قرآن مجید میں اللٰہ تعالٰی فرماتا ہے
"اور ہم نے آسمانوں کو چراغوں یعنی ستاروں سے مزین کیا اور ہم نے ان کو شیاطین کے خلاف ہتھیار کے طور پہ استعمال کیا اور ہم نے ان کے لیے دہکتی آگ کا عذاب تیار کر رکھا ہے"
اس آیت کے ترجمے میں ستاروں کی جمع کے لیے مادہ کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے کیونکہ عربی میں ظاہری طور پہ بے جان چیزوں جیسا کہ پہاڑوں،چٹانوں،ستاروں کی جمع کے لیے مادہ کا صیغہ استعمال ہوتا ہے۔لہذا اللٰہ تعالٰی نے وضاحت پیش کی کہ وہ دہکتی ہوئی آگ جو آسمانوں کی خبریں سننے کے لیے آسمان کی طرف جانے والے جنات اور شیاطین پہ پھینکی جاتی ہے حقیقت میں کائنات میں موجود ستاروں سے نکلتی ہے۔اگر ہم اس کی سائنسی تشریح میں جائیں تو یہ بات سائنسی طور پہ بالکل ٹھیک ہے۔کائنات میں موجود کھربوں ستاروں سے گیما شعاعوں کے بھڑک یعنی Gamma Ray Burst اور کائناتی شعاعوں کے جیٹ یعنی Cosmic Jet ستاروں سے ہی نکلتے ہیں۔ اس طرح جب قرآن کہتا ہے کہ ہم نے ستاروں کو شیاطین کے خلاف ایک میزائل کے طور پہ بنایا ہے تو قرآن کا مطلب اس سے ستاروں سے نکلنی والی زبردست توانائی والی گیما شعاعیں اور کائناتی جیٹ ہو سکتے ہیں جو خلا میں کسی بھی جاندار کو ہلاک کرنے کے لیے کافی ہیں لیکن اللٰہ تعالٰی نے زمین کے گرد اوزون گیس کی ایک حفاظتی تہہ بنا کر زمین کو کافی حد تک ان شعاعوں کے مضر اثرات سے محفوظ کر دیا لیکن اس سے اوپر کی خلا کو ان شعاعوں سے بھر دیا۔جیسا کہ قرآن پاک میں مذکور ہے
"ہم نے نیچے کے آسمان کو ستاروں سے سجایا ہے۔اور اسے ہر ایک سرکش شیطان سے محفوظ رکھا ہے۔وہ عالم بالا کی باتیں نہیں سن سکتے اور ان پر ہر طرف سے (انگارے) پھینکے جاتے ہیں۔بھگانے کے لیے، اور ان پر ہمیشہ کا عذاب ہے۔مگر جو کوئی اچک لے جائے تو اس کے پیچھے دہکتا ہوا انگارہ پڑتا ہے۔"
شہاب مطلب آگ کا شعلہ ،ثاقب مطلب روشن۔
آسمان کی قسم ہے اور رات کو آنے والے کی۔اور آپ کو کیا معلوم رات کو آنے والا کیا ہے۔وہ چمکتا ہوا ستارہ ہے۔
قرآن نے شیطانوں کا پیچھا کرنے والے شعلے کو نجم ثاقب نہیں کہا؟ یعنی کہ پھر وہ پلسر ستاروں کی شدید شعاعیں ہو سکتی ہیں جو شیاطین کے خلاف مہلک ثابت ہوتی ہیں۔
جیسا کہ ایک اور مقام پہ ارشاد ہے
"اور ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو ہم نے اسے سخت پہروں اور شعلوں سے بھرا ہوا پایا(یہاں بھی ستارے کی جگہ شعلے کا لفظ ہے جو کہ پلسر ستارے کی شدید شعاعیں ہو سکتی ہیں)۔اور ہم اس کے ٹھکانوں (آسمانوں) میں سننے کے لیے بیٹھا کرتے تھے، پس جو کوئی اب کان دھرتا ہے تو وہ اپنے لیے ایک انگارہ تاک لگائے ہوئے پاتا ہے۔اور ہم نہیں جانتے کہ زمین والوں کے ساتھ نقصان کا ارادہ کیا گیا ہے یا ان کی نسبت ان کے رب نے راہ راست پر لانے کا ارادہ کیا ہے۔"
وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِى السَّمَآءِ بُـرُوْجًا وَّزَيَّنَّاهَا لِلنَّاظِرِيْنَ (16)
اور البتہ تحقیق ہم نے آسمان پر برج بنائے ہیں اور دیکھنے والوں کی نظر میں اسے رونق دی ہے۔
وَحَفِظْنَاهَا مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ رَّجِيْـمٍ (17)
اور ہم نے اسے ہر شیطان مردود سے محفوظ رکھا۔
اِلَّا مَنِ اسْتَـرَقَ السَّمْعَ فَاَتْبَعَهٝ شِهَابٌ مُّبِيْنٌ (18)
مگر جس نے چوری سے سن لیا تو اس کے پیچھے چمکتا ہوا انگارہ پڑا۔سورہ حجر آیت 16 تا 18
یہاں بھی ستارے کی بجائے آگ کے شعلے کا ذکر ہے۔اب یہ آگ کا شعلہ پلسر ستارے کی شدید شعاعیں ہوسکتی ہیں۔شہاب ثاقب بھی ہوسکتا ہے لیکن یہ شہاب ثاقب بھی ہوسکتے ہیں۔شہاب ثاقب یا (بعض اوقات شہاب / انگریزی: meteor) وہ چمک دار (یعنی ثاقب) اجرام فلکی ہیں جو فضا سے آتے ہیں اور زمین پر گرتے ہیں ان کو شہابیہ بھی کہا جاتا ہے اور عام اردو میں ان کو گرتے ستارے بھی کہتے ہیں اور ستاروں کا گرنا بھی کہا جاتا ہے۔ فی الحقیقت یہ شہاب (meteoroid) یا نیزک ہوتے ہیں جو زمین کے کرۂ ہوا میں داخل ہو جاتے ہیں اور ram pressure کی وجہ سے چمک (ثاقب) پیدا کرتے ہیں؛ جب کوئی شہاب اس طرح زمین (یا کسی اور سیارے) کی فضاء میں داخل ہو جائے اور چمک پیدا کرے یا اس کے کرۂ ہوائی سے گذرتا ہوا اس کی سطح پر گر جائے تو اسے شہابیہ (meteorite) کہا جاتا ہے۔ شہابیہ کو اردو میں سنگ شہاب بھی کہتے ہیں۔
اور دوسری دلچسپ بات یہ ہے کہ قرآن نے اس پیچھا کرنے والے شعلے کو شہاب ثاقب کیا لیکن نجم یعنی ستارہ نہیں اور اج سائنس بھی یہی کہتی ہے کہ یہ ستارے نہیں بلکہ سیارچے ہیں۔
وَالسَّمَآءِ وَالطَّارِقِ (1)
آسمان کی قسم ہے اور رات کو آنے والے کی۔
وَمَآ اَدْرَاكَ مَا الطَّارِقُ (2)
اور آپ کو کیا معلوم رات کو آنے والا کیا ہے۔
اَلنَّجْمُ الثَّاقِبُ (3)
وہ چمکتا ہوا ستارہ ہے۔
یہاں قرآن نے نجم طارق کی بات کی لیکن اس کے شیاطین کا پیچھا کرنے کا تذکرہ نہیں کیا جس کا مطلب ہے کہ قرآن نے نجم طارق کو الگ کہا ہے اور شیاطین کا پیچھا کرنے والے شعلے کو الگ کہا اور اسے ستارہ نہیں قرار دیا۔
طارق مادہ “ طرق “ سے ( برق کے وزن پر ) ھے ۔ اس کے معنی کوٹنا ھے ۔ راستہ کو اس لحاظ سے “ طریق “ کھتے ھیں کہ یہ چلنے والوں کے پاؤں سے دب جاتا ھے ، اور “ مطرقہ “ ھتھوڑے کے معنی میں ھے کہ جس سے دھات وغیرہ کو کوٹا جاتا ھے ۔
چونکہ رات کے وقت گھر کے دروازوں کو بند کیا جاتا ھے اور رات کو گھر میں داخل ھونے والے دروازہ پر دستک دینے کے لئے مجبور ھوتے ھیں ۔ اس لئے رات کو کسی گھر میں داخل ھونے والے کو “ طارق “ کھا جاتا ھے ۔
قرآن مجید یھاں پر خود “ طارق “ کی تفسیر کرتے ھوئے ارشاد فر ماتا ھے : “ یہ رات کا مسافر ، وھی چمکتا ھوا ستارہ ھے جو آسمان پر ظاھر ھوتا ھے اور اس قدر بلند ھے کہ گویا آسمان کی چھت کو سوراخ کرنا چاھتا ھے ، اور اس کا نور اس قدر چکا چوند کر دینے والا ھے کہ تاریکیوں کو توڑ تا ھے اور انسان کی آنکھوں کے اندر نفوذ کرتا ھے ۔ ( قابل غور بات ھے کہ “ ثاقب “ مادہ “ ثقب “ سے ھے اور اس کے معنی سوراخ کرنے کے ھیں ) ۔
اس سلسلہ میں یھاں پر مختلف تفسریں کی گئی ھیں کہ کیا اس سے مراد کوئی خاص ستارہ ھے ، مانند “ ستارہ ثریا “ ( آسمان پر بلندی اور دوری کے لحاظ سے ) یا ستارہ زحل یا زھرہ یا شھیب ( چکا چوند کر دینے والی روشنی کے لحاظ سے ) یا آسمان کے تمام ستاروں کی طرف اشارہ ھے ؟
لیکن چونکہ بعد والی آیات میں اسے “ نجم ثاقب “ ( نفوذ کرنے والا ستارہ ) کھا گیا ھے ، اس سے معلوم ھوتا ھے کہ اس سے ھر ستارہ مراد نھیں ھے ، بلکہ وہ درخشاں ستارے مراد ھے جن کا نور تاریکی کے پردوں کو توڑ کر انسان کی آنکھوں میں نفوذ کرتا ھے ۔ بعض روایتوں میں “ النجم الثاقب “ کے بارے میں ستارہ “ زحل “ کی تفسیر کی گئی ھے جو نظام شمسی کے سیاروں میں سے ایک ھے اور کافی نورانی اور چمکیلا ھے ۔
ہوسکتا ہے قرآن کی آیت کا یہ مطلب ہو کہ پلسر ستارہ یعنی Pulsar Star یعنی طارق خود شیطان کا پیچھا نہیں کرتا اور قرآن نے یہ کہا بھی نہیں بلکہ اس سے نکلنے والی شدید شعاعیں کرتی ہوں جیسا کہ قرآن کہتا ہے۔
اگرچہ شہاب ثاقب زمین کی فضا میں آکر شہاب ثاقب کی روشن شکل اختیار کرتے ہیں لیکن ہوسکتا ہے قرآن نے ان کی زمین سے نظر آنے والی شکل کے مطابق ہی ان کو شہاب ثاقب قرار دیا ہو۔یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ قرآن کا مطلب شہاب ثاقب سے مراد زمین سے نظر آنے والے اوراس کی فضا میں داخل ہونے والے اور اس پہ گرنے والے شہاب ثاقب نہ ہوں بلکہ قرآن کے استمعال کردہ لفظ شہاب ثاقب کا لفظی معنی آگ کا روشن شعلہ ہے جو کہ زمین سے نظر آنے والے عرف عام میں شہاب ثاقب کہے جانے والے سیارچے کی جگہ پلسر ستاروں سے نکلنے والی شعاعیں اور گیما ریز اور کائناتی جیٹ یا اس سے بھی زیادہ طاقتور کوئی کائناتی شعاعیں ہو ہوسکتی ہیں جو شیاطین کے خلاف مہلک ثابت ہوتی ہیں۔دونوں صورتوں میں قرآن کی بات سائنس کے عین مطابق ہے اور اس کے خلاف نہیں۔
اگر اس شہاب ثاقب یعنی شیاطین کو مارا جانے والا آگ کا روشن شعلہ کا مطلب کائناتی شعاعوں اور گیما ریز کی جگہ عرف عام میں کہا جانے والا شہاب ثاقب بھی مان لیا جائے تو اس تشریح کی وضاحت بھی سائنس سے ممکن ہے کیونکہ نظام شمسی میں دوجگہ ان سیارچوں یعنی Asteroid کے بیلٹ ہیں جن میں سے ایک مریخ اور مشتری کے درمیان ہے اور دوسرا جس کا نام کیوپر بیلٹ یعنی Kuiper Belt ہے جو سیارہ نیپچون سے لے کر سورج سے پچاس اے یو یعنی اسٹرانومیکل یونٹ کے فاصلے تک پھیلا ہوا ہے جس میں پلوٹو بھی واقع ہے۔یہ دونوں بیلٹ اپنے سے اوپر موجود آسمان کے لیے زمین یعنی نظام شمسی کے ایک حصے سے آسمان کی طرف جانے والے شیاطین کے خلاف ایک طرح کا ایک حفاظتی قلعہ بناتے ہیں جن میں سے اگر کوئی شیطان گزرنے کی کوشش کرے تو اس بیلٹ کے کچھ سیارچے فورا اس کے پیچھے ٹوٹ پڑتے ہیں جس سے ان شیاطین کو اوپر آسمانوں کی طرف جانے اور وہاں کی باتیں سننے کی ہمت نہیں ہوتی۔یہاں کوئی سوال کر سکتا ہے کہ سیارچے یا عرف عام میں کہے جانے والے شہاب ثاقب تو طبعی اجسام یعنی فزیکل ہیں جب کہ شیاطین آگ سے بنے ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک طبعی جسم یعنی شہاب ثاقب ایک غیر مادی آگ سے بنے شیطان کے خلاف مہلک ثابت ہو۔اس کا جواب یہ ہے کہ شیاطین آگ سے بنے ہیں لیکن خود سائنس کے مطابق توانائی مادے میں تبدیل ہوسکتی ہے۔لہذا ہم نہیں جانتے کہ شیاطین جب آسمانوں کی طرف جانے کی کوشش کرتے ہیں تب وہ مادی اجسام یعنی Physical Objects بطور جانے کی کوشش کرتے ہیں یا غیر مادی اجسام یعنی آگ کے طور پہ۔ لیکن چونکہ توانائی مادے میں تبدیل ہوسکتی ہے۔لہذا عین ممکن ہے کہ شیاطین نہ نظر آنے والے مادی اجسام کی صورت میں آسمانوں کی طرف جانے کی کوشش کرتے ہوں اور ان پہ ان کو روکنے کے لیے شہاب ثاقب جیسے مادی اجسام سے حملہ کیا جاتا ہے۔اگر شیاطین مادی اجسام کے طور پہ آسمان کی طرف نہ جائیں بلکہ اپنے آگ سے بنے غیر مادی اجسام کے طور پہ بھی آسمان پہ جانے کی کوشش کریں تب بھی ان مادی اجسام والے شہاب ثاقب سے نکلنے والی روشنی تخریبی تداخل یعنی Destructive Interference کے سائنسی مظہر کے تحت ان شیاطین کے آگ سے بنے جسم سے تعامل کرکے ان کو ہلاک کر سکتی ہے۔اسی طرح اگر ہم قرآن کے استعمال کردہ لفظ شہاب ثاقب سے اس کا لفظی و حقیقی معنی یعنی آگ کا شعلہ قرار دیں تو بھی پلسر ستاروں سے نکلنے والی شعاعیں،گیما شعاعیں اور کائناتی جیٹ اسی تخریبی تداخل کے عمل کے تحت ان شیاطین کے غیر مادی اجسام کی تباہی کا سبب بن سکتی ہیں۔
دوسری بات یہ کہ اہل عرب میں سے مراد ہر فلکیاتی جسم لیتے ہیں خواہ وہ ستارہ ہو یا سیارہ ہو یا سیارچہ یا شہاب ثاقب ہو۔
مزید براں اگر ہم قرآن کے بیان پہ غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ قرآن کے مطابق شہاب ثاقب اوپری فضا سے آتے ہیں اور جدید سائنس بھی یہی کہتی ہے جب کہ قدیم یونانی سائنسدان کہتے تھے کہ یہ زمین سے اوپر کی طرف جاتے ہیں اور فضا کے آگ کے علاقے یعنی Fire Zone میں پہنچ کر بھڑک اٹھتے ہیں۔قرآن نے ان یونانی سائنسدانوں کے اس تصور کو غلط قرار دیا اور اج جدید سائنس بھی یہی کہتی ہے۔
شہاب ثاقب کے زمین اور اس کی فضا میں مسلسل گرنے کا عمل وہ فلکیاتی مظہر ہے جس کی صحیح پیشین گوئی کرنا ممکن نہیں اور اس بات کی تصدیق International Meteor Organization اور یورپی مشاہدہ کار اس پہ جاپان،فرانس اور جزائر خالدات یعنی Canary islands میں کی جانے والی تحقیق کے نتیجے میں کر چکے ہیں۔جب کہ اکثر فلکیاتی عوامل کی پیشین گوئی ممکن ہے شہاب ثاقب کے زمین پہ گرنے کی مکمل اور صحیح پیشین گوئی ناممکن ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ شہاب ثاقب ایک خاص مقصد کے تحت پھینکے جاتے ہیں۔
قرآن مجید میں استعمال کردہ لفظ طارق کی مزید تشریح پلسر ستاروں کے حوالے سے کی جا سکتی ہے جو کہ حد درجہ مقناطیسی نیوٹران ستارے ہیں جو طاقتور برقی مقناطیسی شعاعیں یا Electromagnetic waves اور گیما شعاعیں خارج کرتے ہیں۔کچھ مسلمان اہل علم حضرات کے مطابق عربی لفظ طارق کا مطلب زور سے ضرب لگانا یا کھٹکھٹانا بھی ہے اور پلسر ستاروں کو بھی ان کی دریافت کے بعد ابتدا میں کھٹکھٹاننے والے ستارے یعنی Knocking Stars کیا گیا تھا کیونکہ یہ ایک ریڈیو دوربین یعنی Radio Telescope کے ریڈیو ریسیور میں کھٹکھٹاننے جیسی آوازیں پیدا کرتے ہیں۔اس طرح قرآن نے جو کہا اج جدید سائنس اس کی تصدیق کر رہی ہے۔آپ ان پلسر ستاروں کی آوازیں یو ٹیوب پہ Pulsar Sounds کے نام سے سن سکتے ہیں۔
ہم جانتے ہیں کہ کائنات ایک بے دھواں آگ یعنی شعاعوں سے بھری پڑی ہے اور ان میں سے ایک گیما شعاعوں کے برسٹ ہیں جو کائناتی جیٹ یعنی Cosmic Jet پیدا کرتے ہیں۔ہمارا سورج ایک طرح کا پلازمہ ہتھیار یعنی Plasma Weapon ہے جو کہ سی ایم ای یا Coronal mass ejection کے عمل کے تحت انتہائی طاقتور ایکسرے شعاعیں پیدا کرتا ہے جو کہ آٹھ لاکھ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتی ہیں۔لہذا پوری کائنات میں موجود ان شعاعوں میں سے کوئی بھی قرآن کے کہے گئے لفظ شہاب ثاقب یعنی آگ کا شعلہ کے طور پہ کائنات میں کسی بھی جگہ شیاطین کو ہلاک کرنے کے لیے استعمال کی جا سکتی ہیں۔اس طرح شہاب ثاقب یعنی اگ کا روشن شعلہ یا شہاب ثاقب یعنی زمین سے نظر آنے والے روشن سیارچے ہوں،جو بھی تشریح مراد لی جائے قرآن کا بیان جدید سائنس کے عین مطابق ہے۔
اب یہاں ایک سوال یہ کیا جا سکتا ہے کہ مان لیا کہ کائنات میں موجود گیما شعاعیں یا کائناتی جیٹ میں سے کوئی بھی شہاب ثاقب یعنی آگ کے روشن شعلہ کے طور پہ شیاطین کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ جن اور شیاطین کا وجود حقیقی ہے کیونکہ سائنس نے آج تک جن یا شیاطین نامی ایسی کوئی چیز یا مخلوق دریافت نہیں کی جو آگ سے بنی ہو۔ اس کا جواب یہ ہے کہ سائنسدان خود اعتراف کرتے ہیں کہ کائنات میں بےشمار ایسی اشیاء موجود ہیں جو اج تک دریافت نہیں ہوسکی اور ان کے سگنل اور شعاعیں ریڈار میں بیرونی فضا سے آکر مدھم پڑ جاتی ہیں اور وہ کیا چیز یا کیا مخلوق ہیں یہ بات سائنسدانوں کے لیے اج تک ایک پراسرار چیز اور معمہ بنی ہوئی ہے۔یہ جن بھی ہوسکتے ہیں اور فرشتے بھی جو کہ اسلام کے مطابق بالترتیب برقی مقناطیسی شعاعوں یعنی آگ اور روشنی سے بنے ہوئے ہیں۔ مزید براں سائنس دان تسلیم کر چکے ہیں کہ آگ سے بنی ہوئی مخلوق سورج اور دیگر ستاروں پہ موجود ہوسکتی ہے۔اسلام کے مطابق جن آگ سے بنے ہیں۔لہذا جو اسلام نے کہا اج جدید سائنس اس کی تصدیق کر رہی ہے۔لہذا یہ کہنا کہ جناب کا وجود سائنس سے ثابت نہیں تو یہ بات سائنسی طور پہ بالکل غلط ہے۔
مزید براں ستارے جو سائنس کے مطابق آگ پہ مشتمل ہیں خود بھی شیاطین کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پہ استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ستارے اضافی رفتاروں یعنی Relativistic Speeds پہ سفر کرتے ہیں اور اگر ان کی رفتار شیاطین کی رفتار سے زیادہ ہو تو یہ بالکل ممکن ہے۔ہمارا اپنا سورج 220 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے حرکت کر رہا ہے اور یہ ستارے خود یا ان سے نکلنے والی روشنی یا آگ کے شعلے یعنی شہاب ثاقب جو سائنس کے مطابق روشنی کی رفتار سے سفر کرتے ہیں شیاطین کے خلاف ہتھیار کے طور پہ استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ اور اگر کوئی ان تمام سائنسی وضاحتوں کا بھی انکار کر دے تو اسے جان لینا چاہیے کہ خدا اس کائنات کا خالق ہے اور خالق اپنی مخلوق یعنی کائنات کے سائنسی قوانین کا پابند نہیں۔وہ ان پابندیوں کا خالق ہے اور خود ان سے آزاد ہے۔
اب اکثر ماہرین طبیعیات یعنی فزکس دعوی کرتے ہیں کہ Worm Hole Travel ممکن ہے اور اس کے ذریعے کوئی بھی جسم سفر کرتا ہوا خلا میں کسی بھی مقام پہ پہنچ سکتا ہے۔اگر اس سے شیاطین سفر کرتے ہوئے کسی ستارے کے قریب پہنچیں تو ان کا آسمانوں کی طرف سفر سائنس کے مطابق عین ممکن ہے جیسا کہ قرآن Worm Hole Travel کا اشارہ اس طرح دیتا ہے
" اور یہاں تک کہ اگر ہم ان کے لیے آسمان میں ایک دورازہ کھول دیں جس سے یہ آسمان کی طرف سفر کر سکیں تو یہ لازمی کہیں گے ہماری آنکھوں پہ پردہ ہے اور ہم ایک مسحور قوم ہیں"(سورہ پندرہ،آیت 14،15)۔
کچھ لوگ اعتراض کرکے کہتے ہیں کہ کائنات کے آخری کناروں یا آسمان کی طرف سفر کرنے کے لیے جنات کو روشنی کی رفتار سے زیادہ رفتار سے سفر کرنا چاہیے اور ان کا پیچھا کرنے والے آگ کے شعلے کو ان سے بھی زیادہ رفتار سے سفر کرنا چاہیے جو کہ ناممکن ہے اور یہ بات کوانٹم فزکس کے خلاف ہے۔اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن نے کہیں نہیں کہا کہ جنات یا شیاطین کائنات کے آخری کناروں کی طرف سفر کرتے ہیں بلکہ قرآن نے یہ کہا کہ وہ آسمانوں کی باتیں سننے کے لیے آسمان کی طرف جاتے ہیں۔اس سے مراد لازمی طور پہ کائنات کا آخری کنارہ نہیں بلکہ کائنات میں کوئی بھی ایسا مقام ہوسکتا ہے جس تک روشنی کی رفتار سے سفر کرکے پہنچنا ممکن ہو کیونکہ جنات آگ یعنی روشنی سے بنے ہیں اوروہ روشنی کی رفتار سے سفر کر سکتے ہیں۔اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ شیاطین کائنات کے آخری کناروں کی طرف سفرکرتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن نے تو ایسی بات کی نہیں۔لیکن اگر یہ تصور بھی کر لیا جائے تو بھی سائنس کے مطابق روشنی کی رفتار سے زیادہ رفتار سے سفر کائنات میں ممکن ہے۔لہذا یہ اعتراض بالکل غلط ہے۔مزید یہ کہ اللٰہ تعالٰی جو کائنات کا خالق ہے وہ اس کائنات کے سائنسی قوانین کا پابند نہیں ہے کیوں کہ خالق مخلوق کا پابند نہیں ہوتا۔لہذا وہ جب چاہے کسی چیز کے لیے ان قوانین کی پابندی ختم کردے یا ان کو اس پابندی سے آزاد قرار دے۔جب ہم جانتے ہی نہیں کہ جن اور شیاطین کس رفتار سے سفر کرتے ہیں اور کائنات میں کتنے فاصلوں اور بلندی کی طرف جاتے ہیں تو پھر جب قرآن نے اس بات کی تخصیص ہی نہیں کی تو اعتراض کیسا۔
یہ تھی ملحدین کے قرآن پاک کے معجزہ شہاب ثاقب پہ سائنسی اعتراضات کی اصل حقیقت اور ان کا سائنسی جواب۔اس ساری وضاحت کے بعد قرآن کا شہاب ثاقب کے حوالے سے بیان جدید سائنس کی تمام ممکنہ وضاحتوں کے عین مطابق ہے اور کوئی نہیں کہ سکتا کہ قرآن کا بیان جدید سائنس کے خلاف ہے۔یہ بات ثابت کرتی ہے کہ قرآن اس کائنات کے خالق کا کلام ہے جس کو اج چودہ سو سال بعد جدید ترین سائنسی تحقیقات بھی غلط ثابت نہیں کر سکی۔
اللٰہ تعالٰی ہمیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارا خاتمہ ایمان پہ فرمائے۔آمین۔
حوالہ جات:
www.answeringchristianity.com
https://forum.bodybuilding.com/showthread.php?t=4404283
http://forums.understanding-islam.com/showthread.php?6199-Jinn-and-Shooting-Stars
https://islamqa.info/en/243871
https://www.quora.com/Why-does-the-Quran-state-that-the-stars-are-missiles-for-the-devils-to-serve-as-their-doom-of-flame
http://demystifyingislam.blogspot.com/2006/03/what-does-quran-say-about-shooting.html?m=1
www.ahlehadith.com