کیا حضرت یعقوب علیہ السلام،حضرت یوسف علیہ السلام،حضرت موسی علیہ السلام اور مصر کے بنی اسرائیل تاریخ کے فرضی کردار تھے؟
کیا قدیم مصری تاریخ میں بنی اسرائیل کے مصر سے فلسطین کی طرف فرار کا کوئی ثبوت موجود نہیں؟
کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرعون کی لاش کے محفوظ ہونے کا قرآنی دعوہ نعوذ بااللہ کسی مصری سے ممیاں بنانے کے علم کے حصول کے بعد کیا ؟
فرعون کی لاش کے حوالے سے قرآن کا بیان،اس پہ ملحدین کے اعتراضات اور ان کا جواب
قرآن اور بائبل میں بیان کردہ واقعہ دعاؤں و موسی علیہ السلام کے حوالے سے تاریخی اور آرکیالوجیکل یعنی آثار قدیمہ سے بہت سے ثبوت دریافت ہوچکے ہیں جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا۔ماہرین آثار قدیمہ کو لکڑی کے ایسے عصا ملے ہیں جو سانپ کی شکل کے بنے ہوئے ہیں۔یہ غالبا جادو کے لیے استمعال ہوتے تھے۔بہرحال ان کا استعمال جو بھی ہو یہ قرآن کے اس بیان کی تصدیق کرتے ہیں جس کے مطابق فرعون کے جادوگر حضرت موسی علیہ السلام کے مقابلے میں لکڑی کے ایسے عصا لائے تھے جن کو زمین پہ ڈالتے ہی وہ سانپوں میں تبدیل ہوگئے۔
ملحدین کہتے ہیں کہ فرعون کے زمانے میں بنی اسرائیل اور حضرت موسی علیہ السلام کے مصر میں وجود کا کوئی ثبوت نہیں اور مصر کے بنی اسرائیل اور حضرت موسی علیہ السلام نعوذ بااللہ تاریخ کے فرضی کردار ہیں۔ملحدین اس بارے میں بہت شدید غلطی پہ ہیں۔پہلی بات یہ کہ واقعہ فرعون و موسی علیہ السلام کے حوالے سے قدیم مصری تاریخ میں ایسی حیرتناک دریافتیں جیسا کہ اس وقت کے مصر کے حالات،فرعون کی قوم پہ نازل ہونے والے اللہ تعالی کے عذاب اور فرعون کی ممی کا محفوظ ہونا،ہوئی ہیں جو ثابت کر رہی ہیں کہ یہ واقعہ بالکل سچ ہے اور حقیقت میں مصر کی تاریخ میں رونما ہوا تھا۔جب اس واقعے کے باقی ثبوت میسر ہیں تو یہ کیوں کر کہا جا سکتا ہے کہ اس واقعے کے کردار یعنی حضرت موسی علیہ السلام اور بنی اسرائیل محض فرضی ہیں نعوذ بااللہ۔واقعہ ثابت ہے تو پھر کردار بھی خود بخود حقیقی ثابت ہوئے۔
حقیقت یہ ہے کہ بنی اسرائیل مصر میں موجود تھے اور اس کی تاریخ بھی تائید کر چکی ہے۔بنی اسرائیل پہلی بار مصر کی تاریخ میں کانسی کے زمانے میں مصری فرعون مرنفتاح کے زمانے میں 1208سے 1203 قبل مسیح کے درمیانی عرصے میں ملتا ہے جب کہ اس بات کی واضح شہادت موجود ہے کہ کنعان یعنی قدیم فلسطین سے عبرانی نسل یعنی یہود کے لوگ مصر میں مقیم تھے اور کنعان یعنی قدیم فلسطین کا مصر سے قریبی رابطہ تھا۔ان کو مصر میں ہیبیرو کہا جاتا تھا۔یہ لوگ دریائے اردن کے کنارے پہاڑی علاقوں میں بھی قبائل کی صورت میں آباد تھے اور ماہرین کا خیال ہے کہ یہی فیڈریشن کانسی کے زمانے کے بعد میں تاریخی طور پہ سلطنت بنی اسرائیل کی بنیاد بنی۔کانسی کے زمانے کی یہی اصطلاح بعد میں عبرانی اصطلاح ہربریو( Herbrew) کی بنیاد بنی جو کہ بنی اسرائیل کے لیے استمعال کی جاتی ہے۔اس زمانے میں یہ اصطلاح شام و فلسطین کے خانہ بدوش قبائل کے لیے استمعال کی جاتی تھی اور یہ بات ایک طرح سے قرآن کے اس بیان کی تصدیق کرتی ہے جس میں بنی اسرائیل کے دربدر پھرنے کا ذکر ہے اور جن کو بعد میں اللہ تعالی کی طرف سے فلسطین کی حکومت دی گئی۔قدیم میسو پوٹیمیا یعنی عراقی،حطیطی،کنعانی یعنی فلسطینی اور مصری ذرائع ان کو قزاق،مطلب پرست اور غلام بیان کرتے ہیں اور یہ بات قرآن کے بیان کردہ بنی اسرائیل کی ان عادات کی تصدیق کرتی ہے جس کی اصلاح کے لیے ان میں پیغمبر بھیجے جاتے تھے۔یہ قرآن کی اس بات کی بھی تصدیق کرتی ہے کہ قدیم مصر میں ہیبیرو یعنی ہربریو یا عبرانی یعنی یہودی نسل کے لوگ غلام کے طور پہ مصر میں موجود تھے اور جن کی آزادی کے لیے حضرت موسی علیہ السلام بھیجے گئے۔
علاوہ ازیں تاریخ اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ دریائے نیل کے سالانہ سیلاب کی وجہ سے مصر میں بہت زرخیز زمین تھی اور قیمتی غلہ کثرت سے پیدا ہوتا تھا جب کہ قدیم فلسطین یعنی کنعان کے علاقے قحط کی لپیٹ میں آجاتے تھے۔جب بھی ایسا ہوتا تھا تو قحط زدہ لوگ مصر کی زرخیز زمین کی طرف خوراک کے حصول کے لیے رخ کرتے تھے۔آثار قدیمہ کا علم بتاتا ہے کہ ان میں سے کچھ عبرانی یعنی یہودی نسل کے تھے جو کہ کنعان یعنی قدیم فلسطین اور شام سے آتے تھے۔تاریخ کا یہ بیان قرآن کے اس بیان کی تصدیق کرتا ہے جس کے مطابق کنعان یعنی قدیم فلسطین میں قحط پڑنے کے بعد عبرانی نسل سے تعلق رکھنے والے حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے بارہ بیٹوں سمیت مصر میں موجود اپنے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس تشریف لے گئے۔لہذا یہ سارے تاریخی حقائق ثابت کرتے ہیں کہ حضرت موسی علیہ السلام،حضرت یعقوب علیہ السلام اور حضرت یوسف علیہ السلام تاریخ کے فرضی کردار نہیں بلکہ حقیقی شخصیات ہیں اور علی عباس جلال پوری سبط حسن جیسے نام نہاد جاہل دانشور مصری تاریخ سے ناواقف ہونے کی بنیاد پہ ان کو تاریخ کے فرضی کردار قرار دیتے ہیں۔یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ کس طرح ان جاہل اور تاریخ سے نا بلد دانشوروں نے تاریخ کا چہرہ مسخ کرکے عوام اور نوجوان نسل کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
مذید برآں تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ آج سے چار ہزار سال قبل عبرانی یعنی یہودی نسل کے لوگوں نے فلسطین کے صحراؤں سے مصر کی طرف ہجرت کرنا شروع کی۔یہاں تک کہ 20 ویں صدی قبل مسیح یعنی آج سے چار ہزار سال قبل کا مصر میں موجود ایک اعلی مصری شخصیت خنوم ہوتپ دوم( Khnumhotep ii)کے مقبرے پہ ایک ایسا منظر کندہ کیا گیا ہے جس میں عبرانی یعنی یہودی نسل کے تاجر مردوں کو مرادیں پیش کر رہے ہیں۔کچھ عبرانی یعنی یہودی نسل کے لوگ مصر میں تاجروں اور مہاجرین کی صورت میں آئے اور کچھ کنعان یعنی قدیم فلسطین پہ فرعونوں کے حملے کے بعد غلام بنا کر لائے گئے اور تاریخ کی یہ بات قرآن کے اس بیان کی تصدیق کر رہی ہے جس کے مطابق مصر میں بنی اسرائیل غلامی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ قدیم مصر کی نرس کی نسل کے ایک درخت کی چھال پہ لکھی گئی ایک تحریر میں ہمیں ایک ایسے دولت مند مصری شخص کا تذکرہ ملتا ہے جس کے پاس ستتر غلام تھے جن میں سے 48 عبرانی یعنی یہودی نسل کے تھے۔
یہاں تک کہ ایک زمانہ ایسا بھی تھا جب اج سے 3700 ،سال پہلے کنعان یعنی قدیم فلسطین کے لوگوں نے اتنی طاقت حاصل کر لی تھی کہ زیریں مصر پہ حکومت حاصل کر لی۔ان کنعانی حکمرانوں میں یعقوب نام کے ایک بادشاہ کا ذکر بھی ہمیں مصر میں دریافت ہونے والے 27 جگہ ملتا ہے جو کنعان اور ،نوبیا سے ملے ہیں۔یہ بھی ممکن ہے قرآن میں بیان کردہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرعونوں سے بھی پہلے قدیم مصر میں موجود اپنے حکمران بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کی مدد سے زیریں مصر میں حکومت کی ہو لیکن بعد میں بنی اسرائیل کمزور پڑ گئے اور بعد میں آنے والے مصری فرعونوں نے ان کو غلام بنا لیا جن کی آزادی پھر حضرت موسی علیہ السلام کے ذریعے ہوئی۔علاوہ ازیں تاریخ میں اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ عبرانی نسل یعنی یہودی نسل کے لوگ بطور غلام مصر میں موجود تھے۔دریافت ہونے والی قدیم مصری تحریروں میں مصری حکمرانوں اہموز اول اور تھٹموسس سوم کے شام پہ حملہ کرکے غلام مصر لانے کا ذکر موجود ہے۔اس طرح تاریخ بنی اسرائیل کے حوالے سے قرآن مجید میں مذکور حالات ثابت کر چکی ہے۔
ملحدین کہتے ہیں کہ بنی اسرائیل کے فرعون سے فرار اور مصر سے خروج یعنی Exodus کے واقعہ کا کوئی ثبوت نہیں۔یہاں ملحدین پھر غلط ہیں۔جس علاقے سے بنی اسرائیل نے فرعون سے فرار ہوکر ہجرت کرکے واپس فلسطین کا رخ کیا اس علاقے میں اکثر دریائے نیل کے سیلاب آتے ہیں۔اس علاقے میں پتھروں سے بنے معبد بھی بہت مشکل سے بچے ہیں تو بنی اسرائیل کے ہزاروں انسانوں کی مصر سے فلسطین کی طرف حضرت موسی علیہ السلام کی قیادت میں ہجرت کے آثار کیسے بچ سکتے تھے اور وہ بھی تب جب یہ نشان دریائی علاقے اور مٹی سے گزرے ہوں۔تاریخ میں ہر جگہ لاکھوں انسانوں کی ہجرت وقتا فوقتا ہوتی رہی ہے اور مٹی جیسی نرم چیز ہزاروں سال بعد ان نشانوں کے اثرات محفوظ نہیں رکھتی۔کوئ عقل مند انسان آریا نسل کے ہزاروں افراد کی برصغیر کی طرف ہجرت کا انکار اس لئے نہیں کرسکتا کیوں کہ نرم زمین ہزاروں سال پرانے کیا مہینوں پرانے نشان محفوظ نہیں رکھتی۔جو پھر بھی اس کا ثبوت مانگے اس کی بیوقوفی کو عقل کی دھونی دینی چاہیے۔
فرعون رعمسس دوم کے زمانے یعنی 1303_1213 قبل مسیح کے زمانے کے دریافت ہونے والی چمڑے کی ایک تختی پہ کنعان یعنی قدیم فلسطین اور شام سے تعلق رکھنے والےایسے غلاموں کا ذکر ہے جو اینٹیں بنانے کا کام کرتے تھے اور جن کو روزانہ 2000 اینٹیں بنانے کا حکم تھااور یہ بات قرآن کے بنی اسرائیل کی غلامی کے بیان کے مطابق ہے۔قدیم مصری تاریخ میں ان غلاموں کے مصر سے فرار ہونے کا بھی ذکر ہے اور یہ بات قرآن کی بیان کردہ بنی اسرائیل کی غلامی کی مصر سے فلسطین کی طرف ہجرت کی تائید کرتی ہے۔ نرس کی نسل کے درخت کی ایک چھال پہ بھی ان غلاموں کا ذکر موجود ہے۔
مصری وزیر رخمائر جس کا تعلق 1450 قبل مسیح سے ہے،اس کے مقبرے پہ کندہ تحریر میں بھی ان غیر ملکی جنگی غلاموں کا ذکر ہے جو مصری شہر Thebes میں آمون دیوتا کے معبد کی تعمیر کے لیے اینٹیں بناتے تھے۔اس میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح نوبیا اور عبرانی یعنی یہودی نسل کے غلام پانی اور مٹی سے ہاتھ میں ڈنڈے لیے مصری افراد کی موجودگی میں اینٹیں بنانے کا کام کر رہے ہیں۔ایک اور تحریر میں دو غلاموں کے اپنے آقا کے ظلم کی وجہ سے بھاگ جانے کا ذکر بھی ہے۔یہ ساری تفصیل قرآن کی بیان کردہ اس بات کی تصدیق کرتی ہے جس کے مطابق بنی اسرائیل مصر میں غلامی کی زندگی بسر کر رہے تھے اور فرعون ان پہ ظلم کرتا تھا۔
منیتھو( Manetho) کی ایک نویس کے مطابق مصر میں ایک خدا کی تعلیمات دینے والے فرد کا نام اوسارسف( Osarisph) تھا جنہوں نے بعد میں موسی علیہ السلام کا لقب اختیار کیا اور اپنے پیروکاروں سمیت مصر چھوڑ کر چلے گئے۔
مذید برآں قرآن مجید میں مصر سے فرار ہوکر فلسطین کی طرف ہجرت کرنے والے بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں میں موجود افراد کی تعداد بیان نہیں کی گئ۔صرف ان کی ہجرت بیان کی گئی ہے۔لہذا ان افراد کی تعداد کے حوالے سے جو اعتراضات بائبل پہ کیے جاتے ہیں وہ قرآن پہ نہیں کیے جا سکتے۔لیکن تیرہویں صدی قبل مسیح کی نرس کی نسل کے درخت کی چھال پہ کندہ ایک تحریر میں ہمیں مصر سے غلاموں کے فرار ہونے اور مصر میں قوم فرعون پہ آنے والے ان عذاب کا ذکر ملتا ہے جن کو قرآن نے چودہ سو سال پہلے پیش کیا۔لیکن ان کی مکمل تفصیل اس لئے نہیں ملتی کیونکہ اہل مصر میں اپنی شکست کے واقعات کا ریکارڈ رکھنے کا رواج کم تھا اور خود مصری حکمران بعض اوقات دوسرے قدیم مصری حکمرانوں کا ریکارڈ حذف کر دیتے تھے جیسا کہ تھٹموسس سوم نے اپنے پیشرو ہیتشی پست کا ریکارڈ ضائع کرکے کیا۔مزید یہ کہ مصر کے دریائے نیل کے مشرقی ڈیلٹا کا تاریخی ریکارڈ اس وقت تک مکمل طور پہ غیر دستیاب ہے۔اگر یہ ریکارڈ دستیاب ہو جائے تو عین ممکن ہے کہ قرآن کے بیان کردہ اس واقعے کے مزید ثبوت بھی مل جائیں۔
ملحدین کا یہ بھی اعتراض ہے کہ مصر کے لوگوں کی طرف سے لاشوں کی ممی بنانے کا عمل مشہور تھا اور ممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہ پتہ ہو۔ممی کا لفظ عربی لفظ مومیا سے نکلا ہے اور اس بنیاد پہ ملحدین کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ممی بنانے کے علم سے واقف تھے۔ملحدین کی باندرانہ عقل کو کوئی بات ٹھیک سمجھ نہیں آتی۔حقیقت یہ ہے کہ لفظ مومیا ایک طرح کے کیمیکل bitumen کا عربی نام ہے جو مغربی ایشیا میں پایا جاتا تھا اور اسے اسلامی طب میں استمعال کیا جاتا تھا۔قدیم مصری ۔لہذا یہ لفظ طب میں استمعال ہونے والے ایک کیمیکل کے لیے استمعال ہوتا تھا لیکن ممی بنانے کے علم کے لیے نہیں۔ممی بنانے کا عمل تو دور کی بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کیمیکل کے نام تک سے واقف نہیں تھے اور رہی یہ بات کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی مصری نے یہ بتایا ہو یہ بھی غلط ہے کیونکہ پہلی مصری جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ منورہ میں ملاقات ہوئی وہ ایک قبطی غلام حضرت ماریہ رضی اللہ تعالی عنہا تھیں جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد کرکے ان سے نکاح کر لیا اور یہ واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدنی زندگی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری سالوں کا ہے جب کہ فرعون کی لاش کے محفوظ ہونے کا قرآن کا بیان اس سے بہت پہلے یعنی مکہ مکرمہ میں ہوچکا تھا۔مزید یہ کہ فرعون رعمسس دوم کی لاش پہ موجود نمک کی کسی سائنسدان نے تحقیق کی ہے کہ یہ نمک ممی والا نہیں بلکہ بحیرہ احمر کا ہے جہاں فرعون غرق ہوا۔کیا اس پہ تحقیق ہوئی کہ فرعون رعمسس دوم کی لاش پہ موجود نمک وہی ہے جو ہر ممی کے جسم میں موجود ہے؟اگر ان پہ بھی تحقیق کی جائے تو فرعون کی لاش کے حوالے سے مزید وہ دریافتیں متوقع ہیں جو قرآن کے بیان کو مزید سچ ثابت کر دیں گی ۔لہذا فرعون کی لاش کے محفوظ ہونے کا قرآن کا بیان قرآن کا ایک معجزہ ہے کیوں کہ 1898ء میں رعمسس دوم یعنی فرعون کی لاش دریافت ہونے تک کسی کو علم نہیں تھا کہ فرعون کی لاش محفوظ کے لیکن قرآن یہ بات سائنس سے بارہ سو سال پہلے بیان کر چکا تھا اور یہ اس بات کی تصدیق ہے کہ قرآن مجید اس کائنات کے خالق کا کلام ہے۔
مضمون کے حوالہ جات:
https://www.google.com.pk/amp/www.haaretz.com/amp/jewish/archaeology/1.713849
http://www.islamic-awareness.org/Quran/Contrad/External/mosespharaoh.html
www.gotquestions.org - Bible Questions Answered
https://www.google.com.pk/amp/s/www.gotquestions.org/amp/Pharaoh-of-the-Exodus.html
http://m.jpost.com/Opinion/Who-was-the-pharaoh-of-the-Exodus-395885
Setnakhte (c. 1189–1186 BC): Igor P. Lipovsky in his book Early Israelites: Two Peoples, One History: Rediscovery of the Origins of Biblical Israel makes a case for him to be the Pharaoh of the Exodus. ISBN 0-615-59333-X
https://islamqa.info/en/72516
http://rupeenews.com/2010/11/05/maurice-bucaille-reversion-to-islam-after-pharoah-discovery/
ISLAM THE RIGHT PATH at 02:46
http://islamtherightreligion.blogspot.com/2012/03/dead-body-of-firaun-how-could-this-body.html?m=1
https://www.pakistan.web.pk/threads/what-is-the-height-of-dead-body-of-firon.66179/
https://mobile.facebook.com/JesusDaily/posts/10152200956577355?_rdc=1&_rdr&refsrc=http%3A%2F%2Fwww.google.com.pk%2Fsearch
Aziz Gilani,https://www.quora.com/When-was-the-Pharaohs-body-found-and-is-this-a-sign-mentioned-in-the-Quran
www.youtube.com/watch?v=ZLINW1pldvs
www.youtube.com/watch?v=1zs6z6E_Oik
Dr. Maurice Bucaille (Why I'm a Muslim?)
www.youtube.com/results?search_query=dr.+maurice+bucaille+pharaoh%27s+body
www.google.com/?gws_rd=ssl#q=dr.+maurice+bucaille+pharaoh%27s+body
www.youtube.com/results?search_query=dr.+maurice+bucaille+the+quran+and+modern+science
www.google.com/?gws_rd=ssl#q=dr.+maurice+bucaille+the+quran+and+modern+science
http://www.answering-christianity.com/quran/ma_drowned.htm
Moore, Megan Bishop; Kelle, Brad E. (2011). Biblical History and Israel's Past: The Changing Study of the Bible and History. Wm. B. Eerdmans Publishing. p. 81. ISBN 978-0-8028-6260-0.
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔