Tuesday, 10 April 2018

Theory of multiverse and God

Theory of multiverse and God

میری زندگی کی اہم ترین تحاریر میں سے ایک تحریر اور شاید آپ کی زندگی میں بھی ہو۔ اس تحریر کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ نے کم از کم میٹرک تک سائنس پڑھی ہو ورنہ شاید یہ مضمون آپ سمجھ نہ پائیں۔ دوسری عرض یہ ہے کہ اس تحریر میں کچھ بھی نیا نہیں ہے، یہ سب چیزیں دنیا میں ڈسکس ہو رہی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ زیادہ تر انگریزی میں ڈسکس ہو رہی ہیں۔

‎اور آخری عرض شو آف کی غرض سے نہیں کی جا رہی بلکہ ماڈرن شکوک سے بھرپور ذہن کی تسلی کے لیے کی جا رہی ہے کہ میں ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا، مسلمان بھی ہوں مگر آپ ہی جیسا عام سا اور گناہگار سا مسلمان، جو بہت سی کوتاہیاں کرتا ہے، نماز میں بھی سستی کرتا ہے، موقع ملے تو جمعہ پڑھ لیتا ہے۔ زندگی میں کبھی کسی مدرسے میں گیا نہ کسی مذہبی جماعت سے وابستہ رہا، نہ کبھی کسی سلسلے میں بیعت ہوا، ایک زمانے میں خدا کے حوالے سے شکوک کا بھی شکار رہا لیکن کبھی ملحد یا اگناسٹک ہونے کا دعوی نہیں کیا۔ پاکستان کی ایک ایسی یونیورسٹی سے انجینئرنگ کی جو کیو ایس رینکنگ کے مطابق پاکستان کی ٹاپ یونیورسٹی ہے، اس وقت یورپ کی ایک ٹاپ یونیورسٹی میں انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی کر رہا ہوں، گوروں کے ہی سکالرشپ پر۔ پورے ایک ماہ بعد میرا فائنل ڈیفنس ہے، ڈاڑھی بھی نہیں رکھی زندگی میں کبھی، زیادہ تر اپنے کیمپس میں شارٹ اور ٹی شرٹ میں دیکھا جا سکتا ہوں۔ کسی بھی قسم کی انتہا پسند، متشدد یا دہشتگرد تنظیم سے کبھی تعلق رہا ہے نہ ہمدردی بلکہ بساط بھر ہمیشہ ان کی مذمت اور انکار ہی کیا ہے۔ فرقہ واریت سے بھی کوسوں دور ہوں۔ غرض یہ کہ سو فیصد مادی قسم کا عام سا مسلمان ہوں۔

‎معذرت اس طولانی تمہید کے لیے مگر یہ ضروری تھی تا کہ میرا قاری آگاہ ہو سکے کہ یہ بات کرنے والا شخص کون ہے۔ اب آ جائیں بات پر۔ آپ نے سنا ہوگا ایٹم کے بارے میں؟ اس میں الیکٹران ہوتے ہیں، پروٹان ہوتے ہیں۔ الیکٹران کا ایک خاص میس (کمیت) ہوتی ہے، اس پر ایک خاص چارج ہوتا ہے، دنیا کا ہر میٹر (مادہ) انہی الیکٹرانز اور پروٹانز سے مل کے بنا ہے۔ اسی طرح کائنات میں گریویٹیشنل کانسٹنٹ ہوتا ہے جسے کیپیٹل جی سے فزکس کی ایکویشنز میں ظاہر کیا جاتا ہے، ایک اور پلانک کا کانسٹنٹ ہوتا ہے۔ بہت سے سائنسدانوں کی ذہن میں یہ سال آیا کہ ٹھیک ہے الیکٹران پر اتنا چارج ہوتا لیکن اتنا ہی کیوں ہوتا ہے؟ اس کا میس اتنا ہی کیوں ہوتا ہے؟ اور اگر یہ چارج کچھ اور ہوتا تو کیا ہوتا؟ ٹھیک ہے روشنی کی رفتار اتنی ہوتی ہے خلا میں مگر اتنی ہی کیوں ہوتی ہے؟ کچھ اور ہوتی تو کیا ہوتا؟

‎اس بارے میں تھوڑی تحقیق ہوئی تو پتا چلا کہ کائنات کی تخلیق یعنی بگ بینگ کے وقت کچھ ایسا ہوا کہ ان تمام کانسٹنٹس کی ویلیوز کا فیصلہ ہو گیا۔ اگر ان میں سے کسی کی بھی ویلیو (قدر) میں معمولی سی بھی تبدیلی کی جائے تو یہ کائنات اس شکل میں موجود نا ہوتی، زمین ہوتی نہ ستارے، نا ہم ہوتے۔ شاید زندگی موجود ہوتی مگر کسی اور شکل میں، شاید ہم سمجھ ہی نا پاتے کہ وہ زندگی بھی ہے کہ نہیں۔ شائد ایک ایک ستارے کی بجائے دو دو ستاروں کے جوڑے بن جاتے، غرض یہ کہ چونکہ ان کانسٹنٹس کی بے شمار ویلیوز ممکن ہیں، اس لئے بے شمار شکلیں ہماری کائنات ہماری یونیورس کی بھی ممکن ہوتیں۔ قصہ مختصر یہ کہ ان کانسٹینٹس کی ویلیوز بہت ہی فائن ٹیونڈ اور احتیاط سے چنی گئی ہیں۔

‎اب کائنات کو کچھ دیر کے لئے ادھر ہی چھوڑ دیں۔ سائنس کے مطابق بگ بینگ کے بعد جو کچھ بھی ہوا وہ ایک اتفاقیہ امر تھا، اتفاقاً زمین بن گئی، اتفاقاً اس میں زندگی کے لئے سازگار ماحول بن گیا، اتفاقاً ہی زندگی پیدا ہوئی، اتفاقاً ہی ارتقاء کا عمل شروع ہوا، پھر اتفاقاً انسان بن گئے، غرض یہ کہ پوری دنیا اور ہماری پیدائش تک سب کچھ ایک اتفاق کا نتیجہ ہے۔�اب بہت دلچسپ صورتحال سامنے آتی ہے۔ سائنس ایک طرف کہتی ہے کہ بگ بینگ کے بعد جو کچھ بھی ہوا محض ایک اتفاق تھا اور دوسری طرف یہ یہ کہتی ہے کہ بگ بینگ کے شروع کے سیکنڈ کے لاکھویں حصے میں کچھ ایسا ہوا کہ ہر کانسٹنٹ کی ایک خاص ویلیو بن گئی، اور وہ اتنی ہی تھی جو اس کائنات کی تشکیل اور زندگی کے آغاز کے لئے ضروری تھی۔ کیا آپ تضاد تک پہنچ رہے ہیں؟ کوئی بات نہیں اگر نہیں بھی پہنچ رہے۔ میں اسے لکھنے لگا ہوں�”تمام اتفاقات کی ماں یعنی بگ بینگ خود ایک اتفاقی امر نہیں تھا.“�کیسا رہا؟�اس کا دوسرا مطلب یہ بنتا ہے کہ کائنات کی تشکیل کے وقت کوئی ذہانت بھرا ذہن حرکت میں آیا، جس نے کچھ ایسا کیا کہ ہر کانسٹنٹ کی ویلیو فائن ٹیون ہو گئی ورنہ کوئی چیز اگر محض ایک بار ہو اور پہلی بار میں ہی آئیڈیل ویلیو پر ”اتفاقاً“ پہنچ جائے، یہ سائنسی طور پر ناممکن ہے۔ لیکن اس کو تسلیم کرنے کا مطلب یہ بنتا ہے کہ خدا کے وجود کو تسلیم کر لیا جائے یا ایک خالق کو مان لیا جائے۔ یہ چیز روایتی طور پر سائنسدانوں کے لئے تسلیم کرنا نہایت مشکل رہا ہے۔

‎اس لیے خدا کے وجود کا انکار کرنے کے لیے ایک نئی تھیوری پیش کی جاتی ہے، اسے کہتے ہیں، ”تھیوری آف ملٹی ورس“۔ ایک سے زیادہ کائناتوں کا نظریہ۔ اس نظریے کے مطابق صرف ایک کائنات نہیں ہے بلکہ اربوں کائنات ہیں، اور ہر وقت بن رہی ہیں۔ ہر وقت بگ بینگ ہو رہے ہیں اور ان کے نتیجے میں نئے نئے جہاں وجود میں آ رہے ہیں، ہر جہاں میں ان کانسٹنٹس کی اپنی ویلیوز ہیں، اس لئے ہر یونیورس مختلف ہے اور اتفاقاً وجود میں آ رہا ہے۔ یوں سائنسدان یہ کہنے کے قابل ہو جاتے ہیں کہ ہماری کائنات بھی حادثاتی طور پر اتفاقاً وجود میں آ گئی۔�اب اس تھیوری کے مسائل کیا ہیں؟�1۔ یہ ایک تھیوری ہے محض�2۔ ہم اپنی کائنات کے آخری سرے پر ہی نہیں جا سکتے تو کسی اور میں کیسے جائیں گے؟�3۔ جو سائنسی آلات ہماری کائنات میں چلتے اور درست ریڈنگ دیتے ہیں، اگر ہم کسی اور کائنات میں چلے بھی جائیں تو وہاں کے اپنے کانسٹنٹ ہوں گے، یہ وہاں نہیں چلیں گے بلکہ عین ممکن ہے کہ ہماری دنیا کے مادے کا وہاں محض داخل ہونا ہی اس دنیا کی تباہی کا سبب بن جائے�4۔ اس تھیوری کو درست یا غلط ثابت کرنا کم از کم اب تک سائنسی طور پر ناممکن ہے�5۔ اس تھیوری کو بھی مذہب کی طرح ایک ”یقین“، ایک بیلیف کا نام تو ضرور دیا جا سکتا ہے مگر ایک سائنسی حقیقت نہیں کہا جا سکتا

‎سائنس کی ہی زبان میں، سائنسی طریقہ کار کے ہی مطابق، ان کانسٹنٹس کی اوریجن کے بارے میں معلومات کے مطابق اس وقت سائنسی صورتحال یہ ہے کہ یہ کائنات کسی ہستی کی تخلیق ہے۔ جس نے ان کانسٹنٹس کی وہ ویلیو رکھی جو زندگی کے لئے ضروری تھی۔ اور یہ صورتحال تب تک جوں کی توں رہے گی جب تک کہ تھیوری آف ملٹی ورس سائنسی طور پر درست ثابت نہیں ہو جاتی۔

‎اب مضمون کے آخر میں مذہبی معلومات کا سہارا لیتے ہوئے ایک ازمپشن میں بھی پیش کرنے لگا ہوں۔ میرا خیال یہ ہے کہ تھیوری آف ملٹی ورس درست بھی ثابت ہو گئی تو اس سے مذہب یا خدا کا انکار ممکن نہیں ہو پائے گا؟�کیوں؟�ویسے تو ہر مذہب میں ہی اس طرف اشارے موجود ہیں مگر قرآن میں نہایت واضح الفاظ میں کہا گیا ہے کہ�

‎وما أرسلناك إلا رحمۃ للعالمين


‎اور (اے محمدﷺ) ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا�

‎الحمدللہ رب العالمین


‎تعریف اس اللہ کے لئے جو تمام جہانوں کا رب ہے�یاد رہے دو یا تین جہانوں کی بات نہیں ہو رہی بلکہ ”تمام جہانوں“ کی بات ہو رہی ہے۔ نجانے کتنے ہیں؟�اس تمام گفتگو اور علم کے بعد کم از کم میں اس رائے کا حامل ہو چکا ہوں کہ سائنسی طور پر بھی کہ خدا ہے تو سہی۔ اس کا انکار کرنا اس وقت تک سائنسی طور پر ممکن نہیں۔ باقی کس مذہب کی خدا کی تشریح سچی ہے، اس پر پھر بحث و مکالمہ ہو سکتا ہوگا مگر سائنسی طور پر اس وقت خدا کا انکار نہیں کیا جا سکتا کم از کم۔ لیکن سائنس تو نہیں البتہ خدا کا انکار کرنے والے بہت دلچسپ مخمصے میں پھنس چکے ہیں.�1۔ اگر تھیوری آف ملٹی ورس کو درست تسلیم نہیں کرتے تو منطقی طور پر خدا کو تسلیم کرنا پڑے گا.�2۔ اگر تھیوری آف ملٹی ورس کو درست مانتے ہیں یا ثابت بھی کر دیتے ہیں تو اس کا ذکر تو پہلے ہی تمام الہامی کتابوں میں موجود ہے.

‎اور آخر کار مضمون کا اختتام ان الفاظ پر کرتے ہیں�اگر خدا نہیں ہے تو اسے ماننے یا ناماننے والے دونوں کو مرنے کے بعد کوئی فرق نہیں پڑے گا اور اگر ہے تو نہ منڑ والیاں دے نال ہونی بڑی بھیڑی اے اگلے جہان وچ۔ شکریہ

‎نوٹ: اگر کسی دوست نے اعتراض یا کوئی سوال کرنا ہو تو پہلے یو ٹیوب پر

   سرچ کر لیںTheory of multiverse and God


کسی جرنل یا پیپر کا لنک اس لئے نہیں دے رہا کیونکہ اس سے سمجھنا عام لوگوں کے لیے خاصا مشکل ہوگا.

ارمغان احمد

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔