Thursday, 5 October 2017

فرعونِ (موسیٰ علیہ السلام) یعنی رعمسس دوم کی فوج کے بقایا جات کے سائنسی ثبوت

فرعونِ (موسیٰ علیہ السلام) یعنی رعمسس دوم کی فوج کے بقایاجات اور سائنس
 
فرعونِ (موسیٰ علیہ السلام) یعنی رعمسس دوم کی فوج کے بقایا جات سائنس کیسے بحیرہ احمر میں آج تین ہزار سال بعد دریافت کر رہی ہے جب کہ اتنے زمانے میں سمندر کے نمکین پانی میں یہ ہتھیار زنگ زدہ ہو جاتے اور ہڈیوں گل جاتیں؟
فرعون کی فوج کی بقایا جات کی بحیرہ احمر میں سائنس کی طرف سے دریافت،اس پہ کچھ سوالات اور ان کا جواب
تحریر: احید حسن
»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»
اگر تاریخ کا گہرا مطالعہ کریں تو معلوم ہوجائے گا کہ فرعون موسی رعمسس دوم کا زمانہ 1279 قبل مسیح سے 1213 قبل مسیح کا ہے یعنی کانسی کے زمانے کا۔یہ وہ زمانہ ہے جب انسان کانسی،ٹن،تانبے اور ارسینک دھات سے بنی اشیاء اور ہتھیار استعمال کرتا تھا۔یہ۔ چیزیں سمندر کے نمکین پانی میں زنگ نہیں پکڑتیں۔لہذا 1213 قبل مسیح یعنی اج سے 3230 سال بعد بھی اج سائنسدانوں کو اس فرعون اور اس کی سمندر میں غرق ہونے والی چیزوں کے آثار مل رہے ہیں تو یہ بات سائنس کے خلاف نہیں بلکہ سائنس کے عین مطابق ہے۔کانسی کا زمانہ اس فرعون کی موت کے 13 سال بعد ختم ہوا۔یعنی 1200 قبل مسیح میں۔اس زمانے کی تاریخی تقسیم درج ذیل ہے

Early Bronze Age (EBA)
3300–2100 BC
3300–3000: EBA I
3000–2700: EBA II
2700–2200: EBA III
2200–2100: EBA IV
Middle Bronze Age (MBA)
Also, Intermediate Bronze Age (IBA)
2100–1550 BC
2100–2000: MBA I
2000–1750: MBA II A
1750–1650: MBA II B
1650–1550: MBA II C
Late Bronze Age (LBA)
1550–1200 BC
1550–1400: LBA I
1400–1300: LBA II A
1300–1200: LBA II B (Bronze Age collapse)
لہذا جب اس زمانے میں لوہے کی جگہ باقی دھاتوں سے بنی اشیاء اور ہتھیار استعمال میں تھے تو ہم نہیں کہ سکتے کہ یہ چیزیں سمندر میں غرق ہونے کے بعد نمک پکڑ کر معدوم کیوں نہ ہوگئ اور سائنسدانوں کو فرعون کی فوج کے جو رتھ یعنی ایک طرح کی قدیم گاڑیاں ملی ہیں ان کے پاؤں سونے کے ہیں اور سونا بھی زنگ نہیں پکڑتا۔لہذا اج 3230 سال بعد بھی سمندر میں فرعون کی فوج کے غرق ہونے کے نشان موجود ہیں اور یہ بات خود سائنس ثابت کر رہی ہے۔لہذا مذہب کا فرعون کے سمندر میں غرق ہونے کا مقدمہ اور بنی اسرائیل کے باحفاظت پار جانے اور سمندر کے ان کو راستہ دینے کی بات جدید سائنس خود ثابت کر رہی ہے۔

کچھ دوست سوال کرتے ہیں کہ سمندر میں اتنے عرصے بعد بھی فرعون کی فوج کی لاشوں کے سمندر میں غرق ہونے کے بعد ڈھانچے بکھر کیوں نہیں گئے۔ہم نے کبھی نہیں کہا کہ یہ ڈھانچے ایک ہی جگہ پہ اکٹھے ملے۔اس حوالے سے سائنسدانوں نے جو تحقیق کی ہے اس کے مطابق یہ ڈھانچے کئی کلومیٹر کے علاقے میں بکھرے ملے جن کی تعدادتین ہزار کے لگ بھگ ہے۔اور ساتھ ہی فوجی سازو سامان ملا ہے جو مذہب کی اس بات کو ظاہر کر رہا ہے کہ یہاں ایک بہت بڑی فوج غرق ہوئی تھی۔مزید سوال یہ تھا کہ سمندر میں ہڈیاں کیسے محفوظ رہ گئی۔سمندر میں ہڈیاں محفوظ رہ سکتی ہیں۔یہ بات خود سائنس ثابت کر رہی ہے۔سائنسدانوں نے سمندر کی تہہ میں دو ہزار سال پرانے غرق ہونے والے ایک جہاز سے انسان کی ہڈیاں اور پھر ان ہڈیوں سے ڈی این اے حاصل کیا۔اس طرح ایک جگہ سائنسدانوں نے پانی سے تیرہ ہزار سال قبل کی ایک لڑکی کی ہڈیاں اور ڈھانچہ حاصل کیا جب کہ فرعون کی تاریخ تو محض تین ہزار سال قبل کی ہے۔میری بات کی تصدیق درج ذیل لنکس کر رہے ہیں۔مطالعہ کر لیجئے گا
https://www.google.com.pk/…/perfectly-preserved-13000-y…/amp
www.nature.com/…/human-skeleton-found-on-famed-antikythera-…
http://wyattmuseum.com/chariot-wheels-in-the-red-s…/2011-669
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Bronze_Age
No automatic alt text available.
Image may contain: people sitting
No automatic alt text available.
No automatic alt text available.
+11

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔