اسلام پہ ایک اعتراض کا پہلی بار تفصیلی و تحقیقی جواب
کیا اسلام کے مطابق ایک بیل نے دنیا کو اپنی پشت پہ اٹھا رکھا ہے؟کیا اس بیل کے سر کے ہلنے سے زمین پہ زلزلہ آتا ہے؟ اسلام پہ منکرین حدیث و ملحدین کا اعتراض
اور اس کا جواب
تحریر: ڈاکٹر احید حسن
خصوصی تعاون: اسرار احمد صدیقی
»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»
ملحدین تفسیر طبری، تفسیر بغوی،طبرانی اورتفسیر ابن کثیر میں بیان ایک روایت کی بنیاد پہ دعوی کرتے ہیں کہ اسلام کے مطابق ایک بیل نے زمین کو اپنی پشت پہ اٹھا رکھا ہے اور جب وہ اپنا سر ہلاتا ہے تو زمین پہ زلزلہ آتا ہے۔کیا واقعی ایسا ہی ہے؟آئیے ہم اس روایت اور اس کے راویوں کا تفصیلی جائزہ لے کر فیصلہ کرتے ہیں کہ یہ روایت اور حدیث قابل اعتماد اور صحیح ہے یا غیر مستند اور ضعیف۔
سوره القلم کی تفسیر میں ابن کثیر لکھتے ہیں
وَقَالَ ابْنُ أَبِي نَجِيحٍ: إِنَّ إِبْرَاهِيمَ بْنَ أَبِي بَكْرٍ أَخْبَرَهُ عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ: كَانَ يُقَالُ النُّونُ الْحُوتُ الْعَظِيمُ الذي تحت الأرض السابعة، وقد ذكر الْبَغَوِيُّ وَجَمَاعَةٌ مِنَ الْمُفَسِّرِينَ إِنَّ عَلَى ظَهْرِ هذا الحوت صخرة سمكها كغلظ السموات وَالْأَرْضِ، وَعَلَى ظَهْرِهَا ثَوْرٌ لَهُ أَرْبَعُونَ أَلْفَ قَرْنٍ وَعَلَى مَتْنِهِ الْأَرَضُونَ السَّبْعُ وَمَا فِيهِنَّ وما بينهن، والله أَعْلَمُ.
اور ابن أَبِي نَجِيحٍ نے کہا کہ ان کو ابراہیم بن بکر نے خبر دی کہ مجاہد نے کہا وہ (لوگ) کہا کرتے النون ایک عظیم مچھلی یا وہیل ہے جو ساتویں زمین کے نیچے ہے اور البغوی نے ذکر کیا اور مفسرین کی ایک جماعت نے کہ اس مچھلی کے پیچھے چٹان ہے جیسے زمین و آسمان ہیں اور اس کے پیچھے بیل ہے جس کے چالیس ہزار سینگ ہیں ۔
اس روایت کے راوی عبداللہ بن ابی نجیح ثقہ مدلس ہیں۔یحیٰی ابن القطان نے انہیں فرقہ معتزلہ سے قرار دیا ہے دیکھئے طبقات المدلسین بتحقیقی (۳/۷۷) و تقریب التہذیب (۳۶۶۲) لہٰذا یہ روایت ابن ابی نجیح کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔عبداللہ بن ابی نجیح ثقہ مدلس ہیں اور ان کی تدلیس کی وجہ سے ان کی روایات ضعیف ہیں۔ ابن ابی نجیح متکلم فیہ راوی ہے۔
اکثر علماء کے نزدیک یہ معتزلہ ہوگئے تھے
اگرچہ چند نے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے رجوع کیا ہے
لیکن صحاح میں ان سے کوئی روایت نہیں لی گئی ہے۔
اس وجہ سے اصح قول یہی ہے کہ یہ متروک راوی ہے جب ایک تدلیس کرنے والا راوی حدیث کے عیوب کو جان بوجھ کر چھپاتا ہے تو اس حدیث کو "مدلس" (یعنی تدلیس شدہ حدیث) کہا جاتا ہے۔ اور ایسا کرنے والے راوی کو مدلس راوی کہا جاتا ہے۔ تدلیس کرنے والے شخص کی دیگر روایات کو قبول کرنے کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ اس میں دو مشہور ترین نقطہ ہائے نظر یہ ہیں:
·تدلیس کرنے والے کی ہر روایت کو مسترد کر دیا جائے گا اگرچہ اس نے اپنے شیخ سے حدیث کو خود سنا ہو کیونکہ تدلیس بذات خود ایسا فعل ہے جو راوی کے کردار کو مجروح کرتا ہے۔ (اس نقطہ نظر پر زیادہ اعتماد نہیں کیا گیا۔)
·دوسرا نقطہ نظر یہ ہے (اور اسے قبول کیا گیا ہے کہ) اگر تدلیس کرنے والا واضح الفاظ میں کوئی اور حدیث بیان کرتا ہے کہ "میں نے یہ حدیث فلاں سے سنی ہے" تو اس کی حدیث قبول کی جائے گی۔ اگر وہ شخص ذو معنی الفاظ میں حدیث بیان کرتا ہے جیسے "فلاں سے روایت ہے" تو اس کی حدیث کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ (علوم الحديث ص 67 – 68)
مدلس روایت کے حکم کے مطابق مدلس روایت ویسے بھی ناقابل ناقابل اعتبار ہےاور تب تو زیادہ ہی ناقابل قبول ہے جب مدلس راوی کہے کہ فلاں نے کہا فلاں نے کہا اور واضح نہ کہے۔اوپر پیش کی گئی روایت میں عبیداللہ بن ابی نجیح یہی کر رہے ہیں۔مجاہد نے کہا کہ لوگ کہتے تھے کون لوگ کہتے تھے کس نے کہا۔ایک راوی مدلس دوسرا بات غیر واضح روایت ناقابل اعتبار۔اس روایت میں مدلس راوی وضاحت نہیں کر رہے کہ انہوں نے کس سے سنی اور نہ ہی اپنے شیخ کا کچھ بتا رہے ہیں۔روایت کس طرح قابل قبول کہی جاسکتی ہے؟سند میں إِبْرَاهِيم بْن أَبي بكر، الأخنسيُّ کا حال مستور ہے اور ابن کثیر کی بیان کردہ یہ روایت ضعیف ہے۔
تاریخ ابن کثیر یعنی البدایہ والنہایہ میں یہ روایت ان الفاظ میں آئی ہے۔
عن ابنِ عباسٍ وعن ابنِ مسعودٍ وعن ناسٍ من أصحابِ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ قال إنَّ اللهَ كان عرشُه على الماءِ ولم يخلقْ شيئًا مما خُلِقَ قبلَ الماءِ فلما أراد أن يخلقَ الخلقَ أخرج من الماءِ دُخانًا فارتفع فوقَ الماءِ فسمَا عليه فسمَّاه سماءً ثم أَيبس الماءَ فجعله أرضًا واحدةً ثم فتقَها فجعل سبعَ أرَضِينَ في يومينِ الأحدِ والاثنينِ وخلقَ الأرضَ على حوتٍ وهو النونُ الذي قال اللهُ تعالى ن وَاْلقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ والحوتُ في الماءِ والماءُ على صَفاتٍ والصَفاتُ على ظهرِ ملَكٍ والملَكُ على صخرةٍ والصخرةُ في الريحِ وهي الصخرةُ التي ذكرها لقمانُ ليست في السماءِ ولا في الأرضِ فتحرك الحوتُ فاضطرب فتزلزلتِ الأرضُ فأرسى عليها الجبالَ فقرَّتْ وخلق اللهُ يومَ الثُّلاثاءِ الجبالَ وما فيهنَّ من المنافعِ وخلق يومَ الأربعاءِ الشجرَ والماءَ والمدائنَ والعمرانَ والخرابَ وفتق السماءَ وكانت رَتْقًا فجعلَها سبعَ سمواتٍ في يومين الخميسِ والجمعةِ وإنما سُمِّيَ يومُ الجمعةِ لأنه جَمَع فيه خلقَ السمواتِ والأرضِ وأوحى في كل سماءٍ أمرَها ثم قال خلق في كلِّ سماءٍ خَلْقَها من الملائكةِ والبحارِ وجبالِ البرَدِ وما لا يعلمُه غيرُه ثم زيَّنَ السماءَ بالكواكبِ فجعلها زِينةً وحِفظًا يحفظُ من الشياطينِ فلما فرغ من خلْقِ ما أحبَّ استوى على العرشِ
الراوي:أبو صالح و مرة الهمذاني المحدث:ابن كثير المصدر:البداية والنهاية الجزء أو الصفحة:1/15 حكم المحدث:هذا الإسناد يذكر به السدي أشياء كثيرة فيها غرابة وكان كثير منها متلقى من الإسرائيليات
راوی ثقہ ہے اس اوپر پیش کردہ روایت میں لیکن پوری سند پیش نہیں کی گئ۔کس طرح صحیح کہ سکتے ہیں۔اور آگے تصریح ہے اسرائیلی روایت ہونے کی
اسکو آپ علیہ السلام نے کالعدم قرار دے دیا تو کسی راوی کی روایت سے فرق نہیں پڑتا اگرچہ روایت سندا صحیح ہو۔
اس روایت کے نیچے تو واضح ہے کہ اس میں اسرائیلی روایت شامل ہے۔تو اس سے استدلال درست ہی نہیں ہوگا۔خود اس روایت کے عربی متن کے مطابق اس روایت میں عجیب غریب باتیں ہیں اور اس میں اسرائیلی روایات شامل ہیں۔یعنی اس روایت میں کافی باتیں اسرائیلی روایات سے لی گئی ہے۔تاریخ ابن کثیر کے مطابق اس روایت کو ان اسناد کے ساتھ سدی نے بھی بیان کیا ہے۔ اس کی سند میں محمد بن مروان سدی راوی کذاب ہے ۔ اس لیے یہ روایت ثابت نہیں انتہائی کمزور ہے۔ اور اگر اس روایت میں السدی سے مراد اسماعیل بن عبدالرحمن السدی ہے تو اس کے بارے میں محدثین کی رائے درج ذیل ہے۔
و قال أبو طالب ، عن أحمد بن حنبل : السدي ثقة .
و قال عبد الله بن أحمد بن حنبل : سألت يحيى بن معين عن السدي و إبراهيم بن مهاجر ، فقال : متقاربان في الضعف .قال : و سمعت أبي ، قال : قال يحيى بن معين يوما عند عبد الرحمن بن مهدي ، و ذكر إبراهيم بن مهاجر و السدي ، فقال يحيى : ضعيفان ، فغضب عبد الرحمن و كره ما قال .
و قال عمرو بن علي : سمعت رجلا من أهل بغداد من أهل الحديث ، ذكرالسدي ـ يعني لعبد الرحمن بن مهدي ـ فقال : ضعيف
و قال عباس الدوري : سألت يحيى بن معين عن السدي ، فقال : في حديثه ضعف .
و قال أبو أحمد بن عدي : سمعت ابن حماد يقول : قال السعدي : هو كذاب شتام يعني السدي .
قال أيضا : حدثنا محمد بن أحمد بن حماد ، قال : حدثنى عبد الله بن أحمد ،قال : حدثنا أبي ، قال : حدثنا أبو أحمد الزبيري ، قال : حدثنا عبد الله بن حبيب بن أبي ثابت ، قال : سمعت الشعبي و قيل له : إن إسماعيل السدي قد أعطي حظا من علم القرآن ، قال : إن إسماعيل قد أعطي حظا من جهل بالقرآن .
و قال حسين بن واقد : سمعت من السدي فأقمت حتى سمعته يتناول أبا بكر و عمر فلم أعد إليه .
و قال الجوزجاني : حدثت عن معتمر عن ليث ـ يعني ابن أبي سليم ـ قال : كان بالكوفة كذابان ، فمات أحدهما ، السدي و الكلبي .كذا قال ، و ليث أشد ضعفا من السدي .
اس کے مطابق کئی محدثین کے نزدیک نہ صرف وہ ضعیف راوی ہےکہ یہ بعض کے بقول وہ صحابہ کو گالیاں دیتا تھا اور جھوٹا تھا۔ لہذا روایت ناقابل اعتبار ہے۔
اور اسرائیلی روایت کے بارے میں قول لانصدق ولا نکذب۔
ابن کثیر تفسیر سورہ القلم کے عربی متن کے مطابق ابن ابی حاتم میں یہ روایت الاعمش کے حوالے سے پیش کی گئی ہے اور الاعمش ضعیف راوی ہے اور اسی طرح شعبہ اور محمد بن فضیل نے الاعمش سے روایت کی ہے اور الاعمش کی وجہ سے ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔مجاہد نے ابن ابی نجیح کے حوالے سے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی ہے اور ابن ابی نجیح مدلس ثقہ راوی ہیں اور ان کی تدلیس کی وجہ سے ناقابل اعتبار ہے۔معمر نے اسے الاعمش سے روایت کیا ہے اور ایک بار پھر الاعمش کی وجہ سے ناقابل اعتبار اور ضعیف ہے۔اس کی جو۔ روایات ابن جریر طبری نے پیش کی ہیں وہ کسی اور محدث سے ہمیں نہیں ملی اور اکیلے ان کے روایت کرنے کی وجہ سے ضعیف اور ناقابل اعتبار ہیں کیونکہ طبری کا درجہ احادیث میں بہت کم ہے اور ان کی کتاب میں کئی من گھڑت روایات موجود ہیں۔
جب کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے جو روایت مروی ہے اس کے مطابق نون حوت یا مچھلی نہیں بلکہ قلم ہے۔اب ثابت ہوگیا کہ حوت یا مچھلی والی روایات جن کے مطابق نون ایک حوت یا مچھلی ہے جس نے ایک ایسے بیل کے سینگوں کو سہارا دے رکھا ہے جس کی پشت پہ زمین قائم ہے، ناقابل اعتبار ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو قلم قرار دیا۔
تاریخ ابن کثیریعنی البدایہ والنہایہ جلد اول کے مطابق اس روایت کو اسماعیل بن سدی الکبیر نے اس روایت کو ابی مالک،ابی صالح،مرۃ ہمدانی،ابن عباس،ابن مسعود اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم سے نقل کیا ہے لیکن سدی الکبیر انتہائی ضعیف راوی ہے۔کئی محدثین نے اسے جھوٹا اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو گالیاں دینے والا قرار دیا ہے۔لہذا سدی کی ان تمام ذرائع سے نقل کردہ یہ روایت ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔
تفسیر بغوی میں یہ روایت ابن ظبیان،مجاہد،مقاتل،سدی، کلبی اور واقدی کے حوالے سے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی گئی ہے لیکن سند مکمل نہ ہونے اور مقاتل،سدی،کلبی اور واقدی کے ضعیف ہونے کی وجہ سے ناقابل اعتبار ہے جب کہ مجاہد کی روایت میں بھی ابن ابی نجیح مدلس ثقہ راوی ہیں اور ان کی تدلیس کی وجہ سے یہ روایت ناقابل اعتبار ہے۔تفسیر بغوی میں یہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت کعب احبار رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی گئی ہے لیکن اس کی سند بیان نہیں کی گئ اور اس طرح یہ روایت بھی ناقابل اعتبار ہے۔
طبری میں یہ روایت اس طرح آئی ہے
تفسير جامع البيان في تفسير القرآن/ الطبري (ت 310 هـ) مصنف و مدقق
{ نۤ وَٱلْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ } * { مَآ أَنتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُونٍ } * { وَإِنَّ لَكَ لأَجْراً غَيْرَ مَمْنُونٍ }
اختلف أهل التأويل في تأويل قوله: { ن } ، فقال بعضهم: هو الحوت الذي عليه الأرَضُون.
ذكر من قال ذلك:
حدثنا محمد بن المثنى، قال: ثنا ابن أبي عديّ، عن شعبة، عن سليمان، عن أبي ظَبْيان، عن ابن عباس، قال: «أوّل ما خلق الله من شيء القلم، فجرى بما هو كائن، ثم رفع بخار الماء، فخلقت منه السموات، ثم خلق النون فبسطت الأرض على ظهر النون، فتحرّكت الأرض فمادت، فأثبتت بالجبال، فإن الجبال لتفخر على الأرض»، قال: وقرأ: { ن والقَلَمِ وما يَسْطُرُونَ }.
حدثنا تميم بن المنتصر، قال: ثنا إسحاق، عن شريك، عن الأعمش، عن أبي ظبيان، أو مجاهد عن ابن عباس، بنحوه، إلا أنه قال: فَفُتِقَتْ مِنْهُ السموات.
حدثنا ابن بشار، قال: ثنا يحيى، قال: ثنا سفيان، قال: ثني سليمان، عن أبي ظبيان، عن ابن عباس، قال: «أوّل ما خلق الله القلم، قال: اكتب، قال: ما أكتب؟ قال: اكتب القدر، قال: فجرى بما يكون من ذلك اليوم إلى قيام الساعة، ثم خلق النون، ورفع بخار الماء، ففُتِقت منه السماء وبُسِطتَ الأرض على ظهر النون، فاضطرب النون، فمادت الأرض، فأثبتت بالجبال، فإنها لتفخر على الأرض».
حدثنا واصل بن عبد الأعلى، قال: ثنا محمد بن فُضَيل، عن الأعمش، عن أبي ظبيان، عن ابن عباس قال: «أوّل ما خلق الله من شيء القلم، فقال له: اكتب، فقال: وما أكتب؟ قال: اكتب القدر، قال فجرى القلم بما هو كائن من ذلك إلى قيام الساعة، ثم رفع بخار الماء ففتق منه السموات، ثم خلق النون فدُحيت الأرض على ظهره، فاضطرب النون، فمادت الأرض، فأُثبتت بالجبال فإنها لتفخر على الأرض».
حدثنا واصل بن عبد الأعلى، قال: ثنا وكيع، عن الأعمش، عن أبي ظبيان، عن ابن عباس نحوه.
حدثنا محمد بن عمرو، قال: ثنا أبو عاصم، قال: ثنا عيسى وحدثني الحارث، قال: ثنا الحسن، قال: ثنا ورقاء، جميعاً عن ابن أبي نجيح، أن إبراهيم بن أبي بكر، أخبره عن مجاهد، قال: كان يقال النون: الحوت الذي تحت الأرض السابعة.
حدثنا ابن عبد الأعلى، قال: ثنا ابن ثور، قال: قال معمر. ثنا الأعمش، أن ابن عباس قال: إنْ أوّل شيء خُلق القلم، ثم ذكر نحو حديث واصل عن ابن فضيل، وزاد فيه: ثم قرأ ابن عباس { ن وَالقَلم وَما يَسْطُرُونَ }.
حدثنا بن حميد، قال: ثنا جرير، عن عطاء، عن أبي الضحى مسلم بن صبيح، عن ابن عباس، قال: إن أوّل شيء خلق ربي القلم، فقال له: اكتب، فكتب ما هو كائن إلى أن تقوم الساعة، ثم خلق النون فوق الماء، ثم كبس الأرض عليه.
حدثني واصل، قال: حدثنا وكيع، عن الأعمش، عن أبي ظبيان عن ابن عباس نحوه.
حدثنا ابن المثنى، قال: حدثنا ابن أبي عدي، عن شعبة، عن سليمان، عن أبي ظبيان، عن ابن عباس، قال: أول ما خلق الله تعالى القلم فجرى بما هو كائن، ثم رفع بخار الماء، فخلقت منه السموات، ثم خلق النون، فبسطت الأرض على ظهر النون، فتحرك النون، فمادت الأرض فأثبتت بالجبال، فإن الجبال لتفخر على الأرض. قال: وقرأ: " ن والقلم وما يسطرون ".
حدثني تميم بن المنتصر، قال: أخبرنا إسحاق، عن شريك، عن الأعمش، عن أبي ظبيان - أو مجاهد - عن ابن عباس بنحوه، إلا أنه قال: ففتقت منه السموات.
حدثنا ابن بشار، قال: حدثنا يحيى، قال: حدثنا سفيان، قال: حدثني سليمان، عن أبي ظبيان، عن ابن عباس قال: أول ما خلق الله تعالى القلم فقال: اكبت، فقال: ما أكبت؟ قال: اكبت القدر، قال: فجرى بما هو كائن من ذلك اليوم إلى قيام الساعة. ثم خلق النون، ورفع بخار الماء ففتقت منه السماء وبسطت الأرض على ظهر النون، فاضطرب النون، فمادت الأرض فأثبتت بالجبال، قال: فإنها لتفخر على الأرض.
حدثنا ابن حميد، قال، حدثنا جرير، عن عطاء بن السائب، عن أبي الضحى مسلم بن صبيح، عن ابن عباس قال: أول شيء خلق الله تعالى القلم، فقال له: اكبت، فكتب ما هو كائن إلى أن تقوم الساعة، ثم خلق النون فوق الماء، ثم كبس الأرض عليه.
قيل: ذلك صحيح على ما روى عنه وعن غيره من معنى ذلك مشروحًا مفسرًا غير مخالف شيئًا مما رويناه عنه في ذلك.
فإن قال: وما الذي روى عنه وعن غيره من شرح ذلك الدال على صحة كل ما رويت لنا في هذا المعنى عنه؟ قيل له: حدثني موسى بن هارون الهمذاني وغيره، قالوا: حدثنا عمرو بن حماد، حدثنا أسباط بن نصر عن السدي، عن أبي مالك، وعن أبي صالح، عن ابن عباس - وعن مرة الهمذاني عن عبد الله بن مسعود - وعن ناس من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم: " هو الذي خلق لكم ما في الأرض جميعا ثم استوى إلى السماء فسواهن سبع سمواتٍ " قال: إن الله تعالى كان عرشه على الماء ولم يخلق شيئًا غير ما خلق قبل الماء، فلما أراد أن يخلق الخلق أخرج من الماء دخانًا فارتفع فوق الماء، فسما عليه، فسماه سماءً، ثم أيبس الماء، فجعله أرضًا واحدة، ثم فتقها فجعلها سبع أرضين في يومين، في الأحد والاثنين، فخلق الأرض على حوت - والحوت هو النون الذي ذكر الله عز وجل في القرآن: " ن والقلم " - والحوت في الماء، والماء على ظهر صفاة، والصفاة على ظهر ملك والملك على صخرة، والصخرة على الريح - وهي الصخرة التي ذكر لقمان - ليست في السماء ولا في الأرض، فتحرك الحوت فاضطرب، فتزلزلت الأرض، فأرسى عليها الجبال فقرت، فالجبال تفخر على الأرض، فذلك قوله تعالى: " وألقى في الأرض رواسي أن تميد بكم ".
تاریخ طبری جلد ا
تفسیر الطبری جلد 23 ص 524 میں ہے
حدثنا واصل بن عبد الأعلى، قال: ثنا محمد بن فُضَيل، عن الأعمش، عن أبي ظبيان، عن ابن عباس قال: “أوّل ما خلق الله من شيء القلم، فقال له: اكتب، فقال: وما أكتب؟ قال: اكتب القدر، قال فجرى القلم بما هو كائن من ذلك إلى قيام الساعة، ثم رفع بخار الماء ففتق منه السموات، ثم خلق النون فدُحيت الأرض على ظهره، فاضطرب النون، فمادت الأرض، فأُثبتت بالجبال فإنها لتفخر على الأرض
أبي ظبيان ، ابن عباس سے روایت کرتے ہیں سب سے پہلی چیز جو الله نے خلق کی وہ قلم ہے پس اس کو حکم دیا لکھ – قلم نے کہا کیا لکھوں ؟ فرمایا تقدیر لکھ پس قلم لکھنا شروع ہوا جو بھی ہو گا قیامت تک پھر اس کی سیاہی کے بخارت آڑ گئے جس سے آسمان بن گئے پھر النون کو تخلیق کیا جس پر زمین کو پھیلا دیا پھر النون پھڑکی جس سے زمین ڈگمگائی پس پہاڑ جما دیے۔
یہ روایت مستدرک حاکم(2/540) اور تفسیر ابن کثیر کے مطابق تفسیر عبدالرزاق(2/307)،تفسیر ابن ابی شیبہ(14/101)،تفسیر ابن ابی حاتم اور کئی دیگر کتب میں مذکور ہے۔ان تمام کتب میں یہ روایت الاعمش،ابی ظیبان اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالے سے بیان کی گئی ہے۔حاکم نے اسے بخاری اور مسلم کی شرط پہ صحیح کہا ہے۔اگرچہ بخاری و مسلم نے اسے بیان نہیں کیا یعنی یہ روایت حدیث کی چھ صحیح ترین کتابوں میں کہیں پہ مذکور نہیں۔لیکن حاکم پھر دعوی کرتے ہیں کہ یہ روایت صحیح ہے۔الذہبی نے اپنی التلخیص میں اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔
اگر طبری کی ان روایات پہ غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ ایک موقوف روایت ہے جس کا سلسلہ براہ راست آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے صرف ایک صحابی یعنی ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ تک ثابت ہے۔حصين بن جندب أبو ظبيان الجنبي کا سماع ابن عباس سے ثابت کہا جاتا ہے انہوں نے یزید بن معاویہ کے ساتھ القُسْطَنْطِيْنِيَّةَ پر حملہ میں شرکت کی – سند میں الأعمش ہے جو مدلس ہے اور اس بنیاد پر یہ روایت ضعیف ہے
الأعمش صحیحین کا بھی راوی ہے اور یہ مثال ہے کہ صحیحین کے راویوں کی تمام روایات صحیح نہیں
ابن ابی حاتم طبرانی سے مرفوع ہے۔لیکن سند متصل یے یا منقطع کوئ پتہ نہیں۔
طبری نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے یہ روایت نو طریقوں سے مروی ہے جن میں سے چار میں ایک مدلس راوی الاعمش موجود ہے اور اس کی بنیاد پہ یہ روایات ضعیف ہیں۔ایک روایت میں ایک بہت ضعیف راوی محمد بن عمرو یعنی الواقدی اور ایک میں ثقہ مدلس راوی ابی نجیح موجود ہیں جن کی بنیاد پہ نو میں سے یہ چھ روایات ضعیف ہیں۔اور کئی روایتیں اسماعیل السدی سے مذکور ہے جو کہ انتہائی ضعیف راوی ہے جیسا کہ اوپر گزر چکا۔باقی جن چار ذرائع سے مروی ہے وہ روایات بھی قابل اعتماد نہیں قرار دی جا سکتی کیونکہ طبری میں بغیر سند کی تصدیق اور ثقہ راویوں کا نام لے کر بھی کئی غیر مستند روایات مذکور کر دی گئی ہیں۔
تاریخ طبری میں جگہ جگہ حضرات صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم سے متعلق ایسی بے بنیاد اور جھوٹی روایات مروی ہیں، جن کی کوئی معقول و مناسب توجیہ نہیں کی جاسکتی ہے ،تاریخ طبری بڑے بڑے دروغ گو ، کذّاب اور متہم بالکذب راویوں کی روایات سے بھری ہوئی ہے، بطور مثال کے تاریخ طبری کی روایات کا ایک جائزہ لینے کے لیے ڈاکٹرخالد علال کبیر صاحب نے تاریخ طبری میں موجود ثقہ و غیر ثقہ راویوں کی روایات کا ایک اجمالی خاکہ پیش کیا ہے؛چناں چہ وہ لکھے ہیں کہ تاریخِ طبری میں اس کے بارہ (۱۲) مرکزی رواة کی روایات کا جائزہ لیتے ہیں ، جن میں سے سات راوی کذّاب یا متہم بالکذب ہیں اور پانچ ثقہ ہیں۔محمد بن سائب کلبی کی بارہ (۱۲) روایات،حشام بن محمد کلبی کی پچپن (۵۵) روایات ،محمد بن عمر کی چار سو چالیس (۴۴۰)روایات ،سیف بن عمر تمیمی کی سات سو (۷۰۰)روایات ،ابو مخنف لوط بن یحی ٰ کی چھ سو بارہ (۶۱۲)روایات،ہیثم بن عدی کی سولہ(۱۶) روایات،محمد بن اسحاق بن سیار (یسار)(۲۵) کی ایک سو چونسٹھ (۱۶۴)روایات ہیں،ان سب کی روایات کا مجموعہ جن کو موٴرخ طبری نے اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے وہ انیس سو ننانوے( ۱۹۹۹) ہے۔زبیر بن بکار کی آٹھ(۸)روایات ،محمد بن سعد کی ایک سو چونسٹھ (۱۶۴)روایات ،موسی بن عقبہ کی سات(۷)روایات ،خلیفہ بن خیاط کی ایک(۱) روایت ،وھب بن منبہ کی چھیالیس (۴۶)روایات ہیں۔تاریخ طبری کے ان پانچ ثقہ راویوں کی روایات کا مجموعہ دو سو نو(۲۰۹) ہے۔
تو گویا تاریخ طبری میں دو سو نو( ۲۰۹)ثقہ روایات کے مقابلہ میں ان سات دروغ گو اور متہم بالکذب راویوں کی انیس سو ننانوے( ۱۹۹۹) روایات ہیں، ان دونوں کے تناسب سے اندازہ لگاجاسکتا ہے کہ تاریخ طبری جیسی قدیم اور مستند سمجھی جانے والی کتاب کا جب یہ حال ہے تو تاریخ کی باقی کتابوں کا کیا حال ہوگا۔مذکورہ بالا باتوں کی تائید خود علامہ طبری کا اپنی تاریخ کے مقدمہ کے اس اعتراف سے بھی ہوتی ہے، جس میں انہوں نے واضح طور سے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب میں بغیر نقدو تمحیص کے مختلف فرقوں اور گروہوں کے راویوں کی روایات کو ان کی اسانید کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ چناں چہ قارئین کے اطمینان قلبی کی خاطر علامہ طبری کی وہ پوری عربی عبارت پیش خدمت ہے، جس میں انہوں نے محض سند کے ساتھ بغیر نقد و تمحیص کے روایات ذکر کرنے کا اعتراف کیا ہے:
”فَمَا یَکُنْ فِيْ کِتَابِيْ ھَذا مِنْ خَبَرٍ ذَکَرْناہ عن بَعْضِ الماضِیْنَ مِمَّا یَسْتَنْکِرُہ قَارِیہِ، أو یَسْتَشْنَعُہ سَامِعُہ، مِنْ أَجَلِ أنَّہ لَمْ یَعْرِفْ لَہ وَجْھاً فِي الصِّحَّةِ، وَلاَ مَعْنًی فِي الْحَقِیْقَةِ، فَلِیُعْلَمْ أنَّہ لَمْ یُوٴْتِ فِيْ ذٰلِکَ مِنْ قَبْلِنَا، وَ إنَّمَا مِنْ قِبَلِ بَعْضِ نَاقِلِیْہِ إِلَیْنَا، وَأنّا إنَّما أدَّیْنَا ذلِکَ عَلی نَحْوِمَا أُدِّيَ إلَیْنَا
معاصر عرب اہل علم حضرات میں سے ڈاکٹر خالد علال کبیر صاحب نے اپنی کتاب ”مدرسة الکذابین في روایة التاریخ الإسلامي و تدوینہ“ میں موٴرخ طبری کے اس مخصوص طرزِ عمل کے بارے میں لکھا ہے کہ میرے نزدیک انھوں نے یہ (یعنی تحقیق و تمحیص کے بغیر صرف اسانید کے ساتھ روایات کو نقل کر کے) ایک ناقص کام کیا ہے، اور ان تمام روایات کے وہ خود ذمہ دار ہیں جو انہوں نے اپنی تاریخ میں مدون کی ہیں،پس انہوں نے عمداً دروغ گو راویوں سے بہ کثرت روایات نقل کیں اور ان پر سکوت اختیار کیا، یہ انتہائی خطرناک معاملہ ہے جو بعد میں آنے والی بہت ساری نسلوں کی گمراہی کا سبب بنا، انھیں (طبری) چاہیے تھا کہ وہ ان دروغ گو رایوں کا بغیر ضرورت کے تذکرہ نہ کرتے، یا ان پر نقد کرتے اور ان کی روایات کی جانچ پڑتال کرتے، صرف ان کی اسانید کے ذکر پر اکتفا کر کے سکوت اختیار نہ کرتے۔
ڈاکٹر صاحب موصوف مزید لکھتے ہیں کہ اس معاملہ کو اس سے بھی زیادہ سنگین اس بات نے کردیا کہ طبری کے بعد آنے والے اکثر موٴرخین نے قرونِ ثلاثہ کے بارے میں ان سے بہ کثرت روایات نقل کی ہیں ، جیسا کہ ابن جوزی نے اپنی کتاب ”المنتظم“‘ میں، ابن الاثیر نے ”الکامل“ میں اور ابن کثیر نے ”البدایہ“ میں بغیر سند کے نقل کیا ہے، اور ان حضرات کا اس طرح بغیر سند کے روایات نقل کرنے سے ثقہ اور دروغ گو راویوں کی روایات خلط ملط ہوگئیں ہیں، بسا اوقات تاریخ طبری کی طرف مراجعت کے بغیر ان روایات میں تمیز مستحیل ہوجاتی ہے۔
تاریخ کی کتابوں کے حوالے سے نہایت اعتدال کے ساتھ ان تمام موٴرخین کی کتابوں سے ثقہ اور جھوٹے و کذّاب راویوں کی روایات میں تمیز کیا جائے، جنہوں نے اپنی کتابوں میں دونوں طرح کی روایات کو جگہ دی ہے، جیسا کہ خلیفہ بن خیاط، محمدبن سعد ، زبیر بن بکار ، موسی بن عقبہ، وھب بن منبہ ،ابن جریر طبری اور ابن اثیر وغیرہ۔
اس بات میں بھی تفریق ضروری ہے کہ موٴلف اور صاحبِ تاریخ خود تو ثقہ ہیں؛ لیکن اس نے نقل واقعات و روایات میں دروغ گو اور کذّاب راویوں پر اعتماد کیا ہے، جیسا کہ ابن جریر طبری کا حال ہے ، ایسی صورت میں اس موٴرخ کی صرف ثقہ راویوں والی روایات مقبول قرار پائیں گی، دروغ گو و کذّاب رواة کی روایات مردود سمجھی جائیں گی۔لیکن پھر بھی اکیلے طبری کی بیان کردہ روایات جن کی صحیح سند دیگر کتب حدیث میں نہ ملے قابل اعتماد بالکل نہیں کہی جاسکتیں۔
اگر صاحبِ تاریخ خود کذّاب ودروغ گو ہو تو پھر اس کی کتاب میں موجود ثقہ لو گوں کی روایات بھی غیر معتبر قراردے دی جائیں گی۔
دینی امور ، صحابہٴ کرام ، ائمہ و سلفِ صالحین کے علاوہ دیگر دنیاوی معاملات میں اگر کسی ثقہ راوی کی روایت دستیاب نہ ہو تو بصورت مجبوری دروغ گو راویوں سے منقول روایات نقلِ واقعہ کی غرض سے ذکر کرنے کی گنجائش ہوگی؛مگر اس سے علمِ یقین حاصل نہ ہو گا۔
تاریخ اور تحقیق کے نام پر محض موٴرخین کی ذکر کردہ روایات سے اخذ کردہ نتائج بھی غیر مقبول شمار ہوں گے؛ البتہ حقیقی اور مسلمہ اصولوں کے تحت روایت قابل قبول قرار پائے تو اس سے ماخوذ نتائج درست قرار دیے جائیں گے۔
اس لیے طبری میں بیان واقعات اور روایات کی سند پہ سب مسلم مورخین اور محدثین نے شدید تنقید کی ہے اور ان کو ناقابل اعتبار قرار دیا ہے جب تک ان کی تصدیق دوسرے اور مستند ذرائع سے نہ ہو جائے۔
طبرانی میں یہ روایت حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مسلم بن صبیح کے حوالے سے آئی ہے
طبرانی کی روایت کا عربی متن درج ذیل ہے۔
حدثنا ابوحبیب المھتدی اختلافی،حدثنا سعید بن یعقوب الطالقانی،حدثنا مومل بن اسماعیل،حدثنا حماد بن زید،عن عطاء بن السائب،عن ابی الضحی مسلم بن صبیح،عن ابن عباس،قال قال رسول اللہ تعالی صلی اللہ علیہ وسلم:ان اول ما خلق اللہ القلم والحوت،قال[للقلم: اکتب]، قال ما اکتب،قال کل شیئ کائن۔ الی یوم القیامۃ،ثم قرأ (ن والقلم وما یسطرون) ،فالنون:الحوت،والقلم:القلم
اس میں ایک راوی مومل بن اسماعیل کے ثقہ ہونے کے بارے میں اختلاف ہے اور کئی بڑے محدثین نے انہیں ضعیف قرار دیا ہے۔
حافظ ہیثمی کے تمام اقوال کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک مؤمل بن اسماعیل حسن الحدیث نہیں بلکہ ضعیف ہے۔ چنانچہ مؤمل کی توثیق کے متعلق مجمع الزوائد کے مختلف مقام پر جو لکھتے ہیں:
حافظ ہیثمی نے ثقاہت کا قول ابن معین اور ابن حبان کا بتایا ہے اور ضعف کا قول امام بخاری اور ایک جماعت کا قرار دیا بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ ح8068 کے تحت ضعف کےقول کو جمہور کا قول قرار دیا۔ ثابت ہوا کہ حافظ ہیثمی کے ہاں مؤمل بن اسماعیل ضعیف عند الجمہور ہے، حسن الحدیث ہرگز نہیں۔
: امام ذہبی رحمہ اللہ اپنی کتاب میزان الاعتدال میں امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے مومل بن اسماعیل کے بارے میں فرمایا یہ” منکر الحدیث “ہے۔
) میزان الاعتدال ج4ص417(
2: امام ذہبی رحمہ اللہ اپنی دوسری کتاب المغنی فی الضعفاء میں امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے مومل بن اسماعیل کے بارے میں فرمایا یہ” منکر الحدیث “ہے۔
) المغنی فی الضعفاء ج2ص446(
3: امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اپنی کتاب تہذیب التہذیب میں امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے مومل بن اسماعیل کے بارے میں فرمایا یہ” منکر الحدیث “ہے۔
)تہذیب التہذیب ج6ص489(
4: امام مزی رحمہ اللہ اپنی کتاب تہذیب الکمال میں امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے مومل بن اسماعیل کے بارے میں فرمایا یہ” منکر الحدیث “ہے۔
) تہذیب الکمال ج10ص211(
امام بخاری کا ضابطہ :
ابن قطان رحمہ اللہ نقل فرماتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ ارشاد فرماتے ہیں: کل من قلت فیہ منکر الحدیث فلا تحل الروایۃ عنہ یعنی جس راوی کو میں ”منکر الحدیث“ قرار دے دوں اس سے روایت لینا حلال (جائز) نہیں۔
)میزان الاعتدال ج 1 ص 50(
لہذا طبرانی کی ایک تو روایت مرفوع ہے دوسرا اس میں ایک ضعیف راوی مومل بن اسماعیل موجود ہیں۔روایت ناقابل اعتبار ہے۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس مرفوع روایت میں بھی قلم اور حوت یعنی مچھلی کی پیدائش کا ذکر تو کیا گیا ہے لیکن حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی دوسری موقوف اور ضعیف روایات کہیں نہیں لکھا گیا کہ اس مچھلی نے بیل کے سینگوں کو سہارا دے رکھا ہے جس کی پشت پہ زمین قائم ہے۔
تفسیر ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالے سے تنویر المقبس(تنویر المقبس من تفسیر ابن عباس) میں بھی یہ دعوی کیا گیا ہے لیکن اس کی سند پیش نہیں کی گئ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے منقول یہ انتہائی غلط بات ان کی وفات کے تین سو سال بعد آنے والے ضعیف راویوں نے ان کی طرف منسوب کر دی۔
تحفہ النبلا میں مرۃ الہمدانی کے حوالے سے ابن حجر عسقلانی--تفسیر قرطبی،فتح القدیر یا شوکانی اور تفسیر الکبیر یا تفسیر الرازی میں بھی یہ روایت بغیر کسی مکمل سند کے مجاہد،مقاتل ،سدی،کلبی سے روایت کی گئی ہے اور سند کے نامکمل ہونے اور مقاتل،سدی اور کلبی کے ضعیف ہونے کی وجہ سے ناقابل اعتبار ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ الفاظ شاید حضرت کعب احبار رضی اللہ تعالی عنہ سے نقل کیے جو کہ اسرائیلیات کا گہرا علم رکھتے تھے۔یہ دعوی کیا گیا ہے کہ حضرت کعب احبار رضی اللہ تعالی عنہ کے مطابق عظیم مچھلی یا وہیل جس کی پشت پہ زمین ہے، وہ اپنی پشت کو ہلا کر زمین کی ہر چیز کو گرانا چاہتی تھی لیکن اللہ تعالی نے ایک بہت بڑا جانور بھیجا جو اس کے نتھنوں سے ہوتا ہوا اس کے دماغ تک پہنچ گیا اور وہ ایسا نہیں کر سکتی۔یہ تفسیر بغوی، معالم التنزیل اور تفسیر قرطبی میں حضرت کعب احبار رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے۔تفسیر قرطبی کی شرح لکھنے والے ڈاکٹر عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی اور محمد رضوان ارقوسی کے مطابق یہ اسلامی روایت نہیں بلکہ اسرائیلی یہودی روایت ہے اور یہ الفاظ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بھی صحیح حدیث میں مذکور نہیں ہیں۔بذات خود اس بات کا حضرت کعب احبار رضی اللہ تعالی عنہ سے منقول ہونا بھی ثابت نہیں ہے کیونکہ تفسیر بغوی اور معالم التنزیل نے صرف اتنا لکھا ہے کہ راویوں نے حضرت کعب احبار رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالے سے یہ کہا۔ابو نعیم نے یہ الفاظ اپنی ہلایۃ الاولیاء میں یہ الفاظ حضرت کعب احبار رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالے سے پیش کیے۔۔کون سے راویوں نے کہا،کب کہا،اس کی کوئی تفصیل پیش نہیں کی گئ۔لہذا ایک یہودی اسرائیلی روایت کو حضرت کعب احبار رضی اللہ تعالی عنہ کے کھاتے میں بغیر کسی مستند سند اور حوالے کے ڈالنا صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم پہ بہتان اور الزام ہے۔بذات خود حافظ ابن کثیر نے اپنی البدایہ والنہایہ یعنی تاریخ ابن کثیر(1/15) میں اسے من گھڑت یہودی یعنی اسرائیلی روایت قرار دیا ہے جس کی کوئی اسلامی بنیاد نہیں۔
اس سے ملتی جلتی کچھ اور مرفوع اور منکر یعنی ضعیف روایات حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالے سے پیش کی گئی ہیں لیکن ان کی سند بھی مستند نہیں اور محدثین نے ان کو من گھڑت یعنی موضوع روایت قرار دیا ہے( بحوالہ سلسلہ الضعیف نمبر 294)۔
لہذا زمین ایک عظیم مچھلی یا ایک بہت بڑے بیل کی پشت پہ قائم ہے جس کے سر کے ہلنے سے زمین پہ زلزلہ آتا ہے،یہ ایک من گھڑت روایت اور اسرائیلی حکایت ہے جس کا اسلام سے کچھ لینا دینا نہیں۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کے مطابق مدینہ منورہ میں یہودی عبرانی زبان میں موجود تورات کو عربی میں ترجمہ کرکے لوگوں کو اس سے واقعات بتاتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا " نہ ان اہل کتاب کی باتوں پہ یقین کرو،نہ ان کی تردید کرو"۔ لہذا اہل کتاب کی تحریف شدہ کتابوں میں صحیح اور غلط ہر طرح کی باتیں شامل تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں اہل اسلام کو خاموش رہنے کی تلقین کی کہ کہیں اس طرح نہ ہو کہ ہم ان کے صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح کہ جائیں(ابو داؤد 3644، مسند احمد 16774) اور صرف اس بات کی پیروی کی تلقین کی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مستند فرمان اور قرآن کی واضح آیات ہوں۔
خلاصہ یہ کہ ملحدین کا یہ اعتراض کہ ایک بیل نے زمین کو اپنی پشت پہ اٹھا رکھا ہے،ہر طرح سے موقوف ضعیف روایات پہ مبنی ہے جن کی سند میں کئی غیر مستند راوی ہیں۔لہذا یہ روایات ناقابل اعتبار اور ضعیف ہیں اور اس کے ساتھ ملحدین کا اعتراض بھی ضعیف ہے 😜۔
حوالہ جات:
http://www.library.ahnafmedia.com/…/69-muammal-bin-ismaieel…
https://islamqa.info/en/114861
https://ar.m.wikisource.org/wiki/تاريخ_الطبري/الجزء_الأول
http://www.darululoom-deoband.com/…/magaz…/new/tmp/08-Tarikh Islami Men_MDU_06_June_14.htm
کیا اسلام کے مطابق ایک بیل نے دنیا کو اپنی پشت پہ اٹھا رکھا ہے؟کیا اس بیل کے سر کے ہلنے سے زمین پہ زلزلہ آتا ہے؟ اسلام پہ منکرین حدیث و ملحدین کا اعتراض
اور اس کا جواب
تحریر: ڈاکٹر احید حسن
خصوصی تعاون: اسرار احمد صدیقی
»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»
ملحدین تفسیر طبری، تفسیر بغوی،طبرانی اورتفسیر ابن کثیر میں بیان ایک روایت کی بنیاد پہ دعوی کرتے ہیں کہ اسلام کے مطابق ایک بیل نے زمین کو اپنی پشت پہ اٹھا رکھا ہے اور جب وہ اپنا سر ہلاتا ہے تو زمین پہ زلزلہ آتا ہے۔کیا واقعی ایسا ہی ہے؟آئیے ہم اس روایت اور اس کے راویوں کا تفصیلی جائزہ لے کر فیصلہ کرتے ہیں کہ یہ روایت اور حدیث قابل اعتماد اور صحیح ہے یا غیر مستند اور ضعیف۔
سوره القلم کی تفسیر میں ابن کثیر لکھتے ہیں
وَقَالَ ابْنُ أَبِي نَجِيحٍ: إِنَّ إِبْرَاهِيمَ بْنَ أَبِي بَكْرٍ أَخْبَرَهُ عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ: كَانَ يُقَالُ النُّونُ الْحُوتُ الْعَظِيمُ الذي تحت الأرض السابعة، وقد ذكر الْبَغَوِيُّ وَجَمَاعَةٌ مِنَ الْمُفَسِّرِينَ إِنَّ عَلَى ظَهْرِ هذا الحوت صخرة سمكها كغلظ السموات وَالْأَرْضِ، وَعَلَى ظَهْرِهَا ثَوْرٌ لَهُ أَرْبَعُونَ أَلْفَ قَرْنٍ وَعَلَى مَتْنِهِ الْأَرَضُونَ السَّبْعُ وَمَا فِيهِنَّ وما بينهن، والله أَعْلَمُ.
اور ابن أَبِي نَجِيحٍ نے کہا کہ ان کو ابراہیم بن بکر نے خبر دی کہ مجاہد نے کہا وہ (لوگ) کہا کرتے النون ایک عظیم مچھلی یا وہیل ہے جو ساتویں زمین کے نیچے ہے اور البغوی نے ذکر کیا اور مفسرین کی ایک جماعت نے کہ اس مچھلی کے پیچھے چٹان ہے جیسے زمین و آسمان ہیں اور اس کے پیچھے بیل ہے جس کے چالیس ہزار سینگ ہیں ۔
اس روایت کے راوی عبداللہ بن ابی نجیح ثقہ مدلس ہیں۔یحیٰی ابن القطان نے انہیں فرقہ معتزلہ سے قرار دیا ہے دیکھئے طبقات المدلسین بتحقیقی (۳/۷۷) و تقریب التہذیب (۳۶۶۲) لہٰذا یہ روایت ابن ابی نجیح کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔عبداللہ بن ابی نجیح ثقہ مدلس ہیں اور ان کی تدلیس کی وجہ سے ان کی روایات ضعیف ہیں۔ ابن ابی نجیح متکلم فیہ راوی ہے۔
اکثر علماء کے نزدیک یہ معتزلہ ہوگئے تھے
اگرچہ چند نے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے رجوع کیا ہے
لیکن صحاح میں ان سے کوئی روایت نہیں لی گئی ہے۔
اس وجہ سے اصح قول یہی ہے کہ یہ متروک راوی ہے جب ایک تدلیس کرنے والا راوی حدیث کے عیوب کو جان بوجھ کر چھپاتا ہے تو اس حدیث کو "مدلس" (یعنی تدلیس شدہ حدیث) کہا جاتا ہے۔ اور ایسا کرنے والے راوی کو مدلس راوی کہا جاتا ہے۔ تدلیس کرنے والے شخص کی دیگر روایات کو قبول کرنے کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ اس میں دو مشہور ترین نقطہ ہائے نظر یہ ہیں:
·تدلیس کرنے والے کی ہر روایت کو مسترد کر دیا جائے گا اگرچہ اس نے اپنے شیخ سے حدیث کو خود سنا ہو کیونکہ تدلیس بذات خود ایسا فعل ہے جو راوی کے کردار کو مجروح کرتا ہے۔ (اس نقطہ نظر پر زیادہ اعتماد نہیں کیا گیا۔)
·دوسرا نقطہ نظر یہ ہے (اور اسے قبول کیا گیا ہے کہ) اگر تدلیس کرنے والا واضح الفاظ میں کوئی اور حدیث بیان کرتا ہے کہ "میں نے یہ حدیث فلاں سے سنی ہے" تو اس کی حدیث قبول کی جائے گی۔ اگر وہ شخص ذو معنی الفاظ میں حدیث بیان کرتا ہے جیسے "فلاں سے روایت ہے" تو اس کی حدیث کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ (علوم الحديث ص 67 – 68)
مدلس روایت کے حکم کے مطابق مدلس روایت ویسے بھی ناقابل ناقابل اعتبار ہےاور تب تو زیادہ ہی ناقابل قبول ہے جب مدلس راوی کہے کہ فلاں نے کہا فلاں نے کہا اور واضح نہ کہے۔اوپر پیش کی گئی روایت میں عبیداللہ بن ابی نجیح یہی کر رہے ہیں۔مجاہد نے کہا کہ لوگ کہتے تھے کون لوگ کہتے تھے کس نے کہا۔ایک راوی مدلس دوسرا بات غیر واضح روایت ناقابل اعتبار۔اس روایت میں مدلس راوی وضاحت نہیں کر رہے کہ انہوں نے کس سے سنی اور نہ ہی اپنے شیخ کا کچھ بتا رہے ہیں۔روایت کس طرح قابل قبول کہی جاسکتی ہے؟سند میں إِبْرَاهِيم بْن أَبي بكر، الأخنسيُّ کا حال مستور ہے اور ابن کثیر کی بیان کردہ یہ روایت ضعیف ہے۔
تاریخ ابن کثیر یعنی البدایہ والنہایہ میں یہ روایت ان الفاظ میں آئی ہے۔
عن ابنِ عباسٍ وعن ابنِ مسعودٍ وعن ناسٍ من أصحابِ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ قال إنَّ اللهَ كان عرشُه على الماءِ ولم يخلقْ شيئًا مما خُلِقَ قبلَ الماءِ فلما أراد أن يخلقَ الخلقَ أخرج من الماءِ دُخانًا فارتفع فوقَ الماءِ فسمَا عليه فسمَّاه سماءً ثم أَيبس الماءَ فجعله أرضًا واحدةً ثم فتقَها فجعل سبعَ أرَضِينَ في يومينِ الأحدِ والاثنينِ وخلقَ الأرضَ على حوتٍ وهو النونُ الذي قال اللهُ تعالى ن وَاْلقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ والحوتُ في الماءِ والماءُ على صَفاتٍ والصَفاتُ على ظهرِ ملَكٍ والملَكُ على صخرةٍ والصخرةُ في الريحِ وهي الصخرةُ التي ذكرها لقمانُ ليست في السماءِ ولا في الأرضِ فتحرك الحوتُ فاضطرب فتزلزلتِ الأرضُ فأرسى عليها الجبالَ فقرَّتْ وخلق اللهُ يومَ الثُّلاثاءِ الجبالَ وما فيهنَّ من المنافعِ وخلق يومَ الأربعاءِ الشجرَ والماءَ والمدائنَ والعمرانَ والخرابَ وفتق السماءَ وكانت رَتْقًا فجعلَها سبعَ سمواتٍ في يومين الخميسِ والجمعةِ وإنما سُمِّيَ يومُ الجمعةِ لأنه جَمَع فيه خلقَ السمواتِ والأرضِ وأوحى في كل سماءٍ أمرَها ثم قال خلق في كلِّ سماءٍ خَلْقَها من الملائكةِ والبحارِ وجبالِ البرَدِ وما لا يعلمُه غيرُه ثم زيَّنَ السماءَ بالكواكبِ فجعلها زِينةً وحِفظًا يحفظُ من الشياطينِ فلما فرغ من خلْقِ ما أحبَّ استوى على العرشِ
الراوي:أبو صالح و مرة الهمذاني المحدث:ابن كثير المصدر:البداية والنهاية الجزء أو الصفحة:1/15 حكم المحدث:هذا الإسناد يذكر به السدي أشياء كثيرة فيها غرابة وكان كثير منها متلقى من الإسرائيليات
راوی ثقہ ہے اس اوپر پیش کردہ روایت میں لیکن پوری سند پیش نہیں کی گئ۔کس طرح صحیح کہ سکتے ہیں۔اور آگے تصریح ہے اسرائیلی روایت ہونے کی
اسکو آپ علیہ السلام نے کالعدم قرار دے دیا تو کسی راوی کی روایت سے فرق نہیں پڑتا اگرچہ روایت سندا صحیح ہو۔
اس روایت کے نیچے تو واضح ہے کہ اس میں اسرائیلی روایت شامل ہے۔تو اس سے استدلال درست ہی نہیں ہوگا۔خود اس روایت کے عربی متن کے مطابق اس روایت میں عجیب غریب باتیں ہیں اور اس میں اسرائیلی روایات شامل ہیں۔یعنی اس روایت میں کافی باتیں اسرائیلی روایات سے لی گئی ہے۔تاریخ ابن کثیر کے مطابق اس روایت کو ان اسناد کے ساتھ سدی نے بھی بیان کیا ہے۔ اس کی سند میں محمد بن مروان سدی راوی کذاب ہے ۔ اس لیے یہ روایت ثابت نہیں انتہائی کمزور ہے۔ اور اگر اس روایت میں السدی سے مراد اسماعیل بن عبدالرحمن السدی ہے تو اس کے بارے میں محدثین کی رائے درج ذیل ہے۔
و قال أبو طالب ، عن أحمد بن حنبل : السدي ثقة .
و قال عبد الله بن أحمد بن حنبل : سألت يحيى بن معين عن السدي و إبراهيم بن مهاجر ، فقال : متقاربان في الضعف .قال : و سمعت أبي ، قال : قال يحيى بن معين يوما عند عبد الرحمن بن مهدي ، و ذكر إبراهيم بن مهاجر و السدي ، فقال يحيى : ضعيفان ، فغضب عبد الرحمن و كره ما قال .
و قال عمرو بن علي : سمعت رجلا من أهل بغداد من أهل الحديث ، ذكرالسدي ـ يعني لعبد الرحمن بن مهدي ـ فقال : ضعيف
و قال عباس الدوري : سألت يحيى بن معين عن السدي ، فقال : في حديثه ضعف .
و قال أبو أحمد بن عدي : سمعت ابن حماد يقول : قال السعدي : هو كذاب شتام يعني السدي .
قال أيضا : حدثنا محمد بن أحمد بن حماد ، قال : حدثنى عبد الله بن أحمد ،قال : حدثنا أبي ، قال : حدثنا أبو أحمد الزبيري ، قال : حدثنا عبد الله بن حبيب بن أبي ثابت ، قال : سمعت الشعبي و قيل له : إن إسماعيل السدي قد أعطي حظا من علم القرآن ، قال : إن إسماعيل قد أعطي حظا من جهل بالقرآن .
و قال حسين بن واقد : سمعت من السدي فأقمت حتى سمعته يتناول أبا بكر و عمر فلم أعد إليه .
و قال الجوزجاني : حدثت عن معتمر عن ليث ـ يعني ابن أبي سليم ـ قال : كان بالكوفة كذابان ، فمات أحدهما ، السدي و الكلبي .كذا قال ، و ليث أشد ضعفا من السدي .
اس کے مطابق کئی محدثین کے نزدیک نہ صرف وہ ضعیف راوی ہےکہ یہ بعض کے بقول وہ صحابہ کو گالیاں دیتا تھا اور جھوٹا تھا۔ لہذا روایت ناقابل اعتبار ہے۔
اور اسرائیلی روایت کے بارے میں قول لانصدق ولا نکذب۔
ابن کثیر تفسیر سورہ القلم کے عربی متن کے مطابق ابن ابی حاتم میں یہ روایت الاعمش کے حوالے سے پیش کی گئی ہے اور الاعمش ضعیف راوی ہے اور اسی طرح شعبہ اور محمد بن فضیل نے الاعمش سے روایت کی ہے اور الاعمش کی وجہ سے ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔مجاہد نے ابن ابی نجیح کے حوالے سے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی ہے اور ابن ابی نجیح مدلس ثقہ راوی ہیں اور ان کی تدلیس کی وجہ سے ناقابل اعتبار ہے۔معمر نے اسے الاعمش سے روایت کیا ہے اور ایک بار پھر الاعمش کی وجہ سے ناقابل اعتبار اور ضعیف ہے۔اس کی جو۔ روایات ابن جریر طبری نے پیش کی ہیں وہ کسی اور محدث سے ہمیں نہیں ملی اور اکیلے ان کے روایت کرنے کی وجہ سے ضعیف اور ناقابل اعتبار ہیں کیونکہ طبری کا درجہ احادیث میں بہت کم ہے اور ان کی کتاب میں کئی من گھڑت روایات موجود ہیں۔
جب کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے جو روایت مروی ہے اس کے مطابق نون حوت یا مچھلی نہیں بلکہ قلم ہے۔اب ثابت ہوگیا کہ حوت یا مچھلی والی روایات جن کے مطابق نون ایک حوت یا مچھلی ہے جس نے ایک ایسے بیل کے سینگوں کو سہارا دے رکھا ہے جس کی پشت پہ زمین قائم ہے، ناقابل اعتبار ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو قلم قرار دیا۔
تاریخ ابن کثیریعنی البدایہ والنہایہ جلد اول کے مطابق اس روایت کو اسماعیل بن سدی الکبیر نے اس روایت کو ابی مالک،ابی صالح،مرۃ ہمدانی،ابن عباس،ابن مسعود اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم سے نقل کیا ہے لیکن سدی الکبیر انتہائی ضعیف راوی ہے۔کئی محدثین نے اسے جھوٹا اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو گالیاں دینے والا قرار دیا ہے۔لہذا سدی کی ان تمام ذرائع سے نقل کردہ یہ روایت ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔
تفسیر بغوی میں یہ روایت ابن ظبیان،مجاہد،مقاتل،سدی، کلبی اور واقدی کے حوالے سے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی گئی ہے لیکن سند مکمل نہ ہونے اور مقاتل،سدی،کلبی اور واقدی کے ضعیف ہونے کی وجہ سے ناقابل اعتبار ہے جب کہ مجاہد کی روایت میں بھی ابن ابی نجیح مدلس ثقہ راوی ہیں اور ان کی تدلیس کی وجہ سے یہ روایت ناقابل اعتبار ہے۔تفسیر بغوی میں یہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت کعب احبار رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی گئی ہے لیکن اس کی سند بیان نہیں کی گئ اور اس طرح یہ روایت بھی ناقابل اعتبار ہے۔
طبری میں یہ روایت اس طرح آئی ہے
تفسير جامع البيان في تفسير القرآن/ الطبري (ت 310 هـ) مصنف و مدقق
{ نۤ وَٱلْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ } * { مَآ أَنتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُونٍ } * { وَإِنَّ لَكَ لأَجْراً غَيْرَ مَمْنُونٍ }
اختلف أهل التأويل في تأويل قوله: { ن } ، فقال بعضهم: هو الحوت الذي عليه الأرَضُون.
ذكر من قال ذلك:
حدثنا محمد بن المثنى، قال: ثنا ابن أبي عديّ، عن شعبة، عن سليمان، عن أبي ظَبْيان، عن ابن عباس، قال: «أوّل ما خلق الله من شيء القلم، فجرى بما هو كائن، ثم رفع بخار الماء، فخلقت منه السموات، ثم خلق النون فبسطت الأرض على ظهر النون، فتحرّكت الأرض فمادت، فأثبتت بالجبال، فإن الجبال لتفخر على الأرض»، قال: وقرأ: { ن والقَلَمِ وما يَسْطُرُونَ }.
حدثنا تميم بن المنتصر، قال: ثنا إسحاق، عن شريك، عن الأعمش، عن أبي ظبيان، أو مجاهد عن ابن عباس، بنحوه، إلا أنه قال: فَفُتِقَتْ مِنْهُ السموات.
حدثنا ابن بشار، قال: ثنا يحيى، قال: ثنا سفيان، قال: ثني سليمان، عن أبي ظبيان، عن ابن عباس، قال: «أوّل ما خلق الله القلم، قال: اكتب، قال: ما أكتب؟ قال: اكتب القدر، قال: فجرى بما يكون من ذلك اليوم إلى قيام الساعة، ثم خلق النون، ورفع بخار الماء، ففُتِقت منه السماء وبُسِطتَ الأرض على ظهر النون، فاضطرب النون، فمادت الأرض، فأثبتت بالجبال، فإنها لتفخر على الأرض».
حدثنا واصل بن عبد الأعلى، قال: ثنا محمد بن فُضَيل، عن الأعمش، عن أبي ظبيان، عن ابن عباس قال: «أوّل ما خلق الله من شيء القلم، فقال له: اكتب، فقال: وما أكتب؟ قال: اكتب القدر، قال فجرى القلم بما هو كائن من ذلك إلى قيام الساعة، ثم رفع بخار الماء ففتق منه السموات، ثم خلق النون فدُحيت الأرض على ظهره، فاضطرب النون، فمادت الأرض، فأُثبتت بالجبال فإنها لتفخر على الأرض».
حدثنا واصل بن عبد الأعلى، قال: ثنا وكيع، عن الأعمش، عن أبي ظبيان، عن ابن عباس نحوه.
حدثنا محمد بن عمرو، قال: ثنا أبو عاصم، قال: ثنا عيسى وحدثني الحارث، قال: ثنا الحسن، قال: ثنا ورقاء، جميعاً عن ابن أبي نجيح، أن إبراهيم بن أبي بكر، أخبره عن مجاهد، قال: كان يقال النون: الحوت الذي تحت الأرض السابعة.
حدثنا ابن عبد الأعلى، قال: ثنا ابن ثور، قال: قال معمر. ثنا الأعمش، أن ابن عباس قال: إنْ أوّل شيء خُلق القلم، ثم ذكر نحو حديث واصل عن ابن فضيل، وزاد فيه: ثم قرأ ابن عباس { ن وَالقَلم وَما يَسْطُرُونَ }.
حدثنا بن حميد، قال: ثنا جرير، عن عطاء، عن أبي الضحى مسلم بن صبيح، عن ابن عباس، قال: إن أوّل شيء خلق ربي القلم، فقال له: اكتب، فكتب ما هو كائن إلى أن تقوم الساعة، ثم خلق النون فوق الماء، ثم كبس الأرض عليه.
حدثني واصل، قال: حدثنا وكيع، عن الأعمش، عن أبي ظبيان عن ابن عباس نحوه.
حدثنا ابن المثنى، قال: حدثنا ابن أبي عدي، عن شعبة، عن سليمان، عن أبي ظبيان، عن ابن عباس، قال: أول ما خلق الله تعالى القلم فجرى بما هو كائن، ثم رفع بخار الماء، فخلقت منه السموات، ثم خلق النون، فبسطت الأرض على ظهر النون، فتحرك النون، فمادت الأرض فأثبتت بالجبال، فإن الجبال لتفخر على الأرض. قال: وقرأ: " ن والقلم وما يسطرون ".
حدثني تميم بن المنتصر، قال: أخبرنا إسحاق، عن شريك، عن الأعمش، عن أبي ظبيان - أو مجاهد - عن ابن عباس بنحوه، إلا أنه قال: ففتقت منه السموات.
حدثنا ابن بشار، قال: حدثنا يحيى، قال: حدثنا سفيان، قال: حدثني سليمان، عن أبي ظبيان، عن ابن عباس قال: أول ما خلق الله تعالى القلم فقال: اكبت، فقال: ما أكبت؟ قال: اكبت القدر، قال: فجرى بما هو كائن من ذلك اليوم إلى قيام الساعة. ثم خلق النون، ورفع بخار الماء ففتقت منه السماء وبسطت الأرض على ظهر النون، فاضطرب النون، فمادت الأرض فأثبتت بالجبال، قال: فإنها لتفخر على الأرض.
حدثنا ابن حميد، قال، حدثنا جرير، عن عطاء بن السائب، عن أبي الضحى مسلم بن صبيح، عن ابن عباس قال: أول شيء خلق الله تعالى القلم، فقال له: اكبت، فكتب ما هو كائن إلى أن تقوم الساعة، ثم خلق النون فوق الماء، ثم كبس الأرض عليه.
قيل: ذلك صحيح على ما روى عنه وعن غيره من معنى ذلك مشروحًا مفسرًا غير مخالف شيئًا مما رويناه عنه في ذلك.
فإن قال: وما الذي روى عنه وعن غيره من شرح ذلك الدال على صحة كل ما رويت لنا في هذا المعنى عنه؟ قيل له: حدثني موسى بن هارون الهمذاني وغيره، قالوا: حدثنا عمرو بن حماد، حدثنا أسباط بن نصر عن السدي، عن أبي مالك، وعن أبي صالح، عن ابن عباس - وعن مرة الهمذاني عن عبد الله بن مسعود - وعن ناس من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم: " هو الذي خلق لكم ما في الأرض جميعا ثم استوى إلى السماء فسواهن سبع سمواتٍ " قال: إن الله تعالى كان عرشه على الماء ولم يخلق شيئًا غير ما خلق قبل الماء، فلما أراد أن يخلق الخلق أخرج من الماء دخانًا فارتفع فوق الماء، فسما عليه، فسماه سماءً، ثم أيبس الماء، فجعله أرضًا واحدة، ثم فتقها فجعلها سبع أرضين في يومين، في الأحد والاثنين، فخلق الأرض على حوت - والحوت هو النون الذي ذكر الله عز وجل في القرآن: " ن والقلم " - والحوت في الماء، والماء على ظهر صفاة، والصفاة على ظهر ملك والملك على صخرة، والصخرة على الريح - وهي الصخرة التي ذكر لقمان - ليست في السماء ولا في الأرض، فتحرك الحوت فاضطرب، فتزلزلت الأرض، فأرسى عليها الجبال فقرت، فالجبال تفخر على الأرض، فذلك قوله تعالى: " وألقى في الأرض رواسي أن تميد بكم ".
تاریخ طبری جلد ا
تفسیر الطبری جلد 23 ص 524 میں ہے
حدثنا واصل بن عبد الأعلى، قال: ثنا محمد بن فُضَيل، عن الأعمش، عن أبي ظبيان، عن ابن عباس قال: “أوّل ما خلق الله من شيء القلم، فقال له: اكتب، فقال: وما أكتب؟ قال: اكتب القدر، قال فجرى القلم بما هو كائن من ذلك إلى قيام الساعة، ثم رفع بخار الماء ففتق منه السموات، ثم خلق النون فدُحيت الأرض على ظهره، فاضطرب النون، فمادت الأرض، فأُثبتت بالجبال فإنها لتفخر على الأرض
أبي ظبيان ، ابن عباس سے روایت کرتے ہیں سب سے پہلی چیز جو الله نے خلق کی وہ قلم ہے پس اس کو حکم دیا لکھ – قلم نے کہا کیا لکھوں ؟ فرمایا تقدیر لکھ پس قلم لکھنا شروع ہوا جو بھی ہو گا قیامت تک پھر اس کی سیاہی کے بخارت آڑ گئے جس سے آسمان بن گئے پھر النون کو تخلیق کیا جس پر زمین کو پھیلا دیا پھر النون پھڑکی جس سے زمین ڈگمگائی پس پہاڑ جما دیے۔
یہ روایت مستدرک حاکم(2/540) اور تفسیر ابن کثیر کے مطابق تفسیر عبدالرزاق(2/307)،تفسیر ابن ابی شیبہ(14/101)،تفسیر ابن ابی حاتم اور کئی دیگر کتب میں مذکور ہے۔ان تمام کتب میں یہ روایت الاعمش،ابی ظیبان اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالے سے بیان کی گئی ہے۔حاکم نے اسے بخاری اور مسلم کی شرط پہ صحیح کہا ہے۔اگرچہ بخاری و مسلم نے اسے بیان نہیں کیا یعنی یہ روایت حدیث کی چھ صحیح ترین کتابوں میں کہیں پہ مذکور نہیں۔لیکن حاکم پھر دعوی کرتے ہیں کہ یہ روایت صحیح ہے۔الذہبی نے اپنی التلخیص میں اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔
اگر طبری کی ان روایات پہ غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ ایک موقوف روایت ہے جس کا سلسلہ براہ راست آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے صرف ایک صحابی یعنی ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ تک ثابت ہے۔حصين بن جندب أبو ظبيان الجنبي کا سماع ابن عباس سے ثابت کہا جاتا ہے انہوں نے یزید بن معاویہ کے ساتھ القُسْطَنْطِيْنِيَّةَ پر حملہ میں شرکت کی – سند میں الأعمش ہے جو مدلس ہے اور اس بنیاد پر یہ روایت ضعیف ہے
الأعمش صحیحین کا بھی راوی ہے اور یہ مثال ہے کہ صحیحین کے راویوں کی تمام روایات صحیح نہیں
ابن ابی حاتم طبرانی سے مرفوع ہے۔لیکن سند متصل یے یا منقطع کوئ پتہ نہیں۔
طبری نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے یہ روایت نو طریقوں سے مروی ہے جن میں سے چار میں ایک مدلس راوی الاعمش موجود ہے اور اس کی بنیاد پہ یہ روایات ضعیف ہیں۔ایک روایت میں ایک بہت ضعیف راوی محمد بن عمرو یعنی الواقدی اور ایک میں ثقہ مدلس راوی ابی نجیح موجود ہیں جن کی بنیاد پہ نو میں سے یہ چھ روایات ضعیف ہیں۔اور کئی روایتیں اسماعیل السدی سے مذکور ہے جو کہ انتہائی ضعیف راوی ہے جیسا کہ اوپر گزر چکا۔باقی جن چار ذرائع سے مروی ہے وہ روایات بھی قابل اعتماد نہیں قرار دی جا سکتی کیونکہ طبری میں بغیر سند کی تصدیق اور ثقہ راویوں کا نام لے کر بھی کئی غیر مستند روایات مذکور کر دی گئی ہیں۔
تاریخ طبری میں جگہ جگہ حضرات صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم سے متعلق ایسی بے بنیاد اور جھوٹی روایات مروی ہیں، جن کی کوئی معقول و مناسب توجیہ نہیں کی جاسکتی ہے ،تاریخ طبری بڑے بڑے دروغ گو ، کذّاب اور متہم بالکذب راویوں کی روایات سے بھری ہوئی ہے، بطور مثال کے تاریخ طبری کی روایات کا ایک جائزہ لینے کے لیے ڈاکٹرخالد علال کبیر صاحب نے تاریخ طبری میں موجود ثقہ و غیر ثقہ راویوں کی روایات کا ایک اجمالی خاکہ پیش کیا ہے؛چناں چہ وہ لکھے ہیں کہ تاریخِ طبری میں اس کے بارہ (۱۲) مرکزی رواة کی روایات کا جائزہ لیتے ہیں ، جن میں سے سات راوی کذّاب یا متہم بالکذب ہیں اور پانچ ثقہ ہیں۔محمد بن سائب کلبی کی بارہ (۱۲) روایات،حشام بن محمد کلبی کی پچپن (۵۵) روایات ،محمد بن عمر کی چار سو چالیس (۴۴۰)روایات ،سیف بن عمر تمیمی کی سات سو (۷۰۰)روایات ،ابو مخنف لوط بن یحی ٰ کی چھ سو بارہ (۶۱۲)روایات،ہیثم بن عدی کی سولہ(۱۶) روایات،محمد بن اسحاق بن سیار (یسار)(۲۵) کی ایک سو چونسٹھ (۱۶۴)روایات ہیں،ان سب کی روایات کا مجموعہ جن کو موٴرخ طبری نے اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے وہ انیس سو ننانوے( ۱۹۹۹) ہے۔زبیر بن بکار کی آٹھ(۸)روایات ،محمد بن سعد کی ایک سو چونسٹھ (۱۶۴)روایات ،موسی بن عقبہ کی سات(۷)روایات ،خلیفہ بن خیاط کی ایک(۱) روایت ،وھب بن منبہ کی چھیالیس (۴۶)روایات ہیں۔تاریخ طبری کے ان پانچ ثقہ راویوں کی روایات کا مجموعہ دو سو نو(۲۰۹) ہے۔
تو گویا تاریخ طبری میں دو سو نو( ۲۰۹)ثقہ روایات کے مقابلہ میں ان سات دروغ گو اور متہم بالکذب راویوں کی انیس سو ننانوے( ۱۹۹۹) روایات ہیں، ان دونوں کے تناسب سے اندازہ لگاجاسکتا ہے کہ تاریخ طبری جیسی قدیم اور مستند سمجھی جانے والی کتاب کا جب یہ حال ہے تو تاریخ کی باقی کتابوں کا کیا حال ہوگا۔مذکورہ بالا باتوں کی تائید خود علامہ طبری کا اپنی تاریخ کے مقدمہ کے اس اعتراف سے بھی ہوتی ہے، جس میں انہوں نے واضح طور سے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب میں بغیر نقدو تمحیص کے مختلف فرقوں اور گروہوں کے راویوں کی روایات کو ان کی اسانید کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ چناں چہ قارئین کے اطمینان قلبی کی خاطر علامہ طبری کی وہ پوری عربی عبارت پیش خدمت ہے، جس میں انہوں نے محض سند کے ساتھ بغیر نقد و تمحیص کے روایات ذکر کرنے کا اعتراف کیا ہے:
”فَمَا یَکُنْ فِيْ کِتَابِيْ ھَذا مِنْ خَبَرٍ ذَکَرْناہ عن بَعْضِ الماضِیْنَ مِمَّا یَسْتَنْکِرُہ قَارِیہِ، أو یَسْتَشْنَعُہ سَامِعُہ، مِنْ أَجَلِ أنَّہ لَمْ یَعْرِفْ لَہ وَجْھاً فِي الصِّحَّةِ، وَلاَ مَعْنًی فِي الْحَقِیْقَةِ، فَلِیُعْلَمْ أنَّہ لَمْ یُوٴْتِ فِيْ ذٰلِکَ مِنْ قَبْلِنَا، وَ إنَّمَا مِنْ قِبَلِ بَعْضِ نَاقِلِیْہِ إِلَیْنَا، وَأنّا إنَّما أدَّیْنَا ذلِکَ عَلی نَحْوِمَا أُدِّيَ إلَیْنَا
معاصر عرب اہل علم حضرات میں سے ڈاکٹر خالد علال کبیر صاحب نے اپنی کتاب ”مدرسة الکذابین في روایة التاریخ الإسلامي و تدوینہ“ میں موٴرخ طبری کے اس مخصوص طرزِ عمل کے بارے میں لکھا ہے کہ میرے نزدیک انھوں نے یہ (یعنی تحقیق و تمحیص کے بغیر صرف اسانید کے ساتھ روایات کو نقل کر کے) ایک ناقص کام کیا ہے، اور ان تمام روایات کے وہ خود ذمہ دار ہیں جو انہوں نے اپنی تاریخ میں مدون کی ہیں،پس انہوں نے عمداً دروغ گو راویوں سے بہ کثرت روایات نقل کیں اور ان پر سکوت اختیار کیا، یہ انتہائی خطرناک معاملہ ہے جو بعد میں آنے والی بہت ساری نسلوں کی گمراہی کا سبب بنا، انھیں (طبری) چاہیے تھا کہ وہ ان دروغ گو رایوں کا بغیر ضرورت کے تذکرہ نہ کرتے، یا ان پر نقد کرتے اور ان کی روایات کی جانچ پڑتال کرتے، صرف ان کی اسانید کے ذکر پر اکتفا کر کے سکوت اختیار نہ کرتے۔
ڈاکٹر صاحب موصوف مزید لکھتے ہیں کہ اس معاملہ کو اس سے بھی زیادہ سنگین اس بات نے کردیا کہ طبری کے بعد آنے والے اکثر موٴرخین نے قرونِ ثلاثہ کے بارے میں ان سے بہ کثرت روایات نقل کی ہیں ، جیسا کہ ابن جوزی نے اپنی کتاب ”المنتظم“‘ میں، ابن الاثیر نے ”الکامل“ میں اور ابن کثیر نے ”البدایہ“ میں بغیر سند کے نقل کیا ہے، اور ان حضرات کا اس طرح بغیر سند کے روایات نقل کرنے سے ثقہ اور دروغ گو راویوں کی روایات خلط ملط ہوگئیں ہیں، بسا اوقات تاریخ طبری کی طرف مراجعت کے بغیر ان روایات میں تمیز مستحیل ہوجاتی ہے۔
تاریخ کی کتابوں کے حوالے سے نہایت اعتدال کے ساتھ ان تمام موٴرخین کی کتابوں سے ثقہ اور جھوٹے و کذّاب راویوں کی روایات میں تمیز کیا جائے، جنہوں نے اپنی کتابوں میں دونوں طرح کی روایات کو جگہ دی ہے، جیسا کہ خلیفہ بن خیاط، محمدبن سعد ، زبیر بن بکار ، موسی بن عقبہ، وھب بن منبہ ،ابن جریر طبری اور ابن اثیر وغیرہ۔
اس بات میں بھی تفریق ضروری ہے کہ موٴلف اور صاحبِ تاریخ خود تو ثقہ ہیں؛ لیکن اس نے نقل واقعات و روایات میں دروغ گو اور کذّاب راویوں پر اعتماد کیا ہے، جیسا کہ ابن جریر طبری کا حال ہے ، ایسی صورت میں اس موٴرخ کی صرف ثقہ راویوں والی روایات مقبول قرار پائیں گی، دروغ گو و کذّاب رواة کی روایات مردود سمجھی جائیں گی۔لیکن پھر بھی اکیلے طبری کی بیان کردہ روایات جن کی صحیح سند دیگر کتب حدیث میں نہ ملے قابل اعتماد بالکل نہیں کہی جاسکتیں۔
اگر صاحبِ تاریخ خود کذّاب ودروغ گو ہو تو پھر اس کی کتاب میں موجود ثقہ لو گوں کی روایات بھی غیر معتبر قراردے دی جائیں گی۔
دینی امور ، صحابہٴ کرام ، ائمہ و سلفِ صالحین کے علاوہ دیگر دنیاوی معاملات میں اگر کسی ثقہ راوی کی روایت دستیاب نہ ہو تو بصورت مجبوری دروغ گو راویوں سے منقول روایات نقلِ واقعہ کی غرض سے ذکر کرنے کی گنجائش ہوگی؛مگر اس سے علمِ یقین حاصل نہ ہو گا۔
تاریخ اور تحقیق کے نام پر محض موٴرخین کی ذکر کردہ روایات سے اخذ کردہ نتائج بھی غیر مقبول شمار ہوں گے؛ البتہ حقیقی اور مسلمہ اصولوں کے تحت روایت قابل قبول قرار پائے تو اس سے ماخوذ نتائج درست قرار دیے جائیں گے۔
اس لیے طبری میں بیان واقعات اور روایات کی سند پہ سب مسلم مورخین اور محدثین نے شدید تنقید کی ہے اور ان کو ناقابل اعتبار قرار دیا ہے جب تک ان کی تصدیق دوسرے اور مستند ذرائع سے نہ ہو جائے۔
طبرانی میں یہ روایت حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مسلم بن صبیح کے حوالے سے آئی ہے
طبرانی کی روایت کا عربی متن درج ذیل ہے۔
حدثنا ابوحبیب المھتدی اختلافی،حدثنا سعید بن یعقوب الطالقانی،حدثنا مومل بن اسماعیل،حدثنا حماد بن زید،عن عطاء بن السائب،عن ابی الضحی مسلم بن صبیح،عن ابن عباس،قال قال رسول اللہ تعالی صلی اللہ علیہ وسلم:ان اول ما خلق اللہ القلم والحوت،قال[للقلم: اکتب]، قال ما اکتب،قال کل شیئ کائن۔ الی یوم القیامۃ،ثم قرأ (ن والقلم وما یسطرون) ،فالنون:الحوت،والقلم:القلم
اس میں ایک راوی مومل بن اسماعیل کے ثقہ ہونے کے بارے میں اختلاف ہے اور کئی بڑے محدثین نے انہیں ضعیف قرار دیا ہے۔
حافظ ہیثمی کے تمام اقوال کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک مؤمل بن اسماعیل حسن الحدیث نہیں بلکہ ضعیف ہے۔ چنانچہ مؤمل کی توثیق کے متعلق مجمع الزوائد کے مختلف مقام پر جو لکھتے ہیں:
حافظ ہیثمی نے ثقاہت کا قول ابن معین اور ابن حبان کا بتایا ہے اور ضعف کا قول امام بخاری اور ایک جماعت کا قرار دیا بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ ح8068 کے تحت ضعف کےقول کو جمہور کا قول قرار دیا۔ ثابت ہوا کہ حافظ ہیثمی کے ہاں مؤمل بن اسماعیل ضعیف عند الجمہور ہے، حسن الحدیث ہرگز نہیں۔
: امام ذہبی رحمہ اللہ اپنی کتاب میزان الاعتدال میں امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے مومل بن اسماعیل کے بارے میں فرمایا یہ” منکر الحدیث “ہے۔
) میزان الاعتدال ج4ص417(
2: امام ذہبی رحمہ اللہ اپنی دوسری کتاب المغنی فی الضعفاء میں امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے مومل بن اسماعیل کے بارے میں فرمایا یہ” منکر الحدیث “ہے۔
) المغنی فی الضعفاء ج2ص446(
3: امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اپنی کتاب تہذیب التہذیب میں امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے مومل بن اسماعیل کے بارے میں فرمایا یہ” منکر الحدیث “ہے۔
)تہذیب التہذیب ج6ص489(
4: امام مزی رحمہ اللہ اپنی کتاب تہذیب الکمال میں امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے مومل بن اسماعیل کے بارے میں فرمایا یہ” منکر الحدیث “ہے۔
) تہذیب الکمال ج10ص211(
امام بخاری کا ضابطہ :
ابن قطان رحمہ اللہ نقل فرماتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ ارشاد فرماتے ہیں: کل من قلت فیہ منکر الحدیث فلا تحل الروایۃ عنہ یعنی جس راوی کو میں ”منکر الحدیث“ قرار دے دوں اس سے روایت لینا حلال (جائز) نہیں۔
)میزان الاعتدال ج 1 ص 50(
لہذا طبرانی کی ایک تو روایت مرفوع ہے دوسرا اس میں ایک ضعیف راوی مومل بن اسماعیل موجود ہیں۔روایت ناقابل اعتبار ہے۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس مرفوع روایت میں بھی قلم اور حوت یعنی مچھلی کی پیدائش کا ذکر تو کیا گیا ہے لیکن حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی دوسری موقوف اور ضعیف روایات کہیں نہیں لکھا گیا کہ اس مچھلی نے بیل کے سینگوں کو سہارا دے رکھا ہے جس کی پشت پہ زمین قائم ہے۔
تفسیر ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالے سے تنویر المقبس(تنویر المقبس من تفسیر ابن عباس) میں بھی یہ دعوی کیا گیا ہے لیکن اس کی سند پیش نہیں کی گئ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے منقول یہ انتہائی غلط بات ان کی وفات کے تین سو سال بعد آنے والے ضعیف راویوں نے ان کی طرف منسوب کر دی۔
تحفہ النبلا میں مرۃ الہمدانی کے حوالے سے ابن حجر عسقلانی--تفسیر قرطبی،فتح القدیر یا شوکانی اور تفسیر الکبیر یا تفسیر الرازی میں بھی یہ روایت بغیر کسی مکمل سند کے مجاہد،مقاتل ،سدی،کلبی سے روایت کی گئی ہے اور سند کے نامکمل ہونے اور مقاتل،سدی اور کلبی کے ضعیف ہونے کی وجہ سے ناقابل اعتبار ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ الفاظ شاید حضرت کعب احبار رضی اللہ تعالی عنہ سے نقل کیے جو کہ اسرائیلیات کا گہرا علم رکھتے تھے۔یہ دعوی کیا گیا ہے کہ حضرت کعب احبار رضی اللہ تعالی عنہ کے مطابق عظیم مچھلی یا وہیل جس کی پشت پہ زمین ہے، وہ اپنی پشت کو ہلا کر زمین کی ہر چیز کو گرانا چاہتی تھی لیکن اللہ تعالی نے ایک بہت بڑا جانور بھیجا جو اس کے نتھنوں سے ہوتا ہوا اس کے دماغ تک پہنچ گیا اور وہ ایسا نہیں کر سکتی۔یہ تفسیر بغوی، معالم التنزیل اور تفسیر قرطبی میں حضرت کعب احبار رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے۔تفسیر قرطبی کی شرح لکھنے والے ڈاکٹر عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی اور محمد رضوان ارقوسی کے مطابق یہ اسلامی روایت نہیں بلکہ اسرائیلی یہودی روایت ہے اور یہ الفاظ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بھی صحیح حدیث میں مذکور نہیں ہیں۔بذات خود اس بات کا حضرت کعب احبار رضی اللہ تعالی عنہ سے منقول ہونا بھی ثابت نہیں ہے کیونکہ تفسیر بغوی اور معالم التنزیل نے صرف اتنا لکھا ہے کہ راویوں نے حضرت کعب احبار رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالے سے یہ کہا۔ابو نعیم نے یہ الفاظ اپنی ہلایۃ الاولیاء میں یہ الفاظ حضرت کعب احبار رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالے سے پیش کیے۔۔کون سے راویوں نے کہا،کب کہا،اس کی کوئی تفصیل پیش نہیں کی گئ۔لہذا ایک یہودی اسرائیلی روایت کو حضرت کعب احبار رضی اللہ تعالی عنہ کے کھاتے میں بغیر کسی مستند سند اور حوالے کے ڈالنا صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم پہ بہتان اور الزام ہے۔بذات خود حافظ ابن کثیر نے اپنی البدایہ والنہایہ یعنی تاریخ ابن کثیر(1/15) میں اسے من گھڑت یہودی یعنی اسرائیلی روایت قرار دیا ہے جس کی کوئی اسلامی بنیاد نہیں۔
اس سے ملتی جلتی کچھ اور مرفوع اور منکر یعنی ضعیف روایات حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالے سے پیش کی گئی ہیں لیکن ان کی سند بھی مستند نہیں اور محدثین نے ان کو من گھڑت یعنی موضوع روایت قرار دیا ہے( بحوالہ سلسلہ الضعیف نمبر 294)۔
لہذا زمین ایک عظیم مچھلی یا ایک بہت بڑے بیل کی پشت پہ قائم ہے جس کے سر کے ہلنے سے زمین پہ زلزلہ آتا ہے،یہ ایک من گھڑت روایت اور اسرائیلی حکایت ہے جس کا اسلام سے کچھ لینا دینا نہیں۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کے مطابق مدینہ منورہ میں یہودی عبرانی زبان میں موجود تورات کو عربی میں ترجمہ کرکے لوگوں کو اس سے واقعات بتاتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا " نہ ان اہل کتاب کی باتوں پہ یقین کرو،نہ ان کی تردید کرو"۔ لہذا اہل کتاب کی تحریف شدہ کتابوں میں صحیح اور غلط ہر طرح کی باتیں شامل تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں اہل اسلام کو خاموش رہنے کی تلقین کی کہ کہیں اس طرح نہ ہو کہ ہم ان کے صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح کہ جائیں(ابو داؤد 3644، مسند احمد 16774) اور صرف اس بات کی پیروی کی تلقین کی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مستند فرمان اور قرآن کی واضح آیات ہوں۔
خلاصہ یہ کہ ملحدین کا یہ اعتراض کہ ایک بیل نے زمین کو اپنی پشت پہ اٹھا رکھا ہے،ہر طرح سے موقوف ضعیف روایات پہ مبنی ہے جن کی سند میں کئی غیر مستند راوی ہیں۔لہذا یہ روایات ناقابل اعتبار اور ضعیف ہیں اور اس کے ساتھ ملحدین کا اعتراض بھی ضعیف ہے 😜۔
حوالہ جات:
http://www.library.ahnafmedia.com/…/69-muammal-bin-ismaieel…
https://islamqa.info/en/114861
https://ar.m.wikisource.org/wiki/تاريخ_الطبري/الجزء_الأول
http://www.darululoom-deoband.com/…/magaz…/new/tmp/08-Tarikh Islami Men_MDU_06_June_14.htm
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔