Wednesday, 18 October 2017

اسلام پہ مستشرقین و ملحدین کا سو سال پرانا اعتراض

اسلام پہ مستشرقین و ملحدین کا سو سال پرانا اعتراض جس کا عالم اسلام کی تاریخ میں پہلی بار انتظامیہ آپریشن ارتقائے فہم و دانش اور انتظامیہ سائنس،فلسفہ اور اسلام گروپ نے جواب دیا۔یہ وہ اعزاز ہے جو پورے عالم اسلام میں صرف آپریشن ارتقائے فہم و دانش اور سائنس فلسفہ اور اسلام گروپ کے حصے میں آیا ہے اور جس پہ تفصیلی اور جوابی بحث اج تک کسی نے پیش نہیں کی تھی۔
اس پوسٹ پہ ملحدین کی بوکھلاہٹ اور غصہ اتنا شدید تھا کہ نہ صرف فیس بک کو رپورٹ کرکے سلمان بھائی عرف احید حسن کی یہ پوسٹ فیس بک کی طرف سے بلاک کردی گئی بلکہ ان کا اکاؤنٹ بھی رپورٹ کرکے ان پہ ہر طرح کے گروپس کی تمام سرگرمیوں پہ ایک ہفتے کے لیے پابندی لگوا دی گئی ہے۔
سلمان فرید عرف احید حسن کی یہ پوسٹ اور ان کا اکاؤنٹ ملحدین نے رپورٹ کرکے ان پہ فیس بک کی طرف سے سب گروپس میں ایک ہفتے کے لیے پابندی لگوا دی ہے۔دس منٹ پہلے انہوں نے مجھے میرے ذاتی نمبر پہ مسیج کیا کہ یہ پوسٹ میں ان کی طرف سے کروں پہ میں نے فوری طور پر آن لائن ہوکر یہ پوسٹ دوبارہ کرنا ضروری سمجھا
کیا اسلام کے مطابق حضرت آدم علیہ چھ ہزار سال قبل آئے؟ جب کہ سائنس سے معلوم انسانی تاریخ چار سے چھ لاکھ سال پرانی ہے۔
اسلام پہ مستشرقین و ملحدین کا دیرینہ اعتراض اور اس حوالے سے موجود روایات کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ اور جواب
بیاد: فیس بک پیج مذہب فلسفہ اور سائنس
پیشکش:فیس بک گروپ آپریشن ارتقائے فہم و دانش،فیس بک پیج سائنس، فلسفہ اور اسلام
»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»
ملحدین کہتے ہیں کہ الہامی مذاہب (اہل کتاب و اسلام) کے مطابق جناب آدم 6 ہزار سال قبل دنیا میں تشریف لائے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کون ہے جس کے فوسل اور ڈھانچے آدم علیہ السلام سے بھی ہزاروں سال پرانے ہیں۔
ملحدین نے جن اسلامی ذرائع سے حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان چھ ہزار سال کا وقفہ ثابت کرکے اس سے اسلام پہ اعتراض کرنے کی کوشش کی ہے،ان کی تفصیل درج ذیل ہے۔
1: حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا آدم علیہ السلام نبی تھے ؟ توانہوں نے جواب دیا جی ہاں وہ نبی مکلم تھے ، وہ شخص کہنے لگا ان کے اورنوح علیہما السلام کے درمیان کتنی مدت کا وقفہ تھا ؟ توانہوں نے فرمایا دس صدیاں ۔
اسے ابن حبان نے صحیح ابن حبان ( 14 / 69 ) اورامام حاکم نے مستدرک حاکم ( 2 / 262 ) میں روایت کیا ہے اورامام حاکم نے اسے صحیح اورمسلم کی شرط پرکہا ہے ، اور امام ذھبی نے بھی اس کی موافقت کی ہے
اہل کتاب کے مطابق یہ فاصلہ 900 سال تھا۔
2: حضرت ابوامامۃ رضی اللہ تعالی عنہ ہی کی حدیث ہے جس میں ہے کہ اس شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ نوح اورابراھیم علیہما السلام کے درمیان کتنی مدت کا وقفہ تھا ؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہزاربرس ۔
اسے امام حاکم رحمہ اللہ تعالی نے مستدرک ( 2 / 288 ) میں نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ مسلم کی شرط پرہے لیکن انہوں نے اسے روایت نہیں کیا ، اورامام طبرانی نے معجم الکبیر( 8 / 118 ) میں روایت کیا ہے ، اس حدیث کے بعض راویوں پرضعیف ہونے کے بارہ میں کلام کی گئ ہے اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے شواھد کی بنا پراسے صحیح قرار دیا ہے۔
3:عیسائی اور کچھ اسلامی اہل علم کے مطابق حضرت ابراھیم علیہ السلام اور حضرت موسی علیہ السلام کے درمیان 245 سے 2000 سال کے درمیان کا وقفہ ہے۔
3:نصاری کے مطابق عیسی علیہ السلام اور موسی علیہ السلام کے مابین سترہ سو سال کا فرق ہے۔
محمد بن سعد نے اپنی کتاب " الطبقات " میں ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے نقل کیا ہے کہ موسی بن عمران اورعیسی بن مریم علیہما السلام کےدرمیان ایک ہزار سات سوسال کی مدت ہے لیکن ان کے درمیان کوئ وقفہ نہیں بلکہ ان دونوں کی درمیانی مدت میں بنی اسرائیل میں ایک ہزار نبی بھیجے گئے یہ ان کے علاوہ ہیں ہیں جودوسروں میں بھیجے گئے ، اورعیسی اورنبی علیہما السلام کی پیدائش کےدرمیان پانچ سوننانوے بر س کی مدت ہے ۔ تفسری قرطبی (6/121) ۔
امام قرطبی رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ : اس مدت میں اختلاف ہے ، محمد بن سعد نے اپنی کتاب " الطبقات " میں ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے نقل کیا ہے کہ موسی بن عمران اورعیسی بن مریم علیہما السلام کےدرمیان ایک ہزار سات سوسال کی مدت ہے لیکن ان کے درمیان کوئ وقفہ نہیں بلکہ ان دونوں کی درمیانی مدت میں بنی اسرائیل میں ایک ہزار نبی بھیجے گۓ یہ ان کے علاوہ ہیں ہیں جودوسروں میں بھیجے گۓ ، اورعیسی اورنبی علیہما السلام کی پیدائش کےدرمیان پانچ سوننانوے بر س کی مدت ہے ۔ تفسری قرطبی (6/121) ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں : اہل نقل کا اس پراتفاق ہے کہ یھودیوں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی درمیانی مدت دوہزاربرس سے بھی زیادہ تھی اورنصاری کی مدت اس سے چھ سوبرس ۔ فتح الباری ( 4 / 449 )۔
4:عیسوی کیلنڈر کے مطابق رسول اللہ (ص) 1400 سال قبل تشریف لائے جبکہ جناب عیسی 2000 سال قبل تشریف لائے۔ یعنی پہلے 2 الہامی مذاہب کے مطابق ان میں 600 سال کا فرق ہے۔
یہی چیز صحیح بخاری میں آئی ہے جسکے مطابق جناب سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ عیسی علیہ السلام اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان چھ سوبرس کی مدت ہے ۔
ملحدین کے مطابق اس ساری مدت یعنی حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت نوح علیہ السلام تک ایک ہزار سال + حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے درمیان ایک ہزار سال+ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے حضرت حضرت موسی علیہ السلام تک لگ بھگ اوسط پندرہ سو سال+حضرت موسی علیہ السلام سے حضرت عیسی علیہ السلام تک بارہ سو سے انیس سو سال+ حضرت عیسی علیہ السلام سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک لگ 570 سے چھ سو سال۔یہ کل عرصہ ملا کر لگ بھگ چھ ہزار سال بنتا ہے۔ملحدین دعوی کرتے ہیں کہ اس طرح ثابت ہوتا ہے کہ اسلام کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام چھ ہزار سال قبل تشریف لائے جب کہ دریافت شدہ انسانی فوسل لاکھوں سال پرانے ہیں۔کیا ملحدین کے پیش کردہ یہ ذرائع اور احادیث صحیح ہیں؟ کیا واقعی اسلام کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام چھ ہزار سال قبل تشریف لائے؟ ہم اس مضمون میں اس کا تحقیقی جائزہ لیں گے۔ ہم اس بحث میں نہیں جائیں گے کہ ان روایات میں مذکور لفظ قرن سے مراد چالیس سال،اسی سال،سو سال یا ایک سو بیس سال ہیں۔ہم صرف ان روایات کی صحت پہ بحث کرکے ثابت کریں گے کہ یہ روایات ضعیف اور ناقابل اعتبار ہیں اور ان روایات پہ مبنی ملحدین کا اعتراض بھی بالکل غلط ہے۔
حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام اور کے درمیان دس قرون کے وقفہ کی روایت کی پوری سند کیا ہے۔یہ بھی دیکھنا چاہیے تاکہ پتہ چلے کہ یہ روایت صحیح ہے یا ضعیف اور حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت نوح علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے درمیان ملحدین کی طرف سے پیش کردہ روایات کتنی قابل اعتماد ہیں۔
ملحدین کی طرف سے پیش کردہ مستدرک حاکم اور ابن حبان کی روایت جس کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام کے درمیان ایک ہزار سال کا وقفہ ہے، مستدرک حاکم کی چھ جلدوں کے اردو ترجمہ میں، ہمیں یہ روایت نہیں ملی۔مستدرک حاکم جلد سوم باب سابقہ انبیاء کے حالات و واقعات میں یہ حدیث کہیں پہ مذکور نہیں ہے۔لیکن ابن حبان جلد چودہ کے عربی متن میں یہ روایت بیان کی گئی ہے اور اس روایت کے ذیل میں مستدرک حاکم کے حوالے سے یہ دعوی کیا گیا ہے کہ امام حاکم نے اس روایت کو صحیح کہا ہے اور امام ذہبی نے اس کی تصدیق کی ہے۔اس روایت کا عربی متن درج ذیل ہے:
اخبرنا محمد بن عمر بن یوسف،حدثنا محمد بن عبدالمک بن زنجویہ،حدثنا معاویہ بن سلام،عن ابیہ زید بن سلام قال سمعت ابا سلام ،سمعت ابا امامہ ان رجلا قال یا رسول اللہ النبی کان ادم، قال و نعم مکلم،قال فکم کان بینہ و بین نوح،قال :عشرۃ قرون
اگر ابن حبان اور مستدرک حاکم کی اس روایت کی سند پہ غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس روایت کی سند میں ایک راوی زید بن سلام انتہائی ضعیف اور ناقابل اعتبار راوی ہے۔
اگرچہ اس روایت میں باقی راوی مستند ہوں لیکن زید بن سلام ضعیف راوی ہے۔لہذا ایک ضعیف راوی کی روایت کو ابن حبان اور حاکم کا ٹھیک کہنا غلط ہے۔
طبرانی نے بھی اس روایت کو اسی سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔لہذا طبرانی کی روایت بھی ضعیف ہے
زید بن سلام اپنے باپ سے منسوب کرکے احادیث گھڑا کرتا تھا۔
الہیثمی نے اسے مجمع میں ذکر کیا ہے،اس روایت میں بھی ایک راوی احمد بن خلید الحلبی صحیح نہیں ہے یعنی ضعیف راوی ہے۔
طبرانی کی روایت میں احمد بن خلید الحلبی بھی موجود ہے اور وہ غیر صحیح ہے
ابن کثیر نے اپنی البدایہ والنہایہ یعنی تاریخ ابن کثیر میں یہ روایت ابن حبان کے حوالے سے پیش کی ہے اور ابن حبان کی روایت میں زید بن سلام ضعیف راوی ہے۔
یہ حدیث مسلم نے پیش کی ہے لیکن اس کا استخراج نہیں کیا یعنی اس کے مستند ہونے کی تحقیق پیش نہیں کی اور نہ ہی اسے صحیح مسلم میں پیش کیا لہذا یہ روایت ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔
اسکی سندکا مرکزی راوی "عبد الرحمٰن بن زید بن اسلم " بالاتفاق ضعیف ہے اور اپنے باپ سے (منسوب کر کے) موضوع روایات بیان کرتا ہے اور مذکورہ روایت بھی یہ اپنے والد سے ہی بیان کر رہا ہے۔
عبد الرحمٰن بن زید بن اسلم کے بارے میں محدثین کی آراء
ابن حجر نے اسکو ضعیف کہا ہے:
عبد الرحمن بن زيد بن أسلم العدوي مولاهم ضعيف (تقریب 3865)
ابن حبان نے کہا :
كَانَ مِمَّن يقلب الْأَخْبَار وَهُوَ لَا يعلم حَتَّى كثر ذَلِك فِي رِوَايَته من رفع الْمَرَاسِيل وَإسْنَاد الْمَوْقُوف فَاسْتحقَّ التّرْك
"یہ شخص لاعلمی میں احادیث کو بدل دیا کرتا تھا حتیٰ کہ اس نے بے شمار مرسل روایات کو مرفوع اور موقوف روایات کو مسند بنا دیا ،جس کی وجہ سے یہ محدثین کے نزدیک متروک قرار پایا ۔'' (المجروحین 2/57)
ابن جوزی نے کہا:
ضعفه أحمد وعلي وأبو داود وأبو زرعة وأبو حاتم الرازي والنسائي والدارقطني (الضعفاء والمتروکین 2/95) '' عبدالرحمن بن زیدکو امام احمد بن حنبل ،علی بن مدینی ، ابوداود ، ابوزرعہ ، ابو حاتم رازی ، امام نسائی ، امام دار قطنی رحمہم اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے "۔
یحییٰ بن معین ، علی بن مدینی ، امام بخاری ، امام نسائی نے بھی اسکو ضعیف کہا ہے ۔(میزان الاعتدال 2/564)
ابن سعد نے اسکو ضعیف کہا: ۔
و قال ابن سعد : كان كثير الحديث ، ضعيفا جدا .
ابن خزیمہ نے برے حافظے والا کہا:
و قال ابن خزيمة : ليس هو ممن يحتج أهل العلم بحديثه لسوء حفظه
الساجی نے منکر الحدیث کہا:
قال الساجى : و هو منكر الحديث .
الجوزجانی نے ضعیف کہا:
و قال الجوزجانى : أولاد زيد ضعفاء .
اور ابن جوزی نے کہا کہ اس کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے:
و قال ابن الجوزى : أجمعوا على ضعفه .
(تہذیب التہذیب 6/178-179)
امام حاکم کا تساہل
امام حاکم نے اس روایت کو نقل کر کے کہا : هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ "یہ حدیث صحیح الاسناد ہے"۔
امام حاکم نے اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد اگرچہ اسے صحیح الاسناد کہا ہے لیکن امام حاکم تصحیح حدیث کے معاملے میں متساہل ہیں کسی روایت کے بارے میں انکی منفرد تصیح قبول نہیں کی جاتی (اس کا ذکر آگے آ رہاہے)۔
لہٰذا یہ حاکم کا صریح تساہل ہے اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ خود حاکم اپنی کتا ب میں "عبدالرحمن بن زید بن اسلم" کے متعلق یہ صراحت کر چکے ہیں کہ یہ اپنے باپ سے موضوع احادیث بیان کرتا تھا :
عبد الرَّحْمَن بن زيد بن أسلم روى عَن أَبِيه أَحَادِيث مَوْضُوعَة (المدخل إلی معرفة الصحیح من السقیم 1/154)
اب ایک طرف تو اس کی "عن ابیہ " سے مروی روایات کو موضوع قرار دینا اور پھر خود ہی اس روایت کو صحیح السند کہنا صریح تساہل نہیں تو اور کیا ہے؟
امام حاکم کے اسی تساہل کی نشاندہی امام ذہبی نے ان الفاظ میں کی ہے:
ان في المستدرك أحاديث كثيرة ليست على شرط الصحة بل فيه أحاديث موضوعة شان المستدرك بإخراجها فيه (تذکرۃ الحفاظ 3/1042)
''بلاشبہ المستدرک میں بکثرت ایسی احادیث موجود ہیں جوصحیح حدیث کی شرط کے مطابق نہیں بلکہ اس میں موضوع احادیث بھی ہیں جن کا تذکرہ مستدرک پر ایک دھبہ ہے۔''
حاکم کے اسی تساہل کی بنا پر انکو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
ابن حجر نے حاکم کی تصیح پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے لکھا:
ومن العجيب ما وقع للحاكم أنه أخرج لعبد الرحمن بن زيد بن أسلم. وقال بعد روايته:
"هذا صحيح الإسناد، وهو أول حديث ذكرته لعبد الرحمن"4. مع أنه قال في كتابه الذي جمعه في الضعفاء:
"عبد الرحمن بن زيد بن أسلم روى/(ر26/ب) عن أبيه أحاديث موضوعة لا يخفى على من تأملها من أهل الصنعة أن الحمل فيها عليه".
فكان هذا من عجائب ما وقع له من التساهل والغفلة.(النکت 1/318-319)
"اور یہ عجیب بات ہے کہ حاکم نے عبد الرحمٰن بن زید کی روایت کو نقل کرنے کے بعد کہا :
'یہ روایت صحیح الاسناد ہے اور یہ عبد الرحمٰن کی ذکر کردہ پہلی روایت ہے (مستدرک میں)' ،
باوجود اس کے اپنی کتاب، جس میں انھوں نے الضعفاء کو جمع کیا ، کہا:
' یہ اپنے باپ سے موضوع احادیث بیان کرتا تھا۔ غور کرنے سے اس فن کے ماہرین پر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اس حدیث کا دارو مدار اس عبدالرحمن بن زید پر ہے '،
(ابن حجر کہتے ہیں) یہ ان عجائب میں سے ہے جو ان (حاکم ) سے تساہل اور غفلت کی بنا پر ہوا "
ابن حجر نے امام حاکم کے اس تساہل اور تناقض کی وجہ یہ ذکر کی ہے کہ:
أنه حصل له تغير وغفلة في آخر عمره ويدل على ذلك أنه ذكر جماعة في كتاب الضعفاء له وقطع بترك الرواية عنهم ومنع من الاحتجاج بهم ثم أخرج أحاديث بعضهم في مستدركه وصححها من ذلك (لسان المیزان 5/233)
'' مستدرک کی تصنیف کے وقت ان کے حافظے میں فرق آگیا تھا، اس کی دلیل یہ ہے کہ اُنہوں نے رواة کی ایک کثیر تعداد کو اپنی کتاب الضعفاء میں ذکر کیا ہے اور ان سے استدلال کو ممنوع قرار دیا ہے ، لیکن اپنی کتاب مستدرک میں خود اُنہیں سے روایات نقل کی ہیں اور اُنہیں صحیح قرار دیا ہے"۔
اس کے بعد بطور مثال ابن حجر نے اس روایت کا حوالہ دیا:
أنه أخرج حديثا لعبد الرحمن بن زيد بن أسلم وكان قد ذكره في الضعفاء فقال: أنه روى عن أبيه أحاديث موضوعة لا تخفى على من تأملها من أهل الصنعة أن الحمل فيها عليه
انہوں نے عبد الرحمٰن بن زید بن اسلم کی روایت کو مستدرک میں نقل کیا حالانکہ وہ اسکا ذکر الضعفاء میں کر چکے تھے انہوں نے کہا: کہ یہ اپنے باپ سے موضوع احادیث بیان کرتا تھا۔ غور کرنے سے اس فن کے ماہرین پر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اس حدیث کا دارو مدار اس عبدالرحمن بن زید پر ہے "۔
اسی مستدرک حاکم نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالے سے حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت ادریس علیہ السلام کے درمیان ایک ہزار سال یا قرون کا وقفہ قرار دیا لیکن نہ اس کی سند پیش کی نہ اس کا کوئی حوالہ دیا۔روایت مشکوک ہے۔حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام کے درمیان وقفہ کے حوالے سے ایک روایت میں ہے کہ لوگ حضرت ادریس علیہ السلام کے بعد گمراہ ہونے لگے اور ان کے ظلم کی وجہ سے حضرت ادریس علیہ السلام کو چھٹے آسمان پہ اٹھا لیا گیا جب کہ دوسری روایت میں ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام تک سب لوگ مسلمان تھے۔روایات میں باہم شدید اختلاف ہے۔
مستدرک حاکم نے پہلے کہا کہ حضرت ادریس علیہ السلام اور حضرت آدم علیہ السلام کے درمیان دس قرون یعنی ایک ہزار سال ہیں پھر کہا کہ حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام کے درمیان دس قرون ہیں۔دونوں بیان ایک دوسرے کے خلاف ہیں۔اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت ادریس علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام ایک ہی وقت میں موجود تھے جو کہ بالکل غلط ہے۔ مستدرک حاکم کا اپنا بیان ان کے دوسرے بیان کے خلاف ہےاور بات یہ کہ ایک ہزار سال کا وقفہ کیسے جب کہ اس زمانے میں تو صرف ایک ہی نسل کی عمر ہزار سال ہوتی تھی جب کہ حضرت ادریس علیہ السلام اور حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام کے درمیان کئی نسلیں گزری ہیں۔ اور دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت نوح علیہ السلام کے درمیان ایک ہزار سال کے وقفہ کی روایت میں ضعیف راوی موجود ہیں۔ لہذا سب حوالوں سے وہ روایت جس میں حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام کے درمیان ایک ہزار سال یا دس قرون کا وقفہ بیان کیا گیا ہے ،ضعیف ہے۔
اب ملحدین کی طرف سے پیش کردہ مستدرک حاکم اور طبرانی کی پیش کردہ اس روایت کا جائزہ لیجئے جس کے مطابق حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے درمیان دس قرون یعنی ایک ہزار سال کا وقفہ ہے۔اس روایت کا عربی متن درج ذیل ہے۔
أَخْبَرَنِي أَبُو نَصْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عُمَرَ الْخَفَّافُ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ سَلَمَةَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، ثنا أَبُو دَاوُدَ، ثنا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: §«كَانَ بَيْنَ نُوحٍ وَآدَمَ عَشَرَةُ قُرُونٍ كُلُّهُمْ عَلَى شَرِيعَةٍ مِنَ الْحَقِّ، فَاخْتَلَفُوا فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ» . قَالَ: وَكَذَلِكَ فِي قِرَاءَةِ عَبْدِ اللَّهِ «كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَاخْتَلَفُوا» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الْبُخَارِيِّ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ "K4009 - على شرط البخاري
حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ بَطَّةَ الْأَصْبَهَانِيُّ، ثنا الْحَسَنُ بْنُ الْجَهْمِ التَّمِيمِيُّ، ثنا الْحُسَيْنُ بْنُ الْفَرَجِ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ الْوَاقِدِيُّ، حَدَّثَنِي شُرَيْحُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُسْرٍ، قَالَ: وَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَلَى رَأْسِي، فَقَالَ: «§هَذَا الْغُلَامُ يَعِيشُ قَرْنًا» قَالَ: فَعَاشَ مِائَةَ سَنَةٍ قَالَ الْوَاقِدِيُّ: يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ {وَقُرُونًا بَيْنَ ذَلِكَ كَثِيرًا} [الفرقان: 38] فَكَانَ بَيْنَ نُوحٍ وَآدَمَ عَشَرَةُ قُرُونٍ وَبَيْنَهُ وَبَيْنَ إِبْرَاهِيمَ عَشَرَةُ قُرُونٍ فَوُلِدَ إِبْرَاهِيمُ خَلِيلُ اللَّهِ عَلَى رَأْسِ أَلْفَيْ سَنَةٍ مِنْ خَلْقِ آدَمَK4016 - سكت عنه الذهبي في التلخيص
ذكر_إبراهيم_النبي_صلى_الله_عليه_وسلم_خليل_الله_عز_وجل_وبينه_وبين_نوح_هود_وصالح_صلوات_الله_عليهما
مستدرک حاکم کی اس روایت میں محمد بن عمر الواقدی ضعیف راوی ہے۔تاریخ میں الواقدی کے کام کے سبھی معترف ہیں اور جس کی روایت کردہ احادیث قابل اعتماد نہیں اس کی تاریخ کیسے قابل اعتماد کہی جاسکتی ہے جب کہ ہمارے نزدیک قرآن اور صحیح احادیث تاریخ سے زیادہ قابل اعتماد ہیں۔ مگر محدثین نے الواقدی کو محدث تسلیم نہیں کیا، علم الحدیث کے علوم و فنون کی رو میں اُنہیں ضعیف، کمزور، غیر ثقہ یہاں تک کہ موضوع احادیث کا خالق کہا گیا۔ خطیب بغدادی نے امام بخاری کا قول نقل کیا ہے کہ : " محمد بن عمر الواقدی قاضی بغداد، متروک الحدیث" یعنی الواقدی کو متروک الحدیث کہا۔ جن محدثین نے الواقدی کو علم الحدیث میں ضعیف یا غیر ثقہ کہا ہے وہ یہ ہیں:
امام شافعی متوفی 204ھ۔
امام یحییٰ بن معین متوفی 233ھ۔
امام اسحاق ابن راہویہ متوفی 238ھ۔
امام احمد بن حنبل متوفی 241ھ۔
امام علی بن المدینی متوفی 241ھ۔
امام ابو عبداللہ محمد بن اسمٰعیل البخاری متوفی 256ھ۔
امام ابو زُرعہ الرازی متوفی 264ھ۔
امام ابوداود السجستانی متوفی 275ھ۔
امام ابو حاتم محمد بن ادریس الرازی متوفی 277ھ۔
امام نسائی متوفی 303ھ۔
امام ابن عدی متوفی 365ھ۔
امام دارقطنی متوفی 385ھ۔
امام ابو زکریا شرف الدین النووی متوفی 676ھ۔
امام شمس الدین الذھبی متوفی 748ھ۔
امام العلامہ ابن حجر العسقلانی متوفی 852ھ۔
طبقات ابن سعد جلد اول میں یہ روایت قصیبہ بن عقبہ کے حوالے سے حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے۔اس کا عربی متن اور اردو ترجمہ درج ذیل ہے
اخبرنا قبیصہ بن عقبہ،اخبرنا سفیان ابن سعید الثوری عن ابیہ عن عکرمہ قال : کان بین آدم و نوح عشرۃ قرون کلھم علی الاسلام
ابن سعد نے کہا،قصیبہ بن عقبہ نے ہمیں بتایا،سفیان بن سعید نے ہمیں بتایا اور انہوں نے اپنے والد کی سند سے بتایا اور انہوں نے حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالے سے فرمایا ،کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام کے درمیان دس قرون یعنی دس نسلوں یا دس سو یعنی ایک ہزار سال کا وقفہ ہے اور وہ سب کے سب اسلام پہ قائم تھے۔۔
طبقات ابن سعد کی یہ روایت صحیح نہیں کہی جاسکتی بالکل بھی۔طبقات ابن سعد کی قبیصہ بن عقبہ کی روایت میں صرف تین راوی ہیں۔درمیان کے باقی راوی کون ہیں،ان کا تذکرہ کیوں نہیں کیا گیا، نہ ہی ابن سعد کی بیان کردہ اس روایت کی تائید ہمارے علم کے مطابق حدیث کی کسی دوسری کتاب میں ہے۔لہذا ابن سعد کی یہ روایت ہماری نظر میں منقطع اور ضعیف ہے۔حضرت عمر بن عبدالعزیز کا دور حکومت 717-720 کا ہے۔ان کے دور میں حضرت سعید بن مسروق رحمہ اللہ علیہ فوت ہوئے۔جب کہ سفیان ابن سعید الثوری اگر یہ تصور کر لیا ۔جائے کہ طبقات ابن سعد کی حدیث میں مذکور سفیان ابن سعید ،سفیان بن سعید ثوری ہیں تو ان کی ولادت تاریخ کے مطابق 715ء یا 717ء میں ہوئی۔اور اسی مدت میں یا اس سے پہلے ان کے والد فوت ہوگئے۔پھر کس طرح وہ دو تین سال کی عمر میں یہ حدیث روایت کر سکتے تھے۔اگر انہوں نے یہ روایت اپنے والد سے کسی اور راوی کے ذریعے روایت کی ہے تو قبیصہ بن عقبہ اس راوی کا نام کیوں بیان نہیں کرتے۔ یہ روایت ابن سعد یا قبیصہ بن عقبہ یا دونوں کی طرف سے باقی راویوں کا تذکرہ نہ کرنے کی وجہ سے منقطع اور ضعیف ہے۔طبقات ابن سعد میں کچھ ضعیف روایات بھی ہیں جیسا کہ اوپر واقدی کے حوالے سے بیان کردہ روایت۔خلاصہ یہ کہ حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کتنا وقفہ ہے اس کے بارے میں شریعت میں کچھ مذکور نہیں اور جو ابن حبان،طبرانی مستدرک حاکم اور ابن کثیر کی روایات ہیں وہ سب کی سب ضعیف ہیں۔
لہذا ملحدین کا اسلام پہ یہ اعتراض کہ کہ اسلام کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام چھ ہزار سال پہلے تشریف لائے جب کہ انسانی فوسل لاکھوں سال پرانے ہیں بالکل غلط ہے۔
یہی روایت ابن سعد نے الواقدی کے حوالے سے بھی پیش کی ہے اور واقدی انتہائی ضعیف راوی ہے اور اس پہ ہم اوپر بحث کر چکے ہیں۔اصل میں طبقات ابن سعد تاریخ کی کتاب ہے اور تاریخ میں رطب و یابس سب شامل ہیں۔
سیر کی کتاب میں جب تک مکمل سند نہ ہو وہ قابل استدلال نہیں۔
لہذا ملحدین کا یہ اعتراض کہ اسلام کے مطابق حضرت آدم علیہ چھ ہزار سال قبل تشریف لائے بالکل غلط اور انتہائی ضعیف روایات پہ مبنی ہے۔قرآن یا کسی صحیح حدیث میں حضرت آدم علیہ السلام یا حضرت نوح علیہ السلام یا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے کے بارے میں کوئی وضاحت پیش نہیں کی گئ۔لہذا اسلام پہ زبردستی اس بات کا الزام دینا بالکل غلط ہے۔

حوالہ جات:

http://lib.efatwa.ir/42119/2/599/""
http://web.archive.org/web/20150324031350/http://www.soebratie.nl/religie/hadith/IbnSad.html#Book
http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/12056/753/05
https://archive.org/stream/SahihIbnHibanTartibIbnBilban/SahehBnHibban_14#page/n66/mode/1up
https://m.facebook.com/notes/the-real-islam-%D8%A7%D9%84%D8%AF%DB%8C%D9%86-%D8%A7%D9%84%D8%AE%D8%A7%D9%84%D8%B5/%D8%B1%D9%88%D8%A7%DB%8C%D8%AA-%D9%84%D9%88%D9%84%D8%A7%DA%A9-%DA%A9%DB%8C-%D8%AD%D9%82%DB%8C%D9%82%D8%AA-%D9%85%D8%AD%D8%AF%D8%AB%DB%8C%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%B2%D8%A8%D8%A7%D9%86-%D8%B3%DB%92/782947998428423/

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔