کیا واقعہ معراج سائنسی طور پر غلط ہے؟
واقعہ معراج پر ملحدین کے سائنسی اعتراضات اور ان کے جوابات
تدوین و ترتیب۔۔۔احید حسن
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
کہا جاتا ہے کہ موجودہ سائنس انسانی شعور کے ارتقاء کا عروج ہے لیکن سائنس دان اور دانشور یہ حقیقت تسلیم کرنے پر مجبور نظر آتے ہیں کہ انسان قدرت کی ودیعت کردہ صلاحیتوں کا ابھی تک صرف پانچ فیصد حصہ استعمال کرسکا ہے ۔قدرت کی عطا کردہ بقیہ پچانوے فیصد صلاحیتیں انسان سے پوشیدہ ہیں ۔ وہ علم جو سو فیصد صلاحیتوں کا احاطہ کرتا ہو،اُسے پانچ فیصد ی محدود ذہن سے سمجھنا ناممکن امر ہے۔واقعہ معراج ایک ایسی ہی مسلمہ حقیقت ہے اور علم ہے جو سائنسی توجیہ کا محتاج نہیں ہے۔
یہی باتیں جب مخبر ِ صادق صلی اللہ علیہ وسلم نے مکی دور میں قریش کے سامنے ارشاد فرمائیں تو ناقابلِ یقین اور بعید از ممکنات تھیں۔
سورہ بنی اسرائیل میں لفظ ”سبحان الذی“ سے ابتداءخود اس بات کی دلیل ہے کہ یہ غیر معمولی واقعہ تھا جو فطرت کے عام قوانین سے ہٹ کر واقع ہوا۔ اللہ تعالیٰ کو اپنی قدرت کا کرشمہ دکھانا مقصود تھا۔ لہٰذا رات کے ایک قلیل حصے میں یہ عظیم الشان سفر پیش آیا۔ اور یہ وقت زمان و مکان کی فطری قیود سے آزاد تھا۔ اس بات کا سمجھنا آج کے انسان کے لیے نسبتاً آسان ہے۔
بیت الحرام (مکہ) سے مسجد ِ اقصیٰ (فلسطین) کا زمین کا سفر جسے اسراءکہا جاتا ہے ، سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے براق پر کیا۔ براق، برق (بجلی) سے مشتق ہے جس کی سُرعت ِ رفتار سائنس دانوں نے ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ بتائی ہے۔ جب برق کی یہ سرعت ہوسکتی ہے تو بُراق جو اللہ تعالیٰ کا راکٹ تھا اس کی تیز رفتاری اور سبک سری پر کیوں شک کیا جائے؟ غرض سفرِ معراج اللہ جل جلالہ اور خالقِ کائنات کی غیر محدود قوت اور قدرت ِ کاملہ کا مظاہرہ تھا جس نے انسان کو ایک نیا نظریہ دیا اور تاریخ پر اپنا مستقل اثر چھوڑا۔ آج کی خلائی تسخیر، چاند پر اترنے کی کامیاب کوشش سب واقعہ معراج سے تعلق رکھتی ہیں۔
واقعہ معراج اگر خواب ہوتا تو اس میں کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ خواب میں اکثر انسان مافوق الفطرت اور محیرالعقول باتیں دیکھتا ہی ہے۔ خواب کو نہ آج تک کسی نے اس درجہ اہمیت دی اور نہ وہ اس کا مستحق ہے۔
آئن سٹائن کا نظریہ اضافت یا تھیوری آف ریلیٹویٹی دو حصوں پر مبنی ہے ۔ ایک حصہ " نظریہ اضافیت خصوصی"(Special Theory of Relativity) کہلاتا ہے جبکہ دوسرا حصہ " نظریہ اضافیت عمومی " (General Theory of Relativity) کے نام سے پہچانا جاتا ہے ۔ خصوصی نظریہ اضافیت کو سمجھنے کے لیے ہم ایک مثال کا سہارا لیں گے۔
فرض کیجئے کہ ایک ایسا راکٹ بنا لیا گیا ہے جو روشنی کی رفتار (یعنی تین لاکھ کلومیٹر فی سکینڈ)سے ذرا کم رفتار پر سفر کرسکتا ہے ۔ا س راکٹ پر خلا ء بازوں کی ایک ٹیم روانہ کی جاتی ہے ۔راکٹ کی رفتار اتنی زیادہ ہے کہ زمین پر موجود تمام لوگ اس کے مقابلے میں بے حس وحرکت نظر آتے ہیں ۔ راکٹ کا عملہ مسلسل ایک سال تک اسی رفتار سے خلاء میں سفر کرنےکے بعد زمین کی طرف پلٹتا ہے اوراسی تیزی سے واپسی کا سفر بھی کرتا ہے مگر جب وہ زمین پر پہنچتے ہیں تو انہیں علم ہوتا ہے کہ یہاں تو ان کی غیر موجودگی میں ایک طویل عرصہ گزر چکا ہے ۔اپنے جن دوستوں کو وہ لانچنگ پیڈ پر خدا حافظ کہہ کر گئے تھے ،انہیں مرے ہوئے بھی پچاس برس سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے اور جن بچوں کو وہ غاؤں غاؤں کرتا ہوا چھوڑ گئے تھے وہ سن رسیدہ بوڑھوں کی حیثیت سے ان کا استقبال کررہے ہیں ۔وہ شدید طور پر حیران ہوتے ہیں کہ انہوں نے تو سفر میں دو سال گزارے لیکن زمین پر اتنے برس کس طرح گزر گئے ۔اضافیت میں اسے " جڑواں تقاقضہ" (Twins Paradox) کہا جاتا ہے اور اس تقاقضے کا جواب خصوصی نظریہ اضافیت "وقت میں تاخیر" (Time Dilation) کے ذریعے فراہم کرتا ہے۔ جب کسی چیز کی رفتار بے انتہاء بڑھ جائے اور روشنی کی رفتار کے قریب پہنچنےلگے تو وقت ساکن لوگوں کے مقابلے میں سست پڑنا شروع ہوجاتا ہے ،یعنی یہ ممکن ہے کہ جب ہماری مثال کے خلائی مسافروں کے لئے ایک سکینڈ گزرا ہو تو زمینی باشندوں پر اسی دوران میں کئی گھنٹے گزر گئے ہوں۔
اسی مثال کا ایک اور اہم پہلو یہ ہےکہ وقت صرف متحرک شے کے لئے آہستہ ہوتا ہے ۔لہٰذا اگر کوئی ساکن فرد مذکورہ راکٹ میں سوار اپنے کسی دوست کا منتظر ہے تو ا س کے لیے انتظار کے لمحے طویل ہوتے چلے جائیں گے ۔یہی وہ مقام ہے جہاں آکر ہم نظریہ اضافیت کے ذریعے واقعہ معراج کی توجیہ میں غلطی کرجاتے ہیں ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب آنحضرت ﷺ معراج کے سفر سے واپس آئے تو حجرہ مبارک کے دروازے پرلٹکی ہوئی کنڈی اسی طرح ہل رہی تھی جیسے کہ آپ ﷺ چھوڑ کر گئے تھے۔گویا اتنے طویل عرصے میں زمین پر ایک لمحہ بھی نہیں گزرا ۔اگر خصوصی نظریہ اضافیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس واقعے کی حقانیت جاننے کی کوشش کی جائے تو معلوم ہو گا کہ اصلاً زمین پر آنحضرت ﷺ کی غیر موجودگی میں کئی برس گزر جانے چاہئیں تھے لیکن ایسا نہیں ہوا۔
نظریہ اضافیت ہی کا دوسرا حصہ یعنی "عمومی نظریہ اضافیت " ہمارے سوا ل کا تسلی بخش جواب دیتا ہے ۔عمومی نظریہ اضافیت میں آئن سٹائن نے وقت (زمان)اور خلاء (مکان)کو ایک دوسرے سے مربوط کرکے زمان ومکان (Time and Space)کی مخلوط شکل میں پیش کیا ہے اور کائنات کی اسی انداز سے منظر کشی کی ہے ۔کائنات میں تین جہتیں مکانی (Spatial Dimensions) ہیں جنہیں ہم لمبائی ،چوڑائی اور اونچائی (یاموٹائی )سے تعبیر کرتےہیں ،جب کہ ایک جہت زمانی ہے جسے ہم وقت کہتے ہیں ۔ اس طرح عمومی اضافیت نے کائنات کو زمان ومکان کی ایک چادر (Sheet)کے طور پر پیش کیا ہے ۔
تمام کہکشائیں ،جھرمٹ ،ستارے ،سیارے ،سیارچے اور شہابئے وغیرہ کائنات کی اسی زمانی چادر پر منحصر ہیں اور قدرت کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کے تابع ہیں ۔ انسان چونکہ اسی کائنات مظاہر کا باشندہ ہے لہٰذا اس کی کیفیت بھی کچھ مختلف نہیں ۔آئن سٹائن کے عمومی نظریہ اضافیت کے تحت کائنات کےکسی بھی حصے کو زمان ومکان کی اس چادر میں ایک نقطے کی حیثیت سے بیان کیا جاسکتا ہے ۔اس نظریے نے انسان کو احساس دلایا ہےکہ وہ کتنا بے وقعت اور کس قدر محدود ہے ۔
کارل ساگان (Carl Sagan) جو ایک مشہورامریکی ماہر فلکیات ہے ،اپنی کتاب "کائنات" (Cosmos) میں ایک فرضی مخلوق کا تصور پیش کرتا ہے جو صرف دو جہتی ( Two Dimensional) ہے۔ وہ میز کی سطح پر پڑنے والے سائے کی مانندہیں ۔ انہیں صرف دو مکانی جہتیں ہی معلوم ہیں ۔ جن میں وہ خود وجود رکھتے ہیں یعنی لمبائی اور چوڑائی ۔چونکہ وہ ان ہی دو جہتوں میں محدود ہیں لہٰذا وہ نہ تو موٹائی یا اونچائی کا ادراک کرسکتے ہیں اور نہ ہی ان کے یہاں موٹائی یا اونچائی کا کوئی تصور ہے ۔وہ صرف ایک سطح (Surface) پرہی رہتے ہیں ۔ایسی ہی کسی مخلوق سے انسان جیسی سہ جہتی (Three Dimensional) مخلوق کی ملاقات ہو جاتی ہے ۔راہ ورسم بڑھانے کے لئے سہ جہتی مخلوق ،اس دو جہتی مخلوق کو آواز دے کر پکارتی ہے ۔اس پر دوجہتی مخلوق ڈر جاتی اور سمجھتی ہے کہ یہ آواز اس کے اپنے اندر سے آئی ہے۔
سہ جہتی مخلوق ،دوجہتی سطح میں داخل ہوجاتی ہے تاکہ اپنا دیدار کرا سکے مگر دو جہتی مخلوق کی تمام تر حسیات صرف دو جہتوں تک ہی محدود ہیں ۔اس لیے وہ سہ جہتی مخلوق کے جسم کا وہی حصہ دیکھ پاتی ہے جواس سطح پر ہے ۔وہ مزید خوف زدہ ہو جاتی ہے ۔اس کا خوف دور کرنے کے لیے سہ جہتی مخلوق ،دو جہتی مخلوق کو اونچائی کی سمت اٹھا لیتی ہے اور وہ اپنی دینا والوں کی نظر میں "غائب " ہوجاتا ہے جبکہ وہ اپنے اصل مقام سے ذرا سا اوپر جاتا ہے ۔سہ جہتی مخلوق اسے اونچائی اور موٹائی والی چیزیں دکھاتی ہے اور بتاتی ہےکہ یہ ایک اور جہت ہے جس کا مشاہدہ وہ اپنی دو جہتی دنیا میں رہتے ہوئے نہیں کرسکتا تھا۔آخرکار دو جہتی مخلوق کو اس کی دنیا میں چھوڑ کر سہ جہتی مخلوق رخصت ہو جاتی ہے ۔اس انوکھے تجربے کے بارے میں جب یہ دوجہتی مخلوق اپنے دوستوں کو بتاتی ہے اور کہتی ہے کہ اس نے ایک نئی جہت کا سفر کیا ہے جسے اونچائی کہتے ہیں ،مگر اپنی دنیا کی محدودیت کے باعث وہ اپنے دوستوں کو یہ سمجھانے سے قاصر ہے کہ اونچائی والی جہت کس طرف ہے ۔اس کے دوست اس سے کہتے ہیں کہ آرام کرو اور ذہن پر دباؤ نہ ڈالو کیونکہ ان کے خیال میں اس کا دماغ خراب ہوگیا ہے۔
ہم انسانوں کی کیفیت بھی دوجہتی سطح پر محدود اس مخلوق کی مانند ہے ۔فرق صرف اتنا ہے کہ ہماری طبعی قفس (Physical Prison) چہار جہتی ہے اور اسے ہم وسیع و عریض کائنات کے طو پر جانتے ہیں ۔ہماری طرح کائنات میں روبہ عمل طبعی قوانین بھی ان ہی چہار جہتوں پر چلنے کے پابند ہیں اور ان سے باہر نہیں جا سکتے ۔یہی وجہ ہے کہ عالم بالا کی کائنات کی تفہیم ہمارے لیے ناممکن ہے او ر اس جہاں دیگر کے مظاہر ہمارے مشاہدات سےبالاتر ہیں ۔
اب ہم واپس آتے ہیں اپنے اصل موضوع کی طرف ۔عالم دنیا یعنی قابل مشاہدہ کائنات اور عالم بالا یعنی ہمارے مشاہدے و ادراک سے ماوراء کائنات دو الگ زمانی و مکانی چادریں ہیں ۔یہ ایک دوسرے کے قریب توہو سکتی ہیں لیکن بے انتہاء قربت کے باوجود ایک کائنات میں جو کچھ ہورہا ہے اس کا دوسری کائنات میں ہونے والے عمل پر نہ اثر پڑے گا اور نہ اسے وہاں محسوس کیا جائے گا۔
حضور اکرم ﷺ زمان ومکان کی کائناتی چادر کے ایک نقطے پر سے دوسری زمانی ومکانی چادر پر پہنچے اور معراج کے مشاہدات کے بعد (خواہ اس کی مدت کتنی ہی طویل کیوں نہ رہی ہو)آنحضرت ﷺ زمان ومکان کی کائناتی چادر کے بالکل اسی نقطے پر واپس پہنچ گئے جہاں آپ ﷺ معراج سے قبل تھے۔ او ریہ وہی نقطہ تھا جب آنحضرت ﷺ کو دروازے کی کنڈی اسی طرح ہلتی ہوئی ملی جیسی کہ وہ چھوڑ کر گئے تھے۔گویا معراج کے واقعے میں وقت کی تاخیر کی بجائے زمان ومکان میں سفر والا نظریہ زیادہ صحیح محسوس ہوتا ہے۔
واقعہ معراج بعض لوگوں کی سمجھ میں اس لیےنہیں آتا کہ وہ کہتے ہیں کہ
ایسے فضائی سفر میں پہلی رکاوٹ کشش ثقل ہے کہ جس پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے غیر معمولی وسائل و ذرائع کی ضرورت ہے کیونکہ زمین کے مدار اور مرکز ثقل سے نکلنے کے لیے کم از کم چالیس ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ رفتار کی ضرورت ہے ۔
دوسری رکاوٹ یہ ہے کہ زمین کے باہر خلا میں ہوا نہیں ہے جبکہ ہوا کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا ۔
تیسری رکاوٹ ایسے سفر میں اس حصے میں سورج کی جلادینے والی تپش ہے کہ جس حصے پر سورج کی مستقیماً روشنی پڑ رہی ہے اور اس حصے میں مار ڈالنے والی سردی ہے کہ جس میں سورج کی روشنی نہیں پڑرہی ۔
اس سفر میں چوتھی رکاوٹ وہ خطر ناک شعاعیں ہیں کہ فضائے زمین سے اوپر موجود ہیں مثلاً کاسمک ریز Cosmic Rays الٹراوائلٹ ریز Ultra Violet Rays اور ایکس ریز X-Rays ۔ یہ شعاعیں اگر تھوڑی مقدار میں انسانی بدن پر پڑیں تو بدن کے آرگانزم Organism کے لیے نقصان وہ نہیں ہیں لیکن فضائے زمین کے باہر یہ شعاعیں بہت تباہ کن ہوتی ہیں ۔ (زمین پر رہنے والوں کے لیے زمین کے اوپر موجود فضا کی وجہ سے ان کی تابش ختم ہوجاتی ہے) ۔
ایک اور مشکل اس سلسلے میں یہ ہے کہ خلامیں انسان بے وزنی کی کیفیت سے دوچار ہوجاتا ہے اگر چہ تدریجاً بے وزنی کی عادت پیدا کی جاسکتی ہے لیکن اگر زمین کے باسی بغیر کسی تیاری اور تمہید کے خلامیں جا پہنچیں تو بے وزنی سے نمٹنا بہت ہی مشکل یا ناممکن ہے ۔
آخری مشکل اس سلسلے میں زمانے کی مشکل ہے اور یہ نہایت اہم رکاوٹ ہے کیونکہ دور حاضر کے سائنسی علوم کے مطابق روشنی کی رفتار ہر چیز سے زیادہ ہے اور اگر کوئی شخص آسمانوں کی سیر کرنا چاہے تو ضروری ہے کہ اس کی رفتار روشنی کی رفتار سے زیادہ ہو۔
ہمارا مشاہد ہ ہے کہ روشنی کی رفتار سے بہت کم رفتار پر زمین پر آنے والے شہابئے ہوا کی رگڑ سے جل جاتے ہیں اور فضاء ہی میں بھسم ہو جاتے ہیں تو پھر یہ کیوں کرممکن ہے کہ حضور ﷺ اتنا طویل سفر پلک جھپکنے میں طے کرسکے ۔
مندرجہ بالا اعتراضات کی وجہ سے ہی ان کے دماغوں میں یہ شک پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ معراج خوب میں ہوئی اور یہ کہ حضور ﷺ غنودگی کی حالت میں تھے اور پھر آنکھ لگ گئی اور یہ تما م واقعات عالم رؤیا میں آپ ﷺ نے دیکھے یا روحانی سفر درپیش تھا۔جسم کے ساتھ اتنے زیادہ فاصلوں کو لمحوں میں طے کرنا ان کی سمجھ سے باہر ہے ۔اسراء کے معنی خواب کے نہیں جسمانی طور پر ایک جگہ سے دوسری جگہ لےجانے کےلیے ہیں ۔
ہم جانتے ہیں کہ فضائی سفر کی تمام ترمشکلات کے باوجود آخر کار انسان علم کی قوت سے اس پر دسترس حاصل کرچکا ہے اور سوائے زمانے کی مشکل کے باقی تمام مشکلات حل ہوچکی ہیں اور زمانے والی مشکل بھی بہت دور کے سفر سے مربوط ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ مسئلہ معراج عمومی اور معمولی پہلو نہیں رکھتا بلکہ یہ اللہ کی لامتناہی قدرت و طاقت کے ذریعے ممکن ہوا اور انبیاء کے تمام معجزات اسی قسم کے تھے جب انسان یہ طاقت رکھتا ہے کہ سائنسی ترقی کی بنیاد پر ایسی چیزیں بنالے کہ جو زمینی مرکز ثقل سے باہر نکل سکتی ہیں، ایسی چیزیں تیار کرلے کہ فضائے زمین سے باہر کی ہولناک شعاعیں ان پر اثر نہ کرسکیں اور مشق کے ذریعے بے وزنی کی کیفیت میں رہنے کی عادت پیدا کرلے ۔ یعنی جب انسان اپنی محدود قوت کے ذریعے یہ کام کرسکتا ہے تو پھر کیا اللہ اپنی لامحدود طاقت کے ذریعے یہ کام نہیں کرسکتا؟
چناچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
وَمَا أَمْرُنَا إِلَّا وَاحِدَةٌ كَلَمْحٍ بِالْبَصَرِ﴿ القمر: 50﴾
" اور ہمارا حکم ایسا ہے جیسے ایک پلک جھپک جانا"
سائنسدان جانتے ہیں کہ ایٹم کے بھی 100 چھوٹے چھوٹے ذرات ہیں (Sub Atomic Particles) ،ان میں سے ایک نیوٹرینو (Neutrino) ہے جو تما م کائنات کے مادے میں سے بغیرٹکرائے گزر جاتا ہے ،مادہ اس کے لیے مزاحمت پیدا نہیں کرتا اور نہ ہی وہ کسی مادی شے سے رگڑ کھاتا ہے ،وہ بہت چھوٹا ذرہ ہے اور نہ ہی وہ رگڑ سے جلتا ہے کیونکہ رگڑ تو مادے کی اس صورت میں پیدا ہوگی جب کہ وہ کم ازکم ایٹم کی کمیت کا ہوگا۔۔(یادر ہے کہ ابھی حال ہی میں سرن لیبارٹری میں تحقیق کرنے والے سائنس دانوں نے23 ستمبر 2011 کو یہ اعلان کیا ہےکہ تجربات سے یہ ثابت ہوگیاہے کہ نیوٹرینو کی رفتار روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ ہے)
جبرائیل ؑ نے آپ ﷺ کو براق پر سوار کیا ۔براق ،برق سے نکلا ہے ،جس کے معنی بجلی ہیں ،جس کی رفتار 186000 میل فی سیکنڈ ہے ۔اگر کوئی آدمی وقت کے گھوڑے پر سوار ہو جائے تو وقت اس کے لیے ٹھہر جاتا ہے یعنی اگر آپ 186000 میل فی سیکنڈ کی رفتار سے چلیں تو وقت رک جاتا ہے کیونکہ وقت کی رفتار بھی یہی ہے ۔وقت گر جائےگا۔کیونکہ وقت اور فاصلہ مادے کی چوتھی جہت ہےاس لیے جو شخص اس چوتھی جہت پر قابو پالیتا ہے کائنات اس کے لیے ایک نقطہ بن جاتی ہے ۔وقت رک جاتا ہے کیونکہ جس رفتار سے وقت چل رہا ہے وہ آدمی بھی اسی رفتار سے چل رہا ہے ۔حالانکہ وہ آدمی اپنے آپ کو چلتا ہوا محسوس کرے گا لیکن کائنات اس کے لیے وہیں تھم جاتی ہے جب اس نے وقت اور فاصلے کو اپنے قابو میں کر لیا ہو ۔اس کے لیے چاہے سینکڑوں برس اس حالت میں گزر جائیں لیکن وقت رکا رہے گااور جوں ہی وہ وقت کے گھوڑے سے اترے گا وقت کی گھڑی پھر سے ٹک ٹک شروع کردے گی،وہ آدمی چاہے پوری کائنات کی سیر کرکے آجائے ،بستر گرم ہوگا،کنڈی ہل رہی ہوگی اور پانی چل رہا ہوگا۔
بجلی کا ایک بلب ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل کے فاصلے پر رکھ دیں ۔سوئچ دبائیں تو ایک سیکنڈ میں وہ بلب جلنے لگے گا۔یہ برقی رو کی تیز رفتاری ہے اور پھر ہوا کی تیز رفتاری بھی اس کی ایک مثال ہوسکتی ہے ۔ اب معراج شریف میں چاہے ہزار برس صرف ہو گئے ہوں یا ایک لاکھ برس،وقت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ورنہ یہ شبہ اور اشکا ل پیش آسکتا ہے کہ اتنی طویل و عظیم مسافت ایک رات میں کیسے طے ہوگئی ۔اللہ جلّ جلالہ کی قدرتیں لاانتہاء ہیں ،وہ ہر بات پر قادر ہے کہ رات کو جب تک چاہے روکے رکھے ،اگر وہ روکے تو کوئی اس کی ذات پاک کے سوا نہیں جو دن نکال سکے ۔ قرآن پاک میں فرمایا:
قُلْ أَرَأ َيْتُمْ إِن جَعَلَ اللَّـهُ عَلَيْكُمُ اللَّيْلَ سَرْمَدًا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَنْ إِلَـٰهٌ غَيْرُ اللَّـهِ يَأْتِيكُم بِضِيَاءٍ ۖ أَفَلَا تَسْمَعُونَ﴿ 71﴾ قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِن جَعَلَ اللَّـهُ عَلَيْكُمُ النَّهَارَ سَرْمَدًا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَنْ إِلَـٰهٌ غَيْرُ اللَّـهِ يَأْتِيكُم بِلَيْلٍ تَسْكُنُونَ فِيهِ ۖأَفَلَا تُبْصِرُونَ ﴿ القصص: 72 تا 71﴾
"آپ کہیے کہ بھلا یہ تو بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ اگر قیامت تک تم پر رات کو مسلط کردے تو اس کے سوا کون روشنی لاسکتا ہے ؟ آپ کہیے کہ بھلا یہ تو بتلاؤ کہ اگر اللہ چاہے تو قیامت تک تم پر دن ہی دن رہنے دے تو کون رات لا سکتا ہے اس کے سوا،جس میں تم آرام پاؤ"
تو حق تعالیٰ کو پوری قدرت ہے وہ اگر چاہے تو وقت کو روک سکتا ہے پھر جب انسانی صنعت سے خلائی جہاز چاند ،زہرہ اور مریخ تک پہنچ سکتے ہیں تو خدائی طاقت اور لا انتہاء قدرت رکھنے والے کے حکم سے کیا اس کے رسول ﷺ شب معراج میں آسمانوں کو طے کرکے سدرۃ المنتہیٰ تک نہیں پہنچ سکتے ؟ہے کوئی سوچنے والا؟پھرایک اور طریقے سے غورکریں کہ جوسواری ،بُراق آپ کے لیے بھیجی گئی تھی ،اس کی تیزرفتاری کا کیا عالم تھا۔روایت میں تصریح کے ساتھ درج ہے کہ اس کا ایک قدم حد نظر تک پڑتا تھاجو روشنی کی رفتار سے ہزارہا درجہ زیادہ ہے ۔ہماری نظروں کی حد نیلگوں خیمہ ہے جو آسمان کے نام سے موسوم ہے تو یہ کہنا پڑے گا کہ بُراق کا پہلاقدم پہلےآسمان پر پڑا اور چونکہ آسمان ازروئے قرآن پاک سات ہیں ،اس لیے سات قدم میں ساتوں آسمان طے ہوگئے ،پھر اس سےآگے کی مسافت بھی چند قدم کی تھی ۔
حاصل کلام یہ کل سفررات کے بارہ گھنٹوں میں سے صرف چندمنٹ میں طے ہوگیا اوراسی طرح واپسی بھی ،تو اب بتائیے کہ اس سرعت سیر کےساتھ ایک ہی رات میں آمد ورفت ممکن ٹھہری یا غیر ممکن ؟اب فرمایا جائےکہ کیا اشکال باقی رہا؟
علاوہ ازیں ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ ایک گھر میں بیک وقت بلب جل رہے ہیں، پنکھے (سیلنگ فین) سے ہوا صاف ہورہی ہے ، ریڈیو سُنا جارہا ہے ، ٹیلی وژن دیکھا جارہا ہے ، ٹیلی فون پر گفتگو ہورہی ہے ، فریج میں کھانے کی چیزیں محفوظ کی جارہی ہیں، ائیرکنڈیشنڈ سے کمرہ ٹھنڈا ہورہا ہے ، ٹیپ ریکارڈر پر گانے ٹیپ ہورہے ہیں، گرائنڈر میں مسالے پس رہے ہیں، استری سے کپڑوں کی شکنیں دور ہورہی ہیں، سی ڈی پلیئرز پر فلمیں دیکھی جارہی ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ کسی نے بڑھ کر مین سوئچ آف کردیا، پھر کیا تھا لمحوں میں ہر چیز نے کام کرنا بند کردیا۔ معلوم ہوا یہ تمام کرنٹ کی کارفرمائی تھی۔ یہی حال کارخانوں کا ہے۔ کپڑا بُنا جارہا ہے ، جیسے ہی بجلی غائب ہوئی تانے بانے بُننے والی کلیں رُک گئیں، جونہی کرنٹ آیا ہر چیز پھر سے کام کرنے لگی۔ آج کا انسان ان روزمرہ کے مشاہدات کے پیشِ نظر واقعہ معراج کی روایات کی صداقت کا ادراک کرسکتا ہے۔ روایتیں ملتی ہیں کہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم جب سفرِ معراج سے واپس تشریف لائے تو بستر کی گرمی اسی طرح باقی تھی، وضو کا پانی ہنوز بہہ رہا تھاکنڈی ابھی ہل رہی تھی۔چودہ سو سال پہلے اس پر یقین لانا ناممکنات میں سے تھا لیکن آج یہ بات آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے۔ کرنٹ کے کرشمے نے ثابت کردیا کہ لمحوں میں کیا کچھ ہوسکتا ہے۔ اسی طرح معراج کی شب نظامِ زمان و مکان معطل ہوگیا تھا، وقت رُک گیا تھا۔ کیا یہ خالقِ کائنات، نظامِ زمان و مکان کے بنانے والے کے لیے کچھ مشکل تھا؟ ۔یہ مسئلہ خالص یقین واعتقاد کا ہے ،بس اس پر ایمان لانا اور اس کی حقیقت وکیفیت کو علم ِ الہٰی کے سپر د کردینا ہی عین عبادت ہےاور ویسے بھی نبوت ،وحی اور معجزوں کے تمام معاملات احاطہ عقل وقیاس سے باہر کی چیزیں ہیں جو شخص ان چیزوں کو قیاس کے تابع اور اپنی عقل وفہم پر موقوف رکھے اورکہے کہ یہ چیز جب تک عقل میں نہ آئے میں ا س کو نہیں مانوں گا ،توسمجھنا چاہیے کہ وہ شخص ایمان کے اپنے حصہ سے محروم رہا۔ اللہ رب العزت ہمیں قرآن و سنت پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین
دوسری طرف ناسا (NASA) کے سینکڑوں سائنس دان ایسی مشینیں اور خلائی جہاز تیارکرنے میں سردھڑ کی بازی لگارہے ہیں، جو روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ تیزی سے انسان کو خلائوں میں لے جاسکے۔ ان کا خیال ہے کہ اگر ایسا ہوجائے تو وہ کائنات میں چھپی حقیقتوں کو اور ان کے پیچھے کا رفرماقوت یعنی اللہ کی ذات کو بے نقاب کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ممکن ہے اس سے بہت ساری حقیقتیں بے نقاب ہوبھی جائیں ۔ سفر معراج کی صداقت بھی تسلیم ہوجائے ۔ مگر اللہ کی ذات کا دیدار توصرف اہل جنت ہی کرپائیںگے۔
نظریہ اضافیت کے مطابق اگر کوئی شے روشنی کی رفتار سے سفر کرنے لگے تو اس کے لئے وقت صفر ہوجائے گا۔ آئن اسٹائن کے مطابق اگر کوئی شے روشنی کی رفتار سے سفر کرنے لگے تو وہ توانائی یا روشنی کی لہروں میں تبدیل ہوجائے گی۔
اگر انسان خواب یا نیند کے حواس کو بیداری میں منتقل کرنا سیکھ لے تو وہ زمانِ متواتر کی قید سے آزاد ہوجائے گا اور اپنی خواہش کے مطابق زمان و مکان میں سفر کرسکے گا ۔
نور کی لہریں جو ہمیں اطلاعات فراہم کرتی ہیں، ظاہر میں مادی اشیاء کی تخلیق کرتی ہیں۔
چنانچہ آہستہ آہستہ سب حقائق کا تجربہ ہوتا چلا جا رہا ہے اور آج کل کے خلائی سفر کرنے والے سترہ ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سیر کرتے ہیں، ابھی یہ بھی ابتدائی حیثیت ہے، مستقبل قریب میں خلائی مسافروں کا سفر نہایت تیز رفتار ہوگا، وہ بہت حیرت انگیز ہوگا، کیونکہ ستاوں کی درمیانی مسافت کو بہت تیزی سے طے کر لیں گے، جس کا تصور بھی ہمارے لئے مشکل ہے۔
گارڈن کوپر کا زمین کے اردگرد 90 منٹ میں 22 چکر لگانا ایسے نئے دور کا پیغام ہے جسے آئن سٹائن نے اپنے نظریئے اضافت کی بناء پر پہلے ہی صحیح مان لیا تھا، یہ خلائی سفر گارڈن کوپر نے 90 منٹ میں طے کر لیا، اور گارڈن کوپر کی عمر اس خلائی سفر میں کم ہو گئی۔
اب تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سفرِ معراج اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان پر اٹھایا جانا اورقرب قیامت میں نازل ہونا ایک حقیقت ثابتہ بن چکا ہے، وان یوما عند ربک کالف سنۃ مما تعدون (اور تیرے رب کے ہاں ایک دن ایک ہزار سال جتنا ہے جن کو تم شمار کرتے ہو) کی تفسیر تجربہ میں آگئی، ایک فلاسفر نے لکھا ہے کہ
”خلائی کشتی کے ذریعے ایک سے دوسرے کہکشاں تک آنا جانا ممکن الوقوع ہے اور وہاں کے حساب سے پچپن سال اور زمین کے حساب سے تین لاکھ سال گزر چکے ہوں گے“ یہ اس نے بڑے تھکا دینے والے تجربے کے عبد حساب لگایا ہے
ٹائم ٹریولز یا وقت میں سفر کا تذکرہ بہت ہوتا ہے۔ یہ ایک دلچسپ موضوع ہے جس پر بنی فلمیں عام لوگوں کے لیے سائنس فکشن ہی ہوتی ہیں۔ کیا یہ کہانی سے بڑھ کر بھی کچھ ہے؟ کیا وقت میں سفر ممکن ہے؟
آئیں پہلے آسان لفظوں میں سمجھیں کہ وقت میں سفر Time travel کیا ہے۔
ہمیں جو کچھ بھی نظر آتا ہے وہ روشنی کا کسی چیز سے منعکس ہو کر اس کا عکس ہماری آنکھ کے ذریعے اعصاب تک لے جانے کی وجہ سے ہے۔ روشنی کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل یا تقریباً تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ ہے جس کی وجہ سے ہمیں اطراف کے مناظر فوراً نظر آجاتے ہیں۔ اگر کوئی چیز زمین سے تین لاکھ کلومیٹر دور ہے تو اس سے منعکس ہونے والی روشنی کی کرن ہماری آنکھوں تک ایک سیکنڈ میں پہنچے گی، اس طرح ہمیں وہ چیز ایک سیکنڈ پہلے والی نظر آئے گی۔ سورج کا فاصلہ زمین سے 150 ملین کلومیٹر ہے اور اس کی کرن ہم تک تقریباً آٹھ منٹ میں پہنچتی ہے، دوسرے لفظوں میں ہمیں جو سورج نظر آتا ہے وہ آٹھ منٹ پہلے کا ہوتا ہے۔
ٹائم ٹریول کو سمجھنے کے لیے فرض کریں، اگر ہم روشنی کی دگنی رفتار سے سورج جتنے فاصلے پر موجود کسی ستارے یا سیّارے پر جا کر پلٹ آئیں تو ہمارا جانا چار منٹ میں اور واپسی بھی چار منٹ میں ہوگی اور کُل سفر آٹھ منٹ میں ہوگا۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہوگی کہ زمین پر پہنچ کر ہم خود اپنے آپ کو واپسی کا سفر کرتے دیکھیں گے! وجہ اس کی یہ ہوگی کہ کیونکہ روشنی کی وہ کرنیں جو ہم سے ٹکرا کے منعکس ہو کر ہماری متحرّک تصاویر images لے کر زمین کی طرف آ رہی تھیں، اُن کو تو قدرتی طور پر ہماری آنکھ تک پہنچنے میں آٹھ منٹ لگنے ہیں جبکہ ہم اُن سے پہلے (چار منٹ میں) روشنی کی دگنی رفتار کی وجہ سے زمین پر آگئے. اس طرح ہمارے متحرّک عکس قدرتی وقت (آٹھ منٹ) میں ہماری آنکھوں میں داخل ہوں گے، جس کی وجہ سے ہم خود کو دیکھ رہے ہوں گے۔ یہی مستقبل یا وقت میں سفر ہے، اسی کو ٹائم ٹریول Time Travel کہا جاتا ہے، یعنی روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز رفتار سفرجس میں حال present پیچھے رہ جاتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ انسان وقت میں سفر کرسکے؟ دیکھیے اس دور کے قابل ترین سائنسدان مسٹر ہاکنگ اس بارے میں کیا کہتے ہیں۔
Quote: ‘I do believe in time travel. Time travel to the future. Time flows like a river and it seems as if each of us is carried relentlessly along by time’s current. But time is like a river in another way. It flows at different in different places and that is the key to travelling into the future. This idea was first proposed by Albert Einstein over 100 years ago.
میں وقت میں، مستقبل میں سفر پر یقین رکھتا ہوں۔ وقت ہم سب کو ساتھ میں لیے دریا کی طرح بہتا ہے، لیکن یہ ایک اور طرح سے دریا کی طرح بہتا ہے، یہ مختلف جگہوں پہ مختلف رفتار سے بہتا ہے اور یہی وقت میں سفر کی کلید ہے۔ یہ تصوّر 100 سال پہلے آئن اسٹائن نے دیا۔
وقت میں سفر کے لیے سائنس دان ایک تصّور پر ریسرچ کر رہے ہیں جس میں ایک تصورّاتی خلائی راستہ ہے جو کسی پُر پیچ راستے یاپگڈنڈی پر شارٹ کٹ ہوگا۔ اس مختصر راستے کو Wormhole وورم ہول کا نام دیاگیا ہے۔
WORMHOLES: These space-time tubes act as shortcuts connecting distant regions of space-time. By journeying through a wormhole, you could travel between the two regions faster than a beam of light would be able to if it moved through normal space-time. As with any mode of faster-than-light travel, wormholes offer the possibility of time travel.
http://www.pbs.org/wnet/hawking/strange/html/wormhole.html
وَرم ہول: یہ اسپیس ٹائم ٹیوب Space Time Tube ہے جو کائنات کے دور دراز علاقوں کو ملانے والا ایک چھوٹا راستہ یعنی شارٹ کٹ ہے۔ اس میں سفر کرتے ہوئے آپ روشنی کی اس بیم سے زیادہ رفتار سے سفر کریں گے جو اسپیس ٹائم میں سفر کرتی ہے۔ کسی بھی پیرائے میں وورم ہول میں روشنی سے زیادہ رفتار سے سفر کا مطلب وقت میں ممکنہ سفر ہوسکتا ہے۔
سائنس دانوں کے مطابق نظریاتی طور پر روشنی سے تیز سفر ممکن نہیں لیکن یہ نظریہ اب تک کے حاصل علم کے مطابق ہی ہے۔ کائنات کے ہر لحظہ پھیلنے میں ایک نئے عامل اندھیری توانائی Dark Energy کی ممکنہ موجودگی سے یہ بات بھی ثابت ہوسکتی ہے کہ روشنی سے بھی تیز حرکت ممکن ہے۔ ایک سائنسی نظریہ یہ بھی ہے کہ کائنات روشنی کی رفتار سے زیادہ رفتار سے ہر لحظہ پھیل رہی ہے، جس کے بموجب رفتار کا لامحدود ہونا بھی ممکنات میں ہے۔ یعنی ہم منطقی طور پر رفتار کو روشنی تک محدود نہیں کرسکتے۔
مندرجہ بالا حوالے یہ ثابت کرتے ہیں کہ وقت میں سفر یعنی وقت کو پیچھے چھوڑتے ہوئے آگے بڑھنا فی الحال تھیوری میں قابل عمل جدید سائنسی نظریہ ہے جس پر کسی کو اعتراض نہیں، بس انسان کا مسئلہ اس کی علمی اور عملی استعداد ہے جو کہ فی الوقت محدود ہے۔ یعنی اس سفر کے سائنسی لوازمات کے لیے بے حساب علم اور استعداد کی ضرورت ہے۔
اب اس طرف توجّہ دیں کہ اس کائنات کے خالق نے وقت میں سفر کی نہ صرف عملی مثال قائم کی بلکہ اپنے کلام میں اس کا تذکرہ بھی کردیا ۔ یہ مثال 14 سو سال قبل سفر معراج میں عملاً دکھائی گئی۔ یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ ایک سپر سائنس یا سپر علم ہمیشہ سے کائنات میں کارفرما ہے جس کی عملی استعداد لامحدود ہے جو ہر کام کرگزرنے کی لامحدود قوّت رکھتی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے،
پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات لے گئی مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے تاکہ اسے اپنی نشانیوں کا مشاہدہ کرائے۔ وہی ہے سب کچھ سننے اور دیکھنے والا۔ ( بنی اسرائیل، آیت1)
گویا سفر ِمعراج میں کائنات میں رواں عظیم تر اور ہر انسانی سائنس کو مغلوب کر دینے والی سائنس کی قوّت کا ایک مظاہرہ ہوا جس کو جدید انسانی سائنس ابھی سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے۔
حوالہ جات:
واقعہ معراج اور سائنس ۔۔۔!
تحریر۔۔۔طیبہ ضیاء چیمہ،مکتوب امریکہ،نوائے وقت
http://www.nawaiwaqt.com.pk/columns/06-Jun-2013/210076
ٹائم ٹریول اور واقعہ معراج – مجیب الحق حقی
مجیب الحق حقی 05/02/2017 8609 مناظر ہیڈ لائنز واقعہ معراج، انسان، ٹائم ٹریول
https://daleel.pk/2017/02/05/29058
http://www.roohanidigest.net/%D9%88%D9%82%D8%AA-%D8%B3%D8%…/
http://urdu.chauthiduniya.com/2013/06/mairaj-un-nabi
https://plus.google.com/10095501304471143…/posts/gW9Wn9rS5kT
معراج اور صاحبِ معراج ﷺ مع سائنسی انکشافات از عبداللہ مدنی
http://www.jasarat.com/unicode/detail.php…
http://hakimkhalid.blogsome.com/2009/07/20/p230/
http://urdu.makarem.ir/compilation/book.php…
http://quraniscience.com/2011/12/واقعہ-معراج مصطفی-صلی-اللہ-علیہ-وسلم/
Image may contain: text
Image may contain: sky and cloud
No automatic alt text available.
واقعہ معراج پر ملحدین کے سائنسی اعتراضات اور ان کے جوابات
تدوین و ترتیب۔۔۔احید حسن
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
کہا جاتا ہے کہ موجودہ سائنس انسانی شعور کے ارتقاء کا عروج ہے لیکن سائنس دان اور دانشور یہ حقیقت تسلیم کرنے پر مجبور نظر آتے ہیں کہ انسان قدرت کی ودیعت کردہ صلاحیتوں کا ابھی تک صرف پانچ فیصد حصہ استعمال کرسکا ہے ۔قدرت کی عطا کردہ بقیہ پچانوے فیصد صلاحیتیں انسان سے پوشیدہ ہیں ۔ وہ علم جو سو فیصد صلاحیتوں کا احاطہ کرتا ہو،اُسے پانچ فیصد ی محدود ذہن سے سمجھنا ناممکن امر ہے۔واقعہ معراج ایک ایسی ہی مسلمہ حقیقت ہے اور علم ہے جو سائنسی توجیہ کا محتاج نہیں ہے۔
یہی باتیں جب مخبر ِ صادق صلی اللہ علیہ وسلم نے مکی دور میں قریش کے سامنے ارشاد فرمائیں تو ناقابلِ یقین اور بعید از ممکنات تھیں۔
سورہ بنی اسرائیل میں لفظ ”سبحان الذی“ سے ابتداءخود اس بات کی دلیل ہے کہ یہ غیر معمولی واقعہ تھا جو فطرت کے عام قوانین سے ہٹ کر واقع ہوا۔ اللہ تعالیٰ کو اپنی قدرت کا کرشمہ دکھانا مقصود تھا۔ لہٰذا رات کے ایک قلیل حصے میں یہ عظیم الشان سفر پیش آیا۔ اور یہ وقت زمان و مکان کی فطری قیود سے آزاد تھا۔ اس بات کا سمجھنا آج کے انسان کے لیے نسبتاً آسان ہے۔
بیت الحرام (مکہ) سے مسجد ِ اقصیٰ (فلسطین) کا زمین کا سفر جسے اسراءکہا جاتا ہے ، سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے براق پر کیا۔ براق، برق (بجلی) سے مشتق ہے جس کی سُرعت ِ رفتار سائنس دانوں نے ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ بتائی ہے۔ جب برق کی یہ سرعت ہوسکتی ہے تو بُراق جو اللہ تعالیٰ کا راکٹ تھا اس کی تیز رفتاری اور سبک سری پر کیوں شک کیا جائے؟ غرض سفرِ معراج اللہ جل جلالہ اور خالقِ کائنات کی غیر محدود قوت اور قدرت ِ کاملہ کا مظاہرہ تھا جس نے انسان کو ایک نیا نظریہ دیا اور تاریخ پر اپنا مستقل اثر چھوڑا۔ آج کی خلائی تسخیر، چاند پر اترنے کی کامیاب کوشش سب واقعہ معراج سے تعلق رکھتی ہیں۔
واقعہ معراج اگر خواب ہوتا تو اس میں کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ خواب میں اکثر انسان مافوق الفطرت اور محیرالعقول باتیں دیکھتا ہی ہے۔ خواب کو نہ آج تک کسی نے اس درجہ اہمیت دی اور نہ وہ اس کا مستحق ہے۔
آئن سٹائن کا نظریہ اضافت یا تھیوری آف ریلیٹویٹی دو حصوں پر مبنی ہے ۔ ایک حصہ " نظریہ اضافیت خصوصی"(Special Theory of Relativity) کہلاتا ہے جبکہ دوسرا حصہ " نظریہ اضافیت عمومی " (General Theory of Relativity) کے نام سے پہچانا جاتا ہے ۔ خصوصی نظریہ اضافیت کو سمجھنے کے لیے ہم ایک مثال کا سہارا لیں گے۔
فرض کیجئے کہ ایک ایسا راکٹ بنا لیا گیا ہے جو روشنی کی رفتار (یعنی تین لاکھ کلومیٹر فی سکینڈ)سے ذرا کم رفتار پر سفر کرسکتا ہے ۔ا س راکٹ پر خلا ء بازوں کی ایک ٹیم روانہ کی جاتی ہے ۔راکٹ کی رفتار اتنی زیادہ ہے کہ زمین پر موجود تمام لوگ اس کے مقابلے میں بے حس وحرکت نظر آتے ہیں ۔ راکٹ کا عملہ مسلسل ایک سال تک اسی رفتار سے خلاء میں سفر کرنےکے بعد زمین کی طرف پلٹتا ہے اوراسی تیزی سے واپسی کا سفر بھی کرتا ہے مگر جب وہ زمین پر پہنچتے ہیں تو انہیں علم ہوتا ہے کہ یہاں تو ان کی غیر موجودگی میں ایک طویل عرصہ گزر چکا ہے ۔اپنے جن دوستوں کو وہ لانچنگ پیڈ پر خدا حافظ کہہ کر گئے تھے ،انہیں مرے ہوئے بھی پچاس برس سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے اور جن بچوں کو وہ غاؤں غاؤں کرتا ہوا چھوڑ گئے تھے وہ سن رسیدہ بوڑھوں کی حیثیت سے ان کا استقبال کررہے ہیں ۔وہ شدید طور پر حیران ہوتے ہیں کہ انہوں نے تو سفر میں دو سال گزارے لیکن زمین پر اتنے برس کس طرح گزر گئے ۔اضافیت میں اسے " جڑواں تقاقضہ" (Twins Paradox) کہا جاتا ہے اور اس تقاقضے کا جواب خصوصی نظریہ اضافیت "وقت میں تاخیر" (Time Dilation) کے ذریعے فراہم کرتا ہے۔ جب کسی چیز کی رفتار بے انتہاء بڑھ جائے اور روشنی کی رفتار کے قریب پہنچنےلگے تو وقت ساکن لوگوں کے مقابلے میں سست پڑنا شروع ہوجاتا ہے ،یعنی یہ ممکن ہے کہ جب ہماری مثال کے خلائی مسافروں کے لئے ایک سکینڈ گزرا ہو تو زمینی باشندوں پر اسی دوران میں کئی گھنٹے گزر گئے ہوں۔
اسی مثال کا ایک اور اہم پہلو یہ ہےکہ وقت صرف متحرک شے کے لئے آہستہ ہوتا ہے ۔لہٰذا اگر کوئی ساکن فرد مذکورہ راکٹ میں سوار اپنے کسی دوست کا منتظر ہے تو ا س کے لیے انتظار کے لمحے طویل ہوتے چلے جائیں گے ۔یہی وہ مقام ہے جہاں آکر ہم نظریہ اضافیت کے ذریعے واقعہ معراج کی توجیہ میں غلطی کرجاتے ہیں ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب آنحضرت ﷺ معراج کے سفر سے واپس آئے تو حجرہ مبارک کے دروازے پرلٹکی ہوئی کنڈی اسی طرح ہل رہی تھی جیسے کہ آپ ﷺ چھوڑ کر گئے تھے۔گویا اتنے طویل عرصے میں زمین پر ایک لمحہ بھی نہیں گزرا ۔اگر خصوصی نظریہ اضافیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس واقعے کی حقانیت جاننے کی کوشش کی جائے تو معلوم ہو گا کہ اصلاً زمین پر آنحضرت ﷺ کی غیر موجودگی میں کئی برس گزر جانے چاہئیں تھے لیکن ایسا نہیں ہوا۔
نظریہ اضافیت ہی کا دوسرا حصہ یعنی "عمومی نظریہ اضافیت " ہمارے سوا ل کا تسلی بخش جواب دیتا ہے ۔عمومی نظریہ اضافیت میں آئن سٹائن نے وقت (زمان)اور خلاء (مکان)کو ایک دوسرے سے مربوط کرکے زمان ومکان (Time and Space)کی مخلوط شکل میں پیش کیا ہے اور کائنات کی اسی انداز سے منظر کشی کی ہے ۔کائنات میں تین جہتیں مکانی (Spatial Dimensions) ہیں جنہیں ہم لمبائی ،چوڑائی اور اونچائی (یاموٹائی )سے تعبیر کرتےہیں ،جب کہ ایک جہت زمانی ہے جسے ہم وقت کہتے ہیں ۔ اس طرح عمومی اضافیت نے کائنات کو زمان ومکان کی ایک چادر (Sheet)کے طور پر پیش کیا ہے ۔
تمام کہکشائیں ،جھرمٹ ،ستارے ،سیارے ،سیارچے اور شہابئے وغیرہ کائنات کی اسی زمانی چادر پر منحصر ہیں اور قدرت کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کے تابع ہیں ۔ انسان چونکہ اسی کائنات مظاہر کا باشندہ ہے لہٰذا اس کی کیفیت بھی کچھ مختلف نہیں ۔آئن سٹائن کے عمومی نظریہ اضافیت کے تحت کائنات کےکسی بھی حصے کو زمان ومکان کی اس چادر میں ایک نقطے کی حیثیت سے بیان کیا جاسکتا ہے ۔اس نظریے نے انسان کو احساس دلایا ہےکہ وہ کتنا بے وقعت اور کس قدر محدود ہے ۔
کارل ساگان (Carl Sagan) جو ایک مشہورامریکی ماہر فلکیات ہے ،اپنی کتاب "کائنات" (Cosmos) میں ایک فرضی مخلوق کا تصور پیش کرتا ہے جو صرف دو جہتی ( Two Dimensional) ہے۔ وہ میز کی سطح پر پڑنے والے سائے کی مانندہیں ۔ انہیں صرف دو مکانی جہتیں ہی معلوم ہیں ۔ جن میں وہ خود وجود رکھتے ہیں یعنی لمبائی اور چوڑائی ۔چونکہ وہ ان ہی دو جہتوں میں محدود ہیں لہٰذا وہ نہ تو موٹائی یا اونچائی کا ادراک کرسکتے ہیں اور نہ ہی ان کے یہاں موٹائی یا اونچائی کا کوئی تصور ہے ۔وہ صرف ایک سطح (Surface) پرہی رہتے ہیں ۔ایسی ہی کسی مخلوق سے انسان جیسی سہ جہتی (Three Dimensional) مخلوق کی ملاقات ہو جاتی ہے ۔راہ ورسم بڑھانے کے لئے سہ جہتی مخلوق ،اس دو جہتی مخلوق کو آواز دے کر پکارتی ہے ۔اس پر دوجہتی مخلوق ڈر جاتی اور سمجھتی ہے کہ یہ آواز اس کے اپنے اندر سے آئی ہے۔
سہ جہتی مخلوق ،دوجہتی سطح میں داخل ہوجاتی ہے تاکہ اپنا دیدار کرا سکے مگر دو جہتی مخلوق کی تمام تر حسیات صرف دو جہتوں تک ہی محدود ہیں ۔اس لیے وہ سہ جہتی مخلوق کے جسم کا وہی حصہ دیکھ پاتی ہے جواس سطح پر ہے ۔وہ مزید خوف زدہ ہو جاتی ہے ۔اس کا خوف دور کرنے کے لیے سہ جہتی مخلوق ،دو جہتی مخلوق کو اونچائی کی سمت اٹھا لیتی ہے اور وہ اپنی دینا والوں کی نظر میں "غائب " ہوجاتا ہے جبکہ وہ اپنے اصل مقام سے ذرا سا اوپر جاتا ہے ۔سہ جہتی مخلوق اسے اونچائی اور موٹائی والی چیزیں دکھاتی ہے اور بتاتی ہےکہ یہ ایک اور جہت ہے جس کا مشاہدہ وہ اپنی دو جہتی دنیا میں رہتے ہوئے نہیں کرسکتا تھا۔آخرکار دو جہتی مخلوق کو اس کی دنیا میں چھوڑ کر سہ جہتی مخلوق رخصت ہو جاتی ہے ۔اس انوکھے تجربے کے بارے میں جب یہ دوجہتی مخلوق اپنے دوستوں کو بتاتی ہے اور کہتی ہے کہ اس نے ایک نئی جہت کا سفر کیا ہے جسے اونچائی کہتے ہیں ،مگر اپنی دنیا کی محدودیت کے باعث وہ اپنے دوستوں کو یہ سمجھانے سے قاصر ہے کہ اونچائی والی جہت کس طرف ہے ۔اس کے دوست اس سے کہتے ہیں کہ آرام کرو اور ذہن پر دباؤ نہ ڈالو کیونکہ ان کے خیال میں اس کا دماغ خراب ہوگیا ہے۔
ہم انسانوں کی کیفیت بھی دوجہتی سطح پر محدود اس مخلوق کی مانند ہے ۔فرق صرف اتنا ہے کہ ہماری طبعی قفس (Physical Prison) چہار جہتی ہے اور اسے ہم وسیع و عریض کائنات کے طو پر جانتے ہیں ۔ہماری طرح کائنات میں روبہ عمل طبعی قوانین بھی ان ہی چہار جہتوں پر چلنے کے پابند ہیں اور ان سے باہر نہیں جا سکتے ۔یہی وجہ ہے کہ عالم بالا کی کائنات کی تفہیم ہمارے لیے ناممکن ہے او ر اس جہاں دیگر کے مظاہر ہمارے مشاہدات سےبالاتر ہیں ۔
اب ہم واپس آتے ہیں اپنے اصل موضوع کی طرف ۔عالم دنیا یعنی قابل مشاہدہ کائنات اور عالم بالا یعنی ہمارے مشاہدے و ادراک سے ماوراء کائنات دو الگ زمانی و مکانی چادریں ہیں ۔یہ ایک دوسرے کے قریب توہو سکتی ہیں لیکن بے انتہاء قربت کے باوجود ایک کائنات میں جو کچھ ہورہا ہے اس کا دوسری کائنات میں ہونے والے عمل پر نہ اثر پڑے گا اور نہ اسے وہاں محسوس کیا جائے گا۔
حضور اکرم ﷺ زمان ومکان کی کائناتی چادر کے ایک نقطے پر سے دوسری زمانی ومکانی چادر پر پہنچے اور معراج کے مشاہدات کے بعد (خواہ اس کی مدت کتنی ہی طویل کیوں نہ رہی ہو)آنحضرت ﷺ زمان ومکان کی کائناتی چادر کے بالکل اسی نقطے پر واپس پہنچ گئے جہاں آپ ﷺ معراج سے قبل تھے۔ او ریہ وہی نقطہ تھا جب آنحضرت ﷺ کو دروازے کی کنڈی اسی طرح ہلتی ہوئی ملی جیسی کہ وہ چھوڑ کر گئے تھے۔گویا معراج کے واقعے میں وقت کی تاخیر کی بجائے زمان ومکان میں سفر والا نظریہ زیادہ صحیح محسوس ہوتا ہے۔
واقعہ معراج بعض لوگوں کی سمجھ میں اس لیےنہیں آتا کہ وہ کہتے ہیں کہ
ایسے فضائی سفر میں پہلی رکاوٹ کشش ثقل ہے کہ جس پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے غیر معمولی وسائل و ذرائع کی ضرورت ہے کیونکہ زمین کے مدار اور مرکز ثقل سے نکلنے کے لیے کم از کم چالیس ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ رفتار کی ضرورت ہے ۔
دوسری رکاوٹ یہ ہے کہ زمین کے باہر خلا میں ہوا نہیں ہے جبکہ ہوا کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا ۔
تیسری رکاوٹ ایسے سفر میں اس حصے میں سورج کی جلادینے والی تپش ہے کہ جس حصے پر سورج کی مستقیماً روشنی پڑ رہی ہے اور اس حصے میں مار ڈالنے والی سردی ہے کہ جس میں سورج کی روشنی نہیں پڑرہی ۔
اس سفر میں چوتھی رکاوٹ وہ خطر ناک شعاعیں ہیں کہ فضائے زمین سے اوپر موجود ہیں مثلاً کاسمک ریز Cosmic Rays الٹراوائلٹ ریز Ultra Violet Rays اور ایکس ریز X-Rays ۔ یہ شعاعیں اگر تھوڑی مقدار میں انسانی بدن پر پڑیں تو بدن کے آرگانزم Organism کے لیے نقصان وہ نہیں ہیں لیکن فضائے زمین کے باہر یہ شعاعیں بہت تباہ کن ہوتی ہیں ۔ (زمین پر رہنے والوں کے لیے زمین کے اوپر موجود فضا کی وجہ سے ان کی تابش ختم ہوجاتی ہے) ۔
ایک اور مشکل اس سلسلے میں یہ ہے کہ خلامیں انسان بے وزنی کی کیفیت سے دوچار ہوجاتا ہے اگر چہ تدریجاً بے وزنی کی عادت پیدا کی جاسکتی ہے لیکن اگر زمین کے باسی بغیر کسی تیاری اور تمہید کے خلامیں جا پہنچیں تو بے وزنی سے نمٹنا بہت ہی مشکل یا ناممکن ہے ۔
آخری مشکل اس سلسلے میں زمانے کی مشکل ہے اور یہ نہایت اہم رکاوٹ ہے کیونکہ دور حاضر کے سائنسی علوم کے مطابق روشنی کی رفتار ہر چیز سے زیادہ ہے اور اگر کوئی شخص آسمانوں کی سیر کرنا چاہے تو ضروری ہے کہ اس کی رفتار روشنی کی رفتار سے زیادہ ہو۔
ہمارا مشاہد ہ ہے کہ روشنی کی رفتار سے بہت کم رفتار پر زمین پر آنے والے شہابئے ہوا کی رگڑ سے جل جاتے ہیں اور فضاء ہی میں بھسم ہو جاتے ہیں تو پھر یہ کیوں کرممکن ہے کہ حضور ﷺ اتنا طویل سفر پلک جھپکنے میں طے کرسکے ۔
مندرجہ بالا اعتراضات کی وجہ سے ہی ان کے دماغوں میں یہ شک پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ معراج خوب میں ہوئی اور یہ کہ حضور ﷺ غنودگی کی حالت میں تھے اور پھر آنکھ لگ گئی اور یہ تما م واقعات عالم رؤیا میں آپ ﷺ نے دیکھے یا روحانی سفر درپیش تھا۔جسم کے ساتھ اتنے زیادہ فاصلوں کو لمحوں میں طے کرنا ان کی سمجھ سے باہر ہے ۔اسراء کے معنی خواب کے نہیں جسمانی طور پر ایک جگہ سے دوسری جگہ لےجانے کےلیے ہیں ۔
ہم جانتے ہیں کہ فضائی سفر کی تمام ترمشکلات کے باوجود آخر کار انسان علم کی قوت سے اس پر دسترس حاصل کرچکا ہے اور سوائے زمانے کی مشکل کے باقی تمام مشکلات حل ہوچکی ہیں اور زمانے والی مشکل بھی بہت دور کے سفر سے مربوط ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ مسئلہ معراج عمومی اور معمولی پہلو نہیں رکھتا بلکہ یہ اللہ کی لامتناہی قدرت و طاقت کے ذریعے ممکن ہوا اور انبیاء کے تمام معجزات اسی قسم کے تھے جب انسان یہ طاقت رکھتا ہے کہ سائنسی ترقی کی بنیاد پر ایسی چیزیں بنالے کہ جو زمینی مرکز ثقل سے باہر نکل سکتی ہیں، ایسی چیزیں تیار کرلے کہ فضائے زمین سے باہر کی ہولناک شعاعیں ان پر اثر نہ کرسکیں اور مشق کے ذریعے بے وزنی کی کیفیت میں رہنے کی عادت پیدا کرلے ۔ یعنی جب انسان اپنی محدود قوت کے ذریعے یہ کام کرسکتا ہے تو پھر کیا اللہ اپنی لامحدود طاقت کے ذریعے یہ کام نہیں کرسکتا؟
چناچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
وَمَا أَمْرُنَا إِلَّا وَاحِدَةٌ كَلَمْحٍ بِالْبَصَرِ﴿ القمر: 50﴾
" اور ہمارا حکم ایسا ہے جیسے ایک پلک جھپک جانا"
سائنسدان جانتے ہیں کہ ایٹم کے بھی 100 چھوٹے چھوٹے ذرات ہیں (Sub Atomic Particles) ،ان میں سے ایک نیوٹرینو (Neutrino) ہے جو تما م کائنات کے مادے میں سے بغیرٹکرائے گزر جاتا ہے ،مادہ اس کے لیے مزاحمت پیدا نہیں کرتا اور نہ ہی وہ کسی مادی شے سے رگڑ کھاتا ہے ،وہ بہت چھوٹا ذرہ ہے اور نہ ہی وہ رگڑ سے جلتا ہے کیونکہ رگڑ تو مادے کی اس صورت میں پیدا ہوگی جب کہ وہ کم ازکم ایٹم کی کمیت کا ہوگا۔۔(یادر ہے کہ ابھی حال ہی میں سرن لیبارٹری میں تحقیق کرنے والے سائنس دانوں نے23 ستمبر 2011 کو یہ اعلان کیا ہےکہ تجربات سے یہ ثابت ہوگیاہے کہ نیوٹرینو کی رفتار روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ ہے)
جبرائیل ؑ نے آپ ﷺ کو براق پر سوار کیا ۔براق ،برق سے نکلا ہے ،جس کے معنی بجلی ہیں ،جس کی رفتار 186000 میل فی سیکنڈ ہے ۔اگر کوئی آدمی وقت کے گھوڑے پر سوار ہو جائے تو وقت اس کے لیے ٹھہر جاتا ہے یعنی اگر آپ 186000 میل فی سیکنڈ کی رفتار سے چلیں تو وقت رک جاتا ہے کیونکہ وقت کی رفتار بھی یہی ہے ۔وقت گر جائےگا۔کیونکہ وقت اور فاصلہ مادے کی چوتھی جہت ہےاس لیے جو شخص اس چوتھی جہت پر قابو پالیتا ہے کائنات اس کے لیے ایک نقطہ بن جاتی ہے ۔وقت رک جاتا ہے کیونکہ جس رفتار سے وقت چل رہا ہے وہ آدمی بھی اسی رفتار سے چل رہا ہے ۔حالانکہ وہ آدمی اپنے آپ کو چلتا ہوا محسوس کرے گا لیکن کائنات اس کے لیے وہیں تھم جاتی ہے جب اس نے وقت اور فاصلے کو اپنے قابو میں کر لیا ہو ۔اس کے لیے چاہے سینکڑوں برس اس حالت میں گزر جائیں لیکن وقت رکا رہے گااور جوں ہی وہ وقت کے گھوڑے سے اترے گا وقت کی گھڑی پھر سے ٹک ٹک شروع کردے گی،وہ آدمی چاہے پوری کائنات کی سیر کرکے آجائے ،بستر گرم ہوگا،کنڈی ہل رہی ہوگی اور پانی چل رہا ہوگا۔
بجلی کا ایک بلب ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل کے فاصلے پر رکھ دیں ۔سوئچ دبائیں تو ایک سیکنڈ میں وہ بلب جلنے لگے گا۔یہ برقی رو کی تیز رفتاری ہے اور پھر ہوا کی تیز رفتاری بھی اس کی ایک مثال ہوسکتی ہے ۔ اب معراج شریف میں چاہے ہزار برس صرف ہو گئے ہوں یا ایک لاکھ برس،وقت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ورنہ یہ شبہ اور اشکا ل پیش آسکتا ہے کہ اتنی طویل و عظیم مسافت ایک رات میں کیسے طے ہوگئی ۔اللہ جلّ جلالہ کی قدرتیں لاانتہاء ہیں ،وہ ہر بات پر قادر ہے کہ رات کو جب تک چاہے روکے رکھے ،اگر وہ روکے تو کوئی اس کی ذات پاک کے سوا نہیں جو دن نکال سکے ۔ قرآن پاک میں فرمایا:
قُلْ أَرَأ َيْتُمْ إِن جَعَلَ اللَّـهُ عَلَيْكُمُ اللَّيْلَ سَرْمَدًا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَنْ إِلَـٰهٌ غَيْرُ اللَّـهِ يَأْتِيكُم بِضِيَاءٍ ۖ أَفَلَا تَسْمَعُونَ﴿ 71﴾ قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِن جَعَلَ اللَّـهُ عَلَيْكُمُ النَّهَارَ سَرْمَدًا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَنْ إِلَـٰهٌ غَيْرُ اللَّـهِ يَأْتِيكُم بِلَيْلٍ تَسْكُنُونَ فِيهِ ۖأَفَلَا تُبْصِرُونَ ﴿ القصص: 72 تا 71﴾
"آپ کہیے کہ بھلا یہ تو بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ اگر قیامت تک تم پر رات کو مسلط کردے تو اس کے سوا کون روشنی لاسکتا ہے ؟ آپ کہیے کہ بھلا یہ تو بتلاؤ کہ اگر اللہ چاہے تو قیامت تک تم پر دن ہی دن رہنے دے تو کون رات لا سکتا ہے اس کے سوا،جس میں تم آرام پاؤ"
تو حق تعالیٰ کو پوری قدرت ہے وہ اگر چاہے تو وقت کو روک سکتا ہے پھر جب انسانی صنعت سے خلائی جہاز چاند ،زہرہ اور مریخ تک پہنچ سکتے ہیں تو خدائی طاقت اور لا انتہاء قدرت رکھنے والے کے حکم سے کیا اس کے رسول ﷺ شب معراج میں آسمانوں کو طے کرکے سدرۃ المنتہیٰ تک نہیں پہنچ سکتے ؟ہے کوئی سوچنے والا؟پھرایک اور طریقے سے غورکریں کہ جوسواری ،بُراق آپ کے لیے بھیجی گئی تھی ،اس کی تیزرفتاری کا کیا عالم تھا۔روایت میں تصریح کے ساتھ درج ہے کہ اس کا ایک قدم حد نظر تک پڑتا تھاجو روشنی کی رفتار سے ہزارہا درجہ زیادہ ہے ۔ہماری نظروں کی حد نیلگوں خیمہ ہے جو آسمان کے نام سے موسوم ہے تو یہ کہنا پڑے گا کہ بُراق کا پہلاقدم پہلےآسمان پر پڑا اور چونکہ آسمان ازروئے قرآن پاک سات ہیں ،اس لیے سات قدم میں ساتوں آسمان طے ہوگئے ،پھر اس سےآگے کی مسافت بھی چند قدم کی تھی ۔
حاصل کلام یہ کل سفررات کے بارہ گھنٹوں میں سے صرف چندمنٹ میں طے ہوگیا اوراسی طرح واپسی بھی ،تو اب بتائیے کہ اس سرعت سیر کےساتھ ایک ہی رات میں آمد ورفت ممکن ٹھہری یا غیر ممکن ؟اب فرمایا جائےکہ کیا اشکال باقی رہا؟
علاوہ ازیں ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ ایک گھر میں بیک وقت بلب جل رہے ہیں، پنکھے (سیلنگ فین) سے ہوا صاف ہورہی ہے ، ریڈیو سُنا جارہا ہے ، ٹیلی وژن دیکھا جارہا ہے ، ٹیلی فون پر گفتگو ہورہی ہے ، فریج میں کھانے کی چیزیں محفوظ کی جارہی ہیں، ائیرکنڈیشنڈ سے کمرہ ٹھنڈا ہورہا ہے ، ٹیپ ریکارڈر پر گانے ٹیپ ہورہے ہیں، گرائنڈر میں مسالے پس رہے ہیں، استری سے کپڑوں کی شکنیں دور ہورہی ہیں، سی ڈی پلیئرز پر فلمیں دیکھی جارہی ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ کسی نے بڑھ کر مین سوئچ آف کردیا، پھر کیا تھا لمحوں میں ہر چیز نے کام کرنا بند کردیا۔ معلوم ہوا یہ تمام کرنٹ کی کارفرمائی تھی۔ یہی حال کارخانوں کا ہے۔ کپڑا بُنا جارہا ہے ، جیسے ہی بجلی غائب ہوئی تانے بانے بُننے والی کلیں رُک گئیں، جونہی کرنٹ آیا ہر چیز پھر سے کام کرنے لگی۔ آج کا انسان ان روزمرہ کے مشاہدات کے پیشِ نظر واقعہ معراج کی روایات کی صداقت کا ادراک کرسکتا ہے۔ روایتیں ملتی ہیں کہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم جب سفرِ معراج سے واپس تشریف لائے تو بستر کی گرمی اسی طرح باقی تھی، وضو کا پانی ہنوز بہہ رہا تھاکنڈی ابھی ہل رہی تھی۔چودہ سو سال پہلے اس پر یقین لانا ناممکنات میں سے تھا لیکن آج یہ بات آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے۔ کرنٹ کے کرشمے نے ثابت کردیا کہ لمحوں میں کیا کچھ ہوسکتا ہے۔ اسی طرح معراج کی شب نظامِ زمان و مکان معطل ہوگیا تھا، وقت رُک گیا تھا۔ کیا یہ خالقِ کائنات، نظامِ زمان و مکان کے بنانے والے کے لیے کچھ مشکل تھا؟ ۔یہ مسئلہ خالص یقین واعتقاد کا ہے ،بس اس پر ایمان لانا اور اس کی حقیقت وکیفیت کو علم ِ الہٰی کے سپر د کردینا ہی عین عبادت ہےاور ویسے بھی نبوت ،وحی اور معجزوں کے تمام معاملات احاطہ عقل وقیاس سے باہر کی چیزیں ہیں جو شخص ان چیزوں کو قیاس کے تابع اور اپنی عقل وفہم پر موقوف رکھے اورکہے کہ یہ چیز جب تک عقل میں نہ آئے میں ا س کو نہیں مانوں گا ،توسمجھنا چاہیے کہ وہ شخص ایمان کے اپنے حصہ سے محروم رہا۔ اللہ رب العزت ہمیں قرآن و سنت پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین
دوسری طرف ناسا (NASA) کے سینکڑوں سائنس دان ایسی مشینیں اور خلائی جہاز تیارکرنے میں سردھڑ کی بازی لگارہے ہیں، جو روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ تیزی سے انسان کو خلائوں میں لے جاسکے۔ ان کا خیال ہے کہ اگر ایسا ہوجائے تو وہ کائنات میں چھپی حقیقتوں کو اور ان کے پیچھے کا رفرماقوت یعنی اللہ کی ذات کو بے نقاب کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ممکن ہے اس سے بہت ساری حقیقتیں بے نقاب ہوبھی جائیں ۔ سفر معراج کی صداقت بھی تسلیم ہوجائے ۔ مگر اللہ کی ذات کا دیدار توصرف اہل جنت ہی کرپائیںگے۔
نظریہ اضافیت کے مطابق اگر کوئی شے روشنی کی رفتار سے سفر کرنے لگے تو اس کے لئے وقت صفر ہوجائے گا۔ آئن اسٹائن کے مطابق اگر کوئی شے روشنی کی رفتار سے سفر کرنے لگے تو وہ توانائی یا روشنی کی لہروں میں تبدیل ہوجائے گی۔
اگر انسان خواب یا نیند کے حواس کو بیداری میں منتقل کرنا سیکھ لے تو وہ زمانِ متواتر کی قید سے آزاد ہوجائے گا اور اپنی خواہش کے مطابق زمان و مکان میں سفر کرسکے گا ۔
نور کی لہریں جو ہمیں اطلاعات فراہم کرتی ہیں، ظاہر میں مادی اشیاء کی تخلیق کرتی ہیں۔
چنانچہ آہستہ آہستہ سب حقائق کا تجربہ ہوتا چلا جا رہا ہے اور آج کل کے خلائی سفر کرنے والے سترہ ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سیر کرتے ہیں، ابھی یہ بھی ابتدائی حیثیت ہے، مستقبل قریب میں خلائی مسافروں کا سفر نہایت تیز رفتار ہوگا، وہ بہت حیرت انگیز ہوگا، کیونکہ ستاوں کی درمیانی مسافت کو بہت تیزی سے طے کر لیں گے، جس کا تصور بھی ہمارے لئے مشکل ہے۔
گارڈن کوپر کا زمین کے اردگرد 90 منٹ میں 22 چکر لگانا ایسے نئے دور کا پیغام ہے جسے آئن سٹائن نے اپنے نظریئے اضافت کی بناء پر پہلے ہی صحیح مان لیا تھا، یہ خلائی سفر گارڈن کوپر نے 90 منٹ میں طے کر لیا، اور گارڈن کوپر کی عمر اس خلائی سفر میں کم ہو گئی۔
اب تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سفرِ معراج اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان پر اٹھایا جانا اورقرب قیامت میں نازل ہونا ایک حقیقت ثابتہ بن چکا ہے، وان یوما عند ربک کالف سنۃ مما تعدون (اور تیرے رب کے ہاں ایک دن ایک ہزار سال جتنا ہے جن کو تم شمار کرتے ہو) کی تفسیر تجربہ میں آگئی، ایک فلاسفر نے لکھا ہے کہ
”خلائی کشتی کے ذریعے ایک سے دوسرے کہکشاں تک آنا جانا ممکن الوقوع ہے اور وہاں کے حساب سے پچپن سال اور زمین کے حساب سے تین لاکھ سال گزر چکے ہوں گے“ یہ اس نے بڑے تھکا دینے والے تجربے کے عبد حساب لگایا ہے
ٹائم ٹریولز یا وقت میں سفر کا تذکرہ بہت ہوتا ہے۔ یہ ایک دلچسپ موضوع ہے جس پر بنی فلمیں عام لوگوں کے لیے سائنس فکشن ہی ہوتی ہیں۔ کیا یہ کہانی سے بڑھ کر بھی کچھ ہے؟ کیا وقت میں سفر ممکن ہے؟
آئیں پہلے آسان لفظوں میں سمجھیں کہ وقت میں سفر Time travel کیا ہے۔
ہمیں جو کچھ بھی نظر آتا ہے وہ روشنی کا کسی چیز سے منعکس ہو کر اس کا عکس ہماری آنکھ کے ذریعے اعصاب تک لے جانے کی وجہ سے ہے۔ روشنی کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل یا تقریباً تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ ہے جس کی وجہ سے ہمیں اطراف کے مناظر فوراً نظر آجاتے ہیں۔ اگر کوئی چیز زمین سے تین لاکھ کلومیٹر دور ہے تو اس سے منعکس ہونے والی روشنی کی کرن ہماری آنکھوں تک ایک سیکنڈ میں پہنچے گی، اس طرح ہمیں وہ چیز ایک سیکنڈ پہلے والی نظر آئے گی۔ سورج کا فاصلہ زمین سے 150 ملین کلومیٹر ہے اور اس کی کرن ہم تک تقریباً آٹھ منٹ میں پہنچتی ہے، دوسرے لفظوں میں ہمیں جو سورج نظر آتا ہے وہ آٹھ منٹ پہلے کا ہوتا ہے۔
ٹائم ٹریول کو سمجھنے کے لیے فرض کریں، اگر ہم روشنی کی دگنی رفتار سے سورج جتنے فاصلے پر موجود کسی ستارے یا سیّارے پر جا کر پلٹ آئیں تو ہمارا جانا چار منٹ میں اور واپسی بھی چار منٹ میں ہوگی اور کُل سفر آٹھ منٹ میں ہوگا۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہوگی کہ زمین پر پہنچ کر ہم خود اپنے آپ کو واپسی کا سفر کرتے دیکھیں گے! وجہ اس کی یہ ہوگی کہ کیونکہ روشنی کی وہ کرنیں جو ہم سے ٹکرا کے منعکس ہو کر ہماری متحرّک تصاویر images لے کر زمین کی طرف آ رہی تھیں، اُن کو تو قدرتی طور پر ہماری آنکھ تک پہنچنے میں آٹھ منٹ لگنے ہیں جبکہ ہم اُن سے پہلے (چار منٹ میں) روشنی کی دگنی رفتار کی وجہ سے زمین پر آگئے. اس طرح ہمارے متحرّک عکس قدرتی وقت (آٹھ منٹ) میں ہماری آنکھوں میں داخل ہوں گے، جس کی وجہ سے ہم خود کو دیکھ رہے ہوں گے۔ یہی مستقبل یا وقت میں سفر ہے، اسی کو ٹائم ٹریول Time Travel کہا جاتا ہے، یعنی روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز رفتار سفرجس میں حال present پیچھے رہ جاتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ انسان وقت میں سفر کرسکے؟ دیکھیے اس دور کے قابل ترین سائنسدان مسٹر ہاکنگ اس بارے میں کیا کہتے ہیں۔
Quote: ‘I do believe in time travel. Time travel to the future. Time flows like a river and it seems as if each of us is carried relentlessly along by time’s current. But time is like a river in another way. It flows at different in different places and that is the key to travelling into the future. This idea was first proposed by Albert Einstein over 100 years ago.
میں وقت میں، مستقبل میں سفر پر یقین رکھتا ہوں۔ وقت ہم سب کو ساتھ میں لیے دریا کی طرح بہتا ہے، لیکن یہ ایک اور طرح سے دریا کی طرح بہتا ہے، یہ مختلف جگہوں پہ مختلف رفتار سے بہتا ہے اور یہی وقت میں سفر کی کلید ہے۔ یہ تصوّر 100 سال پہلے آئن اسٹائن نے دیا۔
وقت میں سفر کے لیے سائنس دان ایک تصّور پر ریسرچ کر رہے ہیں جس میں ایک تصورّاتی خلائی راستہ ہے جو کسی پُر پیچ راستے یاپگڈنڈی پر شارٹ کٹ ہوگا۔ اس مختصر راستے کو Wormhole وورم ہول کا نام دیاگیا ہے۔
WORMHOLES: These space-time tubes act as shortcuts connecting distant regions of space-time. By journeying through a wormhole, you could travel between the two regions faster than a beam of light would be able to if it moved through normal space-time. As with any mode of faster-than-light travel, wormholes offer the possibility of time travel.
http://www.pbs.org/wnet/hawking/strange/html/wormhole.html
وَرم ہول: یہ اسپیس ٹائم ٹیوب Space Time Tube ہے جو کائنات کے دور دراز علاقوں کو ملانے والا ایک چھوٹا راستہ یعنی شارٹ کٹ ہے۔ اس میں سفر کرتے ہوئے آپ روشنی کی اس بیم سے زیادہ رفتار سے سفر کریں گے جو اسپیس ٹائم میں سفر کرتی ہے۔ کسی بھی پیرائے میں وورم ہول میں روشنی سے زیادہ رفتار سے سفر کا مطلب وقت میں ممکنہ سفر ہوسکتا ہے۔
سائنس دانوں کے مطابق نظریاتی طور پر روشنی سے تیز سفر ممکن نہیں لیکن یہ نظریہ اب تک کے حاصل علم کے مطابق ہی ہے۔ کائنات کے ہر لحظہ پھیلنے میں ایک نئے عامل اندھیری توانائی Dark Energy کی ممکنہ موجودگی سے یہ بات بھی ثابت ہوسکتی ہے کہ روشنی سے بھی تیز حرکت ممکن ہے۔ ایک سائنسی نظریہ یہ بھی ہے کہ کائنات روشنی کی رفتار سے زیادہ رفتار سے ہر لحظہ پھیل رہی ہے، جس کے بموجب رفتار کا لامحدود ہونا بھی ممکنات میں ہے۔ یعنی ہم منطقی طور پر رفتار کو روشنی تک محدود نہیں کرسکتے۔
مندرجہ بالا حوالے یہ ثابت کرتے ہیں کہ وقت میں سفر یعنی وقت کو پیچھے چھوڑتے ہوئے آگے بڑھنا فی الحال تھیوری میں قابل عمل جدید سائنسی نظریہ ہے جس پر کسی کو اعتراض نہیں، بس انسان کا مسئلہ اس کی علمی اور عملی استعداد ہے جو کہ فی الوقت محدود ہے۔ یعنی اس سفر کے سائنسی لوازمات کے لیے بے حساب علم اور استعداد کی ضرورت ہے۔
اب اس طرف توجّہ دیں کہ اس کائنات کے خالق نے وقت میں سفر کی نہ صرف عملی مثال قائم کی بلکہ اپنے کلام میں اس کا تذکرہ بھی کردیا ۔ یہ مثال 14 سو سال قبل سفر معراج میں عملاً دکھائی گئی۔ یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ ایک سپر سائنس یا سپر علم ہمیشہ سے کائنات میں کارفرما ہے جس کی عملی استعداد لامحدود ہے جو ہر کام کرگزرنے کی لامحدود قوّت رکھتی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے،
پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات لے گئی مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے تاکہ اسے اپنی نشانیوں کا مشاہدہ کرائے۔ وہی ہے سب کچھ سننے اور دیکھنے والا۔ ( بنی اسرائیل، آیت1)
گویا سفر ِمعراج میں کائنات میں رواں عظیم تر اور ہر انسانی سائنس کو مغلوب کر دینے والی سائنس کی قوّت کا ایک مظاہرہ ہوا جس کو جدید انسانی سائنس ابھی سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے۔
حوالہ جات:
واقعہ معراج اور سائنس ۔۔۔!
تحریر۔۔۔طیبہ ضیاء چیمہ،مکتوب امریکہ،نوائے وقت
http://www.nawaiwaqt.com.pk/columns/06-Jun-2013/210076
ٹائم ٹریول اور واقعہ معراج – مجیب الحق حقی
مجیب الحق حقی 05/02/2017 8609 مناظر ہیڈ لائنز واقعہ معراج، انسان، ٹائم ٹریول
https://daleel.pk/2017/02/05/29058
http://www.roohanidigest.net/%D9%88%D9%82%D8%AA-%D8%B3%D8%…/
http://urdu.chauthiduniya.com/2013/06/mairaj-un-nabi
https://plus.google.com/10095501304471143…/posts/gW9Wn9rS5kT
معراج اور صاحبِ معراج ﷺ مع سائنسی انکشافات از عبداللہ مدنی
http://www.jasarat.com/unicode/detail.php…
http://hakimkhalid.blogsome.com/2009/07/20/p230/
http://urdu.makarem.ir/compilation/book.php…
http://quraniscience.com/2011/12/واقعہ-معراج مصطفی-صلی-اللہ-علیہ-وسلم/
Image may contain: text
Image may contain: sky and cloud
No automatic alt text available.
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔