Saturday, 28 October 2017

انسانی ارتقا کی فرضی کہانی اور ارتقا والوں کے جھوٹ قسط 3

انسانی ارتقا کی فرضی کہانی اور ارتقا والوں کے جھوٹ قسط 3
انسانی ارتقا کی فرضی کہانی اور ارتقا والوں کے جھوٹ
انسانی ارتقا کے لیے پیش کیے جانے والے فوسلز کی اصل داستان
اقتباس:نظریہ ارتقا ، ایک فریب
مصنف:ہارون یحیی
======================================
اسٹرالوپتھیسینز اور چمپانزی کے درمیان ڈھانچے اور کھوپڑی کی مشترک قدریں اور اس دعویٰ کی منسوخی نے کہ یہ مخلوق سیدھی چلتی تھی ، ارتقاءپسند ماہرِ قدیم بشری رکازیات(Paleontologist) کو شدید مشکلات کا شکار کردیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خیالی ارتقائی ترتیب کے حساب سے ہوموارکٹس اسٹرالوپتھیکس کے بعد آتے ہیں جیسے کہ اس کے نام ہومو یعنی انسان سے واضح ہے کہ ہومو ارکٹس ایک انسانی نسل ہے اور اس کا ڈھانچہ سیدھا ہے۔ اس کی کھوپڑی کا حصہ اسٹرالو پتھیکس کا دوگنا ہے۔آسٹرالوپتھییکس جیسے گوریلا نما چمپانزی سے ہومو ارکٹس جیسے دورِ حاضر کے انسان جیسا ڈھانچہ رکھنے والی مخلوق تک براہِ راست جست کا سوال ارتقائی دعوﺅں کے حساب سے بھی ناممکن ہے۔ اسی لئے ان دو نسلوں کو جوڑنے کے لئے کڑیوں کی ضرورت پڑی۔ اسی ضرورت کے تحت ہومو ہابلس(הומו הביליס, Homo Habilis) کو بنانا لازمی ہوگیا۔
ارتقاءپسند لمبے عرصے تک یہ بحث کرتے رہے کہ ہوموہابلس نامی مخلوق مکمل طور پر کھڑے قد کے ساتھ چل سکتی تھی۔ ان کے خیال سے اس مخلوق کی شکل میں ان کو گوریلے اور انسان کے درمیان کی کڑی مل گئی ہے لیکن 1986 ءمیں ٹم وائٹ کے دریافت شدہ نئے ہوموہابلس کے 62 نامی فوصلوں نے ان مفروضوں کی تردید کردی۔ ان فوصلوں یعنی رکاز یا زمانہ قدیم کے مرنے والے جانوروں کی باقیات ہوموہابلس کے لمبے بازو اور چھوٹی ٹانگیں نمایاں تھیں جوکہ دورِ حاضر کے گوریلوں کے عین مشابہہ ہیں۔ اس فوصل سے اس مفروضے کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہوگیا کہ ہوموہابلس عمودی طور پر کھڑا قد چلنے والا دوپایہ یا دو پاؤں پہ چلنے والا جانور تھا۔ درحقیقت ہوموہابلس گوریلوں کی ہی ایک نسل تھی۔اور یہ انسانی ارتقا کی کوی نشانی یا دلیل نہیں۔
ہومو ہابلس نسل کے جبڑوں کی ساخت واضح ہے۔ اس جبڑے کے فوصل میں بڑے بڑے نکیلے دانت نمایاں ہیں۔ اس کے ڈاڑھ چھوٹے اور جبڑے کی عمومی شکل چوکور ہے۔ یہ جبڑا ایک بار پھر ثابت کرتا ہے کہ ہومو ہابلس ایک گوریلا ہی تھا۔نہ کہ انسان اور گوریلے کی مشترکہ خصوصیات رکھنے کوی جانور۔اور یہ بات ارتقائی دعوے غلط کر رہی ہے
ہوموہابلس کی گروہ بندی 1960ء کے سالوں میں لیکی خاندان کے فوصلی شکاریوں نے تجویز کی۔ لیکی خاندان کے حساب سے اس نئی نسل کا نام ہوموہابلس تھا اور اس کی کئی نمایاں خصوصیات تھیں جن میں بڑی کھوپڑیاں، سیدھا چلنے کی صفت اور پتھر اور لکڑی سے بنے ہوئے اوزاروں کو استعمال کرنے کی صلاحیت شامل ہے۔ اس لئے انہوں نے اندازہ لگایا کہ یہ گروہ انسان کا جد امجد ہونے کا اعزاز رکھتا ہے۔ لیکن اس نسل کے 1980ء کے آخری سالوں میں ملنے والے نئے فوصلوں نے اس منظر کو مکمل طور پر بدل دیا۔ ان نئے فوصلوں پر انحصار کرنے والے تحقیق دانوں برنارڈ وڈ او ر سی۔ لورنگ برلیس نے بیان دیا کہ ہوموہابلس (جس کا مطلب ہے کہ کاریگر آدمی یا وہ آدمی جو اوزار استعمال کرنا جانتا ہو) کو اسٹرالوپتھیکس ہابلس یا ہنر مند جنوبی گوریلا کا خطاب دیا جائے کیونکہ ہوموہابلس اور آسٹرالوپتھیسین گوریلوں کے درمیان کئی قدریں مشترک تھیں۔ ہوموہابلس کے بھی اسٹرالوپتھیکس کی طرح لمبے بازو، چھوٹی ٹانگےںاور گوریلا نما ڈھانچہ تھا۔ اس کی بھی انگلیاں اور پیر چڑھنے کے لئے موزوں تھے اور ان کا جبڑا دورِ حاضر کے گوریلے کے مشابہ تھا۔ ان کی CC600کی کھوپڑی کی اوسطاً پیمائش بھی اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ یہ دراصل گوریلے ہی تھے۔ قصہ مختصر یہ کہ ہو موہابلس کو گو کہ ارتقاءپسندوں نے ایک مختلف نسل کے طور پر پیش کیا لیکن حقیقتاً وہ دوسرے تمام اسٹرالاپتھیسین کی طرح گوریلوں کی ہی ایک قسم تھے۔
وڈاور برلیس کے کام کے بعد کی جانے والی تحقیق نے مزید ثابت کیا کہ ہوموہابلس اسٹرالوپتھیکس سے بالکل مختلف نہیں تھے۔ ٹی وائٹ کو ملنے والا OH62 نامی کھوپڑی اور ڈھانچے کا فوصل ظاہر کرتا ہے کہ اس نسل کی کھوپڑی کا حصہ چھوٹا تھا اور اس کے باز لمبے اور ٹانگیں گڈی تھیں جن سے وہ با آسانی دورِ حاضر کے گوریلوں کی طرح درختوں پر چڑھ سکتا تھا۔ 1996ء میں امریکی ماہر ِبشریات( Human Paleontologist) ہولی اسمتھ کی تفصیلی تحقیق نے ثابت کیا کہ ہوموہابلس دراصل ہوموتھے ہی نہیں یعنی کووہ انسان نہیں تھے بلکہ وہ بلا اشتہباہ گوریلے تھے۔آسٹریلوپتھیکس، ہوموہابلس، ہوموارکٹس اور ہومو نیانڈر تھالنسس کے دانتوں کے اوپر کی گئی تحقیق کے بارے میں ہولی اسمتھ کہتی ہے:
”مخصوص حدود کو مدنظر رکھتے ہوئے جب آسٹرالوپتھیسنز اور ہوموہابلس کے دانتوں کی ترتیب کا معائنہ کیا جاتا ہے تو ان نسلوں کی درجہ بندی صرف افریقہ کے گوریلوں کے ساتھ ہی کی جاسکتی ہے۔ ہوموارکٹس اور نیانڈرتھال کی درجہ بندی انسای گروہ میں ہوتی ہے۔“ 1
اس سال کے دوران ماہر ِ تشریح البدن یعنی اناٹومی فریڈ اسپور، برنارڈوڈ اور فرانززونیولڈ ایک مختلف طریقے سے اسی مشترک فیصلے پر پہنچے۔ ان کا طریقہ کار انسان اور گوریلوں کے اندرونی کان میں موجود نیم دائرے کی شکل کی نالیوں کی موازنی تحقیق تھی۔ سپور، وڈ اور زونیولڈ کا نتیجہ یہ تھا کہ:
”انسان کے فوصلوں میں سب سے جدید انسانی شکل پیش کرنے والا نمونہ ہوموارکٹس کا ہے۔ اس کے مقابلے میں جنوبی افریقہ کے خطے کی مخصوص کھوپڑی کی نیم دائرہ نالیاں جوکہ آسٹرالوپتھیکس اور پرانتھروپس کا خاصہ ہیں وہ معدوم بڑے گوریلوں سے مشابہ ہیں۔“ 2
اسپور، وڈ اور زونیولڈ نے STW53 نامی ہوموہابلس کے نمونے کا بھی مطالعہ کیا اور اس کے بارے میں کہا کہ ”STW53 کا انحصار اپنے دوبازوﺅں پر آسٹرالوپتھیسینز سے کم تھا۔“ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہومو ہابلس نمونہ آسٹرالوپتھیکس نسل سے بھی زیادہ گوریلا نما تھا۔ ان تینوں تحقیق دانوں کا خلاصہ یہ تھا کہ:
”STW53 اسٹرالوپتھیسینز اور ہوموارکٹس کی ہیتوں کے درمیان ایک ناممکن کڑی ہے۔“ اس تمام تحقیق سے دو اہم نتائج سامنے آئے۔
1۔ ہوموہابلس نامی فوصل جنس ہومو یا انسانی جنس کا حصہ نہیں تھے بلکہ ان کا تعلق آسٹرالوپتھیکس یا گوریلوں کے گروہ سے تھا۔
2۔ ہوموہابلس اور آسٹرالوپتھیکس آگے جھک کر چلنے والی مخلوق تھے یعنی کہ ان کے ڈھانچے گوریلوں کے تھے۔ ان کا انسان کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں ہے۔
“ قدیم انسان ہمارے اندازوں سے زیادہ عقلمند تھے ”
وڈ اور کالارڈ کا حتمی نتیجہ بھی وہی ہے جس کے اوپر شروع سے زوردیا جارہا ہے اور وہ یہ کہ قدیم انسانی پرکھا جیسی کوئی مخلوق تاریخ میں موجود نہیں ہے۔ جس مخلوق کے بارے میں ازروئے دعویٰ یہ خیال کیا جاتا بھی ہے تو وہ مخلوق دراصل جنس آسٹرالوپتھیکس کا حصہ ہے۔ فوصلی ریکارڈ کے مطابق معدوم گوریلوں اور ہومو یعنی انسانی نسلوں میں کسی قسم کا ارتقائی تعلق نہیں ہے۔ انسانی نسلیں بھی دوسرے تمام جانداروں کی طرح اچانک فوصلی ریکارڈ میں نمودار ہوئیں۔
کچھ دریافتیں ایسی بھی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ہوموسیپینز یعنی انسان کی عمر 8 لاکھ سال سے بھی زیادہ پرانی ہے۔ ان میں سے لوئس لیکی کی اولڈ لوائی گورج میں کی گئی 1970ء کے سالوں کی یہ دریافت ہے۔ یہاں پر پرت II کی تہہ سے لیکی کو پتہ چلا کہ آسٹرالوپتھیکس، ہوموہابلس اور ہومو ارکٹس نسلیں ایک ہی وقت کے ایک ہی دور میں موجود تھیں۔ اس سے زیادہ حیرت انگےز وہ ساخت تھی جو کہ لیکی کو اسی خطے سے ملی۔ یہاں اس کو ایک پتھر کی جھونپڑی کے بقیا جات ملے۔ اس واقعے کے بارے میں سب سے غیر معمولی بات یہ تھی کہ اس جھونپڑی کو بنانے کا طریقہ کار آج بھی افریقہ کے کچھ حصوں میں استعمال ہوتا ہے اور اس کو صرف ہوموسیپینز ہی تعمیر کرتے ہیں۔ لیکی کی اس دریافت کے مطابق آسٹرالوپتھیکس ہوموہابلس، ہوموارکٹس اور دورِ حاضر کا انسان ساتھ ساتھ ہی تقریباً کئی لاکھ سال پہلے زندہ تھے ۔3 اس دریافت سے وہ تمام ارتقائی نظریئے ناقص ہوجاتے ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ جدید انسان آسٹرالوپتھیکس جیسی گوریلا نما مخلوق کی تدریجی شکل ہے۔
حوالہ جات:
1: Holly Smith, American Journal of Physical Antropology, Vol 94, 1994, pp. 307-325.
2:Fred Spoor, Bernard Wood, Frans Zonneveld, "Implication of Early Hominid Labryntine Morphology for Evolution of Human Bipedal Locomotion", Nature, vol 369, June 23, 1994, p. 645-648.
3: A. J. Kelso, Physical Anthropology, 1.b., 1970, pp. 221; M. D. Leakey, Olduvai Gorge, Vol 3, Cambridge: Cambridge University Press, 1971, p. 272.


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔