کیا قرآن مجید میں بیان کردہ ہامان تاریخ کی ایک فرضی شخصیت ہے؟
قرآن میں بیان کردہ ہامان کے وجود کا تاریخی ثبوت،اس حوالے سے ملحدین کے اعتراضات اور ان کے جوابات
پیشکش: فیس بک گروپ آپریشن ارتقائے فہم و دانش
فیس بک پیج:مذہب،فلسفہ اور سائنس
فیس بک پیج:سائنس،فلسفہ اور اسلام
»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»
قرآن مجید سورہ القصص پارہ 20 میں فرعون کے وزیر ہامان کا اس طرح تذکرہ کیا گیا ہے
وَقَالَ فِرْعَوْنُ يَآ اَيُّـهَا الْمَلَاُ مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ اِلٰـهٍ غَيْـرِيْۚ فَاَوْقِدْ لِـىْ يَا هَامَانُ عَلَى الطِّيْنِ فَاجْعَلْ لِّـىْ صَرْحًا لَّـعَلِّـىٓ اَطَّلِـعُ اِلٰٓى اِلٰـهِ مُوْسٰىۙ وَاِنِّىْ لَاَظُنُّهٝ مِنَ الْكَاذِبِيْنَ (38)
"اور فرعون نے کہا اے سردارو! میں نہیں جانتا کہ میرے سوا تمہارا اور کوئی معبود ہے، پس اے ہامان! تو میرے لیے گارا پکوا پھر میرے لیے ایک بلند محل بنوا کہ میں موسٰی کے خدا کو جھانکوں، اور بے شک میں اسے جھوٹا سمجھتا ہوں۔"
ملحدین کہتے ہیں کہ واقعہ فرعون و موسی علیہ السلام کے حوالے سے قرآن مجید میں بیان کردہ فرعون کے وزیر ہامان تاریخ کی ایک فرضی شخصیت ہے جس کے وجود کا کوئی ثبوت نہیں۔واضح رہے کہ قرآن مجید میں فرعون کے وزیر ہامان کا تفصیلی تذکرہ موجود ہے جس کو فرعون نے حکم دیا تھا کہ وہ حضرت موسی علیہ السلام کے رب کے مقابلے کے لیے ایک بہت اونچی عمارت تعمیر کرے جس پہ چڑھ کر وہ حضرت موسی علیہ السلام کے رب سے جنگ لڑ سکے۔اگر قرآن مجید میں بیان کردہ اس واقعے کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو درج ذیل باتیں سامنے آتی ہیں
1: قرآن کے بیان کے مطابق فرعون اپنے آپ کو خدا کہتا تھا
2:قدیم مصر میں آگ میں پکائی گئی پکی اینٹیں تعمیرات میں استعمال ہوتی تھیں
3:فرعون آسمان کی بلندی پہ جا کر خداؤں سے گفتگو کرنے کی خواہش کرتا تھا
قرآن کے بیان کردہ ان تینوں نکات کا تاریخ میں ثبوت موجود ہے۔
انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کے مطابق قدیم مصر میں فرعون کو حقیقت میں خدا ہی سمجھا جاتا تھا۔اس کے مطابق
"مصری یہ یقین رکھتے تھے کہ فرعون ایک خدا ہے اور وہ آسمانی دیوار ہورس اور سورج دیوتا ری( Re)، آمون اور آتون سے وابستہ ہے۔یہاں تک فرعون کی موت کے بعد بھی اس کو خدا تصور کیا جاتا اور یہ یقین کیا جاتا تھا کہ وہ اوسیرس دیوتا میں تبدیل ہو گیا ہے جو کہ ہورس دیوتا کا باپ اور مردوں کا خدا ہے اور اپنی مقدس طاقت اور مقام نئے فرعون کو منتقل کر دیتا ہے۔"
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مصر کے بعد فرعون کو ہورس دیوتا نہیں بلکہ ہورس دیوتا کا باپ مانا جاتا تھا۔مزید برآں قدیم مصر میں یہ یقین کیا جاتا تھا کہ فرعون کی خدائی حیثیت اسے جادوئی طاقتیں فراہم کرتی ہے۔ان کے خیال میں اس کے تاج پہ بنا ہوا یوریئس یعنی سانپ اس کے دشمنوں پہ شعلے پھینکتا تھا،وہ جنگ کے میدان میں اکیلے ہزاروں انسانوں کو قتل کر سکتا تھا،وہ سب سے زیادہ طاقتور تھا،ہر چیز جانتا تھا، اور فطرت اور بچے پیدا کرنے کی صلاحیت اس کے قابو میں تھی۔اسے دیوتا کے عطا کردہ حکم مات کا محافظ تصور کیا جاتا تھا جب کہ ساتھ میں اسے خود بھی خدا تصور کیا جاتا تھا۔اس کے حکم کے آگے کسی کی مجال نہیں تھی۔نیلسن السٹریٹد بائبل ڈکشنری کے مطابق
"مصری یقین رکھتے تھے کہ فرعون ایک خدا ہے اور آسمانی خداؤں سے رابطے کی چابی ہے۔اسے آسمان کے خداؤں کی طرف سے زمین پہ حکومت کرنے کا اختیار دیا ہے۔اسکا کہا قانون ہے اور وہ ہر چیز کا مالک ہے۔"
ملحدین کہتے ہیں کہ فرعون کے خود کو خدا کہنے کا قرآن کا بیان نعوذ بااللہ یہودی کتاب Midrash Exodus Rabbah سے اخذ کیا گیا ہے۔لیکن یہ دعوی بالکل غلط ہے۔مدراش ربہ کی یہ کتاب ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کے عمل کے تحت اسلام کی آمد کے سینکڑوں سال بعد کی پائی گئی ہے جب کہ قرآن پہلے ہی نازل ہوچکا تھا۔لہذا قرآن پہ یہ اعتراض جھوٹ ہے۔فرعون کے خدائی کے دعوے کا بیان مدراش ربہ کے پہلے حصے سے آتا ہے ۔لیوپولڈ زونز(Leopold ZUnz) کے مطابق مدراش ربہ کے دونوں حصے یعنی ساری مدراش گیارہویں یا بارہویں صدی عیسوی کی ہے جب کہ قرآن اس سے پانچ سو سال پہلے نازل ہوچکا تھا۔ ہر(Hurr) کے مطابق مدراش ربہ کا پہلا حصہ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ قرآن نے اس سے فرعون کے خدائی کے دعوے کا بیان لیا ہے،وہ دسویں صدی عیسوی سے پہلے کا نہیں ہے جب کہ قرآن اس سے چار سو سال پہلے ہی نازل ہوچکا تھا۔
قرآن کے بیان کے مطابق فرعون نے ہامان کو ایک شاندار برج تعمیر کرنے کا حکم دیا تاکہ وہ اس پہ چڑھ کر حضرت موسی علیہ السلام کے خدا کا مقابلہ کر سکے۔قرآن میں اس بات کی کوئی صراحت نہیں ہے کہ اس برج کی تعمیر مکمل ہوئی تھی یا شروع کی گئی تھی۔
قدیم مصر کے شہروں ابیدوز اور مہاسنہ میں بادشاہی اور سے پہلے پکی ہوئی مٹی کی ایک طرح کی لمبی اینٹیں استعمال کی جاتی تھی جس سے واضح ہوتا ہے کہ قدیم مصری گارے کو آگ کے ذریعے پکانے کے عمل سے واقف تھے۔
ماہر قدیم مصریات سر فلنڈرز پیٹری اپنی کتاب Religious Life In Ancient Egypt میں لکھتا ہے
"قدیم مصر میں آسمانوں کے خداؤں کی طرف چڑھنے کی خواہش ایسی سیڑھی سے ظاہر ہوتی تھی جس سے اوپر جایا جا سکے۔"
لہذا فرعون کی طرف سے ہامان کو ایک ایسے برج کی تعمیر کا حکم جس سے آسمان کی طرف جاکر خدا سے مقابلہ کیا جا سکے مصر کی دریافت ہونے والی تاریخ کے عین مطابق ہے۔لیکن ہم یہ بالکل نہیں کہ رہے کہ یہ تصور صرف مصر میں موجود تھا۔ماہر قدیم مصریات آئی ایی ایس ایڈورڈز کے مطابق یہ تصور مصر کے علاوہ قدیم عراق اور اسیریا میں بھی موجود تھا۔لہذا اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قرآن اس زمانے میں موجود مشرق وسطی اور مصر کی روایت کا بالکل درست بیان کر رہا ہے اور اس بیان کا تعلق بائبل میں مذکور برج بیبل یا Tower Of Babel سے نہیں بلکہ یہ قدیم مصر کی ایک حقیقت کا الگ سے بیان ہے۔
ایک کیتھولک عیسائی عالم اور مشنری فادر جیکوئس جومیئر کے مطابق قرآن کا فرعون کی طرف سے ایک برج کی تعمیر کا حکم اہرام مصر کی ایک نشانی ہوسکتا ہے۔کچھ اہرام مصر حقیقت میں بہت بلند تھے۔اگر فرعون ہامان کو ایک ہرم یعنی اہرام مصر میں سے ایک کی تعمیر کا حکم دیتا تو یہ ایسا تھا جیسے فرعون اپنے ہی مقبرے کی تعمیر کا حکم دے رہا ہو کیوں کہ اہرام اس زمانے میں مصری بادشاہوں کے مقبرے کے طور پہ استعمال ہوتے تھے اور اس طرح فرعون اپنے آپ کو فانی تسلیم کرتا جب کہ وہ اپنے آپ کو خدا اور لافانی کہتا تھا۔لہذا قرآن کی آیت کا مطلب اہرام مصر نہیں ہیں۔علاوہ ازیں اہرام مصر میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جس کی تعمیر آگ میں پکائی ہوئی اینٹوں سے کی گئی ہو۔
انسائیکلو پیڈیا آف قرآن میں اے ایچ جانز نے لکھا
"کیا عربی لفظ ہامان مصری لفظ ہا آمن( Ha-amen) کی عربی شکل ہے جو کہ قدیم مصر میں سب سے بڑے مذہبی پیشوا کے لیے استمعال ہوتا تھا اور قدیم مصر میں فرعون کے بعد سب سے بڑے مرتبے پہ فائز تھا۔"
مغربی اہل علم قرآن مجید میں بیان کردہ ہامان کو ایک شخصی نام سمجھتے ہیں نہ کہ ایک لقب کیونکہ ان کے خیال میں نعوذ بااللہ قرآن نے یہ نام بائبل میں مذکور ہامان سے لیا ہے۔اس اعتراض کا تفصیلی جواب ہم ان شاء اللہ اگلی پوسٹ میں دیں گے۔ہماری نظر میں قرآن مجید میں بیان کردہ ہامان ایک شخص کا نام نہیں بلکہ ایک شخص کا لقب تھا جسے فرعون نے حضرت موسی علیہ السلام کے رب مقابلے کے لیے ایک بہت بلند برج کی تعمیر کا حکم دیا تھا۔ہماری اس بات کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ قدیم مصر میں فرعون بھی مصر کے بادشاہ کا ایک لقب تھا۔لہذا ہوسکتا ہے کہ فرعون کے وزیر کو ہامان کہا جاتا ہو۔
قدیم مصری زبان میں قرآن مجید میں بیان کردہ ہامان کا قریبی ترین تعلق حروف صحیح کی صوتی شکل میں ہیمن( HMN) سے بنتا ہے۔لیکن اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ الفاظ کا صوتی اور تلفظ کا استعمال قدیم مصری اور عربی میں ایک ہے۔لیکن جو بات اس کے خلاف ہے وہ یہ ہے کہ قدیم مصری زبان جو کہ اب ایک مردہ زبان ہے،اس پہ ابھی مزید تحقیق جاری ہے اور مصری زبان کے کچھ الفاظ ایسے ہیں جن کو قرآن نے واضح مصری انداز کی بجائے ان کی عربی شکل میں بیان کیا ہے جیسا کہ فرعون کا لفظ۔قدیم مصری لسانیات کی جدید اور مفصل کتاب Der Ägyptischen Götter Und Götterbezeichnungen, an encyclopaedia of ancient Egyptian deities and the theophoric names associated with them اس پہ مزید روشنی ڈالتی ہے۔اس کے مطابق لقب کے درجے میں hm-ntr یعنی ہیمینٹر یا ہامانٹر کے لیے استمعال ہوتا ہے جسکا معنی قدیم مصری زبان میں خدا کا غلام ہے۔اس میں hm کا معنی غلام اور ntr کا معنی خدا ہے۔دوسرے لفظوں میں ہیمنٹر یا ہامانٹر ایک مرد قدیم مصر میں ایک مذہبی پیشوا تھا جب کہ hmt-ntr ایک خاتون مذہبی پیشوا تھی۔اس کا مطلب ہے کہ قدیم مصر میں HMN یا ہیمن کا لفظ ایک ایسے مذہبی پیشوا کے لیے استمعال ہوتا تھا جو معبد میں ہیمن دیوتا سے منسلک تھا۔ہیمن دیوتا مصر میں ایک چھوٹا دیوتا تھا اور اس طرح اس سے منسلک مذہبی پیشوا ہیمن بھی کوئی بڑی حیثیت کا نہیں ہوگا جب کہ قرآن مجید میں بیان کردہ ہامان ایک اعلی مرتبے پہ فائز تھا لیکن پھر بھی ممکن ہے کہ یہ وہی ہامان ہو۔لیکن اس سے ہمیں اس بات کا واضح ثبوت مل رہا ہے کہ قدیم مصر میں مذہبی پیشوا کا لقب اس کے دیوتا کے نام پہ ہوسکتا تھا۔ ہیمن یا ہامان یا HMN کے حوالے سے رینکے( Ranke) کی مشہور کتاب Die Ägyptischen Personennamen کی تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ قدیم مصری دیوتا ہیمن یا ہامان کے ساتھ منسلک ناموں میں سے ایک یعنی HMN-h قدیم مصر کی نئی سلطنت کے زمانے یا New Kingdom Period سے آتا ہے۔کے کے ہاف میوزیم ویانا میں پہلا شخص جس نے ایک قدیم مصری دروازے کی چوکھٹ پہ کندہ لفظ hmn-h 1865 ء میں شائع کیا وہ رینش( Reinisch) تھا۔اسے بعد میں والٹر واریسزنسکی نے پھر شائع کیا۔
ہامان کا لفظ حقیقت میں قدیم مصری تختیوں میں مذکور تھا۔یہ ایک یادگار میں مذکور تھا جو اب ہاف میوزیم ویانا میں موجود ہے جس میں فرعون سے ہامان کی قربت واضح کی گئی تھی(Walter Wreszinski, Ägyptische Inschriften aus dem K.K. Hof Museum in Wien, 1906, J. C. Hinrichs' sche Buchhandlung)۔اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ فرعون کے ایک مشیر کا نام ہامان تھا اور قرآن کا ہامان کا بیان بالکل درست ہے۔ hmn-h سے ہیمن یا ہامان کا معنی کچھ لوگ بیشک ہامان نہ لیں لیکن قدیم مصری تاریخ ثابت کر چکی ہے کہ اس نام کا ایک اعلی مرتبے کا فرد قدیم مصر میں موجود تھا اور قرآن کا بیان بالکل درست ہے۔
رینکے کے مطابق قدیم مصری زبان کی دریافت ہونے والے علاماتی تحریریں یا Hieroglyphics کے لیے ? Hmn-h کا لفظ استعمال کیا ہے جس کے مطابق یہ نام کسی دوسرے نام کا مخفف ہوسکتا ہے اگرچہ اس پہ اس کو مکمل یقین نہیں ہے۔ایک بات جو یقینی ہے وہ یہ ہے کہ رینکے یہ نہیں کہتا کہ ہامان کے مصری نام hmn-h میں آخری ایچ حذف کر دیا جائے۔اس کے مطابق یہ ایک بڑے نام یعنی ہیمن ہوتپ( Hemen-hotep) یعنی خدا کا مخفف ہے جس کا مطلب ہے کہ ہیمن ہوتپ مہربان ہے۔یہ بات ظاہر کر رہی ہے کہ ہامان کا نام قدیم مصر میں ایک دیوتا یا اس سے منسلک مذہبی پیشوا کے لیے استمعال ہوتا تھا اور ان ہامان میں سے ایک وہ ہامان ہے جس کا ذکر قرآن نے کیا ہے۔دوسرا امکان یہ ہے کہ ہامان دیوتا کا مذہبی پیشوا بھی جس کو ہامان کہا جاتا تھا،خود ایک چھوٹا خدا سمجھا جاتا تھا اور اس کی تعریف اسے مہربان کہ کر کی گئ ہے۔
بیکنخانسو( Bakenkhonsu) یعنی خانسو کا غلام فرعون موسی علیہ السلام یعنی رعمسس دوم کے زمانے میں قدیم مصری دیوتا آمون کا سب سے بڑا مذہبی پیشوا تھا۔خانسو قدیم مصر میں آمون کا بیٹا اور چاند دیوتا تھا۔ اہانیتھ ( Ahaneth) ایک قدیم مصری خاتون تھی جو مصر کی پہلی سلطنت کے زمانے میں زندہ تھی۔اس کا نام ایک دیوی نیتھ کے نام پہ رکھا گیا تھا۔قدیم مصری فرعون اہموز کا نام دیوتائی نام Ah اور موز کا مرکب ہے۔لہذا قدیم مصر میں یہ عام رواج تھا کہ بچوں کے نام دیوی دیوتاؤں کے نام پہ رکھے جاتے تھے۔لہذا اگرچہ دریافت ہونے والی قدیم مصری علاماتی تحریریں hmn-h یا ہیمن ایچ کو ایک شخص کی بجائے ایک دیوتا ظاہر کریں لیکن اس دیوتا کے نام سے موجود قرآن مجید میں بیان کردہ ہامان کا انکار بالکل نہیں کہا جا سکتا۔
مزید برآں قدیم مصر میں فرعون موسی رعمسس دوم کے زمانے میں مصری دیوتا آمون جسے مصری زبان میں AMN کہا جاتا ہے دیوتاؤں میں سب سے اعلی مرتبے کا سمجھا جاتا تھا اور اس کا ا یک عظیم معبد کرناک میں تھا۔یہ ممکن ہے کہ اس کے سب سے بڑے مذہبی پیشوا کا نام اس کے نام پہ ہو اور اس بات کی قدیم مصری لسانیات کی کتاب Lexikon Der Ägyptischen Götter Und Götterbezeichnungen تائید کرتی ہے۔اس کے مطابق یہ لفظ کئی طرح جیسا کہ مختلف درجے کے مذہبی پیشواؤں سے لے کر اعلی درجے کے مذہبی پیشواؤں جیسا کہ ہیمن ہوٹپ یا ہیمن ہنٹر یا ہامان کے لیے استمعال ہوتا تھا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ لفظ ایک ماہر تعمیرات، ایک مجسمہ ساز اور ایک موسیقار کے لیے بھی استعمال ہوتا تھا۔یہ مختلف قسم کے لوگ قدیم مصری دیوتا آمون کے معبد سے تعمیرات اور تعریفی نظمیں پڑھنے کے لیے منسلک ہوں گے۔مثال کے طور پہ Amun vom Ramessum جو کہ رعمسس دوم کا گوری معبد تھا، ایک سب سے بڑے مذہبی پیشوا یعنی Run hmt-ntr-tpy-priester یا ہیمن ہنٹر یا ہامان اور معبد کے نگران کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آمون کا لقب نہ صرف مذہبی پیشواؤں بلکہ تعمیرات سے منسلک لوگوں کے لیے بھی استعمال ہوتا تھا۔لہذا قرآن کا بیان بالکل درست ہے کہ آمون یا ہامان دیوتا سے منسلک ہامان کے لقب کا ایک شخص مذہبی پیشوا اور تعمیرات کا ماہر تھا جسے فرعون نے حضرت موسی علیہ السلام کے رب کے مقابلے کے لیے ایک بلند برج کی تعمیر کا حکم دیا تھا۔
اب سوال یہ ہے کہ کہ کیا آمون کسی طرح لفظ ہامان سے کوئی تعلق رکھتا ہے ؟ اس کے لئے ہمیں صوتیات یعنی Phonology اور اس کے تلفظ کی تفصیل میں جانا پڑے گا۔آمون یا آمانہ کا لفظ قدیم مصر میں آمون دیوتا سے منسلک سب سے بڑے مذہبی پیشوا اور تعمیرات سے منسلک شخص کے لیے بھی ہوتا تھا لہذا یہ بات عین ممکن ہے کہ ہامان آمون دیوتا سے منسلک سب سے بڑے مذہبی پیشوا اور تعمیرات کے ماہر شخص کے لقب آمانہ( Amana) کی عربی شکل ہے جیسا کہ فرعون قدیم مصری زبان کے لفظ فرعا یا Per-Aa کی عربی شکل ہے جو کہ قدیم مصر کے بادشاہ کا لقب تھا۔
اب ہم اس کے کچھ لسانیاتی پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں۔قدیم مصری لفظ آمون دریافت ہونے والی قدیم مصری تختیوں میں آمانہ کے نام سے بھی لکھا گیا ہے جس میں ابتدائی الف ساکت تھا یعنی اسے مانہ کہا جاتا تھا۔اب اگر ہم عربی زبان کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ عربی میں ح،خ،ث،ص،ش،و،ف اور ہ بغیر آواز کے frictive ہیں۔ان میں سے صرف ح اور ہ قدیم مصری I سے صوتیات میں قریب ترین ہیں۔عربی کا ح یا h ایک بلا آواز صوتی لفظ یا Voiceless Frictive ہے اور یہی چیز قدیم مصری زبان میں بھی موجود ہے۔اب ہمارے پاس ہ بچ گیا ہے۔قدیم مصری لفظ آمانہ کو عربی میں لکھنے کے لیے ء استعمال نہیں ہوسکتا کیوں کہ عربی میں یہ بھی بلا آواز صوتی حرف ہے جب کہ دوسری طرف حرف الف ایک لمبا حرف علت ہے۔اس طرح نہ ہی ہمزہ یعنی ء اور نہ ہی الف ایک ایسی عربی صوتی شکل پہ پورا اترتے ہیں جو مصری لفظ I کو عربی میں لکھنے کے لیے استمعال ہوسکے لہذا قدیم مصری لفظ IMN یا آمانہ عربی میں قرآن نے ہامان کے نام سے بیان کیا۔لہذا قدیم مصری زبان اور تاریخ قرآن کی طرف سے ہامان کے بیان کو بالکل درست ثابت کر رہی ہیں۔
عیسائی مستشرقین و ملحدین کہتے ھیں کہ قدیم مصری دیوتا آمون کے سب سے بڑے مذہبی پیشوا مصر میں سب سے زیادہ طاقتور 1080 سے 943 قبل مسیح کے درمیان رہے جب کہ فرعون موسی رعمسس دوم کا زمانہ 1279 سے 1213 قبل مسیح کا ہے اور ان میں سے کسی کا نام ہامان نہیں تھا۔اس کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ مصری قدیم مذہبی پیشوا زیادہ طاقتور اور یہاں تک کہ الگ حکمران کے طور پہ مصر میں بعد میں طاقتور رہے لیکن بذات خود فرعون موسی رعمسس دوم کے زمانے میں وہ اتنے اعلی مرتبے پہ فائز تھے کہ ان میں سے ایک یعنی ہامان کو ان سے زیادہ طاقتور یعنی فرعون کی طرف سے حضرت موسی علیہ السلام کے رب کے مقابلے کے لیے ایک بلند برج کی تعمیر کا حکم دیا گیا تھا لہذا حکم کی تعمیل ذاتی عروج کی بجائے فرعون کے عروج کی پابند تھی اور اس وقت فرعون مصر ان مذہبی پیشواؤں سے زیادہ طاقتور تھا۔
لہذا تاریخ ثابت کر چکی ہے کہ قرآن مجید میں بیان کردہ ہامان بائبل سے لیا گیا فارسی یا ایرانی ہامان نہیں بلکہ قدیم مصر کی ایک حقیقی اور تاریخی شخصیت تھا۔مستشرقین و ملحدین کہتے ہیں کہ مصر میں ایک ہی وقت میں کتنے ہامان موجود تھے اور ان میں سے کونسا ہامان قرآن مجید میں بیان کردہ ہامان تھا۔اس کا جواب یہ ہے کہ قدیم مصری دیوتا آمون کے ساتھ منسلک لوگ کئی تھے جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا لیکن ان میں سے ایک جس کا تعلق فرعون سے زیادہ قریبی تھا اسے فرعون کی طرف سے ایک بلند برج کی تعمیر کا حکم دیا گیا تھا اور یہ وہی آمان ہے جسے قرآن نے عربی میں ہامان کے نام سے پکارا ہے۔مزید مستشرقین و ملحدین کہتے ہیں کہ اگر آمون دیوتا کے مذہبی پیشواؤں میں سے ایک یعنی آمانہ کو ہامان تصور کر لیا جائے تو ہامان کا نام مصر کی نئ سلطنت یعنی رعمسس دوم کے زمانے میں Haman-Ra ہونا چاہیے۔ اس پہ ہمارا جواب یہ ہے کہ اگر یہ سوال درست مان لیا جائے تو اج تک قدیم مصر میں ایک بھی ایسی تحریر دریافت کیوں نہیں ہوئی جس میں ہامان کو اس طرح لکھا جائے جب کہ ہیمن ہوٹپ یا ہیمن ہنٹر جیسے قرآن نے عربی میں ہامان کے نام سے پکارا ہے، کی کئ تحریریں دریافت ہوچکی ہیں۔
مزید اگر مصری تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ آمون دیوتا کے سب سے بڑے مذہبی پیشواؤں میں سے دو یعنی بیکنخانسو اور پری ہوٹپ فرعون کی طرف سے تعمیرات کے امیر مقرر تھے لیکن پری ہوٹپ کے نام سے کسی تعمیر کی کوئی تحریری تختی دریافت نہیں ہوئی لہذا غالب امکان یہی ہے کہ ہامان یا آمانہ یا آمان کے لقب سے موجود آمون دیوتا سے منسلک وہ مذہبی پیشوا جسے حضرت موسی علیہ السلام کے رب کے مقابلے کے لیے فرعون نے ایک بلند برج کی تعمیر کا حکم دیا تھا وہ بیکنخانسو تھا۔وہ قدیم مصر کے عظیم ماہرین تعمیرات میں سے ایک تھا جس نے کرناک میں آمون دیوتا کے عظیم معبد کی تعمیر کی نگرانی کی جو کہ قدیم تاریخ کی تعمیر کی جانے والی عظیم ترین مذہبی تعمیر ہے۔لہذا قدیم مصر کے عظیم ماہرین تعمیرات میں سے ایک جو مذہبی اثر و رسوخ بھی رکھتا تھا وہ بیکنخانسو تھا اور ممکن ہے کہ یہی وہ ہامان ہے جس کا تذکرہ قرآن نے کیا ہے اور اسے ہی حضرت موسی علیہ السلام کے رب کے مقابلے کے لیے فرعون کی طرف سے ایک بلند برج کی تعمیر کا حکم دیا گیا تھا کیوں کہ یہی شخص آمون دیوتا کا سب سے بڑا مذہبی پیشوا اور تعمیرات کے ماہرین میں سے تھا جیسا کہ قدیم مصری تحریروں میں وہ خود کہتا ہے
"صرف میں وہ ہوں جو صحیح طور پہ قابل اعتماد ہوں،اپنے آقا یعنی فرعون کے لیے مفید ہوں،میں آمون دیوتا کے معبد کا تعمیراتی سربراہ ہوں اور تعمیرات کا نگران ہوں جس نے رعمسس دوم کے لیے ایسے معبد تعمیر کیے جن کی بلندی آسمانوں تک ہے"۔
بیکنخانسو ستر سال مذہبی پیشوا رہنے کے بعد فرعون رعمسس دوم کے آخری زمانے میں فوت ہوا جس کا مطلب یہ ہے کہ فرعون اور بیکنخانسو دونوں ہم عصر تھے۔
مزید یہ کہ کئی مذہبی پیشوا فرعون کے وزیر رہے۔عین ممکن ہے کہ آمون دیوتا سے منسلک ایک آمانہ یا آمان یا ہامان بھی فرعون کا وزیر تھا اور قدیم مصری تحریروں میں موجود HMN کو تعلیمی گفتگو میں ہیمن کہا جاتا ہے جس کی عربی شکل ہامان ہے جیسا کہ قرآن نے کہا ہے۔یہ سب تعمیرات کا ذمہ دار نہیں تھا بلکہ کچھ خاص تعمیرات جیسا کہ آمون دیوتا سے متعلق کا نگران تھا۔مستشرقین و ملحدین کہتے ہیں کہ لازمی نہیں کہ تعمیرات کا نگران ایک شخص قرآن مجید میں بیان کردہ ہامان ہو۔لیکن ہم نے اوپر اس کی مکمل تفصیل دے دی ہے کہ ہامان ایک بہت بڑا مذہبی پیشوا،فرعون کا بہت قریبی شخص اور تعمیرات کا نگران تھا۔لہذا قرآن کا بیان بالکل درست ہے۔مزید مستشرقین اور ملحدین کہتے ہیں کہ قرآن کے بیان کے مطابق ہامان ایک عذاب کی موت مرا لیکن تحریری تختیوں میں اس کا کوئی ثبوت نہیں۔اس کا جواب یہ ہے کہ تحریری تختیوں میں ہامان کی موت کی کوئی وجہ بیان نہیں کی گئ۔لہذا جب موت کی وجہ ہی بیان نہیں کی گئ تو یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ ہامان عذاب کی موت نہیں مرا۔شہادت کی عدم موجودگی شہادت کی غیر موجودگی نہیں ہوتی۔لہذا مستشرقین و ملحدین کا قرآن پہ یہ اعتراض بھی غلط ہے۔
اب تک کی ساری تفصیل کے بعد ہم قدیم مصر کی تاریخ کا جائزہ لینے کے بعد یہ ثابت کر چکے ہیں کہ قدیم مصری تحریریں اور تاریخ قرآن کے بیان کردہ ہامان کے تاریخی وجود کی حمایت کر تی نظر آتی ہیں لہذا قرآن مجید میں بیان کردہ ہامان تاریخ کی ایک فرضی شخصیت نہیں بلکہ حقیقی شخصیت ہے اور ملحدین جیسا کہ سبط حسن علی عباس جلال پوری کی طرف سے اس کو فرضی شخصیت قرار دینا تاریخی جہالت اور کم علمی کی دلیل ہے اور کچھ نہیں اور ہامان کے حوالے سے قرآن نے جو چودہ سو سال پہلے بیان کیا اج جدید تحقیق اسے درست ثابت کر رہی ہے۔یہ وہ حقائق ہیں جو اج سے چودہ سو سال پہلے کوئی نہیں جانتا تھا لیکن قرآن نے ان کو بیان کیا اور یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ قرآن ایک انسانی تحریر نہیں بلکہ اس کائنات کے علام الغیوب خالق کا عظیم ترین کلام ہے۔
الحمد للہ
ھذا ما عندی۔واللہ اعلم بالصواب
حوالہ جات:
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Ahaneith
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Ahmose_I
http://www.islamportal.net/…/historical-errors-quran-pharao…
www. Islamic awareness.com
قرآن میں بیان کردہ ہامان کے وجود کا تاریخی ثبوت،اس حوالے سے ملحدین کے اعتراضات اور ان کے جوابات
پیشکش: فیس بک گروپ آپریشن ارتقائے فہم و دانش
فیس بک پیج:مذہب،فلسفہ اور سائنس
فیس بک پیج:سائنس،فلسفہ اور اسلام
»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»
قرآن مجید سورہ القصص پارہ 20 میں فرعون کے وزیر ہامان کا اس طرح تذکرہ کیا گیا ہے
وَقَالَ فِرْعَوْنُ يَآ اَيُّـهَا الْمَلَاُ مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ اِلٰـهٍ غَيْـرِيْۚ فَاَوْقِدْ لِـىْ يَا هَامَانُ عَلَى الطِّيْنِ فَاجْعَلْ لِّـىْ صَرْحًا لَّـعَلِّـىٓ اَطَّلِـعُ اِلٰٓى اِلٰـهِ مُوْسٰىۙ وَاِنِّىْ لَاَظُنُّهٝ مِنَ الْكَاذِبِيْنَ (38)
"اور فرعون نے کہا اے سردارو! میں نہیں جانتا کہ میرے سوا تمہارا اور کوئی معبود ہے، پس اے ہامان! تو میرے لیے گارا پکوا پھر میرے لیے ایک بلند محل بنوا کہ میں موسٰی کے خدا کو جھانکوں، اور بے شک میں اسے جھوٹا سمجھتا ہوں۔"
ملحدین کہتے ہیں کہ واقعہ فرعون و موسی علیہ السلام کے حوالے سے قرآن مجید میں بیان کردہ فرعون کے وزیر ہامان تاریخ کی ایک فرضی شخصیت ہے جس کے وجود کا کوئی ثبوت نہیں۔واضح رہے کہ قرآن مجید میں فرعون کے وزیر ہامان کا تفصیلی تذکرہ موجود ہے جس کو فرعون نے حکم دیا تھا کہ وہ حضرت موسی علیہ السلام کے رب کے مقابلے کے لیے ایک بہت اونچی عمارت تعمیر کرے جس پہ چڑھ کر وہ حضرت موسی علیہ السلام کے رب سے جنگ لڑ سکے۔اگر قرآن مجید میں بیان کردہ اس واقعے کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو درج ذیل باتیں سامنے آتی ہیں
1: قرآن کے بیان کے مطابق فرعون اپنے آپ کو خدا کہتا تھا
2:قدیم مصر میں آگ میں پکائی گئی پکی اینٹیں تعمیرات میں استعمال ہوتی تھیں
3:فرعون آسمان کی بلندی پہ جا کر خداؤں سے گفتگو کرنے کی خواہش کرتا تھا
قرآن کے بیان کردہ ان تینوں نکات کا تاریخ میں ثبوت موجود ہے۔
انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کے مطابق قدیم مصر میں فرعون کو حقیقت میں خدا ہی سمجھا جاتا تھا۔اس کے مطابق
"مصری یہ یقین رکھتے تھے کہ فرعون ایک خدا ہے اور وہ آسمانی دیوار ہورس اور سورج دیوتا ری( Re)، آمون اور آتون سے وابستہ ہے۔یہاں تک فرعون کی موت کے بعد بھی اس کو خدا تصور کیا جاتا اور یہ یقین کیا جاتا تھا کہ وہ اوسیرس دیوتا میں تبدیل ہو گیا ہے جو کہ ہورس دیوتا کا باپ اور مردوں کا خدا ہے اور اپنی مقدس طاقت اور مقام نئے فرعون کو منتقل کر دیتا ہے۔"
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مصر کے بعد فرعون کو ہورس دیوتا نہیں بلکہ ہورس دیوتا کا باپ مانا جاتا تھا۔مزید برآں قدیم مصر میں یہ یقین کیا جاتا تھا کہ فرعون کی خدائی حیثیت اسے جادوئی طاقتیں فراہم کرتی ہے۔ان کے خیال میں اس کے تاج پہ بنا ہوا یوریئس یعنی سانپ اس کے دشمنوں پہ شعلے پھینکتا تھا،وہ جنگ کے میدان میں اکیلے ہزاروں انسانوں کو قتل کر سکتا تھا،وہ سب سے زیادہ طاقتور تھا،ہر چیز جانتا تھا، اور فطرت اور بچے پیدا کرنے کی صلاحیت اس کے قابو میں تھی۔اسے دیوتا کے عطا کردہ حکم مات کا محافظ تصور کیا جاتا تھا جب کہ ساتھ میں اسے خود بھی خدا تصور کیا جاتا تھا۔اس کے حکم کے آگے کسی کی مجال نہیں تھی۔نیلسن السٹریٹد بائبل ڈکشنری کے مطابق
"مصری یقین رکھتے تھے کہ فرعون ایک خدا ہے اور آسمانی خداؤں سے رابطے کی چابی ہے۔اسے آسمان کے خداؤں کی طرف سے زمین پہ حکومت کرنے کا اختیار دیا ہے۔اسکا کہا قانون ہے اور وہ ہر چیز کا مالک ہے۔"
ملحدین کہتے ہیں کہ فرعون کے خود کو خدا کہنے کا قرآن کا بیان نعوذ بااللہ یہودی کتاب Midrash Exodus Rabbah سے اخذ کیا گیا ہے۔لیکن یہ دعوی بالکل غلط ہے۔مدراش ربہ کی یہ کتاب ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کے عمل کے تحت اسلام کی آمد کے سینکڑوں سال بعد کی پائی گئی ہے جب کہ قرآن پہلے ہی نازل ہوچکا تھا۔لہذا قرآن پہ یہ اعتراض جھوٹ ہے۔فرعون کے خدائی کے دعوے کا بیان مدراش ربہ کے پہلے حصے سے آتا ہے ۔لیوپولڈ زونز(Leopold ZUnz) کے مطابق مدراش ربہ کے دونوں حصے یعنی ساری مدراش گیارہویں یا بارہویں صدی عیسوی کی ہے جب کہ قرآن اس سے پانچ سو سال پہلے نازل ہوچکا تھا۔ ہر(Hurr) کے مطابق مدراش ربہ کا پہلا حصہ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ قرآن نے اس سے فرعون کے خدائی کے دعوے کا بیان لیا ہے،وہ دسویں صدی عیسوی سے پہلے کا نہیں ہے جب کہ قرآن اس سے چار سو سال پہلے ہی نازل ہوچکا تھا۔
قرآن کے بیان کے مطابق فرعون نے ہامان کو ایک شاندار برج تعمیر کرنے کا حکم دیا تاکہ وہ اس پہ چڑھ کر حضرت موسی علیہ السلام کے خدا کا مقابلہ کر سکے۔قرآن میں اس بات کی کوئی صراحت نہیں ہے کہ اس برج کی تعمیر مکمل ہوئی تھی یا شروع کی گئی تھی۔
قدیم مصر کے شہروں ابیدوز اور مہاسنہ میں بادشاہی اور سے پہلے پکی ہوئی مٹی کی ایک طرح کی لمبی اینٹیں استعمال کی جاتی تھی جس سے واضح ہوتا ہے کہ قدیم مصری گارے کو آگ کے ذریعے پکانے کے عمل سے واقف تھے۔
ماہر قدیم مصریات سر فلنڈرز پیٹری اپنی کتاب Religious Life In Ancient Egypt میں لکھتا ہے
"قدیم مصر میں آسمانوں کے خداؤں کی طرف چڑھنے کی خواہش ایسی سیڑھی سے ظاہر ہوتی تھی جس سے اوپر جایا جا سکے۔"
لہذا فرعون کی طرف سے ہامان کو ایک ایسے برج کی تعمیر کا حکم جس سے آسمان کی طرف جاکر خدا سے مقابلہ کیا جا سکے مصر کی دریافت ہونے والی تاریخ کے عین مطابق ہے۔لیکن ہم یہ بالکل نہیں کہ رہے کہ یہ تصور صرف مصر میں موجود تھا۔ماہر قدیم مصریات آئی ایی ایس ایڈورڈز کے مطابق یہ تصور مصر کے علاوہ قدیم عراق اور اسیریا میں بھی موجود تھا۔لہذا اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قرآن اس زمانے میں موجود مشرق وسطی اور مصر کی روایت کا بالکل درست بیان کر رہا ہے اور اس بیان کا تعلق بائبل میں مذکور برج بیبل یا Tower Of Babel سے نہیں بلکہ یہ قدیم مصر کی ایک حقیقت کا الگ سے بیان ہے۔
ایک کیتھولک عیسائی عالم اور مشنری فادر جیکوئس جومیئر کے مطابق قرآن کا فرعون کی طرف سے ایک برج کی تعمیر کا حکم اہرام مصر کی ایک نشانی ہوسکتا ہے۔کچھ اہرام مصر حقیقت میں بہت بلند تھے۔اگر فرعون ہامان کو ایک ہرم یعنی اہرام مصر میں سے ایک کی تعمیر کا حکم دیتا تو یہ ایسا تھا جیسے فرعون اپنے ہی مقبرے کی تعمیر کا حکم دے رہا ہو کیوں کہ اہرام اس زمانے میں مصری بادشاہوں کے مقبرے کے طور پہ استعمال ہوتے تھے اور اس طرح فرعون اپنے آپ کو فانی تسلیم کرتا جب کہ وہ اپنے آپ کو خدا اور لافانی کہتا تھا۔لہذا قرآن کی آیت کا مطلب اہرام مصر نہیں ہیں۔علاوہ ازیں اہرام مصر میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جس کی تعمیر آگ میں پکائی ہوئی اینٹوں سے کی گئی ہو۔
انسائیکلو پیڈیا آف قرآن میں اے ایچ جانز نے لکھا
"کیا عربی لفظ ہامان مصری لفظ ہا آمن( Ha-amen) کی عربی شکل ہے جو کہ قدیم مصر میں سب سے بڑے مذہبی پیشوا کے لیے استمعال ہوتا تھا اور قدیم مصر میں فرعون کے بعد سب سے بڑے مرتبے پہ فائز تھا۔"
مغربی اہل علم قرآن مجید میں بیان کردہ ہامان کو ایک شخصی نام سمجھتے ہیں نہ کہ ایک لقب کیونکہ ان کے خیال میں نعوذ بااللہ قرآن نے یہ نام بائبل میں مذکور ہامان سے لیا ہے۔اس اعتراض کا تفصیلی جواب ہم ان شاء اللہ اگلی پوسٹ میں دیں گے۔ہماری نظر میں قرآن مجید میں بیان کردہ ہامان ایک شخص کا نام نہیں بلکہ ایک شخص کا لقب تھا جسے فرعون نے حضرت موسی علیہ السلام کے رب مقابلے کے لیے ایک بہت بلند برج کی تعمیر کا حکم دیا تھا۔ہماری اس بات کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ قدیم مصر میں فرعون بھی مصر کے بادشاہ کا ایک لقب تھا۔لہذا ہوسکتا ہے کہ فرعون کے وزیر کو ہامان کہا جاتا ہو۔
قدیم مصری زبان میں قرآن مجید میں بیان کردہ ہامان کا قریبی ترین تعلق حروف صحیح کی صوتی شکل میں ہیمن( HMN) سے بنتا ہے۔لیکن اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ الفاظ کا صوتی اور تلفظ کا استعمال قدیم مصری اور عربی میں ایک ہے۔لیکن جو بات اس کے خلاف ہے وہ یہ ہے کہ قدیم مصری زبان جو کہ اب ایک مردہ زبان ہے،اس پہ ابھی مزید تحقیق جاری ہے اور مصری زبان کے کچھ الفاظ ایسے ہیں جن کو قرآن نے واضح مصری انداز کی بجائے ان کی عربی شکل میں بیان کیا ہے جیسا کہ فرعون کا لفظ۔قدیم مصری لسانیات کی جدید اور مفصل کتاب Der Ägyptischen Götter Und Götterbezeichnungen, an encyclopaedia of ancient Egyptian deities and the theophoric names associated with them اس پہ مزید روشنی ڈالتی ہے۔اس کے مطابق لقب کے درجے میں hm-ntr یعنی ہیمینٹر یا ہامانٹر کے لیے استمعال ہوتا ہے جسکا معنی قدیم مصری زبان میں خدا کا غلام ہے۔اس میں hm کا معنی غلام اور ntr کا معنی خدا ہے۔دوسرے لفظوں میں ہیمنٹر یا ہامانٹر ایک مرد قدیم مصر میں ایک مذہبی پیشوا تھا جب کہ hmt-ntr ایک خاتون مذہبی پیشوا تھی۔اس کا مطلب ہے کہ قدیم مصر میں HMN یا ہیمن کا لفظ ایک ایسے مذہبی پیشوا کے لیے استمعال ہوتا تھا جو معبد میں ہیمن دیوتا سے منسلک تھا۔ہیمن دیوتا مصر میں ایک چھوٹا دیوتا تھا اور اس طرح اس سے منسلک مذہبی پیشوا ہیمن بھی کوئی بڑی حیثیت کا نہیں ہوگا جب کہ قرآن مجید میں بیان کردہ ہامان ایک اعلی مرتبے پہ فائز تھا لیکن پھر بھی ممکن ہے کہ یہ وہی ہامان ہو۔لیکن اس سے ہمیں اس بات کا واضح ثبوت مل رہا ہے کہ قدیم مصر میں مذہبی پیشوا کا لقب اس کے دیوتا کے نام پہ ہوسکتا تھا۔ ہیمن یا ہامان یا HMN کے حوالے سے رینکے( Ranke) کی مشہور کتاب Die Ägyptischen Personennamen کی تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ قدیم مصری دیوتا ہیمن یا ہامان کے ساتھ منسلک ناموں میں سے ایک یعنی HMN-h قدیم مصر کی نئی سلطنت کے زمانے یا New Kingdom Period سے آتا ہے۔کے کے ہاف میوزیم ویانا میں پہلا شخص جس نے ایک قدیم مصری دروازے کی چوکھٹ پہ کندہ لفظ hmn-h 1865 ء میں شائع کیا وہ رینش( Reinisch) تھا۔اسے بعد میں والٹر واریسزنسکی نے پھر شائع کیا۔
ہامان کا لفظ حقیقت میں قدیم مصری تختیوں میں مذکور تھا۔یہ ایک یادگار میں مذکور تھا جو اب ہاف میوزیم ویانا میں موجود ہے جس میں فرعون سے ہامان کی قربت واضح کی گئی تھی(Walter Wreszinski, Ägyptische Inschriften aus dem K.K. Hof Museum in Wien, 1906, J. C. Hinrichs' sche Buchhandlung)۔اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ فرعون کے ایک مشیر کا نام ہامان تھا اور قرآن کا ہامان کا بیان بالکل درست ہے۔ hmn-h سے ہیمن یا ہامان کا معنی کچھ لوگ بیشک ہامان نہ لیں لیکن قدیم مصری تاریخ ثابت کر چکی ہے کہ اس نام کا ایک اعلی مرتبے کا فرد قدیم مصر میں موجود تھا اور قرآن کا بیان بالکل درست ہے۔
رینکے کے مطابق قدیم مصری زبان کی دریافت ہونے والے علاماتی تحریریں یا Hieroglyphics کے لیے ? Hmn-h کا لفظ استعمال کیا ہے جس کے مطابق یہ نام کسی دوسرے نام کا مخفف ہوسکتا ہے اگرچہ اس پہ اس کو مکمل یقین نہیں ہے۔ایک بات جو یقینی ہے وہ یہ ہے کہ رینکے یہ نہیں کہتا کہ ہامان کے مصری نام hmn-h میں آخری ایچ حذف کر دیا جائے۔اس کے مطابق یہ ایک بڑے نام یعنی ہیمن ہوتپ( Hemen-hotep) یعنی خدا کا مخفف ہے جس کا مطلب ہے کہ ہیمن ہوتپ مہربان ہے۔یہ بات ظاہر کر رہی ہے کہ ہامان کا نام قدیم مصر میں ایک دیوتا یا اس سے منسلک مذہبی پیشوا کے لیے استمعال ہوتا تھا اور ان ہامان میں سے ایک وہ ہامان ہے جس کا ذکر قرآن نے کیا ہے۔دوسرا امکان یہ ہے کہ ہامان دیوتا کا مذہبی پیشوا بھی جس کو ہامان کہا جاتا تھا،خود ایک چھوٹا خدا سمجھا جاتا تھا اور اس کی تعریف اسے مہربان کہ کر کی گئ ہے۔
بیکنخانسو( Bakenkhonsu) یعنی خانسو کا غلام فرعون موسی علیہ السلام یعنی رعمسس دوم کے زمانے میں قدیم مصری دیوتا آمون کا سب سے بڑا مذہبی پیشوا تھا۔خانسو قدیم مصر میں آمون کا بیٹا اور چاند دیوتا تھا۔ اہانیتھ ( Ahaneth) ایک قدیم مصری خاتون تھی جو مصر کی پہلی سلطنت کے زمانے میں زندہ تھی۔اس کا نام ایک دیوی نیتھ کے نام پہ رکھا گیا تھا۔قدیم مصری فرعون اہموز کا نام دیوتائی نام Ah اور موز کا مرکب ہے۔لہذا قدیم مصر میں یہ عام رواج تھا کہ بچوں کے نام دیوی دیوتاؤں کے نام پہ رکھے جاتے تھے۔لہذا اگرچہ دریافت ہونے والی قدیم مصری علاماتی تحریریں hmn-h یا ہیمن ایچ کو ایک شخص کی بجائے ایک دیوتا ظاہر کریں لیکن اس دیوتا کے نام سے موجود قرآن مجید میں بیان کردہ ہامان کا انکار بالکل نہیں کہا جا سکتا۔
مزید برآں قدیم مصر میں فرعون موسی رعمسس دوم کے زمانے میں مصری دیوتا آمون جسے مصری زبان میں AMN کہا جاتا ہے دیوتاؤں میں سب سے اعلی مرتبے کا سمجھا جاتا تھا اور اس کا ا یک عظیم معبد کرناک میں تھا۔یہ ممکن ہے کہ اس کے سب سے بڑے مذہبی پیشوا کا نام اس کے نام پہ ہو اور اس بات کی قدیم مصری لسانیات کی کتاب Lexikon Der Ägyptischen Götter Und Götterbezeichnungen تائید کرتی ہے۔اس کے مطابق یہ لفظ کئی طرح جیسا کہ مختلف درجے کے مذہبی پیشواؤں سے لے کر اعلی درجے کے مذہبی پیشواؤں جیسا کہ ہیمن ہوٹپ یا ہیمن ہنٹر یا ہامان کے لیے استمعال ہوتا تھا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ لفظ ایک ماہر تعمیرات، ایک مجسمہ ساز اور ایک موسیقار کے لیے بھی استعمال ہوتا تھا۔یہ مختلف قسم کے لوگ قدیم مصری دیوتا آمون کے معبد سے تعمیرات اور تعریفی نظمیں پڑھنے کے لیے منسلک ہوں گے۔مثال کے طور پہ Amun vom Ramessum جو کہ رعمسس دوم کا گوری معبد تھا، ایک سب سے بڑے مذہبی پیشوا یعنی Run hmt-ntr-tpy-priester یا ہیمن ہنٹر یا ہامان اور معبد کے نگران کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آمون کا لقب نہ صرف مذہبی پیشواؤں بلکہ تعمیرات سے منسلک لوگوں کے لیے بھی استعمال ہوتا تھا۔لہذا قرآن کا بیان بالکل درست ہے کہ آمون یا ہامان دیوتا سے منسلک ہامان کے لقب کا ایک شخص مذہبی پیشوا اور تعمیرات کا ماہر تھا جسے فرعون نے حضرت موسی علیہ السلام کے رب کے مقابلے کے لیے ایک بلند برج کی تعمیر کا حکم دیا تھا۔
اب سوال یہ ہے کہ کہ کیا آمون کسی طرح لفظ ہامان سے کوئی تعلق رکھتا ہے ؟ اس کے لئے ہمیں صوتیات یعنی Phonology اور اس کے تلفظ کی تفصیل میں جانا پڑے گا۔آمون یا آمانہ کا لفظ قدیم مصر میں آمون دیوتا سے منسلک سب سے بڑے مذہبی پیشوا اور تعمیرات سے منسلک شخص کے لیے بھی ہوتا تھا لہذا یہ بات عین ممکن ہے کہ ہامان آمون دیوتا سے منسلک سب سے بڑے مذہبی پیشوا اور تعمیرات کے ماہر شخص کے لقب آمانہ( Amana) کی عربی شکل ہے جیسا کہ فرعون قدیم مصری زبان کے لفظ فرعا یا Per-Aa کی عربی شکل ہے جو کہ قدیم مصر کے بادشاہ کا لقب تھا۔
اب ہم اس کے کچھ لسانیاتی پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں۔قدیم مصری لفظ آمون دریافت ہونے والی قدیم مصری تختیوں میں آمانہ کے نام سے بھی لکھا گیا ہے جس میں ابتدائی الف ساکت تھا یعنی اسے مانہ کہا جاتا تھا۔اب اگر ہم عربی زبان کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ عربی میں ح،خ،ث،ص،ش،و،ف اور ہ بغیر آواز کے frictive ہیں۔ان میں سے صرف ح اور ہ قدیم مصری I سے صوتیات میں قریب ترین ہیں۔عربی کا ح یا h ایک بلا آواز صوتی لفظ یا Voiceless Frictive ہے اور یہی چیز قدیم مصری زبان میں بھی موجود ہے۔اب ہمارے پاس ہ بچ گیا ہے۔قدیم مصری لفظ آمانہ کو عربی میں لکھنے کے لیے ء استعمال نہیں ہوسکتا کیوں کہ عربی میں یہ بھی بلا آواز صوتی حرف ہے جب کہ دوسری طرف حرف الف ایک لمبا حرف علت ہے۔اس طرح نہ ہی ہمزہ یعنی ء اور نہ ہی الف ایک ایسی عربی صوتی شکل پہ پورا اترتے ہیں جو مصری لفظ I کو عربی میں لکھنے کے لیے استمعال ہوسکے لہذا قدیم مصری لفظ IMN یا آمانہ عربی میں قرآن نے ہامان کے نام سے بیان کیا۔لہذا قدیم مصری زبان اور تاریخ قرآن کی طرف سے ہامان کے بیان کو بالکل درست ثابت کر رہی ہیں۔
عیسائی مستشرقین و ملحدین کہتے ھیں کہ قدیم مصری دیوتا آمون کے سب سے بڑے مذہبی پیشوا مصر میں سب سے زیادہ طاقتور 1080 سے 943 قبل مسیح کے درمیان رہے جب کہ فرعون موسی رعمسس دوم کا زمانہ 1279 سے 1213 قبل مسیح کا ہے اور ان میں سے کسی کا نام ہامان نہیں تھا۔اس کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ مصری قدیم مذہبی پیشوا زیادہ طاقتور اور یہاں تک کہ الگ حکمران کے طور پہ مصر میں بعد میں طاقتور رہے لیکن بذات خود فرعون موسی رعمسس دوم کے زمانے میں وہ اتنے اعلی مرتبے پہ فائز تھے کہ ان میں سے ایک یعنی ہامان کو ان سے زیادہ طاقتور یعنی فرعون کی طرف سے حضرت موسی علیہ السلام کے رب کے مقابلے کے لیے ایک بلند برج کی تعمیر کا حکم دیا گیا تھا لہذا حکم کی تعمیل ذاتی عروج کی بجائے فرعون کے عروج کی پابند تھی اور اس وقت فرعون مصر ان مذہبی پیشواؤں سے زیادہ طاقتور تھا۔
لہذا تاریخ ثابت کر چکی ہے کہ قرآن مجید میں بیان کردہ ہامان بائبل سے لیا گیا فارسی یا ایرانی ہامان نہیں بلکہ قدیم مصر کی ایک حقیقی اور تاریخی شخصیت تھا۔مستشرقین و ملحدین کہتے ہیں کہ مصر میں ایک ہی وقت میں کتنے ہامان موجود تھے اور ان میں سے کونسا ہامان قرآن مجید میں بیان کردہ ہامان تھا۔اس کا جواب یہ ہے کہ قدیم مصری دیوتا آمون کے ساتھ منسلک لوگ کئی تھے جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا لیکن ان میں سے ایک جس کا تعلق فرعون سے زیادہ قریبی تھا اسے فرعون کی طرف سے ایک بلند برج کی تعمیر کا حکم دیا گیا تھا اور یہ وہی آمان ہے جسے قرآن نے عربی میں ہامان کے نام سے پکارا ہے۔مزید مستشرقین و ملحدین کہتے ہیں کہ اگر آمون دیوتا کے مذہبی پیشواؤں میں سے ایک یعنی آمانہ کو ہامان تصور کر لیا جائے تو ہامان کا نام مصر کی نئ سلطنت یعنی رعمسس دوم کے زمانے میں Haman-Ra ہونا چاہیے۔ اس پہ ہمارا جواب یہ ہے کہ اگر یہ سوال درست مان لیا جائے تو اج تک قدیم مصر میں ایک بھی ایسی تحریر دریافت کیوں نہیں ہوئی جس میں ہامان کو اس طرح لکھا جائے جب کہ ہیمن ہوٹپ یا ہیمن ہنٹر جیسے قرآن نے عربی میں ہامان کے نام سے پکارا ہے، کی کئ تحریریں دریافت ہوچکی ہیں۔
مزید اگر مصری تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ آمون دیوتا کے سب سے بڑے مذہبی پیشواؤں میں سے دو یعنی بیکنخانسو اور پری ہوٹپ فرعون کی طرف سے تعمیرات کے امیر مقرر تھے لیکن پری ہوٹپ کے نام سے کسی تعمیر کی کوئی تحریری تختی دریافت نہیں ہوئی لہذا غالب امکان یہی ہے کہ ہامان یا آمانہ یا آمان کے لقب سے موجود آمون دیوتا سے منسلک وہ مذہبی پیشوا جسے حضرت موسی علیہ السلام کے رب کے مقابلے کے لیے فرعون نے ایک بلند برج کی تعمیر کا حکم دیا تھا وہ بیکنخانسو تھا۔وہ قدیم مصر کے عظیم ماہرین تعمیرات میں سے ایک تھا جس نے کرناک میں آمون دیوتا کے عظیم معبد کی تعمیر کی نگرانی کی جو کہ قدیم تاریخ کی تعمیر کی جانے والی عظیم ترین مذہبی تعمیر ہے۔لہذا قدیم مصر کے عظیم ماہرین تعمیرات میں سے ایک جو مذہبی اثر و رسوخ بھی رکھتا تھا وہ بیکنخانسو تھا اور ممکن ہے کہ یہی وہ ہامان ہے جس کا تذکرہ قرآن نے کیا ہے اور اسے ہی حضرت موسی علیہ السلام کے رب کے مقابلے کے لیے فرعون کی طرف سے ایک بلند برج کی تعمیر کا حکم دیا گیا تھا کیوں کہ یہی شخص آمون دیوتا کا سب سے بڑا مذہبی پیشوا اور تعمیرات کے ماہرین میں سے تھا جیسا کہ قدیم مصری تحریروں میں وہ خود کہتا ہے
"صرف میں وہ ہوں جو صحیح طور پہ قابل اعتماد ہوں،اپنے آقا یعنی فرعون کے لیے مفید ہوں،میں آمون دیوتا کے معبد کا تعمیراتی سربراہ ہوں اور تعمیرات کا نگران ہوں جس نے رعمسس دوم کے لیے ایسے معبد تعمیر کیے جن کی بلندی آسمانوں تک ہے"۔
بیکنخانسو ستر سال مذہبی پیشوا رہنے کے بعد فرعون رعمسس دوم کے آخری زمانے میں فوت ہوا جس کا مطلب یہ ہے کہ فرعون اور بیکنخانسو دونوں ہم عصر تھے۔
مزید یہ کہ کئی مذہبی پیشوا فرعون کے وزیر رہے۔عین ممکن ہے کہ آمون دیوتا سے منسلک ایک آمانہ یا آمان یا ہامان بھی فرعون کا وزیر تھا اور قدیم مصری تحریروں میں موجود HMN کو تعلیمی گفتگو میں ہیمن کہا جاتا ہے جس کی عربی شکل ہامان ہے جیسا کہ قرآن نے کہا ہے۔یہ سب تعمیرات کا ذمہ دار نہیں تھا بلکہ کچھ خاص تعمیرات جیسا کہ آمون دیوتا سے متعلق کا نگران تھا۔مستشرقین و ملحدین کہتے ہیں کہ لازمی نہیں کہ تعمیرات کا نگران ایک شخص قرآن مجید میں بیان کردہ ہامان ہو۔لیکن ہم نے اوپر اس کی مکمل تفصیل دے دی ہے کہ ہامان ایک بہت بڑا مذہبی پیشوا،فرعون کا بہت قریبی شخص اور تعمیرات کا نگران تھا۔لہذا قرآن کا بیان بالکل درست ہے۔مزید مستشرقین اور ملحدین کہتے ہیں کہ قرآن کے بیان کے مطابق ہامان ایک عذاب کی موت مرا لیکن تحریری تختیوں میں اس کا کوئی ثبوت نہیں۔اس کا جواب یہ ہے کہ تحریری تختیوں میں ہامان کی موت کی کوئی وجہ بیان نہیں کی گئ۔لہذا جب موت کی وجہ ہی بیان نہیں کی گئ تو یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ ہامان عذاب کی موت نہیں مرا۔شہادت کی عدم موجودگی شہادت کی غیر موجودگی نہیں ہوتی۔لہذا مستشرقین و ملحدین کا قرآن پہ یہ اعتراض بھی غلط ہے۔
اب تک کی ساری تفصیل کے بعد ہم قدیم مصر کی تاریخ کا جائزہ لینے کے بعد یہ ثابت کر چکے ہیں کہ قدیم مصری تحریریں اور تاریخ قرآن کے بیان کردہ ہامان کے تاریخی وجود کی حمایت کر تی نظر آتی ہیں لہذا قرآن مجید میں بیان کردہ ہامان تاریخ کی ایک فرضی شخصیت نہیں بلکہ حقیقی شخصیت ہے اور ملحدین جیسا کہ سبط حسن علی عباس جلال پوری کی طرف سے اس کو فرضی شخصیت قرار دینا تاریخی جہالت اور کم علمی کی دلیل ہے اور کچھ نہیں اور ہامان کے حوالے سے قرآن نے جو چودہ سو سال پہلے بیان کیا اج جدید تحقیق اسے درست ثابت کر رہی ہے۔یہ وہ حقائق ہیں جو اج سے چودہ سو سال پہلے کوئی نہیں جانتا تھا لیکن قرآن نے ان کو بیان کیا اور یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ قرآن ایک انسانی تحریر نہیں بلکہ اس کائنات کے علام الغیوب خالق کا عظیم ترین کلام ہے۔
الحمد للہ
ھذا ما عندی۔واللہ اعلم بالصواب
حوالہ جات:
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Ahaneith
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Ahmose_I
http://www.islamportal.net/…/historical-errors-quran-pharao…
www. Islamic awareness.com
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔