Tuesday, 10 April 2018

نظریہ ارتقاء یا تھیوری آف ایولوشن اور اس کی تردید (حصہ ششم،چھٹا حصہ)

نظریہ ارتقاء یا تھیوری آف ایولوشن اور اس کی تردید
(حصہ ششم،چھٹا حصہ)
جانوروں کا نسل در نسل مختلف جسامت اور قد کا ہو جانا ارتقا کو ظاہر نہیں کرتا اور نہ ہی پرندوں کا رنگ،تمام انسان ایک جیسے نظر نہیں آتے۔یہ ارتقا کی وجہ سے نہیں ہے۔البتہ کچھ تبدیلیاں ماحولیاتی اثر کا نتیجہ ہوتی ہیں مثلا افریقہ میں رہنے والے لوگوں کی رنگت کا سیاہ ہونا یہ ظاہر نہیں کرتا کہ ان کے اباء و اجداد بن مانس کی نسل سے تھے بلکہ یہ اس وجہ سے ہے کہ وہ خط استوا۔۔۔۔Equator.....کے قریب رہتے ہیں جہاں سورج کی روشنی زیادہ پڑتی ہے،اگر ارتقاء کا نظریہ درست ہے تو اب یہ ارتقاء کیوں نہیں ہو رہا،گھوڑے کیوں بھینسوں سے جنسی اختلاط نہیں کر سکتے تا کہ کوئ نئ نسل کا جانور وجور میں آئے ،بندر کیوں مینڈک سے جنسی عمل کیوں نہیں کر کے نئ نسل پیدا کر لیتے اگر ہم سب ایک ہی سیل یا خلیے سے وجود میں آئے ہیں۔
ارتقاء کے نظریے کی حمایت میں جن فوسلز یا حجری حیاتیات کی دلیل دی جاتی ہے،اس کا عمل بہت نایاب ہے،تمام جاندار فوسلز میں تبدیل نہیں ہوتے اور اس طرح یہ فوسل ریکارڈ ماضی کے تمام جانداروں کی تفصیل فراہم نہیں کر سکتا۔اگر ہمیں کئ ارب فوسل یا حجری حیاتیات بھی مل جائیں تو بھی آج کئ کھرب جاندار زمین پہ موجود ہیں۔اور اس طرح ارتقاء میں ان سب اقسام کے درمیانی سلسلے یا مسنگ لنک فراہم کرنے کے لیے ہمیں اتنے ہی فوسل چاہیے جو کہ نہیں ہیں۔ارتقاء کے حامی اکثر دعوی کرتے رہتے ہیں ان کے ملنے کا لیکن اگر ان کی تعداد کا ماضی میں زندہ رہنے والے جانداروں کی تعداد سے موازنہ کیا جائے تو یہ تعداد بہت کم بنتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ درمیانی سلسلے یا مسنگ لنک کئ سو کھرب تھے جو حجری حیاتیات میں تبدیل نہیں ہو سکے۔
فیل ماہی مچھلی یا حوتان جسے وہیل مچھلی کہتے ہیں انگریزی میں،اس کے بارے میں ارتقا کے حامی کہتے ہیں کہ وہ کتے کی طرح کے ایک بہت بڑے جانور سے وجود میں آئ جسےAndrewsarchus mongoliensis کہا جاتا ہے لیکن وہ اس جانور کی کھوپڑی کے سوا آج تک اس کا کوئ حصہ دریافت نہیں کر سکے۔اورصرف ایک کھوپڑی کی بنیاد پہ یہ کہنا کیسے ممکن ہے کہ یہ کھوپڑی واقعی اسی جانور کی ہے جس سے حوتان یا وہیل مچھلی کی نسل وجود مین آئ۔حقیقت یہ ہے کہ ڈھانچوں کے فوسل یا حجری ثبوت ملنا بہت نایاب ہے۔
ہمارے پاس سب جانداروں کی نسل کے کسی دوسرے جاندار سے وجود میں آنے کا ثبوت فراہم کرنے والے فوسل نہیں ہیں۔مکمل ڈھانچہ ملنا انتہائ مشکل ہوتا ہے اور تمام موجود جانداروں کے سابقہ ڈھانچے ملنا تقریبا نا ممکن۔فوسل ریکارڈ موجود سیپی شیز یا جانداروں کی اقسام کے ایک فیصد کا بھی مشکل سے ثبوت فراہم کرتے ہیں اور ان سےان جانوروں کا کوئ اور نسل سے آنے کا ثبوت اور بھی مشکل ہے۔ان فوسل میں وقفے یا گیپ کے بغیر یہ اندازہ لگانا بھی مشکل ہے کہ کہاں جانداروں کی ایک نسل ختم اور دوسری شروع ہوئ۔ان فوسل یا حجری حیاتیات کی بنیاد پہ یہ کہنا غیر منطقی ہے کہ یہ فوسل جانداروں کی نئ نسل کا بننا ظاہر کرتے ہیں۔جب کہ یہ ایک ہی نسل کے اندر واقع ہونے والی قدرتی حسمانی تبدیلیوں کا اظہار بھی ہو سکتے ہیں۔
ارتقاء کے حامی جن ماحولیاتی اثرات۔۔۔Adaptation to the environment......کا ثبوت جانداروں کی نئ قسم کے بننے میں فراہم کرتے ہیں وہ صرف جین کے نیوکلیائی ترشوں یعنی نیوکلیوٹائڈز پہ اثر انداز ہوتا ہے جس سے جانوروں کی جسامت،شکل،رنگ مختلف ہوسکتا ہے ایک ہی نسل کے اندر لیکن اس سے نئے اعضاء کا بننا ناممکن ہے ۔ جانداروں کی نئ قسم یا اور سپی شیز کے وجود میں آنے کے لئے لازمی ہے کہ کروموسوم کی تعداد ہی بدل جائے جب کہ ایسا نہیں ہوسکتا اور کروموسوم کی تعداد بدلنے سے وہ جاندار اپنی نسل ہی آگے نہیں بڑھا سکتا تو پھر ایک جاندار سے دوسری نسل یا سپی شیز کا جاندار بننا ناممکن ٹھہراتا ہے۔
ارتقاء کے نظریے میں آسمانی بجلی اور سمندروں اور فضائ ہائیڈروجن،آکسیجن،نائٹروجن کے ملنے سے جس زندگی  رکھنے والے محلول کے خود بخود وجود میں آنے کا نظریہ بیان کیا جاتا ہے۔۔۔۔Primordial Soup Theory.....،وہ نظریہ کہتا ہے کہ وراثتی مادے ڈی این اے کے بنیادی اجزاء یا نیوکلیوٹائڈ شروع سے ہی مکمل حالت میں تھے۔اگر یہ درست حالت میں تھا بھی سہی تو ایک اور سوال ہے۔وہ یہ کہ اس مادے میں زندگی کنٹرول کرنے کی ساری معلومات خود بخود کہاں سے آگئ اور دوسری بات یہ کہ جس جاندار میں یہ مادہ تھا اس میں اس مادے کی ذرا تبدیلی بھی اس کی بقا کو ختم کر دیتی۔دوسری بات یہ کہ اس سے بننے والے خلیے یا سیل کس طرح خود بخود اپنی خاص شکل لے کے ایک کثیر الخلوی۔۔۔۔۔۔Multicellular Organisms....میں تبدیل ہوگئے کہ ہر خلیہ ہر عضو کے لیے ایک خاص شکل لیتا وہ عضو بناتا گیا۔
وراثتی مادے یا ڈی این اے میں تبدیلیاں۔۔۔۔Mutations.....بہت کم ہوتی ہیں اور مفید تبدیلیاں تو اور بھی کم۔لیکن ان تبدیلیوں میں کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ ان میں نیا ڈی این اے مل جائے اور نیا کروموسوم بن کر نئ نسل بنائے۔بلکہ الٹا اس میں کمی یا زیادتی سے یہ مزید آگے بڑھنے میں ناکام ہوجاتا ہے۔مثال کے طور پہ اگر ایسا ہو بھی گیا وہ جاندار اپنی قسم کے دوسرے جانداروں سے کبھی بھی ملاپ کرکے نیا جاندار نہ بنا سکتا۔
امکانیات یاProbability کے قانون کے مطابق ہر محدود چیز کا ایک آغاز،انجام اور وجہ ہے۔کائنات کا خود بخود بننا کسی وجہ کے بغیر ناممکن ہے اگر ہم یہ تصور کر لیں کہ فزکس یا طبیعیات کے قوانین حتمی ہیں۔
یہاں ایک اور بات بھی نوٹ کرنے کے قابل ہے۔وہ یہ کہ فوسل کی عمر معلوم کرنے کے سائینسی طریقے ۔۔۔۔۔۔۔Dating method......مکمل طور پہ درست نہیں ہیں۔درختوں کے تنے کے اندرونی حلقے اس لیے قابل اعتبار نہیں کیونکہ ہو سکتا ہے وراثتی مادہ یا ڈی این اے کی تبدیلیوں یاMutationsنے ان کے بڑھنے کی صلاحیت کم کردی ہو۔ہمیں یہ بھی  ٹھیک نہیں پتہ کہ معدوم ہوجانے والی جاندار اقسام یا سپی شیز کیسی تھی۔ہمیں ان کی خوراک  اور رہن سہن کا صرف ایک تصور ہو سکتا ہے۔آج تک کسی نے ڈائینو سار نہیں پالا اور ہم نہیں کی سکتے کہ یہ کتنی عمر میں جواب ہوتا اور نشوونما پاتا۔
جہاں تک کیمیاوی طریقوں سے فوسل کی عمر معلوم کرنے کی بات ہے،وہ سائنسدان اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ بشرطیکہ کسی دم دار ستارے یاآگ نے اس جاندار اور زمین کی کیمیاوی ترکیب  کو ماضی میں متاثر نہ کیا ہو۔فوسل کی عمر معلوم کرنے کے ارضیاتی یا جیولاجیکل طریقے دریاؤں کے گہرا ہونے پہ یہ فرض کر کے انحصار کرتے ہیں کہ ان کے گہرا ہونے کی شرح ہمیشہ یکساں رہی ہے جب کہ یہ شروع میں تیز اور بعد میں سست تھی۔لہذا ان طریقوں سے معلوم کی گئ زمیں کی عمر اتنی پرانی نہیں ہے جیسا کہ نصابی کتب میں بیان کی جاتی ہے۔کئ بار زمین کی سب سے قدیم تہوں میں بھی پیچیدہ جانداروں کے فوسل ملے جب کہ ارتقاء کے مطابق شروع میں صرف سادہ جاندار تھے۔یہ حقیقیت عوام سے چھپائ گئی۔
ارتقاء کے ماہرین کا کہنا ہے کہ انسانی عضو تناسل کی سامنے سے راکٹ جیسی شکل اس لیے ہے کہ باقی نر انسانوں کے سپرم یا مادہ منویہ کو ہٹا سکے۔کیا یہاں کوئ گینگ ریپ ہورہا تھا جو یہ دلیل دی گئ؟
ایک اور بات یہ کہ ارتقا کے ماہرین فوسل یا حجری حیاتیات کی عمر معلوم کرنے کے لیے  فضا میں موجود کاربن 14کو استعمال کرتے ہیں جو کہ ہماری فضا میں کائناتی شعاعوں یاCosmic Rays سے آتی ہے جب کہ سورج کی سطح میں ابھرنے والے شعلے۔۔۔۔۔Solar Flares....اور آتش فشاں بھی اس کو بڑھاتے ہیں۔اس،طرح فوسل کی عمر  معلوم کرنے کا یہ طریقہ بھی مکمل ٹھیک نہیں کیونکہ مختلف وقتوں میں اس کاربن کی مقدار فضا میں مختلف رہی ہے۔
جہاں تک ملر یورے کے زندگی کے مرکبات تیار کرنے کے تجربے کی بات ہے تو اس تجربے میں دائیں اور بائیں یعنیDextro And Levo دونوں طرح کے مالیکیول بنے جب کہ ہم انسان صرف ایک طرح کے مالیکیول رکھتے ہیں اور اس طرح اس تجربے سے بھی انسان کا ارتقاء سے وجود مینء آنے کا نظریہ ناکام ہوجاتا ہے۔
فرینکس کولنز جو کہ عیسائ ماہر ارتقاء اور ہیومن جینوم پروجیکٹ کا سربراہ تھا،یہاں تک کہتا ہے کہ خدا نے سادہ جاندار بنا ہے اور پھر ارتقاء بعد میں شروع ہوا۔
Abiogenesis کے نظریے کو فرانسیسی سائنسدان لوئس پاسچر نے غلط ثابت کر دیا تھا۔اس کے مطابق  زندگی خود بخود غیر جاندار اشیاء سے وجود میں نہیں آسکتی۔ایک جاندار صرف اپنی طرح کا جاندار ہی پیدا کر سکتا ہے۔اگر پرندے ڈائینو سار سے بنے تو کسی مقام پہ ڈائینو سار نے انڈے دیے ہوں     گے جن سے بچہ پیدا ہوا ہوگا جو ڈائینو سار جیسا نہیں تھا جب کہ بیالوجی یا حیاتیات کے مطابق یہ ناممکن ہے۔
(مضمون ابھی جاری ہے)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔