Tuesday, 31 October 2017

الحاد کا زوال اور اسلام کا عروج

 الحاد کا زوال اور اسلام کا عروج

(دی ٹیلی گراف کی رپورٹ کا خصوصی طور پہ ملحدین کو تحفے میں دینے کے لیے ڈاکٹر احید حسن کی طرف سے کیا گیا اردو ترجمہ)

دی ٹیلی گراف کی رپورٹ کے مطابق 2070 ء میں اسلام دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہوگا۔اس رپورٹ کے مطابق اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس کے قبول کرنے اور ماننے میں اضافے کی شرح دنیا کی آبادی میں اضافے کی شرح سے بھی زیادہ ہے اور ایک تحقیق کے مطابق 2070ء میں اسلام دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہوگا۔
امریکی پیو ریسرچ سنٹر نے دنیا کی آبادی اور بڑے مذاہب کے حوالے سے عالمی اعدادو شمار و آبادیات کا ایک تجزیہ پیش کیا ہے جس کے مطابق دنیا میں مسلمانوں کی تعداد 2050ء تک 73% تک بڑھ جائے گی جب کہ اس سارے عرصے میں عیسائیت کے پیروکاروں اور قبول کرنے والوں کی تعداد صرف 35% تک بڑھے گی۔
اس سارے عرصے میں دنیا کی آبادی 37% بڑھے گی۔اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو 2073ء تک اسلام اپنے قبول کرنے والوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن جائے گا۔اس دوران یورپ میں مسلمانوں کی آبادی بڑھ کر دس فیصد تک ہوجائے گی اور یورپ کے کچھ ملک جیسا کہ جرمنی اور فرانس کافی حد تک اسلامی ملک بن چکے ہوں گے۔
2010ء میں دنیا میں مسلمانوں کی آبادی 6•1 بلین اور عیسائیوں کی آبادی 17•2 بلین تھی اور اگر دونوں مذاہب اسی رفتار سے بڑھتے رہے تو 2070ء تک اسلام کے قبول کرنے اور ماننے والوں کی تعداد عیسائیت قبول کرنے والوں سے بڑھ جائے گی۔
اس تحقیق کے مطابق اسلام وہ مذہب ہے جو جدید نوجوانوں میں تیزی سے مقبول ہورہا ہے۔اس کے ماننے والوں میں 34% پندرہ سال کی عمر سے کم کے افراد ہیں۔اس رپورٹ کے مطابق عیسائیت کو اگلے سالوں میں شدید بحران کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس کے ماننے والوں کی کثیر تعداد دوسرے مذہب خصوصا اسلام قبول کرلے گی۔عیسائیت میں داخل ہونے والوں کی تعداد عالمی طور پہ 40 ملین جب کہ عیسائیت چھوڑنے والوں کی تعداد 106ملین ہوگی۔جب کہ اس دوران یورپ خصوصا جرمنی،فرانس اور برطانیہ میں اسلام اور مسلمانوں کے لیے برداشت اور ان کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوگا۔
"جب کہ ملحدین کے لیے بہت بری خبر ہے۔نیچے پڑھیں۔"
2050ء تک دنیا میں ملحدین،وجوت اور مادہ پرستوں یعنی اگنوسٹک اور لادین افراد کی تعداد امریکہ اور یورپ میں اضافے کے باوجود مجموعی طور پہ کم ہوکر 4۔16% سے کم ہوکر صرف 2-13% تک رہ جائے گی۔
ملحدو!تم کیا سمجھتے ہو مسلمانوں کی فیس بک پوسٹس اور ان کے اکاؤنٹس بلاک اور ہیک کرواکر اسلام کی ترقی روک دو گے؟ جو کر سکتے ہو کر لو۔الٹے لٹک جاؤ۔اسلام کی ۔ترقی اور الحاد کا زوال طے ہوچکے ہیں۔لہذا تمہاری یہ بزدلانہ سرگرمیاں الحاد کے زوال کو کسی طرح نہیں روک سکیں گی۔
رہے نام اللہ کا،مٹے نام الحاد کا۔ان شاء اللہ
مکمل تحریر >>

Monday, 30 October 2017

ہندوستان میں گربت و افلاس، فحاشی و عریانی کی اصل وجہ لارڈمیکالے کا انگریزی تعلیمی نظام ہے

لارڈمیکالے  نے انڈیا میں انگریزی تعلیمی نظام کی بنیاد رکھی۔ اِس تعلیمی نظام کی ضرورت کو اجاگر کرنے کے لیے اُس نے انڈیا کا کونا کونا گھوم کر برصغیر کے تعلیمی نظام کا مشاہدہ کیا۔ وہ اپنے مشاہدے اور ایک انگریزی تعلیمی نظام کی انڈیا میں ضرورت کو 1835 ( کلکتہ) میں کچھ اِس طرح بیان کرتا ہے۔

ْ ’’ میں نے انڈیا کے چپے چپے کو چھان مارا ہے ، لیکن میں نے ایک بھی بھکاری نہیں دیکھا، ایک چور نہیں دیکھا ، بلکہ بے پناہ دولت دیکھی ۔ اِس ملک کے لوگ بھی اتنے سمجھدار ،قابل اور باصلاحیت ہیں کہ ان تمام خصوصیات کے ساتھ ہم کبھی بھی اِن پر حکومت نہیں کر سکیں گے جب تک ہم ان کی ریڑھ کی ہڈی کو نہ توڑ ڈالیں ، جو کہ دراصل اُن کی روحانی اور ثقافتی روایات ہیں اور جن کو تبدیل کرنے کے لیے میرا مشورہ ہے کہ اُن کا قدیم اور روایتی تعلیمی نظام اور ثقافتی اِقدار کو بدل دیا جائے۔ اگر انڈیا کے لوگوں کو ہم نے یہ سمجھا دیا کہ ہمارا یعنی انگریزی نظام اور روایات اُن سے بہتر ہیں تو وہ اپنی عزتِ نفس کھو دیں گے اور اپنی ثقافت کو بھول کر ہماری مرضی کے مطابق ایک غلام قوم میں تبدیل ہو جائیں گے ‘‘

ہمیں لارڈ میکالے کی اس سوچ کے ساتھ ساتھ اِس بات کو بھی مدِنظر رکھنا چاہیے کہ لارڈ میکالے نے برطانوی حکومت کے ایک پہلے سے طے شُدہ ایجنڈے کو ایک عملی شکل دی اورایک ایسا ہدف متعین کیا جو کہ برطانوی حکومت کے Imperialistic ایجنڈے کے مطابق تھا حقیقت میں برطانوی حکومت نے 1813 ء سے ہی انڈیا کے تعلیمی نظام کی تبدیلی کے لیے ایک بجٹ مقرر کر دیا تھا ۔ اس تعلیمی بجٹ کی کُل مالیت اُ س وقت ایک لاکھ انڈین روپے تھی۔

اِن تفصیلات کو جاننے کے بعد کوئی بھی قابل فہم شخص اِس بات کا اندازہ لگا سکتا ہے کہ اگر ہمیں اپنے روایتی تعلیمی نظام ، مذہبی اقدار اور روایات کی اہمیت کا اندازہ ہوتا اور اگر ہم لارڈ میکالے کے اِس منصوبے اور عزائم کو وقت سے پہلے جانچ لیتے تو شاید اِس وقت برِصغیر کا نقشہ اور حالات کچھ مختلف ہوتے ۔

ہم انگریز کے اس جھانسے میں کیوں آگئے ؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنا اس مضمون کا مقصد نہیں بلکہ صرف اس بات کی طرف اشارہ کرناہے کہ ہر چمکتی ہوئی چیز سونا نہیں ہوتی بلکہ اکثرو بیشتر زہر قاتل بھی ثابت ہوسکتی ہے ۔آج ہم اِس نظام تعلیم سے اس قدر مرعوب ہو چُکے ہیں کہ اِس کے بغیر زندگی بسر کرنے کا تصور تک نہیں کر سکتے اور ہم یہ بھی شاید مکمل طور پر بھول چُکے ہیں کہ ہمارا اپنا روایتی تعلیمی نظام کیا تھا؟۔۔۔ ۔یہ تعلیمی نظام آج بھی زندہ ہے اور اپنا اثر قائم رکھے ہوئے ہے لیکن صرف اِس حد تک کہ مغربی تہذیب کی یلغار کے مقابلے میں ڈھال کا کام دے رہا ہے۔

لارڈ میکالے نے اپنے زمانے میں ایک اور بات کہی۔ اُس نے کہا ’’ اگر میرا بس چلے تو میں عربی اور سنسکرت کی کتابوں کی چھپائی بند کرا دوں اور مدرسوں اور سنسکرت کے سکولوں کو بھی منہدم کرا دوں ‘‘

لارڈ میکالے کی اس بات سے بھی ہمیں اسی طرف اشارہ ملتا ہے کہ برِصغیر میں روایتی درسگاہوں کی موجودگی دراصل صرف مغربیت اور مغربی آمریت ہی کے لیے خطرے کا باعث تھی اور اب بھی بن سکتی ہے۔ کیا یہی وجہ ہے کہ آج ہم اپنے مدرسوں کے خلاف ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایک سازش پروان چڑھتے دیکھ رہے ہیں ؟

لارڈ میکالے کی باتوں سے ہمیں یہ بھی سبق ملتا ہے کہ سماجی/معاشرتی انتشار یعنی غربت، افلاس، ناانصافی اور دیگرمعاشرتی برائیاں دراصل بیرونی طاقتوں کے لیے راہ ہموار کرتی ہیں کہ وہ آئیں اور اپنی آمرانہ حکومت کے پنجے گاڑ کر قوموں کو محکوم بنا سکیں۔ہمیں ایک بات اور بھی سمجھ لینی چاہیے کہ دو سوسال پہلے جو تعلیمی نظام برِصغیر میں رائج تھا اُس کے نتیجے میں ایک مستحکم معاشرہ قائم تھا جہاں نہ غربت تھی اور نہ ناانصافی اور نہ کوئی چوری چکاری۔

ہم یہ بات پہلے بھی عرض کر چکے ہیں کہ 1813 میں ہی برطانوی حکومت نے ایک لاکھ روپے سالانہ کی رقم ایسٹ انڈیا کمپنی کی پُشت پناہی میں خرچ کرنی شروع کر دی تھی اور یہ سلسلہ پھر نہیں رُکا، پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد بھی1955 میں #USAID نے 10ملین ڈالر کے لگ بھگ پاکستان سے مشہور بزنس انسٹیٹیوٹ کی بنیاد رکھی جس کا نامIBA ہے۔آج #IBA کے طرز پر پاکستان میں بے شمار تعلیمی ادارے کام کر رہے ہیں جن کو مغرب کی فریب زدہ آنکھیں بڑی قابلِ ستائش نظروں سے دیکھتی ہیں، ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ IBA کے طرز کے اِن تعلیمی اداروں کا کوئی مثبت کردار نہیں ہے لیکنِ ہمیں یہ بھی ضرور دیکھنا ہو گا کہ ایسے ادارے کہیں لارڈ میکالے کے بنائے گئے فریم ورک کا حصہ تو نہیں۔

Business Institutes کی یہاں خصوصی طور پر مثال اس لیے دی گئی ہے کیوں کہ تمام تعلیمی اداروں کے مقابلے میں مغربی سوچ اور فکر کا غلبہ زیاد ہ ترانہی تعلیمی اداروں میں نظرآتا ہے اور ہمیں اس بات کا بھی اعترف کرنا ہو گا کہ اُن تمام طلبہ اور طالبات جو اِن Institutes سے پڑھ کر نکلتے ہیں اُن کی اولین ترجیح Multinational Corporations یا Banks میں نوکری کا حصول ہوتا ہے۔ہمیں اِس بات کا بھی اعتراف کرنا ہو گا کہ اِن تعلیمی اداروں میں پاکستان کے بہترین طلبہ و طالبات ہی داخلہ لے پاتے ہیں اور یوں آخر میں ملٹی نیشنلز کا حصہ بن کر اپنی ساری زندگی صابن 249 تیل 249گھی 249 شمپو،آئس کریم یا سودی قرضے وغیرہ بیچتے ہوئے گزار دیتے ہیں۔یہاں بات صرف شمپو اور تیل وغیرہ بیچنے پر ہی ختم نہیں ہوتی۔ ان تمام چیزوں کے ساتھ ساتھ ایک اجنبی تہذیب 249اُس کی ثقافت ، اُس کی اقدار اور روایات بھی بیچی جاتی ہیں اور خریدنے والا بھی اِس پورے پیکیج کو خریدتا ہے۔ کیا ہی بات ہوتی اگر یہی طالب علم اور قوم کے ذہین ترین نوجوان سائنس دان ، سیاستدان ، Technocrates ،عالمِ دین وغیرہ بنتے اور وہ تمام شعبے اختیار کرتے جن سے ملک و قوم کی فلاح ہوتی نہ کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اور ان کے اسٹیک ہولڈرزکی۔

یہ تمام باتیں تھیں 1955 میں لیے جانے والے ایک قدم کی۔ آیئے اب ایک نظر ڈالتے ہیں حال ہی میں لیے گے USAID کے ایک اور اقدام کی طرف۔ USAID نے حال ہی میں بچوں کے ایک ٹی وی چینل کی بنیاد ڈالنے کا اعلان کیا ہے اور اسی مد میں کروڑ وں ڈالرکے ٹینڈر کھولنے کا اعلان بھی کیا ہے۔مختلف اخبارات میں چھپنے والے اس اعلان میںUSAID نے اس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ اس ٹی وی چینل کا مقصد دراصل بچوں کی ذہن سازی ہے۔ اس ذہن سازی سے کیا مراد ہے اس کا اندازہ تو صحیح طور پراس ٹی وی چینل کے on air ہونے کے بعدہی لگایا جاسکے گا البتہ تاریخی پس منظر کی روشنی میں دیکھا جائے تو اس بات کاگمان کرنا شاید غلط نہ ہوگا کہ یہ ٹی وی چینل بھی در اصل اسی سلسے کی ہی کڑی ہو۔

بچوں کی ذہن سازی کا مطلب ہے کہ آپ آنے والی ایک نہیں بلکہ کئی نسلوں کی ذہنی اور فکریDirection متعین کررہے ہیں۔ اسی سلسلے کی ایک اور دلچسپ مثال حال ہی میں ہمارے سامنے آئی ۔ کراچی میں Educational Technologies کے نام سے ایک کمپنی ایک ایسی Productکوپروموٹ کر رہی جس کے ذریعے آپ اپنے نومولود یعنی ایک دو ماہ کے بچے کی تعلیم و تربیت شروع کر سکتے ہیں۔ اس Educational Product کے ذریعے جو کہ مکمل طور پر انگریزی زبان میں ہے بچوں کی ذہنی صلاحیتوں کو اُس وقت اُبھاراجاتا ہے جب بچوں کی Learning abilityتیزی سے Develop ہو رہی ہوتی ہے یعنی چار سال تک یا اس سے کم عمر۔ اس طریقۂ تعلیم کو دیکھنے کے بعد ہمیں یہ بات شدت سے محسوس ہوتی ہے کہ اِس ذریعہ تعلیم سے مغربیت کو گھٹی میں ملا کر بچوں کوپلانے کا تو انتِظام ہے لیکن اسلامی طرز عمل اور روایات کو سکھانے کی کوئی گنجایش نہیں۔

یہ تو چند مثالیں ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آپ کے پاس مزید ہونگی۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی صورت حال میں کیا کیا جائے۔جس گھن چکر میں ہم اور آپ پھنس چکے ہیں اِس سے نکلنے کی کیا صورت ہوسکتی ہے۔میرے نزدیک اِس مسئلہ کے حل کے لئے سب سے پہلے اس مسئلہ کا ادراک ضروری ہے اور جب آپ ایسا کر لیں گے تو آپ کو ایسی راہیں نظر آنی شروع ہوجائے گی جن پر چل کر آپ اپنے آپ کو اور اپنی آنے والی نسل کو اس علمی اور نفسیاتی جنگ سے محفوظ رکھ سکیں گے۔

کسی بھی تہذیب کی مضبوطی اور استحکام اس کے ideological frameworkپر ہوتاہے۔ اگر اس ideological frameworkمیں کوئی دراڑ ہے تو اس تہذیب کو منہدم ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ شائد یہی وجہ ہے کہ پچھلے دوسو سالوں سے جو تابڑ توڑ حملوں کا سلسلہ جولارڈ میکالے نے شروع کیا اس کے باوجود ہماری چند روایات اور چند ادارے (Institutes)اس ideological frameworkسے قریب ہونے کی وجہ سے ابھی تکFunctionalہیں اور اگر ہم مغرب کی غلامی سے آزاد ہوکر زندگی گزارنے کی خواہش رکھتے ہیں تو ہمیں اس روائتی طرز کے تعلیمی اداروں سے اپنا بھی تعلق جوڑنا ہوگا اور اپنے آنے والی نئی نسل کی ابتدائی تربیت کے لیے بھی ان کے ساتھ الحاق کو یقینی بنانا پڑے گا۔ یہاں اس بات کا انکار نہیں ہے کہ جدیدتعلیم کا بھی اپنا ایک مقام ہے لیکن ہمیں اس کو اپنی ترجیحات میں دوسرے نمبر پر لانا پڑے گا۔ پیشہ ورانہ تعلیم کی طرف ہمیں اس وقت بڑھنا ہوگا جب بنیادی تعلیم اور تربیت خالص اسلامی اور روائتی طرزِعمل سے پُر ہو۔ اس سلسلہ میں مدرسوں کو بھی حاضر دماغی سے کام لینے کی اشد ضرورت ہے کہ وہ اپنے تعلیمی نظام میں ایسی اجتہادی تبدیلیوں کو متعارف کرائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد اپنے اور اپنے بچوں کو بنیادی تعلیم دینے کے بعد مختلف شعبہ ہائے زندگی میں تعلیم جاری رکھوا سکیں۔

لارڈ میکالے کا اگر یہ عمل بارگاہِ الٰہی میں مقبول ہوتا تو اس کے صدقہ جاریہ میں مستقل اضافہ ہورہاہوتا مگر حقیقت شایداس کے بالکل برعکس ہے۔ لارڈ میکالے کو جو بھی عذاب مل رہا ہے وہ اس کو ملتارہے گا مگرہمارے پاس متبادل راہ موجود ہے۔ ہم اب بھی اس جنگ کا پانسہ پلٹ سکتے ہیں صرف مسئلہ کا ادراک اور تھوڑی سی ہمت کی ضرورت ہے۔
مکمل تحریر >>

نظریہ ارتقاء حقیقت یا افسانہ؟ قسط 4/آخری قسط

نظریہ ارتقاء حقیقت یا افسانہ؟ قسط 4/آخری قسط
ارتقاء پسند بہت خوبصورتی سے ایک پرانے افریقی النسل انسان ہوموارکٹس کو گوریلوں کی نسل کے ساتھ جوڑ کر اپنے ارتقائی دعوے کو سہارا دینے کی ناکام کوشش کرتے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہوموارکٹس کا گوریلوں کی نسل سے کسی طور کوئی تعلق سائنس ثابت نہیں کرپائی، جن فوسلز کو ہوموارکٹس نامی انسان سے پہلے کے گوریلے نما انسان کہا جاتا وہ سب گوریلے تھے اور ہوموارکٹس کے دور میں موجود تھے ، 1991 میں جریدہ سائنس میں تحقیق دان وڈ اور کولارڈ نے مفصل مضمون لکھ کر ثابت کیا کہ ہوموارکٹس سے گوریلوں کی نسل کا کوئی تعلق نہیں تھا، 14 مارچ 1998ء کو رسالہ "نیو سائنٹسٹ" میں سائنسی تحقیق میں بتایا گیا کہ ہوموارکٹس جدید انسان ہی تھے، ان کو جہاز رانی اور کشتی رانی آتی تھی لہٰذا ان کو کسی طرح انسانوں سے الگ تصور نہیں کیا جاسکتا، جبکہ ارتقاء پسندوں کا دعویٰ یہ ہےکہ ہوموارکٹس پھر قدیم ہوموسیپین نیا نڈرتھالنسس بنا پھر کروماگنون فوسل والا ہومو سیپینز سیپینز بنا،حقیقت تو یہ ہے کہ یہ ساری درجہ بندی انسانوں کے ہی مختلف خاندانوں کی ہے ، ان کے درمیان فرق فقط اتنا ہی ہے جتنا ایک پاکستانی، امریکی اور جاپانی میں ہے۔ آج کے انسان کے ڈھانچے اور ہوموارکٹس کے ڈھانچے میں کوئی فرق نہیں، ارتقاء پسند کہتے ہیں کہ اس کی کھوپڑی موجودہ دور کے انسانوں کی کھوپڑی کے سائز میں فرق ہے لیکن آج بھی دنیا کے کئی خطوں میں ہوموارکٹس جیسی سائز کی کھوپڑی کے انسان موجود ہیں۔ آسٹریلیا کے مقامی باشندوں کی کھوپڑی کا سائز ہوبہو ہوموارکٹس کی کھوپڑی جیسا ہی ہے۔ جدید تحقیق دان والکر کے مطابق جب اسے ہوموارکٹس کی کھوپڑی ملی تو اسے ہنسی آگئی کیونکہ وہ بالکل جدید انسان جیسی ہی تھی۔ سو ان تم حقائق کو مدِ نظر رکھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ ہوموارکٹس دراصل انسان کا ہی فوسل ہے اور انسانوں کی یہ نسل آج بھی افریقہ، اسکیمو اور آسٹریلیا میں موجود ہے اور انسانوں سے ہٹ کر نہیں ہے ۔
ارتقاء پسند دوستوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ موجودہ انسان کا جدامجد دراصل گوریلا ہے ، لیکن ارتقاء پسند دوست اس کہانی کو لمحہ بہ لمحہ بیان نہیں کرپاتے ۔ لُوسی والے مادہ گوریلا کے فوسلز کے علاوہ ارتقاء پسندوں کے ہاتھ 3 مشہور فوسلز لگے ۔ ایک آسٹرالوپیتھیسیز کا، دوسرا ہوموہابلس کا اور تیسرا ہوموروڈولفینسس کا تھا۔ ان تین فوسلز کے متعلق ارتقاء پسندوں کا یہ ایمان ہے کہ یہ گوریلا اور انسان کے بیچ کی ارتقائی مخلوق ہے ۔ سب سے پہلے تو ارتقاء پسندوں نے راماپیتھیکس نامی گوریلے کے محض جبڑے کی ہڈی سے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ یہ انسان کا جد امجد تھا لیکن بعد میں اس کو خود ہی خاموشی سے خیالی ارتقائی مخلوق کی فہرست سے ہٹا دیا ۔ جدیدتحقیق سے معلوم ہوا کہ گوریلوں کی تاریخ میں 6 ہزار قسم کے خاندان موجود تھے جن میں سے اس وقت صرف 120 اقسام ہی زمین پر موجود ہیں۔ گوریلوں کے یہ فاسلز ارتقاء پسندوں کے ہاتھ ہڈیوں کا ایک ایسا خزانہ ہیں جنہیں اپنی مرضی سے ناپ کر، بڑے سے چھوٹے تک ایک ترتیب دے دی گئی اور ان کے بیچ کچھ انسانی کھوپڑیاں ملا کر گوریلوں اور انسانوں کے درمیان زبردست تعلق قائم کرنے کوشش کی گئی۔ (Science, April 1987 Edition, Page#7)
سب سے اہم بات یہ ہے کہ انسانوں اور گوریلوں کے مابین اعضاء اور نظام کے لحاظ سے اتنازیادہ فرق موجود ہے کہ ان کا کسی طور پر بھی رینڈم میوٹیشن یا نیچرل سیلیکشن کے ذریعے انسان بن جانے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، فوسلی ریکارڈ بھی ہر دور میں انسان کا انسان اور گوریلے کا گوریلا ہونے کی نشاندہی کرتا ہے ۔ بالکل ایسے ہی آسٹرالوپیتھیکس بھی ایک گوریلا تھا جس کے فوسلز آج کل بھی دریافت ہوتے رہتے ہیں، اسٹرالوپیتھکس اور چمپنزی کے ڈھانچے اور کھوپڑی میں مشترک قدریں بالکل واضح ہیں۔ اپنے نظریے کو مصنوعی سہارا دینے کے لئے ہوموہابلس جیسی ارتقائی مخلوق کا ہونا ارتقاء پسندوں کے نزدیک واجب تھا ، 1987 تک ہوموہابلس کو انسان اور گوریلے کی درمیانی کڑی مانا جاتا رہا لیکن ٹم وائٹ کے اس وقت دریافت کردہ فوسلز نے ان دعوؤں کی قلعی کھول دی ، ان فاسلز میں ہوموہابلس کی گوریلوں کی مانند چھوٹی ٹانگیں اور لمبے ہاتھ نمایاں تھے، ماہرین قدیمہ کی تحقیقات کے مطابق آسٹرالوپیتھیسینز اور ہوموہابلس دراصل گوریلوں کی ہی ایک نسل تھی اور انسانوں کے دور میں موجود تھی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ارتقائی کڑی نہیں تھی ۔ (Holly Smith, American Journal of Physical Antropolgy,Vol 94, 1994 Edition, Page#307-325)
1972ء میں ایک اور فوسل دریافت ہوا جسے ہوموروڈولفینسس کا نام دیا گیا اور دعوی کیا گیا کہ یہ ارتقائی کڑی کا اہم ثبوت ہے مگر جدید تحقیق کے بعد سائنسدانوں نے اعلان کیا کہ اسے کسی بھی طرح ارتقائی کڑی نہیں کہا جاسکتا یہ دراصل آسٹرالوپیتھیکس گوریلوں کے خاندان کا ہی فرد تھا۔ (Alan Walker, Scientific American, Vol#239(2), 1978, Page#54)
1912ء میں چارلس ڈاسن کو ایک جبڑے کی ہڈی ملی اور کھوپڑی ملی ، حیرانگی کی بات یہ تھی کہ جبڑے کی ہڈی گوریلے کی جبکہ کھوپڑی انسانی تھی۔ اسے پلٹ ڈاؤن مین کا نام دیا گیا، چالیس سال اس پر بہت سے مضامین لکھے گئے بہت مباحثے ہوئے ، آخر کار اس کو انسانی ارتقاء کا ثبوت مان لیا گیا ، 1949ء میں جب فوسل پر نئے طریقے سے تحقیق کی گئی تو حیران کن نتیجہ سامنے آیا کہ یہ کھوپڑی تو صرف چند ہزارسال پرانی ہے ، اس کے جبڑے میں موجود دانت اس کھوپڑی کے نہیں بلکہ بندر کے تھے، اور یہ کھوپڑی لاکھوں نہیں بلکہ صرف 500 سال پرانی تھی، ان تمام چیزوں کو پوٹاشیم ڈائکرومیٹ سے رنگ کر پرانا بنا دیاگیا تھا، یہ تمام ثبوت آتے ہی فوراً سائنسدانوں نے پلٹ ڈاؤن مین کو فراڈ قرار دے دیا، 1953ء میں اس دھوکے کی تفصیلات کو عام کیا گیا، اس طرح کے واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ارتقاء پسند اپنے جھوٹے نظریے کو ثابت کرنے کے لئے ہر قسم کے جھوٹ کا سہارا لے سکتے ہیں، ان تمام باتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ ارتقاء پسندوں کے پاس گوریلے سے انسان تک کے سفر کوئی پختہ اور واضح دلیل موجود نہیں بلکہ محض تخیلاتی تصاویر کے سہارے ان کا یہ کمزور نظریہ قائم ہے ۔ اسی خاطر ارتقاء پسند ارتقاء کی کہانی کو لمحہ بہ لمحہ بیان کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں کیونکہ نظریہ ارتقاء حقیقت نہیں محض افسانہ ہے!
محمد شاہ زیب صدیقی
پچھلی قسط کا لنک
https://m.facebook.com/story.php…
#زیب_نامہ
مکمل تحریر >>

نظریہ ارتقاء حقیقت یا افسانہ؟ قسط نمبر 3

نظریہ ارتقاء حقیقت یا افسانہ؟ قسط نمبر 3
ارتقاء پسندوں کے پاس تخیلاتی مواد کی بھرمار ہے ،وہ ہمیشہ تصوراتی تصاویر کا سہارا لے کر ارتقاء کو ثابت کرتے دکھائی دیتے ہیں مگر جب ان سے فوسلز کے ذریعے ثبوت مانگے جاتے ہیں تو وہ جو چند ایک فوسلز پیش کرتے ہیں۔ اس میں چند فوسلز سلامنڈرز کے ہوتے ہیں ، یہ سمندری جاندار آج بھی موجود ہے بلکہ اپنی اسی حالت میں موجود ہے جیسے کروڑوں سال پرانے فوسلز میں تھی۔دوسرا سب سے مشہور فوسل Panderichtys نامی جاندار کا پیش کرتے ہیں 2010 تک یہ فوسل ارتقائی مخلوق کے لحاظ سے سب سے مضبوط ثبوت مانا جاتا تھا مگر جدید تحقیق کے بعد ثابت ہوگیا کہ اس فوسل کا تعلق کسی مچھلی کے خاندان سے نہیں بلکہ چار ٹاگوں والے سمندری جانداروں کے خاندان سے ہے ۔ (Nature Magazine, Dr. Fred Spoor, 7th January 2010 Edition, Editor Summary)
آگے ارتقاء پسند احباب انسان اور گوریلوں کے درمیان کی مخلوق کے متعلق کچھ فاسلز کا ذکرکرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ یہاں پر اس بات کا ذکر کرنا مقصود ہے کہ ہمارے بہت سے دوست یہ سمجھتے ہیں کہ ارتقاء پسند دراصل بندروں کو انسان کا جدامجد مانتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ ارتقاء پسندوں کے نزدیک بندر اور انسان دونوں گوریلوں کے خاندان کی ارتقائی مخلوق ہیں۔بہرحال جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ لوگوں کی سوچ آنکھ دیکھی چیزوں پر فوراً ایمان لے آتی ہے ، اسی بات کو ذہن نشین کرتے ہوئے ارتقاء پسندوں نے ان فوسلز کی حقیقی انسانوں جیسی اشکال بنا کر اپنے نظریے کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کی ، یاد رکھیے گا کہ فوسلز دیکھ کر آپ کسی جاندار کے متعلق کچھ معلومات حاصل کرسکتے ہیں مگر مکمل نہیں، کیونکہ جاندار کی شکل کا ماخذ کھوپڑی اور اس پر موجود گوشت ہوتا ہے ، فوسلز صرف نامکمل ہڈیوں پر مشتمل ہوتا ہے سو آپ اس کو کوئی بھی تخیلاتی چہرہ پہنا سکتے ہیں لیکن ارتقاء پسندوں نے کھوپڑی کو دیکھ کر صرف چہرہ نہیں بلکہ جاندار کا مکمل حلیہ اور اس کے خاندان والوں کی شکلیں تک بتا دیں، ہاروڈ یونیورسٹی کے فوسلز پر تحقیق دان ارنسٹ اے ہوٹن اس متعلق کہتے ہیں کہ : "فوسلز پر نرم حصوں کی تعمیراتِ نو کا بیڑا اٹھانا انتہائی خطرناک نوعیت کا کام ہے ، ہونٹ ، کان ، آنکھ اور ناک کی نوک کے نیچے والے حصے کی معلومات فوسل میں موجود نہیں ہوتیں، اسی خاطر آپ نیانڈرتھالائڈ پر چمپانزی کی بھی شکل بنا سکتے ہیں اور ایک عظیم فلاسفر کی بھی ، یہ عام لوگوں کو بہکانے کا آسان طریقہ ہے ۔" (Earnest A.Hooton, Up from the Ape, NewYork, 1932, P#332)
اسی خاطر ارتقاء پسندوں کے پاس آسٹرالوپیتھیکس کی بھی کئی تصاویر موجود ہیں جو کہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ارتقاء پسند خود بھی اس جاندار کے متعلق تذبذب کا شکار ہیں کہ یہ بن مانس تھا یا انسان اور گوریلے کے درمیان کی مخلوق، اس کے علاوہ ارتقاء پسند ایک لمبے عرصے تک ہسپے روپیتھیکس نامی فوسل کو انسان اور گوریلے کے درمیان کی گمشدہ کڑی تسلیم کرتے تھے۔ لیکن بعد میں جب اس فوسل کا بقیہ حصہ ملا تو معلوم ہوا کہ یہ فوسل تو دراصل ایک سُور کا تھا۔ ان فوسلز کے علاوہ سب سے گہرا ثبوت ارتقائی مخلوق کے متعلق اگر کوئی ان کے ہاتھ لگا تو لُوسی نامی فوسل تھا جس کے متعلق ارتقاء پسندوں کے علاوہ مختلف سائنسدان بھی حیران تھے ۔ اس کو دریافت کرنے والے سائنسدان جانسن نے ایک انٹرویو میں کہا کہ کھُدائی کے دوران مجھے ایک بازو کی ہڈی ملی، میں نے اس کا اپنے بازو کے ساتھ موازنہ کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ یہ تو انسان کے بازو کی ہڈی ہے، بعد ازاں اس جگہ سے 3 کلومیٹر دور مجھے دو سو فٹ گہرائی میں اس جانور کے گھُٹنے کے جوڑ والی ہڈی ملی" اگرچہ یہ گھٹنے کے جوڑ والا فوسل کسی اور جانور کے ہونے کا 99 فیصد چانس موجود ہے اس کے باوجود ارتقاء پسند اس کو انسان اور گوریلا کے درمیان کی ارتقائی کڑی مانتے رہےاور دعویٰ کرتے رہے کہ یہ جانور ہونے کے باوجود انسانوں کی طرح چلتی تھی ، اس کی بہت تشہیر کی گئی اور اس پر اینیمیٹڈ ویڈیوز کی بھرمار کر دی گئی مگر بعد میں تحقیق سے ثابت ہوا کہ لوسی انسانوں کی طرح نہیں چل سکتی تھی بلکہ یہ ایک مادہ گوریلا تھی اور گوریلوں کی طرح ہی جھُک کرچلتی تھی۔ ان تمام حقائق سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ارتقاء پسندوں کی جانب سے پیش کیے جانے والے تمام فوسلز انسان نما مخلوق نہیں بلکہ بن مانس اور گوریلوں کے ہی تھے! انشاء اللہ اگلی قسط میں ہم مزید کچھ مشہور فوسلز کی قلعی کھولیں گے جو کو نظریہ ارتقاء میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ (جاری ہے)
محمد شاہ زیب صدیقی
پچھلی قسط کا لنک یہ ہے
https://m.facebook.com/story.php…
#زیب_نامہ
#نظریہ_ارتقاء #EvolutionTheory #DarwinTheory

مکمل تحریر >>

نظریہ ارتقاء حقیقت یا افسانہ؟ قسط نمبر 2

نظریہ ارتقاء حقیقت یا افسانہ؟ قسط نمبر 2

دنیا میں اکثر لوگ سائنسدانوں کی ہر بات حرفِ آخر تسلیم کرلیتے ہیں بنا یہ سوچتے ہوئے کہ یہ تمام نظریات بھی انسانوں کے ترتیب شدہ ہیں، ان میں وسیع غلطی کا امکان موجود ہوتا ہے، انہیں حرف آخر مان کر عقل، تجربے اور قدرت کی کسوٹی پر نہ پرکھنا کہاں کی دانشمندی ہے؟اکثر ارتقاء پسند آپ کو بیکٹریا سے انسان تک کی 4 ارب سال پر محیط داستان 2منٹ میں مکمل کرتے نظر آئیں گے جو کہ ان کے بوکھلاہٹ کی کھلی دلیل ہے۔ ارتقاء پسندوں کے نزدیک پہلا جاندار جو وجود میں آیا وہ Anaerobic bacteria تھا، یاد رہے کہ یہ بیکٹریا کی وہ قسم ہےجس کے لئے آکسیجن گیس زہر کا کام کرتی ہے ، ارتقاء پسندوں کے نزدیک چونکہ اس وقت زمین پر کاربن اور ہائیڈروجن کا راج تھا لہذا یہ بیکٹریا اس ماحول میں ایک سے دو ہوئے پھر آہستہ آہستہ پوری زمین پر پھیل گئے ، لیکن چونکہ یہ ہائیڈروجن اور کاربن کےسہارے زندہ رہتے تھے اور آکسیجن نکالتے تھے اسی خاطر زمین پر آکسیجن پھیلنا شروع ہوگئی ، جب زمین آکسیجن سے بھر گئی تو اس بیکٹریا نے جادوئی انداز میں ارتقاء کے اصول کے تحت اپنی نسل بدل لی اور یہ اب Aerobic bacteria بن گیا جو آکسیجن کے سہارے زندہ رہتا ہے ۔ ارتقائی مراحل کو سہارا دینے کی خاطر ارتقاء پسند دو طریقوں کا ذکرکرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ایک نیچرل سیلیکشن اور دوسرا رینڈم میوٹیشن ، نیچرل سلیکشن سے مراد ہے کہ صرف وہی جاندار زندگی بچ جاتے ہیں جو خود کو نئے قدرتی ماحول میں ڈھال لیتے ہیں اور بقیہ جاندار اپنے اختتام کو پہنچ جاتے ہیں، اسے اردو میں قدرتی چناؤ بھی کہا جاسکتا ہے، لیکن اس متعلق تاریخ میں کوئی ایک مثال نہیں ملتی کہ قدرتی چناؤ کی وجہ سے کوئی جاندار اپنی نسل ہی بدل لے اور ایک نئی مخلوق کا روپ دھار لے۔ نیچرل سلیکشن کے متعلق سائنسدانوں کو بہت پہلے سے معلوم تھا مگر اس میں ارتقاء کا تڑکا سر ڈارون نے لگایا، اگر نیچرل سلیکشن کے تحت جانداروں میں تبدیلی آسکتی ہے تو پھر آج تک برف میں رہنے والے انسانوں کو بہت پہلے بن مانس یا انسانوں سے ایک الگ مخلوق بن جانا چاہیے تھا، اگر یہ نہیں ہوسکا تو کم از کم ان کے جسم پر بن مانس کی طرح بال اُگ آنے چاہیے تھے جو انہیں سردی سے بچاتے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ارتقائی نظریے کے جھوٹ پر مبنی ہونے کے لئے یہی ثبوت کافی ہے کہ کروڑوں سال پرانے جانداروں کے فوسلز (جن میں مچھیلیاں، سلامنڈرز، مینڈک اور دیگر سمندری مخلوق شامل ہے) اور آج کے دور کے ان جانداروں میں کوئی فرق نہیں دیکھا گیا ۔بلکہ سر چارلس ڈارون خود نیچرل سلیکشن کے معاملے پر بوکھلاہٹ کا شکار تھے ، وہ لکھتے ہیں :"اگر کسی پیچیدہ عضو کی موجودگی کا ثبوت قائم ہوجائے جس سے معلوم ہوجائے کہ یہ کروڑوں سال پہلے تک ویسا ہی تھا، تو میرا نظریہ مکمل طور پر تباہ ہوجائے گا " (Charles Darwin, The Origin of Species, A Facsimile of the First Edition, Harvard University Press, 1964, P#189)
اب ہم آتے ہیں رینڈم میوٹیشن کی جانب ، اس کے تحت جانداروں کی ایک نسل وقت کی ضرورت کے باعث جینیاتی بے ترتیبیوں کی وجہ سے کچھ اور ہی بن گئی، مثلاً جب مچھلیوں کو خوراک کی ضرورت پڑی تو ان میں ٹانگیں نمودار ہوگئیں اور خشکی پر آکر انہوں نے خوراک کی تلاش شروع کردی اور اپنی زندگی کو سہارا دیے رکھا، ارتقاء پسندوں کے نزدیک ایک جاندار کو دوسری مخلوق بننے کے لئے 10 لاکھ سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے ، اس کے تحت ایک مچھلی کو مینڈک کا سفر طے کرنے میں 10 لاکھ سال کا عرصہ لگاہوگا اور ان ارتقائی جانداروں کے فاسلز کروڑوں کی تعداد میں ہونے چاہیے مگر آج تک کوئی ایک ایسا فوسل نہیں مل پایا جو آدھا مچھلی آدھا مینڈک کا ہو، یا آدھا مگرمچھ آدھی مچھلی ہو ، حقیت یہ ہے کہ آج تک ملنے والے کروڑوں سال پرانے فاسلز میں موجود جانداروں کی باقیات ہوبہو وہی ہیں جیسےآج والے جانور ہیں۔ کچھوے اور کوٹیلوسار کے درمیان کا کوئی جانور آج تک نہیں مل پایا، جب سر چارلس ڈارون سے اس متعلق سوالات کیے گئے تو وہ صرف یہی جواب دے پائے تھے کہ ان کے فاسلز جلد مل جائیں گے مگر 150 سال گزرنے کے باوجود اتنے ترقی یافتہ دور میں بھی ایک بھی ایسا فاسل نہیں مل سکا جو ارتقاء پسندوں کی تسکین کا باعث بنے۔ نظریہ ارتقاء کے پرخچے اڑانے کے لئے سب سے اہم انکشاف تب ہوا جب 5 کروڑ سال پرانے بے تحاشا فاسلز ملے اور انہیں دیکھ کر ارتقاء پسندوں کے اوسان خطا ہوگئے کہ اس وقت کے جاندار ہوبہو آج والے جانداروں جیسے تھے کوئی ایک فرق تو آیا ہوتا، یہ اتنا بڑا انکشاف تھا کہ اسے ارتقاء پسندوں کے لئے دھماکے کا نام دیا گیا اور سائنسدان آج بھی اسے کیمبرین دھماکہ کہتے ہیں۔ اس واقعے نے بےتحاشا ارتقاء پسند سائنسدانوں کو صدمہ پہنچایا، اس متعلق سر چارلس ڈارون پہلے ہی خدشہ ظاہر کرچکے تھے :"اگر جانداروں کے ایک ہی خاندان کی کئی نسلیں اچانک نمودار ہوئی ہیں تو یہ (ہمارے) نظریے کے لئے موت ہے "۔ (Charles Darwin, The Origin of Species, A Facsimile of the First Edition, Harvard University Press, 1964, P#302)
پس ثابت ہو اکہ نظریہ ارتقاء ایک دھوکہ تھا جس کا اندازہ سر چارلس ڈارون کو بھی بخوبی تھا لیکن آج کے دور کے کچھ باشعور طالب علم بھی اس نظریے کو حرف آخر مان کر اس پر ایمان رکھتے ہیں ! (جاری ہے)
محمد شاہ زیب صدیقی
پچھلی قسط کا لنک یہ ہے
https://m.facebook.com/story.php…
#زیب_نامہ
#DarwinTheory #EvolutionTheory #نظریہ_ارتقاء


مکمل تحریر >>

نظریہ ارتقاء حقیقت یا افسانہ؟ قسط اول

نظریہ ارتقاء حقیقت یا افسانہ؟  قسط اول
انسان روزِ اول سے ہی زمین و آسمان کے اسرار و رموز کو کھنگالنے اور ان کی گُتھیاں سُلجھانے میں مصروفِ عمل ہے ، لیکن بسااوقات یہ گتھیاں اس قدر پیچیدہ ہوتیں ہیں کہ انسان ان کو سُلجھاتے سُلجھاتے اپنا اشرف المخلوقات ہونا فراموش کردیتا ہے ، اسی خاطر مشہورِ زمانہ فلاسفر فرانسس بیکن کو یہ متنازعہ قول کہنا پڑا کہ "سائنس کوتھوڑا ساسمجھناآپ کو ملحد بنا دیتا ہے جبکہ سائنس کومکمل سمجھنا آپ کا خدا پر ایمان مضبوط کردیتا ہے "، کہنے کو انسان ترقی کے نئے باب کھول چکا ہے لیکن ابھی تک زمین پر زندگی کی ابتداء سائنسدانوں کے لئے ایک معمہ بنی ہوئی ہے، 1831ء میں سر چارلس ڈارون نے جہاز رانی کا پیشہ اختیار کیا ، اسی شوق میں انہوں نے دنیا کے مختلف علاقوں کا سفر بھی کیا ، اس دوران انہوں نے بہت سے فاسلز جمع کیے اور قدیم افریقی قبائل سے ملاقاتیں بھی کیں۔ 29 سال کی تحقیق کے بعد سر چارلس ڈارون نے ایک کتاب لکھی جس کا نام “Origion of species” رکھا گیا ۔ اس میں انہوں نے اپنی 29 سالہ تحقیق کو بے حدمفصل انداز میں تحریر کیا ۔آج سے 170 سال پہلے سر چارلس ڈارون کو بھی معلوم نہ تھا کہ جو خیالی ارتقاء کی تصاویر وہ بنا رہے ہیں ، وہ آنے والے عرصے میں سائنسدانوں کا ایک نیا گروہ متعارف کروائے گی، بہرحال جو چیز نظریہ ارتقاء کو شروع سے ہی بے معانی بنا دیتی ہے وہ اس کا نامکمل دعویٰ ہونا ہے کہ زمین پر زندگی خودبخود وجود میں آگئی۔ اس منظرنامے کے تحت ارتقاء پسندوں کا دعویٰ ہے کہ آج سے اربوں سال پہلے زمین کئی بے جان کیمیکلز کا مرکب تھی ، اسی دوران ان میں ردعمل ہوا اور زمین پر پہلا خلیہ وجود میں آیا،یہاں پر ارتقاء پسند اس خلیے کے وجود میں آنے کے بارے میں متعدد کہانیاں پیش کرتے ہیں لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ عیاں ہے کہ آج تک انسانی تاریخ میں کوئی ایسی لیبارٹری نہیں بن سکی جو کیمیکلز کو ملا کر زندگی کا وجود ممکن کرسکے بلکہ یہ دعویٰ سائنسی اصولوں کے بھی خلاف ہے ،کہانی کے اس موڑ کو کچھ مسلمان ارتقاء پسند مذہب کا لبادہ اوڑھ کر بھی پیش کرتے ہیں۔ ارتقاء پسندوں کا ماننا ہے کہ اتفاقاً یک خلوی جاندار زمین پر کیمیائی ردعمل کے تحت پیدا ہوگیا مگر انہی احباب کے سامنے اگر یہ ذکر کیا جائے کہ زمین پر بارش ہوئی جس سے کیمیائی ردعمل کے تحت اینٹیں اور سیمنٹ خودبخود بن گیا اور انہوں نے مل کر ایک محل کی شکل اختیار کرلی تو فوراً بیان کرنے والے کی ذہنی حالت پر شک کریں گے ، بنا یہ سوچے ہوئے کہ نظریہ ارتقاء بھی یہی کہانی سناتا ہے۔ سر چارلس ڈارون کے زمانے میں لوگوں کو نظریہ ارتقاء کی کہانی سنا کر دھوکا دینا انتہائی آسان تھا، لیکن 20ویں صدی میں سائنس نے خلیے کا مکمل پوسٹ مارٹم کرکے دنیا کو بتا دیا کہ اس میں پورا شہر آباد ہے ، اس کا محض اتفاقاً وجود میں آجانا ناممکن بات ہے ۔چونکہ اس وقت سر ڈارون خلیے کی اصلیت سے مکمل نا آشنا تھے اسی خاطر انہوں نے ایک ایسا کمزور نظریہ ترتیب دیا جس کی عمارت جدید تحقیق کے سامنے بُری طرح لڑکھڑا رہی ہے ۔ اسی وجہ سے ارتقاء کے حامی سائنسدان ڈبلیو –ایچ –تھارپ یہ ماننے پر مجبور ہوگئے کہ "سب سے سادے خلئے کے اندر بھی ایک ایسا نظام موجود ہے جس کو بنانا (یا اس کا خودبخود وجود میں آجانا کیمیائی ردعمل سے کے باعث) تو دور کی بات ، (اس کی پیچیدگی کا) انسان نے تصور بھی نہیں کیا ہے۔" (W.R.Bird. The Origin of Species Revisited, Nashville:Thomas Nelson Co. 12 Nov, 1981, P#289-99)
سائنس کی ترقی نے نظریہ ارتقاء کو بھی بے پناہ نقصان پہنچایا اور اس کے بہت سے مقلدین کو اس سے چھین لیا۔ ارتقاء پسند انگریز ریاضی دان اور ہئیت دان سر فریڈ ہائل نے اپنے ایک انٹرویو میں زندگی کے وجود کے متعلق کہا کہ : "اعلیٰ زندگی کی اقسام کا اس طرح اتفاق سے وجود میں آنا اسی طرح کی بات ہے کہ گویا ایک آندھی کا کباڑ خانے سے گزرنے پر اس میں موجود ٹین ٹبار کے ساتھ ایک عظیم طیارہ وجود میں آجائے " (“Hoyle on Evolution”, Nature, 12 Nov 1981, Vol 294, P#105)
اس نظریے کی بنیادیں ہلانے کے لئے یہ سوال ہی کافی ہیں کہ اگر کیمیائی ردعمل کے تحت ہی زندگی ممکن ہے تو آج کے دور میں جہاں بلیک ہول اور بیگ بینگ تک کے تجربات لیبارٹری میں کیے جارہے ہیں وہاں ایک خلیہ بنانا کیونکر ممکن نہ ہوسکا؟ ارتقاء پسند حقیقت جاننے کے باوجود اس نظریے کی اندھی تقلید اس بنا پر کر کرتے ہیں کہ جانداروں کی اشکال آپس میں ملتی ہیں قطع نظر اس کے کہ ان کی اندرونی ساخت اور نظام میں زمین آسمان کا فرق ہے.... (جاری ہے )
محمد شاہ زیب صدیقی
#زیب_نامہ
#DarwinThoery #EvolutionTheory #نظریہ_ارتقاء

مکمل تحریر >>

خداکےوجودکےسائنسی اورعقلی دلائل

خداکےوجودکےسائنسی اورعقلی دلائل
ازقلم:محمودایاز
خداکےوجودکےدلائل توبہت سےہیں اگریہ کہاجائےکہ خودسائنس خداکےوجودکی سب سےبڑی دلیل ہےتوسوفیصددرست بات ہے۔لیکن بدقسمتی یہ ہےکہ کچھ مشینری سائنسدانوں نےاپنےالحادی نظریات کی تبلیغ اورنشراشاعت کےلیےسائنس کوایک آلہ کاربنالیاہےجیساکہ رچرڈڈاکنزاوراسٹیون ہاکنگ وغیرہ ہیں۔خداکےوجودکی سب سےبڑی دلیل کوانہوں نےخداکےوجودکےانکارکی سب سےبڑی دلیل بنانےکی بھونڈی کوشش کی ہے۔جب تک سائنس میں کائنات کےمشاہدہ کواصل کی حیثیت رہی توہردورمیں سائنسدان خداکی ذات کااقرارکرتےرہےلیکن جب نظریاتی سائنس کادورشروع ہواتوبعض پروفیسروں نےفلسفےکوسائنس کادرجہ دےکرسائنس کےنام پرخداکاانکارشروع کردیاحالانکہ سائنس کبھی خداکےوجودکےانکارکی طرف نہیں جاسکتی زیل میں ہم بڑے اورنامورسائنسدانوں کےاقوال نقل کرینگےجوناصرف خداکےوجودکےقائل تھےبلکہ انہیں اس بات پربھی اصرارتھاکہ انہیں سائنس اورسائنسی طریقہ کارہی خداکی زات پرایمان لانےپرمجبورکیاہے۔
سائنسی طریق کارکےبانی سرفرانسس بیکن(1561۔1626) کاکہناہے:
"It is true, that a little philosophy inclineth man's mind to atheism; but dipth in philosophy bringeth men's minds about to religion."2

Bacon Francis the Essays of Lord Bacon(london:longman and Green. Co.., 1875).p.64-

یہ کہنابلکل درست ہےکہ تھوڑاسافلسفہ پڑہ کہ انسان ملحدہوسکتاہےلیکن فلسفےمیں گہرائ کانتیجہ مزہب سےتعلق کی صورت میں ہی نکلتاہے۔''ماڈرن فلاسفی کےبانی رینےڈیکارٹ (1596۔1650)کاکہناہے:
"میں یہ واضح طورپردیکھرہاہوکہ سائنس میں جوبھی سچائ ہےقطعیت ہے،اس کانحصاراکیلےسچےخداکےبارےعلم پرہے،وہ اس طرح کہ خداکوجانےبغیرمیں کسی بھی چیزکامکمل علم نہیں حاصل کرسکتاہوں ۔"
ماڈرن سائنس کےبانی سرآئزک نیوٹن(1642۔1727) کاکہناہے:
"خداکاانکارایک واضح حماقت ہے،جب میں نظام شمسی پرغورکرتاہوں تومیں دیکھتاہوں ہماری زمین سورج سےایک خاص فاصلہ پرموجودہےتاکہ وہ اتنی ہی حرارت اورروشنی حاصل کرسکےجتنی اس کوضرورت ہےاوریہ سب کچھ کسی حادثےکانتیجہ نہیں ہوسکتا۔"

یہ کہنابلکل درست ہےکہ تھوڑاسافلسفہ پڑہ کہ انسان ملحدہوسکتاہےلیکن فلسفےمیں گہرائ کانتیجہ مزہب سےتعلق کی صورت میں ہی نکلتاہے۔''ماڈرن فلاسفی کےبانی رینےڈیکارٹ (1596۔1650)کاکہناہے:
"And thus I very clearly see that the certitude and truth of all science depends the knowledge alone of the true God, insomuch that, before I knew him, I could have know perfect knowledge of anyotherthing."
(Descartes Rene, the philosophy of Descartes :Containing the method. meditation, and onther Works. tranalated by john veitch. (New York:Todur publishing Co..,1901).p.V.
"میں یہ واضح طورپردیکھرہاہوکہ سائنس میں جوبھی سچائ ہےقطعیت ہے،اس کانحصاراکیلےسچےخداکےبارےعلم پرہے،وہ اس طرح کہ خداکوجانےبغیرمیں کسی بھی چیزکامکمل علم نہیں حاصل کرسکتاہوں ۔"
ماڈرن سائنس کےبانی سرآئزک نیوٹن(1642۔1727) کاکہناہے:
"خداکاانکارایک واضح حماقت ہے،جب میں نظام شمسی پرغورکرتاہوں تومیں دیکھتاہوں ہماری زمین سورج سےایک خاص فاصلہ پرموجودہےتاکہ وہ اتنی ہی حرارت اورروشنی حاصل کرسکےجتنی اس کوضرورت ہےاوریہ سب کچھ کسی حادثےکانتیجہ نہیں ہوسکتا۔"
"In the absence of any other profe, the thumb alone would convince me of God sexistence.''
کوئ اورسائنسی گواہی نابھی ہوتی تواکیلاانگوٹھاخداکےوجودکی گواہی کےلیےکافی تھا۔"
.(Tiner .john Hudson, Isaac Newton:Inventer, scientist, and Teacher, (Michigan: mot media p 123)-)
بعض ملحدوں نےیہ بحث پیداکی ہےکہ سائنس دان جس خداکےقائل تھے،وہ کوئ ذات نہیں تھی توان کی یہ بات بلکل درست نہیں ہےمحض کج بحثی ہے جیساکہ نیوٹن کےبارےمیں واضح طورپرملتاہےکہ اس نےکہاتھاکہ میں بائبل کےخداکومانتاہوں اور وہ وہی خداہےجوابراہیم، موسی اور عیسی کاخداہے۔
( I have a fundamental beliefe in the bible as the words of God written by men who were inspired.I study the bible daily [ Ray comfort nothing created everything the scientific impossbility of atheistic evolution, Los Angele World net daily 2009) p. 55]
الیکٹرونکس کےبانی میکائیل فیراڈے(1791۔1867)۔کاکہناہے:
"The book of nature which we have to read is written by the finger of God."
فطرت کی کتاب جس کاہم نےسائنس کےزریعےمطالعہ کرناہے،وہ خداکےہاتھوں سےلکھی گئی ہے۔"
(Segeer raymond farady sandemanion The journal of the american Scientific affiliation june 1983 35/101).
(Tiner john hudson The world of biology :From Mushrooms to complex life from (USA new leaf buplishing group 2013) p.12.

مائیکروبیالوجی کےبانی لوئس پاسچر(1822۔1895)کاکہناہے:

میں جس قدرفطرت کامطالعہ کرتاہوں اس قدراس کائنات کےخالق کےبارےمیری حیرت میں اضافہ ہوتاچلاجاتاہے۔سائنس کامطالعہ انسان کوخداکےقریب لےجاتاہے۔"

ان کایہ کہنابھی ہےکہ:

"Little science takes you away from God butt more of it takes you to Him."
تھوڑی سی سائنس کامطالعہ تمہیں خداسےدورلےجاتاہےجبکہ اس کاگہرامطالعہ تمہیں خداکےنزدیک کردیتاہے۔

تھرموڈائنمکس کےبانی لارڈکیلون (1824۔1907)نےاپنی ایک تقریرمیں کہاہے:
آزادانہ سوچ سےکبھی بھی نہ گھبرائو۔اگرتمہاری سوچ پختہ ہوگی توسائنس تمہیں خداکےوجودپرایمان لانےپرمجبور کردےگی۔
(Guitton, Jean, dieu it La science: Vers Le Metarealisme (paris; grasset, 1991),p.5

"Do not be afraid to be free thinkers if you think strongly enough you will be forced by science to the belief in God."

(Silvanus, thompson, the life of Williom Thomson Baron Kelvin of largs. (London: Macmillan and Co.., 1910), 2/1099

کوانٹم تھیوری کےبانی میکس پلانکس(1858۔1947) کاکہناہے:
Anybody who has been seriously engaged in scientific work of any kind realizes that over the entrance to the gates of the tample of science are written the words: Ye must have faith . It is the quality which the sceintist cannot dispens with."
"جس شخص کوبھی کسی بھی قسم کے سائنسی کام سےسنجیدہ واسطہ رہاہو۔ وہ یہ محسوس کرسکتاہےکہ سائنس کےمعبدمیں داخل ہونےوالےدروازےپریہ الفاظ لکھیں ہیں کہ ایمان کےساتھ زندہ رہو۔یہ وہ صفت ہےکہ جس سےکوئ سائنسدان خالی نہیں ہوسکتا۔"
(Carl Gaither, Alma Cavazos-Gaither, Gaither's Dictionary of scientific Quotations, (UK :springer science and bussiness media 2012.), P. 803
اسی طرح ان کایہ کہنابھی ہے:
سائنس اورمزہب دونوں کواپنی سرگرمیاں جاری رکھنےکےلیےخداپرایمان کی ضرورت ہے۔مبتدی کوخداشروع میں ہی مل جاتاہےاورمنتہی کوتمام سوچ بچارکےعمل سےگزرنے کےبعدملتاہے۔پس مبتدی کےلیےخدابنیادی راز کھول دیتاہےجبکہ منتہی کےسرپردنیاکےبارے نقطہ نظرسےمتعلق کسی بھی قسم کی توجہ کاتاج سجادیتاہے۔"
Max Plank Religion und Naturwissenschaft,(Leipzig:Johann Ambrosius Barth Verlag,1958).p.27

مکمل تحریر >>

انسان کے آسمان سے زمین پر بھیجے جانے کا نظریہ اور اس کی سائنسی وضاحت (نظریہ ارتقاء کو ایک اور سائنسی جھٹکا)

انسان کے آسمان سے زمین پر بھیجے جانے کا نظریہ اور اس کی سائنسی وضاحت
(نظریہ ارتقاء کو ایک اور سائنسی جھٹکا)
••

شروع ہی سے کئ سائنسدانوں کو نظریہ ارتقاء کی صحت اور اسکی سچائ پر شک تھا۔یہی وجہ ہے کہ نظریہ ارتقاء کے پیش کیے جانے سے اب تک کئ سائنسدانوں نے اس نطریے کو ماننے سے انکار کیا۔ان کا کہنا تھا اور ہے کہ زمین پر انسان اور زندگی ارتقا پذیر نہیں ہوئ بلکہ اپنی خاص حالت میں تخلیق کی گئ۔حال ہی میں انسان کے بن مانس جیسے کسی جاندار سے ارتقا کے نظریے پر سائنسدانوں نے مزید سوال اٹھائے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ انسان زمین پر ارتقاء پذیر نہیں ہوا بلکہ کسی اور سیارے یا خلا سے زمین پر بھیجا گیا جیسا کہ مذہب کا تصور ہے کہ اللٰہ تعالٰی نے آدم و حوا علیہ السلام کو جنت سے زمین پر بھیجا۔
ایک امریکی ماہر ماحولیات کا کہنا ہے کہ انسان کی کمر کے نقائص،سورج کی روشنی سے جلد پر پڑنے والے زخم یا Sun burns ظاہر کرتے ہیں کہ انسان زمین پر ارتقاء پذیر نہیں ہوا۔اس امریکی ماہر ماحولیات کا نام ڈاکٹر ایلس سلور۔۔۔۔Dr Ellis Silver....ہے۔ان کا کہنا ہے کہ کسی خلائ مخلوق نے آج سے اندازہ ایک لاکھ سال پہلے انسان کو آسمان سے زمین پر اتارا۔۔۔جیسا کہ مذہب کا تصور ہے۔واضح رہے کہ ڈاکٹر ایلس سلور خود ارتقا کے حامی ہیں لیکن وہ انسان کے بارے میں خود کہ رہے ہیں کہ انسان زمین پر ارتقاء پذیر نہیں ہوا۔
ان کا کہنا ہے کہ کائنات میں زمین کی حیثیت ایک قیدی سیارے کی ہے۔چونکہ انسان ایک تندخو مخلوق ہے لہذا اسے اس کی اصلاح کے لیے یہاں رکھا گیا ہے۔
اس پر ایلس سلور نے ایک پوری کتاب لکھی ہے جس کا نام Humans are not from earth ہے۔اس کتاب کو ایمیزون نے شائع کیا ہے۔ڈاکٹر ایلس سلور ماہر ماحولیات ہیں اور پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حامل ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ انسان کی کمر کی کمزوری اور کمر کے نقائص ظاہر کرتے ہیں کہ انسان کسی کم کشش ثقل یا گریویٹی والی جگہ پر پیدا ہوا لیکن زمین پر ارتقاء پذیر نہیں ہوا۔ان کا کہنا تھا کہ سورج کی روشنی سے جلد پر پڑنے والے زخم اور بچے کی پیدائش میں ہونے والی تکلیف ،پرانی بیماریاں،قدرتی خوراک کی ناپسندیدگی اس بات کے مزید دلائل ہیں۔اس بارے میں ان کی کتاب کا پورا نام HUMANS ARE NOT FROM EARTH: A SCIENTIFIC EVALUATION OF THE EVIDENCE ہے۔وہ کہتے ہیں کہ انسانی جسم میں پائے جانے والے یہ نقائص انسان کے زمینی مخلوق ہونے پر سوال اٹھاتے ہیں۔

مزید ان کا کہنا ہے کہ انسان نشوونما کے اعتبار سے زمین کی اعلٰی ترین مخلوق ہے لیکن یہ مکمل طور پر زمین کے ماحول سے مطابقت نہیں رکھتا۔ان کا کہنا ہے کہ یہ عجیب بات ہے کہ انسان کے بچے کا پیدائش کے وقت سر بڑا ہوتا ہے جس سے پیدائش کا عمل مشکل ہوجاتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ یہ وہ خاصیت ہے جو زمین پر اور جانوروں میں نہیں پائی جاتی۔
ان کا کہنا ہے کہ انسان کو زمین کے ماحول کے مطابق بنایا ہی نہیں گیا جیسا کہ دوسرے جانور ہیں۔وہ دوسرے جانوروں جیسا کہ سوسمار یا لیزرڈ کے برعکس ایک سے دو دن سے زیادہ دھوپ برداشت نہیں کر سکتا۔
مزید ان کا کہنا ہے کہ انسان اکثر بیمار رہتا ہے کیونکہ اس کی جسمانی ساخت صرف پچیس گھنٹے کے حیاتیاتی دورانیے۔۔۔بیالوجیکل کلاک۔۔۔کے مطابق بنی ہے جیسا کہ نیند پر تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کا کہنا ہے۔
دوسرے سائنسدانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ انسان کا وراثتی مادہ یا ڈی این اے زمین سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ یہ کسی اور سیارے یا خلا سے آیا ہے جیسا کہ مذہب کا تصور ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ انسان کسی کہکشاں پر پیدا ہوا اور آج سے چار ارب سال پہلے کسی دمدار ستارے کے ذریعے زمین پر اتارا گیا۔جیسا کہ مذہب کا تصور ہے کہ آدم و حوا کو جنت سے زمین پر اتارا گیا۔
سائنسی نظریہ جس کے مطابق انسانی وراثتی مادہ یا ڈی این اے خلا یا کسی اور سیارے سے تعلق رکھتا ہے،پین سپرمیا۔۔۔۔Panspermia.....کہلاتا ہے۔یہ نظریہ 1871ء میں پیش کیا گیا اور جدید تحقیقات نے اس کو مزید پختگی دی ہے۔
ڈیلی میل کی رپوٹ کے مطابق ابھی تک اس کی براہ راست کوئ گواہی نہیں پای گئ لیکن یہ نظریہ اب حقیقی سائنس سے اتنا دور نہیں رہا جتنا پہلے تھا۔
یونیورسٹی آف واشنگٹن کے پیٹر وارڈ۔۔۔۔Peter Ward....کے مطابق ہو سکتا ہے کہ انسان زمین پر ارتقاء پذیر ہونے کی بجائے مریخ پر پیدا ہوا۔
کافی سارے سائنسدانوں نے آج سے 8•3بلین سال پہلے زندگی کے زمین پر اچانک شروع ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔کچھ سائنسدانوں کا یہاں تک کہنا ہے کہ پوری ملکی وے کہکشاں پر زندگی موجود ہو سکتی ہے۔
یونیورسٹی آف بوکنگھم کے حیاتیاتی فلکیات دان۔۔۔آسٹرو بیالوجسٹ۔۔چندرا وکراما سنگھ۔۔۔Chandra Wikramasinghe کے مطابق زمین لمبا عرصہ دوسرے سیاروں سے نامیاتی و حیاتیاتی مادے کا تبادلہ کرتی رہی ہے۔جیسا کہ مذہب کا تصور ہے کہ آدم کی تخلیق کے لیے زمین سے مٹی لی گئی۔اس نے کئ ایسے سائنسی آرٹیکل پبلش کیے ہیں جس کے مطابق دمدار ستاروں میں خلائ جانداروں کے فوسل اور الجی کی طرح کے جاندار پائے گئے ہیں جو کہ خلا سے زمین پر ان کے ذریعے لائے گئے۔پروفیسر وکرام سنگھ کا کہنا ہے کہ پہلے یہ ایک نظریہ تھا بس لیکن اب ہمارے پاس اس کی سائنسی دلیل موجود ہے۔اس کا کہنا ہے کہ آہستہ آہستہ یہ بات ایک حقیقت بنتی جا رہی ہے۔
ناسا اور یورپین سپیس ایجنسی اس بات پر تحقیق کا اردہ رکھتے ہیں کہ کس طرح زندگی خلا یا کسی اور سیارے سے زمین پر لائ گئی۔
آج کل کئ سائنسدان اس بات پر تحقیق میں مصروف ہیں کہ انسان زمین پر ارتقاء پذیر نہیں ہوا۔ان کا کہنا ہے کہ پیدائش کے وقت انسان کا بچہ ماحول اور زمین سے بالکل مطابقت نہیں رکھتا۔ان کا کہنا ہے کہ اس۔ حوالے سے انسان بن مانس اور گوریلا سے بھی بہت مختلف ہے جن کے بچے آٹھ سے دس سال کی عمر میں مکمل جوان ہوجاتے ہیں۔مزید ان کا کہنا ہے کہ اگر زمین کی کشش ثقل یا گریویٹی موجودہ حالت سے 6•0 جتنی ہوتی تو کرے اور بلی کی طرح انسان کو بھی گرنے سے چوٹ نہ لگتی۔لیکن ایک انسان کا بچہ جو نیا نیا پیدا ہوتا ہے وہ اس کشش ثقل کی وجہ سے روتا چیختا چلاتا ہے جو اس کے جسم میں درد کا احساس پیدا کرتی ہے۔
1972ء میں غاروں کے علوم کے ماہر ۔۔۔۔Peleologist..ایک فرانسیسی مائیکل سیفر۔۔۔Ciffre...نے زمین کے نیچے چھ ماہ گزارے اور اپنے آپ کو دنیا سے بالکل قطع تعلق کر لیا۔اس دوران اس نے اپنے تجربات کا سارا ریکارڈ رکھا۔اسے غار میں اپنے قیام کا 179 واں دن 151 دن لگا۔جس کا مطلب تھا کہ اس نے پورا ایک شمسی نہیں کھو دیا۔اس پر یہ گمان کیا گیا کہ اس کا حیاتیاتی دورانیہ یا بیالوجیکل کلاک زمین کے دن رات کی بجائے کسی اور سیارے سے مطابقت رکھتا تھا۔
انسان واحد زمینی جاندار ہے جس کو سورج کی شعاعوں سے حفاظت نہیں دی گئی۔نہ ہی اس مقصد کے لیے اس کے جسم میں پای جانے والی چکنائ یا فیٹ کی تہہ موٹی ہے۔

1984ء میں سائنسدانوں نے انسانی ڈی این اے پر تحقیق سے دریافت کیا کہ دنیا کے سب انسانوں کی ایک مشترک ماں ہے جو آج سے تین لاکھ پچاس ہزار سال پہلے زندہ تھی لیکن زمین پر انسانی آثار ایک لاکھ سال پرانے ہیں۔اس پر سائنسدان یہی نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ باقی دو لاکھ پچاس ہزار سال انسان کسی اور سیارے پر مقیم گیا جیسا کہ مذہب کا تصور ہے کہ آدم و حوا علیہ السلام جنت میں رہے۔
ان کا کہنا ہے کہ باقی دو لاکھ پچاس ہزار سال انسان جس سیارے پر رہا اس کی گریویٹی یا کشش ثقل زمین کی کشش کا نصف ہے اور اس کی محوری گردش کا دورانیہ تیس گھنٹے ہے۔اس سیارے کا محوری جھکاؤ زیرو تھا اس لیے اس سیارے پر موسم ہمیشہ ایک رہتا۔ وہاں کوئ برفانی یا گلیشیل دور نہیں آیا۔اس کا موسم معتدل تھا۔یہی وجہ ہے کہ انسان اسی سیارے کی خاصیت رکھتے ہیں اور زمین پر ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کو برداشت نہیں کر سکتے۔
دنیا کے کچھ دیگر نامور سائنسدانوں کا بھی یہی کہنا ہے کہ زمین پر زندگی کی ابتدا کے لیے شروع میں دو عناصر نہیں تھے جو زندگی کے لیے لازمی ہیں۔یہ بات ویستھیمر انسٹٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنولوجی فلوریڈا امریکا کے نامور سائنسدان سٹیون بینر نے کی۔ان کا کہنا ہے کہ آر این اے کو زندگی کی تخلیق کی زمین پر ابتدا کا نظریہ نہیں مانا جا سکتا کیونکہ یہ پانی میں تحلیل ہوجاتا ہے۔اس طرح وہ خود زمین کے شروع میں گرم پانی و بالائے بنفشی شعاعوں سے زمین پر زندگی کے آغاز کے نظریے کی تردید کر رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ آر این اے کی تخلیق کے لیے ایک عنصر بورون لازمی ہے اور یہ زمین پر شروع میں نہیں تھا جب کہ مریخ پر موجود تھا۔یہ بعد میں شہابیوں کے ذریعے زمین پر اترا۔بینر کا کہنا ہے کہ پری بائیوٹک گرم شوربے میں زندگی کے آغاز کا نظریہ زندگی کی ابتدا کی وضاحت نہیں کرتا۔ان کا کہنا ہے کہ جب حیاتیاتی عناصر گرمی یا شعاعوں سے متاثر ہوتے ہیں تو یہ آر این اے بنانے کی بجائے ٹار میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اب سائنسدانوں نے زمین پر زندگی کی ابتدا کے نظریے پر سوالات اٹھانا شروع کر دیے ہیں اور ہر گزرتے وقت کے ساتھ نظریہ ارتقاء کم سے کم قابل اعتماد ہوتا جارہا ہے۔بینر کا کہنا ہے کہ زمین پر زندگی مریخ سے آئ۔اب ارتقا کو زمین کی بجائے مریخ پر ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن اب تک کی ساری تحقییق یہ بات ظاہر کر رہی ہے کہ زندگی زمین پر خود بخود پیدا ہونے کی۔ جائے زندگی کے لیے موزوں خلا میں کسی اور مقام پر پیدا ہوئ اور بعد میں اسے زمین پر اتارا گیا جیسا کہ مذہب کا تصور ہے۔

یونیورسٹی آف شیفیلڈ کے پروفیسر وینرائیٹ کا کہنا ہے کہ زمین پر پیدا نہ ہونے والی زندگی مسلسل خلا سے زمین پر اتر رہی ہے۔
اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ جدید سائنسی تحقیقات کے ساتھ ساتھ نظریہ ارتقاء کم سے کم قابل اعتماد ہوتا جارہا ہے اور اب سائنسدان زندگی کی ابتدا کو زمین کی بجائے خلا یا کسی اور سیارے سے واضح کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ایلس سلور کے نظریے پر اعتراضات ھو سکتے ہیں لیکن یہ بحث ظاہر کر رہی ہے کہ سائنس دان ارتقا کی بجائے زندگی کے دوسرے نظریات پر غور کرنے لگے ہیں۔

مکمل تحریر >>

مسلمان سائنسدانوں کا عہد زریں

مسلمان سائنسدانوں کا عہد زریں

عبدالرحمان صوفی، دور خلافت عباسیہ: عبدالرحمان نے ستاروں کی روشنی پیمائش میں اصطلاح کی۔ ابن یونس، دور خلاف عباسیہ: ابن یونس نے آونگ (رقاصہ ساعت) پینڈولم ایجاد کیا۔ اور اس کے جھولنے سے وقت کی پیمائش کی۔

فاطمی خلافت:
اس کے زمانے میں قاہرہ کے کتب خانے میں بیس لاکھ سے زیادہ کتابیں موجود تھیں جن میں سے چھ ہزارصرف ریاضیات، فلکیات اور طبیعیات سے متعلق تھیں۔

اشبیلیہ کا مینار جیرالد :
عظیم ریاضی دان جابر بن افلح کی زیر نگرانی فلکی مشاہدات کے لیے 1198ء میں تعمیر کیا گیا۔ اس کی تعمیر کئی برس میں مکمل ہوئی ۔ یہ اب بھی سپین میں موجود ہے اور اسے اہم تاریخی ورثہ کردانا جاتا ہے۔

بہاء الدین العاملی:
دسویں صدی ہجری کا آخری ریاضی دا ن معلم جس نے الجبرا پر بہت سی کتابیں تصنیف کیں۔

میر ہاشم جیلانی:
انہوں نے محقق طوسی کی کتاب اصول الہندسہ والحساب کی شرح لکھی تھی۔

لطف اللہ المہندس :
لال قلعہ اور جامع مسجد دہلی اور تاج محل آگرہ تعمیر کرنے والے استاد کا بیٹا لطف اللہ نامور مہندس تھا۔ اس نے خلاصتہ الحساب کی شرح لکھی۔ ان کا تعلق لاہور سے تھا۔

ابو عبداللہ محمد بن حسن طوسی:
نامور عالم ہیئت دان‘ ریاضی دان‘ ماہر طبیعیات‘ علم اخلاق ‘ موسیقی اور علوم حکمیہ کا ماہر تھا۔ اس کی فرمائش پر ہلاکو خان نے رصد گاہ تعمیر کروائی تھی۔ 30 سے زیادہ تصانیف کا مصنف تھا۔

قطب الدین شیرازی:
علوم عقلیہ اور نقلیہ کا ماہر سائنسدان تھا بے شمار کتابوں کا مصنف تھا۔ اس نے فلکیات ‘ ارضیات‘ سمندروں‘ فضا میکانیات اور بصریات پر بحث کی ہے۔ اس کے خیال میں زمین مرکز کائنات ہے۔ قوس قزح پر بھی اس نے کھل کر بحث کی۔

کمال الدین الفارسی:
قطب الدین شیرازی کا شاگرد جس نے ہالہ قمر اور قوس قزح کے بارے میں اپنے استاد کے نظریات کو جھٹلایا اور ابن الہیثم کی کتاب کی شرح تصنیف کی۔
محمد بن محمد چغمینی:
علم ریاضی پر ایک مشہور کتاب الخلص فی الہیتہ کے نام سے لکھی۔
الحمیاری، ساتویں / آٹھویں صدی:
ان کا شمار کیمیا دان جابربن حیان کے معلمین میں کیا جاتا ہے۔ ابراہیم الفزاری،

آٹھویں صدی تا 777ئ:
خلافت عباسیہ کے دور میں خلیفہ ہارون الرشید کے تحقیقاتی اداروں سے وابستگی رہی۔ علم فلکیات پر تحقیق و تحریر کیں جن میں اسطرلاب اور سالنامہ کی ترتیب بھی شامل ہیں۔ ہارون الرشید کے کہنے پر یعقوب بن طارق کی شراکت میں ہندوستانی فلکیاتی تحریروں کا عربی میں ترجمہ کیا، یہ کتاب 750ء میں بیت الحکمہ بغداد میں الزیج علی سنی العرب کے نام سے تکمیل کو پہنچی۔

جابر بن حیان721ء تا 815ئ: کیمیا دان، طبیعیات میں کام؛ علم الادویہ میں تحقیق؛ علم الہیئت میں تحقیق

مکمل تحریر >>

کیا کمیونزم اور سوشلزم مذہب مخالف نہیں ہیں؟کیا سوشلزم الحاد اور ملحدین سے کوئ تعلق نہیں رکھتا؟

کیا کمیونزم اور سوشلزم مذہب مخالف نہیں ہیں؟کیا سوشلزم الحاد اور ملحدین سے کوئ تعلق نہیں رکھتا؟
کمیونزم اور سوشلزم کے مذہب دشمن اور ملحدانہ نظریات و اقدامات اور سوشلزم کو مذہب دوست کہنے کے سوشلسٹوں اور کمیونسٹوں کے دھوکا خیز نعرے اور ان کی اصل حقیقت

تحریر۔۔احید حسن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمیونسٹ ریاستوں میں الحاد ہمیشہ عسکری الحاد رہا ہے اور اس الحاد نے سوشلسٹ کمیونسٹ صورت میں ہمیشہ مذہب دشمن اقدامات کیے۔سوشلزم اور کمیونزم جن ممالک میں بھی اقتدار پذیر ہوا وہاں تمام مذاہب پر پابندی لگا کر ملحدین اور الحاد کو ترقی دی گئی،مذہب کو دبا دیا گیا اور لاکھوں کروڑوں مزہبی عمارات تباہ کر دی گئ اور مذہب پسند طبقے اور سرکردہ مذہبی افراد کو قتل،قید اور اغوا جیسی ہولناک سزائیں دی گئیں۔سوشلزم کمیونزم درحقیقت الحاد کی ایک خفیہ،ظالمانہ اور منافقانہ شکل ہے۔
الحاد مارکسزم یعنی سوشلزم اور کمیونزم کا لازمی جزو ہے لیکن عوام کو اپنا ہم خیال بنانے اور سوشلسٹ کمیونسٹ انقلاب کی راہ ہموار کرنے کے لیے سوشلسٹ کمیونسٹ لوگ یہ دھوکا خیز نعرہ لگاتے ہیں کہ مذہب اور سوشلزم میں کوئ تصادم نہیں۔
سوشلزم کمیونزم کے بانی اور انیسویں صدی کے دانشور اور کمیونسٹوں کا باپ اور خدا کا مشہور منکر خفیہ یہودی فری میسن کارل مارکس مذہب کو بے روح لوگوں کی روح اور عوام کی ہیروئن قرار دیتا تھا اور اسے ایک حقیقت کی بجائےسماجی رویوں کے خلاف محض ایک احتجاج قرار دیتا تھا۔مارکس کے مطابق مذہب کی جھوٹی خوشی کا خاتمہ عوام کی حقیقی خوشی کے لئے لازمی ہے۔اس کے مطابق مذہب ایک جھوٹا اور فرضی سورج ہے جس کے گرد مذہبی لوگ تب تک گھومتے رہتے ہیں جب تک وہ اس سے آزاد ہوکر اپنی ذاتی سوچ کے گرد نہیں گھومتے۔ مارکس کے مطابق جہاں مذہب ختم ہوتا ہے وہاں کمیونزم سوشلزم شروع ہوتا ہے۔
مارکس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس کے پہلے نامور کمیونسٹ پیروکار اور دنیا بھر کے کمیونسٹوں اور سوشلسٹ لوگوں کےدوسرے والد اور کروڑوں انسانوں کو سوشلسٹ کمیونسٹ انقلاب کے نام پہ قتل کرنے والے مشہور خفیہ یہودی ولادیمیر لینن نے مذہب کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا۔لینن کے مطابق
"الحاد یعنی خدا اور ہر طرح کے مذہب کا انکار مارکسزم یعنی سوشلزم اور کمیونزم کا فطری اور ناگریز جزو ہے۔مذہب عوام کی ہیروئن ہے اور مارکس کا یہ قول مارکسزم یعنی سوشلزم اور کمیونزم کے سارے فلسفے کا محور ہے۔"
2 اکتوبر 1920ء کی اپنی مشہور تقریر میں بالشویک یعنی روسی سوشلسٹ کمیونسٹ انقلاب کے بعد بالشویکوں سے خطاب کرتے ہوئے لینن نے کہا
"ہم خدا پہ کوئ ایمان نہیں رکھتے۔کسی بھی خدا کی پوجا (نعوذ بااللہ )ایک مردار چیزکی محبت ہے اور کچھ نہیں۔"
نومبر 1913ء کے ایک خط میں لینن نے لکھا
"کوئ بھی مذہبی تصور،خدا کا کوئ بھی تصور یا خدا سے تھوڑا سا بھی تعلق ایک ناقابل اظہار بیوقوفی اور احمق پن ہے،یہ سب سے زیادہ خوفناک احمق پن ہے اور ایک شرمناک انفیکشن ہے۔"نعوذ بااللہ۔
سوشلسٹ کمیونسٹ انقلاب کے بعد سوویت یونین یعنی موجودہ روس میں ٹروٹسکی کے ساتھ مل کر لینن نے ایسے گروہ تشکیل دیے جن کو خدا کے منکرین کا عسکری گروہ یا League Of Militant Godlessکہا جاتا تھا جن کا کام سوویت یونین میں الحادی خیالات کو فروغ دینا اور مذہب کے خلاف پروپیگنڈہ کرنا تھا۔یہ کام پہلے لینن اور بعد ازاں کروڑوں انسانوں کے سوشلسٹ کمیونسٹ قاتل سٹالن اور بعد میں نام نہاد رحم دل سوشلسٹ کمیونسٹ قائد یعنی نیکیتا خورشیف کی زیر نگرانی جاری رہا۔
اپنی مشہور تصنیف The ABC Of Communism میں مشہور سوشلسٹ کمیونسٹ لیڈر نیکولائ بخارن اور ایوگینیائ پرییوبرازنسکی نے مذہب کی ان الفاظ میں شدید مخالفت کی
"کمیونزم سوشلزم مذہب سے بالکل مطابقت نہیں رکھتا اور مذہب اور عوام کی مذہبی پسماندگی کے خلاف جدوجہد صبر اور سوچ سمجھ یعنی چالاکی سے کرنی چاہیے اور مذہب کا اعلانیہ مذاق اڑانے کی بجائے مذہب کے خلاف دوسرا راستہ استعمال کرنا چاہیے ورنہ تشدد کا راستہ الٹا عوام کے دل میں مذہب سے محبت پیدا کرے گا اور ہماری مذہب کے خلاف جدوجہد میں رکاوٹ بن جائے گا۔
اس طرح اس منشور کے مطابق سوشلزم کمیونزم نے مذہب کے خلاف اپنی کاروائ کا طریقہ کار بدل لیا اور مذہب کے خلاف ایک خفیہ اور منافقانہ جدوجہد کا فیصلہ کیا۔یہی وہ منافقانہ جدوجہد ہے جس کے تحت سوشلسٹ کمیونسٹ سوشلزم کو مذہب کے مطابق قرار دے کر درپردہ مذہب کی جڑیں کاٹنے کی کوشش کرتے ہیں جب کہ حقیقت میں سوشلزم کی بنیاد الحاد اور منافقت پہ ہے۔
کمیونسٹ پارٹی اپنا مذہب کے بارے میں منشور طے کرتے ہوئے یہ لکھتی ہے
"اکثر کمزور قسم کے کمیونسٹ سوشلسٹ یہ کہتے ہیں کہ مذہب انہیں کمیونسٹ ہونے سے نہیں روکتا اور وہ مذہب اور کمیونزم دونوں پہ ایمان رکھتے ہیں۔یہ بالکل غلط ہے۔مذہب اور کمیونزم سوشلزم نظریاتی اور عملی دونوں طور پر ایک دوسرے کے بالکل خلاف ہیں۔ہر کمیونسٹ کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ سماجی عوامل خاص قوانین کے تحت وقوع پذیر ہوتے ہیں جن کی بنیاد سائنسی کمیونزم اور تاریخی مادہ پرستی پہ ہے جس کی بنیاد ہمارے عظیم استاد کارل مارکس اور فریڈرک اینجلز نے رکھی ہے۔اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ سماجی ترقی کسی مافوق الفطرت عظیم ہستی یعنی خدا سے نہیں ہوتی اور خدا اور مافوق الفطرت طاقتوں کا تصور انسانی تاریخ کی ایک
سوشلزم کمیونزم کی بنیاد الحاد پہ رکھی گئ ہے ۔لہذا سوشلزم ہر طرح کی مذہبی روایت کے خلاف ہے۔ شروع دن سے ہی سوشلزم کمیونزم کی بنیاد مذہب دشمنی اور الحاد پہ رکھی گئ تھی۔یہی وجہ ہے کہ سوشلزم کو جب بھی عروج اور اقتدار حاصل ہوا،اس نے مذہب کو غارت کر ڈالا خواہ وہ کمیونسٹ سوشلسٹ سوویت یونین ہو خواہ چین ہو خواہ کوئ اور سوشلسٹ ریاست ہو۔لیکن کمیونسٹ سوشلسٹ لوگ عوام سے جھوٹ بول کر ان کو بیوقوف بنانے کی کوشش کرتے ہیں کہ سوشلزم مذہب کے خلاف نہیں ہے اور اس کا الحاد اور ملحدین سے کوئ تعلق نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ سوشلزم کمیونزم الحاد کی ایک منافقانہ شکل ہے۔
اور یہ تصور تب ختم ہونے لگتا ہے جب اس کی عملی زندگی میں کوئ اہمیت سامنے نہیں آتی جب کہ سائنسی کمیونزم مذہب کے بالکل خلاف ہے۔
اور سوشلسٹ کمیونسٹ ہمیشہ اپنی عملی زندگی میں ایک ملحد کے طور پہ رہتا ہے۔کمیونسٹ پارٹی اپنے ارکان سے مذہب کے بارے میں یہی الحادی رویہ اپنانے کی تلقین کرتی ہے۔ایک کمیونسٹ جو مذہبی تصورات کو مسترد کردیتا ہے اور کمیونسٹ پارٹی کی ہدایات کے مطابق چلتا ہے وہ ایمان والا نہیں رہتا جب کہ جو مذہب پہ چلے وہ کمیونسٹ نہیں ہوسکتا۔لہذا سوشلزم سے کمیونزم اور سرمایہ دارانہ نظام سے کمیونزم اور تمام سماجی طبقات کے فرق کا خاتمہ سوشلزم کی طرف سے ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے گا جس میں تمام مذہب اپنی فطری موت مر جائیں گے۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم مذہب کے خاتمے کا انتظار کرنے بیٹھ جائیں بلکہ ہم اس کے لیے جدوجہد کریں گے۔
اگر لینن عیسائیت سے چمٹا رہتا اور جنگ نہ لاتا تو وہ کمیونسٹ انقلاب لا سکتا تھا؟کیا عیسائیت کے محبت کے تصور کے جذبے کے تحت چل کر سرمایہ کاری کا خاتمہ ممکن تھا؟ بالکل نہیں۔
فریڈرک اینجلز کے مطابق تاریخ کی مادہ پرستانہ قبولیت تمام مذہب کا خاتمہ کردیتی ہے اور یہ بات کمیونسٹ پارٹی کے کسی بھی سوشلسٹ کمیونسٹ رکن کے دل میں مذہب کی کوئ گنجائش باقی نہیں چھوڑتی۔اگر ہم مذہب اپنا لیں گے تو اس کا انجام تباہ کن ہوگا۔
میں سب کامریڈز یعنی سوشلسٹ کمیونسٹ افراد کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ ایک عیسائ یا مذہبی سوشلسٹ کمیونسٹ کمیونسٹ نہیں ہوسکتا بلکہ کمیونزم کا دشمن ہے اور میں آگے وہ کہنا چاہتا ہوں جو کامریڈ ٹروٹسکی نے کہا تھا یعنی ہم ہر اس شخص کے خلاف بے رحم اقدامات کریں گے جو مذہب کو کمیونزم سے ملانے کی کوشش کرے گا۔مذہب مارکسزم یعنی سوشلزم اور کمیونزم سے بالکل متصادم ہے اور الحاد ایک انقلابی سوشلسٹ کمیونسٹ رکن کی زندگی کا لازمی اور ناگریز جزو ہے
منجانب:لیسلی میزن
بیرو برانچ
کمیونسٹ ریویو"
کمیونسٹ پارٹی کا یہ منشور ظاہر کر رہا ہے کہ سوشلزم کمیونزم کی بنیاد مذہب کی مخالفت پہ ہے اور مذہب کا خاتمہ اور الحاد کو فروغ سوشلزم کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے۔لہذا جب سوشلسٹ کمیونسٹ کمیونزم کو مذہب کے عین مطابق قرار دیتے ہیں تو وہ محض عوام سے جھوٹ بول کر ان کو اپنا ہم خیال بنانے اور اپنا منافقانہ الحاد چھپانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔
1955ء میں چینی کمیونسٹ سوشلسٹ لیڈر زو اینلائ نے کہا کہ ہم سب کمیونسٹ سوشلسٹ ملحد ہیں۔2015ء میں چین کی کمیونسٹ پارٹی نے یہ بات لازم کردی کہ اس کے سارے رکن ملحد ہوں گے۔
کارل مارکس سے چین تک سوشلزم کمیونزم کے سب قائدین اور عالمی کمیونسٹ پارٹی کا منشور ثابت کر رہا ہے کہ سوشلزم کمیونزم کی بنیاد مذہب کے انکار اور مذہب کی مخالفت پہ ہے۔لہذا سوشلزم کسی طرح بھی مذہب دوست نہیں ہوسکتا اور سوشلسٹوں کمیونسٹوں کی سوشلزم کو مذہب کے عین مطابق قرار دینے کی ساری باتیں منافقت،جھوٹ اور دھوکا خیزی پہ مبنی ہے۔
سوشلزم کمیونزم کو جہاں اور جب بھی عروج حاصل ہوا اس نے مذہب کا خاتمہ کیا اور الحاد کو فروغ دیا۔کمیونسٹ سوشلسٹ سوویت یونین میں سوشلسٹ کمیونسٹ انقلاب کے پہلے پانچ سالوں میں کمیونسٹ لیڈر ٹروٹسکی کے حکم پہ 28 عیسائ بشپ اور 1200 پادری قتل کیے گئے۔جب 1927ء میں سٹالن برسر اقتدار آیا تو اس نے گینرخ یگوڈا کے نام سے مذہب کے خلاف اپنی ایک خفیہ الحادی پولیس بنائ جس کا کام مذہب کے قائل مسلمانوں اور عیسائیوں کو چن چن کر قتل کرنا اور سوویت یونین سے مذہب کا خاتمہ کرکے الحاد کو فروغ دینا تھا۔لاکھوں مسلمانوں،عیسائیوں اور ہزاروں مذہبی قائدین کو قتل کیا گیا اور اکثر کو خوفناک اور حیوانی تشدد کرکے قتل کردیا گیا۔نیکولائ خمارہ نام کے ایک عیسائ کی زبان کاٹ کر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔پچاس لاکھ عیسائیوں اور ستر لاکھ مسلمانوں کو مزدور اور عوام دوست جھوٹے اور دھوکا خیز نعرے لگانے والے سوشلسٹوں کمیونسٹوں نے قتل کر ڈالا۔مذہب کے خاتمے کے لیے مذہب دشمنی اور الحاد پہ مبنی میوزیم کھولے گئے۔مساجد،مدارس،گرجا گھر تباہ کر دیے گئے اور ان کو ڈانس ہال اور دفاتر کی شکل دے دی گئ اور عوام کو زبردستی ملحد بنانے کی کوشش کی گئ جس سے سوویت یونین کی دو تہائی آبادی ملحد ہوگئ۔
چین ایک سوشلسٹ کمیونسٹ ریاست ہے۔1999ء میں کرسچن سنچری کی رپورٹ کے مطابق چین مذہب کے پیروکاروں کو خوف،قید،جبری مشقت اور قتل و غارت کا نشانہ بنا رہا ہے اور پولیس زبردستی مذہبی عبادت گاہیں بند کرا رہی ہے اور صرف گنتی کی چند عبادت گاہوں کی سرکاری سرپرستی میں چلنے کی اجازت ہے۔ کئ محققین جیسا کہ کینیڈا کے انسانی حقوق کے وکیل ڈیوڈ متاس اور تفتیشی صحافی ایتھان گٹمین کے مطابق چین میں ہزاروں مذہبی قیدیوں کو قتل کر کے ان کے جسمانی اعضاء سمگل کیے گئے ہیں۔
شمالی کوریا ایک سوشلسٹ کمیونسٹ ریاست ہے اور اس نے تمام مذاہب پہ پابندی لگا کر الحاد کو ریاست کا مذہب قرار دے رکھا ہے۔شمالی کوریا کی سوشلسٹ کمیونسٹ حکومت نے ہزاروں گرجا گھر،مساجد تباہ کردی ہیں اور دولاکھ سے زائد مذہب پرست مسلمانوں اور عیسائیوں کو قید میں ڈال کر جبری مشقت،ظلم،تشدد اور بھوک سے قتل کر ڈالا ہے اور ذرائع ابلاغ،مذہبی آزادی پر پابندی لگا رکھی ہے۔
رومانیہ میں سوشلسٹ کمیونسٹ دور حکومت میں مذہب پہ پابندی لگا کر الحاد کو ریاست کا منشور قرار دیا گیا اور لاکھوں مذہب پوسٹ مسلمانوں اور عیسائیوں کو قتل کردیا گیا۔مذہب کے حامی لوگوں کو گرم لوہے کے راڈوں سے داغا گیا،ان پر قید خانے میں بھوکے چوہے چھوڑے گئے تاکہ وہ نیند نہ کر سکیں،ان کے جسم میں کیل ٹھونکے گئے،ان کو سردی کی اذیت دینے کے لیے برف اور ریفریجریٹر میں ڈال دیا جاتا۔
البانیہ میں سوشلسٹ کمیونسٹ دور حکومت میں مذہب پہ پابندی لگا کر الحاد کو ریاست کا منشور قرار دیا گیا اور مذہب پسندوں پر انسانیت سوز مظالم کیے گئے۔
کمبوڈیا میں سوشلسٹ کمیونسٹ لیڈر پول پاٹ نے وہاں کے اکثریتی مذہب بدھ مت پر پابندی لگادی،بدھ مت لوگوں،عیسائیوں اور مسلمانوں سے حیوانوں والا سلوک کیا گیا۔مسلمانوں کو سور کا گوشت کھانے پہ مجبور کیا گیا اور انکار کرنے والوں کو قتل کر دیا گیا۔
خواہ فیدل کاسترو ہو،یا لینن،سٹالن ہو یا موزے تنگ،پول پاٹ ہو یا ٹروٹسکی،سوشلزم کمیونزم نے ہمیشہ مذہب دشمن رویہ اختیار کیا اور اپنے اقتدار کے صرف ایک سو سالوں میں ایک کروڑ سے زائد مذہبی انسان ان ملحدین نے سوشلسٹ کمیونسٹ انقلاب کے نام پہ مار ڈالے اور اب یہ لوگ یہ سب ظلم و ستم،قتل و غارت اور نسل کشی چھپا کر عوام سے جھوٹ بولتے ہیں کہ سوشلزم مذہب دوست،عوام دوست اور مزدور دوست ہے۔یہ انتہا درجے کے منافق،ملحد،ظالم اور قاتل ہیں۔ان کی حقیقت اس مضمون میں بیان کیے جانے والی تحقیقات سے جان لیں اور کبھی ان کے دھوکے میں نہ آئیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ان کے مظالم کو چھپا دیا جاتا ہے،نہ ہی نصابی کتابیں اور نہ ہی نام نہاد ہر خبر سے واقف دجالی،غدار اور منافق اور فار سیل میڈیا یہ ظلم عوام کے سامنے بیان کرتا ہے اور اس لیے عوام اب تک سوشلزم کمیونزم کے جھوٹے مذہب دوست،مزدور درست اور عوام دوست نعروں میں مبتلا ہوکر ان کے دھوکے کا شکار ہورہی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس ظالمانہ،قاتل اور الحادی نظام پر پوری دنیا کے مذاہب پابندی لگائیں اور ان سے ان کروڑوں مذہبی انسانوں کے قتل کا حساب اور انتقام لیں جن کو ان لوگوں نے سوشلسٹ کمیونسٹ انقلاب کے نام پہ قتل کر ڈالا اور ان پہ وہ ظلم کیے جو انسانی تاریخ میں اج تک نہیں کیے گئے تھے۔
حوالہ جات:

http://victimsofcommunism.org/the-war-on-religion/
https://www.marxists.org/…/communist_revi…/1924/02/mason.htm
http://www.conservapedia.com/Communism_and_religious_persec…
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Marxism_and_religion
https://www.marxists.org/archive/bukharin/works/…/abc/11.htm
مکمل تحریر >>

مارکسزم(سوشلزم اور کمیونزم) اور ڈارونزم(نظریہ ارتقاء یا تھیوری آف ایوولوشن) کا دنیا میں الحاد کو فروغ دینے اور اس پر الحادی تسلط کے لیے آپس میں اتفاق اور ڈارونزم کی اصل حقیقت

مارکسزم(سوشلزم اور کمیونزم) اور ڈارونزم(نظریہ ارتقاء یا تھیوری آف ایوولوشن) کا دنیا میں الحاد کو فروغ دینے اور اس پر الحادی تسلط کے لیے آپس میں اتفاق اور ڈارونزم کی اصل حقیقت
اقتباس:کتاب نظریہ ارتقا ایک دھوکہ(The Evolution Deceit)
مصنف:ہارون یحییٰ
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
کچھ لوگوں کےلئے نظریہ ارتقاءیا نظریہ ڈارون کا مفہوم صرف سائنسی ہے جس سے ان کی زندگی پرکوئی خاص یا براہِ راست اثر نہیں پڑتا۔ یہ ایک عام غلط فہمی ہے۔ نظریہ¿ ارتقاءصرف ایک حیاتیاتی سائنس کے دائرے میں رہنے والا مسئلہ نہیں بلکہ مادّیت جیسے پر دھوکہ فلسفہ کی بنیاد ہے جو لاکھوں لوگوں کے دلوں پر حکومت کررہا ہے۔
نظریہ ارتقاءیا نظریہ ڈارون اس موقع پر اس پہیلی کو حل کرنے میں کام آتا ہے کیونکہ اس نظریے کے مطابق مادیت ایک سائنسی خیال ہے۔ اسی لئے اشتراکیت اور جدلیاتی مادیت کے بانی کارل مارکس نے اپنے عالمی جائزے کے لئے لکھا ہے کہ نظریہ ڈارون قدرتی تاریخ کی بنیاد ہے۔ لیکن یہ درحقیقت ایک گلی سڑی بنیاد ہے کیونکہ جدید سائنسی دریافت اور تحقیقات نے بارہا ثابت کردیا ہے کہ ڈارون کے نظریے اور سائنس کے مابین یہ مقبول تعلق سراسر جھوٹ ہے۔
کارل مارکس نے اس بات کو واضح کردیا کہ نظریہ ڈارون مادہ پرستی اور اشتراکیت کی ٹھوس بنیاد ہے- ڈارون سے اپنی ہمدردی کے اظہار کے طور پر اس نے اپنی سب سے اہم تصنیف تصور کی جانے والی کتاب ”ڈاسکیپیٹا“ کو بھی ڈارون کے نام وقف کردیا۔ کتاب کی جرمن اشاعت میں اس نے لکھا ہے۔ ”ایک وفادار مداح کی طرف سے چارلس ڈارون کے لئے“
سائنسی تحقیق نظریہ ڈارون کو تفصیلاً غلط ثابت کرتی ہے اور بار بار اس حقیقت کو باور کراتی ہے کہ جانداروں کا وجود تدریجی ترقی سے نہیں بلکہ تخلیق کے عمل سے واقع ہواہے۔ اﷲ تعالیٰ نے تمام کائنات اور اس میں موجود ہر جاندار اور انسان کو پیدا کیاہے۔ اس کتاب کا مقصد اس حقیقت کو لوگوں تک پہنچانا ہے۔ اس کتاب کی پہلی اشاعت ترکی میں ہوئی اور اس کے بعد سے کئی ممالک میں لاکھوں لوگوں نے اس کتاب کو پڑھا اور سراہا ہے۔ ترکی زبان کے علاوہ یہ کتاب انگریزی، جرمن، اتالوی، ہسپانوی، روسی، چینی، لوسنین، عربی، آلبینین اردو، ملائے اور انڈونیشین زبانوں میں مترجم ہوچکی ہے۔ اس کتاب کو انٹرنیٹ کے اس پتے سے مفت پرنٹ کیا جاسکتا ہے: www.evolutiondeceit.com کتاب ارتقائی دھوکے کے مخالف نظریات رکھنے والے افراد بھی معترف ہیں۔
اس کے مصنف ہارون یحییٰ نیوسائنٹسٹ رسالے کے مضمون برننگ ڈارون، یا ڈارون کاجل جانا کا موضوع تھے۔ اس مشہور رسالے کی 22 اپریل 2000ء کی اشاعت نے ہارون یحییٰ کو ایک عالمی ہیرو کا خطاب دیتے ہوئے اس بات پر پریشانی کا اظہار کیا کہ ان کی کتابیں اسلامی دنیا کے ہر کونے میں پھیل گئی ہیں۔ سائنسی دائروں کے مشہور جرےدے سائنس نے ہارون یحییٰ کی کتابوں کے نمایاں اثرات اور تصنع کو خاص طور پر سراہا ہے۔ اس جریدے کے 18مئی 2001ء کے مضمون یورپ اور ایشیاءکے ملاپ پر تخلیق کی جس کے مطابق ترکی میں ہارون یحییٰ کی کچھ کتابیں مثلاََ ’ ارتقائی دھوکہ اور نظریہ ڈارون کاسیاہ چہرہ‘ ملک کے کچھ حصوں میں نصابی کتابوں سے زیادہ مقبول ہوگئی ہیں۔ اس مضمون کا مصنف مزید یہ بھی کہتا ہے کہ ہارون یحییٰ کی کتابوں نے شمالی امریکہ سے باہر دنیا کی مضبوط ترین خلافِ ارتقاءتحریکوں کی بنیاد ڈالی ہے۔اگرچہ یہ تمام سائنسی جریدے ارتقائی دھوکے کے اثرات کے معترف ہیں لیکن پھر بھی یہ ان کتابوں میں موجود بحث کا کوئی سائنسی جواب دینے سے قاصر ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کےلئے ایسا کرنا ممکن ہی نہیں۔ نظریہ ارتقاءایک مکمل تعطل کا شکار ہے اور اس کا ثبوت اس کتاب میں واضح طور پر پیش کیا گیا ہے۔ پڑھنے والے خود اندازہ کرلیں گے کہ نظریہ ڈارون ایک سائنسی نظریہ نہیں بلکہ ایک ایسا نیم سائنسی عقیدہ ہے جو کہ اختلافی تردید اور کھلی تردید کے باوجود فقط مادیت کے سہارے کھڑا ہے۔ ہماری امید ہے کہ یہ کتاب لمبے عرصے تک ان تمام مادیت پسند نظریہ ڈارون کے عقیدوں کی تردید کا کام انجام دیتی رہے گی جو کہ انیسویں صدی سے اب تک انسانیت کو گمراہ کررہے ہیں۔ان عقیدوں کی تردید کے ساتھ یہ کتاب لوگوں کو ان کے خالق کی پہچان کروانے کے علاوہ اس کی خوشنودی اور قرب حاصل کرنے کی اہم ذمہ داری بھی باور کروائے گی۔
زمین پر رہنے والی لاکھوں جاندار نسلیں معجزاتی اوصاف، بے نظیر عادات اور بے عیب طبعیاتی ساخت کی حامل ہیں۔ ہر نسل اپنی مخصوص تفصیلا ت اور خوبصورتی کے ساتھ تخلیق کی گئی ہے۔ نباتات، حیوانات اور سب سے بڑھ کر انسان ایک زبردست تخلیق کار کے فن کا منہ بولتا ثبوت ہےں۔ ہر عضو اور خلیہ بہترین اور مکمل ہے۔ کئی سائنسدان جانداروں کی تخلیق سے متعلق معجزات پر تحقیق سے سخت حیرانی کا شکار ہیں۔ خاص طور پر جب وہ اس تمام تخلیق کے پیچھے اس لامحدود دانشمندی اور فہم و فراست کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں جس نے یہ سب معجزات مکمل بنائے۔
لیکن ارتقائ پروفیسران کا کہنا ہے کہ پہلے کچھ سادہ کیمیائی اجزاءکے ملنے سے نامیات وجود میں آئے۔ یہ بات اسی طرح ہے کہ اگر کوئی یہ کہے کہ الفاظ خود بہ خود کہیں سے جمع ہوکر ایک نظم کی شکل اختیار کرگئے۔ پھر پے در پے دوسرے اتفاقات سے دوسرے نامیات وجود میں آئے۔ یہ تمام نامیات اس طرح منظم طریقے سے ملتے گئے کہ انہوں نے کروموسوم، رائیبونیوکلیک ایسڈ، خامرہ، ہارمون اور خلیوں جیسی پیچیدہ اشکال اختےار کر لےں۔ ان پیچیدہ اشکال نے مزید اندھے اور معجزاتی اتفاقات کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلے خلیئے کو تشکیل کردیا۔ یہ اندھا اتفاق یہاں پر نہیں رکا بلکہ یہ خلیئے پھر خود بہ خود ہی ضرب ہوتے ہوتے پہلے جاندار کی شکل اختیار کرگئے۔ اس ایک جاندار کی صرف ایک آنکھ کے وجو میں آنے کے لئے کروڑوں ناممکن واقعات کا پیش آنا لازمی تھا۔ ارتقاءپسندوں کے مطابق یہاں پر بھی اندھے اتفاقات کا پورا پورا ہاتھ ہے مثلاََ اس ایک آنکھ کا سر کے چوکھٹے میں مناسب جگہ پر فٹ ہونا اور پھر کھوپڑی میں دو صحیح پیمائش کے سوراخوں کی موجودگی جس میں آنکھیں بہترین طریقے سماجائیں وغیرہ وغیرہ۔
اتفاقات صرف ان چیزوں کو بنانے میں پیش آسکتے ہیں جن کے بارے میں وہ جواب دہ ہوں۔ اتفاق کو کیسے پتہ تھا کہ دیکھنا، سننا، سونگھنا اور سانس لینا کیا ہوتا ہے جب کہ اس وقت زمین پر کوئی جاندار ان حرکات کے عملی ثبوت کے طور پر موجود ہی نہیں تھا؟لیکن اتفاق نے روئے زمین پر کسی جاندار کے نہ ہونے کے باوجودزندگی کے بارے میں مکمل علم اور دانشمندی کا بھرپور مظاہرہ کیا اور جانداروں کے متعلق ہر عمل اور قدم کو نہایت سوچ بچار کے بعد اٹھایا۔ یہ ساری دلیلیں اور جانداروں کے متعلق منظر کشی مضحکہ خیز نہیں تو اور کیا ہے۔ اس منظر کشی میں نامور اساتذہ، سائنسدانوں اور تحقیق کاروں کے ناموں کا شامل ہونا ان کی عزت کو گھٹادیتا ہے جوکہ ایک بچکانہ ضد کی طرح ان لوگوں سے اختلاف کرتے ہیں جو ان کی رام کہانیوں پر یقین کرنے سے انکار کرتے ہیں اور الٹا ان ہی لوگوں پر غیر سائنسی اور متعصب ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔ ایسے ہٹ دھرم لوگوں کے درمیان اور ان کٹر، شدت پسند اور جاہل قرونِ وسطیٰ ذہنیت رکھنے والوں میں کوئی فرق نہیں ہے جو اپنے دور میں لوگوں کو صرف اس لئے سزا کا مستحق ٹھہراتے تھے کیونکہ وہ اس بات پر یقین کرنے سے انکار کرتے تھے کہ دنیا چپٹی ہے۔ مزید افسوس کی بات تو یہ ہے کہ نظریہ ارتقاءپر یقین رکھنے والے لاتعداد لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور اﷲ پر یقین کا دعویٰ بھی کرتے ہیں ان لوگوں کے نزدیک ’ اﷲ نے تمام زندگی تخلیق کی ہے۔
اگر انہی لوگوں کے سامنے ایک لکڑی کا بت رکھ دیا جائے اور ان سے کہا جائے کہ اس بت نے کمرے میں موجود ہر چیز کو تخلیق کیا ہے تو وہ اس بات کو صریحاً فضول قراردیتے ہوئے اس پر یقین کرنے سے مطلق انکار کردیں گے ۔لیکن افسوس کہ یہ لوگ اس دعوے کو ایک زبردست سائنسی جواز سمجھتے ہیں کہ دنیا میں کروڑوں جاندار نسلیں جو کہ شاندار اور غیر معمولی نقشوں کا نشان دیتی ہیں وہ دراصل اتفاق جیسے بے شعور عمل کا نتیجہ ہیں۔
یہ لوگ اتفاق کو خد اکا درجہ دیتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ ایک ہوشمند ‘ باشعور اور اتنا طاقتور واقعہ ہے کہ یہ کائنات کے نازک توازن اور اس میں موجود ہر جاندار کو وجود میں لانے کا اہل ہے۔ جب ان کو بتایا جاتا ہے کہ دراصل اﷲ نے اپنی وسعت ِعلم و فراست، طاقت اور مرضی سے تمام کائنات اور اس میں موجود جانداروں کو پیدا کیا ہے تو یہ ارتقائی پروفیسران اس حقیقت کو ماننے سے صاف انکار کردیتے ہیں اور اس بات پر مصر رہتے ہیں کہ بے شعور، بے عقل اور بے جان اتفاقات ہی اس کائنات اور جانداروں کے پےچھے تخلیقی طاقت ہیں۔ نظریہ ڈارون ایک عظیم دھوکہ ہے جو کہ کسی بھی قسم کی منطق اور جواز سے مطابقت نہیں رکھتا۔ یہ وہ نظریہ ہے جو اپنے تمام ہٹ دھرم حمایتیوں کو بے عزت کردیتا ہے۔
مکمل تحریر >>

ارتقائی سائنسدانوں اور ارتقا کے حامیوں کا غیر سائنسی تعصب اور ضد

ارتقائی سائنسدانوں اور ارتقا کے حامیوں کا غیر سائنسی تعصب اور ضد
اقتباس: کتاب ارتقا ایک دھوکہ
مصنف: ترک سکالرہارون یحییٰ
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
دنیا میں اکثر لوگ سائنسدانوں کی ہر بات کو حرف آخر کا درجہ دیتے ہیں۔ ان کو یہ خیال کبھی نہیں آتا کہ سائنسدانوں کے بھی الگ فلسفے اور فکریاتی تعصب ہوسکتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ارتقائی سائنسدان دراصل اپنے ذاتی فلسفے اور تعصبات عام لوگوں کے اوپر سائنس کے نام پر مسلط کرتے ہیں۔ مثلاً ان سائنسدانوں کو اچھی طرح سے پتہ ہے کہ ارتقائی حالات بدنظمی اور پریشانی کے علاوہ اور کچھ پیدا کرنے کے اہل نہیں ہیں لیکن پھر بھی وہ ضد کرتے ہیں کہ کائنات اور اس میں موجود جانداروں کا زبردست نظام، نقشہ اور منصوبہ محض اتفاق کا نتیجہ ہے۔ ارتقائی نوعیت کے ماہرِ حیاتیات کے لئے یہ بات سمجھنا بہت آسان ہے کہ کسی بھی جاندار کی بنیادی نامیاتی اکائیوں میں اس قدر حیران کن نظم ہے کہ ان کے محض اتفاق سے وجود میں آنے کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس حقیقت کو جاننے کے باوجود یہ سائنسدان پھر بھی ٹھوس دعوے کرتا ہے کہ یہ نامیاتی اکائیاں زمین کے قدیم ماحولیاتی اثرات کے زیر اثر اتفاق سے کروڑوں سال پہلے وجود میں آئیں۔ یہ مزید کسی شک و شبہ کے یہ بھی دعویٰ کرتاہے کہ یہ اکائیاں پھر حیرت انگیز طور پر آپس میں باہمی تعلق کے ذریعے پہلے خلیئے میں تبدیل ہوگئیں۔ اپنے ان دعوﺅں کی وہ ہٹ دھرمی اور اندھی ضد سے حمایت کرتا ہے۔ یہ ایک ارتقائی سائنسدان کی مثال ہے جوکہ حقیقت کو سمجھنے کے باوجود اپنے ذاتی فلسفے کو لوگوں پر مسلط کرتا ہے۔ سائنسدان چونکہ لوگوں پر ایک عقلمند فرقہ ہونے کا تاثر چھوڑتے ہیں اس لئے یہ سائنسدان اپنے پیشے کے اس تاثر کا پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اگر یہی سائنسدان سڑک پر تین ایک کے اوپر ایک رکھی ہوئی اینٹوں کو دیکھیں وہ کبھی بھی اس بات پر یقین نہیں کریں گے کہ یہ اینٹیں اتفاقاً اس طرح ہوگئیں۔ اس طرح کی کوئی بات کہنے والا پاگل قراردیا جائے گا۔ اسی لئے یہ صورتحال اور بھی مضحکہ خیز ہے کہ یہی لوگ جو عام حالات میں عام واقعات کے منطق کو تو سمجھ لیتے ہیں پر اپنے وجود کے متعلق ایسی ہی منطق کو سمجھنے سے صاف انکار کردیتے ہیں۔ یہ رویہ سائنسی ہرگز نہیں ہوسکتا کیونکہ سائنس کا قانون ہر واقعہ کے دونوں پہلو پرکھنے پر زوردیتا ہے اس سے پہلے کہ کوئی حتمی نتیجہ اخذ کیا جائے۔ اگر ایک پہلو کا امکان ۱ فیصد ہو اور دوسرے کا امکان 99 فیصد ہو تو پھر زیادہ امکان والا پہلو ہی نتیجہ قراردیا جاتا ہے۔
جانداروں کے وجود میں آنے سے متعلق دو نظریئے عام ہیں۔ پہلا تو یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے تمام جانداروں کو ان کی بے عیب اور پیچیدہ ساخت کے ساتھ تخلیق کیا۔دوسرا نظریہ یہ ہے کہ زندگی بے ترتیب اور بے شعور اتفاقات کا نتیجہ ہے ۔یہدوسرا نظریہ ڈارون کے نظریئے یا نظریہ ارتقاءکا دعویٰ ہے۔ اگر اکائیوں کی حیاتیات کا سائنسی تحقیق کی روشنی میں غیر جانبدارانہ معائنہ کیا جائے تو عقل اس بات کو تسلیم کرہی نہیں سکتی کہ جانداروں کے جسم کا واحد خلیہ اور اس خلیئے میں موجود لاکھوں نامیات کسی ایسے اتفاق کا نتیجہ ہوسکتے ہیں جس کا دعویٰ ارتقاءپسندوں کو ہے۔ اس حقیقت کو ماننے کے لئے صرف ایمان کا ہونا ہی لازم نہیں بلکہ یہ حقیقت حکمت، منطق اور سائنسی رو سے بھی اپنے آپ کو منواتی ہے۔
ان تمام حالات کے پیش نظر ارتقائی سائنسدانوں کو اصولاً اپنے غیر منطقی دعوﺅں سے دست بردار ہوکر اصل حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہئے۔ ایسا نہ کرنے سے وہ اپنے آپ کو ایسے انسان ثابت کرتے ہیں جو کہ اپنے ذاتی فلسفے، عقیدے اور فکریات کوسائنس کے نام پر فروغ دے رہے ہیں۔ اصل سائنس کا ان کے نظریات سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ جیسے جیسے یہ سائنسدان حقیقت کا سامنا کرتے ہیں ان کا غصہ، ضد اور متعصبات بڑھتے جاتے ہیں۔ ان کے اس طرزِ عمل کی وجہ صرف اور صرف ان کاعقیدہ ہے جو کہ فقط ایک اندھا اور تہماتی عقیدہ ہے۔ اس عقیدے کو کسی اور لفظ میں بیان نہیں کیاجاسکتا کیونکہ اس کے ہاتھوں وہ اپنے ذہن کی ایک غیر منطقی دلیل پر جمے رہنے پر مصر ہیں حالانکہ سائنس اور سارے حقائق ان کو ہر طرح کے مضادثبوت پیش کرتے ہیں۔
ترکی کے ایک نامور ارتقائی ماہرِ حیاتیات کی لکھی ہوئی کچھ باتیں ارتقاءسے متعلق غیر منظم فیصلوں اور اس کے نتیجے میں پیش آنے والے حالات پر روشنی ڈالتی ہیں۔ یہ سائنسدان زندگی کے اہم ترین لحمیہ سائٹوکروم۔ سی کے اتفاقاً وجود میں آنے کے بارے میں ممکنہ توجیح پیش کرتا ہے۔
”سائٹو کروم۔ سی کے سلسلے کا اتفاقاً وجود میں آجانے کا امکان صفر ہے۔ اگر زندگی کو کسی ایسے حیاتیاتی سلسلے کی ضرورت ہوتی ہے تو یہ سلسلہ پوری کائنات میں صرف ایک دفعہ ہی وجود میں آسکتا ہے۔ اس کی تخلیق میں کسی ایسے مابعدالطبعیاتی طاقت کا ہاتھ ہے جو کہ ہماری سمجھسے بالا ترہے۔ چونکہ سائنس اس دوسری صورتحال کو قبول نہیں کرتی اس لئے ہمیں پہلے مفروضے کو منظور کرنا پڑتا ہے.“ ۲
اس سائنسدان کے نزدیک اس مفروضے کو منظور کرنا زیادہ مناسب ہے جس کے درست ہونے کے امکان صفر ہے بجائے اس کے کہ وہ تخلیق پر ایمان لائے ہوتے اپنے عقیدوں سے دست بردار ہو۔ سائنس کے اصولوں کے تحت اگر کسی صورتحال کے متعلق دو مخالف بیانات موجود ہوں جن میں ایک کا امکان صفر ہو تو پھر دوسرا مفروضہ ہی درست ہوتا ہے۔ لیکن ارتقاءپسندوں کی مادیت پرستی ان کو تخلیق کی حقیقت سے مکمل طور پر منکر رکھتی ہے۔ نہ صرف یہ سائنسدان خود تخلیق کو جھٹلاتے ہیں بلکہ اپنے ساتھ لاکھوں لوگوں کو بھی گمراہی کے راستے پر لگائے رکھتے ہیں جبکہ ان کا عقیدہ واضح طور پر غیر منطقی اور غیر دانشمندانہ ہے۔ جو لوگ ان سائنسدانوں پر اعتماد کرتے ہیں وہ مادیت کے اس اسرار اور سحر انگیزی کی دھند میں داخل ہوکر اسی طرح کا بے توجہ اور بے اہمیتی کا رویہ اپنالیتے ہیں جس کی تلقین ان سائنسدانوں کی لکھی ہوئی کتابیں اور مضمون ان کو کرتے ہیں۔
یہ اسی مادہ پرست نقطہ نظر کا نتیجہ ہے کہ سائنسی حلقوں کے بڑے بڑے نام دہریہ ہیں۔ جو لوگ اپنے آپ کو اس اسرار سے آزاد کرلیتے ہیں اور کھلے دماغ سے سوچتے ہیں وہ اپنے خالق کا اعتراف کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ امریکن ماہرِ حیاتیاتی کیمیا ڈاکٹر مائیکل بیہی کا نام تخلیق کی حقیقت کے حامیوں میں سرفہرست ہے۔ ڈاکٹر بےہی نے ان مادہ پرست سائنسدانوں کے متعلق اپنی رائے کا اظہار مندرجہ ذیل الفاظ میں کیا ہے۔
”پچھلی چار صدیوں میں جدید حیاتیاتی کیمیا کی تحقیق کے ذریعے خلیوں کے تمام راز آشکار ہوچکے ہیں۔ لاکھوں لوگوں نے اپنی زندگیوں کے بہترین سال اس محنت طلب کام میں وقف کردیئے ہیں۔ لحمیاتی سطح پر زندگی کی تحقیق کا نتیجہ ایک زوردار ’ تخلیق !‘کے نعرے کی صورت میں موصول ہوا ہے۔ یہ نتیجہ اس قدر غیر مبہم اور اہم ہے کہ اس کو سائنس کی تاریخ کی سب سے زبردست کامیابی قرردیا جاسکتا ہے لیکن حیرت انگیز طور پر سائنسی حلقوں نے اس کامیابی کا جشن ایک غیر معمولی اور شرمندہ خاموشی سے منایا ہے۔ سائنسی حلقے اس حیران کن دریافت کو نویدگی سےکیوں نہیں پرھتے؟ اس عظیم نقشے کو شعور اور عقل و فہم سے کیوں جانچا جارہا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جہاں اس موضوع کا ایک پہلو دانشمند نقشہ ہے وہیں اس کا دوسرا پہلو نتیجتاً اور لازماً خدا ہے۔“ ۳
لیکن یہ تمام سائنسدان ان مادی عقیدوں کی تعلیم کو جذب کرنے کی وجہ سے اسقدر بے حس اور اندھے ہوچکے ہیں کہ وہ اپنے انکار پر مستقل قائم ہیں کےونکہ جو لوگ اپنے تخلیق کار کے ثبوت اور شواہد کی نفی کرتے ہیں وہ بے حس ہوجاتے ہیں۔ اس کی ایک مثال نامور ارتقاءدان رچرڈ ڈاکنز کی یہ بات ہے جو اس نے عیسائیوں سے کہی کہ اگر بی بی مریم کا بت بھی تمہیں ہاتھ ہلائے تو یہ ہرگز مت سمجھنا کہ تم نے کوئی معجزہ دیکھا ہے۔
لوگوں کی تخلیق کے بارے میں بند ذہنی کی ایک وجہ وہ سحر ہے جو کہ ان کی منطق اور عقل پر طاری ہے۔ یہ وہی سحر ہے جو کہ دنیا بھر میں ارتقائی نظریوں کی قبولیت کی وجہ ہے۔ سحر سے مراد عام ارتقائی تعلیم کے ہاتھوں ہونے والی دماغ شوئی ہے۔ لوگوں کو نظریہ ارتقاءکی درستگی کے بارے میں اتنی کٹر تعلیم دے دی جاتی ہے کہ ان کا ذہن اس نظر ےئے کے ناقص ہونے کے کسی امکان کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ یہ کٹر تعلیم دماغ اور سوچ پر منفی اثرات ڈالتے ہوئے فیصلے اور سمجھ کی صلاحیت کو مفلوج کردیتی ہے۔ دماغ آخر کار اس کٹر عقیدے کی تعلیم کے مستقل زیر اثر رہنے کی وجہ سے حقیقت کو اسی زاویہ سے پرکھنا شروع کردیتا ہے جس کی اس کو مشق کروائی گئی ہو۔
امریکہ کا ماہرِ لحمیاتی حیاتیات جاناتھن ویلز اس عمل کے دباﺅ کا ذکر اپنی 2000ء میں چھپنے والی کتاب ”آئیکانز آف ایوولوشن“ میں ان الفاظ میں کرتا ہے۔
”کٹر ارتقاءپسند ثبوت کو تنگ نظری سے پرکھنے کی عادت ڈالتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ سائنس پر عمل کرنے کا یہی واحد طریقہ ہے۔ اس طریقہ کار کے مخالفوں کو غیر سائنسی قراردے دیا جاتا ہے۔ ان کے مضمون معیاری جریدے چھاپنے سے انکار کردیتے ہیں کیونکہ ان کے اداریے کٹر سوچ رکھنے والے ارتقاءپسند ہوتے ہیں۔ مخالف گروہ کے لوگوں کو حکومت بھی مالی امداد دینے سے انکار کردیتی ہے۔ یہی حکومت کٹر سوچ رکھنے والوں کو بنفس نفیس آگے آنے کی دعوت دیتی ہے۔بالآخر اس نظریئے کے مخالفین سائنسی حلقوں سے مکمل طور پر خارج کردیئے جاتے ہیں۔اس پورے عمل کے دوران ڈارون کے نقطہ¿ نظر کے خلاف ثبوت بھی اےسے ہی پراسرار طریقے سے غائب ہوجاتے ہیں جیسے ڈاکوﺅں کے خلاف شہادت دینے والوں کا وجود۔ دوسری صورت میں یہ ثبوت صرف ان خاص الخاص رسائل میں چھاپا جاتا ہے جہاں تک صرف ایک ماہر تحقیق کار کی ہی پہنچ ہوتی ہے ، عام عوام کی نہیں۔ جب مخالفین کو چپ کرواکر تمام ثبوت کو دفن کردیا جاتا ہے تو یہ کٹر عقیدہ مند دنیا کے آگے اعلان کرتے ہیں کہ ان کے نظریئے میں مزید سائنسی بحث کی گنجائش موجود ہے اور اس کے خلاف فی الحال کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔“ ۵
یہ وہ اصلیت ہے جو ارتقاءپسندوں کے اس اصرار کے پیچھے ہے کہ ’نظریہ ارتقاءابھی بھی سائنسی دنیا میں قبول کیا جاتا ہے‘۔ اس نظریئے کے زندہ رہنے کی وجہ یہ نہیں کہ اس کے اندر کسی قسم کا سائنسی وزن موجود ہے بلکہ اس کی وجہ اس کا ایک فکریاتی ذمہ داری ہونا ہے۔ بہت سے سائنسدان حقیقت کا علم رکھتے ہوئے بھی حق کے لئے آواز بلند کرکے اپنی سائنسی حلقوں میں بنی ہوئی ساکھ کو مٹی میں ملانا نہیں چاہتے۔ اس کتاب میں موجود مواد پر کھلے دماغ اور سنجیدگی سے غور و فکر کریں۔ اگر وہ اس سحر سے آزاد ہوکر آزادی سوچ اور تعصب کے بغیر اس کتاب پر غور کریں تو وہ شفاف سچ کو پالیں گے۔

حوالہ جات:
1. Cliff, Conner, “Evolution vs. Creationism: In Defense of Scientific Thinking”, International Socialist Review (Monthly Magazine Supplement to the Militant), November 1980.
2 (۲) Ali Demirsoy, Kalıtım ve Evrim (Inheritance and Evolution), Ankara: Meteksan Publishing Co., 1984, p. 61.
3 (۳) Michael J. Behe, Darwin's Black Box, New York: Free Press, 1996, pp. 232-233.
4 Richard Dawkins, The Blind Watchmaker, London: W. W. Norton, 1986, p. 159.
5 (۵) Jonathan Wells, Icons of Evolution: Science or Myth? Why Much of What We Teach About Evolution is Wrong, Regnery Publishing, 2000, pp. 235-236
Image may contain: one or more people and text
No automatic alt text available.
Image may contain: 6 people, people standing
مکمل تحریر >>

کیا زندگی پانی میں شروع ہوئ؟ ارتقا کے حامیوں کی زندگی کی پانی سے زمین پر منتقلی کی فرضی کہانی اور اس کی اصل حقیقت

کیا زندگی پانی میں شروع ہوئ؟
ارتقا کے حامیوں کی زندگی کی پانی سے زمین پر منتقلی کی فرضی کہانی اور اس کی اصل حقیقت
اقتباس:نظریہ ارتقا ، ایک فریب
مصنف:ہارون یحییٰ
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
نظریہ ارتقا یا تھیوری آف ”ایوولوشن(Theory Of Evolution) کے "پانی سے زمین تک“ کے فرضی مفروضے کے مطابق کچھ مچھلیوں کو زمین پر آنے کی ضرورت خوراک کے مسئلوں کی وجہ سے پیش آئی۔ اس دعوے کو ان قیاس آرائیوں پر مبنی تصاویر نے سہارا دیا ہے۔جو نیچے دی گئی ہیں۔
ارتقاءپسندوں کا خیال ہے کہ سمندری غیر فقاری یعنی بغیر ریڑھ کی ہڈی والے حیوانات(Invertebrate Animals) جو کہ کیمبرین زمینی طبق(Cambrian Geological Rocks) میں ظاہر ہوتے ہیں وہ لاکھوں سال کے عرصے کے دوران مچھلیوں میں تبدیل ہوگئے ۔لیکن جس طرح کیمبرین غیر فقاری یعنی بغیر ریڑھ کی ہڈی والے حیوانات کے کوئی پرکھا یعنی درمیانی جاندار( Transitional Animals) نہیں ہیں بالکل اسی طرح ان غیر فقاری حیوانات اور مچھلیوں کے درمیان تعلق ثابت کرنے والے وسطی نوعیت کے جانداروں کا بھی کوئی نام و نشان موجود نہیں ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ غیر فقاری یعنی بغیر ریڑھ کی ہڈی والے حیوانات اور مچھلیوں کے درمیان زبردست ساخت کا فرق ہے۔
غیر فقاری حیوانات(Invertebrate Animals) کے سخت ریشہ لحمی(Muscle Fibres) ان کے جسم کے باہر ہوتے ہیں جبکہ مچھلیاں فقاری یعنی ریڑھ کی ہڈی والے جانور(Vertebrates Animals) ہیں جن کے سخت ریشہ لحمی ان کے جسم کے اندر ہوتے ہیں۔ غیر فقاری یعنی بغیر ریڑھ کی ہڈی والے جانور اور مچھلیوں کے مابین ارتقائی عمل کا روپذیر ہونا کروڑوں مرحلوں پر مشتمل ہوگا اور اسی حساب سے کروڑوں جاندار اس عمل کو ثابت کرنے کے لئے زمین پر بھی موجود ہونے چاہئے تھے۔ ارتقاءپسند پچھلے 140 سال سے فوصلی یعنی زمانہ قدیم کے مرے ہوئے جانداروں کے باقیات کے چٹانوں والے خطوں(Fossils Areas) کی کھدائی اس امید پر کرر ہے ہےں کہ شاید ان کو کہیں سے ان تصوراتی اجسام کا سراغ مل جائے۔ ان کو لاکھوں کی تعداد میں غیر فقاری یا بغیر ریڑھ کی ہڈی والے حیوانات(Invertebrates) اور مچھلیوں کے فوصل تو مل گئے لیکن ایک بھی ایسا فوصل نہیں مل سکا جو ان دونوں کے درمیان کی وسطی تدریجی شکل(Intermediate Forms) کہلایا جاسکے۔
ارتقائی ماہرِ معدوم حیوانات و نباتات(Evolutionary Paleontologist) جیرالڈ، ٹی۔ ٹوڈ ”ہڈی والی مچھلیوں کی ابتداءاور پھیپھڑے کا ارتقائ“ کے نام سے ایک مضمون میں ملتی جلتی ہی ایک حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں:
”ہڈی والی مچھلیوں کی تینوں تقسیمات فوصلی ریکارڈ میں تقریباً ایک ہی وقت میں نمودار ہوئیں۔ یہ تینوں نامی اجسام تشکیل کے حوالے سے بالکل مختلف ہیں اور حفاظتی چادروں سے لیس ہیں۔ ان کی ابتداءکیا ہے؟ کن حالات کے تحت ان کی اتنی وسیع گروہ بندی ہوگئی؟ ان کی بھاری حفاظتی چادروں کی کیا وجہ ہے؟ اور ان کی سابقہ وسطی اشکال کا کوئی نام و نشان کیوں نہیں ہے؟“ 1
ارتقا کے حامیوں کا فرضی ارتقائی منظر ایک قدم اور آگے جاتا ہے اور بحث کرتا ہے کہ مچھلیاں جوکہ نظریہ ارتقاءکے حساب سے غیر فقاری یعنی بغیر ریڑھ کی ہڈی والے حیوانات کی تدریجی شکل ہیں وہ بربحری یعنی زمین اور پانی دونوں پر رہنے والے حیوانات میں بھی تبدیل ہوگئیں۔ لیکن اس نظریئے کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے۔ ایک بھی فوصل کسی آدھی مچھلی/ آدھی بر بحری مخلوق کا نہیں مل سکا جو کہ اس بات کی تصدیق کرسکے ۔ارتقائی ماہرِ معدوم حیوانات و نباتات اور ماہرِ غیر فقاری معدوم حیوانات را برٹ کیرل اس حقیقت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہے۔ اپنی مشہور کتاب ”فقاری یعنی ریڑھ کی ہڈی والے معدوم حیوانات اور ارتقائ“ میں وہ لکھتا ہے:
”قدیم دور کے رینگنے والے حیوانات بربحری حیوانات سے بہت مختلف تھے اور ان کے یعنی درمیان کا کوئی نشان نہیں مل سکا ہے۔“اپنی 1997ء میں چھپنے والی نئی کتاب ”فقاری ارتقاءکے نقوش اور عمل“ میں وہ لکھتا ہے:”قدیم مچھلیوں اور بربحری یعنی زمین اور پانی دونوں پر رہنے والے حیوانات کے درمیان کے کوئی وسطی نوعیت کے فوصل دریافت نہیں ہوئے ہیں۔“ 2
ارتقاءپسندوں کا دعویٰ تھاکہ کولیکانتھ جانداروں( coelacanth fossil) کی پانی سے زمین تک منتقلی کی عبوری شکل ہے۔لیکن 1938ء سے لے کر اب تک اس مچھلی کے کئی زندہ نمونے پکڑے جاچکے ہیں جو ارتقاءپسندوں کے خیالی نظریوں کی انتہاءکا ثبوت ہیں۔
دوارتقائی ماہرِ معدوم حیوانات و نباتات(Evolutionary Paleontologist) کولبرٹ اور مورالس بربحری یعنی زمین اور پانی سکینڈلوں پہ رہنے والے والے جانور ، سالامانڈر یا چھپکلی کی طرح کی بربحری دم دار مخلوق اور سائسی لین یا جل تھلی کیڑا جس کی آنکھیں ناقص ہوتی ہیں اور ہاتھ پاﺅں نہیں ہوتے پر اپنی رائے کا اظہار کرتےہیں:
”کسی بھی ایسے پیلیوزوئک بربحری یعنی زمین اور پانی دونوں پر رہنے والے حیوان کا ثبوت موجود نہیں ہے جس کا ایک مشترک یا درمیانی جانور ہونے کی وجہ سے ساری خصوصیات یکجا ہوں۔ مینڈکوں، سالامانڈر اور سائسی لین کے قدیم ترین فوصل بھی دورِ حاضر کے ان جانداروں سے ہوبہو مشابہ ہیں۔“ 3
50 سال پہلے تک بھی ارتقاءپسندوں کو ایسے حیوان کے ملنے کی امید تھی۔ ایک تقریباً 410 لاکھ سال پرانی کولیکانتھ نامی مچھلی کو انہوں نے مچھلی اور بربحری(زمینی اور آبی دونوں) مخلوق کی وسطی تدریجی شکل کے طور پر پیش کیا۔ اس مچھلی میں قدیم پھیپھڑا، مکمل بھیجا، زمین کے اوپر کام کرنے کے لائق نظام انہضام اور نظام دورانِ خون اور قدیم طور پر چلنے کی صلاحیت موجود تھی۔ 1930ء کے آخر تک یہ تشریح الاعضاء یعنی اناٹومی کی تفصیل سائنسی حلقوں میں ایک بلا حجت سچ کے طور پر قبول کی جاتی رہی۔ کولیکانتھ کو پانی سے زمین پر حیوانات کی منتقلی کی حقیقتاً اصل وسطی شکل تسلیم کرلیا گیا تھا۔ لیکن 22 دسمبر 1938ء کو بحیرہ ہند سے ایک انتہائی دلچسپ دریافت سامنے آئی۔ کولیکانتھ مچھلی کے خاندان کا ایک زندہ فرد پکڑاگیا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ ایک ایسی وسطی نوعیت کا فوصل ہے جو کہ پانی سے زمین پر منتقلی کو ثابت کرتا ہے اور70 لاکھ سال پہلے معدوم ہوچکا ہے۔کولیکانتھ کے اس زندہ نمونے نے ارتقاءپسندوں کو شدید دھچکا پہنچایا۔ ارتقائی ماہرِ معدوم حیوانات و نباتات(Evolutionary Paleontologist) جے۔ایل۔ بی اسمتھ کا کہنا ہے کہ:
”اگر میں راہ چلتے ایک زندہ ڈائینوسار کو بھی دیکھ لیتا تو مجھے اس سے زیادہ حیرت نہیں ہوتی جتنی اس مچھلی کو دےکھ کر ہوئی ہے۔“ 4
دوسری طرف ایک جرمنی سے دریافت ہونے والا45 لاکھ سال پرانا تازہ پانی کے کچھوے کا فوصل ہے۔ اس کے ساتھ برازیل سے ملنے والا سب سے قدیم سمندری کچھوے کا فوصل ہے جو کہ 110 لاکھ سال پرانا ہونے کے باوجود دورِ حاضر کے کچھوے کی شکل کا ہے۔
100 لاکھ یعنی ایک کروڑ سال پرانا کچھوے کا فوصل دورِ حاضر کے کچھوے کے عین مشابہ ہے۔ (داڈ ان آف لائف، آربس پبلیکیشنز، لندن 1972)
جس طرح نظریہ ارتقاءجانداروں کی مچھلی جیسی بنیادی نسل اور خزندوں کی ابتداءکو بیان نہیں کرسکتا اسی طرح وہ ان نسلوں کے اندر مختلف درجوں کی بھی وضاحت کرنے سے قاصر ہے۔ مثال کے طور پر خزندوں کے گروہ کا حیوان کچھوا فوصلی ریکارڈ میں اپنے مخصوص خول کے ساتھ اچانک نمودار ہوتا ہے۔ ایک ارتقائی ذریعے کے مطابق اس انتہائی اعلیٰ اور کامیاب ترتیب کی ابتداءاولین فوصلوں کی غیر موجودگی کی وجہ سے مبہم ہے حالانکہ کچھوے دوسرے فقاری یا ریڑھ کی ہڈی والے جانوروں کی نسبت زیادہ بہتر فوصلی نشانات چھوڑتے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ کچھوے کو ٹیلوسارنامی خزندوں کی ارتقائی شکل ہیں لیکن کیچھوے اور کوٹیلوسار کے درمیان کسی بھی طرح کے عبوری حیوانات کا کوئی نشان نہیں ملتا۔(انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا آنلائن ”ٹرٹل“)
دورِ حاضر میں موجود کچھووں اور قدیم زمانے کے کچھوﺅں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ مخلوق کسی بھی دوسرے حیوان کی تدریجی شکل نہیںہے بلکہ یہ ہمیشہ سے اسی شکل میں موجود رہے ہیں۔یہ سب باتیں نظریہ ارتقا کویا مکمل غلط ثابت کر کے دکھاتی ہیں۔
آنے والے وقت میں 2000ء کے قریب کولیکانتھ مچھلیاں دنیا کے مختلف حصوں سے پکڑی گئیں۔ زندہ کولیکانتھ کے معائنے سے ظاہر ہوا کہ ارتقاءپسند اپنے تصوراتی نظریوں کی حقیقت کو منوانے کے لئے کس کس طرح کے قدم اٹھاتے رہے ہیں۔ ان کے ہر دعوے کے برخلاف کولیکانتھ کے نہ تو قدیم پھیپھڑے تھے اور نہ ہی بڑا بھیجا۔ اس کے جس عضو کو ارتقاءپسند تحقیق دانوں نے ناپختہ پھیپھڑے کا نام دیا تھا وہ دراصل نامیات کے گھولنے کا ایک تھیلا تھا۔5
مزید یہ کہ کولیکانتھ جس کا تعارف پانی سے زمین کی طرف منتقلی کے لئے تیار حیوان کے طور پر کروایا گیا تھا دراصل ایک مچھلی ہے جو کہ سمندرکی اس قدر گہرائی میں پائی جاتی ہے کہ وہ کبھی بھی سطح سمندر سے 180 میٹر سے کم کے فاصلے پر نہیں آئی۔
ارتقاءپسندوں کا یہ دعویٰ ہے کہ ایک روز پانی میں رہنے والی کسی نسل نے زمین پر قدم رکھا اور زمین پر بسنے والی مخلوق میں تبدیل ہوگئی۔ کئی وجوہات کی بناءپر ایسی منتقلی ناممکن ہے۔
1۔ وزن برداشت کرنے کی صلاحیت : سمندری حیوانات سمندر کے اندر اپنا وزن برداشت کرسکتے ہیںجبکہ زمین پر رہنے والے زیادہ تر جاندار اپنی 40فیصد طاقت اپنے جسموں کو اٹھائے پھرنے میں صرف کردیتے ہیں۔ کسی حیوان کا پانی سے زمین پر منتقلی کا مطلب ان کے اندر نیا عضلاتی نظام اور ڈھانچے کا پیدا ہونا ہے تاکہ وہ اپنے وزن کو اٹھانے کا کام انجام دے سکیں۔ یہ زبردست تبدیلی کسی بھی طرح کی اتفاقیہ جینیاتی ردوبدل یا حادثے کے تحت ممکن ہی نہیں۔
2۔ گرمی کو جذب رکھنے کی صلاحیت : زمین کے اوپر درجہ حرارت بہت تیزی سے بدلتا ہے۔
زمین پر رہنے والے حیوانات کے اندر اس بدلتے ہوئے درجہ حرارت کو برداشت کرنے کے لئے قدرتی طبعیاتی نظام موجود ہوتا ہے۔ اس کے برعکس پانی کے اندر درجہ ہرارت آہستہ اور کم سلسلہ حدود میں بدلتا ہے۔ پانی میں رہنے والا جاندار اگر زمین پر آجائے تو اس کو زمین کے درجہ حرارت میں شدت کے باعث نقصان سے بچنے کے لئے نیا حفاطتی نظام پیدا کرنا پڑے گا۔ ایسا سوچنا بھی شدید بے وقوفی ہے کہ مچھلیاں اچانک زمین پر آئیں اور بے ترتیب جینیاتی تبدیلیوں کے ذریعے زمین کی مخلوق بن کر رہنا شروع ہوگئیں۔
3۔ پانی : پانی تحوّل کے لئے ضروری ہے لیکن چونکہ زمین پر پانی کم مقدار میں پایا جاتا ہے اس لئے اس کے استعمال میں احتیاط لازمی ہے۔ مثال کے طور پر زمینی حیوانات کی کھال مخصوص مقدار میں پانی ضائع کرنے کی متحمل ہوتی ہے۔ اسی لئے زیادہ پانی نکل جانے کی صورت میں زمین پر رہنے والے حیوانات کو پیاس لگتی ہے ۔اس کے برعکس سمندری حیوانات کو پیاس نہیں لگتی۔ اس وجہ سے سمندری حیوانات کی کھال زمین پر مستقل رہائش کے لئے ناموزوں ہے۔
4۔ گردے : سمندری جاندار اپنے جسم کے فضلات کی نکاسی زیادہ تر امونیا کی صور ت میں کرتے ہیں۔ چونکہ زمین پر پانی کا استعمال کفایت شعاری سے کرنا پڑتا ہے اس لئے پانی کے حیوانات میں گردے موجود ہوتے ہیں جو کہ امونیا کو یوریا میں تبدیل کرکے کم سے کم پانی کی صورت میں خارج کرتے ہیں۔ پانی سے زمین پر منتقل ہونے کے لئے کسی بھی جاندار میں گردوں کا نظام ہونا بے حد ضروری ہے۔
5۔ نظامِ تنفس : مچھلیاں اپنے گلپھڑوں سے گزرتے ہوئے پانی کے اندر موجود آکسیجن سے سانس لیتی ہیں۔ پانی سے باہر وہ چند منٹ سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتیں۔ یہ ناممکن ہے کہ کسی آبی حیوان میں اچانک ایسا پیچیدہ نظام تنفس نمودا رہوجائے کہ وہ با آسانی زمین پر زندہ رہنے کے قابل ہوجائے۔
ان تمام ڈرامائی طبعیاتی تبدیلیوں کا کسی بھی جاندار کے اندر اچانک اتفاقاً نمودار ہوجانا ایک ناممن ترین امکان ہے اور یہ پانی سے زمین پر منتقلی کے ہر قصے کو رد کردیتا ہے۔

حوالہ جات:

1: Gerald T. Todd, "Evolution of the Lung and the Origin of Bony Fishes: A Casual Relationship", American Zoologist, Vol 26, No. 4, 1980, p. 757.
2: R. L. Carroll, Vertebrate Paleontology and Evolution, New York: W. H. Freeman and Co. 1988, p. 4.; Robert L. Carroll, Patterns and Processes of Vertebrate Evolution, Cambridge University Press, 1997, p. 296-97
3: Edwin H. Colbert, M. Morales, Evolution of the Vertebrates, New York: John Wiley and Sons, 1991, p. 99.
4: Jean-Jacques Hublin, The Hamlyn Encyclopædia of Prehistoric Animals, New York: The Hamlyn Publishing Group Ltd., 1984, p. 120.
5:Jacques Millot, "The Coelacanth", Scientific American, Vol 193, December 1955, p. 39
مکمل تحریر >>

روزے کے طبی فوائد پر ملحدین کے سائنسی اعتراضات اور ان کا جواب

روزے کے طبی فوائد پر ملحدین کے سائنسی اعتراضات اور ان کا جواب

تدوین و ترتیب اور اضافہ:احید حسن
پوسٹ کی طوالت سے نہ گھبرایئں۔ایک تہائی پوسٹ مضمون کے حوالہ جات پر مشتمل ہے۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا روزہ رکھا کرو تندرست رہا کرو گے . (طبرانی )
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث جدید سائنس کی تصدیق کر رہی ہے۔
روزہ رکھنے سے جسمانی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں جسے دنیا بھر کے طبی ماہرین خصوصا ڈاکٹر مائیکل 'ڈاکٹر جوزف 'ڈاکٹر سیموئیل الیگزینڈر'ڈاکٹر ایم کلائیو'ڈاکٹر جیکب 'ڈاکٹر ہنری ایڈورڈ'ڈاکٹر برام جے 'ڈاکٹر ایمرسن' ڈاکٹرخان یمر ٹ' ڈاکٹر ایڈورڈ نکلسن اور جدید سائنس نے ہزاروں کلینیکل ٹرائلز سے تسلیم کیا ہے۔
روزہ رکھنے سے ظاہر و باطن کی غلاظتیں دور ہو جاتی ہیں(ڈاکٹر جوزف)
روزہ روحانی امراض کا علاج ہے، یہ روح کو پاک و صاف رکھتا ہے(ڈاکٹر سیموئیل الیگزینڈر)
ررزہ گناہوں اور بیماریوں کو روکتا ہے۔ جذبات اور خیالات کو خراب ہونے سے روکتا ہے(ڈاکٹر سی فرانڈ)
روزہ دل میں سکون و اطمینان پیدا کرتا ہے، اس سے قوت برداشت بڑھتی ہے اور سختیاں سہنے کی عادت پڑتی ہے(ڈاکٹربرام جے ہنری)
سکون و اطمینان پیدا کرنے کے لیئے روزہ بہترین چیز ہے (ڈاکٹر یمرٹ)
روزہ روح کی غذا ہے(ڈاکٹر جیکب)
مہینے میں ایک دوبار روزہ رکھنا صحت کے لئے نفع بخش ہے(ڈاکٹر ڈی جیکب)
فاقہ کی بہتریں چیز وہ روزہ ہے جو اہل اسلام کے طریقے سے رکھا جائے، ڈاکٹر جس طریقے سے فاقہ کراتے ہیں وہ غلط ہے(ڈاکٹر ایمر سن)
پوپ ایلف گال ہالینڈکے سب سے بڑے پادری گذرے ہیں روزے کے متعلق اپنے تجربات کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے روحانی پیروکاروں کو ہر ماہ تین روزے رکھنے کی تلقین کرتا ہوں میں نے اس طریقہ کار کے ذریعے جسمانی اور وزنی ہم آہنگی محسوس کی میرے مریض مسلسل مجھ پر زور دیتے ہیں کہ میں انہیں کچھ اور طریقہ بتاؤں لیکن میں نے یہ اصول وضع کر لیا ہے کہ ان میں وہ مریض جو لا علاج ہیں ان کو تین روز کے نہیں بلکہ ایک مہینہ تک روزے رکھوائے جائیں ۔میں نے شوگر'دل کے امراض اور معدہ میں مبتلا مریضوں کو مستقل ایک مہینہ تک روزہ رکھوائے ۔شوگرکے مریضوں کی حالت بہتر ہوئی ا ن کی شوگر کنٹرول ہو گئی ۔دل کے مریضوں کی بے چینی اور سانس کا پھولنا کم ہوگیا سب سے زیادہ افاقہ معدہ کے مریضوں کو ہوا ۔
فارما کولوجی کے ماہر ڈاکٹر لوتھر جیم نے روزے دار شخص کے معدے کی رطوبت لی اور پھر اس کا لیبارٹری ٹیسٹ کروایا اس میں انہوں نے محسوس کیا کہ وہ غذائی متعفن اجزا(food particles septic)جس سے معدہ تیزی سے امراض قبول کرتا ہے بالکل ختم ہو جاتے ہیں ڈاکٹر لوتھر کا کہنا ہے کہ روزہ جسم اور خاص طور معدے کے امراض میں صحت کی ضمانت ہے ۔
مشہور ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ فاقہ اور روزے کا قائل تھا اس کا کہنا ہے کہ روزہ سے دماغی اور نفسیاتی امراض کا مکمل خاتمہ ہو جاتا ہے روزہ دار آدمی کا جسم مسلسل بیرونی دباؤکو قبول کرنے کی صلاحیت پالیتا ہے روزہ دار کو جسمانی کھینچاؤ اور ذہنی تناؤسے سامنا نہیں پڑتا۔
جرمنی'امریکہ 'انگلینڈ کے ماہر ڈاکٹروںکی ایک ٹیم نے رمضان المبارک میں تمام مسلم ممالک کا دورہ کیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ رمضان المبارک میں چونکہ مسلمان نماز زیادہ پڑھتے ہیں جس سے پہلے وہ وضو کرتے ہیں اس سے ناک'کان'گلے کے امراض بہت کم ہو جاتے ہیں کھانا کم کھاتے ہیں جس سے معدہ وجگر کے امراض کم ہو جاتے ہیں چونکہ مسلمان دن بھر بھوکا رہتا ہے اس لئے وہ اعصاب اور دل کے امراض میں بھی کم مبتلا ہوتا ہے ۔
سکندر اور ارسطو یونانی لیڈر اپنے فیلڈ کے ماہر ہیں ،انہوں نے فاقہ اور پھر مسلسل فاقہ کو جسم کی توانائی کے لئے ضروری قرار دیا ہے.
سکندر اعظم کہتا ہے کہ میری زندگی مسلسل تجربات اور حوادث میں گزری ہے جو آدمی صبح وشام کھانے پر اکتفا کرتا ہے وہی ایسی زندگی گزارسکتا ہے جس میں کسی قسم کی لچک نہ ہو.
لیکن کوئ یہ نہیں کہ سکتا کہ اسلام کا روزے کا تصور یونان سے لیا گیا ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سکندر اعظم کا کوئ تعلق ثابت نہیں اور نہ ہی یونانی تصانیف عرب میں میسر تھیں۔
گاندھی جی کے فاقے مشہور ہیں . فیروز راز نے گاندھی جی کی زندگی کے حالات میں یہ بات لکھی ہے کہ گاندھی جی روزے کے قائل تھے .
"کہا کرتے تھے کہ انسان کھا کھا کر اپنے جسم کو سست کر لیتا ہے اور کاہل ،کسل مند نہ دنیا کا اور نہ ہی مہاراج کا .
اگر تم جسم کو گرم اور متحرک رکھنا چاہتے ہو تو جسم کو کم ازکم خوراک دو، اور روزے رکھو سارا دن جاپ الاپو اور پھر شام کو بکری کے دودھ سے روزہ کھولو.
( داستان گاندھی .خاص نمبر رسالہ دہلی)
روسی ماہر الابدان پروفیسر این نکٹین اپنی طبوی عمر کے راز سے متعلق کہتے ہیں : “تین اصؤل زندگی میں اپنا لیے جائیں تو بدن کے زہریلے مواد خارج ہو کر بڑھاپا روک دیتے ہیں ،اول خوب محنت کیا کرو۔۔۔ دوم کافی ورزش کیا کرو بالخصوص زیادہ چلنا پھرنا چاہیے ،سوم غذا جو تم پسند کرتے ہو کھایا کرو لیکن ہر مہینہ میں کم از کم ایک مرتبہ فاقہ ضرور کیا کرو ۔”
امریکہ میں ڈاکٹر ہربرٹ ایم شلٹن نے ایک کتاب تحریر کی ہے جس کا موضوع ہے " روزہ تمہاری زندگی کو نجات دے سکتا ہے " اس امریکی ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ روزوں کے ذریعے موٹاپے ، میگرین ، الرجی ، بلڈ پریشر اور جوڑوں کے دردوغیرہ نیز جلد کی بہت سی بیماریوں کا علاج کیا جاسکتا ہے ۔ اس کتاب میں روزے کو ایسا آپریشن قرار دیا گیا ہے جو چیرنے پھاڑنے والے آلات استعمال کۓ بغیر ہی کیا جاتا ہے۔
فرانس کے محقق اور فیزیالوجسٹ ڈاکٹر الکسیس کارل کا کہنا ہے کہ روزے کی حالت میں اپنے نفس پر قابو پانے کی کوشش کے ذریعے بدن کے اعمال میں توازن قائم کیا جاسکتا ہے۔ سب لوگ فطری طور پر اپنے غرائز کو پورا کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ان خواہشات کی مکمل طور پر تکمیل نہ ہو تو انسان زوال و انحطاط کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس لۓ انسان کو اپنے نفس پر تسلط حاصل کرنا چاہۓ۔ اس میں شک نہیں کہ ضرورت سے زیادہ سونا اور کھانا کم کھانے کی نسبت زیادہ نقصان دہ ہے اور ان امور سے اپنے آپ کو بچا کر بدن اور روح کے اعمال کے درمیان ہم آہنگی پیدا کی جاسکتی ہے۔
العربیہ کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے جلدی امور کے ماہر ڈاکٹر الصقیر نے کہا کہ انسانی جسم کو کولاجین [بے رنگ پروٹین جس میں زیادہ تر گلائی سین ، ہائیڈ راکسی پروٹین اور پرولین پائی جاتی ہے ۔ جسم کی تمام اتصالی بافتوں یا Comnective Tissues میں خصوصاً جلد ، کری ہڈی یا Cartilage اور جوڑ بندھن یعنی Tendons میں ہوتی ہے] اور الاسٹن کے پھیلاؤ کی ضرورت ہوتی ہے اور روزہ اس میں مدد دیتا ہے۔
پروفیسر مور پالڈ آکسفورڈ یونیورسٹی کی پہچان ہے۔انہوں نے اپنا واقعہ بیان کیا کہ میں نے اسلامی علوم کا مطالعہ کیا اور جب روزے کے باب پر پہنچا تو میں چونک پڑا کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو اتنا عظیم فارمولا دیا ہے ۔ اگر اسلام اپنے ماننے والوں کو اور کچھ نہ دیتا صرف یہی روزے کا فارمولا ہی دیتا تو پھر بھی اس سے بڑھ کر ان کے پاس اور کوئی نعمت نہ ہوتی۔
میں نے سوچا کہ اس کو آزمانا چاہئے پھر میں نے روزے مسلمانوں کی طرز پر رکھنا شروع کردیے ، میں عرصہ دراز سے معدے کے ورم (stomach inflammation)میں مبتلا تھا ۔کچھ دنوں کے بعد ہی میں نے محسوس کیا کہ اس میں کمی واقع ہوگئی ہے۔میں نے روزوں کی مشق جاری رکھی پھر میں نے جسم میں کچھ اور اور تبدیلی بھی محسوس کی اور کچھ ہی عرصے بعد میں نے اپنے جسم کو نارمل پایا۔حتی کہ میں نے ایک ماہ کے بعد اپنے اندر انقلابی تبدیلی محسوس کی۔
ڈاکٹر شاہد اطہر (Shahid Athar)جو کہ امریکہ کی ایک یونیورسٹی''انڈیانا یونیورسٹی سکول آف میڈیسن'' کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں وہ فوائد رمضان کے متعلق اپنے ایک آرٹیکل :"The Spiritual and Health Benefits of Ramadan Fasting"میں لکھتے ہیں کہ
''روزہ ان لوگوں کے لیے بہت مفید ہے جو نرم مزاج 'اعتدال پسند اور مثالی بننا چاہتے ہیں ۔1994ء میں ایک بین الاقوامی کانفرنس ''رمضان اور صحت ''جو کہ' کاسابلانکہ 'میں منعقد ہوئی ۔اس میں طبی حوالے سے روزے کی وسعت و پھیلاؤ کے بارے میں 50اہم نکات پر روشنی ڈالی گئی ۔جس سے نظام طب کے حوالے سے بہت سے اچھے اثرات سامنے آئے حتی کہ یہ چیز بھی سامنے آئی ہے کہ روزہ مریضوں کے لیے کسی بھی طریقے سے نقصان دہ نہیں ہے ۔جو لوگ روزہ رکھتے ہیں وہ اس میں سکون اور صبر وتحمل کا درس لیتے ہیں ۔روزہ کی حالت میں انسان کی نفسانی بیماریاں کم ہو جاتی ہیں اور انسان کئی اور دوسرے جرموں سے بچ جاتا ہے ۔''
جدید ترین تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ تین دن روزہ رکھنے سے مدافعتی نظام مکمل بحال ہوجاتا ہے
تین دن تک روزے رکھنے سے جسم کو جس قدر فائدہ پہنچتا ہے وہ جسم کو پہنچنے والے نقصان سے بہت کم ہے۔ ایک بڑی مثبت تبدیلی یہ ہے کہ اسٹیم سیلز ایک ایسا عمل شروع کرتے ہیں جس کے نتیجے میں جسم میں خون کے سفید خلیے بننے کا عمل تیز ہوجاتا ہے۔ واضح رہے کہ خون میں سفید خلیے انفیکشن سے لڑنے میں خاصی مدد دیتے ہیں۔
یونیورسٹی آف ساؤتھ کیلی فورنیا کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بھوکا رہنے سے متعلق تازہ ترین تحقیق سے اُن افراد کو خاص طور پر فائدہ پہنچ سکتا ہے جن کا مدافعتی نظام شدید متاثر ہوچکا ہے۔ بالخصوص کینسر کے وہ مریض اِس تحقیق سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں جنہیں کیمو تھیراپی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
یونیورسٹی آف ساؤتھ کیلی فورنیا میں جیرونٹولوجی اور بایولوجیکل ریسرچ کے پروفیسر والٹر لونگو کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص روزہ رکھتا ہے یعنی دن بھر بھوکا رہتا ہے تو جسم میں اسٹیم سیلز اپنا کام شروع کرتے ہیں یعنی مدافعتی نظام کی بحالی شروع ہوجاتی ہے۔ مدافعتی نظام کے جو حصے ناکارہ ہوکر جسم پر بوجھ بن چکے ہوتے ہیں، وہ روزے کے دوران جسم سے خارج ہوتے جاتے ہیں۔ گویا روزہ رکھنا جسم کو نئی زندگی دینے جیسا ہے۔ بڑھاپے یا کیمو تھیراپی کے باعث جسم کے جو خلیے ناکارہ ہوچکے ہوتے ہیں، وہ روزے کے دوران جسم سے یوں نکلتے ہیں کہ پورا مدافعتی نظام بحال ہوتا جاتا ہے۔ طویل مدت تک روزے رکھنے سے جسم ذخیرہ شدہ گلوکوز اور چربی استعمال کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے اور اس دوران خون میں سفید خلیوں کی ٹوٹ پھوٹ بھی شروع ہو جاتی ہے مگر خیر دوسری طرف اسٹیم سیلز مدافعتی نظام کو بھرپور تحرک فراہم کرتے ہیں جس کے نتیجے میں جسم کا مدافعتی نظام بحالی کی طرف آتا جاتا ہے۔
رضا کاروں کو چھ ماہ کے دوران وقفے وقفے سے دو سے چار دن کے روزے رکھنے کو کہا گیا۔ اس دوران اُن کے جسم میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا بھی باقاعدگی سے جائزہ لیا گیا تاکہ اندازہ لگایا جاسکے کہ بھوکا رہنے سے جسم میں کون سی اہم تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ ماہرین نے دیکھا کہ طویل روزے رکھنے سے جسم میں پی کے اے انزائم کے بننے کا عمل رک جاتا ہے۔ یہ انزائم بڑھاپے کے عمل کو تیز کرنے کے ساتھ کینسر اور رسولی کے حوالے سے بھی نقصان دہ ہے۔ لونگو کہتے ہیں کہ ہمیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ طویل روزے رکھنے سے جسم کو کس حد تک فائدہ پہنچ سکتا ہے، بالخصوص اسٹیم سیلز کے حوالے سے۔ حقیقت یہ ہے کہ روزے کی حالت میں انسانی جسم میں ایسی مثبت تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جو توانائی برقرار رکھنے اور بہتر زندگی بسر کرنے کے قابل بنانے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ جب ہم بھوکے رہتے ہیں تو جسم توانائی کو ذخیرہ کرتا ہے اور مدافعتی نظام کے اُن تمام خلیوں کو ری سائیکل کرتا ہے جو ناکارہ ہوکر جسم پر بوجھ بنے ہوئے ہوتے ہیں۔ پروفیسر لونگو کہتے ہیں کہ اس بات کے معمولی سے بھی شواہد نہیں ملے کہ روزے کی حالت میں جسم کو کوئی نقصان پہنچ سکتا ہے جبکہ یہ بات طے شدہ ہے کہ جسم کو فائدہ ضرور پہنچتا ہے۔ تحقیق اور تجزیے سے معلوم ہوا کہ طویل روزے رکھنے سے جسم میں خون کے سفید خلیوں کی تعداد گھٹ گئی اور جب دوبارہ کھانا شروع کیا گیا تو یہ تعداد بڑھتی چلی گئی۔ کینسر کے مریض بھی طویل روزے رکھ کر کیمو تھیراپی کے شدید منفی اثرات سے بہت حد تک محفوظ رہ سکتے ہیں۔
تحقیقی مقالے کی شریک مصنفہ ٹانیہ ڈورف کہتی ہیں: ’’تحقیق سے معلوم ہوا کہ طویل دورانیے کا روزہ رکھنے سے کیمو تھیراپی کے اثرات کو انتہائی محدود کرنے میں مدد ملتی ہے‘‘۔ ٹانیہ ڈورف یو ایس سی نارس کمپری ہینسو کینسر سینٹر اینڈ ہاسپٹل میں کلینیکل میڈیسن کی اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔
72 گھنٹے کا روزہ رکھنے سے متعلق یونیورسٹی کالج لندن میں ریجنریٹیو میڈیسن کے پروفیسر کرس میسن کہتے ہیں: ’’محض تین دن کا روزہ رکھنے سے جسم کو کچھ خاص نقصان نہیں پہنچ سکتا اور سچ تو یہ ہے کہ اِس مدت کے دوران جسم کو کینسر کے اثرات سے بہت حد تک دور کرنے میں خاصی مدد ملتی ہے۔ کم کھاکر یا بھوکا رہ کر بھی انسان اپنے جسم کو بہتر حالت میں رکھ سکتا ہے مگر یہ طریقہ سب کے لیے مناسب نہیں۔ اس حوالے سے ڈاکٹر سے مشاورت لازم ہے تاکہ غیر ضروری طور پر بھوکا رہنے سے جسم کو زیادہ نقصان نہ پہنچے۔ کینسر کے مریض کے لیے بہتر نہیں کہ اپنے طور پر کوئی فیصلہ کرے بلکہ اُسے ادویہ پر زیادہ منحصر رہنا چاہیے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ بھوکا رہنے سے جسم میں بہت سے مثبت تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں مگر اِس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ عمل سب کے لیے موزوں اور مفید ہو‘‘۔
(“Fasting for three days renews entire immune system, ‘remarkable’ new study finds”. (“nationalpost.com”. June 5, 2014)
1994ء میں Health and Ramadan کے عنوان سے پہلی انٹرنیشنل کانگریس کیسابلانکا میں منعقد ہوئی جس میں اس موضوع پر ۵۰تحقیقی مقالات پیش کیے گئے۔ (ملاحظہ کیجیے: www.islam.usa.com)
جس میں روزہ رکھنے والوں کی صحت پرناقابل یقین بہتری ریکارڈکی گئی۔
کانفرنس میں پیش کیے گئے مقالوں کے مطابق ان لوگوں کی صحت پر منفی اثرات ریکارڈ کیے گئے جنہوں نے افطارکے وقت ضرورت سے زیادہ کھاناکھایااور ٹھیک سے نیند پوری نہیں کی۔
اردن کے یونیورسٹی ہسپتال کے ڈاکٹر سلیمان نے مردوں اور خواتین کامشاہدہ کیا۔ رمضان کے دوران ان کا اوسطاً دو کلو گرام وزن کم ہوگیا۔ تہران یونیورسٹی کے ڈاکٹر عزیز کی تحقیق کے مطابق رمضان کے دوران عام افراد میں چار کلو گرام تک وزن میں کمی نوٹ کی گئی۔سلمنگ سنٹر میں جانے والوں میں عام مشاہدہ کیا گیا ہے کہ فاقوں کے بعد ان کا وزن دوبارہ بڑھ جاتا ہے بلکہ بعض لوگوں کا پہلے سے بھی زیادہ بڑھ جاتا ہے دماغ کا حصہ انسان کا وزن کنٹرول کرتا ہے اگر کوئی شخص فاقے کرتا ہے تو فاقوں کے بعد یہ حصہ تیزی سے عمل کرتا ہے اور وزن دوبارہ بڑھ جاتا ہے۔ روزے کے دوران حیرت انگیز طور پر یہ حصہ تیزی سے کام نہیں کرتا۔
ایلن کاٹ (Allan Cott) نے 1975ء میں اپنی تحقیق کے بعد یہ نتیجہ نکالا: روزے سے نظامِ ہضم اور مرکزی عصبی نظام کو مکمل طور پر نفسیاتی سکون ملتا ہے اور یہ میٹابولزم کے نظام کو نارمل کردیتا ہے۔ (Islamic Medicine، شاہد اختر،ص 148)
سائنس دانوں کے بقول روزہ مدافعتی نظام کی ازسرنو تخلیق کا ایک بٹن ہے جس کے دبانے سے اسٹیم خلیات کو سفید خون کے خلیات بنانے کا اشارہ ملتا ہے جن کی بدولت انسان بیماریوں اور انفیکشن کے خلاف مزاحمت کرتا ہے۔ یونیورسٹی آف سدرن کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والے سائنسدانوں نے کہا ہے کہ ان کی دریافت کینسر کے مریضوں اور غیر موثر مدافعتی نظام میں مبتلا افراد کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے اور خاص طور پر معمر افراد جن کا مدافعتی نظام زیادہ عمر کی وجہ سے غیر موثر ہو جاتا ہے اور ان میں معمولی بیماریوں سے لڑنے کی طاقت بھی نہیں رہتی ہے، یہ مشق ان کے لیے بے حد مفید ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سرطان میں مبتلا افراد یا معمر ہونے کی وجہ سے غیر موثر مدافعتی نظام کو روزہ ایک نئے مدافعتی نظام میں تبدیل کر سکتا ہے ۔انھوں نے کہا کہ جب آپ بھوکے ہوتے ہیں تو یہ نظام توانائی بچانے کی کوشش کرتا ہے اور روزے دارکا بھوکا جسم ذخیرہ شدہ گلوکوز اور چربی کو استعمال کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ توانائی محفوظ کرنے کے لیے مدافعتی نظام کے خلیات کا بھی استعمال کرتا ہے جس سے سفید خلیات کا ایک بڑا حصہ بھی ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے۔ کیلی فورنیا یونیورسٹی کے شعبہ جیروئنٹولوجی ایند بائیولوجیکل سائنسز سے منسلک پروفیسر والٹر لونگو نے کہا کہ طویل روزوں کی حالت میں جسم میں ایک اینزائم پی کے اے (PKA) کی کمی واقع ہوتی ہے جس کا تعلق بزرگی یا سرطان کے ٹیومر کی افزائش کا سبب بننے والے ہارمون سے ہے۔ جبکہ اسٹیم سیلز تخلیق نو کا مرحلہ تبھی شروع کر سکتا ہے جب پی کے اے جین کا بٹن سوئچڈ آف ہو۔ بنیادی طور پر روزہ اسٹیم سیلز کو OK کا سگنل بھجتا ہے کہ وہ ری سائیکلنگ کا عمل شروع کرے اور پورے مدافعتی نظام کی مرمت کر کے اسے پھر سے نیا بنادے۔اچھی خبر یہ ہے کہ روزے کی حالت میں جسم کو مدافعتی نظام کے نقصان دہ، ناکارہ اور غیر فعال حصوں سے بھی چھٹکارہ مل جاتا ہے۔ محققین نے ایک تجربے کے دوران لوگوں سے چھ ماہ کے دوران دو سے چار بار فاسٹنگ (روزے) کے لیے کہا۔ پروفیسر لونگو کے مطابق ہم نے انسانوں اور جانوروں پر کئے جانے والے تجربات میں یہ دیکھا کہ طویل روزوں سے جسم میں سفید خون کے خلیات کی تعداد میں کمی ہونی شروع ہو گئی مگر جب روزہ کھولا گیا تو یہ خلیات پھر سے واپس آگئے اور تبھی سائنسدانوں نے یہ سوچنا شروع کیا کہ آخر یہ واپس کہاں سے آتے ہیں ۔ بقول پروفیسر لونگو طویل روزوں کی حالت کے دوران جسم میں سفید خون کے خلیات کی کمی سے پیدا ہونے والی حوصلہ افزا تبدیلیاں اسٹیم سیلز کے تخلیق نو کے خلیہ کو متحرک بناتی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ جب انسان روزے کے بعد کھانا کھاتا ہے تو اس کا جسم پورے نظام کی تعمیر کے لیے اسٹیم خلیات کو سگنل بھجتا ہے اور توانائی محفوظ کرنے کے لیے مدافعتی نظام خلیات کے ایک بڑے حصے کو ری سائیکل کرتا ہے جن کی یا تو ضرورت نہیں ہوتی ہے یا جو ناکارہ ہو چکے ہوتے ہیں۔ تحقیق کے معاون مصنف پروفیسر تانیا ڈورف نے کہا کہ اگرچہ کمیو تھراپی کا عمل زندگی بچانے کے کام آتا ہے لیکن 72 گھنٹوں کا روزہ کمیو تھراپی کے زہریلے اثرات کے خلاف کینسر کے مریضوں کی حفاظت کر سکتا ہے۔ لیکن اس بات کی ضرورت ہے کہ کسی طبی معالج کے زیر نگرانی اس نوعیت کی غذائی پابندیاں کی جانی چاہئیں۔ تحقیق کے نتیجے کے حوالے سے پروفیسر لونگو نے کہا کہ ایسے شواہد نہیں ملے جن کی وجہ سے فاسٹنگ کو خطرناک قرار دیا جائے بلکہ اس کے فائدہ مند ہونے کے حوالے سے ٹھوس شواہد سامنے آئے ہیں۔ محققین نے کہا کہ وہ ان امکانات کی بھی تحقیقات کر رہے ہیں کہ آیا روزے کے مفید اثرات صرف مدافعتی نظام کی بہتری کے لیے ہیں یا پھر اس کے اثرات دیگر نظاموں اور اعضاء پر بھی لاگو ہوتے ہیں۔ یہ تحقیق ‘سیل پریس جرنل’ کے جون کے شمارے میں شائع ہوئی ہے۔
انٹرماونٹین میڈیکل سینٹر یوٹاہ سے وابستہ تحقیق کاروں نے کہا ہےکہ روزوں کے فوائد پر کی جانے والی تحقیق کے نتیجے میں جسم کے اس حیاتیاتی عمل کی شناخت کی گئی ہے جو چربی کے خلیات میں سےخراب کولیسٹرول کو جلا کر توانائی میں تحلیل کرتا ہے، اس طرح فاقہ کی ڈائیٹ ذیا بیطس کے خطرے کے عوامل کے خلاف لڑنے میں مدد کر سکتی ہے۔
محقیقین نے دیکھا کہ جب خوراک دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے 10 سے 12 گھنٹے کے روزے کے بعد جسم اپنی توانائی کی ضرورت پورا کرنے کے لیے جسمانی نظام کے اندر موجود توانائی کے دیگر ذرائع کی صفائی کا عمل شروع کر دیتا ہے اور جسمانی چربی (چربی کے خلیات) میں موجود ایل ڈی ایل کولیسٹرول جسے خراب کولیسٹرول کہا جاتا ہے اسے جلا کر توانائی کے طور پر استعمال کرتا ہے۔
نگراں محقیق ڈاکٹر بینجمن نے کہا کہ روزے میں ذیا بیطس کی روک تھام کی اہم صلاحیت موجود ہے اگرچہ روزے کے فوائد پر ہم برسوں سے تحقیق میں مصروف ہیں۔ لیکن، اب تک یہ نہیں جان سکے کہ , روزے سے کیوں صحت کے لیے فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ لیکن، نئی تحقیق میں ذیا بیطس سے متعلقہ خطرات کے لیے روزے کے فوائد کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔ یہاں پری ذیا بیطس سے ہماری مراد خون میں موجود گلوکوز کی بلند سطح سے ہے جسے شوگر بھی کہا جاتا ہے لیکن یہ سطح اتنی زیادہ بھی نہیں ہوتی ہے کہ اسے ذیا بیطس کا مرض کہا جا سکے۔
ڈاکٹر بنجمن ہورن نے کہا ہے کہ اگرچہ روزے کے دوران شرکاء کے کولیسٹرول میں اضافہ دیکھا گیا لیکن چھ ہفتوں میں وزن کی کمی کے ساتھ کولیسٹرول کی سطح میں بھی 12فیصد کمی ہوئی۔
ہمارا اندازا تھا کہ خراب کولیسٹرول روزے کی حالت میں توانائی کے لیے استعمال کیا گیا جو کہ چربی کے خلیات سے حاصل ہوا تھا اس سے ہمیں اس بات کا ثبوت ملا کہ روزہ ذیا بیطس کے لیے ایک موثر مداخلت ثابت ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر ہورن کے مطابق، چربی کے خلیات سے ایل ڈی ایل کولیسٹرول کو جلا کر توانائی حاصل کرنے کا عمل انسولین سے مزاحمت کو روکنے میں مدد کرسکتا ہے،کیونکہ جسم میں انسولین کے خلاف مزاحمت پیدا ہونے کی وجہ سے لبلبہ جسم کی توانائی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ انسولین بناتا ہے اور حتیٰ کہ یہ جسم کی ضرورت کے مطابق، مطلوبہ انسولین بنانے کے قابل نہیں رہتا ہے اور نتیجتاً خون میں شوگر کی سطح بلند ہو جاتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ صحت کے لیے فوائد حاصل کرنے کے لیےلوگوں کو کتنا طویل اور کتنے عرصے تک روزہ رکھنا چاہیئے یہ ایک اضافی سوال ہے فی الحال ہمارا تجزیہ ابتدائی مراحل میں ہے۔
یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا کے ماہرین نے معلوم کیا ہے کہ اگر ایک ماہ میں پانچ دفعہ فاقے کی کیفیت سے گزرا جائے یا خوراک میں موجود کیلریز کی مقدار آدھی کردی جائے تو اس سے کینسر، ذیابیطس اور دیگر موذی امراض کا خطرہ کم کیا جاسکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ روزہ رکھنے سے دل کے امراض اور کینسر سے بچا جا سکتاہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کم از کم چھ گھنٹے تک پانی پر اکتفا کرنے سے بھی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ روزہ رکھنے سے جسم میں انسولین کی مقدار بہتر ہوتی ہے، نظام ہضم درست ہوتا ہے اور میٹابولزم کے عمل میں بھی بہتری آتی ہے۔
ماہرین کا مذید کہنا تھا کہ روزہ رکھنے سے عمر میں اضافہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ روزہ رکھنے والے ممالک اور افراد پر تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کم کھانے سے نظام ہضم پر زور نہیں پڑتا اور خلیات میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل سست ہو جاتا ہے جبکہ دماغی صلاحیت میں بھی بہتری آتی ہے۔
تحقیقی ماہرین کا کہنا تھا کہ ہر ماہ میں کم از کم پانچ روزے رکھنا انسانی صحت اور زندگی کیلئے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ریجنگ بالٹی مور میں ریسرچرز نے کہا کہ ایسے شواہد ملے ہیں کہ ہفتے میں ایک، دو روز کسی قسم کی خوراک نہ لینے کے دورانیے میں دماغ الزائمر اور پارکنسن کے شدید اثرات سے تحفظ دیتا ہے۔ روزہ سیلز پر اچھے اثرات ڈاتا ہے۔ جب لوگ روزہ رکھتے ہیں تو اس سے ایڈایٹیو سٹریس رسپانسز میں اضافہ ہوجاتا ہے اور دماغی صحت و کارکردگی بہتر ہوتی ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جب خوراک دستیاب نہ ہو تو پھر جگر Ketones کیٹونیس نامی کیمیکلز جسمانی چربی کو استعمال کرتے ہوئے بنانا شروع کردیتا ہے جو ہیومن برین کے لیے انتہائی موثر ایندھن کا کردار ادا کرتے ہیں۔ اس سے ڈی ٹاکسیفیکشن بڑھ جاتی ہے اور برین پرو ایکٹیو اینٹی آکسیڈنٹس کی پیداوار میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ سادہ الفاظ میں کیٹونز آپ کو زیادہ مستعد اور چالاک بناتے ہیں۔ رمضان میں دنیا بھر میں تمام مسلمان روزے رکھتے ہیں۔ عظیم فلاسفر پلیٹو یعنی افلاطون کا کہنا تھا کہ میں جسمانی اور دماغی استعداد میں اضافہ کے لیے روزہ رکھتا ہوں۔
اس بات کے بھی وافر ثبوت موجود ہیں کہ بندروں کے معاملے میں بھی یہ بات درست ثابت ہوئی۔
اس تحقیق کے مطابق’چوہوں کی عمر میں چالیس فی صد تک کا اضافہ دیکھا گیا۔ اگر انسان کی عمر میں بھی یہ اضافہ ہوتا ہے تو ان کی اوسط عمر ایک سو بیس سال ہوسکتی ہے۔‘
روزہ شوگر کو کم ہونے دیتا ہے نہ بلند۔ اس لیے دنیا کے بہت سے ممالک میں جن مریضوں کی شوگر کنٹرول نہیں ہوتی ان کو روزے رکھوائے جاتے ہیں۔ ان کا کھانا پینا جبراً بند کرا دیا جاتا ہے، جس سے ان کی شوگر کنٹرول میںآ جاتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تاثردرست نہیں کہ روزہ انسان کو کمزورکردیتا ہے کیوں کہ روزے کی حالت میں انسانی جسم میں موجود ایسے ہارمونز حرکت میں آجاتے ہیں جو بڑھاپے کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔
روزے سے انسانی جلد مضبوط ہوتی اور اس میں جھریاں کم ہوتی ہیں ۔
روزہ اسٹریس اور ذہنی تناؤ ختم کرتا ہے۔سائنسی تحقیقات نے روزے کا ایک اور فائدہ یہ ثابت کیا ہے کہ روزے سے بلڈ پریشر کنٹرول میں رہتا ہے۔ جب
انسانی جسم میں پانی کی مقدار کم ہوتی ہے تو بلڈ پریشر بھی کم ہو جاتا ہے۔ پھر ایسے ہارمون جسم کے اندر خارج ہوتے ہیں جو بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے میں معاون ہوتے ہیں اور اس کو قابو میں رکھتے ہیں۔ شوگر اور بلڈ پریشر کے کنٹرول، اور جسم کے اندر پانی کی مقدار کے کنٹرول کے نتیجے میں دل کی بیماریاں کم ہو جاتی ہیں۔ روزہ رکھنے والوں کو دل کے دورے کا امکان کم ہو جاتا ہے، ان کا ہارٹ فیل کم ہوتا ہے۔ اگر ان کو اس کا خطرہ ہو تو ان کی طبیعت روزہ رکھنے سے بہتر ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دل کے مریضوں کو عام طور پر بھی تھوڑا بہت فاقہ کرایا جاتا اور روزہ رکھوایا جاتا ہے۔ مغربی ممالک بالخصوص امریکا اور یورپ میں اب یہ ایک طریقہ علاج بن چکا ہے۔ جن مریضوں کے ہارٹ فیل ہونے کا خدشہ ہو ان کو جبراً فاقہ کرایا جاتا ہے، اور 82سے 92گھنٹے بھوکا پیاسا رکھا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ان کی صحت بھی بہتر ہو جاتی ہے۔
رمضان المبارک میں موٹاپے کے شکار افراد کا نارمل سحری اور افطاری کرنے کی صورت میں آٹھ سے دس پاؤنڈ وزن کم ہوسکتا ہے جبکہ روزہ رکھنے سے اضافی چربی بھی ختم ہوجاتی ہے ۔دراصل انسانی دماغ کے ہائیپوتھیلمس (hypothalamus) میں ایک سنٹر ہوتا ہے جسے لپوسٹیٹ (lipostat) کہتے ہیں۔ یہ انسان کی جسامت کو کنٹرول کرتا ہے۔ جب بھی خوراک کی انتہائی کمی سے وزن تیزی سے کم کیا جاتا ہے تو یہ سنٹر اس تبدیلی کو قبول نہیں کرتا اور جسم کے وزن کو دوبارہ معمول کی خوراک لینے سے پہلے والی سطح پر واپس لے آتاہے (Islamic Medicine، شاہد اختر، ص ۱۴۹)۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ موٹاپا دُور کرنے کے لیے وزن آہستہ آہستہ کم کیا جائے تاکہ لپوسٹیٹ اسے قبول کرلے اور ایسا ماہِ رمضان کے دوران ایک ماہ کے روزے رکھنے سے بآسانی کیا جاسکتا ہے۔ وہ خواتین جواولاد کی نعمت سے محروم ہیں اور موٹاپے کا شکار ہیں وہ ضرور روزے رکھیں تاکہ ان کا وزن کم ہوسکے۔یا د رہے کہ جدید میڈیکل سائنس کے مطابق وزن کم ہونے سے بے اولاد خواتین کو اولاد ہونے کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔
روزے سے معدے کی رطوبتوں میں توازن آتا ہے ۔نظامِ ہضم کی رطوبت خارج کرنے کا عمل دماغ کے ساتھ وابستہ ہے۔عام حالت میں بھوک کے دوران یہ رطوبتیںزیادہ مقدار میں خارج ہوتی ہیں جس سے معدے میں تیزابیت بڑھ جاتی ہے۔
روزہ دماغ کے اندر سیروٹونین (serotonin) ہارمون (جو نیورو ٹرانسمیٹر ہے) کی سطح کو بڑھاتا ہے، جس سے ڈپریشن سے نجات ملتی ہے۔
روزے کے جہاں بہت سے طبی فوائد ہیں وہاں ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ بعض لوگوں کو کسی قسم کے نشے کی بیماری ہوتی ہے۔ روزہ ان کے جسم کے اندر ایسے ہارمونز خارج کرتا ہے جن سے نشے کو قابو میں رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ سگریٹ پینے کے عادی افراد رمضان کے مہینے میں بڑی آسانی کے ساتھ اس عادت کو ترک کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ انسان میں ذہنی طور پر یہ صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ نشے کی طلب کو کنٹرول کر سکے اور اس عادت سے نجات حاصل کر سکے۔ روزے کے اس عمل کو نشے پر قابو پانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
روزہ حسِ ذائقہ کو بہتر کرتا ہے۔ بعض اوقات لوگ شکایت کرتے ہیں کہ زبان میں ذائقہ باقی نہیں رہا، کھانے کا مزا محسوس نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ زبان کے اندر taste budsہوتے ہیں جو غیر فعّال ہو جاتے ہیں یا ان کے اندر ایسی تبدیلیاں رْونما ہو جاتی ہیں کہ غذا کا ذائقہ محسوس نہیں ہو پاتا۔ تاہم مسلسل بھوکا پیاسا رہنے سے ذائقے کی حس دوبارہ فعّال ہو جاتی ہے۔
روزے کے دوران جب نظامِ ہضم خالی رہتا ہے تو اس کے حصّے میں آنے والی عمومی توانائی یعنی انرجی جسم کے دیگر Reactions میں مصروف ہوجاتی ہے۔جیسا کہ قوت مدافعت کے نظام اور کیمیائی اعمال کے لئے انرجی زیادہ مقدار میں دستیاب ہوتی ہے۔
روزہ ڈائٹنگ یا بھوکا رہنے سے مختلف ہے کیونکہ روزے میں سحری اور افطاری میں پیٹ بھر کر کھانے سے کمزوری اور فاقہ نہیں ہوتا۔نہ ہی جسمانی ضرورت کی کیلوریز مکمل کم ہوجاتی ہیں۔
ڈاکٹر Razeen Mahrof :۔۔
جو آکسفورڈمیں Anesthetistہیں‘کہتے ہیں کہ غذا اور صحت کا تعلق بہت مضبوط ہے۔ گو کہ رمضان وزن کم کرنے والوں کے لئے ایک زبردست Opportunity ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ اس کے روحانی فائدے ہیں۔ بیک وقت ہم جسمانی اور روحانی فائدے حاصل کر سکتے ہیں۔
۔ سویڈن کے ریسرچ اسکالرز :۔
کہتے ہیں کہ روزہ رکھنے سے ایسے افراد کی جماعت جو تھوڑے فربہی مائل ہوں، کم ہونے لگتی ہیں، جب کہ جو افراد دبلے پتلے ہوں ان کی صحت میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔
ملحدین کہتے ہیں کہ روزے کے دوران پانی کی کمی سے گردے فیل ہوسکتے ہیں جب کہ جدید سائنسی تحقیق یہ بات غلط ثابت کر چکی ہے۔انسانی جسم کو ایک دن میں دو سے تین لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے اور روزہ دار سحری افطاری میں اور افطاری کے بعد وافر پانی پی کر یہ ضرورت آسانی سے پوری کر سکتا ہے۔سائنس چابت کر چکی ہے کہ روزے سے انسانیا جسم میں پانیکیل کی کمی اس خوفناک حد تک نہیں ہوتی جس سے گردوں کوکے خطرہ ہو ہو اور اگر ایسی صورت بن جا ئے تو شریعت نے روزہ توڑنے تک کی اجازت دی ہے۔
ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ جدید سائنسی تحقیقات روزے پر ملحدین کے سب اعتراضات کو جھوٹ اور بے بنیاد ثابت کر چکی ہیں۔مزید تفصیل کے لیے نیچے دی گئ ncbi کی سائٹ پر موجود سائنسی تحقیقات کا مطالعہ کیجیے۔
الحمداللہ۔
ھذا ماعندی۔و اللہ اعلم بالصواب

حوالہ جات:
https://www.express.pk/…/روزہ-جسمانی-صحت-اور-جدید-طبی-تحقی…/
http://urdu.alarabiya.net/…/روزے-کے-حیرت-انگیز-طبی-فوائد-جن…
http://urduold.ws.irib.ir/…/it…/39142-روزوں-کے-بے-شمار-فوائد
http://irak.pk/fasting-for-three-days-renews-entire-immune…/
http://www.suffahpk.com/rozy-key-rohani-or-tabi-fawaid-or-…/
http://www.almisbah14.com/…/54-روزہ-اور-اس-کے-طبی-فوائد.html
https://www.arynews.tv/…/fast-helath-benefits-on-human-body/
http://www.bbc.com/…/20…/08/120805_fasting_feasting_mb.shtml
سوفوریں ، الکسی ، روزہ بیماریوں کا جدید علاج ، ص 69 ، مترجم ذوالفقار علی زیدی ، ناشر ، الحرمین پبلیشرز ، پاکستان کراچی ، دسمبر /2003
سنت نبوی اور جدید سائنس
اسلامی نیا دنیا ، ( محمود چغتائی محمد طارق ، سنت نبوی اور جدید سائنس ) ، ج۱ ، ص ۱۶۵
https://www.ncbi.nlm.nih.gov/pmc/articles/PMC3680567/…
https://www.ncbi.nlm.nih.gov/pmc/articles/PMC4257368/
https://www.ncbi.nlm.nih.gov/pubmed/14681711
https://www.ncbi.nlm.nih.gov/pubmed/16761684
https://www.ncbi.nlm.nih.gov/pmc/articles/PMC3289216/
https://www.ncbi.nlm.nih.gov/pmc/articles/PMC4274578/
http://www.avensonline.org/ful…/jemcc-2469-4045-02-0007.html
http://www.livestrong.com/…/463230-what-can-i-drink-when-d…/
https://www.ncbi.nlm.nih.gov/pmc/articles/PMC4500815/
http://www.healthcrowonline.com/the-ignored-health-benefit…/
مکمل تحریر >>