Thursday, 26 October 2017

سورج کے مغرب سے طلوع ہونے کی حدیث پہ ملحدین و منکرین حدیث کا سائنسی اعتراض اور اس کا سائنسی جواب

سورج کے مغرب سے طلوع ہونے کی حدیث پہ ملحدین و منکرین حدیث کا سائنسی اعتراض اور اس کا سائنسی جواب
بشکریہ:فیس بک گروپ آپریشن ارتقائے فہم و دانش،
فیس بک پیج سائنس،فلسفہ اور اسلام
=======================================
رات کے بہت طویل ہونے اور سورج کے مغرب سے نکلنے کی بات سائنسی طور پہ بالکل ممکن ہے۔سائنس کے مطابق زمین کی محوری گردش کسی وجہ سے رک جائے جس سے رات بہت لمبی ہوجائے اور پھر یہ الٹ جائے تو اس سے سورج کا مغرب سے نکلنا بالکل ممکن ہے۔یا زمین کا زاویائ یا انیگولر مومنٹم بہت زیادہ تبدیل ہوجائے تو زمین کی محوری گردش الٹ ہوجائے گی اور سورج مغرب سے نکلے گا۔سائنس کے مطابق اس عمل کے لیے اس مومنٹم کو کسی جگہ منتقل کرنا بھی لازمی ہوگا کیونکہ کائنات میں یہ کنزور یعنی باقی رکھا جاتا ہے۔ مزید براں سائنس کے مطابق یہ بالکل ممکن ہے ۔یہ عمل کئ سیاروں پہ ہوتا ہے جس میں سیارہ زہرہ یا وینس شامل ہے۔سیارہ زہرہ خلاف گھڑی وار یعنی اینٹی کلاک وائز کی بجائے گھڑی وار یعنی کلاک وائز سمت میں گھومتا ہے اور وہاں سورج مغرب سے طلوع ہوتا ہے اور سائنس کے مطابق پہلے اس پہ سورج مشرق سے طلوع ہوتا تھا اور پھر کسی طرح اس کا محور 180 ڈگری تبدیل ہوگیا جس سے اس کی محوری گردش الٹ گئ اور سورج اس پہ مغرب سے طلوع ہوتا ہے۔سائنس کے مطابق سیارہ مریخ بھی ایک بے ترتیب محور میں گردش کرتا ہے اور اس کی محوری گردش کی سمت بھی تبدیل ہوسکتی ہے کیونکہ یہ سیارہ نظام شمسی یا سولر سسٹم کے باقی اجسام کے زیر اثر رہتا ہے۔اس طرح سیاروں کی محوری گردش کا الٹ جانا جس سے سورج مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع ہو،سائنس۔ کے مطابق عین ممکن ہے۔لیکن سائنس کے مطابق سیارے کی محوری گردش یا روٹیشن کا اچانک تبدیل ہوجانا بھی ممکن ہے جس سے سورج مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع ہو اور یہ کسی سیارے کے کسی دوسرے فلکیاتی جسم سے ٹکراؤ کے نتیجے میں ہوسکتا ہے۔سائنس کے مطابق زمین کی محوری گردش یا روٹیشن چاند کی وجہ سے قیام پذیر ہے لیکن ایک بڑے فلکیاتی جسم سے ٹکراؤ کی وجہ سے زمین کی محوری گردش یا روٹیشن کا الٹ جانا اور اس کے نتیجے میں سورج کا زمین پہ مغرب سے طلوع ہونا عین ممکن ہے۔لیکن اس کے لیے جو توانائی چاہیے وہ اتنی زیا دہ ہے جو زمین کی سطح کو پگھلا دے گی۔
مزید براں سائنس کے مطابق کائنات مسلسل پھیل رہی ہے اور ایک وقت آئے گا کہ اس کا مومنٹم ختم ہوجائے گا اور یہ اپنی کشش ثقل یعنی فورس آف گریویٹی کی وجہ سے سکڑنا شروع ہوجائے گی اور اس کے تمام جھرمٹ،ان کے ستارے اور سیارے الٹی سمت میں حرکت کرنا شروع کردیں گے اور اس وقت سورج مغرب سے طلوع ہوگا۔
حوالہ

https://physics.stackexchange.com/…/what-cosmic-event-would…
اس بارے میں سائنسی کمیونٹی میں کئ مخالف اور حمایتی نظریات ہیں لیکن جب ہم کہتے ہیں کہ اللٰہ تعالٰی موجود ہے تو پھر اس کے لیے کیا ناممکن ہے کہ وہ سورج کو مشرق سے طلوع کرے یا مغرب سے۔سائنس کے مطابق بھی یہ ممکن ہے ناممکن نہیں۔
جہاں تک بات ہے سورج کے مغرب سے طلوع ہونے کی تو وہ بذات خود ناسا بیشک نہ کہے لیکن باقی سب سائنسی تحقیقات ممکن تسلیم کرتی ہیں۔لہذا جب ہم کہتے ہیں کہ اسلام کے مطابق سورج مغرب سے طلوع ہو گا تو ملحدین و منکرین اس بات کا مذاق اڑاتے تھے لیکن جدید سائنسی تحقیق یہ بات بالکل درست مانتی ہے کہ مذہب کی یہ بات سائنس کے خلاف ہرگز نہیں ہے۔فرق یہ ہے کہ سائنس اسے ممکن مانتی ہے جب کہ ہم اسے اللٰہ تعالٰی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق حقیقت مانتے ہیں۔خلاصہ یہ کہ یہ مذہب کا ایسا نظریہ نہیں جس کو سائنس سے مسترد کرکے اس کا انکار کر دیا جائے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔