Tuesday, 10 April 2018

نظریہ ارتقاء یا تھیوری آف ایولوشن اور اس کی تردید (حصہ پنجم)

نظریہ ارتقاء یا تھیوری آف ایولوشن اور اس کی تردید
(حصہ پنجم)
اکتوبر 2006میں دنیا کے کئ سائنسدانوں نے نظریہ ارتقاء پر اپنے شکوک و شبہات کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ ڈارون کے نیچرل سلیکشن یا قدرتی چناؤ کے زندگی کی پیچیدگی کی وضاحت پر شک کا اظہار کرتے ہیں اور اس تصور کی  واضح سائنسی دلائل سے محتاط تحقیقات یعنی چاہیے۔
یہ سب لوگ پی ایچ ڈی یا ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھنے والے حضرات تھے جب کہ ارتقاء کے حامی ان کو سکول کے استاد اور سائنس کے طالبعلم کہ کر ان کا خیال مسترد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ان میں کچھ سائنسدان امریکہ و روسی نیشنل اکیڈمی آف سائنس سے بھی تھے جو کہ ایہ معزز سائنسی ادارہ ہے۔ان سائنسدانوں میں 154بیالوجی یا حیاتیات،76کیمیا یا کیمسٹری،63طبیعیات یا فزکس کے تھے۔ان کے علاوہ اور افراد وہ تھے جن کا تعلق ریاضی،علم الطب یا میڈیسن سے تھا۔ان میں سے کئ دنیا کی نامور یونیورسٹیوں جیسا کہ ایم آئ ٹی،کیمبرج،یوسی ایل اے،یو سی برکلے،پرنسٹن،یونیورسٹی آف پینی سلوانیا،اوہیو سٹیٹ یونیورسٹی،یونیورسٹی آف جارجیا اور یونیورسٹی آف واشنگٹن میں پروفیسر اور سائنسی محقق یا ریسرچر تھے۔ان سب حضرات کے ارتقاء پر شک کے اظہار نے ارتقاء کے حامیوں کا یہ تصور مسترد کر دیا جس کے مطابق سب سائنسدان نظریہ ارتقاء جے حامی ہیں۔
ان حضرات میں سے ایک ڈاکٹر ڈیوڈ برلنسکی نے جو کہ ڈسکوری انسٹٹیوٹ سنٹر فار سائنس اینڈ کلچر کے  ماہر  ریاضی اور سائنسی فلاسفر  تھے،نے   کہا کہ نظریہ ارتقاء سائنسی سوچ کے حوالے سے محض ایک سفید ہاتھی ہے اور یہ مکمل بیکار اور وہم پہ مبنی تصور ہے۔
اس نظریے پہ شک کا اظہار کرنے والوں میں یوایس نیشنل اکیڈمی آف سائنس کے فلپ سکل،امریکن ایسوسی ایشن فار دی ایڈوانسمنٹ آف سائنس کے فیلو لائل جنسن،ارتقائ ماہر حیاتیات یا بیالوجی اور نصابی کتب کے مصنف سٹینلے سالتھے،سمتھسونین انسٹٹیوٹ کے ارتقائ ماہر حیاتیات یا بیالوجی اور نیشنل انسٹٹیوٹ آف ہیلتھ نیشنل سنٹر فار بائیو ٹیکنولوجی انفارمیشن رچرڈ وان سٹرن برگ،حیاتیات یا بیالوجی کے حوالے سے دنیا کے قدیم ترین سائنسی جریدے یا جرنلRivista di Biologiaکے ایڈیٹر گسپی سرمونتی اور رشین اکیڈمی آف نیچرل سائنس کے ماہر علم جنین یا ایمبریالوجی لیو بیلوسوو تھے۔اب آپ حضرات فیصلہ فرمائیں کہ نظریہ ارتقاء پہ شک کا اظہار کرنے والے لوگ سائنس کے طالبعلم اور سکول کے استاد تھے یا دنیا کے مشہور سائنسی اداروں کے ریسرچر اور محقق۔لیکن ارتقا کے حامی ان کو مذہب کا حامی کہ کے ان کے نظریات کی تردید کی ارتقا کا کوئ پکا ثبوت دیے بغیر تردید کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
نیوز ویک کی ایک رپورٹ کے مطابق چودہ سال پہلے بھی زندگی پہ تحقیقات کرنے والے سات سو سائنسدان موجود تھے جنہوں نے نظریہ ارتقاء کو مسترد کر دیا تھا۔1999میں ڈاکٹر سٹیفن ٹیلر نے لکھا
"کری ایشن ریسرچ سوسائیٹی میں 650سائنسدان رکن ہیں جو سب کے سب سائنس کے کسی نہ کسی میدان میں ماسٹر یا اس سے اوپر کی ڈگری رکھتے ہیں۔ایک حالیہ مضمون میں ڈاکٹر رسل ہمفائریز جو کہ ساندیہ نیشنل لیبارٹریز نیو میکسیکو میں ماہر طبعیات یا فزکس ہیں،نے اندازہ لگایا کہ صرف امریکہ میں دس ہزار سائنسدان ایسے ہیں جو کہ کائنات کی چھ دن میں تخلیق کے نظریے پہ یقین رکھتے ہیں۔"
اگر ہم سے کہا جائے کہ ایک ایسے جدید حقیقی سائنسدان کا نام بتائیں جو زندگی کی خدائ تخلیق پہ یقین رکھتا ہو تو ہم سر ہنری مورس سے آغاز کر سکتے ہیں اگرچہ ارتقا کے حامی صرف اس لیے اسے سائنسدان ماننے سے انکار کردیں گے کیونکہ وہ زندگی کی خدائ تخلیق کا حامی ہے کیونکہ ارتقاء کے حامیوں کے نزدیک ہر وہ سائنسدان جو ارتقاء کے نظریے پہ یقین نہیں رکھتا،سائنسدان نہیں ہوسکتا،لہٰذا ارتقاء کے حامی ارتقاء کی تردید کرنے والے سائنسدانوں جیسا کہ ہنری مورس،جان مورس،لیری وارڈی مین،سٹیو آسٹن اور ڈوانے گش کا مقام محض اس لئے کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ وہ ارتقاء کے نظریے کے مخالف ہیں۔اس طرح ارتقاء کے حامی مائیکل بیہی،اینڈریو سنیلنگ،ڈونلڈ ڈی ینگ اور کرت وائز کی تصدیق  ارتقاء کے مستند سائنسی ثبوت دیے بغیر اس لئے نہیں کرتے کیوں کہ وہ زندگی کی خدائ تخلیق کے حامی ہیں اور دوسری طرف دعوی یہ کرتے ہیں کہ دنیا کے سب سائنسدان نظریہ ارتقاء کے حامی ہیں۔
نظریہ ارتقاء میں اتنی سائنسی خامیاں ہیں کہ یہ کبھی سائنسی اصول یا حقیقت یا قانون بن ہی نہیں سکتا۔یہی وجہ ہے کہ اسے ارتقا کا اصول یا قانون لینے کی بجائے ایک نظریے کے نام سے پکارا جاتا ہے اور ایک سائنسی نظریہ وہ ہوتا ہے جو مطلق سائنسی حقیقت نہ ہو اور اس میں غلطی کی گنجائش موجود ہو۔بذات خود چارلس ڈارون نے 1861ء میں اپنے دوست تھامس تھومٹن کو ایک خط لکھا جس میں اس نے کہا کہ میں نیچرل سلیکشن یا قدرتی چناؤ کے نظریے پہ یقین نہیں رکھتاجو کہ آپ استعمال کرتے ہیں اور نہ ہی میں نظریہ ارتقاء پہ یقین رکھتا ہوں کیونکہ مجھے اس کا کوئ سائنسی ثبوت نہیں ملا۔میں اس پر یقین صرف اس لیے کرتا ہوں کہ کہ یہ علم جنین یا ایمبریالوجی،علم الاشکال یا مارفالوجی کی تقیسم بندی میں یہ میری مدد کرتا ہے۔اس نے خود کہا کہ اس ارتقائ سلسلے میں نہ ملنے والے سائنسی حقائق یا مسنگ لنک ہیں جن کے ملے بغیر یہ نظریہ سچ نہیں ہوسکتا۔یہ حقائق آج تک نہیں ملے۔
آج سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ انسان کا ارتقا انسان جیسے چار حیوانوں یاHomonites سے ہوا۔پہلیLucy ہے جس کا ہمسفرDosnopytichest تھا جو تین ملین سے پانچ لاکھ سال پہلے مرا برف کے زمانے میں،پھرHomosepians آئا جو پانچ لاکھ سال پہلے مرا۔پھر  نینڈر تھال انسان یاNeanderthals آیا جو ایک لاکھ سال یا چالیس ہزار سال پہلے مرا،پھر کرومیگننCromagnon آئے۔1971میں پی پی گراس جو کہ پیرس کی سوجیرین یاSojerion یونیورسٹی میں ارتقائ تحقیقات کے صدر تھے،نے کہا
"یہ مضحکہ خیز ہے،ہم صرف فوسل ریکارڈ کی بنیاد پہ نہیں کہ سکتے کہ ہمارے آباؤ اجداد کون تھے۔"۔
وٹامن سی پہ تحقیق کرکے نوبل پرائز حاصل کرنے والے سر البرٹ جارج نے ایک کتاب لکھی جو کہ ڈارون کے نظریے کے خلاف ہے۔کتاب کا نامThe Can,t Ape And Man ہے۔سر فریڈ ہوائل یاHoyle نے نظریہ ارتقاء کے خلاف کئ کتابیں لکھی،روپرٹ البرٹ نے ڈارون کے نظریہ ارتقاء کے خلاف اپنا ایک الگ نظریہ پیش کیا،سر فرانک سالوسبریSalosbury جو ایک ماہر حیاتیات یا بیالوجی ہیں،نے کہا کہ ڈارون کے نظریے پہ یقین رکھنا غیر منطقی ہے،سروائٹ نیٹ نے ڈارون کے نظریے کے خلاف ایک کتاب لکھی،وہ خود بھی ماہر حیاتیات یا بیالوجی تھے۔اس طرح کئ مثالیں ہیں لیکن آج بھی یہ نظریہ مکتب یعنی سکولوں میں پڑھایا جاتا ہے کہ کیونکہ دنیا بھر کا میڈیا ان یہودی الومیناتی کے ہاتھ میں ہے جو خدائ تخلیق کا نظریہ قبول نہیں کر سکتے  ورنہ ارتقاء کا کوئ مستند سائنسی ثبوت نہیں۔جانداروں میں نچلے درجے پر امیبا پیری میشیاParemishia میں تبدیل ہوسکتا ہے لیکن اس کے بعد کسی بھی۔ جاندار میں کوئ ثبوت نہیں اور تمام سائنسی تحقیقات ارتقاء کے مستند سائنسی ثبوت لانے میں ناکام رہی ہیں۔اس طرح اگر آپ انسان کے  بن مانس سے بننے کا سائنسی امکان یاProbability   شمار کریں تو یہ صفر آتی ہے اور یہ ناممکن ہے۔
(مضمون ابھی جاری ہے)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔