Saturday, 28 October 2017

انسانی ارتقا کی فرضی کہانی اور ارتقا والوں کے جھوٹ قسط 8

انسانی ارتقا کی فرضی کہانی اور ارتقا والوں کے جھوٹ قسط 8 اور آخری قسط
دو پاؤں پہ چلنے کی صلاحیت کس طرح انسانی ارتقا کے فرضی نظریے کو غلط ثابت کرتی ہے؟
ملحد سائنسدانوں کے ارتقا کے فرضی نظریے پہ سائنسی تعصب خود سائنسدانوں کے اپنے الفاظ میں
انسانی ارتقا کے لیے پیش کیے جانے والے فوسلز کی اصل داستان
اقتباس:نظریہ ارتقا ، ایک فریب
مصنف: ترک سکالر ہارون یحیی
ڈاؤن لوڈ لنک:http://kitabosunnat.com/kutub-library/nazriairtaqaaikfaraib
======================================
اب تک زیرِ غور لائے گئے فوصلی ریکارڈ یعنی رکاز یا زمانہ قدیم کےسے مرے ہوئے جانداروں کی بقایا جات کے علاوہ انسان اور گوریلوں میں تشریح الاعضاء یعنی اناٹومی یا جسمادنی ساخت کے حساب سے بھی اتنا زیادہ فرق اور خلاہے کہ انسانی ارتقاءکی خیالی کہانی مکمل طور پر منسوخ ہو جاتی ہے۔ ان میں سے ایک فرق دو ٹانگوں پر چلنے کی مخصوص خاصیت ہے۔ انسان دو ٹانگوں پر عمودی زاویئے سے چلتا ہے۔ یہ حرکت کرنے کی اتنی مخصوص صلاحیت ہے کہ انسان کے علاوہ کسی اور ممالیہ نسل میں نظر نہیں آتی۔ کچھ جانور اپنے پیچھے کی ٹانگوں پر کھڑے ہوکر تھوڑی دیر کے لئے چل سکتے ہیں لیکن یہ ان کا قدرتی چلنے کا طریقہ نہیں ہوتا۔ بھالو اور بندر اس طرح سے تھوڑی دیر کے لئے حرکت کرتے ہیں اگر ان کو کھانے پینے کی کوئی چیز حاصل کرنا ہو۔ عام طور پر ان کے ڈھانچے آگے کی طرف جھکے ہوئے ہوتے ہیں اور وہ اپنی چاروں ٹانگوں پر ہی چلتے ہیں۔ تو پھر کیا دوپایہ چلنے کی صفت گوریلوں کی چارپایہ چلنے کی صفت کی تدریجی شکل ہے جیسا کہ ارتقاءپسندوں کا دعویٰ ہے؟ ہرگز نہیں۔ تحقیق کے مطابق دوپایہ صفت ارتقاءکا نتیجہ نہیں ہے۔ اس طرح ہونا ممکن ہی نہیں تھا۔ پہلی بات تو یہ کہ دو پایہ صفت کسی طرح کا ارتقائی فائدہ نہیں ہے۔ اس کی کئی وجوحات ہیں۔
حالیہ تحقیق ثابت کرتی ہے کہ گوریلوں کا جھکا ہوا ڈھانچہ صرف چوپایہ یعنی چار قدموں والی چال کے لئے ہی بناگیا ہے اور اس ڈھانچے کا انسانی دوپایہ یعنی دوزمین پاؤں پہ والی چاپ ڈھانچے میں ارتقائی عمل کے ذریعے تبدیل ہوجانا قطعی ناممکن ہے۔
بندروں کی حرکت کا طریقہ انسان کی دوپایہ صفت سے کہیں زیادہ آسان، تیز اور کارگزر ہے۔انسان ایک درخت سے دوسرے درخت پر بندروں کی طرح جست لگاکر نہیں پہنچ سکتا۔ اس کو زمین پر آکر دوسرے درخت پر دوبارہ چڑھنا پڑتا ہے۔انسان چیتے کی طرح 125 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ بھی نہیں سکتا۔ اس کے برعکس کیونکہ انسان دوٹانگوں پر چلتا ہے اس لئے اس کی حرکت کی رفتار نسبتاً آہستہ ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے وہ تمام نسلوں میں حرکت اور تحفظ کے اعتبار سے سب سے زیادہ غیر محفوظ نسل ہے۔ نظریہ ارتقاءکی منطق کے مطابق بندروں کو تدریجی ترقی کے ذریعے دوپایہ مخلوق نہیں بننا چاہئے تھا بلکہ انسان جیسی دفاع کے اعتبار سے کمزور اور غیر محفوظ مخلوق کو چارپایہ بن جانا چاہئے تھا۔
اس ارتقائی دعوے کاایک اور تعطل یہ ہے کہ دوپایہ صفت کسی بھی طور پر ڈارون کے ’ سلسلہ وار ترقی‘ کے نمونے کی ضروریات کو پورا نہیں کرتی۔ یہ نمونہ نظریہ ارتقاءکی ایک اہم بنیاد ہے اور اس کا تقاضا ہے کہ دوپایہ اور چار پایہ اوصاف کے درمیان ایک ’مجموعی‘ عبور ہے۔ لیکن 1996ء میں انگریز ماہرِ قدیم بشری رکازیات(Human Paleontologist) روبن کرومپٹن نے کمپیوٹر کے ذریعے کی گئی تحقیق سے ثابت کیا کہ ایسا کوئی بھی ”مجموعی“ عبوری طریقہ کار قطعاً ناممکن ہے۔ کرومپٹن نے نتیجہ نکالا کہ ’کوئی بھی جاندار یا تو صرف عمودی حالت میں دو ٹانوں پر چلنے کے لائق ہوتا ہے یا پھر چوپایہ ہوتا ہے۔“1
ان دونوں کے درمیان کسی بھی ”مجموعی“ طو رپر فاصلے کو ختم کردینے کا طریقہ کار ناممکن ہے کیونکہ اس میں حد سے زیادہ طاقت کا مصرف بھی لازم ہے۔ اسی لئے کوئی’ آدھا‘ دوپایہ وجود میں نہیں ہے۔
انسان اور گوریلے کی درمیان زبردست فاصلہ صرف دوپایہ صفت تک ہی محدود نہیں ہے۔ بہت سے دوسرے تنازعے بھی ابھی تک حل نہیں ہوسکے۔ مثلاً دماغ کی گنجائش، بولنے کی صلاحیت اور دوسرے کئی معاملات بھی آج تک اسی جگہ اٹکے ہوئے ہیں۔ اس معاملے پر ارتقائی ماہرِ قدیم بشری رکازیات ایلین مورگن اپنے اعترافی نوعیت کے خیالات کا اظہار کرتی ہیں:
”انسانوں سے متعلق چار ممتاز بھید یہ ہیں
1:وہ دو ٹانگوں پر کیوں چلتے ہیں؟
2: ان کی کھال کا پشم کہاں گیا؟
3:ان کے دماغ اتنے بڑے کیوں ہیں؟
4: انہوں نے بولنا کیوں سیکھا؟
ان تمام سوالوں کے کٹر روایات پسند جوابات ہیں.
۔ ہم کو ابھی نہیں پتہ
ہم کو ابھی نہیں پتہ
ہم کو ابھی نہیں پتہ
۔ہم کو ابھی نہیں پتہ۔ سوالوں کی فہرست میں کئی سوال اور بھی ڈالے جاسکتے ہیں لیکن جواب کی نوعیت پر کوئی فرق نہیں آئے گا۔“ 2
لارڈ سولی زکرمین کا شمار انگلستان کے مشہور ترین باعزت سائنسدانوں میں ہوتا ہے۔ اس نے کئی سالوں فوصلی ریکارڈ کا مطالعہ کیا ہے اور ان کے اوپر تفصیلی تحقیق بھی کی ہے۔ اس کو اپنا نام اور مقام سائنس کی انتھک خدمت سے حاصل ہوا ہے۔ زکرمین ایک ارتقاءپسند ہے اسی لئے ارتقاءکے متعلق اس کے نظریات بے علم اور متعصب قرار نہیں دیئے جاسکتے۔ فوصلوں کے اوپر اس کی کئی سالہ تحقیق کا محور انسانی ارتقاءکا خیالی منظر نامہ بھی ہے۔ زکر مین کے مطابق اس خیالی شجرہ نسب میں کوئی سچائی نہیں ہے۔
ذکر مین نے ایک اور دلچسپ ”سائنسی تجزیئے کا نقشہ“ نامی ایک عمومی تصور کا آغاز کیا جس کے ذریعے سائنسی اعتبار سے درست اور غیرسائنسی روایات کا تجزیہ کیا جاسکے۔ زکر مین کے اس نقشے کے مطابق سب سے زیادہ ٹھوس تحقیق پرمبنی اور سائنسی رو سے قابل اعتبار سائنسی شاخیں کیمیا اور طبابت ہیں۔ اس کے بعد حیاتیاتی سائنسی شاخیں آتی ہیں اور پھر معاشرتی شاخیں ہیں۔ اس تجزیئے کے نقشے کا بالکل آخری کونا غیر سائنسی کونا بن جاتا ہے اور یہاں پر غیر حسی مشاہدے جس طرح بعید رسانی اور وجدان موجود ہیں۔ نقشہ کے اس آخری کونے کی آخری چیز انسانی ارتقاءہے۔ زکر مین اپنے استدلال کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے:
”ہم لوگ حقیقی سچائی کے میدان سے نکل کر فرض کی جانے والی حیاتیاتی سائنس کے دائرے میں آجاتے ہیں مثلاً وجدان یا غیر حسی مشاہدے۔ انسان کی فوصلی تاریخ میں
عقیدہ مندوں کے لئے ہر چیز ممکن بن جاتی ہے اور ان کے لئے بیک وقت کئی پرُ اختلاف دعوﺅں کو بھی صحیح مان لیناکسی قسم کا مسئلہ پیش نہیں کرتا۔“ 3
رابرٹ لوک رسالہ’ ڈسکوورنگ آرکیولوجی (Discovering Archaeology)‘کے مدیر اعلیٰ ہیں ۔یہ رسالہ انسان کی ابتداءکے اوپر ایک اہم جریدہ ہے۔ لوک اس رسالے میں لکھتا ہے:
”انسانی جد امجد کی تلاش روشنی سے زیادہ گرمی برآمد کررہی ہے۔“ اس مضمون میں اس نے مشہور ارتقائی ماہرِ قدیم بشری رکازیات(Evolutionary paleontologist) ٹم وائٹ کا اعتراف بھی شامل کیا ہے۔
”ہم سب لوگ ان تمام سوالوں کے ہاتھوں شدید مایوسی اور الجھن کا شکار ہیں جن کے ہم جواب نہیں دے پائے ہیں“ ۔4
لوک کا مضمون نظریہ ارتقاءکا انسان کی ابتداءکے موضوع پر تعطل اور تشہیراتی ذرائع سے اس موضوع کے سراسر بے بنیاد پرچار کا معائنہ کرتا ہے۔
”سائنس کا کوئی بھی شعبہ انسان کی ابتداءکی تلاش سے زیادہ حجتی اور تصفےہ طلب نہیں ہے۔ نامور ماہرِ قدیم بشری رکازیات کو انسان کے شجرہ نسب کی سب سے بنیادی ابتدائی خاکے کے بارے میں بھی اختلافات ہیں۔ اس شجرے کی نئی شاخیں زبردست دھوم دھڑکے سے اگتی تو ہیں لیکن نئی فوصلی دریافت کی روشنی میں سوکھ کر مر جاتی ہیں۔“ 5
ایک جانے پہچانے جریدے ”نیچر“ کے مدیر اعلیٰ ہنری گی نے حال ہی میں اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے۔1991ء میں چھپنے والی اپنی کتاب، ”ان سرچ آف ڈیپ ٹائم“(In Search Of Deep Time) میں گی کہتا ہے :
”انسانی ارتقاءسے متعلق 5 سے 10 لاکھ سال کے عرصے پر محیط ثبوت جو کہ جانداروں کی کئی ہزار نسلوں پر مشتمل ہے اس کو ایک چھوٹے سے ڈبے کے اندر بند کیا جاسکتا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ انسانوں کی ابتداءاور ترقی سے متعلق تمام روایتی ثبوت سراسر انسانی ایجاد ہے جس کا دارومدار انسانی تعصبات پر ہے۔“
وہ مزید کہتا ہے:
”کسی بھی فوصلی سلسلے کو اٹھاکر دعویٰ کردینا کہ یہ کسی نسل کے ترجمان ہیں ہرگز ایسا سائنسی مفروضہ نہیں ہے جس کی تحقیق کی جاسکے۔ یہ صرف ایک ایسا اعلان کا عمل ہے جیسے کہ بچے کو رات میں بہلانے والی کوئی کہانی جو کہ دلچسپ اور تعلیمی تو ہوسکتی ہے لیکن سائنسی ہرگز نہیں ہوتی۔“ 6
پھر کیا وجہ ہے کہ لاتعداد سائنسدان اس کٹر عقیدے پر اتنی مضبوطی سے قائم ہیں؟ وہ اتنی سختی سے اپنے اس نظریئے کو زندہ رکھنے کے لئے سرگرداں کیوں ہیں باوجود اس کے کہ اس کے لئے ان کو کئی مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کتنے ہی ثبوت ضائع کرنے پڑتے ہے؟ اس کا جواب صرف ان کا اس حقیقت سے خوفزدہ ہونا ہے جس سے ان کو نظریہ ارتقاءکو غلط مان لینے پر سامنا کرنا پڑے گا۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ انسان اور تمام جاندار صرف اور صرف اﷲ کی تخلیق ہیں۔ لیکن ان کی تمام پیش قیاسیاں اور مادی فلسفہ پر کٹر یقین ان کے لئے تخلیق کو ایک ناقابل قبول تصور بنادیتا ہے۔ اسی وجہ سے وہ اپنے آپ کو اور دنیا کو اپنے ساتھ تعاون کرنے والے تشہیراتی ذرائع کے ذریعے شدید دھوکے کا شکار رکھتے ہیں۔ اگر ان کو ضروری فوصل نہیں ملتے تو وہ جعلی فوصل بنانے سے گریز نہیں کرتے جوکہ وہ خیالی خاکوں، نقشوں اور شکلوں کی صورت میں دنیا کے سامنے اس مکمل اعتماد کے ساتھ پیش کردیتے ہیں کہ جیسے واقعی
یہ ارتقاءکو ثابت کرنے والے اصل فوصل ہیں۔ وہ تمام وسیع تشہیراتی ذرائع جوکہ انہیں کی طرح مادہ پرست نقطہ نظر رکھتے ہیںوہ اپنی کہانیوں سے لوگوں کے تحت الشعور میں ارتقاءکے متعلق جھوٹ کو بٹھانے میں جت جاتے ہیں۔ لیکن ان کی تمام تر کوششوں کے باوجود وہ سچ کو بدل نہیں سکتے کہ انسان کسی ارتقائی عمل سے نہیں بلکہ اﷲ کی تخلیق سے وجود میں آیا ہے اور وہ صرف ﷲ کے سامنے جوابدہ ہے۔
حوالہ جات:
1:Ruth Henke, "Aufrecht aus den Baumen", Focus, Vol 39, 1996, p. 178.
2:Elaine Morgan, The Scars of Evolution, New York: Oxford University Press, 1994, p. 5.
3: Solly Zuckerman, Beyond The Ivory Tower, New York: Toplinger Publications, 1970, p. 19.
4: Robert Locke, "Family Fights", Discovering Archaeology, July/August 1999, p. 36-39.
5: Ibid.
6: Henry Gee, In Search of Time: Beyond the Fossil Record to a New History of Life, New York, The Free Press, 1999, p. 126-127.


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔