Tuesday, 10 April 2018

نظریہ ارتقاء یا تھیوری آف ایولوشن اور اس کی تردید (حصہ دوم)


نظریہ ارتقاء یا تھیوری آف ایولوشن اور اس کی تردید
(حصہ دوم)
ڈاکٹر کولن پیٹرسن جو برٹش میوزیم آف نیچرل ہسٹری کے کے سابقہ سینیئر ماہر حجریات یا فوسل اور کتابEvolution کے مصنف ہیں ،نے ایک بار لکھا
"میں آپ لوگوں کی اس بات سے متفق ہوں کہ میری کتاب میں ارتقاء کے درمیانی سلسلوں یعنی مسنگ لنک کی کوئ براہ راست وضاحت نہیں ہے،اگر مجھے کسی بھی گواہی کا پتہ ہوتا تو میں اس کا تذکرہ لازمی کرتا۔ایک بھی ایسا فوسل نہیں ہے جو ارتقاء کے نظریے کی پکی دلیل بن سکے"۔
یہاں ایک بار پھر ارتقاء کا نظریہ غلط ہورہا ہے۔ہارورڈ یونیورسٹی کے ارضیات یا جیالوجی کے پروفیسر سٹیفن جے گولڈ نے ایک بار لکھا
"ارتقاء میں درمیانی مرحلوں یا مسنگ لنک کے فوسل ریکارڈ کی  عدم موجودگی نظریہ ارتقاء کو پختہ کرنے میں ناکام رہی ہے۔"
اس طرح ایک بار پھر ارتقاء کا نظریہ غلط قرار پاتا ہے۔جان ہاپکنز یونیورسٹی کے نظریہ ارتقاء کے ماہر سٹیفن ایم سٹینلے نے کہا
"فوسل ریکارڈ اس بات کی ایک بھی گواہی پیش نہیں کرتا کہ جانداروں کی اقسام یا سپی شیز ایک قسم سے دوسری قسم میں تبدیل ہوتی ہیں"۔
اگر ارتقاء کا عمل ہوتا تو اس وقت ہمیں زمین پہ نامکمل اعضا و خصوصیات والے کئ جانور دکھائی دیتے جب کہ ایسا نہیں ہے۔ارتقاء کے سائنسدان مارک زرنیکی یاMark Czarnecki کے مطابق پیچیدہ زندگی فوسل یا حجری ریکارڈ میں اچانک سے ملتی ہے اور ارتقاء کے درمیانی مراحل کا کوئ ثبوت نہیں ملتا جن کا ڈارون نے تصور پیش کیا تھا اور یہ بات اس تصور کو مزید تقویت دیتی ہے کہ یہ جاندار براہ راست خدا نے بنائے۔یہاں تک کہ رچرڈ ڈاکنز بھی یہ کہنے پہ مجبور ہوگئے
"فوسل میں کوئ ارتقاء کا ثبوت نہیں ملتا جس سے ان لوگوں کے خیال کو مزید تقویت ملتی ہے جن کے مطابق جانداروں کو خود خدا نے تخلیق کیا۔"
یونیورسٹی آف پٹز برگ کے ارتقائ سائنسدان جیفری شوارٹز کے مطابق جانداروں کی نئی اقسام کے کسی بھی طرح سے پیدا ہونے کا کوئ ثبوت نہیں ملا"۔
ہارور یونیورسٹی کے سٹیفن جے گولڈ نے کہا
"ہر ماہر ححریات یا فوسل جانتا ہے کہ جانداروں کی اقسام کی  اور اقسام میں تبدیل نہیں ہوتی لیکن اس حقیقت کو نظر انداز کیا گیا ہے"۔
جوناتھن گرے کی کتابThe Forbidden Secret کے مطابق ایک سادہ ترین سیل یا خلیے میں ایک لاکھ سے زیادہ ڈی این اے کے جڑواں جزو یاBase pair ہوتے ہیں جن میں سے کوئ دائیں طرف تو کوئ بائیں جانب ہوتا ہے۔جب کہ خود بخود ان کے اس ترتیب میں بننے کا امکان اکیس لاکھ دس ہزار میں سے صرف ایک تھا یا اگر ہم پندرہ ارب سال تک ڈی این اے کے مختلف کئ ملین،ٹریلین  اتصال  یاCombination کراتے تو ان کے خود بخود ایک ترتیب میں ہونے کا امکان ٹریلین ٹریلین ٹریلین ٹریلین میں سے ایک تھا جب کہ کائنات کی اتنی عمر ہی نہیں ہے۔دوسرے لفظوں میں یہ ناممکن ہے۔
نظریہ ارتقاء کے ماہرین کے مطابق گرینلنگ ڈیمسل مکھی یاGreenling Damselfy فوسل ریکارڈ میں تین سو ملین پہلے ملتی ہے جب کہ یہ آج بھی موجود ہے اور اس عرصے میں اس میں کوئ تبدیلی واقع نہیں ہوئ۔
اگر نیوٹران پروٹان کے سائز کا 0011نہ ہوتے تو یہ نیوٹران میں تبدیل ہوجاتے یا سب نیوٹران پروٹان میں تبدیل ہو جاتے جب کہ قدرت نے اتنی عمدگی سے ان کی جسامت رکھی کہ ایسا نہیں ہوتا۔
اگر کشش ثقل یا گریویٹی ذرا بھی زیادہ طاقتور یا کمزور ہوتی تو زمیں پہ زندگی ناممکن ہو جاتی۔اتنا عظیم توازن کس طاقت نے رکھا؟ظاہر ہے خدا نے۔
ارتقاء کے ماہر ڈاکٹر لیل واٹسن کے مطابق
"ارتقائ سلسلے کے فوسل ریکارڈ نہ ہونے کے برابر ہیں۔"
بن مانس اور انسان وراثتی یا جینیاتی طور پہ بہت مختلف ہیں۔انسان کےy کروموسوم میں بن مانس کےy کروموسوم سے دوگنا زیادہ جین ہوتے ہیں اور کروموسوم کی ساخت بھی بالکل مختلف ہے۔پھر کس طرح انسان بن مانس کے خاندانوں سے پیدا ہوا۔
ڈی این اے یا وراثتی مادہ میں ایک فرد کی زندگی کے بارے میں پائ جانے والی معلومات اتنی پیچیدہ ہیں کہ یہ کسی بھی ارتقاء کا نتیجہ نہیں ہو سکتی۔ڈی این اے کا ایک پن جتنا حصہ اتنی معلومات رکھتا ہے کہ اس سے کتابوں کا زمیں سے چاند تک پانچ سو بار پھیل جانے والا بنڈل تیار ہو سکتا ہے۔یہ سب ارتقاء سے ممکن نہیں تھا۔یعنی کہ خدا نے اس کو پیدا کیا۔سائنس کو آج تک کوئ ایسا سائنسی عمل پتہ نہیں جو یی کر سکے۔
ارتقاء کے مایرین یہ دعوی بھی کرتے ہیں کہ ایک لاکھ سال کے عرصے پہ محیط ایک حجری دور یاStone age بھی تھا جس میں ایک سے دس میلن افراد زمیں پہ موجود تھے اور فوسل ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنے مردوں کو دفن کرتے تھے۔اگر اس زمانے میں صرف دس لاکھ افراد زندہ تھے اور نسل کے ڈبل ہونے کا وقت پچیس سال تھا تو ایک لاکھ سال کے عرصے میں چار ارب لوگ دفن ہوتے ۔اگر ارتقاء کا سلسلہ درست ہے تو دفن کیے گئے لوگوں کے ڈھانچے ایک لاکھ سال بعد موجود ہونے چاہئے جب کہ ایسا نہیں ہے۔
رچرڈ لیوونٹن یاRichard lewontinنے اس تلخ حقیقت کے بارے میں ایک بار کہا
"ہم ساخت کی مضحکہ خیزی کے باوجود بھی سائنس کا پہلو لیتے ہیں اور ہمیں مجبور کیا جاتا ہے کہ ہم سائنس سے ہمیشہ مادی معنی لیں خواہ وہ کتنا ہی غلط کیوں نہ ہو کیونکہ کچھ لوگ خدا کا قدم بھی برداشت نہیں کرتے۔
نظریہ ارتقاء کی حمایت میں کوئ ٹھوس سائنسی گواہی نہ ہونے کےبارے میں ایک بار ٹائم میگزین نے لکھا
"ایک صدی کی کوشش کے بعد بھی فوسل ریکارڈ ارتقاء کو ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے بلکہ نئی دریافتوں نے اس نظریے کے بارے میں سائنسدانوں کو شک میں ڈال دیا ہے۔"
دنیا کے مشہور صحافی و فلاسفر میکلوم میگرائیڈ نے ایک بار نظریہ ارتقاء کے بارے میں یہ کہا
"نظریہ ارتقاء پہ جتنا زور دیا جاتا لے مستقبل میں یہ ایک بہت بڑا مذاق بن جائے گا کہ ایک غیر حقیقی و مشکوک نظریے کو بغیر کسی سائنسی گواہی کے اتنی پختگی سے مانا گیا"۔
2010 میں سائنسی جریدے نیچر نے ایک ساینسی مقالہChimpanzee and human y chromosome are remarkably divergent in structure and gene content کے نان سے شائع کیا جو کہ سائنسی علم وراثت یا جینیٹکس کے معزز ماہرین کی کئ ٹیموں کی محنت کا حاصل تھا جو کہ سب کے سب اس بات کے حامی تھے کہ بن مانس ارتقاء کے عمل سے انسان میں تبدیل ہوا۔اس کے باوجود انہوں نے دیکھا کہ انسان کاy کروموسوم بن مانس کےy کروموسوم سے بہت مختلف ہے۔انسانیy کروموسوم میں 78جب کہ بن مانس کے کروموسوم میں 37میں موجود ہیں اور ان کی ترتیب بھی ایک دوسرے سے بہت مختلف ہے۔یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بن مانس سے انسان کا ارتقاء نہیں ہواکیونکہ کوئ ایسا سائنسی عمل نہیں جو ارتقاء کے باوجود اتنے بڑے فرق کی وضاحت کر سکے۔
یہ سب دلائل ثابت کرتے ہیں کہ کائنات و جانداروں کی ارتقاء کا نظریہ محض ایک غلط و خیالات پہ مبنی ایک ساینسی مفروضہ ہے جس کی کوئ واضح سائنسی دلیل موجود نہیں جو کہ ایک بار پھر اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ کائنات اور اس میں پائے جانے والے جاندار کسی ارتقاء سے نہیں بنے بلکہ خدا نے انہیں تخلیق کیا اور یہ سارے دلائل ثابت کرتے ہیں کہ ارتقاء ناممکن اور خدا موجود ہے۔
(مضمون ابھی جاری ہے

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔