Monday, 30 October 2017

نیچرل سلیکشن کیوں نظریہ ارتقاء کا ثبوت نہیں؟

نیچرل سلیکشن کیوں نظریہ ارتقاء کا ثبوت نہیں؟
(Theory Of Evolution)

ارتقا کی بنیادوں میں ساینسی کھوکھلا پن اور نیچرل سلیکشن کے ڈرامے کی اصل کہانی

اقتباس:نظریہ ارتقا،ایک دھوکہ
مصنف:ترک سکالر ہارون یحییٰ
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
ارتقاءکا نوڈاروینی(Neo-Darwinian) نقشہ بحث کرتا ہے کہ زندگی دو طرح کے لائحہ عمل سے ارتقاءسے گزری۔ ایک انتخاب طبعی یا نیچرل سلیکشن یا قدرتی چناؤاور دوسرا جینیات میں بے ترتیبی یا Random Mutations۔ یہ کہتا ہے کہ ارتقائی ترمیمات (Evolutionary changes) کاتعلق اس بے ترتیبی سے ہے جو کہ جانداروں کی جینیاتی ساخت میں واقع ہوتی ہے۔ اس بے ترتیبی سے جو عادات وجود میں آتی ہیں وہ انتخابِ طبعی(Natural Selection) کے طریقہ عمل سے جانداروں میں ارتقاءکا سبب بنتی ہیں۔ اگر اس نظریئے کا مزید گہرائی میں تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ دراصل اس میں کوئی ارتقائی طریقہ عمل سرے سے موجود ہی نہیں۔ جاندار نسلوں کا ایک نسل سے دوسری نسل میں تبدیل ہونے میں نہ تو انتخاب طبعی یا نیچرل سلیکشن کا ہاتھ ہے اور نہ جینیاتی بے ترتیبی یا رینڈم میو ٹیشن کا۔
انتخابِ طبعی یا نیچرل سلیکشن ایک قدرتی عمل کے طور پر ڈارون سے پہلے رہنے والے ماہر حیاتیات کے لئے بھی کوئی نئی چیز نہیں تھا۔ ان لوگوں کے نزدیک اس اصطلاح کا مفہوم ایک ایسا لائحہ عمل تھا جو کہ نسلوں یا سپی چیز کو کو مسخ کئے بغیر یعنی ایک سپی شیز سے دوسری سپی شیز میں تبدیلتب ہوئے بغیر ایک ہی شکل میں نسل در نسل قائم رکھتا ہے۔ اس طریقہ عمل میں ارتقائی قوت کی موجودگی کا قیاس ڈارون نے سب سے پہلے کیا اور اس کمزور بنیاد پر اس نے اپنا پورا نظریہ تعمیر کردیا۔ اس نے اپنی کتاب کو جو عنوان دیا وہ ثابت کرتا ہے کہ انتخاب طبعی ہی اس کے نظریئے کی بنیاد تھا۔ ”نسلوں کی ابتداءبذریعہ انتخاب طبعی“ لیکن ڈارون کے وقت سے لے کر اب تک ایک دھاگے کے برابر بھی ثبوت ارتقاءبذریعہ انتخابِ طبعی کی حمایت میں سامنے نہیں آسکا۔
لندن کے برٹش میوزیم آف نیچرل ہسٹری کا نامور ماہرِ معدوم حیوانات و نباتات اور کٹر ارتقاءپسند کولن پیٹرسن اس بات پر زوردیتا ہے کہ انتخابِ طبعی یا نیچرل سلیکشن کے اندر کبھی بھی جانداروں کے ارتقاءکی صلاحیت نہیں پائی گئی۔
”کسی نے آج تک انتخاب طبعی کے عمل سے کوئی نسل پیدا نہیں کی۔ کوئی آج تک اس مسئلہ کے نزدیک بھی نہیں پہنچ سکا پھر بھی نوڈاروینیت کی تمام حالیہ بحث اسی سوال کے اطراف گردش کرتی ہے۔“[ 1]
انتخاب طبعی کے حساب سے وہ جاندار جو اپنے قدرتی ماحول میں ڈھل جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہی اپنی نسل کو آگے چلانے کے لائق ہوتے ہیں جبکہ دوسرے اپنے ماحول میں ڈھلنے کی صلاحیت سے معذور جاندار معدوم ہوجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہرن کے گروہ میں سب سے زیادہ تیز دوڑنے والے ہرن بچ جاتے ہیں جبکہ دوسرے شکار ہوجاتے ہیں۔ گوکہ یہ ایک درست تجزیہ ہے لیکن باوجود اس عمل کے ہمیشہ جاری رہنے کے اس سے ہرن ہرگز کسی دوسری نسل کے جانور میں تبدیل نہیں ہوجاتے۔ ہرن ہمیشہ ہرن ہی رہا ہے نہاور ہی بن مانس سے انسان بنتا ہے۔۔ جب ارتقاءپسندوں کی اس معاملے میں پیش کی گئی چند مثالوں کی تفصیل دیکھی جاتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ سارے معاملات دھوکہ دہی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔
ارتقا کے حامی ارتقا کے حق میں صنعتی سیاہی یا Industrial Pigmentation کی دلیل دیتے ہیں لیکن یہ کسی بھی طور پر ارتقاءکا ثبوت نہیں ہے کیونکہ اس کے ذریعے پتنگوں کی کوئی نئی نسل وجود میں نہیں آئی۔ یہ انتخاب پہلے سے ہی موجود پتنگوں یعنی Peppered Moth or Biston betulariaکی قسموں میں پیدا ہوا۔ جلد کی اس غیر معمولی سیاہی کی یہ روایتی کہانی سراسر فریب ہے۔
1891ءمیں ڈگلس فوٹیما نے ”ارتقاءکی حیاتیات“ کے نام سے کتاب شائع کی جو کہ انتخابِ طبعی کے ذریعے ارتقاءکے نظریئے پر مفصل بیان خیال کی جاتی ہے۔ اس موضوع پر فوٹیما کی سب سے مشہور مثال پتنگوں کی آبادی کے رنگ کے متعلق ہے جو کہ انگلستان کے صنعتی انقلاب کے دوران گہرا ہوگیا تھا۔ صنعتی سیاہی کی ملتی جلتی کہانی صرف فوٹیما کی کتاب میں ہی نہیں بلکہ ارتقائی حیاتیات کی شاید ہر کتاب میں موجود ہے۔ یہ کہانی انگریز ماہرِ طبےعیات اور حیاتیات برنارڈ کیٹلول کے کئے گئے کئی تجربوں پر مبنی ہے۔ اس کہانی کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے۔
”بیان کے مطابق انگلستان میں صنعتی انقلاب کی شروعات کے وقت مانچسٹر کے اطراف درختوں کے تنوں کا رنگ کافی ہلکا تھا۔ اس ہلکے رنگ کی وجہ سے ان درختوں پر بیٹھنے والے گہرے رنگ کے پتنگوں کی شناخت آسانی سے کی جاسکتی تھی۔ چڑیاں ان پتنگوں کواس آسان شناخت کی وجہ سے غذا بنالیتی تھیں اور پتنگوں کے بچ جانے کے امکان بہت کم تھے۔ پچاس سال بعد صنعتی آلودگی کی وجہ سے ان
درختوں کی کائی بھی مرگئی اور درختوں کے تنے گہرے رنگ کے ہوگئے اور اس وجہ سے پتنگے ہلکے رنگ کے نظر آنے لگے اور خطرے میں آگئے کیونکہ اب ان کی شناخت آسان ہوگئی۔اب ہلکے رنگ کے پتنگوں کا تناسب گہرے رنگ کے پتنگوں کی نسبت بڑھ گیا“۔ ارتقاءپسندوں نے اس واقعہ کو اپنے نظریئے کو ثابت کرنے میں ایک اہم ثبوت تصور کیا اور اس بات کو سجا بناکر پیش کیا کہ ہلکے رنگ کے پتنگے گہرے رنگ کے پتنگوں کی ارتقائی شکل ہیں۔ اگر اس صورتحال کو درست فرض بھی کرلیا جائے تو پھر بھی اس میں ارتقاءکا کوئی پہلو نہیں نکلتا کیونکہ پتنگوں کی کوئی نئی تدریجی شکل تو نمودار ہوئی ہی نہیں۔ پتنگا پتنگا ہی رہا.پتنگے سے پرندہ نہین بنا نہ ہی اس سے بن مانس سے انسان کا ارتقا پذیر ہونا ثابت ہوتاہے۔ گہرے رنگ کے پتنگوں کی آبادی صنعتی انقلاب سے پہلے بھی موجود تھی۔ اس انقلاب کی وجہ سے پتنگوںکی مختلف اقسام میں تقابلی تناسب بدل گیا۔ پتنگوں کے اندر کسی نئے عضو یا عادت کا اضافہ نہیں ہوا جس سے یہ کسی نئی نسل میں بدل گئے۔ کسی پتنگے کی نسل کا کسی اور نسل میں تبدیل ہوجانا مثلاً چڑیا میں تبدیل ہوجانے کے لئے اس کی جینیات میں وسیع پیمانے پر اضافے کی ضرورت ہے۔ پتنگوںکی جینیات کے اندر ایک الگ جینیاتی ترتیب داخل کرنے سے ہی وہ چڑیوں کی امتیازی خصوصیات کے حامل ہوسکتے ہیںورنہ وہ صرف پتنگا ہی رہےں گے۔ صنعتی سیاہی کی ارتقائی کہانی کا یہ جواب ہے۔
سالمی حیاتیات(Molecular Biology) کے ماہر جوناتھن ویلز نے اپنی کتاب ”ارتقاءکی قابل عقیدت شبیہات“ میں وضاحت کی ہے کہ پتنگوں کی یہ کہانی جو کہ تقریباً ہر حیاتیاتی ارتقاءکی کتاب کا حصہ ہے اور ایک قابلِ عقیدہ شبیہ کا روپ دھارگئی ہے دراصل ایک سچی کہانی ہرگز نہیں ہے۔ ویلز اپنی کتاب میں تفصیلاً بتاتا ہے کہ برنارڈ کیٹلول کا تجزیہ جو کہ اس پوری کہانی کا ”تجرباتی ثبوت“ کہلاتا ہے دراصل سائنس کا ایک فساد انگیز واقعہ ہے۔ اس فساد کے کچھ بنیادی نقطے مندرجہ ذیل ہیں۔
۔ جن سائنسدانوں نے کیٹلول کے تجربے کے نتیجے کو پرکھا وہ اور بھی دلچسپ صورتحال کو سامنے لے کر آئے۔ اگرچہ ہلکے رنگ پتنگوں کی تعداد انگلستان میں کم آلودہ خطوں میں اوسطاً زیادہ ہونی چاہئے تھی لیکن وہاں گہرے رنگ پنگے ہلکے رنگ پتنگوں سے چار گنا زیادہ مقدار میں موجود تھے۔ اس سے ظاہر تھا کہ کیٹلول کے دعوے کے برخلاف پتنگوں کی آبادی کا درختوں کے تنوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ دعویٰ صرف کیٹلول کا ہی نہیں بلکہ تقریباً ہر ارتقائی ذریعے کا ہے۔
۔ جیسے جیسے اس معاملے کی تحقیق گہرائی میں جانے لگی اس فساد انگیز کہانی کا رخ بھی تبدیل ہوتا گیا۔ درختوں کے تنوں پر جن پتنگوں کی تصویر کیٹلول نے اتاری تھی وہ دراصل بے جان پتنگے تھے۔ کیٹلول نے بے جان پتنگوں کے نمونوں کو استعمال کرتے ہوئے ان کو درختوںکے تنوں سے چپکاکر یا سوئیوں کے ذریعے لگاکر ان کی تصویریں اتاریں۔ سچائی کی بات تو یہ ہے کہ ایسی تصویر اتارنے کے امکان ہی بہت کم ہیں کیونکہ پتنگے عادتاً درختوں کے تنوں پر نہیں بلکہ پتوں کے نیچے پائے جاتے ہیں [2]
کیٹلول کے تجربے کے بعد کئے جانے والے کئی تجربوں نے ظاہر کیا کہ صرف ایک نسل کے پتنگے ہی ان درختوں کے تنوں پر بسیرا کرتے تھے۔ دوسری طرح کے پتنگے چھوٹی افقی ٹہنیوں کو ترجیح دیتے تھے۔ 1890ءکے بعد واضح طور پر ثابت ہوگیا کہ سیاہی مائل پتنگے درختوں کے تنوں پر عموماً ٹھہرتے ہی نہیں ہیں۔ 52 سالہ عملی کام کے ذریعے سیسل کلارک، رودی ہاﺅلٹ، مائیکل ماجیرس، ٹونی لیبرٹ اور پال بریکفیلڈ جیسے سائنسدانوںنے اخذ کیا کہ ”کیٹلول کے تجربوں میں پتنگوں کو غیر معمولی حالات کے تحت زبردستی عمل کروایا گیا تھا اسی لئے اس تجربے کو سائنسی تجربے کے طور پر قبول نہیں کیا جاسکتا“۔
یہ تمام حقائق سائنسی حلقوں نے 1990ءکے آخر ی سالوں میں برآمد کئے۔ صنعتی سیاہی کی افلاطونی حکایت کے زمین بوس ہونے کی وجہ سے ارتقاءپسندوں کو شدید دھچکا پہنچا کیونکہ یہ حکایت ارتقاءکے تعارف کے طور پر کئی تعلیمی ادروں کی نصابی کتابوں میں ایک قیمتی اثاثہ تصور کی جاتی تھی۔ ان مایوس ارتقاءپسندوں میں سے ایک جیری کوئن بھی تھا جس نے تبصرہ کیاکہ:
”اس تمام واقعہ پر میرا ذاتی ردعمل اس طرح تھا جس طرح میری چھ سال کی عمر میں مجھے یہ افسوس ناک انکشاف ہوا کہ کرسمس کے موقع پر میرے تحائف سانٹا کلاس نہیں بلکہ میرا باپ خرید کر لاتا تھا۔“ [3]
چنانچہ اس طرح انتخاب طبعی کا سب سے مشہور ثبوت تاریخ کے کچرے کے ڈھیر میں سائنسی فساد انگیز کہانیوں کی دوسری مثالوں کے ساتھ مل گیا کیونکہ انتخاب طبعی ارتقاءپسندوں کے دعوﺅں کے مطابق ارتقائی طریقہ عمل ہرگز نہیں ہے۔ انتخاب طبعی کسی بھی جاندار میں نہ تو نیا عضو ڈال سکتا ہے نہ اس کے جسم سے کوئی عضو نکال سکتا ہے اور نہ ہی ایک نسل کو دوسری نسل میں تبدیل کرسکتا ہے۔
اس طریقہ عمل سے کسی بھی نسل کی جینیاتی معلومات نہ تو بڑھ سکتی ہیں اور نہ بہتر ہوسکتی ہیں۔ انتخاب طبعی ایک نسل کو دوسری نسل میں بھی نہیں تبدیل کرتا ۔اس عمل سے نہ تو ستارہ مچھلی عام مچھلی، نہ مچھلی مینڈک، نہ مینڈک مگر مچھ اور نہ مگر مچھ چڑیا بن سکتا ہے۔ اوقافی توازن کا سب سے بڑا حمایتی اسٹیفن گولڈ انتخابِ طبعی کے اس تعطل کو اس طرح بیان کرتا ہے:
”نظریہ ڈارون کی روح فقط ایک فقرے میں بند ہے۔ انتخاب ِطبعی یا نیچرل سلیکشن کی تخلیقی طاقت ارتقائی تبدیلی میں ہے- کوئی بھی اس بات سے انحراف نہیں کرسکتا کہ گو کہ انتخابِ طبعی کمزوروں کا خاتمہ کرنے میں تو کردار ادا کرتا ہے لیکن دوسری طرف ارتقائی نظریوں کے تقاضوں کے تحت انتخابِ طبعی طاقتور اور صحت مند جاندار ہر گز پیدا نہےں کر سکتا۔“ [4]
جبکہ انتخابِ طبعی حقیقتاً ایک بے خبر اور بے شعور عمل ہے۔ اس کی کوئی مرضی نہیں ہوتی کہ جانداروں کے لئے کیا چیز مناسب ہے اور کیا غیر مناسب ہے۔ اسی لئے ”پیچیدگی جو کم نہیں کی جاسکتی “ کی خصوصیت جو کہ انتخابِ طبعی میں موجود ہے وہ جانداروں کے حیاتیاتی نظام اور اعضاءکا جواب نہیں دے سکتی۔ جانداروں کے پیچیدہ اعضا اور نظام کئی مختلف حصوں کا مرکز ہیں جن میں سے اگر ایک حصہ بھی کم ہوجائے یا اس میں نقص آجائے تو پورا نظام ہی ضائع ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر قوتِ بصارت کو ذرا سا بھی نقصان پہنچے تو بینائیضائع ہوجاتی ہے۔ صرف اس تمام نظام کو مجتمع کرنے والی طاقت کو ہی اندازہ ہے کہ نظام کو مکمل طور پر درست کارکردگی کا متحمل ہونے کے لئے کس طریقے سے مکمل ہونا ضروری ہے۔ چونکہ انتخاب طبعی میں کوئی مرضی یا مستقبل کو جانچنے کی اہلیت موجود نہیں اس لئے وہ اس طرح کا کوئی فیصلہ کرنے سے قاصر ہے۔ یہ حقیقت اس نظریئے کی بنیادوں کو کھوکھلا کردیتی ہے۔ ڈارون بھی اس مسئلے پر پریشان تھا۔ وہ لکھتا ہے:
ً”اگر کسی پیچیدہ عضو کی موجودگی کا ثبوت قائم ہوجائے جس کا کسی بھی طرح کی معمولی اور سلسلہ وار تبدیلی کے ذریعے وجود میں آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہو تو میرا نظریہ مکمل طور پر تباہ ہوجائے گا۔“ [5]
انتخاب طبعی کسی کام کا اہل نہیں جب تک کہ مناسب تبدیلیاں اتفاقاً رونما نہ ہوجائیں۔“ [6]

حوالہ جات:

۔ Patterson, "Cladistics", Interview with1 Brian1 Leek, Peter Franz, March 4, 1982, BBC.
2.Jonathan Wells, Icons of Evolution: Science or Myth? Why Much of What We Teach About Evolution is Wrong, Regnery Publishing, 2000, p. 141-151
3. Jerry Coyne, "Not Black and White", a review of Michael Majerus's Melanism: Evolution in Action, Nature, 396 (1988), p. 35-36
4.Stephen Jay Gould, "The Return of Hopeful Monsters", Natural History, Vol 86, July-August 1977, p. 28.
5.Charles Darwin, The Origin of Species: A Facsimile of the First Edition, Harvard University Press, 1964, p. 189.
6.Ibid, p. 177.

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔