قدیم تہذیبوں میں ایک خدا کا تصور اور اس کے تاریخی حقائق بجواب ملحد کا مضمون خدا کی تاریخ
آج ہم خدا کی ذات کے سب انسانوں کے نزدیک حقیقی طور پہ ایک ہونے کے ثبوت پہ بات کرنا چاہتے ہیں اور ساتھ ہی اس خیال کی تردید کرنا چاہتے ہیں کہ خدا کے ایک ہونے کا تصور ارتقا کی پیداوار ہے۔ہم تاریخی حقائق سے ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ خدا کے ایک ہونے کا تصور دنیا کے قدیم ترین انسانوں کے ہاں بھی پایا جاتا تھا۔بعد میں لوگوں نے اپنے اپنے خدا گھڑ لیے۔ وہی ایک خدا ہی سچا ہے اور باقی سب جھوٹے جن کو انسان نے گھڑ لیا۔
کچھ لوگ ہمیں کہتے ہیں کہ دنیا میں کروڑوں خداوں کی پوجا ہوتی ہے اور کونسا خدا سچا ہے۔آج انشاءاللہ ہم اس سوال کا بہت حد تک جواب واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔
ملحدین اس بات کا دعوی کرتے ہیں کہ خدا ارتقا اور انسانی ذہن کی پیداوار ہے۔وہ ۔کہتے ہیں کہ انسان نے وقت کے ساتھ ساتھ بہت سے خدا بنالیے۔ہم ان سے کہنا چاہتے ہیں کہ خدا ذہن یا ارتقاء کی ہیداوار نہیں بلکہ ایک عالمگیر اور سائنسی حقیقیت ہے جس کے سائنسی دلائل ہم بیان کر چکے ہیں اور یہ ارتقا کی نہیں بانسانی فطرت کا تقاضا ہے جیسا کہ گاڈ جین کا تصور ہم نے بیان کیا تھا۔خدا کی ذات کے سائینسی دلائل علی عباس جلال پوری،سبط حسن،ارشد محمود،کارل مارکس،سگمنڈ فرائیڈ،برٹرینڈ رسل اور موجودہ ملحدین،کمیونسٹوں،کامریڈ،سوشلسٹ لوگوں اور دہریوں کے اس خیال کی تردید کرتے ہیں کہ خدا ذہن و ارتقاء کی پیداوار ہے۔
دوسرا اعتراض ملحدین یہ کرتے ہیں کہ انسان نے ارتقا کے ساتھ ساتھ بہت سے خدا گھڑ لیے۔ہم تاریخی حقائق سے بتانا چاہتے ہیں کہ انسانیت کا بنیادی تصور ایک خدا پہ ایمان تھا جیسا کہ اسلام کی تعلیم ہے۔باقی خدا انسان نے خود گھڑ لیے۔
ہم اس تاریخی حقیقت پہ بات شروع کرتے ہیں کہ انسانیت کا بنیادی تصور ایک خدا پہ ایمان تھا۔ہمارے دلائل انسانی سوچ کے ارتقاء کے اس نظریہ کی تردید کر دیں گے کہ انسان شروع ہی سے کئ خداؤں کی پوجا کرتا ہے۔
انسانیت کی قدیم ترین تہذیبوں میں سمیرین،بابلی،مصری،آرین،ایرانی،ہندو،یہودی تہذیبیں شامل ہیں۔ان تہذیبوں میں موجود خدا کے تصور پہ ہم بات کرتے ہیں۔
جب سمیرین یعنی قدیم عراقی،بابلی،مصری تہذیبوں کے قدیم آثار سے ملنے والی تاریخی تختیوں کے پیغامات تاریخی ماہرین نے پڑھنا شروع کیے تو پہلے یہ بات سامنے آئ کہ یہ لوگ کئ مردانہ اور زنانہ دیوتاؤں،روحوں اور شیطانی طاقتوں کی پوجا کرتے تھے۔لہذا ابتدا میں یہ تصور قائم ہوا کہ یہ لوگ کئ خداؤں کی پرستش کرتے تھے۔اس تصور کو انگریزی میں کئ خداؤں پہ ایمان یاPolytheism کہا جاتا ہے۔
لیکن جب ان تہذیبوں کی مزید قدیم تختیاں دریافت ہوئ تو پتہ چلا کہ یہ تہذیبیں اپنے قدیم دور میں صرف ایک ایسے خدا کی قائل تھی جسے وہ سب سے طاقتور خیال کرتی تھی۔اس سے ماہرین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ لوگ شروع میں صرف ایک خدا کے قائل تھے لیکن بعد میں کئ خداؤں کی طرف مائل تھے۔یعنی ان کا اصل تصور صرف ایک خدا پہ ایمان تھا۔
ایک خدا پہ ایمان رکھنے کو انگریزی میںMonotheism کہا جاتا ہے۔آکسفورڈ کے سٹیفن لینگڈون نے بھی اس تصور کی تائید کی کہ یہ لوگ شروع میں ایک خدا کے قائل تھے۔اس نے 1931میں لکھا
I may fail to carry conviction in concluding that both in Sumerian and Semitic religions, monotheism preceded polytheism. . . . The evidence and reasons for this conclusion, so contrary to accepted and current views, have been set down with care and with the perception of adverse criticism. It is, I trust, the conclusion of knowledge and not of audacious preconception.
اس میں وہ کہ رہا ہے کہ یہ لوگ شروع میں ایک خدا کے قائل تھے۔
چونکہ سمیرین تہذیب انسانی تاریخ کی قدیم ترین تہذیب ہے لہذا لینگڈون نے نتیجہ اخذ کیا کہ انسانیت کا پہلا تصور صرف ایک خدا پہ ایمان تھا۔باقی خدا بعد میں گھڑ لیے گئے۔یہی بات قرآن نے چودہ سو سال پہلے کی جس کی تاریخی حقائق نے تصدیق کر دی۔
اس نے مزید لکھا کہ سمیرین،بابلی،سامی یعنی حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے سام کی نسل کے لوگ،عبرانی یہ سب لوگ جو کہ انسان کی قدیم ترین تہذیب ہیں صرف ایک خدا کے قائل تھے۔
اس نے لکھا کہ سمیرین،بابلی،سامی یعنی حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے سام کی نسل کے لوگ،عبرانی سب ایک خدا کے قائل تھے۔
تاریخی حقائق موجود ہیں کہ عراق میں ابراہیم علیہ السلام اور مصر میں موسٰی علیہ السلام انسانوں کو تب ایک خدا کی تعلیم دے رہے تھے جب وہ کئ خداؤں کی طرف مائل تھے۔اور تاریخی تختیاں یہ بتاتی ہیں کہ پہلے وہ قدیم لوگ ایک خدا کے قائل تھے اور پھر کئ خداؤں کے قائل تھے جب ابراھیم علیہ السلام ا یے۔لہذا قرآن کی یہ بات سچ ثابت ہوتی ہے کہ ابراہیم و موسٰی علیہ السلام انسانوں کو دوبارہ ایک خدا کا درس دینے آئے۔
تاریخی حقا بھی ظاہر کرتے ہیں کہ قدیم سمیری تہذیب میں پہلے صرف دو خداؤں آسمان دیوتا یا سکائ گاڈ اور ماں دیوی یا انیناInnina کی پوجا تھی اور بعد میں 3500اور پھر 5000دیوتاؤں کی پوجا کی جانے لگی۔اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے وہ لوگ صرف ایک خدا کے قائل تھے اور بعد میں سیاسی،تجارتی اور دوسرے علاقوں کے اثرات کی وجہ سے زیادہ خداؤں کی پوجا کرنے لگے۔
لینگڈون کے مشاہدات کے مطابق دو سمیری خداؤں میں سے اینAn پہلا خدا تھا اور باقی خداؤں کوAnunnaیعنی بڑے خدا این کی اولاد کہا جاتا تھا۔س طرح بنیادی طور پر ایمان ایک خدا پہ تھا اور باقی چھوٹے خداؤں کو اس کی اولاد سمجھ کے پوجا کی جاتی۔
مصری تہذیب کے بارے میں بھی مورخین کا کہنا ہے کہ یہ تہذیب پہلے شروع میں ایک خدا کی قائل تھی۔بعد میں زیادہ خداؤں کی پوجا شروع ہوگئ۔وید مذہب میں بھی پہلے ایک خدا کا تصور تھا جو بعد میں زیادہ خداؤں کے تصور میں تبدیل ہوگیا۔ایران میں اس کے برعکس ہوا جہاں آریا نسل کا زیادہ خداؤں کا تصور زرتشت نے باقی خداؤں کو ایک عظیم اور عالم الغیب خدا آرمزد کا پابند کر کے کیا۔آرمزد کو دنیا کی تمام اچھائ کا خالق،مذہب و اخلاقیات کے قوانیں کا محافظ،اور ایمان لانے والوں کا مسیحا کہا جاتا تھا۔ان کے ہاں جنت،جہنم،دوبارہ زندہ ہونے اور ثواب گناہ کا تصور موجود تھا لیکن اس مذہب میں بھی بڑے خدا کی پابند روحوں اور قدیم آریا نسل کی طرح آگ کی پوجا کا تصور موجود تھا جس کو آرمزد یا حقیقی خدا کی عبادت کی علامت کہا جاتا تھا۔
ڈیوڈ بیرٹس کے ورلڈ کرسچن انسائیکلو پیڈیا کے مطابق دنیا کی 85% آبادی خدا کی ذات پہ کسی نہ کسی طرح ایمان رکھتی ہے اور ان میں سے 53% ایسے ہیں جو صرف ایک خدا پہ ایمان رکھتے ہیں جن میں ابراہیمی مذہب سے تعلق رکھنے والے یہودی ، عیسائ اور مسلمان شامل ہیں۔
یونانیوں سے خطاب کرتے ہوئے جسٹن مارتر نے ان کے اپنے پیغمبروں اور شاعروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یونانی مذہب بنیادی طور پر ایک خدا کی پوجا تھا۔اس نے چھٹی صدی قبل مسیح کے یونانی شاعرOrpheus کا حوالہ دیتے ہوئے کہا جس میں اس شاعر نے کہا
"
واحد اور عالمی بادشاہ کو دیکھو،وہ اکیلا اور اپنی ذات میں کافی جس سے ہم سب نکلے ہیں اور اس عظیم بادشاہ کے سوا اور کوئ نہیں"۔
اس طرح پیغمبر سمجھی جانے والیSibyl نے کہا تھا
"صرف ایک طاقتور،نہ نظر آنے والا،سب سے بلند،سب کو دیکھنے والا خدا موجود ہے"۔
یہ صرف چند حوالے ہیں لیکن ایک خدا کا تذکرہ کرنے والوں میں ہومر،افلاطون،سوفوکلز یاSophocles بھی شامل ہیں۔
آکسفورڈ میں قدیم تاریخ کے پروفیسر جارج رالنسن نے کہا کہ تاریخی سروے ظاہر کرتا ہے کہ دنیا میں تقریبا ہر جگہ یا اکثر جگہ صرف ایک خدا کی عبادت کا تصور موجود تھا خواہ وہ علاقے غیر مہذب تھے یا ترقی یافتہ۔لیکن یہ تصور زیادہ خداؤں کی پوجا میں دب گیا جس کا زبان و سوچ پہ قبضہ تھااور یہ دریافت نہ ہوسکا۔Jackson 1982 pp.5_6
فلنڈر پیٹری یاFlinder petrie جس کو جدید علم مصر کا بابا مانا جاتا ہے،اس نے کہا تھا کہ اگر خدا کا تصور ارتقا کے عمل کا نتیجہ ہوتا تو ہمیں پہلے مصر قدیم میں بہت سے خداؤں کا تصور ملتا اور پھر ایک خدا کا۔لیکن ایسا نہیں ہے۔ہمیں پہلے ایک خدا کا تصور ملتاہے اور پھر زیادہ خداؤں کا۔1908 pp 3_4
رابرٹ لوول جو امریکہ کی نیشنل میوزیم ہسٹری سے تعلق رکھنے والے اور ارتقاء کے حامی ہیں ،نے کہا
"وقت آگیا ہے کہ ہم بے بنیاد نظریات کی بجائے تحقیقات کو اپنائیں۔
دنیا کی ہر ثقافت میں پہلے ایک خدا کا تصور تھا۔اس میں قدیم امریکی،آسٹریلوی،کانگو کے جھاڑیوں کے مقیم،چین کے لوگ سب شامل ہیں۔(CF Fraser ,1975,pp11_38)
اس کی اہمیت دوہری ہے۔ارتقا کے حامی ایک خدا کے تصور اعت پھر کئ خداؤں کے تصور کی ارتقائ وضاحت نہیں کر سکتے۔دوسری بات یہ کہ یہ تحقیقات بائیبل اور قرآن کے ان تصورات کو سچ ثابت کرتی ہیں جس کے مطابق شروع میں سب انسان ایک خدا کے عبادت گزار تھے اور بعد میں شرک کرنے لگے۔خدا قدیم انسانوں کی زندگیوں میں کیسے موجود تھا اس کی وضاحت نہ صرف وحی بلکہ علم بشریات یاAnthropology بھی کرتی ہے۔
قدیم مصری ابتداء میں صرف ایک خدا کے قایل تھے جس کو راء یاRa کہا جاتا تھا۔را کو پہلی ہستی اور باقی چھوٹے خداؤںOsiris,Set,Isis , کا پیدا کرنے والا مانا جاتا تھا۔را کو بڑا اور خالق رب مانا جاتا تھا اور ہیلیو پولس کی عبادت گاہ میں اس کی پوجا کی جاتی اور اس کو کسی سے نہ پیدا ہونے والا لیکن سب کا پیدا کرنے والا رب مانا جاتا۔دوسرے مصری علاقوں کے لوگ اور خداجیسا کہ پتاہPtah کی پوجا کرتے لیکن اس کو بھی واحد تصور کیا جاتا۔اس خدا کا تصور سمیرین کے این خدا جیسا تھا کیونکہ وہ بھی واحد رب مانا جاتا تھا۔
جب ان لوگوں کا واسطہ دوسرے علاقوں کے لوگوں سے پڑتا تو یہ ان کے یا ان سے ملنے والے خداؤں کی بھی پوجا شروع کر دیتے۔اس طرح قدیم مصر میں ملکی سطح پہ کئ خداؤں کی پوجا کا سلسلہ شروع ہوا لیکن سب سے بڑا خدا را پھر بھی اپنی سب سے اعلٰی حیثیت پہ تسلیم کیا جاتا رہا۔
قدیم مصر کی ایک کتاب جسےBook Of The Dead کہا جاتا ہے میں لکھا تھا
"را خدا کی حمد یا نظم جو تمام خداؤں کا صدر ہے،انسان کو پیدا کرنے والا ہے،جس کی بات سچ ہے،دنیا کا حکمران ہے،وہ انسان کو ظالم سے نجات دیتا ہے،علم کا بادشاہ ہے،حکمت اس کے منہ کی بولی ہے۔"
جدید ماہرین تاریخ نے یہ بات نوٹ کی ہے کہ جب سے مصر میں فراعین بادشاہ کو زیادہ اہمیت دی جانے لگی تب سے ان خداؤں کی عبادت کم ہونے لگی اور مصر میں بادشاہ کو دیوتا کی حیثیت حاصل ہوگئ اور ساتھ میں مفتوح قوموں کے خداؤں کی پوجا کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔آہستہ آہستہ عوامی عبادت کی بجائے مذہبی رسومات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
قدیم چینی مذہب میں بھی ہمیں ایک خدا کا تصور بڑی پختگی سے ملتا ہے۔
قدیم چینی ایک عظیم آسمانی خدا کی عبادت کرتے تھے جسے وہShangdi یاShangti کہتے تھے جس کے لیے سالانہ قربانیاں کی جاتی تھیں۔اور جسے تمام مخلوق کا خالق مانا جاتا تھا۔
قدیم چینی تہذیب کا جو پرانہ نسخہ دریافت ہوا ہے اس کوOracle bone script کہا جاتا ہے۔اس میں ظاہر ہوتا ہے کہ قدیم چینی باشندے بھی ایک خدا کے قائل تھے۔اس میں بادشاہ او ر خدا کے درمیان ایک گفتگو بھی بیان کی گئ ہے جو ایک مذہبی عالم کے ذریعے ہوتی ہے۔
ان لوگوں کے مطابق وہ خدا بہت بڑا اور انسانوں کی پہنچ سے دور تھا لہذا انہوں نے اس تک پہنچنے کے لیے اور بہت سے خدا بنالیے۔
اس کے باوجود بھی چین میں ایک خدا کی عبادت جاری رہی اور مشہور فلاسفر موزی نے ایک خدا پہ اپنے ایمان کا اظہار کیا۔
قدیم چینی لوگ خدا کو ایک بہت دور کی ہستی خیال کرتے تھے اس لیے انہوں نے اسے پانے کے لیے درمیانی سلسلے کے طور پہ اور خدا بنا لیے۔لیکن پھر بھی چین میں ایک خدا کی عبادت کا سلسلہ جاری رہا۔مشہور چینی فلاسفر موزی ایک خدا پہ اپنے ایمان کا اظہار یوں کرتا ہے
"میں جانتا ہوں کہ وہ آسمان یعنی خدا انسان سے بہت محبت کرتا ہے،اس نے سورج،چاند،ستاروں کو حکم دیا کہ وہ انسان کو روشنی دیں اور اس کی رہنمائی کریں،اس نے گرمی،سردی،بہار،خزاں چار موسم بنائے،اس نے برف،بارش اور شبنم بھیجی تا کہ زمیں پہ غلہ اور ریشم اگے تا کہ لوگ اسے استعمال کریں اور اس سے لطف اندوز ہوں۔اس نے پہاڑوں،دریاؤں،وادیوں کو قائم کیا،اس نے بادشاہ و سردار متعین کیے تا کہ اچھوں کو جزا اور بروں کو سزا دے۔یہ ماضی سے اب تک ہو رہا ہے"۔
ہان سلطنت کے دور میں چین کنفیوشس کے خیالات کی طرف راغب ہوگیا اور کئ خداؤں کا تصور فروغ پا گیا لیکن قدیم چین کا بنیادی تصور ایک آسمانی خدا تھا۔
یہاں تک کہ دنیا میں سب سے زیادہ خداؤں کی پوجا کرنے والا ہندو مذہب بھی ابتدا میں ایک خدا کی پوجا کا قائل تھا۔ہندو مذہب کی سب سے قدیم کتاب ریگ ویدا میں لکھا ہے
"آغاز میں جو پیدا ہوا سب سے بڑا مالک،سب سے بڑا مالک تھا جس نے زمین و آسمان کو بنایا،جس نے زندگی دی،مضبوطی دی،جس کی بولی لگانے والے خدا اس ایک خدا کی عزت کرتے ہیں"۔
اگرچہ میکس ملر جو ایک فلسفی اور علوم مشرق کا ماہر اور عیسائیت کا ایک بڑا مخالف تھا،لیکن وہ بھی کہتا ہے کہ ویدا میں کثیر خداؤں کی پوجا سے پہلے ایک خدا کا تصور ملتا ہے یہاں تک کہ کئ خداؤں کے ساتھ بھی وہ ایک خدا ملتا ہے جو تمام خداؤں کا ایک ہی مظہر ہے۔وہ اسے اپنے باقی خداؤں کے ناموں جیسا کہ اندرا،مترا،ویرونا،اگنی،یاما سے پکارتے ہیں۔
ہندو مذہب کے مطابق ان چھوٹے خداؤں کو ایک بڑے خدا نے ہیدا کیا۔اتھاروا ویدا کے مطابق عظیم دیوتا وہ ہیں جو اس بڑے خدا یا برہمن سے نکلے ہیں۔آہستہ آہستہ ہندو مذہب زیادہ سے زیادہ خداؤں کی پوجا کا قائل ہوتا گیا جن میں وہ رومی،ایرانی اور ہیلنی یعنی قدیم یونانی خدا بھی تھے جن کو آریا نسل کے لوگ اپنے ساتھ لائے تھے۔
کئ ابتدائی انسان ایک پراسرار اور آسمانی خدا پہ ایمان رکھتے تھے۔ابتدائی رومی و آسٹریلوی باشندے اپنے خدا کو طاقت کے اظہار کے طور پہ باپ کہتے تھے۔اصل امریکی باشندے بھی اہنے خدا کو باپ کہتے۔چینی،انڈین اور یونانی ایک آسمانی خدا پہ ایمان رکھتے تھے۔چالیس ہزار سال پہلے آریا نسل کے لوگ جو کیسپین بحیرہ کے ساتھ رہتے تھے کئ خداؤں کی طرف مائل ہوگئے اس طرح وہ یورپ ایشیا ہندوستان جہاں گئے وہاں ذیادہ خداؤں کی ہوجا شروع ہو گئی۔
بشپ لی رائے کی 1909میں پیرس میں شائع ہونے والی کتابReligion des primitis اور نیو یارک میں 1898میں اے لینگ کی شائع ہونے والی کتابThe making of religion کے مطابق شمالی کانگو کےpygmies لوگ،قدیم آسٹریلوی باشندے اور جزائر انڈمان کے قدیم لوگ ایک عظیم طاقتور خدا پہ ایمان رکھتے ہیں۔
عیسائ اگرچہ تین خداؤں کے قائل ہیں لیکن وہ بھی بنیادی طور پر عیسی علیہ السلام اور مریم علیہ السلام کو ایک بڑے اور حقیقی رب سے کم قرار دیتے ہیں اور عیسی و مریم کو اس عظیم رب کا نور قرار دیتے ہیں۔اس طرح عیسائ بھی حقیقت میں ایک خدا کے ماننے والے ہیں۔لیکن ساتھ دو اور چھوٹے خداؤں کو شامل کر لینے سے وہ عقیدہ تثلیث یاTrinity کے قائل کہلاتے ہیں۔
عیسائیوں کی بائبل خود لکھتی ہے کہ خدا ایک ہے۔مثلاExodus میں لکھا ہے
You shall have no gods before me
عیسائ تعلیمات کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام خدا کا عظیم بیٹا تھا جسے خدا نے انسانوں کو گناہوں سے بچانے اور ان کو اعلی مرتبہ دینے کے لیے بھیجا۔اس طرح عیسائیت میں عیسی،مریم اور بڑا خدا مل کے ایک تین شخصیات پہ مشتمل ایک تثلیثی عقیدہ بناتے ہیں جس میں بیٹا عیسی،ماں مریم ایک باپ اور بڑا خدا کی نشانی ہیں۔
یورپی و ایشائی نسلوں کا ایک قدیم مذہب ٹینگرزم بھی ظاہر کرتا ہے کہ اس کے ماننے والے پہلے ایک خدا کے قائل تھے اور بعد میں کئ خداؤں کی پوجا اور اجداد پرستی کی طرف مائل ہوگئے،سمیرین این اور چینی شینگ تی کی طرح ایک سب سے بڑے خدا کا تصور تھا جسے آسمانی باپ یا سکائ فادر کہا جاتا تھا۔بعد میں باس خدا کے ساتھ ایک زمینی دیوی کا تصور شامل کر دیا گیا اور آہستہ آہستہ کئ خداؤں کی پوجا شروع ہوگئ۔تھے اور ترک ومغل روایات میں بھی ایک سب سے بڑے اور عظیم خدا کا تصور تھا لیکن وہاں بھی آہستہ آہستہ کئ خداؤں کی پوجا شروع ہوگئ جیسا کہ منگول سلطنت کے مونگکے خان نے کہا تھا کہ ہم ایک خدا پہ ایمان رکھتے ہیں،جس کے حکم سے ہم زندہ رہتے اور مرتے ہیں اور دل میں اس کے لیے اعلٰی حیثیت رکھتے ہیں۔
خالص ایک خدا کی عبادت کا تصور ہمیں دنیا کے قدیم ترین انسانوں میں بھی ملتا ہے۔قدیم چیروکی لوگ ایک عظیم ہستی کی پوجا کرتے ہیں جو سب کی خالق،ہر جگہ موجود،سب سے طاقتور،سب جاننے والی ہے۔زولوس یاZulus ایک عظیم خداUmvelinqagi کی پوجا کرتے ہیں۔ جس کا مطلب ہے جو کائنات میں سب سے پہلے تھا۔قدیم میلگاسی لوگ ایسے عظیم خدا پہ یقین رکھتے ہیں جسے کسی نے پیدا نہیں کیا۔اس خدا کو وہZanahary کے نام سے پکارتے ہیں۔نمیبیا کے قدیم لوگ ہمبا ایک سب سے طاقتور خدا کی پوجا کرتے ہیں جسے وہMukru کہتے ہیں لیکن ساتھ ہی اس تک پہنچنے کے لیے درمیانی چھوٹے خدا بھی پوجتے ہیں۔نائیجیریا کے قدیم لوگ اگبو ایک عظیم خدا کی پوجا کرتے ہیں جسے وہChukwu یعنی سب سے برا طاقتور اور لامحدود کہتے ہیں۔
اس طرح ملحدین کا یہ اعتراض کہ ہم کس رب کو مانیں،دور ہوجاتا ہے۔ہم ان سے کہتے ہیں کہ اس رب کو مانیں جس کو ہندومت،یہودیت،عیسائیت سب میں سب سے اعلٰی حیثیت حاصل ہے اور اس سے بڑا کوئ نہیں اور باقی خداؤں کا انکار اس لیے کر دیں کہ وہ بعد کی ایجاد ہیں اور خدا ساینسی دلائل کے مطابق کائنات کنٹرول کرنے میں ان جھوٹے خداؤں کا محتاج نہیں۔لہذا آخر میں بات یہی آجاتی ہے کہ خدا ایک ہے۔کروڑ خداؤں کا بہانہ بنا کے ملحد ایک خدا سے نہیں بھاگ سکتے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک واحد خدا۔ کا تصور ارتقاء و تصور و خیال و وہم کی پیداوار نہیں بلکہ سب انسانیت کا مشترکہ تصور ہے جس کی فطری بنیادیں سائنس نے آجGod gene کی صورت میں بتا دی ہیں اور ثابت کر دیا ہے کہ خدا پہ ایمان انسان کی فطرت میں شامل ہے۔تمام انسان شروع میں ایہ خدا کے ہی قائل تھے اور بعد میں سماجی ، علاقائی اور بیرونی اثرات سے کئ خداؤں کی پوجا کرنے لگے۔
تمام مذہب جیسا کہ ہندومت اور مظاہر پرست اگرچہ بہت سے خداؤں کے قائل ہیں لیکن وہ بھی اس بات کو مانتے ہیں کہ ایک سب سے بڑا خدا موجود ہے۔بات پھر اسی رب پہ آجاتی ہے جس سے بڑا کوئ رب نہیں۔مسلمانوں اور باقی تمام مذاہب میں عقیدہ خدا میں فرق اتنا ہے کہ مسلمان صرف اللٰہ تعالٰی کو ہی مانتے ہیں اور ناقی لوگ اگرچہ بہت سے خداؤں کے قائل ہیں لیکن ان کے ہاں بھی ایک ایسے رب کا تصور موجود ہے جس سے بڑا کوئ نہیں۔فرق یہ ہے کہ وہ بہت سے خدا مان کے شرک کرتے ہیں اور ہم ان خداؤں کو مانے بغیر براہ راست رب العالمین پہ ایمان رکھتے ہیں۔
آخر میں ہم ملحدین سے کہنا چاہتے ہیں کہ وہ اسی ایک رب پہ ایمان لے آئیں جس پہ شروع میں انسانیت متفق تھی اور باقی ان تمام خداؤں کا انکار کر دیں جو گھڑ لیے گئے ہیں۔
آج ہم خدا کی ذات کے سب انسانوں کے نزدیک حقیقی طور پہ ایک ہونے کے ثبوت پہ بات کرنا چاہتے ہیں اور ساتھ ہی اس خیال کی تردید کرنا چاہتے ہیں کہ خدا کے ایک ہونے کا تصور ارتقا کی پیداوار ہے۔ہم تاریخی حقائق سے ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ خدا کے ایک ہونے کا تصور دنیا کے قدیم ترین انسانوں کے ہاں بھی پایا جاتا تھا۔بعد میں لوگوں نے اپنے اپنے خدا گھڑ لیے۔ وہی ایک خدا ہی سچا ہے اور باقی سب جھوٹے جن کو انسان نے گھڑ لیا۔
کچھ لوگ ہمیں کہتے ہیں کہ دنیا میں کروڑوں خداوں کی پوجا ہوتی ہے اور کونسا خدا سچا ہے۔آج انشاءاللہ ہم اس سوال کا بہت حد تک جواب واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔
ملحدین اس بات کا دعوی کرتے ہیں کہ خدا ارتقا اور انسانی ذہن کی پیداوار ہے۔وہ ۔کہتے ہیں کہ انسان نے وقت کے ساتھ ساتھ بہت سے خدا بنالیے۔ہم ان سے کہنا چاہتے ہیں کہ خدا ذہن یا ارتقاء کی ہیداوار نہیں بلکہ ایک عالمگیر اور سائنسی حقیقیت ہے جس کے سائنسی دلائل ہم بیان کر چکے ہیں اور یہ ارتقا کی نہیں بانسانی فطرت کا تقاضا ہے جیسا کہ گاڈ جین کا تصور ہم نے بیان کیا تھا۔خدا کی ذات کے سائینسی دلائل علی عباس جلال پوری،سبط حسن،ارشد محمود،کارل مارکس،سگمنڈ فرائیڈ،برٹرینڈ رسل اور موجودہ ملحدین،کمیونسٹوں،کامریڈ،سوشلسٹ لوگوں اور دہریوں کے اس خیال کی تردید کرتے ہیں کہ خدا ذہن و ارتقاء کی پیداوار ہے۔
دوسرا اعتراض ملحدین یہ کرتے ہیں کہ انسان نے ارتقا کے ساتھ ساتھ بہت سے خدا گھڑ لیے۔ہم تاریخی حقائق سے بتانا چاہتے ہیں کہ انسانیت کا بنیادی تصور ایک خدا پہ ایمان تھا جیسا کہ اسلام کی تعلیم ہے۔باقی خدا انسان نے خود گھڑ لیے۔
ہم اس تاریخی حقیقت پہ بات شروع کرتے ہیں کہ انسانیت کا بنیادی تصور ایک خدا پہ ایمان تھا۔ہمارے دلائل انسانی سوچ کے ارتقاء کے اس نظریہ کی تردید کر دیں گے کہ انسان شروع ہی سے کئ خداؤں کی پوجا کرتا ہے۔
انسانیت کی قدیم ترین تہذیبوں میں سمیرین،بابلی،مصری،آرین،ایرانی،ہندو،یہودی تہذیبیں شامل ہیں۔ان تہذیبوں میں موجود خدا کے تصور پہ ہم بات کرتے ہیں۔
جب سمیرین یعنی قدیم عراقی،بابلی،مصری تہذیبوں کے قدیم آثار سے ملنے والی تاریخی تختیوں کے پیغامات تاریخی ماہرین نے پڑھنا شروع کیے تو پہلے یہ بات سامنے آئ کہ یہ لوگ کئ مردانہ اور زنانہ دیوتاؤں،روحوں اور شیطانی طاقتوں کی پوجا کرتے تھے۔لہذا ابتدا میں یہ تصور قائم ہوا کہ یہ لوگ کئ خداؤں کی پرستش کرتے تھے۔اس تصور کو انگریزی میں کئ خداؤں پہ ایمان یاPolytheism کہا جاتا ہے۔
لیکن جب ان تہذیبوں کی مزید قدیم تختیاں دریافت ہوئ تو پتہ چلا کہ یہ تہذیبیں اپنے قدیم دور میں صرف ایک ایسے خدا کی قائل تھی جسے وہ سب سے طاقتور خیال کرتی تھی۔اس سے ماہرین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ لوگ شروع میں صرف ایک خدا کے قائل تھے لیکن بعد میں کئ خداؤں کی طرف مائل تھے۔یعنی ان کا اصل تصور صرف ایک خدا پہ ایمان تھا۔
ایک خدا پہ ایمان رکھنے کو انگریزی میںMonotheism کہا جاتا ہے۔آکسفورڈ کے سٹیفن لینگڈون نے بھی اس تصور کی تائید کی کہ یہ لوگ شروع میں ایک خدا کے قائل تھے۔اس نے 1931میں لکھا
I may fail to carry conviction in concluding that both in Sumerian and Semitic religions, monotheism preceded polytheism. . . . The evidence and reasons for this conclusion, so contrary to accepted and current views, have been set down with care and with the perception of adverse criticism. It is, I trust, the conclusion of knowledge and not of audacious preconception.
اس میں وہ کہ رہا ہے کہ یہ لوگ شروع میں ایک خدا کے قائل تھے۔
چونکہ سمیرین تہذیب انسانی تاریخ کی قدیم ترین تہذیب ہے لہذا لینگڈون نے نتیجہ اخذ کیا کہ انسانیت کا پہلا تصور صرف ایک خدا پہ ایمان تھا۔باقی خدا بعد میں گھڑ لیے گئے۔یہی بات قرآن نے چودہ سو سال پہلے کی جس کی تاریخی حقائق نے تصدیق کر دی۔
اس نے مزید لکھا کہ سمیرین،بابلی،سامی یعنی حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے سام کی نسل کے لوگ،عبرانی یہ سب لوگ جو کہ انسان کی قدیم ترین تہذیب ہیں صرف ایک خدا کے قائل تھے۔
اس نے لکھا کہ سمیرین،بابلی،سامی یعنی حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے سام کی نسل کے لوگ،عبرانی سب ایک خدا کے قائل تھے۔
تاریخی حقائق موجود ہیں کہ عراق میں ابراہیم علیہ السلام اور مصر میں موسٰی علیہ السلام انسانوں کو تب ایک خدا کی تعلیم دے رہے تھے جب وہ کئ خداؤں کی طرف مائل تھے۔اور تاریخی تختیاں یہ بتاتی ہیں کہ پہلے وہ قدیم لوگ ایک خدا کے قائل تھے اور پھر کئ خداؤں کے قائل تھے جب ابراھیم علیہ السلام ا یے۔لہذا قرآن کی یہ بات سچ ثابت ہوتی ہے کہ ابراہیم و موسٰی علیہ السلام انسانوں کو دوبارہ ایک خدا کا درس دینے آئے۔
تاریخی حقا بھی ظاہر کرتے ہیں کہ قدیم سمیری تہذیب میں پہلے صرف دو خداؤں آسمان دیوتا یا سکائ گاڈ اور ماں دیوی یا انیناInnina کی پوجا تھی اور بعد میں 3500اور پھر 5000دیوتاؤں کی پوجا کی جانے لگی۔اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے وہ لوگ صرف ایک خدا کے قائل تھے اور بعد میں سیاسی،تجارتی اور دوسرے علاقوں کے اثرات کی وجہ سے زیادہ خداؤں کی پوجا کرنے لگے۔
لینگڈون کے مشاہدات کے مطابق دو سمیری خداؤں میں سے اینAn پہلا خدا تھا اور باقی خداؤں کوAnunnaیعنی بڑے خدا این کی اولاد کہا جاتا تھا۔س طرح بنیادی طور پر ایمان ایک خدا پہ تھا اور باقی چھوٹے خداؤں کو اس کی اولاد سمجھ کے پوجا کی جاتی۔
مصری تہذیب کے بارے میں بھی مورخین کا کہنا ہے کہ یہ تہذیب پہلے شروع میں ایک خدا کی قائل تھی۔بعد میں زیادہ خداؤں کی پوجا شروع ہوگئ۔وید مذہب میں بھی پہلے ایک خدا کا تصور تھا جو بعد میں زیادہ خداؤں کے تصور میں تبدیل ہوگیا۔ایران میں اس کے برعکس ہوا جہاں آریا نسل کا زیادہ خداؤں کا تصور زرتشت نے باقی خداؤں کو ایک عظیم اور عالم الغیب خدا آرمزد کا پابند کر کے کیا۔آرمزد کو دنیا کی تمام اچھائ کا خالق،مذہب و اخلاقیات کے قوانیں کا محافظ،اور ایمان لانے والوں کا مسیحا کہا جاتا تھا۔ان کے ہاں جنت،جہنم،دوبارہ زندہ ہونے اور ثواب گناہ کا تصور موجود تھا لیکن اس مذہب میں بھی بڑے خدا کی پابند روحوں اور قدیم آریا نسل کی طرح آگ کی پوجا کا تصور موجود تھا جس کو آرمزد یا حقیقی خدا کی عبادت کی علامت کہا جاتا تھا۔
ڈیوڈ بیرٹس کے ورلڈ کرسچن انسائیکلو پیڈیا کے مطابق دنیا کی 85% آبادی خدا کی ذات پہ کسی نہ کسی طرح ایمان رکھتی ہے اور ان میں سے 53% ایسے ہیں جو صرف ایک خدا پہ ایمان رکھتے ہیں جن میں ابراہیمی مذہب سے تعلق رکھنے والے یہودی ، عیسائ اور مسلمان شامل ہیں۔
یونانیوں سے خطاب کرتے ہوئے جسٹن مارتر نے ان کے اپنے پیغمبروں اور شاعروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یونانی مذہب بنیادی طور پر ایک خدا کی پوجا تھا۔اس نے چھٹی صدی قبل مسیح کے یونانی شاعرOrpheus کا حوالہ دیتے ہوئے کہا جس میں اس شاعر نے کہا
"
واحد اور عالمی بادشاہ کو دیکھو،وہ اکیلا اور اپنی ذات میں کافی جس سے ہم سب نکلے ہیں اور اس عظیم بادشاہ کے سوا اور کوئ نہیں"۔
اس طرح پیغمبر سمجھی جانے والیSibyl نے کہا تھا
"صرف ایک طاقتور،نہ نظر آنے والا،سب سے بلند،سب کو دیکھنے والا خدا موجود ہے"۔
یہ صرف چند حوالے ہیں لیکن ایک خدا کا تذکرہ کرنے والوں میں ہومر،افلاطون،سوفوکلز یاSophocles بھی شامل ہیں۔
آکسفورڈ میں قدیم تاریخ کے پروفیسر جارج رالنسن نے کہا کہ تاریخی سروے ظاہر کرتا ہے کہ دنیا میں تقریبا ہر جگہ یا اکثر جگہ صرف ایک خدا کی عبادت کا تصور موجود تھا خواہ وہ علاقے غیر مہذب تھے یا ترقی یافتہ۔لیکن یہ تصور زیادہ خداؤں کی پوجا میں دب گیا جس کا زبان و سوچ پہ قبضہ تھااور یہ دریافت نہ ہوسکا۔Jackson 1982 pp.5_6
فلنڈر پیٹری یاFlinder petrie جس کو جدید علم مصر کا بابا مانا جاتا ہے،اس نے کہا تھا کہ اگر خدا کا تصور ارتقا کے عمل کا نتیجہ ہوتا تو ہمیں پہلے مصر قدیم میں بہت سے خداؤں کا تصور ملتا اور پھر ایک خدا کا۔لیکن ایسا نہیں ہے۔ہمیں پہلے ایک خدا کا تصور ملتاہے اور پھر زیادہ خداؤں کا۔1908 pp 3_4
رابرٹ لوول جو امریکہ کی نیشنل میوزیم ہسٹری سے تعلق رکھنے والے اور ارتقاء کے حامی ہیں ،نے کہا
"وقت آگیا ہے کہ ہم بے بنیاد نظریات کی بجائے تحقیقات کو اپنائیں۔
دنیا کی ہر ثقافت میں پہلے ایک خدا کا تصور تھا۔اس میں قدیم امریکی،آسٹریلوی،کانگو کے جھاڑیوں کے مقیم،چین کے لوگ سب شامل ہیں۔(CF Fraser ,1975,pp11_38)
اس کی اہمیت دوہری ہے۔ارتقا کے حامی ایک خدا کے تصور اعت پھر کئ خداؤں کے تصور کی ارتقائ وضاحت نہیں کر سکتے۔دوسری بات یہ کہ یہ تحقیقات بائیبل اور قرآن کے ان تصورات کو سچ ثابت کرتی ہیں جس کے مطابق شروع میں سب انسان ایک خدا کے عبادت گزار تھے اور بعد میں شرک کرنے لگے۔خدا قدیم انسانوں کی زندگیوں میں کیسے موجود تھا اس کی وضاحت نہ صرف وحی بلکہ علم بشریات یاAnthropology بھی کرتی ہے۔
قدیم مصری ابتداء میں صرف ایک خدا کے قایل تھے جس کو راء یاRa کہا جاتا تھا۔را کو پہلی ہستی اور باقی چھوٹے خداؤںOsiris,Set,Isis , کا پیدا کرنے والا مانا جاتا تھا۔را کو بڑا اور خالق رب مانا جاتا تھا اور ہیلیو پولس کی عبادت گاہ میں اس کی پوجا کی جاتی اور اس کو کسی سے نہ پیدا ہونے والا لیکن سب کا پیدا کرنے والا رب مانا جاتا۔دوسرے مصری علاقوں کے لوگ اور خداجیسا کہ پتاہPtah کی پوجا کرتے لیکن اس کو بھی واحد تصور کیا جاتا۔اس خدا کا تصور سمیرین کے این خدا جیسا تھا کیونکہ وہ بھی واحد رب مانا جاتا تھا۔
جب ان لوگوں کا واسطہ دوسرے علاقوں کے لوگوں سے پڑتا تو یہ ان کے یا ان سے ملنے والے خداؤں کی بھی پوجا شروع کر دیتے۔اس طرح قدیم مصر میں ملکی سطح پہ کئ خداؤں کی پوجا کا سلسلہ شروع ہوا لیکن سب سے بڑا خدا را پھر بھی اپنی سب سے اعلٰی حیثیت پہ تسلیم کیا جاتا رہا۔
قدیم مصر کی ایک کتاب جسےBook Of The Dead کہا جاتا ہے میں لکھا تھا
"را خدا کی حمد یا نظم جو تمام خداؤں کا صدر ہے،انسان کو پیدا کرنے والا ہے،جس کی بات سچ ہے،دنیا کا حکمران ہے،وہ انسان کو ظالم سے نجات دیتا ہے،علم کا بادشاہ ہے،حکمت اس کے منہ کی بولی ہے۔"
جدید ماہرین تاریخ نے یہ بات نوٹ کی ہے کہ جب سے مصر میں فراعین بادشاہ کو زیادہ اہمیت دی جانے لگی تب سے ان خداؤں کی عبادت کم ہونے لگی اور مصر میں بادشاہ کو دیوتا کی حیثیت حاصل ہوگئ اور ساتھ میں مفتوح قوموں کے خداؤں کی پوجا کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔آہستہ آہستہ عوامی عبادت کی بجائے مذہبی رسومات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
قدیم چینی مذہب میں بھی ہمیں ایک خدا کا تصور بڑی پختگی سے ملتا ہے۔
قدیم چینی ایک عظیم آسمانی خدا کی عبادت کرتے تھے جسے وہShangdi یاShangti کہتے تھے جس کے لیے سالانہ قربانیاں کی جاتی تھیں۔اور جسے تمام مخلوق کا خالق مانا جاتا تھا۔
قدیم چینی تہذیب کا جو پرانہ نسخہ دریافت ہوا ہے اس کوOracle bone script کہا جاتا ہے۔اس میں ظاہر ہوتا ہے کہ قدیم چینی باشندے بھی ایک خدا کے قائل تھے۔اس میں بادشاہ او ر خدا کے درمیان ایک گفتگو بھی بیان کی گئ ہے جو ایک مذہبی عالم کے ذریعے ہوتی ہے۔
ان لوگوں کے مطابق وہ خدا بہت بڑا اور انسانوں کی پہنچ سے دور تھا لہذا انہوں نے اس تک پہنچنے کے لیے اور بہت سے خدا بنالیے۔
اس کے باوجود بھی چین میں ایک خدا کی عبادت جاری رہی اور مشہور فلاسفر موزی نے ایک خدا پہ اپنے ایمان کا اظہار کیا۔
قدیم چینی لوگ خدا کو ایک بہت دور کی ہستی خیال کرتے تھے اس لیے انہوں نے اسے پانے کے لیے درمیانی سلسلے کے طور پہ اور خدا بنا لیے۔لیکن پھر بھی چین میں ایک خدا کی عبادت کا سلسلہ جاری رہا۔مشہور چینی فلاسفر موزی ایک خدا پہ اپنے ایمان کا اظہار یوں کرتا ہے
"میں جانتا ہوں کہ وہ آسمان یعنی خدا انسان سے بہت محبت کرتا ہے،اس نے سورج،چاند،ستاروں کو حکم دیا کہ وہ انسان کو روشنی دیں اور اس کی رہنمائی کریں،اس نے گرمی،سردی،بہار،خزاں چار موسم بنائے،اس نے برف،بارش اور شبنم بھیجی تا کہ زمیں پہ غلہ اور ریشم اگے تا کہ لوگ اسے استعمال کریں اور اس سے لطف اندوز ہوں۔اس نے پہاڑوں،دریاؤں،وادیوں کو قائم کیا،اس نے بادشاہ و سردار متعین کیے تا کہ اچھوں کو جزا اور بروں کو سزا دے۔یہ ماضی سے اب تک ہو رہا ہے"۔
ہان سلطنت کے دور میں چین کنفیوشس کے خیالات کی طرف راغب ہوگیا اور کئ خداؤں کا تصور فروغ پا گیا لیکن قدیم چین کا بنیادی تصور ایک آسمانی خدا تھا۔
یہاں تک کہ دنیا میں سب سے زیادہ خداؤں کی پوجا کرنے والا ہندو مذہب بھی ابتدا میں ایک خدا کی پوجا کا قائل تھا۔ہندو مذہب کی سب سے قدیم کتاب ریگ ویدا میں لکھا ہے
"آغاز میں جو پیدا ہوا سب سے بڑا مالک،سب سے بڑا مالک تھا جس نے زمین و آسمان کو بنایا،جس نے زندگی دی،مضبوطی دی،جس کی بولی لگانے والے خدا اس ایک خدا کی عزت کرتے ہیں"۔
اگرچہ میکس ملر جو ایک فلسفی اور علوم مشرق کا ماہر اور عیسائیت کا ایک بڑا مخالف تھا،لیکن وہ بھی کہتا ہے کہ ویدا میں کثیر خداؤں کی پوجا سے پہلے ایک خدا کا تصور ملتا ہے یہاں تک کہ کئ خداؤں کے ساتھ بھی وہ ایک خدا ملتا ہے جو تمام خداؤں کا ایک ہی مظہر ہے۔وہ اسے اپنے باقی خداؤں کے ناموں جیسا کہ اندرا،مترا،ویرونا،اگنی،یاما سے پکارتے ہیں۔
ہندو مذہب کے مطابق ان چھوٹے خداؤں کو ایک بڑے خدا نے ہیدا کیا۔اتھاروا ویدا کے مطابق عظیم دیوتا وہ ہیں جو اس بڑے خدا یا برہمن سے نکلے ہیں۔آہستہ آہستہ ہندو مذہب زیادہ سے زیادہ خداؤں کی پوجا کا قائل ہوتا گیا جن میں وہ رومی،ایرانی اور ہیلنی یعنی قدیم یونانی خدا بھی تھے جن کو آریا نسل کے لوگ اپنے ساتھ لائے تھے۔
کئ ابتدائی انسان ایک پراسرار اور آسمانی خدا پہ ایمان رکھتے تھے۔ابتدائی رومی و آسٹریلوی باشندے اپنے خدا کو طاقت کے اظہار کے طور پہ باپ کہتے تھے۔اصل امریکی باشندے بھی اہنے خدا کو باپ کہتے۔چینی،انڈین اور یونانی ایک آسمانی خدا پہ ایمان رکھتے تھے۔چالیس ہزار سال پہلے آریا نسل کے لوگ جو کیسپین بحیرہ کے ساتھ رہتے تھے کئ خداؤں کی طرف مائل ہوگئے اس طرح وہ یورپ ایشیا ہندوستان جہاں گئے وہاں ذیادہ خداؤں کی ہوجا شروع ہو گئی۔
بشپ لی رائے کی 1909میں پیرس میں شائع ہونے والی کتابReligion des primitis اور نیو یارک میں 1898میں اے لینگ کی شائع ہونے والی کتابThe making of religion کے مطابق شمالی کانگو کےpygmies لوگ،قدیم آسٹریلوی باشندے اور جزائر انڈمان کے قدیم لوگ ایک عظیم طاقتور خدا پہ ایمان رکھتے ہیں۔
عیسائ اگرچہ تین خداؤں کے قائل ہیں لیکن وہ بھی بنیادی طور پر عیسی علیہ السلام اور مریم علیہ السلام کو ایک بڑے اور حقیقی رب سے کم قرار دیتے ہیں اور عیسی و مریم کو اس عظیم رب کا نور قرار دیتے ہیں۔اس طرح عیسائ بھی حقیقت میں ایک خدا کے ماننے والے ہیں۔لیکن ساتھ دو اور چھوٹے خداؤں کو شامل کر لینے سے وہ عقیدہ تثلیث یاTrinity کے قائل کہلاتے ہیں۔
عیسائیوں کی بائبل خود لکھتی ہے کہ خدا ایک ہے۔مثلاExodus میں لکھا ہے
You shall have no gods before me
عیسائ تعلیمات کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام خدا کا عظیم بیٹا تھا جسے خدا نے انسانوں کو گناہوں سے بچانے اور ان کو اعلی مرتبہ دینے کے لیے بھیجا۔اس طرح عیسائیت میں عیسی،مریم اور بڑا خدا مل کے ایک تین شخصیات پہ مشتمل ایک تثلیثی عقیدہ بناتے ہیں جس میں بیٹا عیسی،ماں مریم ایک باپ اور بڑا خدا کی نشانی ہیں۔
یورپی و ایشائی نسلوں کا ایک قدیم مذہب ٹینگرزم بھی ظاہر کرتا ہے کہ اس کے ماننے والے پہلے ایک خدا کے قائل تھے اور بعد میں کئ خداؤں کی پوجا اور اجداد پرستی کی طرف مائل ہوگئے،سمیرین این اور چینی شینگ تی کی طرح ایک سب سے بڑے خدا کا تصور تھا جسے آسمانی باپ یا سکائ فادر کہا جاتا تھا۔بعد میں باس خدا کے ساتھ ایک زمینی دیوی کا تصور شامل کر دیا گیا اور آہستہ آہستہ کئ خداؤں کی پوجا شروع ہوگئ۔تھے اور ترک ومغل روایات میں بھی ایک سب سے بڑے اور عظیم خدا کا تصور تھا لیکن وہاں بھی آہستہ آہستہ کئ خداؤں کی پوجا شروع ہوگئ جیسا کہ منگول سلطنت کے مونگکے خان نے کہا تھا کہ ہم ایک خدا پہ ایمان رکھتے ہیں،جس کے حکم سے ہم زندہ رہتے اور مرتے ہیں اور دل میں اس کے لیے اعلٰی حیثیت رکھتے ہیں۔
خالص ایک خدا کی عبادت کا تصور ہمیں دنیا کے قدیم ترین انسانوں میں بھی ملتا ہے۔قدیم چیروکی لوگ ایک عظیم ہستی کی پوجا کرتے ہیں جو سب کی خالق،ہر جگہ موجود،سب سے طاقتور،سب جاننے والی ہے۔زولوس یاZulus ایک عظیم خداUmvelinqagi کی پوجا کرتے ہیں۔ جس کا مطلب ہے جو کائنات میں سب سے پہلے تھا۔قدیم میلگاسی لوگ ایسے عظیم خدا پہ یقین رکھتے ہیں جسے کسی نے پیدا نہیں کیا۔اس خدا کو وہZanahary کے نام سے پکارتے ہیں۔نمیبیا کے قدیم لوگ ہمبا ایک سب سے طاقتور خدا کی پوجا کرتے ہیں جسے وہMukru کہتے ہیں لیکن ساتھ ہی اس تک پہنچنے کے لیے درمیانی چھوٹے خدا بھی پوجتے ہیں۔نائیجیریا کے قدیم لوگ اگبو ایک عظیم خدا کی پوجا کرتے ہیں جسے وہChukwu یعنی سب سے برا طاقتور اور لامحدود کہتے ہیں۔
اس طرح ملحدین کا یہ اعتراض کہ ہم کس رب کو مانیں،دور ہوجاتا ہے۔ہم ان سے کہتے ہیں کہ اس رب کو مانیں جس کو ہندومت،یہودیت،عیسائیت سب میں سب سے اعلٰی حیثیت حاصل ہے اور اس سے بڑا کوئ نہیں اور باقی خداؤں کا انکار اس لیے کر دیں کہ وہ بعد کی ایجاد ہیں اور خدا ساینسی دلائل کے مطابق کائنات کنٹرول کرنے میں ان جھوٹے خداؤں کا محتاج نہیں۔لہذا آخر میں بات یہی آجاتی ہے کہ خدا ایک ہے۔کروڑ خداؤں کا بہانہ بنا کے ملحد ایک خدا سے نہیں بھاگ سکتے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک واحد خدا۔ کا تصور ارتقاء و تصور و خیال و وہم کی پیداوار نہیں بلکہ سب انسانیت کا مشترکہ تصور ہے جس کی فطری بنیادیں سائنس نے آجGod gene کی صورت میں بتا دی ہیں اور ثابت کر دیا ہے کہ خدا پہ ایمان انسان کی فطرت میں شامل ہے۔تمام انسان شروع میں ایہ خدا کے ہی قائل تھے اور بعد میں سماجی ، علاقائی اور بیرونی اثرات سے کئ خداؤں کی پوجا کرنے لگے۔
تمام مذہب جیسا کہ ہندومت اور مظاہر پرست اگرچہ بہت سے خداؤں کے قائل ہیں لیکن وہ بھی اس بات کو مانتے ہیں کہ ایک سب سے بڑا خدا موجود ہے۔بات پھر اسی رب پہ آجاتی ہے جس سے بڑا کوئ رب نہیں۔مسلمانوں اور باقی تمام مذاہب میں عقیدہ خدا میں فرق اتنا ہے کہ مسلمان صرف اللٰہ تعالٰی کو ہی مانتے ہیں اور ناقی لوگ اگرچہ بہت سے خداؤں کے قائل ہیں لیکن ان کے ہاں بھی ایک ایسے رب کا تصور موجود ہے جس سے بڑا کوئ نہیں۔فرق یہ ہے کہ وہ بہت سے خدا مان کے شرک کرتے ہیں اور ہم ان خداؤں کو مانے بغیر براہ راست رب العالمین پہ ایمان رکھتے ہیں۔
آخر میں ہم ملحدین سے کہنا چاہتے ہیں کہ وہ اسی ایک رب پہ ایمان لے آئیں جس پہ شروع میں انسانیت متفق تھی اور باقی ان تمام خداؤں کا انکار کر دیں جو گھڑ لیے گئے ہیں۔
1 comments:
Referance kider ha is artical I
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔