Wednesday, 18 October 2017

کیا حضرت موسی علیہ السلام نے نعوذ بااللہ حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹی سے عشق لڑایا؟ کیا قرآن کا واقعہ قارون بائبل اور یہودی کتب سے لیا گیا ہے؟

کیا حضرت موسی علیہ السلام نے نعوذ بااللہ حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹی سے عشق لڑایا؟ کیا قرآن کا واقعہ قارون بائبل اور یہودی کتب سے لیا گیا ہے؟
تورات اور بائبل کی غلطیوں کا انکشاف،قرآن پہ مستشرقین و ملحدین کا اعتراض اور اس کا جواب
پیشکش: فیس بک رد الحاد گروہ( فیس بک گروپ آپریشن ارتقائے فہم و دانش، فیس بک پیج مذہب،فلسفہ اور سائنس،فیس بک پیج سائنس ، فلسفہ اور اسلام)
»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»
قارون جسے بائبل اور یہودی کتب میں قورہ کے نام سے مخاطب کیا گیا ہے،عبرانی بائبل میں دو افراد کے لیے استمعال کیا گیا ہے جن میں سے ایک وہ قارون ہے جس کا تعلق حضرت موسی علیہ السلام کے واقعے سے ہے۔
قارون کا ذکر عہدنامہ قدیم میں میں موجود ہے۔یہودی ربانی علم کے مطابق قارون نے ایک بہت بڑا خزانہ دریافت کیا تھا جسے حضرت یوسف علیہ السلام نے مصر میں چھپا دیا تھا اور اس کے مطابق اس کے خزانے کی چابیاں تین سو خچر اٹھاتے تھے۔قرآن نے قارون کے حوالے سے اس طرح کا کوئی دعوی نہیں کیا۔نمبر( 16:21) کی بائبلی کتاب کے مطابق قورہ یا قارون نے اپنے 249 ساتھیوں کے ساتھ حضرت موسی علیہ السلام کے خلاف بغاوت کی،ان کی نافرمانی کی جس کے نتیجے میں ان پہ اللہ تعالی کی طرف سے آسمان سے آگ کا عذاب بھیجا گیا اور بعد میں ان سب کو ان کے گھر والوں سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا۔بائبل کے مطابق شجرہ نسب درج ذیل ہے
"قورہ بن اظہار بن کوہاث بن لیوی"۔اس شجرہ نسب کے مطابق قارون حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت موسی علیہ السلام کا کزن کہلائے گا لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ بات کس حد تک سچ ہے کیونکہ قرآن نے صرف قارون کے حضرت موسی علیہ السلام کی قوم میں سے ہونے کا ذکر کیا ہے لیکن اس کا شجرہ نسب بیان نہیں کیا اور نہ ہی قرآن نے اس کے 249 ساتھیوں کا تذکرہ کیا ہے اور نہ ہی ان پہ آسمان سے آگ کے عذاب کے نزول کا بیان کیا ہے۔قرآن میں صرف قارون کئ دولت کے نشے میں سرکشی اور عذاب کے طور پہ اس کے زمیں میں دھنسنے کا ذکر ہے۔اس بات کی کوئی تفصیل نہیں ہے کہ اس نے کس طرح زمین میں فساد برپا کیا۔
اگرچہ قرآن نے سورہ المومن آیات 25-23 میں قارون کا تذکرہ فرعون و ہامان جیسے نافرمانوں کے ساتھ کیا ہے لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ فرعون و ہامان کا ہم عصر تھا بلکہ ایک ہی ساتھ سب کا بیان حضرت موسی علیہ السلام کی قرآن کی طرف سے بیان کردہ وسیع داستان کا ایک حصہ ہوسکتا ہے۔قرآن نے کہیں اس بات کی تخصیص نہیں کی کہ قارون مصر میں فرعون و ہامان کے ساتھ حضرت موسی علیہ السلام کے خلاف سرکشی کرنے والے افراد میں شامل تھا یا بنی اسرائیل کی مصر سے فلسطین کی طرف ہجرت کے بعد فلسطین میں سرکشی کرنے والا تھا۔لہذا عیسائی مستشرقین و ملحدین کا یہ کہنا کہ قرآن نے قارون کو فرعون و ہامان کا ہم عصر قرار دے کر تاریخی غلطی کی ہے، تو یہ کہنا سو فیصد غلط ہے۔قرآن مجید میں قارون کے بارے میں سب سے تفصیلی بیان پارہ نمبر بیس سورہ القصص میں ہے جس میں قرآن نے اسے حضرت موسی علیہ السلام کی قوم کے ایک سرکش دولتمند شخص کے طور پہ بیان کیا ہے جسے اپنی دولت کے غرور اور اپنے وقت کے نبی حضرت موسی علیہ السلام کی نافرمانی کی وجہ سے زمین میں دھنسا دیا گیا تھا۔
مستشرقین و ملحدین کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں بیان قارون نعوذ بااللہ بائبلی کتابوں میں مذکور قوراہ سے اخذ کیا گیا ہے۔لیکن یہ کہنا سو فیصد غلط ہے کیونکہ قارون قرآن مجید میں بیان قوراہ کی عربی شکل ہے اور ایک نام کے دوسری زبان میں اپنے معنوں اور لسانی شکل میں استعمال سے یہ بالکل ثابت نہیں ہوتا کہ یہ لفظ دوسری زبان سے اخذ کیا گیا کیوں کہ قرآن نے زمانہ قدیم کے کئی لوگوں کے نام عربی شکل میں قرآن مجید میں پیش کیے ہیں اور یہ عربی شکل کسی طرح بھی اخذ نہیں کہی جاسکتی کیوں کہ مختلف زبانوں اور کتابوں میں واقعات کا غیر منحصر اور مختلف لسانی شکلوں میں بیان دنیا کی ہر کتاب میں ملتا ہے اور مختلف زبانوں میں ان کا الگ الگ بیان اپنی اپنی لسانی شکل میں ایک کی دوسرے سے چوری نہیں کہا جا سکتا جب تک اس کا واضح ثبوت موجود نہ ہو۔مثال کے طور پہ قرآن مجید میں مذکور فرعون مصری بادشاہ کے لقب فیرعا( Per-aa) کا عربی نام ہے اور مصری لفظ آمانہ یا ہاآمن جو کہ قدیم مصر میں آمون دیوتا کے سب سے بڑے مذہبی پیشواؤں میں سے ایک ہوتا تھا،کا عربی نام ہے۔آؤرون یعنی حضرت موسی علیہ السلام کے بھائی کو قرآن نے ہارون اور یوحنا کو یحیٰی علیہ السلام کا نام دیا ہے جب کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی حضرت ہاجرہ و سارہ،حضرت حوا اور حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی کا نام لیے بغیر تذکرہ کیا گیا ہے۔اسی طرح قرآن اور بائبل میں ایک ہی شخصیات کے مختلف نام ہیں لیکن دونوں ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔بائبل میں مذکور ایبر کو قرآن نے حضرت ہود،جان دی بہتات کو یحیٰی،بائبل میں مذکور حضرت یوسف علیہ السلام کے دور کے مصری بادشاہ پوتیفار کو عزیز اور سال کو طالوت کے نام سے پکارا ہے۔لہذا یہ بات واضح ہے کہ مختلف شخصیات کو مختلف زبانوں میں مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے اور ان کا ایک زبان میں کسی شکل میں بیان بغیر کسی ثبوت کے دوسری زبان سے اخذ شدہ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ جس کو ماخوذ یا اخذ شدہ قرار دیا جا رہا ہے وہ واقعات اور شخصیات کا الگ الگ اور دوسروں پہ غیر منحصر علم بالکل ہوسکتا ہے اور اس کی مثال دنیا کی کئی زبانوں میں موجود ہے۔لہذا صرف نام کی بنیاد پہ مستشرقین و ملحدین کا یہ کہنا کہ قرآن کا واقعہ قارون بائبل سے لیا گیا ہے بالکل غلط ہے۔اگر مکمل واقعہ دیکھا جاتا ہے تو ہمیں قارون کے بائبل کی طرف سے بیان اور قرآن کی طرف سے قارون کے بیان میں مشابہت کے ساتھ ساتھ کافی فرق بھی واضح نظر آتا ہے۔کیونکہ جب دو افراد ایک ہی حقیقت کا الگ الگ بیان کرتے ہیں تو ان میں مشابہت لازمی ہوتی ہے اور یہ لازمی نہیں کہ بیان کرنے والا ایک شخص دوسرے سے وہ واقعہ سن کر اس کو نقل کر رہا ہے۔اگر ایسا ہے تو اس کا ثبوت دیا جانا چاہیے لیکن آج تک ملحدین و مستشرقین نے اس بات کا ثبوت نہیں دیا۔جب تورات اور بائبل اپنے بیان میں درست تھے تب قرآن نے ان کی تصدیق کی اور جب ان کا بیان غلط تھا قرآن نے اس کی تردید کی اور تاریخ اور آرکیالوجی یعنی علم آثار قدیمہ ثابت کر چکا ہے کہ تو رات اور بائبل بار بار تبدیل کی گئی جب کہ اج تک کوئی مستند شہادت قرآن کو تحریف شدہ ثابت نہیں کر سکی۔دوسری بات یہ کہ کئی ایسے تاریخی و سائنسی حقائق ہیں جو آج تک قرآن کے علاوہ کسی آسمانی کتاب نے پیش نہیں کیے اور نہ ہی تورات اور بائبل نے۔اگر قرآن نعوذ بااللہ محض تورات اور بائبل کی نقل پہ مبنی ہے تو قرآن کے 1800 مضامین میں سے ایک ہزار سے زائد مضامین جو تورات اور بائبل میں نہیں ہیں قرآن نے کہاں سے نقل کیے۔وہ تاریخی و سائنسی حقائق جو اس زمانے میں کوئی نہیں جانتا تھا وہ کیسے بیان کیے۔ظاہر ہے یہ واقعات کہیں سے نقل نہیں کیے جا سکتے تھے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ قرآن ایک انسانی کلام نہیں بلکہ ایک خدائی کلام ہے جسے اسی رب نے اپنے علم کی بنیاد پہ نازل کیا جس نے تورات اور بائبل نازل کی۔فرق یہ ہے کہ باقی تبدیل کر دی گئیں جب کہ قرآن چونکہ قیامت تک کے لیے ہدایت تھا،اس لئے اس کی تحریف سے حفاظت کی گئ۔
مستشرقین و ملحدین کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بائبلی کتابوں میں مذکور قارون کے دو ساتھیوں داضان اور ابیرام سے واقف تھے اور اس واقعے کو قرآن میں نقل کر دیا لیکن اس کا ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں اور اگر وہ اپنا الزام سچ ثابت کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اس کا ثبوت دینا ہوگا لیکن آج تک لگ بھگ سو سال کے بعد بھی مستشرقین اپنے اس اعتراض کا کوئی مستند ثبوت پیش نہیں کر سکے۔اور بات یہ کہ قرآن کی سورہ القصص اور سورہ المومن جن میں قارون کا واقعہ مذکور ہے دونوں مکہ مکرمہ میں نازل ہوئیں جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی یہودی یا عیسائی سے کوئی رابطہ نہیں تھا اور نہ ہی یہاں یہودی یا عیسائی آباد تھے اور نہ ہی آج تک تاریخ اس بات کا کوئی ثبوت فراہم کر سکی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ یا اس سے باہر کسی یہودی یا عیسائی سے بائبلی کتابوں کی تعلیم حاصل کی۔تاریخ کے مطابق وہ واحد عیسائی جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ میں ملاقات ہوئی وہ ورقہ بن نوفل تھے جو کہ جنوری 610ء میں یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہ پہلی وحی نازل ہونے کے صرف چند ماہ بعد ہی انتقال کر گئے تھے جب کہ وحی کا سلسلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہ اس کے بعد 23 سال تک جاری رہا۔علاوہ ازیں سورہ القصص جس میں قارون کا واقعہ تفصیل سے مذکور ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی میں یعنی ورقہ بن نوفل کی وفات کے لگ بھگ دس سال بعد نازل ہوئی اور اس بات کا کوئی ثبوت نہیں تاریخ میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمانے میں کسی اور یہودی یا عیسائی سے بائبلی کتابوں کی تعلیم حاصل کی۔اگر ایسا تھا تو کس طرح مکہ مکرمہ کے بت پرست جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان تک کے دشمن تھے،اس بات پہ خاموش رہتے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دن رات ان کے درمیان رہ رہے تھے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر طرح کی سرگرمیوں سے آگاہ تھے۔اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی یہودی یا عیسائی سے سیکھ کر یہ واقعات نقل کرتے تو وہ لوگ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سخت دشمن تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان تک کے دشمن تھے،بھلا کیسے اس بات پہ خاموش رہتے۔
مزید یہ کہ ملحدین کہتے ہیں کہ قارون کی بائبلی کتابوں میں مذکور داستان میں ایک کردار ابیرام تھا جس کو عہد نامہ قدیم کے یونانی ترجموں جیسا کہ سیپاٹوگنٹ میں ابیرون کہا گیا ہے اور جس کو تلفظ میں اویرون کے نام سے پکارا جاتا تھا۔اعتراض کرنے والے کہتے ہیں کہ اسی یونانی اویرون کو نعوذ بااللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرعون کی شکل دے دی۔لیکن یہ الزام بھی بالکل غلط ہے۔یہ جھوٹ اور گھٹیا اعتراض کرنے والے آج تک اس بات کا بھی ثبوت فراہم نہیں کر سکے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مکہ مکرمہ میں بائبلی کتابوں کا عربی نسخہ میسر تھا،یونانی نسخہ تو دور کی بات۔اور بات یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو عربی زبان تک لکھ پڑھ نہیں سکتے تھے بھلا یونانی زبان سے کس طرح یہ واقعہ نقل کرتے۔علاوہ ازیں اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واقعہ بائبلی کتابوں سے نقل کیا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ سارا واقعہ درست بیان کر دیا جب کہ نام غلط کر رہے۔مزید یہ کہ جدید دور میں دریافت ہونے والی قدیم مصری تاریخ اور زبان ثابت کر چکی ہے کہ قرآن مجید میں بیان کردہ فرعون محض ایک افسانوی نقل شدہ کردار نہیں بلکہ قدیم مصر کی مرکزی شخصیت تھا۔مزید یہ کہتے ہیں کہ بائبلی کتابوں میں مذکور داضان کو قرآن نے ہامان بنا دیا۔یہ بھی غلط ہے کیونکہ دریافت شدہ مصری تاریخ یہ بھی ثابت کر چکی ہے کہ ہامان مصری تاریخ کی ایک حقیقی شخصیت ہے نہ کہ داضان سے نقل شدہ ایک بائبلی شخصیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن پہ لگائے جانے والے یہ اعتراض اتنے بچگانہ ہیں کہ ان پہ جی بھر کے ہنسنے کو دل کرتا ہے۔ملحدین و مستشرقین کی قرآن کے بارے میں بے بسی کو دیکھ کے لگتا ہے کہ یہ انتہائی اذیت میں مبتلا ہیں اور قرآن کو غلط ثابت کرنے کا کوئی مستند اور ثابت طریقہ نہیں ڈھونڈ پا رہے۔ اس لئے کبھی قرآن پہ کیا اعتراض کرتے ہیں تو کبھی کیا اعتراض لیکن قرآن کو جھوٹ ثابت کرنے کی ان کی ساری کوششیں گزشتہ ایک ہزار سال سے ناکام چلی آرہی ہیں۔
ہم اپنا سوال ایک بار پھر دہراتے ہیں کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نعوذ بااللہ قرآن یہودی اور عیسائی کتابوں سے اخذ کیا تو مستشرقین و ملحدین اس بات کا ثبوت دیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لکھنا پڑھنا جانتے تھے جب کہ تاریخ ثابت کر چکی ہے کہ بائبلی کتابوں کی تعلیم یا ان کا علم تو دور کی بات، آپ صلی اللہ علیہ وسلم لکھنا پڑھنا تک نہیں جانتے تھے اور باقی جہاں تک بات ہے واقعات میں پائی جانے والی مشابہت کی تو جب دو افراد کی طرف سے ایک ہی حقیقت بیان کی جائے تو دونوں کے بیان میں مشابہت ہوتی ہے اور ایک کا بیان دوسرے کی نقل نہیں کہا جا سکتا اور اگر کوئی کہتا ہے تو اس کا ہمیں ثبوت دے جب کہ مستشرقین و ملحدین کے پیش کردہ ثبوت اس کمزور نوعیت کے ہیں کہ غیر جانبدار خود یورپی مورخین کی اکثریت ان کو مسترد کر چکی ہے۔لہذا جب بائبل جس بات میں درست تھی قرآن نے اس کی تصدیق کی اور حب اس کا بیان تحریف شدہ تھا تب قرآن نے اس کے بیان کی اصلاح کی۔مزید یہ کہ جس قارون کو بائبلی کتابوں نے قوراہ کا لقب دیا ہے قرآن نے اسے اپنے عربی انداز میں قارون کا لقب دیا ہے اور ایک ہی نام مختلف زبانوں میں مختلف طرح استمال ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایک زبان نے نام دوسری زبان سے چوری کیا۔یہاں تک کہ شامی، آرامی اور نباتی الفاظ بائبلی کتابوں میں مذکور ہیں۔اب کیا یہی کہا جائے گا کہ ان کتابوں نے یہ الفاظ ان زبانوں سے چوری کیے اور یہ نام تاریخ کے حقیقی نہیں بلکہ افسانوی کردار تھے؟
مستشرقین و ملحدین کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نعوذ بااللہ ہامان و قارون کا قصہ یہودی کتب جیسا کہ مدراش نمبرز ربہ سے اخذ کیا۔مدراش کے مطابق
"دو دولت مند انسان دنیا میں ظاہر ہوئے،ایک بنی اسرائیل میں اور دوسرا یعنی ہامان دنیا کی دیگر قوموں میں سے اور دونوں کو دنیا سے ہلاک کر دیا گیا۔"
مدراش کے دونوں حصے تیرہویں صدی عیسوی میں مرتب کیے گئے جب کہ قرآن اس سے سات سو پہلے نازل ہوچکا تھا۔خود یورپی مستشرق زونز کے مطابق مدراش نمبرز اول ربہ کی کتاب بارہویں صدی عیسوی میں مرتب کی گئ جب کہ مدراش نمبرز ربہ نویں صدی عیسوی میں مرتب کی گئ یعنی قرآن کے نزول کے دو سو سال بعد۔اب قرآن کس طرح ایسی کتاب کی نقل کر سکتا تھا جو لکھی ہی اس کتاب کے بعد گئی ہے۔عقل
مدراش ربہ کا مصنف ہامان کا تذکرہ قارون کے ساتھ کرتا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بات کہتا ہے کہ ہامان اور قارون دنیا کی مختلف قوموں کے دو فرد تھے۔مزید برآں وہ یہ تک نہیں کہتا کہ وہ دونوں ہم عصر تھے۔اب کون غلطی میں ہے یہ بات واضح ہے اور یہ وہ غلطی ہے جو قرآن پہ اعتراض کرنے والے مستشرقین ہارووٹز اور نیومین کر رہے ہیں۔مدراش 23 ابواب پہ مشتمل ہے۔پہلے چودہ ابواب باقی نو ابواب سے بالکل مختلف ہیں۔ان دونوں حصوں کو شاید تیرہویں صدی عیسوی کے ابتدا اکٹھا کیا گیا تھا۔یہی وجہ ہے کہ کچھ محققین ان کو دو مختلف مصنفین کی تحریر سمجھتے ہیں۔مستشرق زونز۔۔۔Zunz۔۔۔ کے مطابق مدراش نمبرز ربہ بارہویں صدی عیسوی سے زیادہ پرانی نہیں ہے۔لہذا جب مستشرقین خود تسلیم کر رہے ہیں کہ مدراش نمبرز ربہ بارہویں صدی عیسوی سے زیادہ پرانی نہیں ہے تو پھر قرآن کیسے اس کتاب سے واقعات چوری کر سکتا تھا جو خود قرآن سے پانچ سو سال بعد مرتب کی گئ۔جہاں تک بات ہے مدراش نمبرز ربہ کے حصہ دوم کی تو اس کے بارے میں انسائیکلو پیڈیا جیوڈیکا یہ لکھتا ہے
"کئ محققین کے مطابق مدراش نمبرز ربہ دوم جو کہ مکمل مدراش کا حصہ دوم ہے جس کا پہلا حصہ گم ہوگیا تھا اور اسے مدراش تنہومہ کے اکثر حصے کی طرح نویں صدی عیسوی میں مرتب کیا گیا۔"۔
مدراش تنہومہ کی عمر اور تاریخ کے بارے میں یہودی و عیسائی حوالہ جات خود ظاہر کرتے ہیں کہ یہ مدراش نویں صدی عیسوی سے تعلق رکھتی ہے جب کہ قرآن اس سے تین سو سال پہلے نازل ہوچکا تھا۔اب قرآن کس طرح ایک ایسی کتاب سے واقعات چوری کر سکتا تھا جو خود قرآن کے تین سو سال بعد مرتب کی گئ۔کہیں ایسا تو نہیں کہ اس کتاب نے خود قرآن سے توقعات چوری کیے۔لہذا ہارووٹز کا یہ کہنا کہ قرآن نے مدراش کی نقل کرکے قارون کا تذکرہ ہامان کے ساتھ کیا،بالکل غلط ہے۔قرآن پہ اعتراض کرنے والے کس طرح غلطی پہ غلطی کیے جا رہے ہیں اور جھوٹ پہ جھوٹ بولے جا رہے ہیں۔
بائبل اور قرآن اس بات پہ متفق ہیں کہ حضرت موسی علیہ السلام نے مصر سے فرار ہوکر مدین میں قیام کیا تھا۔جب کہ یہودیوں کی تلمود یہ مضحکہ خیز کہانی بیان کرتی ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام ایتھوپیا کی طرف فرار ہوگئے اور وہاں کے بادشاہ کی پسندیدہ شخصیت بن گئے۔بادشاہ کی وفات کے بعد لوگوں نے حضرت موسی علیہ السلام کو بادشاہ بنا لیا اور بادشاہ کی بیوہ ملکہ سے ان کی شادی کر دی لیکن اپنی حکومت کے چالیس سال کے دوران حضرت موسی علیہ السلام نے اپنی افریقی بیوی سے کبھی ہمبستری نہیں کی جس پہ ملکہ نے اپنے لوگوں سے کہا کہ یہ اجنبی کیوں تم پہ حکومت کر رہا ہے۔اس نے کبھی ایتھوپیا کے دیوتاؤں کی پوجا نہیں کی۔ اس پہ ایتھوپیا کے لوگوں نے حضرت موسی علیہ السلام کو تخت سے ہٹا دیا اور انہیں بیشمار مال و دولت دے کر رخصت کر دیا۔پھر وہ مدین آگئے۔ تلمود کی یہ کہانی بہت ہی مضحکہ خیز ہے۔اس کے مطابق اسیریا یعنی شمالی عراق اس زمانے میں ایتھوپیا کے قبضے میں تھا اور ایتھوپیا کا بادشاہ اور حضرت موسی علیہ السلام اسیریا میں بغاوتوں کو ختم کرنے کے لیے اکٹھے جنگ لڑتے رہے۔اب ہر وہ جسے تاریخ سے ذرا بھی واقفیت ہے یہ جانتا ہے کہ ایسیریا کس طرح ایتھوپیا کے قبضے میں تھا جب کہ درمیان میں طاقتور فرعون مصر، شام اور فلسطین کے علاقوں پہ قابض تھا اور نہ ہی ایتھوپیا کی فوج اتنی طاقتور تھی کہ پورے عرب کو قبضے میں لے کر دوسرے راستے سے ایسیریا پہ قبضہ کر سکے۔مدین میں حضرت موسی علیہ السلام کے قیام کے بارے میں تلمود کہتی ہے کہ وہاں حضرت شعیب علیہ السلام کے گھر میں قیام کے دوران حضرت موسی علیہ السلام نے نعوذ بااللہ ان کی بیٹی صفورا خفیہ طور پہ عشق لڑایا اور ان سے بعد میں شادی کر لی۔یہ سراسر جھوٹ اور بہتان ہے۔ جب کہ حقیقت یہ تھی کہ مدین میں حضرت موسی علیہ السلام کے پہنچتے ہی حضرت شعیب علیہ السلام نے ان سے اپنی ایک بیٹی کی شادی کر دی اور اس کی تفصیل قرآن میں مذکور ہے۔ یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ کس طرح اسرائیلی یعنی یہودی اپنی ہی تاریخ سے لاعلم اور جاہل تھے اور کس طرح اپنے ہی پیغمبر پہ الزام تراشی کرتے رہے اور کس طرح قرآن نے ان کی تاریخی غلطیوں کی اصلاح کی۔ اب بے شرمی سے اور کس منہ سے یہودی و عیسائی مستشرقین قرآن کو الزام دیتے ہیں کہ قرآن نے ان کی کہانیوں کی نقل کی۔کیا اب یہی مستشرقین بائبل اور تورات کی غلطیوں کی طرف بھی ذرا منہ کریں گے جن کو قرآن پہ اعتراض کرنے سے فرصت نہیں؟ کیا مستشرقین و ملحدین نہیں دیکھتے کہ قرآن کے بیان اور بائبلی کتابوں کے بیان میں بہت فرق ہے؟ اوپر بیان کی گئی ساری تفصیل ثابت کر چکی ہے کہ قرآن پہ لگائے جانے والے یہ الزام بالکل غلط اور جھوٹ پہ مبنی ہیں جب کہ ساتھ ہی ہماری اوپر بیان کردہ تفصیل واضح کر چکی ہے کہ تورات اور بائبل غلطیوں سے بھرپور تھیں اور قرآن نے ان کی غلطیوں کی اصلاح کی۔
ھذا ما عندی۔واللہ اعلم بالصواب

حوالہ جات:
http://www.islamicstudies.info/tafheem.php?sura=28&verse=29
http://www.islamic-awareness.org/Quran/Sources/BBnumb.html
"Hebrew University Archaeologists Find 12th Dead Sea Scrolls Cave". The Hebrew University of Jerusalem. Retrieved 2017-06-07
"The Digital Library: Introduction". Leon Levy Dead Sea Scrolls Digital Library. Retrieved 2014-10-13.
Fagan, Brian M., and Charlotte Beck, The Oxford Companion to Archeology, entry on the "Dead sea scrolls", Oxford University Press, 1996.
Martin G. Abegg; Peter Flint; Eugene Ulrich (7 August 2012). The Dead Sea Scrolls Bible. HarperCollins. pp. 16–. ISBN 978-0-06-203112-9. Retrieved 3 April 2013.
http://globaltab.net/Articles/ArticleDetail/10123
https://ur.m.wikipedia.org/wiki/القصص
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Waraka_ibn_Nawfal

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔