ملحدین و مستشرقین کے قرآن مجید پر اعتراضات اور ان کے جوابات
(حصہ چہارم)
سمتھ اپنی کتابMuhammad And Islam میں لکھتا ہے
"میں ببانگِ دہل دعوی کرتا ہوں کہ ایک دن عیسائیت کے سچے اصول اس بات کی گواہی دیں گے کہ قرآن اللٰہ تعالٰی کی کتاب ہے۔ایک رسمی تعلیم نہ رکھنے والے شخص یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا نے چناتاکہ وہ انسانیت کی طرف قرآن جیسی کتاب لائیں،ایسی کتاب جس نے تاریخ میں اپنے سے ہزاروں کتابیں اور مقالے پیدا کرائے،اس نے دنیا بھر کے کتب خانوں کو اپنے علوم سے نکلنے والی کتابوں سے بھر دیا اور بنی نوعِ انسان کے سامنے قوانین اور فلسفیانہ اور تعلیمی،دانشورانہ اور نظریاتی نظام پیش کیا۔محمد۔۔صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔ایک ایسے ماحول میں جوان ہوئے جہاں تہذیب و علم کا کوئ نشان نہیں تھا۔پورے مدینہ میں صرف گیارہ لوگ تھے جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے اور مکہ میں قریش کی تمام شاخوں میں سترہ سے زیادہ افراد پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے۔قرآن کی تعلیمات جو کہ پہلی وحی میں علم و قلم کو بیان کرتی ہیں،عرب میں ایک زبردست تبدیلی لائیں۔اسلام نے علم کے حصول کو مذہبی فریضہ قرار دیا اور کتاب و عالم کے قلم کی سیاہ لکھائ کو شہید کے سرخ خون سے زیادہ افضل قرار دیا۔قرآن کی تعلیمات اور اس کے علم کی ترویج پر پھیلاؤ کا شکریہ کہ اس نے کئ ایسے اہل علم افراد پیدا کیے جہنوں نے بیشمار کتابیں لکھی۔کئ سائنسی تحقیقات قرآن سے اخذ کی گئ اور پوری اسلامی دنیا کے دانشوروں میں پھیل گئیں۔دنیا قرآن کے الفاظ اور اسلام کی ثقافت سے منور ہوگئ۔"
قرآن کے قدیم ترین نسخے جیسا کہ یورپ میں فرانس کےBibliotheque Nationale میں پیرس میں موجود نسخے جو کہ ماہرین کے مطابق نوین اور دسویں صدی عیسوی کے ہیں،وہ موجودہ قرآن سے مطابقت رکھتے ہیں۔
کچھ غیر مسلم و ملحدین یہ اعتراض کرتے ہیں کہ عراق و مصر میں کچھ مساجد مکمل قبلے کی امت میں نہیں تھیں۔اس کا جواب یہ ہے کہ اس زمانے میں سمت معلوم کرنے کے طریقے اتنے ترقی یافتہ نہیں تھے۔جیسے جیسے سمت معلوم کرنے کے طریقوں نے ترقی کی،ان مساجد کے سمت قبلہ میں درستی لائ گئ۔ان کا اور اعتراض یہ ہے کہ بیت المقدس میں قبۃ الصخرہ جو واقعہ معراج کی یادگار میں بنایا گیا اس پر معراج کی آیات کندہ کیوں نہیں تھیں۔اس اعتراض کا جواب بہت سادہ ہے کہ کیا صرف معراج کی آیات قبۃ الصخرہ پر کندہ نہ کرنے سے قرآن میں موجود معراج کی آیات کا انکار نہیں ہوجائے گا۔اگر عراق و شام کی کچھ قدیم مساجد کا قبلہ چند ڈگری یا درجے کعبہ سے مختلف ہے تو یہ محض سمت کی غلطی تھی کیونکہ اس زمانے میں سمت معلوم کرنے کے طریقے اتنے ترقی یافتہ نہیں تھے مثلا یہ مساجد کعبہ کی سمت سے محض تیس سے چالیس ڈگری مختلف تھیں جو کہ اتنا زیادہ فرق نہیں اور سمت معلوم کرنے کے اس زمانے کے غیر ترقی یافتہ طریقوں میں اتنی غلطی ممکن تھی جو یہاں تک کہ آج بھی کچھ مساجد کی تعمیر میں ہو جاتی ہے۔جب سمت معلوم کرنے والے طریقوں نے ترقی کی تو ان مساجد کی سمت میں موجود غلطی کی اصلاح کر دی گئ۔اس مقصد کے لیے ملحدین و مستشرقین جس جیکب آف ایڈیسا کا حوالہ دیتے ہیں،وہ خود لکھتا ہے کہ مصری عرب 705میں کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے۔سمت میں تھوڑی سی کمی بیشی آج بھی مساجد کی تعمیر میں واقع ہوتی ہے۔اگر مسلمانوں کا مکہ کے علاوہ شمالی عرب میں کوئ اور کعبہ ہوتا تو اسے مورخین لازمی ڈھونڈ لاتے۔محض سمت کے تھوڑے سے فرق سے،جو اس زمانے میں لازمی تھا،کعبہ کو مکہ کی بجائے شمالی عرب میں قرار دینا انتہائ غیر منطقی ہے۔اس طرح سمتوں کے فرق سے خواہ وہ کسی شخص کی طرف سے اتفاقی یا حادثاتی ہو،قرآن کو غلط قرار دینا بالکل غلط ہے کیونکہ قرآن نے کعبہ کو ہی قبلہ کے طور پہ منتخب کر دیا ہے۔اب کوئ یہ کعبہ تسلیم کرے یا نہ کرے،اس سے قرآن غلط نہیں ہوگا بلکہ اس شخص کا عمل غلط ہوگا۔جب کہ وہ لوگ حج کے لیے مکہ مکرمہ ہی جاتے تھے اور حج کے لیے مکہ مکرمہ جانے کا مطلب یہی ہے کہ ان کے نشدیک قبلہ مکہ ہی تھا نہ کہ کوئ اور مقام۔ورنہ وہ لوگ اس دوسرے مقام کے حج کو جاتے۔
غیر مسلم و ملحد قبۃ الصخرہ کے بارے میں یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس پر کندہ کی گئ اسلامی تحاریر قرآنی اقوال ہیں جو کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی نبوت کی تصدیق،حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی وحی اور اسلام و مسلمان کی اصطلاح بیان کرتی ہیں لیکن ان پر معراج کی آیات کا تذکرہ نہیں۔اس کا جواب یہ ہے کہ اس قبۃ الصخرہ پر صرف معراج کی آیات کندہ نہ کرنے سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ اس جگہ کا تعلق معراج سے نہیں ہے جبکہ قرآن پارہ پندرہ سورہ بنی اسرائیل میں واضح طور پر معراج کا تذکرہ کر چکا ہے۔اب کوئ یہ آیات قبۃ الصخرہ پر کندہ کرے یا نہ کرے،اس کا معراج کے واقعے کے سچا ہونے سے کوئ تعلق نہیں اور نہ ہی واقعہ معراج کی سچائ کے لیے ان آیات کا قبۃ الصخرہ پر کندہ ہونا ضروری تھا۔اس زمانے کی مساجد کی سمت میں ہونے والی کچھ غلطی سے یہ کہنا غلط ہے کہ آٹھویں صدی کے اوائل تک مسلمان اپنا قبلہ بیت المقدس کو مانتے تھے جب کہ ان کی مساجد کا رخ بیت المقدس کی بجائے کعبہ کی طرف تھا،یہ اور بات ہے کہ سمت معلوم کرنے کے طریقے ترقی یافتہ نہ ہونے کی وجہ سے سمت مینء تھوڑا فرق نہیں پہ پڑگیا تھا جو کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی پڑ جاتا ہے۔
اس کے علاوہ غیر مسلمین و ملحدین کی طرف سے یہودا نیوو جو کہ ہربریو یونیورسٹی آف یروشلم،اسرائیل کا پروفیسر تھا،کی شام و اردن کے کچھ صحراؤں میں چٹانوں پر کندہ کی گئ عربی تحاریر پر تحقیق سے متعلق ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ ابتدائی تحاریر میں یونانی و عربی تحاریر میں ایل خدا پہ ایمان رکھنے والے مذہب کا پتہ چلتا ہے لیکن اس میں قرآن و محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ موجود نہیں اور یہ کئ سال بعد کی تحاریر میں آتا ہے۔اس کا جواب یہ ہے کہ ان علاقوں میں اسلام آہستہ آہستہ پھیلا اور جوں جوں مقامی آبادی مسلمان ہوتی گئ ویسے ویسے عربی ق مقامی تحاریر میں اسلام و محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نمایاں ہوتا گیا۔محض چند چٹانوں کی تحاریر سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس زمانے تک نمایاں شخصیت نہیں تھی اور اسلام ایک دوسرے وحدانیت کے قائل مذہب سے اخذ کیا گیا،بالکل غلط ہے کیونکہ ایک تو یہ تحاریر مقامی عربی و یونانی ہیں اور ان کا زمانہ 650ء کے بعد کا ہے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی 610ء کے لگ بھگ یعنی ان تحاریر سے چالیس سال پہلے نازل ہوچکی تھی،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات 632ء یا 634ء میں قرآن مکمل ہوچکا تھا جب کہ یہ تحاریر بعد کی ہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ یہ تحاریر ان علاقوں میں تب نظر آتی ہیں جب اسکام نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں وہاں غلبہ حاصل کیا،لہذا یہ بات سچ ہے کہ یہ تحاریر بذات خود اسلام سے اخذ کی گئ نہ کہ اسلام ان تحاریر سے اور جوں جوں اس علاقے میں اسلام کا اثر زیادہ ہوتا گیا،ان تحاریر میں قرآن و محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ نمایاں ہوتا گیا۔لہذا یہ کہنا غلط ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پہلے عالمگیر شخصیت نہیں تھے،ان کو راتوں رات یہ مقام کچھ مسلم حکمرانوں نے دیا۔
اس بارے میں دوسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ قبۃ الصخرہ پر کندہ عربی تحاریر قرآن سے مطابقت نہیں رکھتی اور نعوذ بااللہ قرآن تبدیل ہوگیا۔اس کا جواب یہ ہے کہ یہ سب تحاریر قران کا حصہ ہیں ہی نہیں۔ان میں عربی اقوال و اذکار بھی کندہ ہیں اور اس ساری تحریر کو قرآن قرار دے کے قرآن کو تبدیل شدہ قرار دینا غلط ہے۔قبۃ الصخرہ پر جو عربی تحاریر کندہ ہیں ان کا ترجمہ یہ بنتا ہے
S In the name of God, the Merciful the Compassionate. There is no god but God. He is One. He has
no associate. Unto Him belongeth sovereignity and unto Him belongeth praise. He quickeneth and He giveth death; and He has
Power over all things. Muḥammad is the servant of God and His Messenger.
SE Lo! God and His angels shower blessings on the Prophet.
O ye who believe! Ask blessings on him and salute him with a worthy salutation. The blessing of God be on him and peace be
on him, and may God have mercy. O People of the Book! Do not exaggerate in your religion
E nor utter aught concerning God save the truth. The Messiah, Jesus son of
Mary, was only a Messenger of God, and His Word which He conveyed unto Mary, and a spirit
from Him. So believe in God and His messengers, and say not 'Three' - Cease! (it is)
NE better for you! - God is only One God. Far be it removed from His transcendent majesty that He should have a son. His is all that is
in the heavens and all that is in the earth. And God is
sufficient as Defender. The Messiah will never scorn to be a
N servant unto God, nor will the favoured angels. Whoso scorneth
His service and is proud, all such will He assemble unto Him.
Oh God, bless Your Messenger and Your servant Jesus
NW son of Mary. Peace be on him the day he was born, and the day he dies,
and the day he shall be raised alive! Such was Jesus, son of Mary, (this is) a statement of
the truth concerning which they doubt. It befitteth not (the Majesty of) God that He should take unto Himself a son. Glory be to Him!
W When He decreeth a thing, He saith unto it only: Be! and it is.
Lo! God is my Lord and your Lord. So serve Him. That is the right path. God (Himself) is witness that there is no God
save Him. And the angels and the men of learning (too are witness). Maintaining His creation in justice, there is no God save Him,
SW the Almighty, the Wise. Lo! religion with God (is) Islam. Those who (formerly) received the Book
differed only after knowledge came unto them, through transgression among themselves. Whoso
disbelieveth the revelations of God (will find that) Lo! God is swift at reckoning!
In the name of God, the Merciful the Compassionate. There is no god but God. He is One. He has no
associate. Say: He is God, the One! God, the eternally Besought of all! He begetteth not nor was begotten. And there
is none comparable unto Him. Muḥammad is the Messenger of God, the blessing of God be on him.
SW In the name of God, the Merciful the Compassionate. There is no god but God.
He is One. He has no associate. Muḥammad is the Messenger of God.
Lo! God and His angels shower blessings on the Prophet.
W O ye who believe! Ask blessings on him and salute him with a
worthy salutation. In the name of God, the Merciful
the Compassionate. There is no god but God. He is One. Praise be to
NW God, Who hath not taken unto Himself a son, and Who hath
no partner in the Sovereignty, nor hath He any protecting friend
through dependence. And magnify Him with all magnificence. Muḥammad is the Messenger of
N God, the blessing of God be on him and the angels and His prophets, and peace be
on him, and may God have mercy. In the name of God, the Merciful
the Compassionate. There is no god but God. He is One. He has no associate.
NE Unto Him belongeth sovereignty and unto Him belongeth praise. He quickeneth. And He giveth death; and He has
Power over all things. Muḥammad is the Messenger of God, the blessing of God be
on him. May He accept his intercession on the Day of Judgment on behalf of his people.
E In the name of God, the Merciful the Compassionate. There is no god but God. He is One.
He has no associate. Muḥammad is the Messenger of God, the blessing of God be
on him. The dome was built by servant of God ʿAbd
SE [Allah the Imam al-Ma'mun, Commander] of the Faithful, in the year two and seventy. May God accept from him and be content
with him. Amen, Lord of the worlds, praise be to God.
ظاہر ہے یہ سب الفاظ قرآن کے نہیں بلکہ عربی اقوال اور قرآن سے اخذ کردہ عربی تحاریر پر مشتمل ہیں جو کہ قرآن سے اخذ لیکن قرآن نہیں جب کہ کچھ تحریر خاص قرآنی الفاظ بھی ہیں۔اب جو کچھ غیر قرآنی تحاریر ہیں،ان کی بنیاد پہ یہ کہنا کہ قرآن غلط ہوگیا،بالکل غیر منطقی ہے۔قرآن جس کے طرز تحریر پر حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے پوری امت کو جمع کیا،اس کے نسخے استنبول اور تاشقند یعنی ازبکستان میں موجود ہیں جو کہ سن تحاریر سے بھی پہلے کے ہیں اور ان قدیم قرآنی نسخوں کا موجودہ قرآن سے موازنہ ثابت کرتا ہے کہ قرآن جو ہمارے پاس ہے وہی ہے جس کے طرز تحریر پہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے پوری امت مسلمہ کو جمع کیا۔
قرآن خالص اللٰہ تعالٰی کا کلام ہے اور یہ کسی دوسرے انسان یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریر نہیں۔اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ قرآن کا اسلوب حدیث سے مختلف ہے۔اگر قرآن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریر ہوتا تو دونوں کے انداز میں کوئ نہ کوئ مشابہت لازمی نظر آتی۔غیر مسلم و ملحدین کو یہ بات نوٹ کرنی چاہیے کہ قرآن ہی واحد کتاب ہے جو آج تک زبانی و تحریری طور پر لگاتار نسل در نسل منتقل ہوتا آرہا ہے۔یہ اعزاز کسی اور کتاب کو حاصل نہیں۔صرف دمشق میں حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں دمشق کے قاضی یعنی جج کے مکتب میں ان کی غیر موجودگی میں چار سو اساتذہ قرآن کی تعلیم دیتے تھے۔یہ قرآن کی نسل در نسل تعلیم و تحریر کا وہ سلسلہ تھا جس نے آج بھی اس کو اس کی اصل حالت میں موجود رکھا ہے۔قرآن کی یہ تحریر و یادداشت کا سلسلہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شروع ہوا کہ کیونکہ ہر رمضان میں رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نازل شدہ قرآن حضرت جبرائیل علیہ السلام کو سناتے تھے اور ہر نماز و تہجد میں یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کافی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم نی قرآن حفظ کر لیا۔ان حافظ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم میں حضرت ابوبکرصدیق،حضرت عمر فاروق،حضرت عثمان غنی،حضرت علی،حضرت ابن مسعود،حضرت ابو ہریرہ،حضرت عبداللہ بن عباس،حضرت عبداللہ بن عمرو ابن العاص،حضرت حفصہ اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہم شامل تھے۔اب یہ کہنا کہ جنگ یمامہ میں کافی حافظ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم کی شہادت کے بعد قرآن کا کافی حصہ ضائع ہو گیا تھا،غلط ہے کیونکہ حضرات خلفاء راشدین اور مکہ مدینہ میں موجود حافظ صحابہ کرام باحیات تھے جب کہ یہ جنگ یمن میں لڑی گئی تھی۔حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالی عنہ اعلانیہ مکہ میں اپنے گھر کے سامنے قرآن پڑھا کرتے تھے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم سے قرآن سنا کرتے تھے۔اس کے بعد خلفاء و دوسرے مسلم حکمرانوں کے دور میں پوری اسلامی دنیا میں قرآن کی تعلیم کے ادارے قائم کیے گئے جن کی تعمیر کا حکم پہلی بار حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی خلافت کے زمانے میں دیا تھا۔یہاں تک کہ ایک وقت آیا کہ صرف مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں قرآن کی تعلیم دینے والے افراد کی تعداد دو ہزار تک جا پہنچی تھی اور یہ سلسلہ آج بھی پوری اسلامی دنیا میں زور زور سے جاری ہے۔صرف امریکا کے شہر شکاگو میں اس وقت چالیس سے زیادہ مساجد ہیں جہاں پابندی سے قرآن کی تعلیم دی جاتی ہے۔
(مضمون ابھی جاری ہے)
مکمل تحریر >>