Wednesday, 25 October 2017

اسٹرانومی یعنی علم فلکیات کے حوالے سے ایک مضمون

اسٹرانومی یعنی علم فلکیات کے حوالے سے ایک مضمون

کائناتی وسعتیں
»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»
تقریباً دو دھائیوں سے زیادہ عرصہ گزرا ہبل خلائی دوربین (Hubble Space Telescope) انتہائی مدھم روشنی کی شعاعوں کو پکڑ پکڑ کر انتہائی حیرت انگیز تصاویر فراہم کر رہی ہے، اس کے باعث کھربوں سال دوری پر کائنات کا مشاہدہ کرنے کے لئیے ایک کھڑکی کھل گئی ہے، یعنی ان دور افتادہ جگہوں تک جہاں ہم کبھی بھی نہیں پہنچ سکتے۔ بحرحال ہبل دوربین سے لی گئی ایک تصویر ایسی ہے جس نے کائنات کی عظیم وسعت کو بیان کرنے میں ایک موثر کردار ادا کیا ہے۔ اس تصویر کو ہبل الٹرا ڈیپ فیلڈ(Hubble Ultra Deep Field) کہا جاتا ہے۔ اس تصویر کو لینے میں 24 دن کا وقت لگا اور یہ 24 ستمبر 2003 سے لے کر 16 جنوری 2004 کے درمیان وقفے وقفے سے لی گئی تھی۔
اس وقت کے دوران ہبل کے دو کیمرے، جدید جائزہ (Advanced Survey Camera)لینے والا کیمرہ، نئیر انفراریڈ کیمرہ (Near Infrared Camera) اور قریبی طبعیت پیما (Multi-object Spectrometer) کو فورناکس کے جنوبی مجمع النجوم (Fornax Southern Constellation) میں خلا کے ایک انتہائی چھوٹے سے حصے کی طرف مرکوز کیا گیا، خلا کا یہ ٹکڑا اتنا چھوٹا اور تاریک ہے۔ ہبل ڈیپ فیلڈ جیسی 50 تصاویر ہبل سے لی گئی چاند کی ایک تصویر میں سما سکتی ہیں۔
زمین سے دیکھنے پر رات کے آسمان کا یہ ٹکڑا مکمل طور پر تاریک لگتا ہے، اسمیں کوئی ستارہ نہیں دکھتا اسی لئیے اسکا انتخاب کیا گیا۔ ہبل کی ملین سیکنڈ شٹر سپیڈ(Million Second Shutter Speed) کو استعمال کر کے ہبل نے اس تاریک حصے کی انتہائی دھندلی تصاویر لینی شروع کیں، جو کہ تاریکی میں بہت ہی دور کہکشاؤں کی تھیں۔ اس تصویر میں دھندلی ترین نظر آنے والی کہکشائیں ہر 1 منٹ بعد ہبل کے سنسر سے ٹکرانے والے اکلوتے فوٹان کا نتیجہ ہیں۔ اس تصویر میں نظر آنے والے تمام نقطے بڑی بڑی کہکشائیں ہیں، ہر ایک کھربوں ستاروں کا جھرمٹ، اس تصویر میں 10000 کہکشائیں سمائی ہوئی ہیں اور اگر اس مشاہدے کو لے کر سارے آسمان کا اندازہ لگایا جائے تو قابل مشاہدہ کائنات میں کم از کم 100 ارب کہکشائیں ہیں، اور ان میں سے ہر ایک کہکشاں میں اربوں ستارے ہیں۔
بحرحال اس تصویر کے پیمانے سے بڑھ کر حیرت انگیز کہکشاؤں کے درمیان فاصلہ اور اس کے مقابلے میں روشنی کی سست رفتار(تقریباً 3 لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ) فطرت ہے۔ اس تصویر میں دکھائی جانے والی ہزاروں کہکشائیں زمین سے مختلف فاصلوں پر ہیں، جسکے باعث یہ تصویر سہہ ابعادی(Three Dimensional) بن جاتی ہے، تیسری ابعد(Third Dimension) مکاں(spatial) کے بجائے عارضی زمان(Temporal) ہے۔ جب ہم ہبل سے لئیے گئے اس تصویری شاہکار کو دیکھتے ہیں تو دراصل ہم ماضی میں دیکھ رہے ہوتے ہیں(کیونکہ یہ تصویر بنانے والے فوٹان اربوں سال پہلے قدیم ستاروں سے نکلے تھے)، یہ انتہائی قدیم ماضی انسان کے ادراک سے بھی زیادہ طویل ہے۔
اس تصویر میں کہکشاؤں کی تصاویر مختلف عمر، حجم، اشکال اور رنگوں میں دکھائی دیتی میں، کچھ نسبتاً ہم سے قریب ہیں اور کچھ انتہائی دور۔ اس تصویر کی قریب ترین کہکشائیں جو زیادہ چمکدار اور واضع بیضوی(Spiral and Elliptical) اشکال کی نظر آتی ہیں ہم سے صرف ایک ارب نوری سال کے فاصلے پر ہیں۔ جیسا کہ یہ کہکشائیں بگ بینگ کے کچھ عرصہ بعد ہی وجود میں آ گئی ہوں گی، یہ قریب 12 ارب سال پرانی ہیں، جبکہ چھوٹی، سرخ، بدشکل کہکشائیں یہاں مرکزِ دلچسپی ہیں۔ اس تصویر میں ایسی(سرخ چھوٹی اور بدشکل) قریب 100 کہکشائیں ہیں، اور یہ آج تک دیکھی گئی دور ترین کہکشاؤں میں سے ہیں۔ ان میں سے کچھ دھندلے سرخ دھبے ہم سے 12 ارب نوری سال سے زیادہ دوری پر واقع ہیں، اسکا مطلب ہے کہ انکی روشنی 13.75 ارب سال سفر کرنے کے بعد ہم تک پہنچی ہے۔ ڈیپ فیلڈ تصویر میں دیکھی جانے والے دور ترین کہکشاں 13 ارب نوری سال سے زیادہ دوری پر ہیں۔ اور یہ ہمیں اپنی کائنات کے بننے کے 600000 سال بعد کی اپنی اشکال میں دکھ رہی ہیں۔ زمان اور مکاں کی اس اتھاہ طوالت اور پھیلاؤ کا اندازہ لگانا انتہائی مشکل کام ہے۔ اب یہ سوچیں کہ ان انتہائی دور افتادہ کہکشاؤں کی تصویر صرف چند ایک فوٹان کی مدد سے بنی ہے، ان فوٹان نے کب اپنا سفر شروع کیا ہو گا؟ جب یہ فوٹاں انتہائی گرم ابتدائی ستاروں سے(13 ارب سال پہلے) نکلے ہوں گے اس وقت زمین نہیں تھی، سورج نہیں تھا، اسوقت(13 ارب سال پہلے) صرف ایک بے ہنگم ستاروں اور گیس کا بادل تھا جو بعد میں(11 ارب سال پہلے) ملکی وے کہکشاں کی شکل اختیار کر گیا۔
جب یہ چھوٹے چھوٹے روشنی کے ذرے جو آج ہبل کے کیمروں میں داخل ہوئے اپنا دو تہائی سفر مکمل کر چکے تھے، اس وقت(4.7 ار سال پہلے) گیس کے ایک گھومتے بادل سے سورج اور نظام شمسی کا جنم ہوا۔ یہ زمین پر پہنچنے ہی والے تھے جب(1 ارب سال پہلے) زمین پر پیچیدہ(Multi cell complex life) زندگی شروع ہوئی، اور کائناتی دھڑکن کے ایک چھوٹے سے حصے میں(25 لاکھ سال پہلے) انسان کا ارتقاء ہوا جس نے ایک عرصے کے بعد ہبل خلائی دوربین ایجاد کی اور اس کی مدد سے ان قدیم فوٹان کو پکڑ کر انکی کہانی دریافت کی۔
کائناتی وسعت اور قدامت کے مد مقابل انسان کی کوئی اہمیت نہیں، زمین کی حیثیت ایک ذرے سے بھی کم ہے، انسانی زندگی کائنات کی قدامت اور حیرت انگیز عظمت پہچاننے کے لئیے انتہائی کم ہے، اس کائناتی اکھاڑے میں ہماری زمین اور سورج کی کوئی وقعت نہیں، انسان کی تو بات ہی کرنا بے مقصد ہے۔ کہکشاؤں ستاروں اور سیاروں کی جنگ میں انسان کہیں غائب ہو کر رہ جاتا ہے، ہم خلا میں معلق پتھر پر مقید ایک ایسی مخلوق ہیں جسکو زمان اور مکان کی عظیم بندشوں نے جکڑ رکھا ہے، سائنسی تحقیق نے ہماری اس کال کوٹھڑی میں ایک ایسی حیرت انگیز کھڑکی کھول دی ہے جس کے ذریعے کائناتی اتھاہ گہرائیوں سے چھن چھن کر روشنی ہماری دنیا میں داخل ہو رہی ہے، ہمارے ذہنوں کو منور کر رہی ہے ہمارے غرور اور تکبر کے جھوٹے سحر کو توڑ رہی ہے اور ہمیں عاجزی اور رواداری کی راہ پر گامزن کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

https://scienceurdu.wordpress.com/tag/زمان-ومكان،-فوٹان،-کائنات-عظیم،-آخری-ح/

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔