Monday, 23 April 2018

قرآن مقدس ،نبی اکرمﷺ کی حیات مبارکہ(ذاتی زندگی) کے سخت لمحات کا ذکر نہیں کرتا جیسا کہ آپ ﷺ کی رفیق حیات اور محبوب بیوی حضرت خدیجہ ؓاور آپﷺ کے صاحبزادوں اور صاحبزادیوں کی وفات۔


قرآن مقدس ،نبی اکرمﷺ کی حیات مبارکہ(ذاتی زندگی) کے سخت لمحات کا ذکر نہیں کرتا جیسا کہ آپ ﷺ کی رفیق حیات اور محبوب بیوی حضرت خدیجہ ؓاور آپﷺ کے صاحبزادوں اور صاحبزادیوں کی وفات۔
نہایت ہی عجیب طرح سے اور عجیب طور پر وہ آیات مبارکہ جو کچھ ناکامیوں پر بطور رائے(تبصرہ) نازل کی گئیں وہ بھی کامیابی کا اعلان کرتی ہیں اور وہ آیات جو کامیابی ،فتح اور کامرانی کے وقت نازل ہوئیں ان میں بھی غرور و تکبر کے خلاف تنبیہ کی گئی ہیں۔
جب کوئی اپنی ذاتی زندگی (سوانح حیات/آپ بیتی) لکھتا ہے تو اپنی کامیابیوں (فتوحات) کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے اور اپنی ناکامیوں اور شکست کے متعلق دلائل دینے کی کوشش کرتا ہے ، جبکہ قرآن مجید نے اس کے برعکس کیا جو یکساں اور منطقی ہے۔ یہ ایک خاص اور مقررہ وقت کی تاریخ نہیں ہے، بلکہ ایک تحریر ہے جو اللہ(معبود) اور اللہ کے ماننے والوں ،عبادت  کرنے والوں کے درمیان عام قسم کے قوانین اور تعلق کو پیدا کرتی ہے،وضع کرتی ہے۔
میلر نے ایک دوسری خاص آیت کے متعلق بھی بات کی:
قُلْ إِنَّمَا أَعِظُكُم بِوَاحِدَةٍ أَن تَقُومُوا لِلَّهِ مَثْنَى وَفُرَادَى ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا مَا بِصَاحِبِكُم مِّن جِنَّةٍ إِنْ هُوَ إِلَّا نَذِيرٌ لَّكُم بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ۔
کہہ دو کہ میں تمہیں صرف ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ تم اللہ کے لئے دو دو اور اکیلے اکیلے کھڑے ہوجاؤ پھر غور کرو۔ تمہارے رفیق کو جنون  نہیں وہ تم کو عذاب سخت (کے آنے) سے پہلے صرف ڈرانے والے ہیں۔(سبا، 46)
اس نے ان تجربات کی طرف اشارہ کیا جو ایک محقق “اجتماعی بحث و مباحثہ کے اثرات ” پر ٹورنٹو یونیورسٹی میں کر چکا تھا ۔
محقق نے مختلف مقررین (تقریر اور بحث کرنے والوں) کو مختلف بحث و مباحثہ میں اکھٹا کیا اور ان کے نتائج میں موازنہ کیا ، اس نے یہ دریافت کیا کہ بحث و مباحثہ کی زیادہ تر طاقت اور کامیابی تب ملی جب مقرر تعداد میں 2تھے ،جبکہ طاقت اور کامیابی اس وقت کم تھی جب مقررین کی تعداد کم تھی۔
قرآن مجید میں ایک سورۃ حضرت مریم علیہ السلام کے نام پر بھی ہے۔اس سورۃ میں جس طرح ان کی تعریف اور مدح کی گئی ہے اس طرح تو انجیل مقدس میں بھی نہیں کی گئی،بلکہ کوئی  بھی سورۃ حضرت عائشہ ؓیا  حضرت فاطمہ ؓکے نام سے موجود نہیں۔
حضرت عیسٰی علیہ السلام کا اسم کرامی قرآنِ مجید  میں 25مرتبہ ،جبکہ  محمد ﷺ کا اسم مبارک صرف 5مرتبہ دہرایا گیا ہے۔
کچھ تنقید کرنے والے یہ بھی کہتے ہیں (نعوذ باللہ)کہ جو کچھ قرآن میں لکھا ہے وہ سب آسیب ، بھوت اور شیطان   نبی اکرمﷺکو سکھاتے تھے، ہدایات دیاکرتے تھے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ جبکہ قرآن مجید میں کچھ آیات ایسی بھی ہیں  جیسے:
وَمَا تَنَزَّلَتْ بِهِ الشَّيَاطِينُ۔
اور اس (قرآن) کو شیطان لے کر نازل نہیں ہوئے۔(الشعراء ، 210)
فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ۔
اور جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان مردود سے پناہ مانگ لیا کرو۔(انحل ، 98)

اگر آپ ان حالات کا سامنا کرتے جب آپﷺ اور حضرت ابو بکر صدیقؓ غارِ حرا کے اندر ،مشرکوں کے درمیان گھرے ہوئے تھے اور وہ انہیں دیکھ سکتے تھے ،اگر وہ نیچے دیکھتے ،انسانی ردِ عمل یہ ہو گا کہ پیچے سے خروج کا راستہ تلاش کیا جائے یا باہر جانے کا کوئی دوسرا متبادل راستہ یا خاموش رہا جائے تاکہ کوئی ان کی آواز نہ سن سکے ، تاہم نبی اکرم ﷺ نے ابو بکر صدیق ؓسےفرمایا:
غمزدہ نہ ہو، فکر مت کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
إِلاَّ تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُواْ ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لاَ تَحْزَنْ إِنَّ اللّهَ مَعَنَا فَأَنزَلَ اللّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُواْ السُّفْلَى وَكَلِمَةُ اللّهِ هِيَ الْعُلْيَا وَاللّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
اگر تم پیغمبر کی مدد نہ کرو گے تو اللہ اُن کا مددگار ہے (وہ وقت تم کو یاد ہوگا) جب ان کو کافروں نے گھر سے نکال دیا۔ (اس وقت) دو (ہی ایسے شخص تھے جن) میں (ایک ابوبکرؓ تھے) اور دوسرے (خود رسول الله) جب وہ دونوں غار (ثور) میں تھے اس وقت پیغمبر اپنے رفیق  کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ تو اللہ نے ان پر تسکین نازل فرمائی اور ان کو ایسے لشکروں سے مدد دی جو تم کو نظر نہیں آتے تھے اور کافروں کی بات کو پست کر دیا۔ اور بات تو اللہ ہی کی بلند ہے۔ اور اللہ زبردست (اور) حکمت والا ہے۔(التوبہ ، 40)
یہ کسی دھوکہ باز یا دغا باز کی ذہنیت نہیں ایک نبی ﷺ کی سوچ ہے ۔جن کو پتہ ہے وہ جانتے ہیں کہ اللہ سبحان و تعالٰی ، ان کی حفاظت فرمائیں گے۔
سورۃ الھب(سورۃ تبت)ابو لہب کی موت سے دس سال پہلے نازل کی گئی ، ابو لہب نبی کریمﷺکا چچا تھا ۔ابو لہب نے دس سال اس بیان میں گذارے کہ قرآن مجید غلط ہے۔ وہ ایمان نہیں لایا اور نہ ہی ایسا کرنے پر تیار تھا ۔نبی اکرم ﷺ کیسے اتنے زیادہ پر اعتماد ہو سکتے تھے جب تک ان کو یقین نہ ہوتا کہ قرآن مجید اللہ سبحان و تعالٰی کی طرف ہی سے ہے۔
قرآن کریم کی اس آیت مبارکہ کو ملاحظہ کیجئے:
تِلْكَ مِنْ أَنبَاء الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ مَا كُنتَ تَعْلَمُهَا أَنتَ وَلاَ قَوْمُكَ مِن قَبْلِ هَـذَا فَاصْبِرْ إِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِينَ۔
یہ (حالات) منجملہ غیب کی خبروں کے ہیں جو ہم تمہاری طرف بھیجتے ہیں۔ اور اس سے پہلے نہ تم ہی ان کو جانتے تھے اور نہ تمہاری قوم (ہی ان سے واقف تھی) تو صبر کرو کہ انجام پرہیزگاروں ہی کا (بھلا) ہے۔(ہود، 49)
میلر لکھتا ہے کہ کسی بھی مقدس کتاب نے اس قسم کا انداز نہیں اپنایا کہ جس میں پڑھنے والے کو ایک خبر دی جار رہی ہو اور پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ نئی خبر(اطلاع) ہے ۔ یہ ایک بے نظیر (بےمثال ) چیلنج (للکار) ہے ۔ کیا اگر مکہ کے لوگ مکر و فریب سے یہ کہہ دیتے کہ وہ تو یہ سب کچھ پہلے سے ہی جانتے تھے؟ کیا اگر کوئی اسکالر (عالم) یہ دریافت کرتا کہ یہ اطلاع(خبر) پہلے ہی سے جانی پہچانی تھی(افشا تھی) تاہم ایسا کچھ نہیں ہوا۔AmazingQuran
پروفیسر میلر کیتھولک انسائیکلو پیڈیا کے موجودہ عہد (زمانہ)کا ذکر کرتا ہے جو قرآن کے متعلق ہے۔ یہ واضع کرتا ہے کہ باوجود اتنے زیادہ مطالعہ ،نظریات اور قرآنی نزول کی صداقت پر حملوں کی کوشش اور بہت سے بہانے اور حجتیں جن کو منطقی طور پر تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ گرجا گھر (چرچ) کو اپنے آپ میں یہ ہمت نہیں ہوئی کہ ان نظریات کو اپنا سکے اور ابھی تک اس نے مسلمانوں کے نظریہ کی سچائی اور حقیقت کو تسلیم نہیں کیا کہ قرآن مجید میں کوئی شک نہیں اور یہ آخری آسمانی کتاب ہے۔
حقیقت میں پروفیسر میلر اپنا نقطہ نظر تبدیل کرنے اور اور صحیح راستہ چننے میں کافی حد تک صاف گو اور ایماندار تھا ۔اللہ اسے اور اس جیسے ان تمام لوگوں کو (جنہوں نے حق کو تلا ش کیا اور اپنے تعصب کو اجازت نہیں دی کہ انہیں حق تک پہنچنے سے دور رکھے)مزید ہدایت نصیب فرمائے اور حق کی روشن شاہراہ پر چل کر اپنی عاقبت سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
حتمی رائے
1977میں پروفیسر میلر نے مسلمان اسکالر جناب احمد دیداتؒ سے ایک بہت مشہور مکالمہ،بحث و مباحثہ کیا اس کی منطق صاف تھی اور اس کا عذر (تائید) ایسے دکھائی دیتی تھی کہ جیسے وہ سچائی تک بغیر کسی تعصب کے پہنچنا چاہتا تھا بہت سے لوگوں کی خواہش تھی کہ وہ اسلام قبول کر کے مسلمان  ہو جائے۔
1978 میں پروفیسر میلر نے اسلام قبول کرہی لیا اور اپنے آپ کو عبد الاحد کے نام سے پکارا ۔ اس نے کچھ عرصہ سعودی عرب تیل اور معدنیات کی یورنیورسٹی میں کام کیا اور اپنی زندگی کو دعویٰ بذریعہ ٹیلی ویژین اور لیکچرز کے لئے وقف کر دیا۔
جناب گیری میلر کی کتاب یہاں سے ڈاؤن لو ڈ کی جاسکتی ہے۔
(http://www.mediafire.com/view/?735e1dq44ect1xr)

بشکریہ
http://allurdubooks.blogspot.com/2012/12/blog-post_12.html
http://wiki.answers.com/Q/How_did_Gary_Miller_convert_to_Islamڈاکٹر گیری میلر(Gary Miller)
http://www.discoveringislam.org/dr_gary_miller.htm
http://islam.thetruecall.com/modules.php?name=News&file=article&sid=215

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔