Saturday, 28 October 2017

بغیر کسی خدا کے زندگی کے خود بخود وجود میں آنے کا صفر امکان کیا زندگی گرم سمندروں میں خود بخود شروع ہوئ؟ ایک خالق کے بغیر کسی پروٹین کے خود بخود وجود میں آنے کا امکان یا پروبیبلیٹی کا لاجک اور ریاضیاتی فارمولا کس طرح نظریہ ارتقا کو غلط ثابت کرتی ہے؟ نظریہ ارتقا کی سالمیاتی(مالیکیولر) بنیاد اور اس میں پائے جانے والے سائنسی نقائص قسط:4

بغیر کسی خدا کے زندگی کے خود بخود وجود میں آنے کا صفر امکان
کیا زندگی گرم سمندروں میں خود بخود شروع ہوئ؟ ایک خالق کے بغیر کسی پروٹین کے خود بخود وجود میں آنے کا امکان یا پروبیبلیٹی کا لاجک اور ریاضیاتی فارمولا کس طرح نظریہ ارتقا کو غلط ثابت کرتی ہے؟
نظریہ ارتقا کی سالمیاتی(مالیکیولر) بنیاد اور اس میں پائے جانے والے سائنسی نقائص
قسط:4

اقتباس:نظریہ ارتقا ،ایک فریب
مصنف:ترک سکالر ہارون یحیی
تلخیص و تزئین:احید حسن
ڈاؤن لوڈ لنک:http://kitabosunnat.com/kutub-library/nazriairtaqaaikfaraib
=======================================
جس طرح کہ آگے آئے گا ایک500 امینو ترشوں یا امائینو ایسڈز پر مشتمل سالمیاتی لحمیہ یا پروٹین مالیکیول کے وجود میں آنے کا امکان 1 کے نیچے 1 کے ساتھ 950 صفر لگانے کی طرح ہے۔ یہ ایک ایسا عدد بن جاتا ہے جو کہ انسانی ذہن کے لئے ناقابل تصور ہے۔ یہ امکان صرف کاغذ پر لکھ کر ہی دکھایا جاسکتا ہے۔ عملی طور پر اس طرح ہونے کا امکان صفر ہے۔ جیسا کہ پہلے بتایا گیا تھا ریاضی میں
50
10
میں 1 سے چھوٹے کسی بھی امکان کا وجود میں آنا ازروئے شماریات کے حساب سے صفر ہے۔ اسی لئے 1 کے نیچے
950
10
کاامکان ناممکنات کی ہر قابل تصور حد کو بھی پار کر جاتا ہے۔
جب کسی 500 امینو ترشوں یا امائینو ایسڈز پر مشتمل سالمیاتی لحمیہ یا پروٹین مالیکیول کے وجود میں آنا اس حد تک بعید از امکان ہوجاتا ہے تو ذہن کو اور بھی اونچی سطح پر متشبہ حدود کو پار کروانے کی کوشش کرکے دیکھا جاتا ہے۔ حمرت الدّم یا ہیموگلوبن ایک ناگزیر لحمیہ ہے جس کا سالمیہ 574 امینو ترشوں یا امائینو ایسڈز پر مشتمل ہے جوکہ اوپر بتائے گئے لحمیہ یا پروٹین مالیکیول سے بھی زیادہ ہیں۔ اس بات کو مدنظر رکھنا بھی ضروری ہے کہ جسم میں موجود کڑوڑوں خون کے سرخ خلیوں میں 28 لاکھ ہیموگلوبن کے سالما ت یا مالیکیول موجود ہوتے ہیں۔ کرہ ارض کی قیاس کی گئی عمر ایک واحد لحمیہ یا پروٹین مالیکیول کی بھی آزمائشی تجرباتی طریقے سے وجود میں آنے کے لئے ناکافی ہے۔ خون کے ایک سرخ خلئے کابھی اس طرح وجود میں آنا ایک بے انتہا ناممکن سوچ ہے۔ اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ امینو ترشوں یا امائینو ایسڈزکی آپس میں جوڑ توڑ کرہ ارض کے وجود میں آنے کے بعد وقت ضائع کئے بغیر آزمائشی تجرباتی طریقے سے وجود میں آئی ہے تو جتنا وقت ایک واحد سالمیاتی لحمیہ یا پروٹین مالیکیول کو بننے میں درکار ہوتا ہے، جس کا امکان
950
10
ہے ، وہ کرہ ارض کی اندازاً عمر سے تصور سے بھی بڑھ کر زیادہ ہے۔ خلاصہ کے طور پر یہ کہ ایک واحد لحمیہ کے وجود میں آنے کے معاملے میں بھی نظریہ ارتقاءشدید قسم کی ناممکنات کا شکار ہوکر رہ گیا ہے۔
بالآخر اختتام ممکنات کے حساب و شمار کی بنیادی منطق سے متعلق ایک اہم نقطے سے کیا جاتا ہے جس کی اور بھی مثالیں پیش کی جاچکی ہیں۔ اس بات کو واضح کیا جاچکا ہے کہ اب تک کئے گئے حساب و شمار کی ممکنات نہایت بسیط و عظیم نوعیت کی ہیں اور اس کا اصلیت میں ظاہر ہونے کے کوئی امکان نہیں ہے۔ لیکن یہاں پر ارتقاءپسندوں کو مزید اہم اور تباہ کن حقائق کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور وہ یہ کہ قدرتی ماحول کے اندر کسی بھی طرح کے آزمائشی تجربات کا بسیط و عظیم خلافِ معمول امکان کے باوجود شروع ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ قدرت میں کسی طرح کا آزمائشی تجربے کا نظام موجود ہی نہیں جس کے ذریعے لحمیات یا پروٹین وجود میں آسکیں۔
امینو ترشوں پر مشتمل ایک عام لحمیہ ی پروٹین مالیکیول کے سالمے کا درست مقدار اور سلسلے میں تشکیل ہونا اور اس کے اندر تمام امینو ترشوں کا صرف الٹے ہاتھ والے ترشے بھی ہونا اور درست والے جوڑ یعنی پیپٹائڈ جوڑ سے جڑے ہونے کا امکان
950
10
میں 1 ہے۔ یہ ہندسہ 1 کے بعد 950 صفر لگانے سے حاصل ہوتا ہے یعنی
اوپر دئے گئے 500 امینو ترشوں یا امائینو ایسڈز پر مبنی لحمیہ یا پروٹین کے وجود میں آنے کے لئے امکان کا حساب و شمار صرف ایک جائز آزمائشی تجرباتی ماحول پر لاگو ہوتا ہے جس کا حقیقی زندگی میں کوئی گزر نہیں۔ وہ یہ کہ ایک کارآمد لحمیہ حاصل کرنے کا امکان
950
10
میں ۱ صرف اس وقت ہو گا جس وقت ایک ایسا خیالی نظام بھی وجود میں ہو جس میں ایک نادیدہ ہاتھ 500 امینو ترشوں کو بے قاعدہ طور پر جوڑدے اور پھر یہ دیکھتے ہوئے کہ یہ یکجائی درست نہیں ہے ان کو دوبارہ ایک ایک کرکے الگ کرتا جائے اور پھر نئے سرے سے ان کی مختلف ترتیب دیتا جائے اور یہ سلسلہ وہ اس وقت تک جاری رکھے جب تک کہ اس کو مطلوبہ سلسلہ حاصل نہ ہوجائے۔ ہر نئے آزمائشی تجربے میں امینو ترشوں کو ایک ایک کرکے الگ کرنا پڑے گا اور بالکل نئی شکل میں ترتیب دیناہوگا۔ یہ پیوند کاری 500 نمبر کے امینو ترشے کے شامل ہونے کے بعد رک جانی چاہئے اور پھر اس بات کا یقین لگانا چاہئے کہ اس تجربے میں ایک بھی زائد امینو ترشہ استعمال نہیں ہوا ہے۔اب اس تجربے کو روک کر اس بات کا تجزیہ لگانا چاہئے کہ آیا ایک کارگزر لحمیہ یا پروٹین مالیکیول وجود میں آیا ہے کہ نہیں اور اگر تجربہ ناکام رہا ہے تو پورے تجربے کو ازسر نو شروع کردینا ہوگا۔ اس کے علاوہ ہر تجربے میں کوئی بھی فاضل وجود غلطی سے بھی شامل نہیں ہونا چاہئے۔ یہ بھی لازم ہے کہ تجربے کے نتیجے میں بننے والی زنجیر پورے تجربے کے دوران 499 نمبر کی کڑی تک پہنچنے سے پہلے نہ تو الگ ہو اور نہ اس کوی کسی قسم کا کوئی اور نقصان پہنچے۔ ان تمام شرائط کے پورا ہونے کا مطلب ہے کہ اوپر دی گئی تمام ممکنات صرف ایک باضابطہ ماحول میں انجام پائیں جہاں پر ایک باشعور عملی نظام تمام معاملات کے اوپر شروع سے لے کر آخر تک ہدایت کرنے کے علاوہ اس عمل کے وسطی دور کی بھی نگرانی کرے جہاں پر صرف ’امینو ترشوں کا ایک درست انتخاب ‘ ہی بے اختیار رہے۔ ایسے کسی بھی ماحول کا قدرتی حالات کے زیر اثر موجود رہنا ایک ناممکن بات ہے۔ اسی لئے قدرتی ماحول میں لحمیہ یا پروٹین مالیکیول کی تشکیل تکنیکی اور منطقی حساب سے ناقابل فہم اور ناممکن ہے۔ بلکہ ایسے کسی واقعہ کے بارے میں بات بھی کرنا سراسر غیر سائنسی ہے۔
کچھ لوگ ان معاملات کا وسیع منظر نہیں دیکھ پاتے بلکہ ایک سطحی نقطہ نظر استعمال کرتے ہوئے لحمیہ کی تشکیل کو ایک سادہ کیمیائی رد عمل سمجھتے ہیں۔ وہ غیر حقیقی خلاصوں پر یقین کرلےتے ہیں کہ امینو ترشے ردِ عمل کے ذریعے جڑ جاتے ہیں اور لحمیات کی شکل دھارلیتے ہیں ۔حقےقت تو ےہ ہے کہ بے جان اشکال میں حادثاتی کیمیائی ردِ عمل کا نتیجہ صرف سادہ اور غیر ترقی یافتہ تبدیلیاں ہیں جن کی تعداد مخصوص اور طے شدہے۔ کسی بہت ہی بڑے اور پیچیدہ کیمیائی مادے کو وجود میں لانے کے لئے عظیم کارخانوں، کیمیائی صنعت خانوں، اور تجربہ گاہوں کا استعمال لازمی ہے۔ دوائیاں اور روزمرہ زندگی کے کئی دوسری کیمیائی اجزاءاسی طرح بنائے جاتے ہیں۔ لحمیات کارخانوں میں بنائے گئے ان کیمیا سے کہیں زیادہ پیچیدہ ساخت کے حامل ہوتے ہیں۔ اسی لئے تخلیق کے عظیم انسانی نمونے لحمیات کا ، جس کا ہر حصہ بہترین ترتیب اور نظم کا شاہکار ہے، حادثاتی اور بے ترتیب کیمیائی ردعمل کے ذریعے وجود میں آنے کی بات صرف غیر سائنسی ہی نہیں بلکہ مضحکہ خیز بھی ہے۔اگر ایک لمحے کے لئے تمام حقائق و ثبوت کو ایک طرف رکھ کر فرض بھی کر لیا جائے کہ ایک کار آمد سالمیاتی لحمیہ حادثاتی ردِ عمل کا نتیجہ ہے تو پھر بھی ارتقاءکے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے کیونکہ اس لحمیہ کو زندہ رہنے کے لئے اس کو اپنےقدرتی ماحول سے الگ کرنا پڑتا اور اس کی نگہداشت خاص الخاص حالات میں کرنی پڑتی۔ایسا نہ کرنے کی صورت میں یہ لحمیہ کرہ¿ ارض کی قدرتی ماحولیاتی اثرات کے تحت تباہ ہوجاتا یا پھر دوسرے ترشوں، امینو ترشوں یا کیمیائی مرکبات کے ساتھ مل جاتا جس صورت میں وہ اپنے مخصوص اثاثے کھودیتا اور ایک مکمل طور پر الگ اور ناکارہ مادے کی شکل دھارلیتا۔
اس طرح یہ سارے سائنسی دلائل ظاہر کرتے ہیں کہ زمین پہ زندگی کے بنیادی اجزا اور زندگی خود بخود کسی ارتقائی عمل سے وجود میں نہیں آئے بلکہ اللٰہ تعالٰی کیکی طرف سے تخلیق کیے گئے۔اس طرح زمین پہ زندگی کی خود بخود بغیر کسی خالق کے ابتدا کے سارے ارتقائی نظریے سائنسی طور پہ مکمل غلط ہیں۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔