Thursday, 26 October 2017

کیسینی ہیوگن

15 اکتوبر 1997 کو امریکی، یورپی اور اٹالین خلائی ایجنسی نے کیسینی ہیوگن نامی 2 خلائی گاڑیاں خلاء میں بھیجیں، ان کا رخ سیارہ زحل کی جانب کیا گیا ان کا مقصد زحل کے متعلق مفید معلومات اکٹھا کرنا تھا، اس مشن پر اربوں ڈالر خرچ کیے گئے، بالآخر 6 سال 261 دن کا طویل سفر طے کرنے کے بعد یہ گاڑیاں زحل کے مدار میں داخل ہوگئیں یہ زمین سے اتنے زیادہ فاصلے پر تھیں کہ ان کی جانب سے بھیجے جانے والے سگنلز 1 گھنٹہ 30 منٹ بعد زمین پر موصول ہوتے تھے، اس مشن کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ زحل کے چاند انسلادس پر سائنسدانوں نے گرم پانی کے فوارے دیکھے، زمین سے باہر 2 جگہیں ہیں جہاں سائنسدانوں نے پانی کے سمندر دیکھے، انسلادس ان 2 جگہوں میں سے ایک ہے، خیر! زحل کے مدار میں داخل ہونے کے بعد کیسینی ہیوگن میں سے ہیوگن نام کی خلائی گاڑی علیحدہ ہوگئی اور زحل کے پرسرار چاند ٹائٹن پر اس نے اترنے کا منصوبہ بنایا، یہ واحد چاند ہے نظام شمسی کا جس پر زمین کی طرح ایک atmosphere موجود ہے، جب ہیوگن ٹائٹن کی سطح پر اتری تو اس گاڑی نے حیرت انگیز انکشاف کیا کہ اس چاند پر ندی نالے اور دریا موجود ہیں مگر پانی کے نہیں بلکہ میتھین کے، بہرحال یہ بہت بڑا انکشاف تھا کیونکہ اس وقت تک زمین کے علاوہ کہیں اور کچھ بھی مائع حالت میں نہیں ملا تھا انسلادس پر پانی کا انکشاف بھی تب تک نہیں ہوا تھا، جبکہ ٹائٹن پر میتھین کے دریا موجود ہیں، میتھین میں کاربن ہائیڈروجن ہوتی ہے جو زندگی کے لئے لازمی ہے، یہ معلومات بھیجنے کے ساتھ ہی ہیوگن کا رابطہ زمین سے کٹ گیا اور آج تک ہیوگن نامی خلائی گاڑی ٹائٹن کی سطح پر موجود ہے، پیچھے موجود کیسینی خلائی گاڑی نے زحل کے چکر لگانا شروع کردیے، اور کل 15 ستمبر 2017 کے دن تقریبا 20 سال بعد ناسا کیسینی سیٹلائیٹ کو زحل سے ٹکرا کر تباہ کردے گا، کیسینی خلائی گاڑی کو تباہ کرنے کی نوبت اس لئے آئی کیونکہ اس میں موجود فیول ختم ہوگیا تھا جس کے بعد یہ زحل کے کسی بھی چاند سے ٹکرا کر تباہ ہوسکتی تھی اس کا نقصان یہ ہوتا کہ زحل کے چاند انسلادس اور ٹائٹن پر سائنسدانوں کو بہت زیادہ امید ہے کہ زندگی موجود ہے اگر یہ خلائی گاڑی ان میں سے کسی چاند پر گر گئی تو خلائی گاڑی میں موجود جراثیم وہاں پھیل جائیں گے اور وہاں کے جراثیموں پر اثر انداز ہوسکتے ہیں جس کے باعث اگر کبھی انسانوں نے وہاں جا کر تحقیق کرنی چاہی تو ایک تو یہ معلوم نہیں ہوپائے گا کہ ان چاندوں پر موجود جراثیموں کی اصل شکل کیا تھی اور کیا کبھی یہاں جراثیم یا کوئی دوسری زندگی موجود بھی تھی یا یہ ہمارے زمین کے ہی جراثیم ہیں، یہ تو وجہ تھی کہ کیسینی کو زحل سے ٹکرا کر تباہ کیوں کیا جائے گا، اب اس جانب آتے ہیں کہ اسے تباہ کیسے کیا جائے گا، جیسے ہی کیسینی زحل کی جانب جمپ کرے گی تو تمام آلات آخری سیکنڈ تک زمین پر معلومات بھیجتے رہیں گے جب تک کوئلہ نہیں بن جائیں گے، جیسے ہی کیسینی زحل کے انتہائی موٹے atmosphere سے گزرے گی تو وہاں پر یہ 1800 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہواؤں سے رگڑ کھائے گی اور زحل کی سطح سے ہزاروں کلومیٹر اوپر ہی جل کر راکھ ہوجائے گی، کیسینی مشن نے 20 سالوں میں بےپناہ انتہائی اہم انکشافات کیے جن میں سے چند ایک انکشافات یہ تھے کہ اس نے زحل کے چاند پر گرم پانی کے فوارے دریافت کیے، اس کے علاوہ اس نے البرٹ آئن سٹائن کی تھیوری آف ریلیوٹی کو سچ ثابت کیا، اس نے زحل کے کناروں پر روشنیاں دریافت کیں، اس نے زحل کے کئی چاند دریافت کیے. بےشک یہ انسانوں کی عظیم کامیابیوں میں سے ایک انتہائی کامیاب مشن تھا اور کل کا دن تاریخی ہوگا. کل یہ خلائی گاڑی پاکستانی وقت کے مطابق شام 4:56 پر زحل سے ٹکرا کر تباہ ہوجائے گی، اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ کیسینی خلائی مشن کو صدیوں یاد رکھا جائے گا......
محمد شاہ زیب صدیقی

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔