Monday, 30 October 2017

کیا زندگی پانی میں شروع ہوئ؟ ارتقا کے حامیوں کی زندگی کی پانی سے زمین پر منتقلی کی فرضی کہانی اور اس کی اصل حقیقت

کیا زندگی پانی میں شروع ہوئ؟
ارتقا کے حامیوں کی زندگی کی پانی سے زمین پر منتقلی کی فرضی کہانی اور اس کی اصل حقیقت
اقتباس:نظریہ ارتقا ، ایک فریب
مصنف:ہارون یحییٰ
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
نظریہ ارتقا یا تھیوری آف ”ایوولوشن(Theory Of Evolution) کے "پانی سے زمین تک“ کے فرضی مفروضے کے مطابق کچھ مچھلیوں کو زمین پر آنے کی ضرورت خوراک کے مسئلوں کی وجہ سے پیش آئی۔ اس دعوے کو ان قیاس آرائیوں پر مبنی تصاویر نے سہارا دیا ہے۔جو نیچے دی گئی ہیں۔
ارتقاءپسندوں کا خیال ہے کہ سمندری غیر فقاری یعنی بغیر ریڑھ کی ہڈی والے حیوانات(Invertebrate Animals) جو کہ کیمبرین زمینی طبق(Cambrian Geological Rocks) میں ظاہر ہوتے ہیں وہ لاکھوں سال کے عرصے کے دوران مچھلیوں میں تبدیل ہوگئے ۔لیکن جس طرح کیمبرین غیر فقاری یعنی بغیر ریڑھ کی ہڈی والے حیوانات کے کوئی پرکھا یعنی درمیانی جاندار( Transitional Animals) نہیں ہیں بالکل اسی طرح ان غیر فقاری حیوانات اور مچھلیوں کے درمیان تعلق ثابت کرنے والے وسطی نوعیت کے جانداروں کا بھی کوئی نام و نشان موجود نہیں ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ غیر فقاری یعنی بغیر ریڑھ کی ہڈی والے حیوانات اور مچھلیوں کے درمیان زبردست ساخت کا فرق ہے۔
غیر فقاری حیوانات(Invertebrate Animals) کے سخت ریشہ لحمی(Muscle Fibres) ان کے جسم کے باہر ہوتے ہیں جبکہ مچھلیاں فقاری یعنی ریڑھ کی ہڈی والے جانور(Vertebrates Animals) ہیں جن کے سخت ریشہ لحمی ان کے جسم کے اندر ہوتے ہیں۔ غیر فقاری یعنی بغیر ریڑھ کی ہڈی والے جانور اور مچھلیوں کے مابین ارتقائی عمل کا روپذیر ہونا کروڑوں مرحلوں پر مشتمل ہوگا اور اسی حساب سے کروڑوں جاندار اس عمل کو ثابت کرنے کے لئے زمین پر بھی موجود ہونے چاہئے تھے۔ ارتقاءپسند پچھلے 140 سال سے فوصلی یعنی زمانہ قدیم کے مرے ہوئے جانداروں کے باقیات کے چٹانوں والے خطوں(Fossils Areas) کی کھدائی اس امید پر کرر ہے ہےں کہ شاید ان کو کہیں سے ان تصوراتی اجسام کا سراغ مل جائے۔ ان کو لاکھوں کی تعداد میں غیر فقاری یا بغیر ریڑھ کی ہڈی والے حیوانات(Invertebrates) اور مچھلیوں کے فوصل تو مل گئے لیکن ایک بھی ایسا فوصل نہیں مل سکا جو ان دونوں کے درمیان کی وسطی تدریجی شکل(Intermediate Forms) کہلایا جاسکے۔
ارتقائی ماہرِ معدوم حیوانات و نباتات(Evolutionary Paleontologist) جیرالڈ، ٹی۔ ٹوڈ ”ہڈی والی مچھلیوں کی ابتداءاور پھیپھڑے کا ارتقائ“ کے نام سے ایک مضمون میں ملتی جلتی ہی ایک حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں:
”ہڈی والی مچھلیوں کی تینوں تقسیمات فوصلی ریکارڈ میں تقریباً ایک ہی وقت میں نمودار ہوئیں۔ یہ تینوں نامی اجسام تشکیل کے حوالے سے بالکل مختلف ہیں اور حفاظتی چادروں سے لیس ہیں۔ ان کی ابتداءکیا ہے؟ کن حالات کے تحت ان کی اتنی وسیع گروہ بندی ہوگئی؟ ان کی بھاری حفاظتی چادروں کی کیا وجہ ہے؟ اور ان کی سابقہ وسطی اشکال کا کوئی نام و نشان کیوں نہیں ہے؟“ 1
ارتقا کے حامیوں کا فرضی ارتقائی منظر ایک قدم اور آگے جاتا ہے اور بحث کرتا ہے کہ مچھلیاں جوکہ نظریہ ارتقاءکے حساب سے غیر فقاری یعنی بغیر ریڑھ کی ہڈی والے حیوانات کی تدریجی شکل ہیں وہ بربحری یعنی زمین اور پانی دونوں پر رہنے والے حیوانات میں بھی تبدیل ہوگئیں۔ لیکن اس نظریئے کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے۔ ایک بھی فوصل کسی آدھی مچھلی/ آدھی بر بحری مخلوق کا نہیں مل سکا جو کہ اس بات کی تصدیق کرسکے ۔ارتقائی ماہرِ معدوم حیوانات و نباتات اور ماہرِ غیر فقاری معدوم حیوانات را برٹ کیرل اس حقیقت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہے۔ اپنی مشہور کتاب ”فقاری یعنی ریڑھ کی ہڈی والے معدوم حیوانات اور ارتقائ“ میں وہ لکھتا ہے:
”قدیم دور کے رینگنے والے حیوانات بربحری حیوانات سے بہت مختلف تھے اور ان کے یعنی درمیان کا کوئی نشان نہیں مل سکا ہے۔“اپنی 1997ء میں چھپنے والی نئی کتاب ”فقاری ارتقاءکے نقوش اور عمل“ میں وہ لکھتا ہے:”قدیم مچھلیوں اور بربحری یعنی زمین اور پانی دونوں پر رہنے والے حیوانات کے درمیان کے کوئی وسطی نوعیت کے فوصل دریافت نہیں ہوئے ہیں۔“ 2
ارتقاءپسندوں کا دعویٰ تھاکہ کولیکانتھ جانداروں( coelacanth fossil) کی پانی سے زمین تک منتقلی کی عبوری شکل ہے۔لیکن 1938ء سے لے کر اب تک اس مچھلی کے کئی زندہ نمونے پکڑے جاچکے ہیں جو ارتقاءپسندوں کے خیالی نظریوں کی انتہاءکا ثبوت ہیں۔
دوارتقائی ماہرِ معدوم حیوانات و نباتات(Evolutionary Paleontologist) کولبرٹ اور مورالس بربحری یعنی زمین اور پانی سکینڈلوں پہ رہنے والے والے جانور ، سالامانڈر یا چھپکلی کی طرح کی بربحری دم دار مخلوق اور سائسی لین یا جل تھلی کیڑا جس کی آنکھیں ناقص ہوتی ہیں اور ہاتھ پاﺅں نہیں ہوتے پر اپنی رائے کا اظہار کرتےہیں:
”کسی بھی ایسے پیلیوزوئک بربحری یعنی زمین اور پانی دونوں پر رہنے والے حیوان کا ثبوت موجود نہیں ہے جس کا ایک مشترک یا درمیانی جانور ہونے کی وجہ سے ساری خصوصیات یکجا ہوں۔ مینڈکوں، سالامانڈر اور سائسی لین کے قدیم ترین فوصل بھی دورِ حاضر کے ان جانداروں سے ہوبہو مشابہ ہیں۔“ 3
50 سال پہلے تک بھی ارتقاءپسندوں کو ایسے حیوان کے ملنے کی امید تھی۔ ایک تقریباً 410 لاکھ سال پرانی کولیکانتھ نامی مچھلی کو انہوں نے مچھلی اور بربحری(زمینی اور آبی دونوں) مخلوق کی وسطی تدریجی شکل کے طور پر پیش کیا۔ اس مچھلی میں قدیم پھیپھڑا، مکمل بھیجا، زمین کے اوپر کام کرنے کے لائق نظام انہضام اور نظام دورانِ خون اور قدیم طور پر چلنے کی صلاحیت موجود تھی۔ 1930ء کے آخر تک یہ تشریح الاعضاء یعنی اناٹومی کی تفصیل سائنسی حلقوں میں ایک بلا حجت سچ کے طور پر قبول کی جاتی رہی۔ کولیکانتھ کو پانی سے زمین پر حیوانات کی منتقلی کی حقیقتاً اصل وسطی شکل تسلیم کرلیا گیا تھا۔ لیکن 22 دسمبر 1938ء کو بحیرہ ہند سے ایک انتہائی دلچسپ دریافت سامنے آئی۔ کولیکانتھ مچھلی کے خاندان کا ایک زندہ فرد پکڑاگیا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ ایک ایسی وسطی نوعیت کا فوصل ہے جو کہ پانی سے زمین پر منتقلی کو ثابت کرتا ہے اور70 لاکھ سال پہلے معدوم ہوچکا ہے۔کولیکانتھ کے اس زندہ نمونے نے ارتقاءپسندوں کو شدید دھچکا پہنچایا۔ ارتقائی ماہرِ معدوم حیوانات و نباتات(Evolutionary Paleontologist) جے۔ایل۔ بی اسمتھ کا کہنا ہے کہ:
”اگر میں راہ چلتے ایک زندہ ڈائینوسار کو بھی دیکھ لیتا تو مجھے اس سے زیادہ حیرت نہیں ہوتی جتنی اس مچھلی کو دےکھ کر ہوئی ہے۔“ 4
دوسری طرف ایک جرمنی سے دریافت ہونے والا45 لاکھ سال پرانا تازہ پانی کے کچھوے کا فوصل ہے۔ اس کے ساتھ برازیل سے ملنے والا سب سے قدیم سمندری کچھوے کا فوصل ہے جو کہ 110 لاکھ سال پرانا ہونے کے باوجود دورِ حاضر کے کچھوے کی شکل کا ہے۔
100 لاکھ یعنی ایک کروڑ سال پرانا کچھوے کا فوصل دورِ حاضر کے کچھوے کے عین مشابہ ہے۔ (داڈ ان آف لائف، آربس پبلیکیشنز، لندن 1972)
جس طرح نظریہ ارتقاءجانداروں کی مچھلی جیسی بنیادی نسل اور خزندوں کی ابتداءکو بیان نہیں کرسکتا اسی طرح وہ ان نسلوں کے اندر مختلف درجوں کی بھی وضاحت کرنے سے قاصر ہے۔ مثال کے طور پر خزندوں کے گروہ کا حیوان کچھوا فوصلی ریکارڈ میں اپنے مخصوص خول کے ساتھ اچانک نمودار ہوتا ہے۔ ایک ارتقائی ذریعے کے مطابق اس انتہائی اعلیٰ اور کامیاب ترتیب کی ابتداءاولین فوصلوں کی غیر موجودگی کی وجہ سے مبہم ہے حالانکہ کچھوے دوسرے فقاری یا ریڑھ کی ہڈی والے جانوروں کی نسبت زیادہ بہتر فوصلی نشانات چھوڑتے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ کچھوے کو ٹیلوسارنامی خزندوں کی ارتقائی شکل ہیں لیکن کیچھوے اور کوٹیلوسار کے درمیان کسی بھی طرح کے عبوری حیوانات کا کوئی نشان نہیں ملتا۔(انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا آنلائن ”ٹرٹل“)
دورِ حاضر میں موجود کچھووں اور قدیم زمانے کے کچھوﺅں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ مخلوق کسی بھی دوسرے حیوان کی تدریجی شکل نہیںہے بلکہ یہ ہمیشہ سے اسی شکل میں موجود رہے ہیں۔یہ سب باتیں نظریہ ارتقا کویا مکمل غلط ثابت کر کے دکھاتی ہیں۔
آنے والے وقت میں 2000ء کے قریب کولیکانتھ مچھلیاں دنیا کے مختلف حصوں سے پکڑی گئیں۔ زندہ کولیکانتھ کے معائنے سے ظاہر ہوا کہ ارتقاءپسند اپنے تصوراتی نظریوں کی حقیقت کو منوانے کے لئے کس کس طرح کے قدم اٹھاتے رہے ہیں۔ ان کے ہر دعوے کے برخلاف کولیکانتھ کے نہ تو قدیم پھیپھڑے تھے اور نہ ہی بڑا بھیجا۔ اس کے جس عضو کو ارتقاءپسند تحقیق دانوں نے ناپختہ پھیپھڑے کا نام دیا تھا وہ دراصل نامیات کے گھولنے کا ایک تھیلا تھا۔5
مزید یہ کہ کولیکانتھ جس کا تعارف پانی سے زمین کی طرف منتقلی کے لئے تیار حیوان کے طور پر کروایا گیا تھا دراصل ایک مچھلی ہے جو کہ سمندرکی اس قدر گہرائی میں پائی جاتی ہے کہ وہ کبھی بھی سطح سمندر سے 180 میٹر سے کم کے فاصلے پر نہیں آئی۔
ارتقاءپسندوں کا یہ دعویٰ ہے کہ ایک روز پانی میں رہنے والی کسی نسل نے زمین پر قدم رکھا اور زمین پر بسنے والی مخلوق میں تبدیل ہوگئی۔ کئی وجوہات کی بناءپر ایسی منتقلی ناممکن ہے۔
1۔ وزن برداشت کرنے کی صلاحیت : سمندری حیوانات سمندر کے اندر اپنا وزن برداشت کرسکتے ہیںجبکہ زمین پر رہنے والے زیادہ تر جاندار اپنی 40فیصد طاقت اپنے جسموں کو اٹھائے پھرنے میں صرف کردیتے ہیں۔ کسی حیوان کا پانی سے زمین پر منتقلی کا مطلب ان کے اندر نیا عضلاتی نظام اور ڈھانچے کا پیدا ہونا ہے تاکہ وہ اپنے وزن کو اٹھانے کا کام انجام دے سکیں۔ یہ زبردست تبدیلی کسی بھی طرح کی اتفاقیہ جینیاتی ردوبدل یا حادثے کے تحت ممکن ہی نہیں۔
2۔ گرمی کو جذب رکھنے کی صلاحیت : زمین کے اوپر درجہ حرارت بہت تیزی سے بدلتا ہے۔
زمین پر رہنے والے حیوانات کے اندر اس بدلتے ہوئے درجہ حرارت کو برداشت کرنے کے لئے قدرتی طبعیاتی نظام موجود ہوتا ہے۔ اس کے برعکس پانی کے اندر درجہ ہرارت آہستہ اور کم سلسلہ حدود میں بدلتا ہے۔ پانی میں رہنے والا جاندار اگر زمین پر آجائے تو اس کو زمین کے درجہ حرارت میں شدت کے باعث نقصان سے بچنے کے لئے نیا حفاطتی نظام پیدا کرنا پڑے گا۔ ایسا سوچنا بھی شدید بے وقوفی ہے کہ مچھلیاں اچانک زمین پر آئیں اور بے ترتیب جینیاتی تبدیلیوں کے ذریعے زمین کی مخلوق بن کر رہنا شروع ہوگئیں۔
3۔ پانی : پانی تحوّل کے لئے ضروری ہے لیکن چونکہ زمین پر پانی کم مقدار میں پایا جاتا ہے اس لئے اس کے استعمال میں احتیاط لازمی ہے۔ مثال کے طور پر زمینی حیوانات کی کھال مخصوص مقدار میں پانی ضائع کرنے کی متحمل ہوتی ہے۔ اسی لئے زیادہ پانی نکل جانے کی صورت میں زمین پر رہنے والے حیوانات کو پیاس لگتی ہے ۔اس کے برعکس سمندری حیوانات کو پیاس نہیں لگتی۔ اس وجہ سے سمندری حیوانات کی کھال زمین پر مستقل رہائش کے لئے ناموزوں ہے۔
4۔ گردے : سمندری جاندار اپنے جسم کے فضلات کی نکاسی زیادہ تر امونیا کی صور ت میں کرتے ہیں۔ چونکہ زمین پر پانی کا استعمال کفایت شعاری سے کرنا پڑتا ہے اس لئے پانی کے حیوانات میں گردے موجود ہوتے ہیں جو کہ امونیا کو یوریا میں تبدیل کرکے کم سے کم پانی کی صورت میں خارج کرتے ہیں۔ پانی سے زمین پر منتقل ہونے کے لئے کسی بھی جاندار میں گردوں کا نظام ہونا بے حد ضروری ہے۔
5۔ نظامِ تنفس : مچھلیاں اپنے گلپھڑوں سے گزرتے ہوئے پانی کے اندر موجود آکسیجن سے سانس لیتی ہیں۔ پانی سے باہر وہ چند منٹ سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتیں۔ یہ ناممکن ہے کہ کسی آبی حیوان میں اچانک ایسا پیچیدہ نظام تنفس نمودا رہوجائے کہ وہ با آسانی زمین پر زندہ رہنے کے قابل ہوجائے۔
ان تمام ڈرامائی طبعیاتی تبدیلیوں کا کسی بھی جاندار کے اندر اچانک اتفاقاً نمودار ہوجانا ایک ناممن ترین امکان ہے اور یہ پانی سے زمین پر منتقلی کے ہر قصے کو رد کردیتا ہے۔

حوالہ جات:

1: Gerald T. Todd, "Evolution of the Lung and the Origin of Bony Fishes: A Casual Relationship", American Zoologist, Vol 26, No. 4, 1980, p. 757.
2: R. L. Carroll, Vertebrate Paleontology and Evolution, New York: W. H. Freeman and Co. 1988, p. 4.; Robert L. Carroll, Patterns and Processes of Vertebrate Evolution, Cambridge University Press, 1997, p. 296-97
3: Edwin H. Colbert, M. Morales, Evolution of the Vertebrates, New York: John Wiley and Sons, 1991, p. 99.
4: Jean-Jacques Hublin, The Hamlyn Encyclopædia of Prehistoric Animals, New York: The Hamlyn Publishing Group Ltd., 1984, p. 120.
5:Jacques Millot, "The Coelacanth", Scientific American, Vol 193, December 1955, p. 39

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔