Monday, 23 April 2018

ایک ملحد کا کہنا ہے کہ اللٰہ تعالٰی نے عورت کو پورے حق دیے ہوتے تو اسے پیغمبر بننے سے کیوں محروم کیا۔اس کا جواب یہ ہے

ایک ملحد کا کہنا ہے کہ اللٰہ تعالٰی نے عورت کو پورے حق دیے ہوتے تو اسے پیغمبر بننے سے کیوں محروم کیا۔اس کا جواب یہ ہے


جواب  از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 23 February 2015 11:41 AM

اللہ رب العزت  نے قرآن حکیم میں یہ بالکل واضح فرمادیا ہے کہ انسانوں کی ہدایت اور راہ نمائی کے لئے آسمانی تعلیمات لےکر جس قدر بھی انبیاء اور رسل مبعوث کئے گئے وہ سب کے سب مرد تھے۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے:
﴿وَما أَر‌سَلنا مِن قَبلِكَ إِلّا رِ‌جالًا نوحى إِلَيهِم...﴿١٠٩﴾... سورة يوسف

‘‘یعنی ہم نے تجھ سے پہلے جنہیں وحی کی اور انہیں رسول بنا کر بھیجا وہ مرد ہی تھے۔’’
دوسری جگہ فرمایا
﴿وَلَقَد أَر‌سَلنا مِن قَبلِكَ رُ‌سُلًا إِلىٰ قَومِهِم فَجاءوهُم بِالبَيِّنـٰتِ...٤٧﴾... سورة الروم

‘‘ ہم نے رسولوں کو(مرد) تجھ سے پہلے ان کی قوموں کی طرف بھیجا اور وہ واضح دلیلیں لے کر ان کے پاس آئے۔’’
اس کی وجہ کیا ہے یا اس میں کون سے حکمت ربانی پوشیدہ ہے کہ اس نے کسی عورت کو نبی بناکر نہیں بھیجا تو اس سلسلے میں سب سے پہلی بات یہ سمجھ لینی چاہئے کہ کسی کو نبی اور رسول بنانا یہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے کسی انسان کے لئے اپنی قابلیت یا صلاحیت کی بنا پر نبی بننا ممکن نہیں اور نہ ہی کسی طور کوئی نبی بن کر آیا ہے ۔خود رب العزت نے اس کو یوں بیان فرمایا کہ:
﴿اللَّهُ يَصطَفى مِنَ المَلـٰئِكَةِ رُ‌سُلًا وَمِنَ النّاسِ...﴿٧٥﴾... سورة الحج

‘‘ اللہ تعالیٰ خود چن لیتے ہیں رسول فرشتوں میں سے اور انسانوں میں سے۔’’
اور ظاہر ہے اس کے اختیارات اور انتخاب کو نہ کوئی چیلنج کرسکتا ہے اورنہ ہی کسی کے لئے کوئی اعتراض کی گنجائش ہے۔
﴿ لا يُسـَٔلُ عَمّا يَفعَلُ وَهُم يُسـَٔلونَ ﴿٢٣﴾... سورة الانبياء

ُُ جو کچھ وہ کرتا ہے اس سے پوچھا نہیں جاسکتا ۔ اور لوگ جوکچھ کرتے ہیں ان سے ان کے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا۔’’
اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ذات جس نے مرد اور عورت دونوں کو پیدا کیا وہی بہتر جانتا ہے کہ کس منصب کے لئے کون اہل ہے’ بظاہر یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ نبی جو نازک ذمہ داری اور کٹھن فریضہ لےکر آتاہے اس میں مشکلات رکاوٹوں اور جسمانی اذیتوں کے راستے سے بہرحال گزرنا پڑتا ہے اور عورت فطری طور پر ایسی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہونے کے قابل نہیں ہوتی ۔ یہ تو ممکن ہے کہ بعض عورتیں بعض مردوں سے زیادہ طاقتور اوردلیر ہوں لیکن ایسی چند مثالیں ہی ہوتی ہیں۔ اکثر و بیشتر عورتیں مشکل صبر آزما کام کے قابل نہیں ہوتیں اور پھر قدرتی طورپر اسے لاحق بعض جسمانی عوارض بھی نبوت جیسے عظیم بوجھ کو اٹھانے میں رکاوٹ بن سکتے ہیں جیسے حیض’ نفاس اورحمل کا عرصہ یا بچے کو دودھ پلانے کی مدت ان عوارض کے دوران توعورت معمول کے کام کرنے کے قابل بھی نہیں رہتی کجا نبوت جیسی بھاری ذمہ داری کو اٹھا کر قوم کے سامنے آنا۔ اسی طرح رسولوں کو اپنے مخالفین کی جانب سے بعض اوقات انتہائی ذلیل قسم کے ہتھکنڈوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر عورت نبی ہوتی تو اس کےلئے کردار و پاک دامنی کے تحفظ کے لئے انتہائی نازک صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا جب کہ مرد سے اس طرح کا کوئی جبر ممکن ہی نہیں۔ لہٰذا عقلاً یہ منصب مرد ہی کے شایان شان ہے’ عورت اسے اپنی فطری کمزوریوں کے باعث نہیں نبھا سکتی۔
جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ اس طرح ہمارے اس دعوے کا کیا بنے گا کہ اسلام نے مرد اور عورت  کےدرمیان صحیح مساوات قائم کی ہے پہلی بات تو یہ ہے کہ اسلام میں مساوات کا یہ مفہوم ہرگز نہیں کہ مرد اور عورت ہر میدان میں ہر لحاظ سے اور ہر کام کےلئے برابر ہیں کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں ہے۔
ہمارے بعض مغرب زدہ یا نام نہاد ترقی یافتہ سکالر یہ کہتے ہیں کہ عورت مرد ہر میدان میں مساوی ہیں۔ یہ محض ایک پر فریب نعرہ ہے حقیقت کی دنیا میں اس کا کسی جگہ بھی وجود نہیں ہے۔ بلکہ اسلام میں مساوات کا مفہوم یہ ہے کہ خالق کائنات نے مردوعورت دونوں کے لئے جو حقوق  متعین کئے ہیں ان کے حصول کےلئے دونوں برابر کےحق دار ہیں۔ عورت اپنے حقوق سے اس لئے محروم کردی جائے کہ وہ عورت ہے’ یہ ظلم وزیادتی ہے اور اپنے اپنے دائرہ عمل میں کام کرنے کے دونوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔ مساوات کا مطلب ہرگز نہیں کہ جو کام مرد کرے وہ عورت بھی کرے اور مرد کو اپنے میدان میں جو حقوق حاصل ہیں عورت اپنے دائرہ کار سے نکل کر ان میں برابری کی کوشش کرے اس طرح مرد کو بھی اپنے دائرہ عمل سے نکل کر عورت کے حقوق میں مداخلت کرنے کا اختیار نہیں۔
دوسری بات جو قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ جن لوگوں کے ہاں عورت کے مساوی حقوق اور اس کی آزادی کا سب سے زیادہ چرچا ہے اورجن کی نقل اور تقلید میں ہمارے ہاں بھی آزادی نسواں کا نعرہ لگایا جاتا ہے’ وہ مساوات اور آزادی جو ہمارے یہ ماڈرن حضرات لیتے ہیں وہ تو ان کے ہاں  بھی نہیں۔ امریکہ ’ برطانیہ’ فرانس اور دوسرے صنعتی لحاظ سے ترقی یافتہ ملکوں کےمختلف شعبوں کا جائزہ لیجئے تو وہان بے شمار ایسے شعبے ہیں جہاں عورت کے مساوی ہونے کا مسئلہ تو دور کی بات ہے عورت کا سرے سے کوئی دخل ہی نہیں۔
پارلیمنٹ میں عورتوں کی تعداد ’ کابینہ میں خواتین و زراء کا تناسب ’ بڑے بڑے سرکاری وسول اداروں کی سربراہی میں عورت کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔
اسی طرح بری’ فضائی اور بحری فوج میں عورتوں کے تناسب کا مطالعہ کر لیجئے تو شاید بعض مراحل میں ان محکموں میں عورتوں کا وجود ہی نظر نہ آئے۔
اب اس کا سبب یہ نہیں  کہ ان مغربی ملکوں نے عورت کےمساوی حقوق کو تسلیم نہیں کیا یا وہ عورت کو ہر شعبہ میں جانے کی اجازت نہیں دیتے یا اسے مذکورہ بالا محکموں اور شعبوں میں جانے کی اجازت نہیں۔۔۔ہرگز نہیں۔۔۔ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ان مذکورہ ذمہ داریوں کےلئے اللہ تعالیٰ نے عورت کو وہ صلاحیتیں ہی عطا نہیں کیں جو درکار ہوتی ہیں یا جو مرد کو عطا کی گئی ہیں۔ اس میں ناانصافی اور عدم مساوات کی کوئی بات نہیں۔ یہ تو  عورت کے حق میں اس کی ذ ہنی وجسمانی ساخت کی وجہ سے بہتر و  مناسب ہے اور حکمت الٰہی کا تقاضا بھی یہی ہے اور وہ ایسا حکیم ہے جومرد اورعورت دونوں کو بنانے والاہے۔ دونوں کے دائرہ کار کو اس سے بہتر اورکون متعین کرسکتا ہےوہ بہتر جانتا ہے کہ رسالت و نبوت کےمنصب کا اہل کون ہے؟

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔