Saturday, 28 October 2017

انسانی ارتقا کی فرضی کہانی اور ارتقا والوں کے جھوٹ قسط :1

انسانی ارتقا کی فرضی کہانی اور ارتقا والوں کے جھوٹ قسط :1
انسانی ارتقا کے لیے پیش کیے جانے والے فوسلز کی اصل داستان
اقتباس:نظریہ ارتقا ، ایک فریب
مصنف:ہارون یحیی
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
نظریہ ارتقاءکا یہ دعویٰ ہے کہ دورِ حاضر کا انسان کسی گوریلا نما مخلوق کی تدریجی شکل ہے۔ اس ازروئے دعویٰ ارتقائی عمل کا آغاز 6 سے 5 لاکھ سال پہلے ہوا اور اس شجرہ نسب میں کچھ عبوری نوعیت کی مخلوق کا بھی دخل ہے جو کہ انسان اور اس کے پرکھا کے مابین رشتہ داری کو واضح کرتی ہے۔ اس مکمل طور پر فرضی منظر نامے کے مطابق مندرجہ ذیل چار بنیادی گروہوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔
1۔ آسٹرالوپیتھییسینز (جنس آسٹرالوپتھیکس سے تعلق رکھنے والی کوئی بھی شکل)ِّّAustralopithecines
2۔ ہوموہابلس Homo hablis
3۔ ہوموارکٹس Homo erectus
4۔ ہوموسیپینز Homo sapiens
راماپیتھیکس کا ملنے والاپہلا فوصل ایک غیر موجود جبڑے کی ہڈی کے دو ٹکڑوں پر مشتمل تھا۔ ارتقاءپسندوں نے جرات مندانہ طور پر اس جبڑے پر انحصار کرتے ہوئے راماپیتھیکس اور اس کے مکمل ماحول اور خاندان کے بھی خیالی خاکے دنیا کے آگے پیش کردئے۔ جب یہ حقیقت سامنے آئی کہ یہ مخلوق، اس کا ماحول، اس کا خاندان اور اس کے متعلق بتائی گئی ہر تفصیل ایک عام گوریلے کے جبڑے کی ہڈی سے اخذ کیا نسب سے گیا تھا تو راماپیتھیکس کو خیالی انسانی شجرہ خاموشی سے ہٹادیا گیا۔ )
حوالہ ،ڈیوڈ پلببیم ”انسانوں نے ایک قدیم جد امجد کھو دیا“ رسالہ سائنس اپریل 1987 ءصفحہ 7
پوری تاریخ کے دوران تقریباً 6000 گوریلوں کی نسلیں زمین پر پیدا ہوئیں جن میں سے زیادہ تر معدوم ہوگئیں۔ آج صرف 120 نسلیں زمین پر موجود ہیں لیکن معدوم گوریلوں کی ہڈیاں ارتقاءپسندوں کے لئے ہڈیوں کا ایک ایسا خزانہ ہیں جن کو وہ اپنے نظریوں کے فروغ کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
ارتقاءپسندوں نے انسانی ارتقاءکا منظر نامہ اس طرح لکھاکہ پہلے اپنی مرضی کی کھوپڑیوں کو چھوٹے سے لے کر بڑے ناپ تک ایک ترتیب دے دی اور ان کے بیچ میں کچھ معدوم انسانی نسلوں کی کھوپڑیاں بھی ملا دیں۔ اس منظر نامے کے حساب سے انسان اور گوریلوں کے اجداد مشترک ہیں۔ ارتقاءپسندوں کے مطابق یہ قدیم مخلوق وقت کے ساتھ ساتھ بسلسلہ تدریجی ترقی دورِ حاضر کا گوریلا بن گئی جبکہ ایک گروہ نے ارتقاءکی ایک اور شاخ کے ذریعے ترقی کے باعث دورِ حاضر کے انسان کی شکل اختیار کرلی۔ لیکن تمام علمِ معدوم حیوانا و نباتات، علم تشریح الاعضاءاور علم حیاتیات کی تحقیق کے مطابق نظریہ ارتقاءکا یہ دعویٰ اتنا ہی خام خیالی سے پر اور معذور ہے جتنے کہ دوسرے تمام دعوے ہیں۔ کسی بھی نوعیت کا اصل اور ٹھوس ثبوت آج تک اس معاملے میں سامنے نہیں آسکا جو کہ انسان اور گوریلے کے درمیان کوئی رشتہ استوار کرنے میں کامیاب ہوسکے۔ سارے ثبوت صرف دھوکہ دہی ، حقیقت کی بگڑی ہوئی اشکال، بہکاووں سے پر خاکوں اور تجزیوں پر مشتمل ہیں۔
فوصلی ریکارڈ تاریخ کے ہردور میں انسانوں کا انسان اور گوریلوں کا گوریلے ہونے کی ہی نشاندہی کرتا ہے۔ ارتقاءپسندوں کے دعوﺅں کے مطابق کچھ فوصل جن کو وہ انسان کا جد امجد کہتے ہیں وہ ان انسانی نسلوں کی ہیں جو کہ ایک لاکھ سال پہلے کے دور میں زندہ رہیں اور معدوم ہوگئیں۔ اس کے علاوہ کئی انسانی گروہ جو کہ دورِ حاضر میں بھی موجود ہیں اِنہیں معدوم انسانی نسلوں سے مشترک طبعیاتی اور شکلیاتی خصوصیات کی حامل ہیں جن کو ارتقاءپسند انسانوں کے جد امجد کہتے ہیں۔ یہ تمام باتیں اس حقیقت کا واضح ثبوت ہیں کہ انسانی نسل تاریخ کے کسی دور میں کسی بھی ارتقائی عمل سے نہیں گزری۔ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ گوریلوں اور انسانوں کے درمیان اتنے زیادہ تشریح الاعضاء یعنی جسمانی ساخت یا اناٹومی کے فرق موجود ہیں کہ ان دونوں نسلوں کا کسی بھی طرح کے تدریجی ترقی کے عمل کے ذریعے وجود میں آنے کا سول ہی پیدا نہیں ہوتا۔ان میں سے سب سے نمایاں فرق دو ٹانگوں پر چلنے کی صفت ہے جو کہ انسان کے لئے مخصوص ہے۔ انسان اور دوسرے حیوانات کے درمیان فرق پیدا کرنے والی یہ سب سے اہم خصوصیت ہے۔
انسان کے ازروئے دعویٰ گوریلا نما جد امجد کو ارتقاءپسند آسٹرالوپتھیکس کا نام دیتے ہیں جس کے لفظی معنی ہیں جنوبی گوریلا۔ یہ ایک پرانی وضع کا گوریلا ہے جو کہ معدوم ہوچکا ہے اور مختلف اشکال میں فوصلوں کی صورت دریافت ہوتارہتا ہے۔ کچھ اشکال بڑی اور مضبوطی سے بنی ہوتی ہیں جبکہ دوسرے ڈھانچے نسبتاً چھوٹے اور نازک ہوتے ہےں۔انسانی ارتقاءکا دوسرا مرحلہ ارتقاءپسندوں کے حساب سے جنس ہومو ہے جس کا لفظی مطلب ’آدمی‘ ہے۔ ارتقاءپسند دعوے کے مطابق ہومو سلسلے کے جاندار آسٹرالوپتھیکس کے مقابلے میں زیادہ ترقی یافتہ ہیں اور دورِ حاضر کے انسان سے کافی مشابہ ہیں۔ آج کا انسان ہومو سیپین نسل کا ہے جس کی شکل ارتقاءکے آخری مرحلے پر جنس ہومو کی تدریجی ترقی سے ہوئی ہے۔ جاوا مین، پیکن مین اور لیوسی جیسے فوصل جو کہ تشہیراتی مواد میں وقتاً فوقتاً نمودار ہوتے رہتے ہیں اور ارتقائی جریدوں اور نصابی کتابوں کا اہم جزو ہیں ،یہ بھی اوپر دئے گئے چاروں گروہ میں سے کسی ایک کا حصہ ہیں۔
یہاں یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ یہ چاروں بڑے گروہ مزید انواع اور ذیلی انواع میں تقسیم ہوجاتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ راما پتھیکس جیسی ماضی کی عبوری اشکال کو اس خیالی شجرہ نسب سے خارج کردیا جائے کیونکہ ان کا محض عام گوریلا ہونے کاثبوت سامنے آگیا تھا ۔1
ارتقاءکے شجرہ نسب کی خیالی زنجیر کی کڑیوں کو آسٹرالوپیتھیسینز، ہوموہابلس، ہوموارکٹس اور ہوموسیپینز کی صورت میں بیان کرکے ارتقاءپسند وضاحت کرتے ہیں کہ ہر زمرہ دراصل اس سے پہلے والے کا جد امجد ہے۔ لیکن ماہرِ قدیم بشری رکازیات(Human Paleontologist) کی حالیہ تحقیق نے ظاہر کیا ہے کہ آسٹرالاپیتھیسینز اور ہوموہابلس اور ہوموارکٹس دنیا کے مختلف حصوں میں ایک ہی وقت میں موجود تھے۔ مزید یہ کہ ہوموارکٹس کے زمرے کے انسان حالیہ دور میں بھی موجود ہیں۔ حالیہ جاوا کے ہومو ارکٹس: جنوب مشرقی ہوموسیپینز کے ساتھ ممکنہ متحد الوقوع ‘ کے عنوان سے رسالہ سائنس میں چھپنے والے مضمون میں بیان کیا گیا کہ جاوا سے ملنے والے ہومو ارکٹس کے فوصلوں کی اوسطاً عمر 2+27سے 6+-335 ہزار سال پہلے کی ہے۔ یہ اس بات کے امکان کو بڑھادیتا ہے کہ ہومو ارکٹس تشریح الاعضاءکے حساب سے جنوب مشرقی ایشیاءکے ترقی یافتہ ہومو سیپینز کے متجاوز تھے۔مزید یہ کہ ہوموسیپینز نینڈر تھالنسس اور ہوموسیپینز سیپینز یا دور حاضر کا انسان بھی ایک ہی وقت میں زندہ تھے۔ اس بات کے ثابت ہونے سے اس دعوے کی منسوخی واضح ہوجاتی ہے کہ ایک نسل دوسری نسل کی جد امجد ہے۔ 2
قدرتی طور پر تمام نتیجے اور سائنسی تحقیق یہی ثابت کرتے ہیں کہ فوصلی ریکارڈ کسی قسم کا ایسا تدریجی ترقی کا عمل تجویز نہیں کرتا جس کو ارتقاءپسند پیش کرتے ہیں۔ جن فوصلوں کو ارتقاءپسند انسانوں کے جد امجد کہتے ہیں وہ مختلف انسانی نسلوں کے یا پھر گوریلوں کے فوصل ہیں۔ تو پھر کون سے فوصل انسانی ہیں اور کون سے گوریلوں کے ہیں؟ کیا ان میں سے کسی ایک کو بھی عبوری نوعیت کی مخلوق تصور کرنا ممکن ہے؟ ان سب باتوں کا جواب حاصل کرنے کےلئے ہر گروہ پر تفصیلی نظر ڈالنا ضروری ہے اور اس پر تفصیل ان شاء اللہ اگلی قسطوں میں بیان کی جائے گی۔

حوالہ جات:
1: David Pilbeam, "Humans Lose an Early Ancestor", Science, April 1982, pp. 6-7.
2: C. C. Swisher III, W. J. Rink, S. C. Antón, H. P. Schwarcz, G. H. Curtis, A. Suprijo, Widiasmoro, "Latest Homo erectus of Java: Potential Contemporaneity with Homo sapiens in Southeast Asia", Science, Volume 274, Number 5294, Issue of 13 Dec 1996, pp. 1870-1874; also see, Jeffrey Kluger, "Not So Extinct After All: The Primitive Homo Erectus May Have Survived Long Enough To Coexist With Modern Humans, Time, December 23, 1996

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔