Tuesday, 29 August 2017

کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اخلاقیاتی تعلیمات مصری اخلاقیاتی فلسفی پٹا ہوٹپ سے متاثر ہوئی ہیں؟

کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اخلاقیاتی تعلیمات مصری اخلاقیاتی فلسفی پٹا ہوٹپ سے متاثر ہوئی ہیں؟
قرآن اور حدیث کی اخلاقیاتی تعلیمات کے بارے میں علی عباس جلال پوری اور دیگر ملحدین کے جھوٹ اور ان کا جواب

ایک ملحد کا کہنا ہے کہ پیدائشِ مسیح سے تین ہزار سال قبل مصری فلسفی پٹاح ہوٹپ نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا
"اپنی زوجہ کے دل کو خوش رکھنا کیونکہ وہ ایسی کھیتی ہے جو اپنے آقا کے لئیے نفع بخش ہوتی ہے۔ تُو اُس سے دُشمنی رکھے گا تو تباہ ہو جائے گا۔"
آنحضرت(صلی اللہ علیہ وسلم) کے زمانے تک پہنچتے پہنچتے یہ بات یوں ہو گئی کہ "تُمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں اور اس طرح ثابت ہوتا ہے کی مذہبی تعلیمات اس فلسفی سے متاثر ہیں
ملحدین اس بات کا جواب دیں کہ یہ حملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح ہو بہو ان الفاظ میں مصری فلسفہ پٹاح ہوٹپ نے یہ جملہ کب کہا اور کس جگہ کہا۔اس کا کوئی ثبوت نہیں تاریخ میں اور ہم اس معاملے کی مکمل تحقیق کر چکے ہیں۔
دوسری بات یہ کہ ملحدین ثابت کریں کہ اس مصری فلسفہ کی تعلیمات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مصری کے نام سے واقف تھے۔
دو انسانوں کے الفاظ اور تشبیہ میں مشابہت ایک اتفاق ہوسکتی ہے۔ ملحدین کے وہم خیال اور گمان پہ مبنی الزام کو یقین کیوں سمجھا جائے۔عدالت اگر جرم ثابت نہ ہو تو شک کی بنیاد پہ بری کر دیتی ہے۔
ملحدین ثابت کریں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس فلسفی کے نام سے واقف تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مکہ میں اس کی تعلیمات دستیاب تھیں۔ایک بھی حوالہ ایسا نہیں تاریخ میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس فلسفی کی تعلیمات یا اس کے نام سے واقف تھے تو پھر ملحدین کیوں ایک معصوم انسان پہ الزام لگا رہے ہیں۔علی عباس جلال پوری انتہائی غیر مستند اور قابل گرفت مصنف ہے جس کے اس طرح کے مذہب پہ کئی اعتراضات کا جواب ہم پہلے بھی دے چکے ہیں اور باقیوں پہ کام جاری ہے۔
مکہ مکرمہ تو دور کی بات ملحدین ثابت کردیں کہ پٹا ہوٹپ کی یہ نصیحتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں خود مصر کے لوگوں میں پائی جاتی تھیں۔جب کہ پٹا ہوٹپ کی تعلیمات دائرہ تاریکی میں تھی اور 1840ء کے بعد ان کو مصر سے دریافت کیا گیا۔دوسرا یہ بھی ملحدین ثابت کریں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث شریف کی تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑوں یا مکہ مکرمہ کے کسی اور شخص کی زبان پہ اس طرح موجود تھی۔ ملحدین ثابت نہیں کر سکتے۔کیونکہ ایسا ہے ہی نہیں تو پھر بہتان کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ایک مصری فلسفی کی تعلیمات سے متاثر ہیں نعوذ بااللہ
وہ لنک https://archive.org/st…/theinstructionof30508gut/pg30508.txt
جس پہ پٹا ہوٹپ کی تعلیمات میسر ہیں خود کہ رہا ہے
Is there anything whereof it may be said,
See, this is new!
It hath been already of old time,
Which was before us.
There is no remembrance of former things;
Neither shall there be any remembrance
Of things that are to come
With those that shall come after.
ملحدین کا اپنا لنک ان کے خلاف جا رہا ہے۔یہ خود کہ رہا ہے کہ پہلے پیش کی گئی چیزوں کی کوئی یادداشت نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ ہوگی اور نہ ہی یہ بعد میں آنے والی چیزوں کی ہوگی۔
ملحدین کیسے کہ سکتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نے اس مصری اخلاقیاتی فلسفی کی تعلیمات کا اثر لیا جب کہ ملحدین کا اپنا لنک ان کی بات کی سو فیصد نفی کر رہا ہے
اس کے مطابق اس فلسفی کا زمانہ 3500 قبل مسیح بتادیا جاتا ہے جب کہ جن تعلیمات کو آپ اس فلسفی کی تعلیمات کہ رہے ہیں ان کی تصنیف کا زمانہ اس فلسفی کے ایک ہزار سال بعد یعنی مصر کے درمیانی عرصے کا بتایا جا رہا ہے۔اور آگے ویکی پیڈیا خود لکھتا ہے کہ ان کی تصنیف بزات خود ایک من گھڑت ہے۔اب جن تعلیمات کے بارے میں ان کا اس فلسفی کی تصنیف ہونا ہی ثابت نہیں ان کے بارے میں ملحدینکہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تعلیمات سے اثر لیا۔
علی عباس جلال پوری انتہائی غیر مستند اور دروغ گومصنف ہے۔ملحدین آنکھیں بند کر کے اس کے پیچھے نہ چلیں
ملحدین کا اپنا لنک لکھتا ہے کہ پٹا ہوٹپ کی بتائی جانے والی تعلیمات کے مطابق 
Great is the Law (Maat)." (p. 24)
کیا مذہب نے کبھی ایسا کہا ہے۔مذہب تو کہتا ہے اللہ ہی بڑا ہے
اور آگے پڑھیں۔ یہ لنک کیا کہتا ہے
And, most remarkable of all omissions, there is nothing said as to
duties to the Gods. In Egypt, whose Gods are beyond counting, where
almost everybody was a priest, Ptah-hotep--himself a 'Holy Father' and
'Beloved of the God'--has no word to say on religious obligations,
اس کے مطابق پٹا ہوٹپ مذہب کے بارے میں کچھ نہیں لکھتا۔جب پٹا ہوٹپ نے مذہبی تعلیمات کی کوئی بات ہی نہیں کی اور صرف اخلاقیاتی تعلیمات تک رہا تو ملحدین کیسے کہ سکتے ہیں کہ مذہب اس فلسفی سے متاثر ہوا
یہ لنک آگے لکھتا ہے
Except in customs which are common to all times and places, as
drinking beer, writing love-letters, making wills, going to school, and
other things antecedently probable, the Egyptian life can show very few
parallels to the life of to-day.
اس میں ملحدین کا لنک کہتا ہے کہ ان روایات کے علاوہ جو پوری دنیا میں مشترک ہیں،باقی معاملات میں قدیم مصری زندگی جدید زندگی سے بمشکل ہی مشابہت رکھتی ہے۔آپ کا اپنا لنک جدید زندگی اور مصری روایات کو الگ قرار دے رہا ہے لیکن ملحدین کا اصرار ہے کہ نہیں۔ملحدین اس بات پہ ضد کر رہے ہیں کہ مذہب کی تعلیمات اس فلسفی سے متاثر ہوئی
اب جو تحقیق ہم نے پیش کی اس سے آپ کو پتہ لگ چکا ہوگا کہ مذہب پہ لگائے جانے والے الزام بہت کمزور دلیل پہ مبنی اور جھوٹے ہیں۔ان الزامات کی حقیقیت کی خود تحقیق کر لیا کریں ان پہ یقین کرنے سے پہلے۔اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ علی عباس جلال پوری سبط حسن ارشد محمود یہ وہ دروغ گومصنف ہیں جنہوں نے دنیا بھر کے جھوٹ اور الزام مذہب پہ عائد کرنے کی کوشش کی ہے۔امید ہے آپ حضرات ہماری بات سمجھ گئے ہوں گے۔
مکمل تحریر >>

Monday, 28 August 2017

فرعون کی لاش کے حوالے سے قرآنی بیان پر ملحدین کے اعتراضات کے جوابات- قسط اول


قرآن مجید میں ایک جگہ فرعون کے متعلق ارشاد ہے: فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ آیَةً اللہ تعالیٰ نے فرعون کو مخاطب کرکے فرمایا ہے کہ غرقابی کے بعد ہم تیرے بدن کو پانی سے نکال دیں گے تاکہ تیرا بدن پچھلے لوگوں کے لیے قدرتِ خداوندی کی نشانی اور عبرت بن جائے۔
دوسروں کی عبرت کے لیے فرعون کی لاش کو دریا کی موج کے ذریعہ باہر ڈال دیا جس کو دیکھ کر لوگوں نے اس کی ہلاکت کا یقین کرلیا اور یہ لاش سب کے لیے نمونہ عبرت بن گئی پھر معلوم نہیں اس لاش کا کیا ہوا۔ 
تایخ سے پتا چلتا ہے کہ فرعون کوئی ایک شخص تو رہا ہی نہیں ہے۔ فرعون ایک بادشاہی لقب تھا اپنے وقت کے مصر کے بادشاہ اپنے لیے استعمال کرتے تھے جیسے پاکستان کے حکمران وزیر اعظم کہلاتے ہیں۔ مصر سے سینکڑوں، ہزاروں کی تعداد میں حنوط شدہ لاشیں دریافت کی گئی ہیں کیوںکہ ان دنوں مصر میں لاشوں کو حنوط کرنے کا رواج تھا۔ اسی طرح چین میں ہزاروں کی تعداد میں ممیاں پائی گئے ہیں جو اسلام سے پہلے کی ہیں۔
قران میں فرعون کا ذکر ہے لیکن قرآن میں اس فرعون کا نام نہیں ذکر کیا گیا جو حضرت موسی علیہ السلام کا پیچھا کرتے ہوئے اپنی فوج سمیت بحیرہ احمر میں غرق ہو گیا تھا۔ قرآن نے کسی خاص فرعون کا زکر نہیں کیا۔ 
ویسے اختلاف اس میں نہیں ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام والے فرعون کی لاش محفوظ ہے یا نہیں بلکہ اس میں ہے کہ وہ کون سا فرعون تھا۔ بعض لوگ اس کا نام رعمسیس دوم کہتے ہیں اور بعض اس کے جانشین اور بیٹے مرنفتاح اور بعض کے بقول تھٹموسس سوم(Thutmosis iii) لیکن زیا دہ قول اور شبہ رعمسس دوم پہ ہے۔
مصر کے میوزیم میں جو لاش ہے اس کے متعلق یقین سے نہیں کہاجاسکتا کہ یہ وہی فرعون ہے جس کا مقابلہ حضرت موسیٰ سے ہوا تھا یا کوئی دوسرا فرعون ہے کیوں کہ فرعون کسی ایک شخص کا نام نہیں۔ اس زمانے میں مصر کے ہربادشاہ کو فرعون کا لقب دیا جاتا تھا، مگر کچھ عجب نہیں کہ قدرت نے جس طرح غرق شدہ لاش کو عبرت کے لیے کنارہ پر ڈال دیا تھا اسی طرح آئندہ نسلوں کے لیے عبرت کے لیے اسے گلنے اور سڑنے سے محفوظ رکھا ہو اور وہ اب تک موجود ہو، بہرحال موجودہ لاش کے بارے میں یقین سے کچھ کہنا بہت مشکل ہے۔
رعمسس دوم کا ممی شدہ جسم 1898ء میں دریائے نیل کے قریب تبسیہ کے مقام پر شاہوں کی وادی سے اوریت نے دریافت کیا تھا۔جہاں سے اس کو قاہرہ منتقل کر دیا گیا۔اس نے اس عمل کا تفصیلی تذکرہ اورجسم کے جائزے کا حال اپنی کتاب ''شاہی ممیاں ''(1912ء) میں درج کیا ہے۔اس وقت یہ ممی محفوظ رکھنے کے لیے تسلی بخش حالت میں تھی حالانکہ ا س کے کئی حصے شکستہ ہوگئے تھے۔ اس وقت سے ممی قاہرہ کے عجائب گھر میں سیاحو ں کے لیے سجی ہوئی ہے۔ اس کا سر اورگردن کھلے ہوئے ہیں اورباقی جسم کو ایک کپڑے میں چھپاکرر کھا ہواہے۔ محمد احمد عدوی ''دعوة الرسل الی اللہ'' میں لکھتے ہیں کہ اس نعش کی ناک کے سامنے کا حصہ ندارد ہے جیسے کسی حیوان نے کھا لیا ہو۔
ملحدین کہتے ہیں کہ فرعون کا قد تو محض چند فٹ ہے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے مطابق قدیم لوگوں کے قد بہت بڑے ہوتے تھے۔اعتراض ہی غلط ہے۔فرعون کی تاریخ محض تین ہزار سال پرانی ہے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث شریف جس میں قد بڑے ہونے کا ذکر ہے وہ حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے کے حوالے سے ہے اور اس کے بعد بتدریج قد چھوٹے ہوتے گئے۔واضح رہے کہ سائنس کے مطابق آدم علیہ السلام کا زمانہ اج سے ایک سے ڈیڑھ لاکھ سال پہلے بتایا جاتا ہے اور فرعون کا زمانہ محض اج سے تین ہزار سال پہلے کا ہے۔اب ستانوے ہزار سے ایک لاکھ سنتالیس ہزار سال کے عرصے میں بتدریج میوٹیشن یعنی جینیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے انسانوں کے قد چھوٹے ہونا سائنسی طور پہ عین ممکن ہے۔
ڈاکٹر مورس بوکائیے کی تحقیق کے مطابق بنی اسرائیل پر ظلم وستم کرنے والے حکمران کا نام رعمسس دوم تھا۔ بائیبل کے بیا ن کے مطابق اس نے بنی اسرائیل سے بیگا رکے طور پر کئی شہر تعمیر کروائے تھے جن میں سے ایک کانام ''رعمسس ''رکھا گیا تھا۔ جدیدِ تحقیقات کے مطابق یہ تیونس اورقطر کے اس علاقے میں واقع تھا جو دریائے نیل کے مشرقی ڈیلٹے میں واقع ہے۔
جب ڈاکٹر مورس بکائیل کو بتایا گیا کہ مسلمانوں کی مقدس کتاب میں یہ لکھا ہواہے کہ فرعون کو غرق کر کے اس کی لاش کو عبرت کے لیے محفوظ کردیا ہے یہ سن کر ڈاکٹر حیران ہوئے اور حقیقت جاننے کے لیے مسلمان سائنسدان سے رجوع کیا۔ انھیں سورۃ یونس کی آیت 90۔92 پڑھ کر سنائی گئی ان آیات کو سن کر انھیں بہت حیر ت ہوئی کہ قرآن کا نزول فرعون کی موت سے 2 ہزارسال بعد ہوا اور کوئی فرعون کی لاش کے مطابق نہیں جانتا تھا لیکن قرآن کی پیشنگوئی سچ ثابت ہوئی اور انھوں نے اسلام قبول کیا ان کی کتاب ” بائبل ،قرآن اور سائنس ” نے دنیا میں دھوم مچائی ہوئی ہے ۔
فرعون کی لاش کے حنوط کیے جانے یا کسی بھی دوسرے طریقے سے محفوظ ہونے کا کوئ ذکر بائبل یعنی انجیل میں نہیں ہے۔لہذا مورس بکالے نے اس بات کی تصدیق کی کہ فرعون کے بارے میں قرآن کا بیان بائبل کے مقابلے میں حقیقت پہ مبنی ہے۔مورس بکائے ان حقائق کی بنیاد پہ تصدیق کرتے ہیں کہ قرآن اللٰہ تعالٰی کا کلام ہے۔ان کی قرآن کے تاریخی و سائنسی حقائق کی تصدیق نے یورپ میں اہل علم حضرات کے ایک ایسے مکتبہ فکر کو فروغ دیا ہے جسے Bucailleism کہتے ہیں جن کے مطابق قرآن اپنے تاریخی و سائنسی حقائق کے حوالے سے ثابت کرتا ہے کہ وہ اللٰہ تعالٰی کا کلام ہے۔غیر مسلم بھی قرآن کی حقانیت کا اقرار کر چکے ہیں۔
جون1975ء میں ڈاکٹر مورس بوکائیے نے مصری حکمرانوں کی اجازت سے فرعون کے جسم کے ان حصوں کا جائزہ لیا جو اس وقت تک ڈھکے ہوئے تھے اور ان کی تصاویر اتاریں۔ پھر ایک اعلیٰ درجہ کی شعاعی مصوری کے ذریعے ڈاکٹر ایل میلجی اورراعمسس نے ممی کا مطالعہ کیا اورڈاکٹر مصطفی منیالوی نے صدری جدارکے ایک رخنہ سے سینہ کے اندرونی حصوں کاجائزہ لیا۔ علاوہ ازیں جوف شکم پر تحقیقات کی گئیں۔ یہ اندرونی جائزہ کی پہلی مثال تھی جو کسی ممی کے سلسلے میں ہوا۔اس ترکیب سے جسم کے بعض اندرونی حصوں کی اہم تفصیلات معلوم ہوئیں اور ان کی تصاویر بھی اتاری گئیں۔ پروفیسر سیکالدی نے پروفیسر مگنواورڈاکٹر دوریگون کے ہمراہ ان چند چھوٹے چھوٹے اجزا کاخوردبینی مطالعہ کیا جوممی سے خود بخود جد اہوگئے تھے۔
ان تحقیقات سے حاصل ہونے والے نتائج نے ان مفروضوں کو تقویت بخشی جو فرعون کی لاش کے محفوظ رہنے کے متعلق قائم کیے گئے تھے۔ ان تحقیقات کے نتائج کے مطابق فرعون کی لاش زیادہ عرصہ پانی میں نہیں رہی تھی اگر فرعون کی لاش کچھ اورمدت تک پانی میں ڈوبی رہتی تو اس کی حالت خراب ہوسکتی تھی ،حتیٰ کہ اگر پانی کے باہر بھی غیر حنوط شدہ حالت میں ایک لمبے عرصے تک پڑی رہتی تو پھر بھی یہ محفوظ نہ رہتی۔
جیساکہ ان نتائج سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرعون کی لاش کو محفوظ رکھنے کا خا ص اہتمام کیا تھا جس کی وجہ سے یہ ہزاروں سال تک زمانے کے اثرات سے محفوظ رہی اورآخرکار اس کو انیسویں صدی میں دریافت کیاگیا اورانشاء اللہ یہ قیامت تک آنے والی نسلوں کے لیے سامان عبرت رہے گی۔
فرعون کی لاش کے متلعق سادہ مسلمانوں کی غلط فہمیاں درج ذیل ہیں۔
2:رعمسس دوم(Ramses ii)ہی وہ فرعون ہے جس نے بنی اسرائیل کو اذیت میں ڈالا اور بعد میں حضرت موسی علیہ السلام اور بنی اسرائیل کا پیچھا کرتے ہوئے بحیرہ قلزم یعنی بحیرہ احمر میں غرق ہوا۔یہ بات درست ہے کہ زیادہ تر قیاس یہی ہے کہ رعمسس دوم ہی فرعونِ موسٰی ہے لیکن یہ بات پہ بھی تاریخی طور پہ مکمل طور پہ ثابت شدہ نہیں ہے۔تھٹموسس سوم،رعمسس دوم،مرنفتاح وہ فرعون ہیں جن کے بارے میں دعوی کیا جاتا ہے کہ وہ فرعون موسی علیہ السلام ہیں لیکن کسی کے بارے میں یقینی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے۔فرعون موسی کون تھا اج بھی یہ عنوان مورخین اور ماہرین آثار قدیمہ میں لمبی بحث کا عنوان ہے۔
2:یہ کہ رعمسس دوم ہی فرعون موسی علیہ السلام ہے اور اس فرعون کی لاش 1898ء میں سمندر میں تیرتی ہوئی ملی۔یہ بات غلط ہے۔فرعون کی لاش قدیم مصری بادشاہوں کے مقبرے میں باقی فرعونوں کی ممیوں کے ساتھ ملی۔یہ بات میں پہلے ہی بیان کر چکا ہوں کہ رعمسس دوم یقینی طور پر فرعون موسی علیہ السلام نہیں ہے۔اگر وہ فرعون موسی علیہ السلام ہے بھی سہی تو عین ممکن ہے کہ سمندر میں غرق ہونے کے بعد اس کی لاش جب ملی تو اس کی قوم نے اس کی لاش کو حنوط کرکے محفوظ کر لیا جیسا کہ یہ اس زمانے کا رواج تھا کہ قدیم مصری اپنے سرکردہ افراد اور بادشاہوں کی لاشوں کو حنوط کرکے ان کی لاش کے قیمتی زیورات اور نوادرات کو لٹیروں اور چوروں سے محفوظ کرنے کے لیے انہیں خفیہ قبرستانوں میں دفن کر دیتے تھے۔
3:غلط فہمی یہ ہے کہ فرعون کی لاش بغیر جنوط کیے اج تک تروتازہ ہے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اللٰہ تعالٰی نے قرآن مجید میں فرعون کی لاش کو محفوظ کرنے اور اسے بعد میں آنے والے لوگوں کے لیے عبرت کے طور پہ محفوظ کرنے کا ذکر کیا لیکن یہ کہیں پہ نہیں کہا کہ وہ ہمیشہ سے پانی میں تیر رہی تھی اور بغیر حنوط کیے محفوظ ہے۔لہذا جب قرآن فرعون کی لاش کو دنیا کے لیے عبرت بنانےکی بات کی تو لازمی نہیں کہ وہ بغیر حنوط یعنی ممی کیے عبرت بنانے کا ذکر ہو نہ ہی قرآن ایسا کچھ کہتا ہے بلکہ ممی بننے کے بعد اج بھی فرعونوں کی لاشیں دنیا کے لیے قابل عبرت ہیں کہ کس طرح اللٰہ تعالٰی کے احکامات کا انکار اور دیوتاؤں کی پوجا کرنے والے اور خدا کہلوانے والے فرعون بے بس پڑے عبرت کا نشان بنے ہوئے ہیں۔
4:کچھ لوگ کہتے ہیں کہ رعمسس دوم یعنی ان کے خیال میں فرعون موسی علیہ السلام کی ممی پہ گوشت بڑھتا رہتا ہے اور آخر کار اس پہ چوہے چھوڑے جاتے ہیں اور وہ اس ممی کا اضافی گوشت کھا لیتے ہیں اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ رعمسس دوم یعنی فرعون موسی علیہ السلام کی ممی کی اللٰہ تعالٰی کی طرف سے حفاظت کی جا رہی ہے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ فراعین مصر کی لاشوں کو اللٰہ تعالٰی نے حنوط کے ذریعے محفوظ کرکے ان کو باقی دنیا کے لیے عبرت بنایا ہے کہ کس طرح اتنے طاقتور بادشاہ موت اور فنا کے ہاتھوں نہ بچ سکے لیکن اس بات کا کوئی حوالہ ہمیں نہیں ملا جس کے مطابق رعمسس دوم یعنی فرعون موسی تصور کیے جانے والے فرعون کی لاش پہ خود بخود گوشت بڑھتا ہے جس کو کم کرنے کے لیے اس کی ممی پہ چوہے چھوڑے جاتے ہیں۔اس بات کا کوئ مستند حوالہ کسی ساتھی کے پاس ہو تو وہ فراہم کردے تاکہ اس بات کی حقیقت کا تعین کیا جا سکے۔
5:کچھ سادہ مسلمان کہتے ہیں کہ ایلیٹ اسمتھ نے 8جولائی 1907ء کو ا س کے جسم سے غلافوں کو اتارا، تو اس کی لاش پر نمک کی ایک تہہ جمی پائی گئی تھی جو کھاری پانی میں اس کی غرقابی کی ایک کھلی علامت تھی ۔ یہ غلط ہے۔حقیقت یہ ہے کہ حنوط کرنے کے عمل میں بذات خود مصالحہ جات استعمال کیے جاتے ہیں جن میں نمک بھی ہوتا ہے۔لہذا لاش پہ نمک ملنا اس کی لاش کے سمندر میں غرق ہونے کی نشانی نہیں ہے۔حنوط کے عمل کے دوران اعضا سے تہی نعش کو نیٹرون یعنی سوڈیم کاربونیٹ کے نمک سے اندر اور باہر سے خشک کیا جاتا۔۔۔ہمیں اسلام کی تصدیق کے لیے ایسی بغیر ثبوت باتیں نہیں کرنی چاہیے جن کی بنیاد پہ ملحدین و غیر مسلمین بعد میں مسلمانوں کا مذاق اڑائیں۔
خلاصہ یہ کہ اسلام اپنی سچائی کے لیے ثبوتوں کا محتاج نہیں لیکن ایسے ثبوت نہیں پیش کرنے چاہیے جن کی حقیقت غیر مستند ہو۔
نزول قرآن کے وقت فرعون کے غرق ہونے کے واقعہ کا ذکر صرف بائیبل کے مخطوطات میں تھا اور اس میں بھی صرف اتنا لکھا تھا: "خداوند نے سمندر کے بیچ ہی مصریوں کو تہ و بالا کر دیا اور فرعون کے سارے لشکر کو سمندر میں غرق کر دیا۔" (خروج 14:28) اس وقت قرآن نے حیرت انگیز طور پر یہ اعلان کیا کہ فرعون کا جسم محفوظ ہے اور وہ دنیا والوں کے لیے سبق بنے گا۔
"اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر پار کرا دیا تو ان کا پیچھا کیا فرعون اور اس کے فوجیوں نے، سرکشی اور زیادتی کی غرض سے۔ یہاں تک کہ جب وہ ڈوبنے لگا تو بول اٹھا کہ ایمان لایا کہ نہیں ہے کوئی معبود، مگر وہی جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے، میں اس کے فرماں برداروں میں بنتا ہوں۔ جواب دیا گیا۔ اب ایمان لاتا ہے، حالانکہ تم نے اس سے پہلے نافرمانی کی اور تو فساد برپا کرنے والوں میں سے تھا۔ پس آج ہم تیرے جسم کو بچائیں گے تاکہ تو اپنے بعد والوں کے لیے نشانی بنے اور بے شک بہت سارے لوگ ہماری نشانیوں سے غافل رہتے ہیں۔"
(یونس 10: 92 تا95)
جب قرآن کی یہ آیت اتری تو یہ نہایت عجیب بات تھی۔ اس وقت کسی کو خیال تک نہ تھا کہ فرعون کا جسم کہیں محفوظ موجود ہوگا، مگر پروفیسر لاریٹ نے 1898ء میں آیت کے نزول سے تقریباً تیرہ سو سال بعد اس فرعون کے جسم کو مصر کے ایک قدیم مقبرے میں دریافت کر لیا۔
اسلام کے دور کے لوگو ں کو مصر میں فرعونوں کی لاشوں کو مومیائی کئے جانے کا علم نہیں تھا ۔
بوکا‎ئے برسوں جدید علمی انکشافات اور قرآن کریم کی آیات کے بارے میں تحقیق اور آپس میں مطابقت کرتے رہے لیکن انھوں نے حتی ایک مورد بھی علمی حقائق کے خلاف یا متضاد نہیں پایا۔جس کی وجہ سے ان کے ایمان میں روزبروز اضافہ ہوتا گیا اور وہ قرآن کی طرف سے بلکل مطمئن ہوگئے کہ اس میں باطل کے داخل ہونے کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔اس فرانسیسی دانشور کی برسوں کی تحقیق کے نتیجہ میں قرآن، توریت ، انحیل اور علم کے نام سے ایک کتاب مرتب ہوئی ، انھوں نے اس کتاب کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ قرآن کے علمی پہلوؤں نے مجھے بہت زیادہ حیرت میں ڈال دیا ہے ۔میں کبھی بھی فکر نہیں کرتا تھا کہ قرآن کریم نے مختلف موضوعات کواتنی باریکی کے ساتھ بیان کیا ہوگا۔ ایسے مطالب جو مکمل طور پر جدید علمی انکشافات کے مطابق ہیں اور وہ بھی چودہ سو سال قبل بیان کئے گئے ہیں ۔بوکائے کی کتاب نے مغربی ممالک کو ہلاکر رکھدیا اور دانشوروں کوحیرت میں ڈال دیا ہے ۔یہ کتاب پہلی اشاعت کے بعد ہی نایاب ہوگئی جس کے بعد اس کے ہزاروں نسخے پھر سے شائع کئے گئے۔اس کتاب کا انگریزی ،عربی، فارسی ،ملایو ،صربیائی ،یوکراینی،ترکی، اردو، اور جرمنی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے ۔ مغرب کے بعض افراد نے بوکائے کی اس کتاب کو مسترد کرنے کی کوشش کی لیکن جب انھوں نے اس کتاب کے مضمون میں دقت کی اور قرآن کریم کے علمی اعجاز سے آشنا ہوئے تو عظمت قرآن کا اعتراف کرلیااور کلمہ شہادتین اپنی زبانوں پر جاری کیا۔
مورس بکائے کے مطابق وہ خود اس بات پہ حیران ہیں کہ تیرہ سو سال قبل نازل ہونے والا قرآن وہ سائنسی حقائق بیان کر رہا ہے جو اج کی جدید سائنس اب تیرہ سو سال بعد دریافت کر رہی ہے۔
حوالہ جات:
www.mubashirnazir.org/ER/L0014-00-Safarnama.htm
http://lifetips.pk/archives/27653 
http://shianswers.blogspot.com/2013/08/blog-post_27.html?m=1
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/History--Biography/2958
مکمل تحریر >>

فرعون کی لاش کے حوالے سے قرآنی بیان پر ملحدین کے اعتراضات کے جوابات- قسط دوئم

فرعون کی قوم پہ نازل ہونے والے قرآن کے بیان کردہ عذابات اور رعمسس دوم کے فرعون موسی ہونے کا تاریخی،سائنسی و آرکیالوجیکل ثبوت

بائیبل نے حضرت ابراہیم،حضرت یوسف اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سب کے ادوار کے مصری حکمرانوں کو فرعون کے نام سے پکارا ہے جب کہ قرآن کا بیان اس سے مختلف ہے۔قرآن نے حضرت یوسف علیہ السلام کے مصری بادشاہ کو ملک یعنی بادشاہ اور عزیز مصر کے نام سے پکارا ہے۔اور مصر کی دریافت ہونے والی تاریخ اور آثار قدیمہ قرآن کے بیان کی تصدیق کرتے ہیں اور قرآن کو تاریخی طور پہ بائبل سے زیادہ درست قرار دیتے ہیں۔مشہور برطانوی ماہر مصریات سر ایلن گارڈینر اور دیگر جدید لسانی اور مصری تحقیقات ظاہر کرتی ہیں کہ فرعون کے لفظ کا مصری تاریخ میں پہلا استعمال امینو فس چہارم(Amenophis iv) کے لیے ہوا جس کا زمانہ 1336-1353 قبل مسیح یعنی اج سے لگ بھگ ساڑھے تین ہزار سال پہلے کا ہے۔یہ ریکارڈ نرسل کي قسم کے ايک پودے یعنی Papyrus کی چھال پہ لکھی ہوئی پائی گئی۔جب کہ مصریات کے ماہر گارڈنر کے مطابق اس بات کی شہادت موجود ہے کہ قدیم مصری حکمرانوں تھٹموسس سوم( Thutmosis iii) جس کا زمانہ 1425-1475 قبل مسیح کا ہے اور تھٹموسس چہارم جس کا زمانہ 1390_1400 قبل مسیح کا ہے،کے لیے بھی فرعون کا لفظ استعمال کیا جاتا تھا جب کہ ہیز( Hayes) کے مطابق فرعون کا لفظ قدیم مصری حکمران ہیتشپست( Hatshepsut)کے لیے بھی ہوچکا ہے جس کا زمانہ 1458-1479 قبل مسیح کا ہے۔لہذا قرآن کے واقعہ فرعون و موسی علیہ السلام کا تعلق اس زمانے سے ہے جب یہ لفظ مصر کے حکمرانوں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا یعنی 1539 قبل مسیح تا 1077 قبل مسیح۔چونکہ ان زمانوں کی مکمل تفصیل ہمارے پاس نہیں ہے لہذا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ قرآن کے واقعہ فرعون و موسی کا تاریخ میں کوئی ثبوت نہیں۔شہادت کا موجود یا دریافت شدہ نہ ہونا شہادت کا بالکل موجود نہ ہونا نہیں ہوتا کیوں کہ انسانی تاریخ اور خصوصا مصر کے بہت سے پہلو ابھی تک غیر دریافت شدہ ہیں۔بدقسمتی سے قدیم مصری تاریخ کے بہت سے حقائق نظر سے پوشیدہ ہیں لہذا ہم یقین سے نہیں کہ سکتے کہ کون سا فرعون،فرعون موسی تھا۔یہاں تک کہ یہ ایسا فرعون بھی ہوسکتا ہے جس کی یادداشت تاریخ میں مکمل طور پہ مٹ چکی ہو اور اس کی تاریخ یا آثار معدوم ہوچکے ہوں۔
ماہرین آثار قدیمہ نے یہ بات دیکھی ہے کہ مصری تاریخ بہت بے ربط اور بدنامی کی حد تک ناقابل اعتماد ہے۔ان کے مطابق مصری تاریخ کے کئی ریکارڈ ایک دوسرے میں خلط ملط ہیں،کئی ایک دوسرے سے متصادم ہیں اور کئ انتہائ اہم تاریخی واقعات کا تو اس میں تذکرہ تک نہیں کیا گیا۔لہذا اس تناظر میں یہ کہنا غلط ہے کہ فرعون موسی کی ساری تاریخ کیوں میسر نہیں اور یہ واقعہ نعوذ بااللہ ناقابل اعتماد ہے۔اس بے ربط اور مکمل طور پہ غیر دستیاب مصری تاریخ کی وجہ سے اج تک فرعون موسی علیہ السلام کی حقیقت کا تعین نہیں ہوسکا۔کچھ کے نزدیک سیتی اول(Seti I),کچھ کے نزدیک رعمسس دوم(Ramses ii),کچھ کے نزدیک اس کا بیٹا مرنفتاح(Mernephtah),کچھ کے نزدیک دودی موس یا طوطی موس اول(Dudimose or Tutimaos I)،کچھ کے نزدیک امنہوتپ دوم(Amenhotep ii)،کچھ کے نزدیک اخنطاطن( Akhentaten)،کچھ کے نزدیک طوطن خامن،کچھ کے نزدیک نیفرہی تپ اول(Nefehitep I) اور کچھ کے نزدیک اہموز اول(Ahmose I) فرعون موسی علیہ السلام ہیں۔یہ وہ بہت زبردست اختلاف ہے جو فرعون موسی کی اصل شناخت کے حوالے سے انتہائ بے ربط اور نامکمل طور پہ دستیاب قدیم مصری تاریخ کی وجہ سے پایا جاتا ہے۔
اب ہم ان تمام فراعین موسی علیہ السلام کہے جانے والے فرعونوں کے دور کے دستیاب حالات سے اس بات کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان میں سے کون فرعون موسی علیہ السلام تھا۔تفصیل درج ذیل ہے
1:جو لوگ امنہوتپ دوم کو فرعون موسی علیہ السلام کہتے ہیں ان کے مطابق اس بات کی دلیل یہ ہے کہ اس کے سوا مصر کی اٹھارہویں سلطنت(18th Dynasty)کے سب فرعونوں نے اپنی بنیادی رہائش ثیبس( Thebes) کے مقام یعنی بنی اسرائیل سے بہت دوردریائے نیل کے ڈیلٹا میں رکھی جب کہ امنہوتپ دوم نے اپنی رہائش گاہ ممفس میں رکھی اور اکثر طور پہ وہاں سے حکومت کرتا رہا یعنی وہ موسی علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کے علاقوں کے قریب تھا۔ہمیں اس شہادت پہ یہ اعتراض ہے کہ محض حضرت موسی علیہ السلام کے علاقوں کے قریب کسی فرعون مصر کا دارالحکومت ہونے کی بنیاد پہ اسے فرعون موسی علیہ السلام کہنا بہت مشکل ہے جب تک ہمیں اس فرعون کے دور کے حوالے سے مصر کے وہ حالات نہ مل جائیں جو قرآن بیان کرتا ہے۔لہذا ہم امنہوتپ دوم کو فرعون موسی قرار نہیں دے سکتے لیکن اس کے امکان کو نظر انداز بھی نہیں کر سکتے۔
2:عیسائی حضرات کا خیال ہے کہ بائبل میں باب خروج یعنی Exodusکے مطابق بنی اسرائیل کا مصر سے خروج اور فرعون سے نجات یروشلم یعنی بیت المقدس میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف سے ہیکل سلیمانی کی 966 قبل مسیح میں تعمیر سے 430 سال پہلے یعنی تھٹموسس سوم یا اس کے بیٹے امنہوتپ دوم کے دور میں ہوا۔لیکن اس تاریخ کے ساتھ بھی ایک مسئلہ ہے۔ کیونکہ اس بیان سے بنی اسرائیل کے مصر سے خروج کی جو تاریخ بنتی ہے وہ 1400 سے 1300 قبل مسیح ہے۔بائیبل کے مطابق اس دور میں حضرت ابراہیم علیہ السلام زندہ تھے۔جب کہ حضرت موسی علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام سے دو یا تین ہزار سال بعد تشریف لائے۔اس طرح بائیبل میں تضاد ہے اور بائیبل کا اپنا بیان اس کے اپنے دوسرے بیان سے متضاد ہے۔مزید براں ہمارے پاس تھٹموسس سوم کے دور کی مکمل تاریخ میسر نہیں اور نہ ہی تاریخی طور پہ مصر میں اس وقت ان حالات کے موجود ہونے کا ثبوت ہے جو قرآن نے پیش کیے ہیں۔لہذا تھٹموسس سوم کو بھی فرعون موسی علیہ السلام نہیں کہا جاسکتا۔اور قرآن نے تو ویسے بھی اس بات کی تفصیل بیان نہیں کی کہ فرعون موسی علیہ السلام کونسا فرعون مصر تھا۔
3:کچھ عیسائی لوگ کہتے ہیں کہ خروج کے زمانے کا فرعون مینیرا دوم(Menera 2) یا مینیرا اول یا پیپی دوم ہیں۔ان فرعونوں کے دور کی بھی مکمل تفصیل میسر نہیں اور نہ ہی ان کے دور میں مصر کے ان حالات کا تاریخ سے ثبوت ہے جو قرآن نے پیش کیے۔لہذا یہ فرعون بھی نامکمل تاریخ کی بنیاد پہ فرعون موسی علیہ السلام قرار نہیں دیے جا سکتے۔
4:مسلمانوں اور عیسائیوں دونوں میں کچھ افراد کے نزدیک واقعہ فرعون میں مصر کے دو فرعون شامل ہیں۔ایک وہ فرعون جو بنی اسرائیل پہ ظلم کرتا تھا اور ایک وہ فرعون جو حضرت موسی علیہ السلام اور بنی اسرائیل کا پیچھا کرتے ہوئے بحیرہ احمر میں غرق ہو گیا تھا جب کہ عالم اسلام کی اکثریت اس بات پہ متفق ہے کہ اس پورے واقعے میں صرف ایک ہی فرعون تھا اور اس کی تائید میں اس نظریے کے قائل اہل علم حضرات سورہ القصص پارہ بیس کی درج ذیل آیات پیش کرتے ہیں
وَاَوْحَيْنَـآ اِلٰٓى اُمِّ مُوْسٰٓى اَنْ اَرْضِعِيْهِ ۖ فَاِذَا خِفْتِ عَلَيْهِ فَاَلْقِيْهِ فِى الْيَـمِّ وَلَا تَخَافِىْ وَلَا تَحْزَنِىْ ۖ اِنَّا رَآدُّوْهُ اِلَيْكِ وَجَاعِلُوْهُ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ (7)
اور ہم نے موسٰی کی ماں کو حکم بھیجا کہ اسے دودھ پلا، پھر جب تجھے اس کا خوف ہو تو اسے دریا میں ڈال دے اور کچھ خوف اور غم نہ کر، بے شک ہم اسے تیرے پاس واپس پہنچا دیں گے اور اسے رسولوں میں سے بنانے والے ہیں۔
فَالْتَقَطَهٝٓ اٰلُ فِرْعَوْنَ لِيَكُـوْنَ لَـهُـمْ عَدُوًّا وَّحَزَنًا ۗ اِنَّ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُـوْدَهُمَا كَانُـوْا خَاطِئِيْنَ (8)
پھر اسے فرعون کے گھر والوں نے اٹھا لیا تاکہ بالآخر وہ ان کا دشمن اور غم کا باعث بنے، بے شک فرعون اور ہامان اور ان کے لشکر خطا کار تھے۔
وَقَالَتِ امْرَاَتُ فِرْعَوْنَ قُرَّتُ عَيْنٍ لِّـىْ وَلَكَ ۖ لَا تَقْتُلُوْهُۖ عَسٰٓى اَنْ يَّنْفَعَنَـآ اَوْ نَتَّخِذَهٝ وَلَـدًا وَّهُـمْ لَا يَشْعُرُوْنَ (9)
اور فرعون کی عورت نے کہا یہ تو میرے اور تیرے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، اسے قتل نہ کرو، شاید ہمارے کام آئے یا ہم اسے بیٹا بنالیں، اور انہیں کچھ خبر نہ تھی۔
مزید جو آیات پیش کی جاتی ہیں وہ سورہ الشعراء پارہ انیس کی یہ ہیں
"کہا کیا ہم نےتمہیں بچپن میں پرورش نہیں کیا اورتو نے ہم میں اپنی عمر کے کئی سال گزارے (۱۸) اور تو اپنا وہ کرتوت کر گیا جوکر گیا اور تو ناشکروں میں سے ہے (۱۹) کہا جب میں نے وہ کام کیا تھاتو میں بےخبر تھا (۲۰) پھر میں تم سے تمہارے ڈر کے مارے بھاگ گیا تب مجھے میرے رب نے دانائی عطا کی اور مجھے رسول بنایا (۲۱) اور یہ احسان جو تو مجھ پر رکھتا ہے اسی لیے تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے (۲۲) "
ان کا کہنا ہے کہ قرآن کی آیات پہ غور سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام سے بحث کرنے والا یہ فرعون وہی تھا جس کے محل میں حضرت موسی علیہ السلام نے پرورش پائی تھی کیوں کہ اس میں فرعون موسی علیہ السلام کو وہ وقت یاد دلا رہا ہے جب انہوں نے فرعون کے دربار میں پرورش پائی تھی اور بعد میں غلطی سے ان سے ایک مصری قتل ہوگیا تھا جس کے بعد وہ فرعون کے خوف سے مدین کی طرف چلے گئے۔اس میں حضرت موسی علیہ السلام واضح طور پہ فرعون سے کہ رہے ہیں کہ کیا تو نے میری پرورش کا احسان مجھ پہ اس لیے کیا کہ بدلے میں تو بنی اسرائیل کو غلام بنا لے؟۔ان آیات سے کچھ افراد نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ موسی علیہ السلام کی پرورش کرنے والا،ان کا پیچھا کرنے والا فرعون لازمی وہی ہوگا جس کے دور میں نہ صرف موسی علیہ السلام پیدا ہوئے بلکہ نبوت سے سرفراز بھی کیے گئے بلکہ وہ فرعون ان کا پیچھا کرتے ہوئے غرق بھی ہوا۔ان کا کہنا ہے کہ ایک ہی فرعون جو اتنا طاقتور تھا اور جس نے اتنا عرصہ یعنی مسلسل 66 سال حکومت کی وہ رعمسس دوم تھااور لہذا فرعون موسی رعمسس دوم ہی ہے۔ان کے مطابق قرآن میں بیان کردہ ذوالاوتاد فرعون رعمسس دوم ہے کیونکہ دریافت ہونے والے کئی ریکارڈز میں اسے دو علاقوں اور دو معبدوں کا حکمران بتایا گیا ہے۔لہذا قرآن میں بیان ذوالاوتاد فرعون رعمسس دوم ہے۔ان کے مطابق یہ فرعون تمام فرعونوں میں سب طاقتور تھا اور ابو سمبل کے عظیم معبد میں اسے خدا قرار دیا گیا ہے اور فرعون موسی علیہ السلام اپنے آپ کو خدا کہتا تھا۔اس کے اعزاز میں اس کے بعد آنے والے نو فرعونوں نے رعمسس کا لقب اختیار کیا۔لیکن یہ بھی کوئی پکا ثبوت نہیں۔کیوں کہ قرآن کے بیان سے یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام کی پرورش کرنے والا فرعون اور ہو جو فرعون حضرت موسی علیہ السلام کو اپنا احسان بتا رہا ہے وہ حقیقت میں اپنی سلطنت یعنی ایک دوسرے فرعون کا احسان بتا رہا ہو۔کیوں کہ الحمد ایک ہی تھی۔ایک ہی سلطنت کے احسان کے بیان سے لازمی طور پہ یہ نتیجہ اخذ نہیں ہوتا کہ حضرت موسی علیہ السلام کی پرورش کرنے والا اور ان کا پیچھا کرتے ہوئے بحیرہ احمر میں غرق ہونے والا فرعون ایک تھے۔یہ بھی ممکن ہے رعمسس دوم سے پہلے کوئی اس سے بھی زیا دہ طاقتور فرعون گزرا ہو جس کی مکمل تاریخ معدوم ہوچکی ہے یا نامکمل تفصیل میسر ہے کیوں کہ نہ صرف حالات زمانہ بلکہ فرعون خود بعض اوقات اپنے سے پہلے فرعون کی یادگاروں کو خود ہی مٹا دیتے تھے۔
وہ اہل علم حضرات جن کی نظر میں رعمسس دوم فرعون موسی ہے وہ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ قرآن نے کہا کہ فرعون غرق کر دیا گیا اور اس کی بلند عمارات جو وہ بناتا تھا تباہ کر دی گئی۔یہ دلیل بھی رعمسس دوم کو فرعون موسی قرار دینے کے لیے کافی نہیں ہے۔کیوں کہ بہت سے فرعون ایسے گزرے ہیں جن کی بلندو بالا عمارات اج تباہ ہو چکی ہیں۔
اب اگر اس کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ رعمسس دوم کو لازمی طور پہ دو علاقوں یعنی مصر بالا اور مصر زیریں کا حکمران قرار دے کر ذوالاوتاد فرعون قرار نہیں دیا جا سکتا کیوں کہ اکثر فرعون مصر بالا اور مصر زیریں دونوں کے حکمران تھے لیکن یہ بات مکمل طور پہ مسترد نہیں کی جا سکتی۔رعمسس دوم کا خود کو خدا قرار دینا قرآن کے مطابق ہے جس میں فرعون خود خدا کہتا تھا لیکن یہ بات بھی عین ممکن ہے کہ کسی اور فرعون نے خدا ہونے کا دعوی کیا ہو لیکن اس کا ثبوت نہیں ملا۔لیکن ایک اور بات ہے وہ یہ کہ فرعون رعمسس دوم نے ستونوں والے دو معبد تعمیر کیے جن میں سے ایک نوبیا میں واقع ابوسمبل اور دوسرا بیس میٹر بلند معبد جسے عظیم معبد کہا جاتا تھا لیکن اس کے علاوہ بھی اس نے ایک اور معبد تعمیر کیا۔لہذا قرآن میں بیان کردہ ذوالاوتاد یعنی ستونوں یا میخوں والا فرعون یہی رعمسس دوم ہوسکتا ہے کیوں کہ وہ اپنے نافرمانوں کے جسم میں میخیں یا کیل ڈلوا کر انہیں سزا دیتا تھا۔
لہذا یہ ممکن ہے کہ رعمسس دوم ہی فرعون موسی علیہ السلام ہو۔
اگرچہ فراعین مصر اور فرعون موسی علیہ السلام قرار دیے جانے والے فرعونوں میں سے کسی کی بھی موت کی صحیح وجہ معلوم نہیں لہذا اس بات کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ رعمسس دوم یا کوئ بھی دوسرا فرعون جو فرعون موسی علیہ السلام تھا،غرق ہوکر نہیں مرا۔لہذا اس بنیاد پہ قرآن پہ اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔کیونکہ جب حقیقی وجہ ہی معلوم نہیں تو پھر قرآن پہ اعتراض کیوں کہ فرعون ڈوب کر نہیں مرا۔عین ممکن ہے کہ وہ ڈوب کر مرا ہو اور اس کی لاش کو سمندر سے نکالے جانے کے بعد ممی کی صورت دی گئی ہو۔اگرچہ فرعون موسی مصر کے وقت نوے سال کا تھا اور جوڑوں کے کئ امراض میں مبتلا تھا لیکن اس کے باوجود وہ سلطنت کے امور اچھی طرح چلا رہا تھا اور عین ممکن ہے کہ یہ فرعون موسی علیہ السلام کا پیچھا کرتے ہوئے بحیرہ احمر میں غرق ہو گیا۔جب اس کا بیٹا مرنفتاح تخت نشین ہوا تب اس کے بارہ بھائی مر چکے تھے۔یہ بات عین ممکن ہے کہ اسکے بارہ بھا ئی اپنے والد رعمسس دوم کے ساتھ حضرت موسی علیہ السلام کا پیچھا کرتے ہوئے بحیرہ احمر میں غرق ہوئے ہوں کیوں کہ بارہ بھائیوں کی وفات ایک حیران کن امر ہے جن کی وفات کی حقیقی وجہ بھی معلوم نہیں۔اگر قرآنی آیات کی تشریح میں فرعون موسی دو کی بجائے ایک تصور کیے جائے تو رعمسس دوم فراعین مصر میں 66 سال حکومت کرنے والا سب سے بڑا حکمران تھا اور یہ بات عین ممکن ہے کہ اسی کے دور میں موسی علیہ السلام پلے بڑھے ہوں اور نبوت کا اعلان کیا ہو اور اسی فرعون کے دور میں بنی اسرائیل کا مصر سے خروج وقوع پذیر ہوا ہو۔اس فرعون کی ممی اج بھی قاہرہ میں محفوظ ہے۔ہو سکتا ہے یہی وہ فرعون ہو جس کے جسم کو قرآن نے محفوظ کرکے دنیا کے لیے عبرت کا نشان بنانے کی بات کی ہے۔اس فرعون کے بارے میں ایک ہی تفصیل ایسی ہے جو قرآن نے پیش کی ہے لیکن ابھی تک وہ پردہ تاریکی میں ہے اور اس کی ابھی دریافت نہیں ہوسکی۔یہ بات فرعون کی قوم پہ آنے والے طاعون،مینڈک، خون اور قحط کے وہ عذاب ہیں جن کا تذکرہ قرآن نے کیا ہے۔
5: کچھ عیسائی یہ دعوی کرتے ہیں کہ نیفرہی تپ اول (Niferhitep I) فرعون موسی علیہ السلام تھا۔ان کے بقول اس کے پیشرو کی کوئی اولاد نہیں تھی اور اس کی بیٹی سوبیکنفیرو بے اولاد تھی اور اس نے حضرت موسی علیہ السلام کو دریائے نیل سے نکال کر اپنی پرورش میں لیا لیکن سوبنکییفیرو کے بارے میں فرعون کی بیوی یا آسیہ علیہ السلام ہونا تاریخی طور پر ثابت نہیں۔قرآن مجید میں بیان کردہ آسیہ علیہ السلام اور خاتون ہیں۔
عیسائی دعوی کرتے ہیں کہ نیفر ہوتیپ کے دور کی نرسل کي قسم کے ايک پودے کی چھال پہ تحریر شدہ ایک واقعہ ملا ہے جس کے مطابق
" ملک مصر میں ہر طرف مصیبت و بربادی ہے۔ہر طرف خون ہے یہاں تک کہ دریا بھی سرخ ہوگیا ہے،دروازے،ستون اور دیواریں آگ کی لپیٹ میں ہیں۔مصر سے باہر کے کچھ عجیب لوگ مصر میں گھس آئے ہیں۔مکئی کے سوا ہر چیز تباہ و برباد ہو گئی ہے۔"
اس کے علاوہ تیرہویں صدی قبل مسیح یعنی فرعون رعمسس دوم کے زمانے کے قرآن کی طرف سے بیان کردہ حالات کی ایک بڑی تفصیل ایک نظم کی صورت میں ایک درخت کی چھال پہ لکھی ملی ہے جس کے مطابق مصر میں مصائب،قحط،سیلاب،ہر طرف خون،مویشیوں کی ہلاکت اور افراتفری کی کیفیت ہے اور مصر سے کئ غلام مصر سے بھاگ گئے ہیں۔واضح رہے کہ یہ تاریخی ریکارڈ ثابت کر رہا ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل فرعون کے ظلم کی مصر سے خروج کرکے کنعان یعنی قدیم فلسطین چلی گئی تھی۔
واضح رہے کہ قدیم مصر کا یہ دریافت ہونے والا تاریخی ریکارڈ قرآن میں بیان کیے گئے ان عذابات کا بیان کر رہا ہے جو حضرت موسی علیہ السلام کی نبوت کے انکار اور اللٰہ تعالٰی کی نافرمانی پہ فرعون اور اس کی قوم پہ نازل کیے گئے۔واضح رہے کہ ان واقعات کا نیفر ہوتیپ کے دور میں وقوع پذیر ہونا تاریخی طور پہ ثابت نہیں اور نہ ہی ہمیں اس کا کوئی حوالہ ملا ہے نہ ہی نیفر ہوتیپ کی کوئ ممی محفوظ ہے لہذا نیفر ہوتیپ فرعون موسی علیہ السلام نہیں ہوسکتا۔البتہ یہ سب واقعات اور عذابات فرعون رعمسس دوم کے دور حکومت میں تاریخی طور پہ ثابت ہوچکے ہیں اور اس کی ممی بھی اج تک دنیا کی عبرت کے لیے محفوظ ہے لہذا ہماری نظر میں رعمسس دوم ہی فرعون موسی علیہ السلام ہے۔لہذا ہماری تحقیق کے مطابق رعمسس دوم ہی فرعون موسی علیہ السلام ہے اور ہماری یہ بات تاریخی،آرکیالوجیکل اور سائنسی حقائق سے ثابت ہے۔ قرآن نے جو چودہ سو سال پہلے بیان کیا اج سائنس اس کی تصدیق کر چکی ہے جب کہ بائبل کا بیان تاریخ کے مطابق غلط ہے اور یہ بات ثابت کر رہی ہے کہ قرآن کلام الہی ہے کیوں کہ یہ حقائق کسی انسان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھے یہاں تک کہ ماہرین آثار قدیمہ نے ان کو دریافت کیا۔
لاش کو ممی بنانے کا عمل بذات خود اکثر کی حقیقی وجہ چھپا دیتا ہے لہذا ماہرین کو موت کی وجہ تلاش کرنے کے لیے تاریخی ریکارڈ پہ انحصار کرنا پڑتا ہے جو اکثر صورتوں میں مکمل دستیاب نہیں ہوتا۔لہذا عین ممکن ہے کہ رعمسس دوم ہی فرعون موسی علیہ السلام ہے اور باقی سب تاریخی و آرکیالوجیکل حقائق قرآن کے بیان کی تصدیق کر چکے ہیں
قرآن مجید اور بائیبل میں بیان کردہ وہ عذاب جو فرعون اور اس کی قوم پہ آئے،سائنسدان نے ان کی تصدیق کر دی ہے۔سائنسدانوں کے مطابق یہ عذابات گلوبل وارمنگ اور آتش فشانی عمل کا نتیجہ تھے۔سائنسدانوں کے مطابق یہ قدرتی عذاب بالکل حقیقی تھے جن کی وجہ سے حضرت موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کو مصر سے فرار ہونے کا موقع مل گیا۔لیکن ضد بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے نا۔بائبل اور قرآن کے بیان کی سائنسی تصدیق کے باوجود کچھ ملحد سائنسدان ان عذابات کو خدائی حکم کی بجائے آب و ہوا کی تبدیلی اور ماحولیاتی عوامل کا نتیجہ قرار دیتے ہیں جو سینکڑوں میل دور واقع ہوئے اور جن کا اثر مصر پہ پڑا۔ان عذابات اور قدرتی آفات کی تفصیل 2010ء کے ایسٹر سنڈے پہ نیشنل جیو گرافک پہ پیش کی جانی تھی۔
ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق یہ عذابات فرعون رعمسس دوم کے قدیم شہر پی رعمسس( Pi-Ramses) میں وقوع پذیر ہوئے جو کہ اس وقت رعمسس دوم کا دارالحکومت تھا۔یہ واقعات و عذابات فرعون رعمسس دوم کے دور حکومت یعنی 1279 سے 1213 قبل مسیح کے درمیان یعنی اج سے لگ بھگ ساڑھے تین ہزار سال پہلے وقوع پذیر ہوئے اور ان آفات کی وجہ سے یہ شہر ترک کر دیا گیا اور بعد ازاں کھنڈر بن گیا اور قرآن نے بھی کہا ہے کہ ہم نے فرعون کے شہر کو زمین کے برابر کر دیا۔ماہرین کے مطابق یہ عذابات و واقعات فرعون رعمسس دوم کے دور حکومت کے آخر میں وقوع پذیر ہوئے اور یہ بات قرآن کے بیان کو ثابت کر رہی ہے کہ اس کے بعد فرعون رعمسس دوم کو اللٰہ تعالٰی نے غرق کرکے ہلاک کر دیا۔
مصری غاروں میں رسوب کلسی فرش یعنی Stalagmitesپہ تحقیقات کرکے ماہرین نےان میں موجود ریڈیو ایکٹو عناصر کے ذریعے اس زمانے کے موسم کا ریکارڈ مرتب کیا اور یہ دریافت کیا کہ پہلے مصر کا موسم گرم مرطوب تھا اور پھر خشک گرم ہوگیا۔قدیم موسم کے ماہر یعنی Paleoclimatologist پروفیسر آگسٹو میگینی نے ہیڈلبرگ یونیورسٹی کے شعبہ ماحولیاتی فزکس میں کہا کہ فرعون رعمسس دوم نے انتہائی مناسب آب و ہوا میں حکومت کی جہاں بارش زیادہ ہوتی تھی اور اس کے ملک نے ترقی کی لیکن صرف چند ہی عشروں بعد اسی فرعون کے دور حکومت میں موسم خشک ہوگیا جس کے شدید برے اثرات مرتب ہوئے۔
ماہرین کے مطابق یہی وہ تبدیلی تھی جس سے مصر پہ مصائب ٹوٹ پڑے،دریائے نیل خشک ہوگیا اور گارے کی کیفیت اختیار کر گیا اور اس کا پانی خون کی طرح سرخ ہوگیا۔
ڈاکٹر سٹیفن پیفگلومیچر(Dr Stephen Pfglumacher) نے جو برلن جرمنی میں لیبنز انسٹٹیوٹ فار واٹر ایکالوجی اینڈ ان لینڈ فشریز کے ماہر بیالوجی ہیں کے مطابق دریا کا پانی خون بن گیا۔واضح رہے کہ قرآن نے فرعون اور اس کی قوم پہ خون کے عذاب کا تذکرہ کیا ہے جس میں ان کا قابل استعمال اور پینے کا سارا پانی خون بن گیا۔ماہرین کے مطابق یہ ایک زہریلی الجی کی وجہ سے ہوا۔اس کے مطابق ایک بیکٹیریا Burgundy Blood algae or Oscillatoria rubescens سائنس کے مطابق تین ہزار سال یعنی فرعون کے دور سے موجود چلا آرہا ہے اور اج تک ایسا کر سکتا ہے۔ان کے مطابق یہ سست چلنے والے گرم پانی میں تیزی سے پرورش پاتا ہے اور جب یہ مرتا ہے تو پانی کا رنگ خون کی طرح سرخ کر دیتا ہے۔سائنسدانوں کے مطابق اس الجی کی وجہ سے قرآن اور بائبل میں بیان کیے گئے اور عذابات فرعون کی قوم پہ ٹوٹ پڑے جن میں مینڈک،جوئیں، اور مکھیوں کے عذاب شامل تھے۔سائنسدانوں کے مطابق ان سخت موسمی تبدیلیوں اور زہریلی الجی سے مینڈک کے ٹیڈ پول یعنی بچے مینڈکوں میں تبدیل ہوگئے اور پورے شہر میں گھس گئے۔اس طرح یہ بات قرآن کے بیان کردہ فرعون کی قوم پہ مینڈکوں کے عذاب کی تصدیق کر رہی ہے۔لیکن جب یہ مینڈک مرے تو ان پہ مچھر،مکھیوں اور دوسرے کیڑوں مکوڑوں نے حملہ کر دیا،مویشی بیمار پڑ گئے اور لوگوں کے جسموں پہ پیپ دار دانے نکل آئے۔
پروفیسر ورنر کلوآس کے مطابق یہ حشرات الارض ملیریا اور دیگر کئی قسم کی وباؤں کے مصر میں پھیلنے کا سبب بنے جس سے اکثر آبادی بیمار پڑ گئ۔ایک اور مصیبت تب ٹوٹی جب چار سو میل دور بحیرہ روم میں موجود جزیرہ کریٹ میں ایک آتش فشاں کے پھٹنے سے انسانی تاریخ کے سب سے بڑے آتش فشانی واقعات میں سے ایک ہوا جس سے نکلنے والی کئی ارب ٹن راکھ فضا میں پھیل گئی جس نے سورج کی روشنی کو روک دیا اور مصر پہ تاریکی کا عذاب ٹوٹ پڑا اور انسٹٹیوٹ فار ایٹما سفیئر فزکس کے نیڈین وان بلوہم کے مطابق اس راکھ نے مصر پہ موجود بادلوں سے تعامل کیا جس سے مصر پہ اولوں کا عذاب ٹوٹ پڑا اور فصلیں تباہ ہوگئی۔
کینیڈا کے ایک ماہر حیاتیات ڈاکٹر سیرو ٹریوی سینٹو کے مطابق اس راکھ سے موسمی تبدیلیاں ہوئ اور مصر پہ ٹڈیوں کا عذاب ٹوٹ پڑا اور سائنسدانوں نے مصر میں موجود چٹانوں کے تجزیے سے اس سارے عمل کی تصدیق کر دی ہے۔
اس کے علاوہ مصر میں ایک زہریلی پھپھوندی نے غلے کو آلودہ کر دیا جس سے ان کےپیدا ہونے والے پہلے نر بچے متاثر ہوئے اور ان کی موت واقع ہوگئ۔یہ اس بات کی سزا تھی کہ فرعون بنی اسرائیل کے نر بچوں کا کئی سال قتل کرتا رہا۔
خلاصہ یہ کہ اج چودہ سو سال بعد حیرت انگیز طور پہ سائنس نے قرآن میں بیان کردہ ان عذابات کی تصدیق کردی ہے جو فرعون کی قوم نازل کئے گئے۔میں بحیثیت مصنف اس ساری تفصیل پہ حیران ہوں۔اب کوئی کیسے کہ سکتا ہے کہ قرآن خالق کا کلام نہیں۔کیا ایک انسانی کلام ایسی بات کر سکتا ہے جو سائنس چودہ سو سال بعد ہو بہو ثابت کرے۔کیا اب بھی کوئی کہ سکتا ہے کہ قرآن اللٰہ تعالٰی کا کلام نہیں؟
مکمل تحریر >>

فرعون کی لاش کے حوالے سے قرآنی بیان پر ملحدین کے اعتراضات کے جوابات- قسط سوئم (آخری قسط)

کیا حضرت یعقوب علیہ السلام،حضرت یوسف علیہ السلام،حضرت موسی علیہ السلام اور مصر کے بنی اسرائیل تاریخ کے فرضی کردار تھے؟
کیا قدیم مصری تاریخ میں بنی اسرائیل کے مصر سے فلسطین کی طرف فرار کا کوئی ثبوت موجود نہیں؟
کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرعون کی لاش کے محفوظ ہونے کا قرآنی دعوہ نعوذ بااللہ کسی مصری سے ممیاں بنانے کے علم کے حصول کے بعد کیا ؟
فرعون کی لاش کے حوالے سے قرآن کا بیان،اس پہ ملحدین کے اعتراضات اور ان کا جواب

قرآن اور بائبل میں بیان کردہ واقعہ دعاؤں و موسی علیہ السلام کے حوالے سے تاریخی اور آرکیالوجیکل یعنی آثار قدیمہ سے بہت سے ثبوت دریافت ہوچکے ہیں جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا۔ماہرین آثار قدیمہ کو لکڑی کے ایسے عصا ملے ہیں جو سانپ کی شکل کے بنے ہوئے ہیں۔یہ غالبا جادو کے لیے استمعال ہوتے تھے۔بہرحال ان کا استعمال جو بھی ہو یہ قرآن کے اس بیان کی تصدیق کرتے ہیں جس کے مطابق فرعون کے جادوگر حضرت موسی علیہ السلام کے مقابلے میں لکڑی کے ایسے عصا لائے تھے جن کو زمین پہ ڈالتے ہی وہ سانپوں میں تبدیل ہوگئے۔
ملحدین کہتے ہیں کہ فرعون کے زمانے میں بنی اسرائیل اور حضرت موسی علیہ السلام کے مصر میں وجود کا کوئی ثبوت نہیں اور مصر کے بنی اسرائیل اور حضرت موسی علیہ السلام نعوذ بااللہ تاریخ کے فرضی کردار ہیں۔ملحدین اس بارے میں بہت شدید غلطی پہ ہیں۔پہلی بات یہ کہ واقعہ فرعون و موسی علیہ السلام کے حوالے سے قدیم مصری تاریخ میں ایسی حیرتناک دریافتیں جیسا کہ اس وقت کے مصر کے حالات،فرعون کی قوم پہ نازل ہونے والے اللہ تعالی کے عذاب اور فرعون کی ممی کا محفوظ ہونا،ہوئی ہیں جو ثابت کر رہی ہیں کہ یہ واقعہ بالکل سچ ہے اور حقیقت میں مصر کی تاریخ میں رونما ہوا تھا۔جب اس واقعے کے باقی ثبوت میسر ہیں تو یہ کیوں کر کہا جا سکتا ہے کہ اس واقعے کے کردار یعنی حضرت موسی علیہ السلام اور بنی اسرائیل محض فرضی ہیں نعوذ بااللہ۔واقعہ ثابت ہے تو پھر کردار بھی خود بخود حقیقی ثابت ہوئے۔
حقیقت یہ ہے کہ بنی اسرائیل مصر میں موجود تھے اور اس کی تاریخ بھی تائید کر چکی ہے۔بنی اسرائیل پہلی بار مصر کی تاریخ میں کانسی کے زمانے میں مصری فرعون مرنفتاح کے زمانے میں 1208سے 1203 قبل مسیح کے درمیانی عرصے میں ملتا ہے جب کہ اس بات کی واضح شہادت موجود ہے کہ کنعان یعنی قدیم فلسطین سے عبرانی نسل یعنی یہود کے لوگ مصر میں مقیم تھے اور کنعان یعنی قدیم فلسطین کا مصر سے قریبی رابطہ تھا۔ان کو مصر میں ہیبیرو کہا جاتا تھا۔یہ لوگ دریائے اردن کے کنارے پہاڑی علاقوں میں بھی قبائل کی صورت میں آباد تھے اور ماہرین کا خیال ہے کہ یہی فیڈریشن کانسی کے زمانے کے بعد میں تاریخی طور پہ سلطنت بنی اسرائیل کی بنیاد بنی۔کانسی کے زمانے کی یہی اصطلاح بعد میں عبرانی اصطلاح ہربریو( Herbrew) کی بنیاد بنی جو کہ بنی اسرائیل کے لیے استمعال کی جاتی ہے۔اس زمانے میں یہ اصطلاح شام و فلسطین کے خانہ بدوش قبائل کے لیے استمعال کی جاتی تھی اور یہ بات ایک طرح سے قرآن کے اس بیان کی تصدیق کرتی ہے جس میں بنی اسرائیل کے دربدر پھرنے کا ذکر ہے اور جن کو بعد میں اللہ تعالی کی طرف سے فلسطین کی حکومت دی گئی۔قدیم میسو پوٹیمیا یعنی عراقی،حطیطی،کنعانی یعنی فلسطینی اور مصری ذرائع ان کو قزاق،مطلب پرست اور غلام بیان کرتے ہیں اور یہ بات قرآن کے بیان کردہ بنی اسرائیل کی ان عادات کی تصدیق کرتی ہے جس کی اصلاح کے لیے ان میں پیغمبر بھیجے جاتے تھے۔یہ قرآن کی اس بات کی بھی تصدیق کرتی ہے کہ قدیم مصر میں ہیبیرو یعنی ہربریو یا عبرانی یعنی یہودی نسل کے لوگ غلام کے طور پہ مصر میں موجود تھے اور جن کی آزادی کے لیے حضرت موسی علیہ السلام بھیجے گئے۔
علاوہ ازیں تاریخ اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ دریائے نیل کے سالانہ سیلاب کی وجہ سے مصر میں بہت زرخیز زمین تھی اور قیمتی غلہ کثرت سے پیدا ہوتا تھا جب کہ قدیم فلسطین یعنی کنعان کے علاقے قحط کی لپیٹ میں آجاتے تھے۔جب بھی ایسا ہوتا تھا تو قحط زدہ لوگ مصر کی زرخیز زمین کی طرف خوراک کے حصول کے لیے رخ کرتے تھے۔آثار قدیمہ کا علم بتاتا ہے کہ ان میں سے کچھ عبرانی یعنی یہودی نسل کے تھے جو کہ کنعان یعنی قدیم فلسطین اور شام سے آتے تھے۔تاریخ کا یہ بیان قرآن کے اس بیان کی تصدیق کرتا ہے جس کے مطابق کنعان یعنی قدیم فلسطین میں قحط پڑنے کے بعد عبرانی نسل سے تعلق رکھنے والے حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے بارہ بیٹوں سمیت مصر میں موجود اپنے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس تشریف لے گئے۔لہذا یہ سارے تاریخی حقائق ثابت کرتے ہیں کہ حضرت موسی علیہ السلام،حضرت یعقوب علیہ السلام اور حضرت یوسف علیہ السلام تاریخ کے فرضی کردار نہیں بلکہ حقیقی شخصیات ہیں اور علی عباس جلال پوری سبط حسن جیسے نام نہاد جاہل دانشور مصری تاریخ سے ناواقف ہونے کی بنیاد پہ ان کو تاریخ کے فرضی کردار قرار دیتے ہیں۔یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ کس طرح ان جاہل اور تاریخ سے نا بلد دانشوروں نے تاریخ کا چہرہ مسخ کرکے عوام اور نوجوان نسل کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
مذید برآں تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ آج سے چار ہزار سال قبل عبرانی یعنی یہودی نسل کے لوگوں نے فلسطین کے صحراؤں سے مصر کی طرف ہجرت کرنا شروع کی۔یہاں تک کہ 20 ویں صدی قبل مسیح یعنی آج سے چار ہزار سال قبل کا مصر میں موجود ایک اعلی مصری شخصیت خنوم ہوتپ دوم( Khnumhotep ii)کے مقبرے پہ ایک ایسا منظر کندہ کیا گیا ہے جس میں عبرانی یعنی یہودی نسل کے تاجر مردوں کو مرادیں پیش کر رہے ہیں۔کچھ عبرانی یعنی یہودی نسل کے لوگ مصر میں تاجروں اور مہاجرین کی صورت میں آئے اور کچھ کنعان یعنی قدیم فلسطین پہ فرعونوں کے حملے کے بعد غلام بنا کر لائے گئے اور تاریخ کی یہ بات قرآن کے اس بیان کی تصدیق کر رہی ہے جس کے مطابق مصر میں بنی اسرائیل غلامی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ قدیم مصر کی نرس کی نسل کے ایک درخت کی چھال پہ لکھی گئی ایک تحریر میں ہمیں ایک ایسے دولت مند مصری شخص کا تذکرہ ملتا ہے جس کے پاس ستتر غلام تھے جن میں سے 48 عبرانی یعنی یہودی نسل کے تھے۔
یہاں تک کہ ایک زمانہ ایسا بھی تھا جب اج سے 3700 ،سال پہلے کنعان یعنی قدیم فلسطین کے لوگوں نے اتنی طاقت حاصل کر لی تھی کہ زیریں مصر پہ حکومت حاصل کر لی۔ان کنعانی حکمرانوں میں یعقوب نام کے ایک بادشاہ کا ذکر بھی ہمیں مصر میں دریافت ہونے والے 27 جگہ ملتا ہے جو کنعان اور ،نوبیا سے ملے ہیں۔یہ بھی ممکن ہے قرآن میں بیان کردہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرعونوں سے بھی پہلے قدیم مصر میں موجود اپنے حکمران بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کی مدد سے زیریں مصر میں حکومت کی ہو لیکن بعد میں بنی اسرائیل کمزور پڑ گئے اور بعد میں آنے والے مصری فرعونوں نے ان کو غلام بنا لیا جن کی آزادی پھر حضرت موسی علیہ السلام کے ذریعے ہوئی۔علاوہ ازیں تاریخ میں اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ عبرانی نسل یعنی یہودی نسل کے لوگ بطور غلام مصر میں موجود تھے۔دریافت ہونے والی قدیم مصری تحریروں میں مصری حکمرانوں اہموز اول اور تھٹموسس سوم کے شام پہ حملہ کرکے غلام مصر لانے کا ذکر موجود ہے۔اس طرح تاریخ بنی اسرائیل کے حوالے سے قرآن مجید میں مذکور حالات ثابت کر چکی ہے۔
ملحدین کہتے ہیں کہ بنی اسرائیل کے فرعون سے فرار اور مصر سے خروج یعنی Exodus کے واقعہ کا کوئی ثبوت نہیں۔یہاں ملحدین پھر غلط ہیں۔جس علاقے سے بنی اسرائیل نے فرعون سے فرار ہوکر ہجرت کرکے واپس فلسطین کا رخ کیا اس علاقے میں اکثر دریائے نیل کے سیلاب آتے ہیں۔اس علاقے میں پتھروں سے بنے معبد بھی بہت مشکل سے بچے ہیں تو بنی اسرائیل کے ہزاروں انسانوں کی مصر سے فلسطین کی طرف حضرت موسی علیہ السلام کی قیادت میں ہجرت کے آثار کیسے بچ سکتے تھے اور وہ بھی تب جب یہ نشان دریائی علاقے اور مٹی سے گزرے ہوں۔تاریخ میں ہر جگہ لاکھوں انسانوں کی ہجرت وقتا فوقتا ہوتی رہی ہے اور مٹی جیسی نرم چیز ہزاروں سال بعد ان نشانوں کے اثرات محفوظ نہیں رکھتی۔کوئ عقل مند انسان آریا نسل کے ہزاروں افراد کی برصغیر کی طرف ہجرت کا انکار اس لئے نہیں کرسکتا کیوں کہ نرم زمین ہزاروں سال پرانے کیا مہینوں پرانے نشان محفوظ نہیں رکھتی۔جو پھر بھی اس کا ثبوت مانگے اس کی بیوقوفی کو عقل کی دھونی دینی چاہیے۔
فرعون رعمسس دوم کے زمانے یعنی 1303_1213 قبل مسیح کے زمانے کے دریافت ہونے والی چمڑے کی ایک تختی پہ کنعان یعنی قدیم فلسطین اور شام سے تعلق رکھنے والےایسے غلاموں کا ذکر ہے جو اینٹیں بنانے کا کام کرتے تھے اور جن کو روزانہ 2000 اینٹیں بنانے کا حکم تھااور یہ بات قرآن کے بنی اسرائیل کی غلامی کے بیان کے مطابق ہے۔قدیم مصری تاریخ میں ان غلاموں کے مصر سے فرار ہونے کا بھی ذکر ہے اور یہ بات قرآن کی بیان کردہ بنی اسرائیل کی غلامی کی مصر سے فلسطین کی طرف ہجرت کی تائید کرتی ہے۔ نرس کی نسل کے درخت کی ایک چھال پہ بھی ان غلاموں کا ذکر موجود ہے۔
مصری وزیر رخمائر جس کا تعلق 1450 قبل مسیح سے ہے،اس کے مقبرے پہ کندہ تحریر میں بھی ان غیر ملکی جنگی غلاموں کا ذکر ہے جو مصری شہر Thebes میں آمون دیوتا کے معبد کی تعمیر کے لیے اینٹیں بناتے تھے۔اس میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح نوبیا اور عبرانی یعنی یہودی نسل کے غلام پانی اور مٹی سے ہاتھ میں ڈنڈے لیے مصری افراد کی موجودگی میں اینٹیں بنانے کا کام کر رہے ہیں۔ایک اور تحریر میں دو غلاموں کے اپنے آقا کے ظلم کی وجہ سے بھاگ جانے کا ذکر بھی ہے۔یہ ساری تفصیل قرآن کی بیان کردہ اس بات کی تصدیق کرتی ہے جس کے مطابق بنی اسرائیل مصر میں غلامی کی زندگی بسر کر رہے تھے اور فرعون ان پہ ظلم کرتا تھا۔
منیتھو( Manetho) کی ایک نویس کے مطابق مصر میں ایک خدا کی تعلیمات دینے والے فرد کا نام اوسارسف( Osarisph) تھا جنہوں نے بعد میں موسی علیہ السلام کا لقب اختیار کیا اور اپنے پیروکاروں سمیت مصر چھوڑ کر چلے گئے۔
مذید برآں قرآن مجید میں مصر سے فرار ہوکر فلسطین کی طرف ہجرت کرنے والے بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں میں موجود افراد کی تعداد بیان نہیں کی گئ۔صرف ان کی ہجرت بیان کی گئی ہے۔لہذا ان افراد کی تعداد کے حوالے سے جو اعتراضات بائبل پہ کیے جاتے ہیں وہ قرآن پہ نہیں کیے جا سکتے۔لیکن تیرہویں صدی قبل مسیح کی نرس کی نسل کے درخت کی چھال پہ کندہ ایک تحریر میں ہمیں مصر سے غلاموں کے فرار ہونے اور مصر میں قوم فرعون پہ آنے والے ان عذاب کا ذکر ملتا ہے جن کو قرآن نے چودہ سو سال پہلے پیش کیا۔لیکن ان کی مکمل تفصیل اس لئے نہیں ملتی کیونکہ اہل مصر میں اپنی شکست کے واقعات کا ریکارڈ رکھنے کا رواج کم تھا اور خود مصری حکمران بعض اوقات دوسرے قدیم مصری حکمرانوں کا ریکارڈ حذف کر دیتے تھے جیسا کہ تھٹموسس سوم نے اپنے پیشرو ہیتشی پست کا ریکارڈ ضائع کرکے کیا۔مزید یہ کہ مصر کے دریائے نیل کے مشرقی ڈیلٹا کا تاریخی ریکارڈ اس وقت تک مکمل طور پہ غیر دستیاب ہے۔اگر یہ ریکارڈ دستیاب ہو جائے تو عین ممکن ہے کہ قرآن کے بیان کردہ اس واقعے کے مزید ثبوت بھی مل جائیں۔ 
ملحدین کا یہ بھی اعتراض ہے کہ مصر کے لوگوں کی طرف سے لاشوں کی ممی بنانے کا عمل مشہور تھا اور ممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہ پتہ ہو۔ممی کا لفظ عربی لفظ مومیا سے نکلا ہے اور اس بنیاد پہ ملحدین کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ممی بنانے کے علم سے واقف تھے۔ملحدین کی باندرانہ عقل کو کوئی بات ٹھیک سمجھ نہیں آتی۔حقیقت یہ ہے کہ لفظ مومیا ایک طرح کے کیمیکل bitumen کا عربی نام ہے جو مغربی ایشیا میں پایا جاتا تھا اور اسے اسلامی طب میں استمعال کیا جاتا تھا۔قدیم مصری ۔لہذا یہ لفظ طب میں استمعال ہونے والے ایک کیمیکل کے لیے استمعال ہوتا تھا لیکن ممی بنانے کے علم کے لیے نہیں۔ممی بنانے کا عمل تو دور کی بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کیمیکل کے نام تک سے واقف نہیں تھے اور رہی یہ بات کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی مصری نے یہ بتایا ہو یہ بھی غلط ہے کیونکہ پہلی مصری جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ منورہ میں ملاقات ہوئی وہ ایک قبطی غلام حضرت ماریہ رضی اللہ تعالی عنہا تھیں جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد کرکے ان سے نکاح کر لیا اور یہ واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدنی زندگی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری سالوں کا ہے جب کہ فرعون کی لاش کے محفوظ ہونے کا قرآن کا بیان اس سے بہت پہلے یعنی مکہ مکرمہ میں ہوچکا تھا۔مزید یہ کہ فرعون رعمسس دوم کی لاش پہ موجود نمک کی کسی سائنسدان نے تحقیق کی ہے کہ یہ نمک ممی والا نہیں بلکہ بحیرہ احمر کا ہے جہاں فرعون غرق ہوا۔کیا اس پہ تحقیق ہوئی کہ فرعون رعمسس دوم کی لاش پہ موجود نمک وہی ہے جو ہر ممی کے جسم میں موجود ہے؟اگر ان پہ بھی تحقیق کی جائے تو فرعون کی لاش کے حوالے سے مزید وہ دریافتیں متوقع ہیں جو قرآن کے بیان کو مزید سچ ثابت کر دیں گی ۔لہذا فرعون کی لاش کے محفوظ ہونے کا قرآن کا بیان قرآن کا ایک معجزہ ہے کیوں کہ 1898ء میں رعمسس دوم یعنی فرعون کی لاش دریافت ہونے تک کسی کو علم نہیں تھا کہ فرعون کی لاش محفوظ کے لیکن قرآن یہ بات سائنس سے بارہ سو سال پہلے بیان کر چکا تھا اور یہ اس بات کی تصدیق ہے کہ قرآن مجید اس کائنات کے خالق کا کلام ہے۔
مضمون کے حوالہ جات:

https://www.google.com.pk/amp/www.haaretz.com/amp/jewish/archaeology/1.713849
http://www.islamic-awareness.org/Quran/Contrad/External/mosespharaoh.html
www.gotquestions.org - Bible Questions Answered
https://www.google.com.pk/amp/s/www.gotquestions.org/amp/Pharaoh-of-the-Exodus.html
http://m.jpost.com/Opinion/Who-was-the-pharaoh-of-the-Exodus-395885
Setnakhte (c. 1189–1186 BC): Igor P. Lipovsky in his book Early Israelites: Two Peoples, One History: Rediscovery of the Origins of Biblical Israel makes a case for him to be the Pharaoh of the Exodus. ISBN 0-615-59333-X
https://islamqa.info/en/72516
http://rupeenews.com/2010/11/05/maurice-bucaille-reversion-to-islam-after-pharoah-discovery/
ISLAM THE RIGHT PATH at 02:46
http://islamtherightreligion.blogspot.com/2012/03/dead-body-of-firaun-how-could-this-body.html?m=1
https://www.pakistan.web.pk/threads/what-is-the-height-of-dead-body-of-firon.66179/
https://mobile.facebook.com/JesusDaily/posts/10152200956577355?_rdc=1&_rdr&refsrc=http%3A%2F%2Fwww.google.com.pk%2Fsearch
Aziz Gilani,https://www.quora.com/When-was-the-Pharaohs-body-found-and-is-this-a-sign-mentioned-in-the-Quran
www.youtube.com/watch?v=ZLINW1pldvs 
www.youtube.com/watch?v=1zs6z6E_Oik 
Dr. Maurice Bucaille (Why I'm a Muslim?)
www.youtube.com/results?search_query=dr.+maurice+bucaille+pharaoh%27s+body
www.google.com/?gws_rd=ssl#q=dr.+maurice+bucaille+pharaoh%27s+body
www.youtube.com/results?search_query=dr.+maurice+bucaille+the+quran+and+modern+science
www.google.com/?gws_rd=ssl#q=dr.+maurice+bucaille+the+quran+and+modern+science
http://www.answering-christianity.com/quran/ma_drowned.htm
Moore, Megan Bishop; Kelle, Brad E. (2011). Biblical History and Israel's Past: The Changing Study of the Bible and History. Wm. B. Eerdmans Publishing. p. 81. ISBN 978-0-8028-6260-0.
مکمل تحریر >>

قرآن کی سائنسی تشریح پیش کرتے ہوئے ہمارا طرز عمل کیا ہونا چاہیے

ملحدین کے اکثر اعتراضات قرآن و حدیث کو سائنس کے ذریعے غلط قرار دینے کی کوشش پہ مبنی ہوتے ہیں۔پھر ان کے سائنسی جوابات کی نوعیت کیا ہونی چاہیے۔
لیکن اعلی تعلیم یافتہ طبقہ ہم سے اعتراضات کا جواب چاہتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ ہمیں قرآن کی تفسیر اور حدیث کی تشریح سے اس بات کا جواب دیا جائے۔کوئی اور راستہ اس کا ایمان بچانے کا ہمارے پاس موجود نہیں تو اس صورت میں ہمارا طرز عمل کیا ہونا چاہئے۔
اگر کوئی ملحد قرآن و حدیث کو سائنس کے خلاف ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے تو ہمارا رد عمل کیا ہوگا۔ہم قرآن و حدیث پہ ان سائنسی اعتراضات کا جواب کس طرح سائنس کی تشریح سے پیش کریں گے یا بالکل نہیں کریں گے تاکہ لوگ گمراہ اور ملحد ہوتے رہیں اور ہم قرآن کو سائنس سے الگ ہونے کا ڈھنڈھورا پیٹتے رہیں گے؟ 
جب کہ قرآن و حدیث کی واضح سائنسی تشریح موجود ہے
قرآن پارہ پچیس سورہ حم السجدہ کی آیت ہے
سَنُرِيْهِـمْ اٰيَاتِنَا فِى الْاٰفَاقِ وَفِىٓ اَنْفُسِهِـمْ حَتّـٰى يَتَبَيَّنَ لَـهُـمْ اَنَّهُ الْحَقُّ ۗ اَوَلَمْ يَكْـفِ بِرَبِّكَ اَنَّهٝ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ شَهِيْدٌ (53)
عنقریب ہم اپنی نشانیاں انہیں کائنات میں دکھائیں گے اور خود ان کے نفس میں یہاں تک کہ ان پر واضح ہو جائے گا کہ وہی حق ہے، کیا ان کے رب کی یہ بات کافی نہیں کہ وہ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔
یعنی اس آیت کے مطابق اللٰہ تعالٰی کائنات میں اور خود ان کے اپنے جسم میں اللٰہ تعالٰی انسان کو نشانیاں بتائے گا۔یہاں سائنسی تحقیقات اور اج کی دریافتوں کی طرف اشارہ ہے تو جب تک ہم یہ سائنسی تحقیقات اور دریافتیں اپنے مذہب سے ثابت نہیں کریں گے قرآن کی اس آیت یعنی ان پہ ان تحقیقات اور دریافتوں کی وجہ سے ہمارا کہا واضح ہوگا کی وضاحت کیسے ہوگی۔
یہاں قرآن خود کہ رہا ہے کہ ہم نشانیاں دکھائیں گے کائنات میں تو اب ان نشانیوں کا بیان قرآن کے بیان کے بغیر کیسے ممکن ہے۔
اس بارے میں ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ قرآن کی جس آیت کی واضح سائنسی تشریح موجود ہو وہ کر دی جائے لیکن جہاں واضح سائنسی تشریح موجود نہ ہو وہاں امکان اور ممکنہ تشریح بیان کر دی جائے کہ یہ مراد ہو سکتا ہے لیکن بہتر اللٰہ تعالٰی جانتا ہے
اور ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ جب بھی سائنسی تشریح پیش کی جائے عوام کو یہ بتا دیا جائے کہ انسان تو غلط ہوسکتا ہے لیکن خالق کا کلام نہیں۔لہذا ممکنہ تشریح موجود ہے سائنس میں لیکن ترجیح پھر بھی خالق کے کلام کو دی جائے گی جس میں غلطی کا کوئی امکان نہیں۔
سائنسی حوالے سے قرآن کی آیات دو طرح کی ہیں۔ایک وہ جن کا معنی و مفہوم واضح ہے۔دوسری وہ جن کا معنی و مفہوم واضح نہیں۔لہذا ہمارا طریقہ یہ ہوگا کہ جن آیات کی واضح سائنسی تشریح اور بیان قرآن میں موجود ہوگا ان کو ہم بیان بھی کریں گے اور ان کی تشریح بھی پیش کریں گے لیکن جہاں واضح معنی مراد نہیں ہوگا جیسا کہ بلیک ہول کے بارے میں کچھ لوگ قرآنی آیات پیش کرتے ہیں۔ اس میں صرف اور صرف ممکنہ معنی بیان کیا جائے گا یہ کہ کر یہ معنی ہوسکتا ہے لیکن تصدیق نہیں کیوں کہ قرآن نے اس بات کی مکمل تفصیل بیان نہیں کی۔لہذا جہاں بات واضح طور پہ ہماری سمجھ میں آنے والی نہ ہو وہاں زبردستی اس سے کوئی سائنسی نقطہ ثابت کرنے کی بجائے اس کی ممکنہ تشریح پیش کی جائے لیکن یہ نہ کہا جائے کہ لازمی طور پہ یہی معنی ہے۔
مثال کے طور پہ اگر ملحدین اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قرآن سورج کو ساکن کہتا ہے زمین کی حرکت کے خلاف ہے،قرآنی ایمبریالوجی نعوذ بااللہ غلط ہے تو ہم قرآن کی سائنسی تشریح کیے بغیر کیسے جواب دے سکتے ہیں۔
جب ملحدین کی طرف سے اس قسم کے اعتراضات کی بنیاد پہ نوحوان اعلی تعلیم یافتہ لیکن دین کی سمجھ نہ رکھنے والے نوجوانوں کو الحاد کی طرف دھکیلا جائے تو آپ اسی قرآن و حدیث سے سائنسی جواب دیے بغیر اعتراضات کا جواب کیسے دے سکتے ہیں کیوں کہ اعتراض جس چیز پہ ہے جواب بھی اسی چیز سے دینا ہوگا۔اس صورت میں قرآن و حدیث کو سائنس سے الگ کیسے کیا جا سکتا ہے۔
کئی دن سے ملحدین کی طرف سے یہ سوال اٹھایا جا رہا تھا کہ قرآن کا واقعہ فرعون و موسی اور فرعون کی لاش کے محفوظ ہونے کا بیان تاریخی،آرکیالوجیکل اور سائنسی طور پہ غلط ہے نعوذ بااللہ۔اس کے جواب کے لئے ہم نے مسلسل ایک ہفتہ تحقیق کی اور اس کے جواب میں دو پوسٹس آپریشن ارتقائے فہم و دانش اور اس گروپ میں بھی دے چکے ہیں۔تیسری پوسٹ جو ہماری اس تحقیق کا نتیجہ ہے ان شاء اللہ جلد دیں گے۔
ہم خود اس بات کے خلاف ہیں کہ قرآن کی ان آیات کو حتمی طور سائنس کے معنی میں بیان کریں جہاں قرآن نے واضح بات کی بجائے اشاروں یا کنایوں میں کوئی بات کی۔اس صورت میں ممکنہ تشریح پیش کی جائے۔یہی طریقہ اج تک قرآن کے تمام مفسرین کا رہا ہے کیونکہ صرف سائنسی نہیں ہر موضوع پہ قرآن کی کچھ آیات ایسی ہیں جن کا واضح مفہوم ہماری نظر میں سمجھ نہیں آتا۔لہذا حتمی طور پہ کچھ کہنے کی بجائے ممکنہ تشریح کی جائے لیکن جہاں بات اور قرآن کا بیان مکمل واضح ہو جیسا کہ انسان کی پیدائش کے مراحل زمین و سورج کی حرکت اور اس طرح کے دیگر مسائل وہاں ان آیات کی سائنسی بنیاد پیش کرنے میں کوئی عیب نہیں جب کہ قرآن خود کہتا ہے کہ ہماری کائنات میں موجود نشانیاں یعنی سائنسی تحقیق پیش کرو
اس صورت میں ہمارا طرز عمل یہ ہونا چاہیے کہ جہاں واضح سائنسی تشریح موجود ہے تو ٹھیک ورنہ ممکنہ تشریح پیش کی جائے یہ نہ کیا جائے کہ زبردستی اپنی طرف سے حتمی معنی پیش کیے جائیں۔یہی ہمیشہ سے قرآن کے مفسرین کا طریقہ رہا ہے۔ اور یہ بھی بتا دیا جائے کہ کئی سائنسی تحقیقات قرآن سائنس سے چودہ سو سال پہلے پیش کر چکا ہے لہذا یہ تو ہوسکتا ہے کہ سائنس غلط ہو لیکن خالق کے کلام میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں۔جدید تعلیم یافتہ طبقہ ہم سے اعتراضات کے جوابات چاہتا ہے۔اگر ہم نے جواب کی بجائے صرف پہلو تہی والا راستہ اپنایا تو عوام الحاد کی گمراہی میں جا گرے گی۔ایسی ایک نہیں بیسیوں مثالیں ہم دیکھ چکے ہیں۔ 
وجود باری تعالی اور معجزات کو سائنس سے ثابت کرنا تب لازمی ہے جب اسی سائنس سے ملحدین ان کو جھٹلانے کی کوشش کرتے ہیں جب کہ یہ باتیں سائنس کے خلاف نہیں بلکہ اب سائنس واضح الفاظ میں ان کی تصدیق کئی نوبل انعام یافتہ سائنسدانوں کی طرف سے کرا چکی ہے۔ایمان بالغیب سائنس کا محتاج نہیں لیکن کمزور ایمان والے لوگوں کا ایمان پختہ کرنے اور اعتراض کرنے والوں کے اعتراض کے جواب کے لیے یہ بہت لازمی ہے ورنہ ہمارا آدھے سے زیادہ معاشرہ جن کا ایمان بالغیب تو دوسری جگہ کلمہ اور دعائے قنوت تک ٹھیک نہیں آتی،الحاد کے گہرے گڑھوں میں گر چکا ہوگا۔
پارہ تین سورہ ال عمران میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ ہے۔
انہوں نے اللٰہ تعالٰی سے مردہ زندہ کرنے کا ثبوت مانگا۔
اور حضرت عزیر علیہ السلام کا واقعہ اسی سورت میں ہے۔ انہوں نے بھی اللٰہ تعالٰی سے مردہ زندہ کرنے کا ثبوت مانگا۔وہ تو پیغمبر تھے۔ان کا ایمان بالغیب ہم سے زیادہ تھا۔پھر انہوں نے کیوں اللہ تعالی سے واضح مشاہدے کا ثبوت مانگا۔
سورہ البقرۃ پارہ تین
اَوْ كَالَّـذِىْ مَرَّ عَلٰى قَرْيَةٍ وَّّهِىَ خَاوِيَةٌ عَلٰى عُرُوْشِهَا ۚقَالَ اَنّـٰى يُحْيِىْ هٰذِهِ اللّـٰهُ بَعْدَ مَوْتِـهَا ۖ فَاَمَاتَهُ اللّـٰهُ مِائَةَ عَامٍ ثُـمَّ بَعَثَهٝ ۖ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ ۖ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا اَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ۖ قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانْظُرْ اِلٰى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ ۖ وَانْظُرْ اِلٰى حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ اٰيَةً لِّلنَّاسِ ۖ وَانْظُرْ اِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ نُـنْشِزُهَا ثُـمَّ نَكْسُوْهَا لَحْمًا ۚ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَـهٝ قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللّـٰهَ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيْرٌ (259)
یا تو نے اس شخص کو نہیں دیکھا جو ایک شہر پر گزرا اور وہ (شہر) اپنی چھتوں پر گرا ہوا تھا، کہا اسے اللہ مرنے کے بعد کیسے زندہ کرے گا؟ پھر اللہ نے اسے سو برس تک مار ڈالا پھر اسے اٹھایا، کہا تو یہاں کتنی دیر رہا، کہا ایک دن یا اس سے کچھ کم رہا، فرمایا بلکہ تو سو برس رہا ہے اب تو اپنا کھانا اور پینا دیکھ وہ تو سڑا نہیں، اور اپنے گدھے کو دیکھ اور ہم نے تجھے لوگوں کے واسطے نمونہ چاہا ہے، اور ہڈیوں کی طرف دیکھ کہ ہم انہیں کس طرح ابھار کر جوڑ دیتے ہیں پھر ان پر گوشت پہناتے ہیں، پھر اس پر یہ حال ظاہر ہوا تو کہا میں یقین کرتا ہو ں کہ بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
یہ حضرت عزیر علیہ السلام تھے جنہوں نے اپنے ایمان الغیب کے باوجود اللٰہ تعالٰی سے مشاہدے کا ثبوت مانگا اور اللہ تعالٰی نے یہ ثبوت دے کر ان کا ایمان مزید پختہ کر دیا۔لہذا مشاہدات کا علم حیسا کہ سائنس کا بیان ایمان پختہ کرنے کے لیے غلط نہیں بلکہ یہ قرآن سے ثابت ہے اور جہاں تک بات آئے اعتراضات کے جوابات کی تو پھر یہ بہت لازمی اور اشد ضروری ہے۔
تو جو ایمان نہیں لا رہا اسے ہم قرآن و حدیث سے واضح سائنسی نشانیاں کیوں پیش نہیں کریں گی
وَاِذْ قَالَ اِبْـرَاهِـيْمُ رَبِّ اَرِنِىْ كَيْفَ تُحْيِى الْمَوْتٰى ۖ قَالَ اَوَلَمْ تُؤْمِنْ ۖ قَالَ بَلٰى وَلٰكِنْ لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِىْ ۖ قَالَ فَخُذْ اَرْبَعَةً مِّنَ الطَّيْـرِ فَصُرْهُنَّ اِلَيْكَ ثُـمَّ اجْعَلْ عَلٰى كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا ثُـمَّ ادْعُهُنَّ يَاْتِيْنَكَ سَعْيًا ۚ وَاعْلَمْ اَنَّ اللّـٰهَ عَزِيْزٌ حَكِـيْمٌ (260)
اور یاد کر جب ابراھیم نے کہا اے میرے پروردگار! مجھ کو دکھا کہ تو مردے کو کس طرح زندہ کرے گا، فرمایا کہ کیا تم یقین نہیں لاتے؟ کہا کیوں نہیں لیکن اس واسطے چاہتا ہوں کہ میرے دل کو تسکین ہو جائے، فرمایا تو چار جانور اڑنے والے پکڑ پھر انہیں اپنے ساتھ مانوس کرلے پھر (انہیں ذبح کرنے کے بعد) ہر پہاڑ پر ان کے بدن کا ایک ایک ٹکڑا رکھ دے پھر ان کو بلا تیرے پاس جلدی سے آئیں گے، اور جان لے کہ بے شک اللہ زبردست حکمت والا ہے۔
اس آیت میں ایک پیغمبر حضرت ابراہم علیہ السلام اپنے ایمان کے باوجود اگرچہ ان کا ایمان ہم سے کئ گنا زیا دہ تھا اللٰہ تعالٰی سے مشاہدات کی دلیل کیوں طلب کر رہے ہیں۔لہذا قرآن سے ثابت ہوتا ہے کہ ایمان کی پختگی اور اعتراضات کے جوابات کے لیے مشاہدے کے علم جیسا کہ سائنس کا بیان قرآن کے خلاف نہیں ہے
جب اسی سائنس سے ملحدین وجود باری تعالی اور معجزات کا انکار کریں گے اور ہم سے سائنسی جواب بھی طلب کریں گے تو ان کے سائنسی جواب کے بغیر اعتراض کرنے والے یا شک کرنے والے آپ کی بات پہ مکمل یقین کیسے کریں گے جب کہ ان کی بےشمار سائنسی دلیلیں موجود ہیں
میرا ایمان ہے کہ میرا مذہب اور میری کتاب کا ایک نقطہ بھی سائنس کے خلاف نہیں۔پھر جب ہم ہیں ہی حق پہ تو اس حق کو دلیل سے ثابت کیوں نہ کریں۔
اگر ایمان بالغیب کے لیے مشاہدہ لازمی نہیں ہے تو خود قرآن کے بیان کے مطابق حضرت ابراھیم علیہ السلام اور حضرت عزیر علیہ السلام نے اللٰہ تعالٰی سے واضح دلیل کیوں طلب کی اور دوسری بات یہ کہ جب ہر شخص کا ایمان پیغمبر جیسا نہیں تو پھر قرآن کے واضح سائنسی انکشافات کا بیان اور اعتراضات کا جواب کیوں نہ دیا جائے۔
اسلام اور جدید سائنس میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ اور قرآن مجید میں ایک ہزار سے زیادہ آیات سائنس کے متعلق گفتگو کرتی ہیں۔ قرآن میں موجود آیات کے متعلق حقائق جدید سائنس سے مکمل مطابقت رکھتے ہیں۔جب ہم ہیں ہی حق پہ تو اس حق کے بیان سے کیوں ڈریں۔
ہم سب جانتے ہے کہ کئی مرتبہ سائنس قہقرائی حرکت (یوٹرن Uturn) کرتی ہے (یعنی طے شدہ نظریات کے خلاف جاتی ہے) اس لئے قرآنی تعلیمات کے ساتھ موازنے کے لئے صرف تسلیم شدہ سائنسی حقائق کو ہی پیش کیا جائے گا۔ قیاسات، تخمینوں اور مفروضوں سے بحث نہیں کی جا سکتی جو خود سائنسی طور پر ثابت نہیں ہیں۔
لہذا ہم قرآن کو سائنسی طور پہ بیان کرنے کے لیے صرف مستند اور تسلیم شدہ سائنسی تحقیق کا بیان کریں گے اور باقی سب صورتوں میں ممکنہ تشریح پیش کریں گے تاکہ عوام شک میں نہ پڑے
ایمان کا تعلق لازمی یقین سے ہے لیکن ایمان کی پختگی کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت عزیر علیہ السلام جیسے پیغمبروں نے بھی اللٰہ تعالٰی سے مشاہدے کی دلیل طلب کی جن کا ایمان ہم سے لاکھوں گنا زیادہ تھا لہذا مشاہدے کے علم جیسا کہ سائنس کی دلیل ایمان کی پختگی اور اعتراضات کے جوابات کے لیے دینا خود قرآن سے ثابت ہے۔
مکمل تحریر >>

Thursday, 17 August 2017

قرآن پاک پر شہاب ثاقب کے حوالے سے ملحدین کے اعتراضات کا سائنسی جواب

قرآن مجید میں اللٰہ تعالٰی فرماتا ہے
"اور ہم نے آسمانوں کو چراغوں یعنی ستاروں سے مزین کیا اور ہم نے ان کو شیاطین کے خلاف ہتھیار کے طور پہ استعمال کیا اور ہم نے ان کے لیے دہکتی آگ کا عذاب تیار کر رکھا ہے"
اس آیت کے ترجمے میں ستاروں کی جمع کے لیے مادہ کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے کیونکہ عربی میں ظاہری طور پہ بے جان چیزوں جیسا کہ پہاڑوں،چٹانوں،ستاروں کی جمع کے لیے مادہ کا صیغہ استعمال ہوتا ہے۔لہذا اللٰہ تعالٰی نے وضاحت پیش کی کہ وہ دہکتی ہوئی آگ جو آسمانوں کی خبریں سننے کے لیے آسمان کی طرف جانے والے جنات اور شیاطین پہ پھینکی جاتی ہے حقیقت میں کائنات میں موجود ستاروں سے نکلتی ہے۔اگر ہم اس کی سائنسی تشریح میں جائیں تو یہ بات سائنسی طور پہ بالکل ٹھیک ہے۔کائنات میں موجود کھربوں ستاروں سے گیما شعاعوں کے بھڑک یعنی Gamma Ray Burst اور کائناتی شعاعوں کے جیٹ یعنی Cosmic Jet ستاروں سے ہی نکلتے ہیں۔ اس طرح جب قرآن کہتا ہے کہ ہم نے ستاروں کو شیاطین کے خلاف ایک میزائل کے طور پہ بنایا ہے تو قرآن کا مطلب اس سے ستاروں سے نکلنی والی زبردست توانائی والی گیما شعاعیں اور کائناتی جیٹ ہو سکتے ہیں جو خلا میں کسی بھی جاندار کو ہلاک کرنے کے لیے کافی ہیں لیکن اللٰہ تعالٰی نے زمین کے گرد اوزون گیس کی ایک حفاظتی تہہ بنا کر زمین کو کافی حد تک ان شعاعوں کے مضر اثرات سے محفوظ کر دیا لیکن اس سے اوپر کی خلا کو ان شعاعوں سے بھر دیا۔جیسا کہ قرآن پاک میں مذکور ہے
"ہم نے نیچے کے آسمان کو ستاروں سے سجایا ہے۔اور اسے ہر ایک سرکش شیطان سے محفوظ رکھا ہے۔وہ عالم بالا کی باتیں نہیں سن سکتے اور ان پر ہر طرف سے (انگارے) پھینکے جاتے ہیں۔بھگانے کے لیے، اور ان پر ہمیشہ کا عذاب ہے۔مگر جو کوئی اچک لے جائے تو اس کے پیچھے دہکتا ہوا انگارہ پڑتا ہے۔"
شہاب مطلب آگ کا شعلہ ،ثاقب مطلب روشن۔
آسمان کی قسم ہے اور رات کو آنے والے کی۔اور آپ کو کیا معلوم رات کو آنے والا کیا ہے۔وہ چمکتا ہوا ستارہ ہے۔
قرآن نے شیطانوں کا پیچھا کرنے والے شعلے کو نجم ثاقب نہیں کہا؟ یعنی کہ پھر وہ پلسر ستاروں کی شدید شعاعیں ہو سکتی ہیں جو شیاطین کے خلاف مہلک ثابت ہوتی ہیں۔
جیسا کہ ایک اور مقام پہ ارشاد ہے
"اور ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو ہم نے اسے سخت پہروں اور شعلوں سے بھرا ہوا پایا(یہاں بھی ستارے کی جگہ شعلے کا لفظ ہے جو کہ پلسر ستارے کی شدید شعاعیں ہو سکتی ہیں)۔اور ہم اس کے ٹھکانوں (آسمانوں) میں سننے کے لیے بیٹھا کرتے تھے، پس جو کوئی اب کان دھرتا ہے تو وہ اپنے لیے ایک انگارہ تاک لگائے ہوئے پاتا ہے۔اور ہم نہیں جانتے کہ زمین والوں کے ساتھ نقصان کا ارادہ کیا گیا ہے یا ان کی نسبت ان کے رب نے راہ راست پر لانے کا ارادہ کیا ہے۔"
وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِى السَّمَآءِ بُـرُوْجًا وَّزَيَّنَّاهَا لِلنَّاظِرِيْنَ (16)
اور البتہ تحقیق ہم نے آسمان پر برج بنائے ہیں اور دیکھنے والوں کی نظر میں اسے رونق دی ہے۔
وَحَفِظْنَاهَا مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ رَّجِيْـمٍ (17)
اور ہم نے اسے ہر شیطان مردود سے محفوظ رکھا۔
اِلَّا مَنِ اسْتَـرَقَ السَّمْعَ فَاَتْبَعَهٝ شِهَابٌ مُّبِيْنٌ (18)
مگر جس نے چوری سے سن لیا تو اس کے پیچھے چمکتا ہوا انگارہ پڑا۔سورہ حجر آیت 16 تا 18
یہاں بھی ستارے کی بجائے آگ کے شعلے کا ذکر ہے۔اب یہ آگ کا شعلہ پلسر ستارے کی شدید شعاعیں ہوسکتی ہیں۔شہاب ثاقب بھی ہوسکتا ہے لیکن یہ شہاب ثاقب بھی ہوسکتے ہیں۔شہاب ثاقب یا (بعض اوقات شہاب / انگریزی: meteor) وہ چمک دار (یعنی ثاقب) اجرام فلکی ہیں جو فضا سے آتے ہیں اور زمین پر گرتے ہیں ان کو شہابیہ بھی کہا جاتا ہے اور عام اردو میں ان کو گرتے ستارے بھی کہتے ہیں اور ستاروں کا گرنا بھی کہا جاتا ہے۔ فی الحقیقت یہ شہاب (meteoroid) یا نیزک ہوتے ہیں جو زمین کے کرۂ ہوا میں داخل ہو جاتے ہیں اور ram pressure کی وجہ سے چمک (ثاقب) پیدا کرتے ہیں؛ جب کوئی شہاب اس طرح زمین (یا کسی اور سیارے) کی فضاء میں داخل ہو جائے اور چمک پیدا کرے یا اس کے کرۂ ہوائی سے گذرتا ہوا اس کی سطح پر گر جائے تو اسے شہابیہ (meteorite) کہا جاتا ہے۔ شہابیہ کو اردو میں سنگ شہاب بھی کہتے ہیں۔
اور دوسری دلچسپ بات یہ ہے کہ قرآن نے اس پیچھا کرنے والے شعلے کو شہاب ثاقب کیا لیکن نجم یعنی ستارہ نہیں اور اج سائنس بھی یہی کہتی ہے کہ یہ ستارے نہیں بلکہ سیارچے ہیں۔
وَالسَّمَآءِ وَالطَّارِقِ (1)
آسمان کی قسم ہے اور رات کو آنے والے کی۔
وَمَآ اَدْرَاكَ مَا الطَّارِقُ (2)
اور آپ کو کیا معلوم رات کو آنے والا کیا ہے۔
اَلنَّجْمُ الثَّاقِبُ (3)
وہ چمکتا ہوا ستارہ ہے۔
یہاں قرآن نے نجم طارق کی بات کی لیکن اس کے شیاطین کا پیچھا کرنے کا تذکرہ نہیں کیا جس کا مطلب ہے کہ قرآن نے نجم طارق کو الگ کہا ہے اور شیاطین کا پیچھا کرنے والے شعلے کو الگ کہا اور اسے ستارہ نہیں قرار دیا۔
طارق مادہ “ طرق “ سے ( برق کے وزن پر ) ھے ۔ اس کے معنی کوٹنا ھے ۔ راستہ کو اس لحاظ سے “ طریق “ کھتے ھیں کہ یہ چلنے والوں کے پاؤں سے دب جاتا ھے ، اور “ مطرقہ “ ھتھوڑے کے معنی میں ھے کہ جس سے دھات وغیرہ کو کوٹا جاتا ھے ۔
چونکہ رات کے وقت گھر کے دروازوں کو بند کیا جاتا ھے اور رات کو گھر میں داخل ھونے والے دروازہ پر دستک دینے کے لئے مجبور ھوتے ھیں ۔ اس لئے رات کو کسی گھر میں داخل ھونے والے کو “ طارق “ کھا جاتا ھے ۔
قرآن مجید یھاں پر خود “ طارق “ کی تفسیر کرتے ھوئے ارشاد فر ماتا ھے : “ یہ رات کا مسافر ، وھی چمکتا ھوا ستارہ ھے جو آسمان پر ظاھر ھوتا ھے اور اس قدر بلند ھے کہ گویا آسمان کی چھت کو سوراخ کرنا چاھتا ھے ، اور اس کا نور اس قدر چکا چوند کر دینے والا ھے کہ تاریکیوں کو توڑ تا ھے اور انسان کی آنکھوں کے اندر نفوذ کرتا ھے ۔ ( قابل غور بات ھے کہ “ ثاقب “ مادہ “ ثقب “ سے ھے اور اس کے معنی سوراخ کرنے کے ھیں ) ۔
اس سلسلہ میں یھاں پر مختلف تفسریں کی گئی ھیں کہ کیا اس سے مراد کوئی خاص ستارہ ھے ، مانند “ ستارہ ثریا “ ( آسمان پر بلندی اور دوری کے لحاظ سے ) یا ستارہ زحل یا زھرہ یا شھیب ( چکا چوند کر دینے والی روشنی کے لحاظ سے ) یا آسمان کے تمام ستاروں کی طرف اشارہ ھے ؟
لیکن چونکہ بعد والی آیات میں اسے “ نجم ثاقب “ ( نفوذ کرنے والا ستارہ ) کھا گیا ھے ، اس سے معلوم ھوتا ھے کہ اس سے ھر ستارہ مراد نھیں ھے ، بلکہ وہ درخشاں ستارے مراد ھے جن کا نور تاریکی کے پردوں کو توڑ کر انسان کی آنکھوں میں نفوذ کرتا ھے ۔ بعض روایتوں میں “ النجم الثاقب “ کے بارے میں ستارہ “ زحل “ کی تفسیر کی گئی ھے جو نظام شمسی کے سیاروں میں سے ایک ھے اور کافی نورانی اور چمکیلا ھے ۔
ہوسکتا ہے قرآن کی آیت کا یہ مطلب ہو کہ پلسر ستارہ یعنی Pulsar Star یعنی طارق خود شیطان کا پیچھا نہیں کرتا اور قرآن نے یہ کہا بھی نہیں بلکہ اس سے نکلنے والی شدید شعاعیں کرتی ہوں جیسا کہ قرآن کہتا ہے۔
اگرچہ شہاب ثاقب زمین کی فضا میں آکر شہاب ثاقب کی روشن شکل اختیار کرتے ہیں لیکن ہوسکتا ہے قرآن نے ان کی زمین سے نظر آنے والی شکل کے مطابق ہی ان کو شہاب ثاقب قرار دیا ہو۔یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ قرآن کا مطلب شہاب ثاقب سے مراد زمین سے نظر آنے والے اوراس کی فضا میں داخل ہونے والے اور اس پہ گرنے والے شہاب ثاقب نہ ہوں بلکہ قرآن کے استمعال کردہ لفظ شہاب ثاقب کا لفظی معنی آگ کا روشن شعلہ ہے جو کہ زمین سے نظر آنے والے عرف عام میں شہاب ثاقب کہے جانے والے سیارچے کی جگہ پلسر ستاروں سے نکلنے والی شعاعیں اور گیما ریز اور کائناتی جیٹ یا اس سے بھی زیادہ طاقتور کوئی کائناتی شعاعیں ہو ہوسکتی ہیں جو شیاطین کے خلاف مہلک ثابت ہوتی ہیں۔دونوں صورتوں میں قرآن کی بات سائنس کے عین مطابق ہے اور اس کے خلاف نہیں۔
اگر اس شہاب ثاقب یعنی شیاطین کو مارا جانے والا آگ کا روشن شعلہ کا مطلب کائناتی شعاعوں اور گیما ریز کی جگہ عرف عام میں کہا جانے والا شہاب ثاقب بھی مان لیا جائے تو اس تشریح کی وضاحت بھی سائنس سے ممکن ہے کیونکہ نظام شمسی میں دوجگہ ان سیارچوں یعنی Asteroid کے بیلٹ ہیں جن میں سے ایک مریخ اور مشتری کے درمیان ہے اور دوسرا جس کا نام کیوپر بیلٹ یعنی Kuiper Belt ہے جو سیارہ نیپچون سے لے کر سورج سے پچاس اے یو یعنی اسٹرانومیکل یونٹ کے فاصلے تک پھیلا ہوا ہے جس میں پلوٹو بھی واقع ہے۔یہ دونوں بیلٹ اپنے سے اوپر موجود آسمان کے لیے زمین یعنی نظام شمسی کے ایک حصے سے آسمان کی طرف جانے والے شیاطین کے خلاف ایک طرح کا ایک حفاظتی قلعہ بناتے ہیں جن میں سے اگر کوئی شیطان گزرنے کی کوشش کرے تو اس بیلٹ کے کچھ سیارچے فورا اس کے پیچھے ٹوٹ پڑتے ہیں جس سے ان شیاطین کو اوپر آسمانوں کی طرف جانے اور وہاں کی باتیں سننے کی ہمت نہیں ہوتی۔یہاں کوئی سوال کر سکتا ہے کہ سیارچے یا عرف عام میں کہے جانے والے شہاب ثاقب تو طبعی اجسام یعنی فزیکل ہیں جب کہ شیاطین آگ سے بنے ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک طبعی جسم یعنی شہاب ثاقب ایک غیر مادی آگ سے بنے شیطان کے خلاف مہلک ثابت ہو۔اس کا جواب یہ ہے کہ شیاطین آگ سے بنے ہیں لیکن خود سائنس کے مطابق توانائی مادے میں تبدیل ہوسکتی ہے۔لہذا ہم نہیں جانتے کہ شیاطین جب آسمانوں کی طرف جانے کی کوشش کرتے ہیں تب وہ مادی اجسام یعنی Physical Objects بطور جانے کی کوشش کرتے ہیں یا غیر مادی اجسام یعنی آگ کے طور پہ۔ لیکن چونکہ توانائی مادے میں تبدیل ہوسکتی ہے۔لہذا عین ممکن ہے کہ شیاطین نہ نظر آنے والے مادی اجسام کی صورت میں آسمانوں کی طرف جانے کی کوشش کرتے ہوں اور ان پہ ان کو روکنے کے لیے شہاب ثاقب جیسے مادی اجسام سے حملہ کیا جاتا ہے۔اگر شیاطین مادی اجسام کے طور پہ آسمان کی طرف نہ جائیں بلکہ اپنے آگ سے بنے غیر مادی اجسام کے طور پہ بھی آسمان پہ جانے کی کوشش کریں تب بھی ان مادی اجسام والے شہاب ثاقب سے نکلنے والی روشنی تخریبی تداخل یعنی Destructive Interference کے سائنسی مظہر کے تحت ان شیاطین کے آگ سے بنے جسم سے تعامل کرکے ان کو ہلاک کر سکتی ہے۔اسی طرح اگر ہم قرآن کے استعمال کردہ لفظ شہاب ثاقب سے اس کا لفظی و حقیقی معنی یعنی آگ کا شعلہ قرار دیں تو بھی پلسر ستاروں سے نکلنے والی شعاعیں،گیما شعاعیں اور کائناتی جیٹ اسی تخریبی تداخل کے عمل کے تحت ان شیاطین کے غیر مادی اجسام کی تباہی کا سبب بن سکتی ہیں۔
دوسری بات یہ کہ اہل عرب میں سے مراد ہر فلکیاتی جسم لیتے ہیں خواہ وہ ستارہ ہو یا سیارہ ہو یا سیارچہ یا شہاب ثاقب ہو۔
مزید براں اگر ہم قرآن کے بیان پہ غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ قرآن کے مطابق شہاب ثاقب اوپری فضا سے آتے ہیں اور جدید سائنس بھی یہی کہتی ہے جب کہ قدیم یونانی سائنسدان کہتے تھے کہ یہ زمین سے اوپر کی طرف جاتے ہیں اور فضا کے آگ کے علاقے یعنی Fire Zone میں پہنچ کر بھڑک اٹھتے ہیں۔قرآن نے ان یونانی سائنسدانوں کے اس تصور کو غلط قرار دیا اور اج جدید سائنس بھی یہی کہتی ہے۔
شہاب ثاقب کے زمین اور اس کی فضا میں مسلسل گرنے کا عمل وہ فلکیاتی مظہر ہے جس کی صحیح پیشین گوئی کرنا ممکن نہیں اور اس بات کی تصدیق International Meteor Organization اور یورپی مشاہدہ کار اس پہ جاپان،فرانس اور جزائر خالدات یعنی Canary islands میں کی جانے والی تحقیق کے نتیجے میں کر چکے ہیں۔جب کہ اکثر فلکیاتی عوامل کی پیشین گوئی ممکن ہے شہاب ثاقب کے زمین پہ گرنے کی مکمل اور صحیح پیشین گوئی ناممکن ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ شہاب ثاقب ایک خاص مقصد کے تحت پھینکے جاتے ہیں۔
قرآن مجید میں استعمال کردہ لفظ طارق کی مزید تشریح پلسر ستاروں کے حوالے سے کی جا سکتی ہے جو کہ حد درجہ مقناطیسی نیوٹران ستارے ہیں جو طاقتور برقی مقناطیسی شعاعیں یا Electromagnetic waves اور گیما شعاعیں خارج کرتے ہیں۔کچھ مسلمان اہل علم حضرات کے مطابق عربی لفظ طارق کا مطلب زور سے ضرب لگانا یا کھٹکھٹانا بھی ہے اور پلسر ستاروں کو بھی ان کی دریافت کے بعد ابتدا میں کھٹکھٹاننے والے ستارے یعنی Knocking Stars کیا گیا تھا کیونکہ یہ ایک ریڈیو دوربین یعنی Radio Telescope کے ریڈیو ریسیور میں کھٹکھٹاننے جیسی آوازیں پیدا کرتے ہیں۔اس طرح قرآن نے جو کہا اج جدید سائنس اس کی تصدیق کر رہی ہے۔آپ ان پلسر ستاروں کی آوازیں یو ٹیوب پہ Pulsar Sounds کے نام سے سن سکتے ہیں۔
ہم جانتے ہیں کہ کائنات ایک بے دھواں آگ یعنی شعاعوں سے بھری پڑی ہے اور ان میں سے ایک گیما شعاعوں کے برسٹ ہیں جو کائناتی جیٹ یعنی Cosmic Jet پیدا کرتے ہیں۔ہمارا سورج ایک طرح کا پلازمہ ہتھیار یعنی Plasma Weapon ہے جو کہ سی ایم ای یا Coronal mass ejection کے عمل کے تحت انتہائی طاقتور ایکسرے شعاعیں پیدا کرتا ہے جو کہ آٹھ لاکھ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتی ہیں۔لہذا پوری کائنات میں موجود ان شعاعوں میں سے کوئی بھی قرآن کے کہے گئے لفظ شہاب ثاقب یعنی آگ کا شعلہ کے طور پہ کائنات میں کسی بھی جگہ شیاطین کو ہلاک کرنے کے لیے استعمال کی جا سکتی ہیں۔اس طرح شہاب ثاقب یعنی اگ کا روشن شعلہ یا شہاب ثاقب یعنی زمین سے نظر آنے والے روشن سیارچے ہوں،جو بھی تشریح مراد لی جائے قرآن کا بیان جدید سائنس کے عین مطابق ہے۔
اب یہاں ایک سوال یہ کیا جا سکتا ہے کہ مان لیا کہ کائنات میں موجود گیما شعاعیں یا کائناتی جیٹ میں سے کوئی بھی شہاب ثاقب یعنی آگ کے روشن شعلہ کے طور پہ شیاطین کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ جن اور شیاطین کا وجود حقیقی ہے کیونکہ سائنس نے آج تک جن یا شیاطین نامی ایسی کوئی چیز یا مخلوق دریافت نہیں کی جو آگ سے بنی ہو۔ اس کا جواب یہ ہے کہ سائنسدان خود اعتراف کرتے ہیں کہ کائنات میں بےشمار ایسی اشیاء موجود ہیں جو اج تک دریافت نہیں ہوسکی اور ان کے سگنل اور شعاعیں ریڈار میں بیرونی فضا سے آکر مدھم پڑ جاتی ہیں اور وہ کیا چیز یا کیا مخلوق ہیں یہ بات سائنسدانوں کے لیے اج تک ایک پراسرار چیز اور معمہ بنی ہوئی ہے۔یہ جن بھی ہوسکتے ہیں اور فرشتے بھی جو کہ اسلام کے مطابق بالترتیب برقی مقناطیسی شعاعوں یعنی آگ اور روشنی سے بنے ہوئے ہیں۔ مزید براں سائنس دان تسلیم کر چکے ہیں کہ آگ سے بنی ہوئی مخلوق سورج اور دیگر ستاروں پہ موجود ہوسکتی ہے۔اسلام کے مطابق جن آگ سے بنے ہیں۔لہذا جو اسلام نے کہا اج جدید سائنس اس کی تصدیق کر رہی ہے۔لہذا یہ کہنا کہ جناب کا وجود سائنس سے ثابت نہیں تو یہ بات سائنسی طور پہ بالکل غلط ہے۔
مزید براں ستارے جو سائنس کے مطابق آگ پہ مشتمل ہیں خود بھی شیاطین کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پہ استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ستارے اضافی رفتاروں یعنی Relativistic Speeds پہ سفر کرتے ہیں اور اگر ان کی رفتار شیاطین کی رفتار سے زیادہ ہو تو یہ بالکل ممکن ہے۔ہمارا اپنا سورج 220 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے حرکت کر رہا ہے اور یہ ستارے خود یا ان سے نکلنے والی روشنی یا آگ کے شعلے یعنی شہاب ثاقب جو سائنس کے مطابق روشنی کی رفتار سے سفر کرتے ہیں شیاطین کے خلاف ہتھیار کے طور پہ استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ اور اگر کوئی ان تمام سائنسی وضاحتوں کا بھی انکار کر دے تو اسے جان لینا چاہیے کہ خدا اس کائنات کا خالق ہے اور خالق اپنی مخلوق یعنی کائنات کے سائنسی قوانین کا پابند نہیں۔وہ ان پابندیوں کا خالق ہے اور خود ان سے آزاد ہے۔
اب اکثر ماہرین طبیعیات یعنی فزکس دعوی کرتے ہیں کہ Worm Hole Travel ممکن ہے اور اس کے ذریعے کوئی بھی جسم سفر کرتا ہوا خلا میں کسی بھی مقام پہ پہنچ سکتا ہے۔اگر اس سے شیاطین سفر کرتے ہوئے کسی ستارے کے قریب پہنچیں تو ان کا آسمانوں کی طرف سفر سائنس کے مطابق عین ممکن ہے جیسا کہ قرآن Worm Hole Travel کا اشارہ اس طرح دیتا ہے
" اور یہاں تک کہ اگر ہم ان کے لیے آسمان میں ایک دورازہ کھول دیں جس سے یہ آسمان کی طرف سفر کر سکیں تو یہ لازمی کہیں گے ہماری آنکھوں پہ پردہ ہے اور ہم ایک مسحور قوم ہیں"(سورہ پندرہ،آیت 14،15)۔
کچھ لوگ اعتراض کرکے کہتے ہیں کہ کائنات کے آخری کناروں یا آسمان کی طرف سفر کرنے کے لیے جنات کو روشنی کی رفتار سے زیادہ رفتار سے سفر کرنا چاہیے اور ان کا پیچھا کرنے والے آگ کے شعلے کو ان سے بھی زیادہ رفتار سے سفر کرنا چاہیے جو کہ ناممکن ہے اور یہ بات کوانٹم فزکس کے خلاف ہے۔اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن نے کہیں نہیں کہا کہ جنات یا شیاطین کائنات کے آخری کناروں کی طرف سفر کرتے ہیں بلکہ قرآن نے یہ کہا کہ وہ آسمانوں کی باتیں سننے کے لیے آسمان کی طرف جاتے ہیں۔اس سے مراد لازمی طور پہ کائنات کا آخری کنارہ نہیں بلکہ کائنات میں کوئی بھی ایسا مقام ہوسکتا ہے جس تک روشنی کی رفتار سے سفر کرکے پہنچنا ممکن ہو کیونکہ جنات آگ یعنی روشنی سے بنے ہیں اوروہ روشنی کی رفتار سے سفر کر سکتے ہیں۔اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ شیاطین کائنات کے آخری کناروں کی طرف سفرکرتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن نے تو ایسی بات کی نہیں۔لیکن اگر یہ تصور بھی کر لیا جائے تو بھی سائنس کے مطابق روشنی کی رفتار سے زیادہ رفتار سے سفر کائنات میں ممکن ہے۔لہذا یہ اعتراض بالکل غلط ہے۔مزید یہ کہ اللٰہ تعالٰی جو کائنات کا خالق ہے وہ اس کائنات کے سائنسی قوانین کا پابند نہیں ہے کیوں کہ خالق مخلوق کا پابند نہیں ہوتا۔لہذا وہ جب چاہے کسی چیز کے لیے ان قوانین کی پابندی ختم کردے یا ان کو اس پابندی سے آزاد قرار دے۔جب ہم جانتے ہی نہیں کہ جن اور شیاطین کس رفتار سے سفر کرتے ہیں اور کائنات میں کتنے فاصلوں اور بلندی کی طرف جاتے ہیں تو پھر جب قرآن نے اس بات کی تخصیص ہی نہیں کی تو اعتراض کیسا۔
یہ تھی ملحدین کے قرآن پاک کے معجزہ شہاب ثاقب پہ سائنسی اعتراضات کی اصل حقیقت اور ان کا سائنسی جواب۔اس ساری وضاحت کے بعد قرآن کا شہاب ثاقب کے حوالے سے بیان جدید سائنس کی تمام ممکنہ وضاحتوں کے عین مطابق ہے اور کوئی نہیں کہ سکتا کہ قرآن کا بیان جدید سائنس کے خلاف ہے۔یہ بات ثابت کرتی ہے کہ قرآن اس کائنات کے خالق کا کلام ہے جس کو اج چودہ سو سال بعد جدید ترین سائنسی تحقیقات بھی غلط ثابت نہیں کر سکی۔
اللٰہ تعالٰی ہمیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارا خاتمہ ایمان پہ فرمائے۔آمین۔
حوالہ جات:
www.answeringchristianity.com
https://forum.bodybuilding.com/showthread.php?t=4404283
http://forums.understanding-islam.com/showthread.php?6199-Jinn-and-Shooting-Stars
https://islamqa.info/en/243871
https://www.quora.com/Why-does-the-Quran-state-that-the-stars-are-missiles-for-the-devils-to-serve-as-their-doom-of-flame
http://demystifyingislam.blogspot.com/2006/03/what-does-quran-say-about-shooting.html?m=1
www.ahlehadith.com
مکمل تحریر >>

روز قیامت سمندروں میں آگ لگنے کا قرآن مجید کا بیان اور اس کا سائنسی ثبوت

زمین سے سورج آگ کا دہکتا ہوا گولہ دکھائی دیتا ہے۔ ممکن ہے، کبھی آپ کے ذہن میں یہ سوال آیا ہو کہ کیا سورج کی بھڑکتی آگ پانی ڈال کر بجھائی جا سکتی ہے؟ آئیے دیکھتے ہیں کہ سائنس اس سلسلے میں کیا جواب دیتی ہے۔
عام انسان کے دماغ میں تو فوری طور پر تو یہی خیال آئے گا کہ اربوں گیلن پانی ہو تو شاید سورج کے شعلے ختم ہو جائیں۔ایسا سوچنا قابل فہم ہے کیونکہ آگ کیمیائی ردعمل کا نتیجہ ہوتی اور آکسیجن ملنے کے نتیجے میں بھڑکتی ہے۔ اس پر پانی ڈال کر آکسیجن ختم کرنے کی کوشش ہوتی ہے تاکہ اس کی شدت میں کمی آسکے لیکن خلا میں تو آکسیجن ہوتی نہیں تو پھر وہاں پانی کیا کام دے گا؟
شاید آپ کے لیے یہ بات حیران کن ہو کہ سورج دیکھنے میں تو آگ سے بنا ہوا ہے مگر یہ وہ آگ نہیں جو ہم زمین پر دیکھتے ہیں بلکہ یہ آگ جوہری فیوزن (Nuclear fusion) کے نتیجے میں بھڑکتی ہے۔اس کو پیدا ہونے کے لیے آکسیجن کی ضرورت نہیں ہوتی۔لہذا سورج پر پانی ڈالا گیا تو آگ میں کمی آنے کی بجائے الٹا ردعمل ہوگا اور وہ زیادہ بھڑک جائے گی۔
وجہ یہ کہ پانی کی شکل میں ہم سورج کو زیادہ ہائیڈروجن فراہم کردیں گے جو جوہری فیوزن کا ایندھن ہے۔ نتیجے میں وہ زیادہ بھڑک کر روشن ہوجائے گا۔ اگر بہت زیادہ پانی ڈالا جائے تو سورج کے درجہ حرارت میں کمی ضرور آئے گی مگر وہ عارضی ثابت ہوگی۔ویسے بھی اربوں گیلن پانی سورج تک لے جانا بھی بڑا مسئلہ ہے۔ وہ پہنچنے سے پہلے ہی ابل کر بخارات کی شکل اختیار کرلے گا۔
قرآن نے چودہ سو سال پہلے کہا
واذالبحار فجرت(سورہ التکویر ،پارہ تیس)
اور جس دن سمندروں کو آگ لگ جائے گی
جو دعوی قرآن نے چودہ سو سال پہلے کہا اج جدید سائنس اس کی تصدیق کر رہی ہے۔نزول قرآن کے وقت کوئی نہیں جانتا تھا کہ پانی ہائیڈروجن اور آکسیجن گیس پہ مشتمل ہے اور اگر پانی کو تحلیل کر دیا جائے تو اس کی ہائیڈروجن آگ پکڑ لے گی اور پانی بجائے آگ بجھانے کے آگ بھڑکا دے گا۔قرآن کی طرف سے پیش کردہ اس بات کی تصدیق اج جدید سائنس کر رہی ہے جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ قرآن اس کائنات کے سب راز جاننے والے خالق و مالک کا کلام ہے۔اللٰہ تعالٰی ہمارا خاتمہ ایمان پہ فرمائے۔آمین
مکمل تحریر >>

Sunday, 6 August 2017

خدا اور وقت

ایک ملحد نے لکھا ہے کہ،وجود سے عدم اور عدم سے وجود پیدا نہین ہوسکتا۔یہ بات اس نے خدا کے نہ ہونے کی دلیل کے طور پر بیان کی ہے،آپ سے رہنمائی درکار ہے میں اس سے کیا سوال پوچہون۔
جواب۔۔۔۔
جو موجود ہے ہمیشہ سے وہ عدم کیسے ہو گیا۔عدم کا لفظ ہے ہی اسکے لیے جو پہلے سے موجودنہ ہو۔خدا ہمیشہ سے موجودہمیشہ موجود ہے اور ہمیشہ رہے موجودرہے گا۔اسکے لئے یہ جملہ ہی جہالت و بیوقوفی پر مبنی ہے۔اسکا ہمیشہ کا وجود عدم کی پابندی سے آزاد ہے۔عدم ہے ہی اسکے لیے جو کہ پہلے نہیں تھا بعد میں بنا۔جب کہ خدا ہمیشہ سے موجود ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
جب عدم سے وجود پیدا نہیں ہوسکتا تو بگ بینگ کے لیے درکار مادہ کیسے وجود میں آیا؟ کون تھا جس نے اسے تخلیق کیا؟ اور اگر ملحد بضد ہے کہ مادہ ازل سے تھا تو خدا کا ازل سے ہونا کیوں محال ہے؟
جو بھی کائنات کی تخلیق سے قبل تھا جس کے پھٹنے یا کچھ بھی تبدیلی ھونے سے دنیا بن گئی تو اس سب کو بھی کسی نے تو بنایا نا کچھ بھی ھونے کے لیے اسے کرنے والا لازم ھے اور وه عدم نھیں ھو سکتا اور وه ذات ھی خدا ھے۔
خدا وقت نہیں۔بلکہ وقت خدا سے ہے۔سائنس کے مطابق تھیوری آف ریلیویٹیٹی کہتی ہے کہ وقت یعنی زمان و مکان ایک اضافی جز ہے کائنات کا جب کہ خدا اضافی جز نہیں بلکہ حتمی جز ہے کائنات کا جس کے بغیر کائنات کچھ نہ ہوتی۔خدا زمان و مکان دونوں کا خالق ہے اور خالق مخلوق کا پابند نہیں ہوتا۔
وقت کی تعریف ہے کہ کسی چیز کی ہمیشہ کی موجودگی اور ماضی حال مستقبل کے تمام واقعات کا مجموعہ۔آج تک وقت کی جو تعریف کی گئ ہے ان میں یہ تعریف سب سے بہتر اور سائنسی ہے۔باقی سب تعریفیں فلسفے اور منطق پر مبنی ہیں۔
اس بیان کردہ تعریف کے مطابق خدا کی موجودگی اور اسکی کائنات میں سرگرمی ہی وقت کی پیدا کرنے والی ہے۔اگر یہ موجودگی و سرگرمی نہ ہوتی تو وقت نہ ہوتا۔لہذا وقت خدا کے وجود پر منحصر ہوا نہ کہ خدا وقت پر۔
وقت خدا سے ہے خدا وقت سے نہیں۔یعنی کہ وقت کا وجود خدا کے وجود پر منحصر ہے کیونکہ وقت کائنات کا ایک جزو ہے اور کائنات خدا کی تخلیق۔اور تخلیق وجود کے لیے خالق پر انحصار کرتی ہے لیکن خالق اپنے وجود کے لیے تخلیق پر نہیں۔
اور وقت کی اصطلاح ہمارے دن رات مہینے سال کے اندازے کے لیے ہے۔جس خدا کی سرگرمی قوت قدرت وقت کی کمی اور زیادتی کی محتاج نہیں اس خدا کو وقت کی کوئ ضرورت نہیں۔
وقت کی ایک اور تعریف منصوبہ،پلان اور کام کی ترتیب ہیں۔اگر یہ تعریف بھی مان لیں تو بھی خدا وقت کا پابند نہیں کیونکہ خدا کا منصوبہ پلان اور کام کی ترتیب ہی وقت ہوئ نہ کہ وقت خدا ہوا اور منصوبہ یاد پلان کا کائنات میں طے پانے کا نقطہ یرنی وقت منصوبہ بنانے والے یعنی خالق کا پابند ہوا جب کہ منصوبے کا وہ نقطہ خالق کا پابند ہوا یعنی منصوبہ ساز خدا تھا تو وقت تھا۔اگر میں ہوں گا تو میرا منصوبہ ہوگا نہیں ہوں گا تو وہ بھ نہیں ہوگا۔اس کا ظاہر ہے یہی مطلب ہے کہ منصوبے کا نقطہ یعنی وقت منصوبہ ساز خدا سے ہے اور منصوبہ ساز خدا منصوبے سے نہیں۔یعنی منصوبہ منصوبہ ساز خدا کا پابند ہے۔
وقت کی ایک اور تعریف یہ ہے
کسی وجود کے انجام دیے جانے والے فعل یا سرگرمی کا کائنات میں نقطہ آغاز و انجام
اگر یہ تعریف بھی مان لی جائے تو بھی انجام دیا گیا فعل یا سرگرمی انجام دینے۔ والے یعنی خدا کی پابند اور اسی سے ہوئ نہ کہ انجام دینے والا خدا اس فعل یا سرگرمی سے ہوا۔دونوں صورتوں میں فعل فاعل سے ہے ہے کہ فاعل فعل سے۔
خلاصہ یہ کہ وقت خدا سے ہے یعنی اس کے وجود سے سب ہے اور وہ کسی سے نہیں۔وہ ہے تو سب ہے یعنی وقت بھی کائنات بھی وہ نہ ہوتا تو کچھ نہ ہوتا۔
منجانب۔۔
طلحہ ایر،احید حسن،سارہ خان
مکمل تحریر >>

نظریہ ارتقاء کی جینیاتی اساس اور اس میں پای جانے والی سائنسی غلطیاں

انسان کے 46 کروموسوم ہیں اور بن مانس کے 48۔ارتقا کے مطابق بن مانس کے دو کروموسوم مل کر انسان کے کروموسوم نمبر 2 میں بدل گئے اور بن مانس انسان میں تبدیل ہوگیا۔
یہ تصور 1991 میں پہلی بار ان سائنسدانوں نے پیش کیا جن کے مطابق انسان اور چمپینزی کروموسوم کا سٹیننگ پیٹرن خورد بین میں ایک سا نظر آتا ہے۔لیکن انسان کے کروموسوم کے ایسے حصے بھی ہیں جو بن مانس سے نہیں ملتے۔لہزا انسانی کروموسوم مکمل طور پر بن مانس کے کروموسوم جیسا نہیں۔
ارتقاء والوں کے مطابق جس جگہ انسان اور بن مانس کے کروموسوم ملے وہاں 800 جینیاتی اساسوں یا ڈی این اے بیس کا ایک سلسلہ موجود ہے۔لیکن یہ بہت ہی چھوٹا ہے یعنی صرف 800 اساس یا بیسز پر مشتمل اور یہ degenerate ہے یعنی اس میں تین کوڈان کا سلسلہ ایک ہی امایینو ایسڈ کوڈ کرتا ہے۔زندہ جانوروں میں جہاں بھی ڈی این اے کی فیوژن ہوتی ہے وہاں ایک خاص ڈی این اے کا سلسلہ ہوتا یے جسے satellite DNA یا sat DNA کہتے ہیں۔ٹیلومییر کسی ڈی این اے کے آخری سرے پر خاص نیوکلیوٹائیڈ کا ایک سلسلہ ہوتا ہے جو ڈی این اے کی حفاظت کرتا ہے اور اسے فیوژن سے بچاتا ہے۔یہ ایک طرح ڈی این اے کی کیپ کی طرح کام کرتا ہے۔یہ ٹیلو میئر نیوکلیوٹائیڈ کے ہزاروں سلسلوں پر مشتمل ہوتا ہے جو TTAGG اساس کا ایک سلسلہ ہوتے ہیں۔جہاں فیوژن ہوتی ہے وہاں سیٹ ڈی این اے ٹیلو میئر سے ملتا ہے یا سیٹ ڈی این اے دوسرے سیٹ ڈی این اے سے ملتا ہے۔لیکن یہ کبھی نہین ہوتا کہ فیوژن والی جگہ ٹیلو میئر ٹیلو میئر سے ملے جو کہ ارتقا والے دعوی کرتے ہیں۔ایسی کوئ مثال جینیٹکس میں نہیں ملتی فیوژن کی۔
2002 ء میں کروموسوم نمبر دو کی جس جگہ کو ارتقا والے فیوژن کی جگہ کہتے ہیں وہاں کے اردگرد کے 614000 ڈی این اے بیس کا سلسلہ کیا گیا اور پتہ چلا کہ یہ فیوژن والی جگہ ایک جین کے درمیان میں ہے جب کہ جینیٹکس میں ایسا نہیں ہوتا کہ فیوژن والی جگہ جین کے درمیان ہو۔پہلے اس جین کو سوڈو جین کہا گیا تھا لیکن اب جن جین کو سوڈو جین کہا جاتا ہے ان کا کام بھی دریافت کیا جا چکا ہے۔اس طرح یہ جگہ سوڈو جین کی بھی نہیں۔
یہ جین جو انسانی فیوژن والی جگہ کہی جانے والی جگہ پر ہیں وہ بن مانس کے کروموسوم 2A اور 2 B پر نہیں اور یہ بات فیوژن کا تصور غلط ثابت کر رہی ہے۔اگر فیوژن 2 اے 2 بی کروموسوم کی سے انسانی کروموسوم نمبر دو بنا تو پھر آپس کے جین کیوں مختلف ہیں۔اس،متضاد جین کے تصور کو جینیٹکس میں Lack of synteny کہا جاتا ہے۔
یہ سائٹ ایک جین DDX11L2 کے علاقے میں ہے جو کہ transcription factor binding site رکھتا ہے جو کہ جین کے پہلے انٹران میں موجود ہے۔جب کہ فیوژن والی جگہ کبھی جین نہیں ہوتا۔بلکہ سیٹ ڈی این اے یا ٹیلو میئر ہوتا ہے۔یہ بات بھی ارتقا کے فیوژن کے دعوے کے خلاف ہے۔اور بات یہ کہ اس فیوژن کے علاقے میں موجود DDX11L2 جین ریورس ڈی این اے سٹرینڈ پر یے اور یہ الٹی سمت میں ڈی کوڈ ہوتا یے نہ کہ آگے کی سمت میں۔اور یہ ایک خاص ریگولیٹری سویچ کوڈ کرتا ہے نہ کہ سیٹ ڈی این اے جو کہ فیوژن والی جگہ ہونا چاہیے۔فیوژن کہی جانے والی یہ جگہ ایک جین DD X11L2 کا لازمی حصہ ہے اور یہاں کوئ سیٹ ڈی این اے نہیں جو کہ فیوژن والی جگہ ہونا چاہیے۔یہ بات فیوژن کے تصور کو غلط ثابت کررہی ہے۔
یہ جین بذات خود RNA helicase DDX11L genes کے کمپلیکس کا حصہ ہے جو ریگولیٹری آر این اے کوڈ کرتا ہے اور انسان کے 225 سیلز اور ٹشوز میں موجود ہے۔اس جگہ پر کوئ degenerate fusion sequence نہیں جو کہ فیوژن والی جگہ ہوتا ہے اور کوئ فنکشنل جین نہیں رکھتا جب کہ یہاں فنکشنل جین موجود ہے اور یہ بات فیوژن کے تصور کو غلط ثابت کررہی ہے۔
ڈی این اے ہائبریڈائزیشن اور سٹیننگ فیوژن کا گمان ظاہر کررہی تھی لیکن جین سیکونسنگ نے یہ تصور غلط ثابت کر دیا ہے۔فیوژن کے نتیجے میں دو ٹیلو میئر کے دہرائے جانے والے بیس بننے چاہیے ۔فیوژن کے مقام پر ہزاروں intact motifs in tandem ہونے چاہیے۔فیوژن والی جگہ کے التی طرف TTAGGG کے 35 سے کم موٹف ہین جب کہ فیوژن والی جگہ پر ایک انسانی ٹیلو میئر کے 1667-2500 موٹف ہونے چاہیے جب کہ ایسا نہیں ہے۔جب کہ سیدھے طرف 150 اور الٹی طرف 35 سے کم موٹف ہیں۔یہ بات بھی فیوژن کے تصور کے خلاف ہے۔یہ موٹف فیوژن کی جگہ کی بجائے اس کے دونوں طرف بکھرے ہوئے ہیں اور تعداد میں بھی بہت کم ہیین۔دونوں طرف فارورڈ اور ریورس کمپلیمنٹ کے ٹیلو میئر ہیں جب کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔یہ ریپیٹ بھی کم،ہیں بھی فیوژن کہی جانے والی جگہ کے دونوں طرف یہ بھی فیوژن کے خلاف ھے۔
فیوژن والی جگہ کے ٹیلو میئر پر کوئ فنکشنل جین نہیں پائے جاتے لیکن یہاں فنکشنل جین موجود ہے جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا جب کہ فیوژن والی جگہ کے ٹیلو میئر پر کوئ فنکشنل جین نہیں ہونا چاہیے۔
جب کہ اس جگہ پر 24 فنکشنل اور 16 سوڈو جین پائے گئے ہیں سائنسدان دانوں کے مطابق کے اور یہ سوڈو جین بھی نئ تحقیق کے مطابق حقیقت میں سوڈو نہیں ہوتے۔فیوژن والی جگہ پر فنکشنل جین کی موجودگی ٹیلو میئر کے تصور اور فیوژن کے خلاف ہے۔
اس جگہ کے بالکل قریب دو اور جین بھی پائے گئے ہیں جو ان ایکٹو ہیں لیکن human ENCODE (Encyclopedia of DNA Elements) project کے مطابق یہ سوڈو جین بھی ریگولیٹری میکنزم کی وجہ سے فنکشنل ہوسکتے ہیں۔
دو ٹیلو میئر کا فیوژن میں ہونا ایک اور سائنسی اصول کو جنم دیتا ہے کیونکہ ٹیلو میئر فیوژن کو روکتے ہیں اور جب بھی aberrant fusion ہو تو سیل کی موت کا نظام حرکت میں آجاتا ہے۔
cryptic second centromere site کی فیوژن ماڈل کے مطابق کوئ گواہی ہو جب کہ یہ بھی نہیں ہے۔
فیوژن ماڈل میں دو سینٹرو میئر ہوں جب کہ دوسرے سینٹرو مئییر کی کوئ گواہی نہیں ہے ارتقا والوں کے پاس سوا یہ جھوٹا دعوی کرنے کے کہ دوسرا سینٹرو میئر ڈیلیٹ ہو گیا۔اس کی کوئ سائنسی گواہی موجود نہیں۔
اگر کوئ یہ کہے کہ دوسرے سینٹرو میئر کا ڈی این اے الفائیڈ ڈی این اے کی صورت میں کروموسوم نمبر دو میں موجود ہو تو اس کو صرف کروموسوم نمبر دو میں ہونا چاہئے جب کہ یہ انسانی کروموسوم کے نان سنٹرو میئر حصوں میں بھی ہے۔اور یہ الفائیڈ ڈی این اے بھی سنٹر و میئر ڈی این اے سے کوئ قریبی تعلق نہیں رکھتا۔انسان اور بن مانس کے الفائیڈ ڈی این اے۔ میں سوا کسی حد تک ایکس کروموسوم کے سینٹرو میئر کے کوئ ارتقائ یکسانیت نہیں۔
کروموسوم نمبر دو کے لانگ آرم پر فیوژن کے مطابق سینٹرو مییرک ڈی این اے کی بہت مقدار ہونی چاہیے تھی جب کہ ایسا نہیں ہے۔انسانی کروموسوم نمبر دو کا سنٹر و میئر فیوژن ماڈل کے کہے گئے مقام سے مختلف حالت میں ہے۔کروموسوم فیوژن سے نسل آگے نہیں بڑھتی خواہ فیوژن کسی بھی طریقے سے ہو۔اگر حمل ہو بھی جائے تو ایمبریو یا جنین ضائع ہوجاتا ہے۔جب نسل ہی آگے نہ بڑھی تو ارتقا کیسے ہوا۔لیکن اس سائٹ پر فنکشنل جین فیوژن کے تصور کے خلاف ہے۔
دو کروموسوم کے ملنے یا فیوژن سے صرف کروموسوم کی پیکنگ بدلتی ہے جب کہ جینیاتی معلومات نہیں۔اگر یہ فیوژن۔ ہوئ تو اج انسانوں کے دو گروہ ہونے چاہیے تھے۔ایک 48 کروموسوم والا اور دوسرا 46 کروموسوم۔ والا جیسا کہ 48 کروموسوم والے بن مانس موجود ہیں۔لیکن آج تک کوئ 48 کروموسوم والا انسان نہیں ملتا۔ارتقا والے کہ دیتے ہیں کہ پہلے یہ تھا اور اس کی نسل مٹ گئی۔لیکن ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں اس کا کہ کوئ 48 کروموسوم والا انسان بنا ہو۔
انسان اور بن مانس کروموسوم کے وائے کروموسوم میں 30% سے زیادہ فرق ہے جس کو ارتقا والے صرف 5-2 فیصد بیان کرتے ہیں جب کہ باقی کروموسوم کا فرق ابھی تک بیان نہیں کیا گیا۔
میملز میں اج تک ساری فیوژن سٹیلائٹ ڈی این اے کے مقام پر ہے۔ارتقائ فیوژن کی جینیٹکس میں کوئ مثال نہیں۔جس کا جینیٹکس میں کوئ ثبوت نہیں محض ارتقا والوں کا دعوی ہے تو اس کو بغیر کسی سائنسی گواہی کے کیسے مانا جا سکتا ہے۔
کروموسوم فیوژن کے علاقے میں کمپلیکس ملٹی ایگزان نہیں بنا سکتی جب کہ یہاں فنکشنل جین موجود۔فیوژن والی جگہ بن مانس کا سیٹ ڈی این اے ہونا چاہیے جب کہ یہ بھی نہیں ہے۔فیوژن کی جگہ کے اردگر پایا جانے والا جین مادہ بن مانس سے کوئ مطابق نہیں رکھتا۔یہ بات بھی فیوژن کے خلاف ہے۔جب کہ اپنے دعوے کے ثبوت کے لیے ارتقا والے کہتے ہیں کہ باقی ڈی این اے دوسرے سیلز سے آیا۔اس بات کی کوئ گواہی نہیں ن کے پاس۔جھوٹ پر جھوٹ بولے جا رہے ہیں جب کہ اس کی جینیاتی گواہی کوئ نہیں ارتقا والوں کے پاس۔مزید یہ جینیٹکس کی ریسرچ پڑھیں
putative, but degenerate head-to-head telomere fusion-like sequence of about 800 bases is one of the key pieces of evidence used by evolutionists to support the human chromosome 2 fusion model of two smaller ape-like chromosomes. However, the DNA sequence features do not match evolutionary expectations, being surprisingly small in size and extremely degenerate (Fan et al. 2002a; Tomkins and Bergman 2011a). In addition, the putative fusion site is not characterized by the presence of satellite DNA, a hallmark of known fusion events in living mammals, which was a surprise to researchers who first discovered it (Ijdo et al. 1991).
چمپینزی یا بن مانس کے ٹیلومیر کے علاقے میں خاص سیٹ ڈی این اے ہوتا ہے جو کہ انسانی جینوم میں نہیں پایا جاتا۔جب کہ فیوژن کے نتیجے میں اسے موجود ہونا چاہیے تھا۔ارتقا والے کہتے ہیں کہ انسان سے یہ ڈی این اے ضائع ہوگیا جب کہ اس کی ان کے پاس کوئ گواہی نہیں۔اور جھوٹا دعوی بغیر کسی سائنسی گواہی کے محض اپنا لولا لنگڑا نظریہ ارتقاء ثابت کرنے کے لیے جس کی جینیٹکس میں کوئ سائنسی گواہی موجود نہیں۔
اور گوریلا بن مانس انسان کی کیپ ڈی این اے خاص ہوتا ہے جب کہ فیوژن میں بھی یہ نہیں آیا۔یہ بات بھی فیوژن کے خلاف ہے۔اگر ان سب کا ارتقا ایک مشترک جانور سے ہوا تو یہ کیپ ڈی این اے کسی نہ کسی طرح ملتا لیکن کیپ ڈی این اے ہر سپی شیز میں مختلف ہے یعنی بن مانس انسان گوریلا سب میں۔
کافی سارے یہ حقائق جو ہم نے بیان کیے چمپینزی کروموسوم فیوژن کے تصور کے خلاف ہیں۔
جینیٹکس کی یہ ساری سائنسی وضاحت ثابت کرتی ہے کہ ایک سپی شیز کا ارتقا کے مطابق دوسری سپی شیز میں تبدیل ہونا اور بغیر کسی پیدا کرنے والے کے سب جاندار اشیاء کا خود بخود بننا جینیٹکس کی مستند سائنسی تحقیقات کے خلاف ہے۔جب کہ مذموم فری میسن ہاتھوں میں قید میڈیا نصاب سائنسی طبقہ خدا کے انکار کی حقیقت کھلنے اور نظریہ ارتقاء کے غلط ہوجانے کے ڈر سے یہ ساری سائنسی تحقیق نصاب میں نہیں آنے دیتا اور عوام کو وہ سائنسی تحقیق پڑھای جاتی ہے جو خود سائنسی تصورات کے خلاف ہے اور جس کو تخلیق کے نطریے پر پقین کرنے والے سائنسدانوں کے مقابلے میں ارتقائ سائنسدان آج تک ثابت نہیں کر سکے۔اور اپنا جھوٹ پکڑے جانے کے ڈر سے ان سائنسدانوں کو کئی باریورپ و امریکا میں ہراساں کیا جاتا ہے انہیں ڈگری دینے سے انکار کیا جاتا ہے اور ان کی ترقی روکی جاتی ہے اور ان کی سائنسی تحقیقات کو اپنے جریدوں میں شائع نہیں ہونے دیتے اور دعوی کرتے ہیں کہ ان کے پاس ارتقا کے حق میں لاکھوں آرٹیکل ہیں اور ارتقا کے حامی سائنسدان۔یہ دعوی ہمیشہ نہیں چلے گا۔اب ارتقا کے سائنسی جھوٹ عوام کو پتہ لگنا شروع ہوگئے ہیں۔ایک وقت آئے گا کہ چارلس ڈارون اور نظریہ ارتقاء کا نام بھی ایک گالی بن جائے گا ان شاء اللٰہ
تحریر۔۔۔ڈاکٹر احید حسن
مکمل تحریر >>