Saturday, 28 October 2017

انسانی ارتقا کی فرضی کہانی اور ارتقا والوں کے جھوٹ قسط 5

انسانی ارتقا کی فرضی کہانی اور ارتقا والوں کے جھوٹ قسط 5
ہومو ایریکٹس(Homo erectus),بن مانس اور انسان کی مشترکہ ارتقائی خصوصیات والا قرار دیا جانے والا ایک حقیقی انسان
انسانی ارتقا کی فرضی کہانی اور ارتقا والوں کے جھوٹ
انسانی ارتقا کے لیے پیش کیے جانے والے فوسلز کی اصل داستان
اقتباس:نظریہ ارتقا ، ایک فریب
مصنف:ہارون یحیی
======================================
ارتقاءپسندوں کے وہم و خیال پر مبنی منصوبے کے مطابق جنس ہومو(Homo) کااندرونی ارتقاءاس طرح ہے کہ پہلے ہوموارکٹس(Homo erectus) آتا ہے، اس کے بعد قدیم انسان ہوموسیپین(Homo sapien) اور نیانڈر تھال آدمی(Neanderthals Humans) ہے (ہوموسیپین نیانڈر تھالنسس Homosapiens neaderthalensis) اور سب سے آخر میں کروماگنون آدمی(Cromagnon) یا ہوموسیپینز سیپینز(Homosapiens sapiens) ۔ حقیقت تو یہی ہے کہ یہ ساری درجہ بندی صرف ایک ہی خاندان کی مختلف اشکال اور نسلیں ہیں۔ ان سب کے درمیان اتنا ہی فرق ہے جتنا کہ ایک افریقن، ایک بالشتیا اورایک یورپی ملک کے رہنے والے کے درمیان ہوسکتا ہے۔یعنی ہومو اریکٹس،نینڈر تھال اور کرومیگنن حقیقت میں انسان ہی تھے نہ کہ فرضی انسانی ارتقا کی کوئ دلیل یا انسانی اور بن مانسی دونوں خصوصیات رکھنے والی کوئ نسل(Hominin)۔
سب سے پہلے ہوموارکٹس کا معائنہ کیا جاتا ہے جس کو سب سے قدیم انسانی نسل کہا جاتا ہے۔ اس کے نام کے لفظی معنوں کی طرح یہ وہ آدمی ہے جو بالکل سیدھا چلتا ہے۔ہوموارکٹس کا لفظی معنی ہے ”کھڑے قد کا آدمی“ یا ”عمودی آدمی“۔
اس نسلی گروہ میں شامل تمام فوصل خاص انسانی نسلوں کے ہیں ۔کیونکہ اس گروہ میں شامل کئی فوصلوں میں کوئی ایک بھی قدر مشترک نہیں ہے اسی لئے ان آدمیوں کی کھوپڑیوں کی بنیاد پر وضاحت کافی مشکل ہوجاتی ہے۔ اسی وجہ سے مختلف ارتقائی تحقیق دانوں نے ان کی مختلف درجہ بندیاں کردی سیدھا چلنے کی خاصیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ارتقاءپسندوں کو یہ فوصل(Fossils) تمام پرانے فوصلوں سے الگ کرنا پڑا کیونکہ ہوموارکٹس کے سارے فوصل یا رکاز یا ماضی کے قدیم جانداروں کی بقایا جات اس حد تک سیدھے تھے کہ جس کا مشاہدہ کسی بھی آسٹرالوپتھیسینز یا نام نہاد ہومو ہابلس(Homo habilis) کے نمونوں میں نہیں کیا گیا تھا۔ دورِحاضر کے انسان کے ڈھانچے اور ہومو ارکٹس کے ڈھانچے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ارتقاءپسندوں کا ہوموارکٹس کو قدیم کہنے کی بنیادی وجہ کھوپڑی کی پیمائش ہے جو کہ 1100 سے 900 سی سی حجم یا والیوم کی ہے جو کہ دورِ حاضر کے انسان کی کھوپڑی سے چھوٹی ہے اور اس کی گھنی باہر کو نکلی ہوئی بھنویں ہیں۔ لیکن آج بھی دنیا کے کئی خطوں میں ہومو ارکٹس سے ملتی ہوئی کھوپڑی کے پیمائش والے لوگ مثلاً بالشتیئے اور گھنی باہر کو نکلی ہوئی بھنوﺅں کے لوگ موجود ہیں جیسے کہ آسٹریلیا کے مقامی باشندے۔
اس بات پر تو سب ہی سائنسدان متفق ہیں کہ کھوپڑی میں پیمائش کا فرق عقل اور صلاحیتوں پر کسی طرح سے اثر انداز نہیں ہوتا۔ عقلمندی دماغ کی اندرونی کارکردگی پر منحصر ہے ناکہ اس کی پیمائش اور ناپ پر۔ 1
ہوموارکٹس کو دنیا بھر میں مقبول کرنے والے فوصل ایشیاءکے جاوامین(Java man) اور پیکنگ مین(Peking man) ہیں لیکن وقت کے ساتھ یہ ثابت ہوگیا کہ یہ دونوں فوصل ناقابل اعتبار ہیں۔ پیکنگ مین فوصل کے کئی حصے پلاسٹر سے بنائے گئے تھے اور جاوا مین کی ترتیب میں کھوپڑی کے ٹکڑے اور کولہو کی وہ ہڈی بھی شامل ہے جو کہ کھوپڑی سے اتنی دور ملی تھی کہ اس کا اس مخلوق کے جسم کا اصل حصہ ہونے پر بھی شک ہے۔
اسی وجہ سے ایشیاءکی نسبت افریقہ سے ملنے والے ہوموارکٹس فوصلوں کو زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ (یہاں پر اس نقطے کو اجاگر کرنا ضروری ہے ہوموارکٹس کہلائے جانے والے کئی فوصل کچھ ارتقاءپسندوں نے ایک او ر ’ ہوموارگاسٹر(Homo ergaster)‘ نامی نسل کے اندر ڈال دیئے ہیں۔ اس معاملے میں چونکہ ماہروں کی رائے میں اختلاف ہے اسی لئے عمومی طور پر ان تمام فوصلوں کو ہوموارکٹس کی درجہ بندی کے اندر ہی ڈالا جاتا ہے۔)
افریقہ سے ملنے والا سب سے مشہور ہوموارکٹس کا نمونہ ’ناریکوٹومی ہوموارکٹس یا ترکانہ بوائے(Turkana Boy) ‘ کا فوصل ہے جو کہ کینیا کی ترکانہ جھیل کے نزدیک دریافت ہوا۔ اس بات کی تصدیق ہوچکی ہے کہ یہ فوصل ایک 12 سالہ لڑکے کا ہے جس کا قد نوجوانی میں 183-185 سینٹی میٹر ہوجاتا۔ ڈھانچے کی سیدھی عمودی ساخت اس کو ایک دورِ حاضر کا انسان ظاہر کرتی ہے۔
ترکانہ کے بچے کا سیدے ہاتھ پر نظر آنے والا کا ڈھانچہ آج تک ملنے والے تمام انسانی فوصلوں میں سب سے مکمل اور پرانا انسانی فوصل ہے۔ اس فوصل پر تحقیق اس کی عمر 16 لاکھ یعنی 1.6 ملین سال بتاتی ہے۔ یہ ایک 12 سال کے بچے کا فوصل ہے جوکہ نوجوانی میں لمبے قد کا ہوجاتا۔ یہ فوصل نیانڈرتھال نسل سے بے حد مشابہ ہے اور انسانی ارتقاءکی فرضی کہانی کی تردید کرتا ہوا سب سے اہم ثبوت ہے۔ارتقاءپسند ڈونلڈ جانسن اس فوصل کے بارے میں کہتا ہے:
”یہ لمبا ا ور دبلا تھا۔ ا س کے جسم کی ظاہری ہیئت اور اعضاءکا تناسب موجودہ وقت کے خط استوا کے قریب رہنے والے افریقی باشندوں کی طرح ہے۔ اس کے اعضاءکا ناپ دورِ حاضر کے سفید شمالی امریکی جوان لوگوں کی طرح ہے“۔
(ڈونلڈ جانسن اور ایم۔اے۔ اڈی: ”لوسی: انسانی نسل کی شروعات، نیویارک، سائمن اینڈشوسٹر،98 )
امریکہ کا ماہرِ قدیم بشری رکازیات(Human Paleontologist)ایلن والکر کہتا ہے کہ اس کو اس بات پربھی شک ہے کسی اوسط درجے کے ماہرِ جسمانی عوارض کے لئے یہ ممکن بھی ہے کہ وہ کسی فوصلی ڈھانچے اور جدید انسان کے درمیان امتیاز کرسکے۔“ 2
والکر لکھتا ہے کہ ترکانہ بوائے کی کھوپڑی دیکھ کر اس کو ہنسی آگئی کیونکہ وہ نیا نڈرتھال سے بےحد مشابہ تھی۔3
آگے ثابت کیا جائے گاکہ چونکہ نیانڈر تھال بھی ایک انسانی نسل ہے ،اس لئے ہومو ارکٹس بھی ایک انسانی نسل ہی ہے۔ ارتقاءپسند(Evolutionist) رچرڈ لیکی بھی اعتراف کرتا ہے کہ:
”ہوموارکٹس اور جدید انسان کے درمیان معمولی فرق سے بڑھ کر کوئی اور فرق نہیں مثلاََ کھوپڑی کی ساخت کا فرق، چہرے کے ابھارکافرق ، بھنوﺅں کی مضبوطی کا فرق اور اسی طرح کے دوسرے معمولی امتیازات جو کہ اتنے ہی غیر اہم ہیں جتنے کہ دورِ حاضر میں مختلف جغرافیائی خطوں میں رہنے والے لوگوں کے درمیان فرق نظر آتے ہیں۔ اس طرح کے حیاتیاتی فرق اس وقت رونما ہوتے ہیں جب آبادیاں ایک دوسرے سے لمبے عرصے کے لئے مختلف جغرافیائی علاقوں میں رہائش پذیر ہوجائیں۔“ 4
کنکٹیکٹ یونیورسٹی کے پروفیسر ولیم لوکلن نے شمالی امریکہ کے اسکیمو باشندوں اور الیوٹ کے جزیرے پر رہنے والوں کے اوپر تفصیلی تشریح البدن یا ااناٹومی کی تحقیق کی اور یہ نتیجہ نکالا کہ یہ سب لوگ غیر معمولی طور پر ہوموارکٹس سے مشابہ ہیں۔ لوکلن کا حتمی نتیجہ یہ تھا کہ یہ تینوں مخصوص نسلیں جدید انسانی نسل یعنی ہوموسیپین ہی کے مختلف قبیلے ہیں۔
”جب ہم اسکیمو اور آسٹریلیا اور افریقہ کے بشمین کے درمیان وسیع فرق کا معائنہ کرتے ہیں جبکہ دونوں ہی ہومو سیپین نسل کا حصہ ہیں تو یہ بات قابل انصاف ہوجاتی ہے کہ سینانتھروپس (جو کہ ارکٹس نمونہ ہے) بھی اسی متنوع نسل کا حصہ ہے۔“ 5
سائنسی حلقوں میں یہ حقیقت اب اور بھی واضح ہوگئی ہے کہ ہومو ارکٹس ایک فاصل برادری ہے اور وہ تمام فوصل جو کہ ہوموارکٹس گروہ کا حصہ سمجھے جاتے تھے وہ جدید ہومو سیپین سے ہرگز اتنی حد تک مختلف نہیں تھے کہ ان کو ایک الگ ہی نسل سمجھ لیا جائے۔ رسالہ امریکن سائنٹسٹ میں اس موضوع کے اوپر بحث اوراےک 2000ء میں منعقد ہونے والی کانفرنس کے نتائج کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے:
”سینکنبرگ کی کانفرنس میں شریک ہونے والے بہت سے لوگ ہومو ارکٹس کی برادری کے سائنسی مقام پر شروع ہوجانے والی ایک گرماگرم بحث میں ملوث ہوگئے جس کو یونیورسٹی آف مشی گن کی ملفورڈ والپوف، یونیورسٹی آف کانبیرہ کے ایلن تھارپ اور اس کے ہم پیشہ لوگوں نے ہوادی۔ انہوں نے سختی کے ساتھ اس نقطے پر زوردیا کہ ہوموارکٹس کا ایک الگ نسل کے طور پر کوئی وجود نہیں ہے اور اس کو مکمل طور پر سائنس سے خارج کردینا چاہئے۔ جنس ہومو کے تمام ارکان 2 لاکھ سال سے لے کر دورِ حاضر تک ایک اونچی سطح کی تبدل پذیر اور بہت بڑے رقبے پرپھیلی ہوئی ایک ہی نسل ہوموسیپین کا حصہ ہیں جس کے اندر کوئی قدرتی غیر ہم آہنگی یا ذیلی نسلیں نہیں ہیں۔ اسی لئے بحث کے موضوع ہوموارکٹس کا کوئی وجود نہیں ہے۔“ 6
وہ تمام سائنسدان جو اس مقالے کی حمایت میں بول رہے تھے ان کا مشترکہ نتیجہ یہ تھا کہ ”ہوموارکٹس ہوموسیپین سے مختلف نسل نہیں ہے بلکہ ہومو سیپین کے اندر ہی موجود ایک نسل ہے۔“ یہ نقطہ بھی اٹھانا ضروری ہے کہ انسانی نسل ہومو ارکٹس اور ان سے پہلے رہنے والے ارتقاءکے خیالی منظر نامے کے گوریلوں کے درمیان ایک بہت بڑا خلا ہے۔ گوریلوں کی نسلیں آسٹرالوپتھیکس، ہوموہابلس، اور ہومو اور ڈالفنسس ہیں۔ اس کا صرف یہ مطلب نکلتا ہے کہ زمین پر پہلا آدمی فوصلی ریکارڈ میں اچانک کسی بھی طرح کی ارتقائی تاریخ کے بغیر نمودار ہوا۔ یہ تخلیق کا وزنی ثبوت ہے۔
لیکن اس حقیقت کا اعتراف کرنا ارتقاءپسندوں کے ہٹ دھرم فلسفے اور طرزِ فکر کے خلاف ہے۔ نتیجتاً وہ ہوموارکٹس کو ایک گوریلا نما مخلوق کے طور پر پیش کرتے ہیں حالانکہ یہ ایک خالصتاً انسانی نسل ہے۔ ہوموارکٹس کی نوتعمیرات کرتے ہوئے وہ بے انتہا پرعظم طریقوں سے ان کو انسانوں جیسی خصوصیات کا حامل بنادیتے ہیں۔ اسی طرح کے نوتعمیراتی طریقوں سے وہ آسٹرالوپتھیکس اور ہومو ہابلس جیسے گوریلوں کو انسانی اشکال دے دیتے ہیں ۔اپنی ان چالبازیوں سے وہ انسانوں کو گوریلے اور گوریلوں کو انسان بناکر ان کے درمیان موجود خلاکو پر کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ جب کہ جدید سائنسی تحقیق کے مطابق ہومو ایریکٹس،ننینڈر تھال،کرومیگنن،جاوا مین،پیکنگ مین یہ سب خالص انسانی نسلیں تھیں نہ کہ انسانی اور بن مانسی مشترک خصوصیات رکھنے والی ارتقائی نسلیں۔یہ بات ثابت کرتی ہے کہ انسان ارتقا پذیر نہیں ہوا بلکہ اللٰہ تعالٰی کی طرف سے اسی حالت میں تخلیق کیا گیا۔
حوالہ جات:
1: Marvin Lubenow, Bones of Contention, Grand Rapids, Baker, 1992, p. 83.
2: Boyce Rensberger, The Washington Post, November 19, 1984.
3: Ibid.
4: Richard Leakey, The Making of Mankind, London: Sphere Books, 1981, p. 62.
5: Marvin Lubenow, Bones of Contention, Grand Rapids, Baker, 1992. p. 136.
6:Pat Shipman, "Doubting Dmanisi", American Scientist, November- December 2000, p. 491.



0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔