Sunday 6 August 2017

حقائق برمنگھم نسخہ قرآن اور کچھ غلط فہمیوں کی اصلاح


جولائ 2015 ء میں قرآن شریف کا ایک نسخہ برمنگھم یونیورسٹی کی لائبریری میں دریافت کیا گیا۔دریافت کے ساتھ ہی اس بارے میں لوگ یہ جاننے کے لیے بیتاب ہوگئے کہ یہ نسخہ موجودہ قرآن سے ملتا ہے یا نہیں۔اس کے زمانے کا اندازہ ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کے مطابق 568ء سے 645ء کے درمیان کا لگایا گیا ہے۔اس معاملے کی ہم نے تحقیق کی ہے اور درج ذیل مضمون مرتب کیا ہے۔
کسی بات کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے جھوٹا یا غلط کہنے والے کا کوئ دعوی قابل اعتماد نہیں ہوتا کیونکہ اس صورت میں مدعی بھی وہی گواہ بھی وہی۔یہ دنیا کی کسی عدالت کا قانون نہیں۔گواہ ہمیشہ غیر جانبدار ہوتا ہے۔جب کہ اس صورت میں قرآن پر الزام دینے والے بھی یورپی ا ور اسی کے گواہ بھی خود یورپی تو اس صورت میں ان کا قرآن پر اعتراض کیوں کر مانا جائے گا۔
ریڈیو کاربن ڈیٹنگ میں کاربن کے ریڈیو ہم جا یا ریڈیو آئیسو ٹوپ کاربن 14 کو استعمال کر کے نامیاتی یا آرگینک مرکبات کی عمر کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔جن کا تعلق جانداروں یعنی پودوں اور جانوروں سے ہوتا ہے یعنی کاغذ،حیوانی فوسل یا رکاز وغیرہ۔یہ ٹیسٹ سو فیصد ٹھیک نہیں ہے۔اور ٹیسٹ کیے جانے والے نمونے کے پاس کوئ سگریٹ پیے یا ساتھ ہاتھ لگائے تونتیجہ غلط ہوجاتا ہے۔اس کے علاوہ یہ درختوں سے متعلقہ کیمیاوی مرکبات جیسا کہ کاغذ کے سیلولوز کے لیے مکمل مستند نہیں ہے۔اس کے علاوہ ایک اور بات یہ بھی ہے کہ ریڈیو کاربن کی ریڈیائ تخریب جس سے کسی چیز کی عمر کا اندازہ لگایا جاتا ہے ،ہمیشہ ایک سی نہیں ہوتی۔لہذا اس طریقے سے کسی فوسل یا تحریر کی عمر کا اندازہ بھی مکمل ٹھیک نہیں۔اور بات یہ کہ ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کو سائنسدان تب مستند مانتے ہیں جب وہ ان کے نظریے سے مطابقت کر رہی ہو ورنہ اسے غیر مستند مان کر مسترد کردیتے ہیں۔جب کسی معلوم عمر کی چیز کے لیے اسے استعمال کیا جاتا ہے تو یہ کم مفید ثابت ہوتی ہے اور جب کسی غیر معلوم عمر کی چیز کی عمر کا اندازہ لگانے کے لیے اسے استعمال کرتے ہیں تو یہ کام کرتی ہے۔یہ کونسی سائنس ہے۔اب بھلا ایک ایسا طریقہ جو مکمل طور پر مستند ہے ہی نہیں تو اس پر اعتماد کر کے کیسے قرآن کی صحت پر شک کیا جا سکتا ہے۔
اتنے عرصے تک اس قرآن کا برمنگھم یونیورسٹی کی طرف سے چھپا کر رکھنا،اتنے عرصے بعد ٹھیک حالت میں رہنا ،اس پر نقطے ہونا جب کہ اس زمانے میں نقطے ڈالنے کا رواج نہیں تھا،یہ سب باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ ہوسکتا ہے یہ نسخہ حقیقی نہیں بلکہ فرضی ہو جس کو یورپ والوں نے قرآن میں معمولی اختلاف بیان کرکے دنیا اور مسلمانوں کا قرآن کی صحت پر ایمان اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ہمیں ان سب سازشوں سے خبردار رہنا چاہیے۔
اس حوالے سے ایک اور بات یہ بھی ہے کہ یہ نسخہ چرمی کاغذ کے دو حصوں پر مشتمل ہے جس میں سورہ 20-18 کا کچھ حصہ بھی شامل ہے۔یعنی کہ یہ نسخہ مکمل قرآن نہیں ہے کیونکہ باقی قرآن اس وقت نزول کے مراحل میں تھا یا اس نسخے میں لکھی ہوئ حالت میں نہیں تھا اور اسے کئ عرصے تک غلطی سے ساتویں صدی عیسوی کے دوسرے نسخے سے ملا کر رکھا گیا۔ہو سکتا ہے اس سے بھی انہیں کچھ غلطی ہوئ ہو جب کہ قرآن مکمل کتابی صورت میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے مرتب کیا جب کہ پہلے قرآن متفرق نسخوں میں چھوٹے چھوٹے حصوں میں لکھا ہوا اور صحابہ کی طرف سے حفط کیا ہوا یاد تھا۔اس طرح ایک نامکمل نسخے کو پورا قرآن سمجھ کر قرآن کو نامکمل نہیں کہا جاسکتا کیونکہ کتابی صورت میں پورا قرآن بعد میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے مرتب کیا جب کہ اس نسخے کے وقت کا اندازہ 586ء سے 645ء تک کا لگایا گیا ہے۔
اس نسخے کی وجہ سے کچھ غیر مسلم یہ الزام بھی لگا رہے ہیں کہ یہ نسخہ پہلے کا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نعوذ بااللہ قرآن میں شامل کر لیا۔اگر پہلے کا ہے تو اس میں نقطے کہاں سے آئے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور اور یہاں تک کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے دور تک قرآن پر نقطے ڈالنے کا رواج نہیں تھا کیوں کہ عرب عربی تحریر ایسے پڑھ لیتے تھے۔اور ا س نسخے کے دور کا اندازہ 568ء سے 645ء لگایا گیا ہے اور یہ وہی و قت ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم باحیات تھے کیونکہ آپ کی پیدائش 20 اپریل 570 اور وفات اندازہ جون 632ء میں ہوئ۔یعنی اس نسخے کی عمر کا اندازہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے بعد کا ہے پہلے کا نہیں۔پھر کس طرح یہ نسخہ آپ نے کہیں اور سے لے کر قرآن میں شامل کیا۔جب کہ وقت کا فرق بھی ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کے مکمل مستند نہ ہونے پر واضح کیا جا سکتا ہے۔اس نسخے کو غیر مسلم کسی اور انسان کا نسخہ کہنے کی کوشش کررہے ہیں۔پہلے وہ یہ تو ثابت کردیں کہ یہ نسخہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا کہاں سے تھا جب کہ قرآن کی نسبت اج تک کوئ مصنف یا مؤرخ کسی اور طرف نہیں کر سکا ثبوت کے ساتھ۔اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نعوذ بااللہ یہ کہیں اور سے نقل بھی لیا تو وہ کفار عرب جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک بات کو غلط کرنا چاہتے تھے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنقید کا نشانہ نہ بناتے؟ یہ کونسا نسخہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نعوذ بااللہ اور جگہ سے اخذ کیا اور اس کا پورے عرب کے سوا کسی کو پتہ نہیں تھا۔ظاہر ہے یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا۔آپ جب کہ پڑھے لکھے ہی نہیں تھے تو کہاں ات پڑھ کر آپ نے یہ نسخہ اٹھا کر لوگوں کے سامنے پیش کردیا۔ انتہائی گھٹیا اور کمزور اعتراض ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن پر۔
واضح رہے کہ یہ نسخہ بھی مکمل نہیں ہے۔اس میں ایک ورقے پر سورہ کہف کی آیات نمبر 31-17 اور دوسرے ورقے پر سورہ مریم کی آیات 98-91 اور سورہ طٰہ کی پہلی چالیس آیات ہیں جن کی ترتیب بالکل آج کے قرآن کی طرح ہے۔اس طرح یہ نسخہ مکمل قرآن کی بجائے کسی صحابی کا ذاتی مسودہ ہو سکتا ہے جو انہوں نے اپنے لیے لکھ کر رکھا ہوا تھا جیسا کہ اس زمانے میں کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم کی عادت تھی۔یہ دو محفوظ دہ جانے والے باقی گم ہوجانے والے نسخے سے علیحدہ ہوگئے تھے جس میں سورہ 18 اور 19 کی باقی آیات تھیں۔اس میں حروف علت کی تمیز کرنے والے امتیازی نشان نہیں ہیں۔تحریر ایک ایسے انداز میں ہے جو بعد میں پورے قرآنی نسخوں کا نمونہ بن گئ۔یہ تحریر ایک جانور کے چمڑے یا چرمی کاغذ پر لکھی گئی جیسا کہ اس زمانے میں رواج تھا۔اس کے بارے میں یونیورسٹی آف برمنگھم کے پروفیسر آف کرسچینیٹی اور اسلام ڈیوڈ تھامس ک کہنا ہے کہ اعتماد کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ورقے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے دو عشروں سے کم بعد کے ہیں۔یعنی غالب امکان یہ ہے کہ یہ ورقے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بیس سال بعد تک کے ہیں۔جب کہ ریاض،سعودیہ عرب کے سنٹر فار ریسرچ اینڈ اسلامک سٹڈیز کے ڈاکٹر سعود کا کہنا ہے کہ ان ۔نسخوں کی تحریر ظاہر کرتی ہے کہ یہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں لکھے گئے ہیں۔کیوں کہ ان کے وقت سے پہلے قرآن کو اس انداز تحریر میں نہیں لکھا جات تھا۔یہ سب حقائق ظاہر کر رہے ہیں کہ یہ نسخہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے پہلے ک نہیں کہ قرآن پر کسی اور کتاب سے اخذ کیے جانے کا الزام لگا دیا جائے بلکہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے تقریبا بیس سال بعد کا ہے جب کہ قرآن نازل ہو چکا تھا اور اس کی تحریر جاری تھی۔
دوسری بات یہ بھی ہے کہ وہ کتاب بھلا کیوں کر تبدیل ہوسکتی ہے جس کتاب کے خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم،صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم،تابعین،تبع تابعین اور چھوٹے چھوٹے بچوں تک حافط ہیں۔کوئ قرآن پڑھنے والے کی اج تک زبابی غلطی برداشت نہیں کر سکتا تو تحریری غلطی کیسے برداشت کرے گا کہ قرآن کی تحریر ہی نعوذ بااللہ بدل دے کوئ۔وہ کتاب تبدیل ہو جو سینوں میں محفوظ نہ ہو قرآن کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم سے اب تک کروڑوں حافظ گزر چکے ہیں جن کے سینے میں اس کا ایک ایک حرف محفوظ تھا۔خود یہ الفاظ لکھنے والا احید حسن اس قرآن کا حافظ ہے۔اور اس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ قرآن یاد کرنے کے دوران ایک زیر زبر کی غلطی بھی استاد محترم برداشت نہیں کرتے تھے تو پھر قرآن بھلا کیسے تبدیل ہو سکتا ہے جس کے ہر زمانے میں حافظ رہے۔ایک حافظ ہوتا تو غلطی ہوتی۔جب کہ ایک حافظ کی غلطی کی اصلاح کرنے والے لاکھوں کروڑوں حافظ اب تک گزر چکے ہیں تو بھلا قرآن کس طرح تبدیل ہوسکتا ہے۔قرآن کا زبانی حافظ قرآن کی حفاظت کا اللٰہ تعالٰی کی طرف سے سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
حوالہ جات:
حوالہ جات 
www.muhaddisforum.com
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Birmingham_Quran_manuscript

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔