تھے۔انسان اور نینڈر تھال کے ڈی این اے کا موازنہ زندہ انسانوں اور نینڈر تھال سے کیا گیا جو کہ کئ ہزار سال پہلے معدوم ہو چکے ہیں۔ظاہر ہے کہ کچھ مائیٹو کونڈریا کے ڈی این اے کے سلسلے ان کئ ہزار سال میں معدوم ہوچکے ہیں اور زندہ انسان تمام انسانی مائیٹو کونڈریا کے ڈی این اے کو نہیں رکحتے جو کہ ان کے آبا و اجداد رکھتے تھے۔اس فرق کے علاوہ باقی حوالے سے نینڈر تھال ڈی این اے 99.5 سے 99.9 فیصد جدید انسان سے مشابہ ہے۔جہاں تک باقی کی بات ہے تو یہ وہ ڈی این اے ہے جو نینڈر تھال میں تھا اور جدید انسان میں نہیں۔ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ نینڈر تھال کی عمر تین سے چار سو سال تک ہوتی تھی۔اس طرح لمبی عمر کی وجہ سے ان میں جینیاتی تبدیلیاں۔۔۔۔۔Mutations....زیادہ تھے اور جدید انسان میں کم کیوں کہ ہماری عمر کم ہے۔اس طرح 0.1 سے 0.5 فیصد کا معمولی فرق بھی محج عمر نینڈر تھال کی عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے قدرتی جینیاتی تبدیلیوں یا میوٹیشن کا ہے۔چونکہ نینڈر تھال ہم سے تین ہزار سال سے بھی پرانے زمانے میں موجود تھے،لہذا جدید انسان اور نینڈر تھال میں یہ معمولی تبدیلی ان ہزاروں سال میں Genetic Drift ظاہر کرتی ہے اور کچھ نہیں۔اس طرح نینڈر تھال حقیقت میں انسان ہی تھے اور کچھ نہیں اور ملحدین کا یہ کہنا غلط ہے کہ نینڈر تھال انسان نہیں تھے اور آدم و حوا کا وجود فرضی ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ جہاں ارتقا کے حامیوں جیسا کہ سٹیون سٹینلے نے نینڈر تھال کو انسانوں سے مختلف ایک سپی شیز قرار دینے کی کوشش کی ہے،وہاں دیگر سائنسدان نینڈر تھال اور بعد میں آنے والے Homo erectus کو الگ قسم سمجھنے کی بجائے قدیم انسان قرار دیتے ہیں۔نینڈر تھال کی جدید انسان سے مشابہت اتنی ہے کہ اب ان کو انسانوں کی ہی ایک قسم تسلیم کر کے ان کو Homosapiens neanderthalensis کا نام دیا گیا ہے جب کہ باقی نام بھی رہنے دیے گئے ہیں۔مخلوقات کی خدائ تخلیق پہ یقین رکھنے والے سائنسدان۔۔۔۔۔creationists....تو پہلے سے ہی کہتے رہے ہیں کہ نینڈر تھال انسانوں کی جینیاتی حد۔۔۔۔۔Genetic Range....میں آتے ہیں[6](یعنی نینڈر تھال حقیقت میں انسان ہی ہیں اور کچھ نہیں اور ملحدین کا ان کو الگ سپی شیز قرار دے کر قرآن و بائیبل کے آدم و حوا کے تصور کو ٹھکرا دینے کا نظریہ غلط ہے)۔
اس بات میں کوئ شک نہیں ہے کہ نینڈر تھال انسان زمین پہ موجود تھے۔ان کے کئ نامکمل ڈھانچے دریافت کیے گئے ہیں جن سے لیا گیا ان کا ڈی این اے کئ جینیاتی معلومات فراہم کرتا ہے۔یہ جینیاتی سلسلے۔۔۔۔۔۔Genetic Sequencing..nn ظاہر کرتے ہیں کہ نینڈر تھال اور جدید انسانوں کے مائیٹو کونڈریا کے ڈی این اے۔۔۔۔mtDNA۔۔۔۔کا فرق 1.3 فیصد(یعنی بہت کم )ہے۔جہاں تک جسمانی خدوخال کی بات ہے تو نینڈر تھال کا دماغ آج کے انسانوں سے بڑا تھا،ان کی ہڈیاں زیادہ مضبوط تھی،دانت زیادہ مضبوط تھے،ان میں جینیاتی تبدیلیاں۔۔۔۔Genetic Mutation....اور موروثی بیماریاں کم تھیں اور ان کی عمر بہت لمبی ہوتی تھی۔اب سوال یہ ہے کہ ان نینڈر تھال کی جینیاتی تبدیلیاں یا میوٹیشن ہم میں کیوں ہیں اور ان میں کیوں نہیں تھیں۔اس کا جواب یہ ہے کہ وہ ہمارے آباؤ اجداد تھے۔ہماری جینیاتی تبدیلیاں ان کی وفات کے ہزاروں سال بعد آہستہ آہستہ ظاہر ہوئ(جو کہ ہر انسانی نسل کے ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہیں۔یہ سائنسی وضاحت ظاہر کرتی ہے کہ نینڈر تھال اور ہمار درمیان جینیاتی مادے کا صرف ایک سے ڈیڑھ فیصد فرق ہمارے اندر بعد میں آنے والی میوٹیشن ک وجہ سے ہے جو ان نینڈر تھال انسانوں میں نہیں تھی اور یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ ہزاروں سال میں اتنا فرق کوئ زیادہ فرق نہیں اور نینڈر تھال حقیقت میں انسان ہی تھے)۔اس معمولی فرق کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ ان نینڈر تھال کی ہڈیاں ہزاروں سال پرانی ہیں اور ان میں موجود ڈی این اے مکمل ٹھیک حالت میں نہیں اور ان سے لئے گیے ڈی این اے کے نمونوں میں کافی حد تک جراثیمی یعنی بیکٹیریا کے ڈی این اے کی آمیزش بھی تھی جس کو دور کرنے کی بہت کوشش بھی جی گئ تا کہ خالص ڈی این اے حاصل کرکے اس کا تجزیہ کیا جا سکے۔لیکن پھر بھی ملاوٹ کا امکان مکمل نظر انداز نہیں کیا جا سکتا(نینڈر تھال کے ڈی این اے میں وقت کے ساتھ پائ جانے والی توڑ پھوڑ اور جراثیمی ڈی این اے کی کسی نہ کسی حد تک آمیزش کے بعد بھی نینڈر تھال کے ڈی این اے کا جدید انسان کے ڈی این اے سے ڈیڑھ فیصد(1.5) سے بھی کم فرق ظاہر کرتا ہے کہ یہ نینڈر تھال حقیقت میں انسان ہی تھے اور کچھ نہیں اور ان کو الگ سپی شیز قرار دینا غلط ہے)۔
ان نینڈر تھال اور جدید انسان کے ڈی این اے کے درمیان چند جینیاتی فرق ہیں اور یہ فرق بھی تب ختم ہوجاتے ہیں جب ہمیں جدید انسانوں اور نینڈر تھال کے جینیاتی تنوع۔۔۔۔Genetic Diversity...کا پتہ چلتا ہے۔ایک اور بات یہ بھی ہے کہ نینڈر تھال اور جدید انسان کے ڈی این اے میں پائ جانے والی تبدیلیاں صرف ان لوگوں تک محدود ہیں جو افریقہ سے باہر رہتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا جنسی ملاپ ان انسانوں کے آباؤ اجداد سے ہوا جو اب ایشیا اور یورپ،آسٹریلیا کے حقیقی باشندے اور اصل امریکی یا ریڈ انڈین ہیں۔اس طرح نینڈر تھال افریقہ سے باہر بسنے والے انسانوں یعنی ہمارے یا آباؤ اجداد ہیں یا چچااور ماموں زاد(جہاں تک بات ہے افریقی لوگوں کی تو اس کی وجہ جغرافیائی فاصلہ ہو سکتا ہے جس کی وجہ سے یہ افراد افریقی لوگوں سے اختلاط میں نہیں آئے اور ان کا باہم جنسی ملاپ نہیں ہوسکا)۔یہ نینڈر تھال نہ صرف یورپ اور مغربی ایشیا بلکہ پاپوا نیوگنی جیسے ممالک میں بھی آباد تھے۔لہذا یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ی نینڈر تھال ان علاقوں کے انسانوں کے آباؤ اجداد ہیں۔صرف شمالی افریقہ کے علاوہ یہ سب علاقے نینڈر تھال انسان کی ان علاقوں سے مطابقت رکھتے ہیں جہاں یہ کبھی آباد تھے۔جن علاقوں میں نینڈر تھال کا ڈی این اے نہیں پایا جاتا وہ علاقے بعد میں نینڈر تھال کے علاوہ اور قدیم انسانوں نے آباد کیے اور اس لیے ان میں نینڈر تھال کا ڈی این اے نہیں پایا جاتا جیسا کہ افریقہ۔
نینڈر تھال کے ڈی این اے میں چودہ ہزار ایسے مقامات کا مطالعہ کیا گیا جہاں ایک جیسی پروٹین میں انسان اور بن مانس مختلف امائینو ایسڈ(وہ کیمیاوی مادے جن سے پروٹین بنتی ہے)رکھتے ہیں۔ان میں سے گیارہ ہزار کا نتیجہ اخذ کیا گیا اور یہ دریافت ہوا کہ 91.5فیصد مقامات پر نینڈر تھال کے امائینو ایسڈ وہی تھے جو جدید انسان کے ہیں اور باقی 8.5 فیصد ایسے مقامات ہیں جہاں جینیاتی تبدیلیاں زیادہ ہوتی ہیں اور ان کو Mutational Hotspot کہا جاتا ہے یعنی جہاں تبدیلیاں قدرتی طور پر ہی زیادہ ہوتی ہیں(اس طرح نینڈر تھال کا ڈی این اے جدید انسان جیسا قرار پاتا ہے جو کہ ظاہر کرتا ہے کہ نینڈر تھال انسان ہی تھے اور کچھ نہیں اور ان کو الگ سپی شیز قرار دینا غلط ہے) اور جو معمولی فرق ہے بذات خود وہ بھی اس وجہ سے ہوسکتا ہے کیونکہ نینڈر تھال کا جینیاتی نمونہ کم تھا۔ہم یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ آج ایک جگہ پہ رہنے والے کم لوگ کل بہت سے لوگوں کے نسل میں اضافے کی وجہ سے آباؤ اجداد ہوں گے۔اس طرح ہمیں حیران نہیں ہونا چاہیے کہ نینڈر تھال کے سب جین کچھ انسانوں کے نسل نہ چلنے اور کچھ کے بعد میں آنے والی نسلوں میں میوٹیشن کی وجہ سے جدید انسان میں منتقل نہ ہوپاے( اس سب کے ساتھ بھی نینڈر تھال کی جدید انسان سے مشابہت ظاہر کرتی ہے کہ نینڈر تھال انسان ہی تھے اور کچھ نہیں اور ملحدین کا ان کو الگ سپی شیز قرار دے کر قرآن و بائیبل کے آدم و حوا کے تصور کو ٹھکرا دینا غلط ہے)۔
نینڈر تھال کا ڈی این اے جدید انسان سے اتنا مختلف نہیں جتنا دو ایک ہی وقت میں پائے جانے والے بن مانس کا آپس میں ہوتا ہے۔جب اس معمولی فرق کے ساتھ بھی بن مانس کو بن مانس ہی سمجھا جاتا ہے تو پھر نینڈر تھال کو حقیقی انسان کیوں نہیں سمجھا جاتا۔(7)
نینڈر تھال قدیم انسان تھے جو آج سے چالیس ہزار سال پہلے معدوم ہو چکے۔وہ حقیقی انسان کے بہت مشابہ تھے اور جدید انسان کا ڈی این اے 99.7 فیصد نینڈر تھال سے ملتا ہے۔ان نینڈر تھال کی باقیات میں ہڈیاں اور پتھر کے بنے اوزار شامل ہیں جو مغربی یورپ سے وسطی و شمالی ایشیاء تک پائے گئے ہیں۔
دسمبر 2013ء میں ماہرین نے کہا کہ اس بات کی گواہی ملی ہے کہ نینڈر تھال اپنے مردوں کو جدید انسانوں کی طرح زمیں میں دفن کیا کرتے تھے۔
شروع میں ان نینڈر تھال کو انسانوں سے مختلف ایک سپی شیز یا قسم قرار دیا گیا لیکن 1930ء میں ارنسٹ میئر،جارج گیلارڈ سمپسن، اور تھیوڈوسیس ڈوبزینسکی نے ان کے فوسل کا پھر مطالعہ کیا اور ان کی جدید انسان سے مشابہت کو بیان کیا۔ اس طرح نینڈر تھال کو انسانوں کی ہی ایہ قسم مان کر ان کا نام Homo sapiens neanderthalensis رکھا گیا اور انہیں جدید انسان Homosapiens sapiens کی ابتدائی قسم قرار دیا گیا۔
2014 ء میں تھامس ہگہیم۔۔۔۔Thomas Higham....کی قیادت میں ایک ٹیم نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں کاربن ڈیٹنگ کے ایک زیادہ بہتر طریقے کو استعمال کرتے ہوئے دریافت کیا کہ نینڈر تھال یورپ میں اکتالیس سے اٹھائیس ہزار سال پہلے معدوم ہوگئے۔
یہ دریافت کیا گیا کہ نینڈر تھال اپنے ہتھیار خود بنا سکتے تھے اور یہ پہلے کے خیال سے زیادہ ذہین تھے۔مزید برآں یہ بھی دیکھا گیا کہ یہ نینڈر تھال جدید پہلے کے خیال کے برعکس جدید انسانوں کے زیادہ مشابہ ہیں اور بذات بخود ان کی ہی ایک قسم۔۔۔۔Subspecies....ہیں۔یونیورسٹی آف کولاراڈو میوزیم کے محقیقین کے مطابق نینڈر تھال جدید انسان سے کم ذہین نہیں تھے۔ان کی اور جدید انسان کی جسمانی ساخت میں فرق یہ ہے کہ وہ زیادہ صحتمند و طاقتور تھے خصوصا ان کی کھوپڑی جدید انسان سے زیادہ مضبوط تھی۔ان کے بازو اور ٹانگ چھوٹے،سینہ چوڑا تختے کی طرح,تھوڑی چھوٹی اور ناک جدید انسان سے بڑا تھا۔ان کے مردوں کا قد 65-66 انچ اور عورتوں کا قد 60-61 انچ تھا،مردوں کا اوسط وزن 77 اور عورتوں کا 66کلوگرام تک تھا۔2007 ء کی ایک تحقیق کے مطابق نینڈر تھال کے بال سرخ اور بھورے اور جلد کا رنگ کم گہرا تھا۔ان کے جسم اور دماغ کی نسبت۔۔۔۔Encephalization ....تقریبا جدید انسانوں جیسی تھی۔انہوں نے کافی ترقی یافتہ ہتھیار بنائے،آگ کا استعمال کرتے تھے اور تقریبا آپس میں انسانوں کی طرح گفتگو بھی رکھتے تھے اور پیچیدہ سماجی گروہوں میں رہتے۔مشرقی یوکرائن کے مولوڈووا آثار قدیمہ کے مطابق وہ جانوروں کی ہڈیوں سے اپنی رہائش گاہ بھی بناتے تھے۔ایونین کے جزائر۔۔۔۔Ionian islands....پر دریافت ہونے والے کچھ پتھروں کے اوزاروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوگ بحیرہ روم میں سمندری سفر بھی کرتے تھے۔وہ زیادہ تر گوشت کھاتے لیکن جدید تحقیقات کے مطابق وہ جدید انسانوں کی طرح سبزی بھی پکا کر کھاتے تھے۔ان کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان کی عورتیں خاندان سے باہر شادی کرتی تھیں اور ان میں خاندان و سماج کا تصور کافی زیادہ تھا(یہ ساری خصوصیات ظاہر کرتی ہیں کہ نینڈر تھال انسان ہی تھے اور کچھ نہیں اور ملحدین کا یہ دعوی غلط ہے کہ نینڈر تھال انسان نہیں تھے اور آدم و حوا کے تصور کو ٹھکرا دینا غلط ہے)
سوانتےپابو نے نینڈر تھال کے سترسے زیادہ نمونوں کا مطالعہ کیا۔نینڈر تھال جینوم تقریبا اتنی ہی جسامت کا کے جتنا انسان کا اور یہ ڈی این اے کی دوہری نیوکلیوٹائڈ زنجیر میں نائٹروجن کے اساسوں۔۔۔۔Nitrogenous Bases....کی ترتیب کے حوالے سے انسانی جینوم سے 99.7 فیصد مشابہت رکھتا ہے(یہ سارے دلائل ظاہر کرتے ہیں کہ نینڈر تھال انسان ہی تھے اور کچھ نہیں)۔
لارنس برکلے نیشنل لیبارٹری کے ایڈورڈ روبن کے مطابق جینوم کا حالیہ مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ نینڈر تھال اور انسانی جینوم 99.5 سے 99.9 فیصد مشابہ ہیں(یہ دلیل پھر ظاہر کرتی ہے کہ نینڈر تھال انسان ہی تھے اور کچھ نہیں)۔
مزید حالیہ تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ نینڈر تھال اور جدید انسان کے آباؤ اجداد کے درمیان جنسی ملاپ بے غیر منظم انداز میں چلتا رہا اور یہی وجہ ہے کہ ان نینڈر تھال کا ڈی این اے مختلف تناسب سے جدید انسان میں موجود ہے(یہ ظاہر کرتا ہے کہ جدید انسان میں نینڈر تھال ڈی این اے کی موجودگی کی وجہ جدید نینڈر تھال انسان کا اس وقت کے باقی انسانوں سے جنسی ملاپ ہے اور اس کی وجہ ارتقا نہیں ہے)۔2016ء میں ماہرین نے انکشاف کیا کہ انہوں نے ایک خاتون نینڈر تھال میں انسانی ڈی این اے پایا ہے جس کا ڈھانچہ منگولیا اور روس کے بارڈر پر دریافت ہوا۔
گاخمین۔۔۔۔Gokhman.... کے مطانق انسان اور نینڈر تھال میں چھوٹے بازؤں،خمدار ہڈیوں اور اس طرح کے دوسرے فرق ان دونوں نسلوں میں HOX جین کے مختلف اظہار کی وجہ سے ہیں۔
ارتقا کے حامی یہ دعوی کرتے رہے کہ یہ نینڈر تھال انسان نہیں تھے اور۔ یہ جدید انسان کی طرح بول چال کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔1989 ء میں ماہر حجری حیاتیات یا فوسل لوئس ہائیم۔۔۔۔Jean Louis Heim.n. بے ظاہر کیا کہ نینڈر تھال کی کھوپڑی کے گردن سے منسلک حصے کا جھکاؤ یا خم جدید انسان جیسا تھا(,Trinkaus and Shipman 1992,Shreeve,1995).حال ہی میں لاچیپالی میں رکھی ہوئی ایک نینڈر تھال کی کھوپڑی کا قرون وسطی کے ایک جدید انسان کی کھوپڑی سے موازنہ کیا گیا اور اس سے باہر ہوا کہ نینڈر تھال کی کھوپڑی جدید انسان کی طرح ہے۔
ب1983ء میں نینڈر تھال کا ایک مکمل ڈھانچہ دریافت ہوا جس میں نینڈر تھال کی گلے کی ایک ہڈی ہائیڈ۔۔۔۔Hyoid bone...بھی تھی جس کا تعلق انسانی جسم میں آواز پیدا کرنے والے عضو لیرنکس سے ہے اور یہ ہڈی بالکل جدید انسان جیسی ہے(Arensburg et al.1987)
نینڈر تھال کا دماغ جدید انسان جتنا یا اس سے کچھ زیادہ ہے(Deacon,1994)جس کا حجم یا والیم 1200-1750 ملی لیٹر ہے اور یہ اوسطاََ جدید انسان کے دماغ سے 100 ملی لیٹر زیادہ ہے(Sttinger and Gamble,1993).
ہالووے(1985)نے کہا کہ نینڈر تھال کا دماغ،میں یقین سے کہ سکتا ہوں کہ انسانی تھا جس کی ترکیب و تنظیم جدید انسان سے کچھ لازمی چیزوں میں مختلف نہیں ہے۔نینڈر تھال کی جسمانی ساخت بھی انسان جیسی ہے اور اس میں اتنی ہی ہڈیاں ہیں جتنی کہ جدید انسان میں اور ان کا فعل بھی جدید انسان جیساہے(Trinkaus and shipman,1992) فرق اتنا ہے کہ نینڈر تھال کا ڈھانچہ جدید انسان سے زیادہ طاقتور اور مضبوط ہے۔لیکن یہ فرق اتنا زیادہ نہیں اور آج کے جدید انسانوں میں بھی باہم یہ فرق پایا جاتا ہے(Lewin,1998).
کوئ کہ سکتا ہے کہ جدید انسان کی سب جسمانی خصوصیات نینڈر تھال میں کیوں نہیں پائ جاتی۔اس کا جواب یہ ہے کہ نینڈر تھال انتہائ سرد آب و ہوا میں رہتے تھے اور وراثتی طور پر جدید انسانوں سے طوفان نوح کے بعد بچھڑ چکے تھے جس سے ان کی جسمانی ساخت میں کچھ تبدیلی آگئ Stronger and Gamble v,1993).یہ سارے دلائل ظاہر کرتے ہیں کہ نینڈر تھال انسان ہی تھے اور کچھ نہیں اور ملحدین کا آدم و حوا کے تصور کو ٹھکرا دینا غلط ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔