اسلام کا تصور کائنات، اور اس پر ملحدین کے سائنسی اعتراضات اور ان کا جواب
پیشکش: فیس بک رد الحاد گروپس
پیشکش: فیس بک رد الحاد گروپس
(فیس بک گروپ آپریشن ارتقائے فہم و دانش،فیس بک پیج مذہب فلسفہ اور سائنس، فیس بک پیج سائنس ، فلسفہ اور اسلام)
»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»
اسلام کے تصور کائنات کے حوالے سے ملحدین کے اعتراضات اور اس کے جوابات درج ذیل ہیں۔قرآن مجید کی ایک آیت ہے
اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى يُدَبِّرُ الْأَمْرَ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُم بِلِقَاءِ رَبِّكُمْ تُوقِنُونَ ( 2 ) رعد - الآية 2
خدا وہی تو ہے جس نے ستونوں کے بغیر آسمان جیسا کہ تم دیکھتے ہو (اتنے) اونچے بنائے۔ پھر عرش پر جا ٹھہرا اور سورج اور چاند کو کام میں لگا دیا۔ ہر ایک ایک میعاد معین تک گردش کر رہا ہے۔ وہی (دنیا کے) کاموں کا انتظام کرتا ہے (اس طرح) وہ اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کرتا ہے کہ تم اپنے پروردگار کے روبرو جانے کا یقین کرو
(سورہ نمبر 13 یعنی سورہ الرعد آیت نمبر 2)
جب کہ ملحد نے اس کا درج ذیل غلط ترجمہ پیش کیا ہے تاکہ قرآن پہ اعتراض پیش کیا جائے
"اسلام نے اگلا تصور یہ دیا کہ ان ساتوں آسمانوں کو نظر نہ آنے والے ستونوں نے اٹھا رکھا ہے۔ (آیت 13:2)"
اگر اوپر پیش کی گئی آیت اور اس کا اردو ترجمہ غور سے پڑھیں تو صاف ظاہر ہے کہ قرآن نے یہ کہا ہے کہ اللہ تعالی نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے کھڑا کیا ہے لیکن ملحد نے اس کا غلط ترجمہ پیش کرکے یہ کہا کہ اسلام کے مطابق آسمان ستونوں کے سہارے قائم ہیں۔ملحدین قرآن و اسلام پہ اعتراض کرنے میں اتنے اندھے ہوگئے ہیں کہ آیت کا ترجمہ بھی ٹھیک پڑھنے کی کوشش نہیں کی یا پھر جان بوجھ کر آیت کا غلط ترجمہ پیش کرکے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے
فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَـمَاوَاتٍ فِىْ يَوْمَيْنِ وَاَوْحٰى فِىْ كُلِّ سَـمَآءٍ اَمْرَهَا ۚ وَزَيَّنَّا السَّمَآءَ الـدُّنْيَا بِمَصَابِيْحَ وَحِفْظًا ۚ ذٰلِكَ تَقْدِيْـرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِـيْـمِ (12)
پھر انہیں دو دن میں سات آسمان بنا دیا اور اس نے ہر ایک آسمان میں اس کا کام القا کیا، اور ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں سے زینت دی اور اسے محفوظ بنایا، یہ زبردست جاننے والے کا کام ہے۔
جب کہ ملحدین نے اس کا
درج ذیل غلط ترجمہ پیش کیا ہے
"اسلام نے اگلا تصور دیا کہ ستارے صرف "پہلے آسمان" (جسے دنیا کا آسمان بھی کہا جاتا ہے) میں ہیں اور صرف دنیا کے آسمان کو ہی اپنی روشنی سے زینت دیتے ہیں۔ ( آیت 41:12، آیت 67:5)"
ملحدین کی عقل پر ماتم کرنا چاہیے۔اوپر پیش کردہ آیت میں قرآن نے کیا ہے کہ ہم نے آسمان دنیا یعنی پہلے آسمان کو ستاروں سے مزین کیا لیکن یہ بالکل نہیں کہا کہ ستارے صرف پہلے آسمان پہ ہیں۔دوسری بات کیا ملحدین بتا سکتے ہیں کہ سات آسمان و سات زمینوں سے کیا مراد ہے۔جب ملحدین اسلام کے مطابق اس تصور کی وضاحت ہی نہیں کر سکتے اور نہ ہی وہ ان آسمانوں کی وسعت و حدود سے واقف ہیں تو وہ کیسے کہ سکتے ہیں کہ باقی آسمانوں پہ بھی ستارے تھے جب کہ قرآن نے اس کا انکار کیا۔اور بات یہ کہ اگر قرآن نے آسمان کی تزئین کے لیے ستاروں کا ذکر آسمان دنیا کے ساتھ کیا ہے تو اس سے کہاں ثابت ہوتا ہے کہ اسلام کی نظر میں ستارے صرف پہلے آسمان پہ ہیں اور کہیں نہیں جب کہ کسی بات کے ذکر نہ کرنے کا مطلب اس کا انکار کبھی نہیں ہوتا۔
اَلَمْ تَـرَوْا كَيْفَ خَلَقَ اللّـٰهُ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا (15)
کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے سات آسمان اوپر تلے (کیسے) بنائے ہیں۔
وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِـيْهِنَّ نُـوْرًا وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا (16)
اور ان میں چاند کو چمکتا ہوا بنایا اور آفتاب کو چراغ بنا دیا۔
جب کہ ملحدین نے اس کا درج ذیل غلط ترجمہ پیش کیا ہے
" اسلام نے اگلا تصور دیا کہ ستاروں کے مقابلے میں چاند اور سورج کی روشنی ساتوں آسمانوں کو منور کرتی ہے جس میں سدرۃ المنتہیٰ اور جنت بھی شامل ہیں۔ ( سورۃ 71، آیت 15 تا 16)"
اب اگر عربی زبان اور قرآن کے ترجمے سے ذرا بھی شد بد رکھنے والا شخص اوپر پیش کردہ آیت کے عربی متن اور ترجمہ پہ غور کرے تو پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالی نے اوپر پیش کردہ آیت میں کہیں نہیں کہا کہ ستارے آسمان دنیا کے علاوہ باقی آسمانوں کو روشن نہیں کرتے۔اس آیت میں ستاروں کا ذکر ہی نہیں کیا گیا مطلق انکار تو دور کی بات۔جب کہ ملحدین نے عوام کو کافر اور بے دین کرنے کے لیے جان بوجھ کر اس آیت کا یہ غلط ترجمہ پیش کیا ہے کہ قرآن نے اس بات کا انکار کیا ہے کہ ستاروں کی روشنی آسمان دنیا کے علاوہ باقی آسمانوں کو روشن نہیں کرتی۔دوسرا اعتراض اس آیت کے حوالے سے ملحدین یہ کرتے ہیں کہ قرآن کے مطابق سورج اور چاند سات آسمانوں اور زمینوں کو روشن کرتے ہیں جن میں سدرۃ المنتہیٰ بھی شامل ہے۔صحیح مسلم شریف کی حدیث نمبر 431 کے مطابق سدرۃ المنتہیٰ چھٹے آسمان میں ہے۔ اب ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا ملحدین بتا سکتے ہیں کہ آسمان دنیا کے علاوہ باقی آسمانوں میں سورج اور چاند نہیں بلکہ سائنس ابھی تک اس بات کا تعین ہی نہیں کر سکی کہ پہلے آسمان کی وسعت اور حد کیا ہے باقی سات چھ آسمان تو دور کی بات۔قابل مشاہدہ کائنات جس کا انسان آج تک مطالعہ کر سکا ہے یا اسے بالواسطہ یا براہ راست دیکھ سکا ہے ،کی حد 45.6 بلین نوری سال ہے۔اس سے آگے کچھ پتہ نہیں کیا ہے۔جب آج تک سات آسمانوں کی وسعت ہی نہیں طے کی جا سکی اور نہ ہی 45 بلین نوری سال سے آگے کچھ دیکھا جا سکا ہے تو ملحدین کیسے کہ سکتے ہیں کہ وہاں ان آسمانوں کے اپنے سورج اور چاند نہیں اور یہ آسمان کسی اپنے سورج اور چاند سے روشن نہیں۔قرآن نے ان آسمانوں کے جس سورج اور چاند سے روشن ہونے کا ذکر کیا ہے لازمی نہیں کہ یہ ہماری دنیا کے سورج اور چاند ہوں کیوں کہ قرآن نے اس بات کی تخصیص نہیں کی کہ یہ کون سے سورج اور چاند ہیں۔لہذا اس ساری تفصیل کے بعد کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ قرآن نے نعوذ بااللہ سائنسی طور پہ غلط کہا
آگے ملحدین کہتے ہیں کہ اسلام نے اگلا تصور دیا کہ چاند اور سورج "چپٹی گول ڈسک (Flat Round Disc)" ہیں جیسے کہ گول پلیٹ ہوتی ہے۔ جبکہ حقیقت میں سورج اور چاند گول ڈسک نہیں بلکہ گول کرہ (sphere) ہیں۔ مزید تصور یہ دیا کہ سورج اور چاند کے چہرے کا رخ آسمانوں کی طرف ہے، جبکہ انکی پیٹھ زمین کی طرف ہے۔
(حوالہ صحیح حدیث: ابن حضرت عباس سے روایت ہے کہ چاند کا چہرہ آسمان میں عرش تک ہے اور اسکی پشت زمین کی طرف ہے۔ (مستدرک الحاکم، جلد 2، صفحہ 545، دار الکتب العلمیہ بیروت
اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کی کسی آیت یا کسی حدیث میں نہیں ہے کہ سورج اور چاند چپٹی گول ڈسک ہیں تھالی کی طرح۔قرآن کی کسی آیت یا حدیث میں یہ مذکور نہیں۔ہاں اگر ملحدین یہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے قول کے مطابق(در منثور کی تفسیر میں جو ملحدین اس سلسلے میں پیش کرتے ہیں،واضح طور پر بالکل مذکور نہیں کہ یہ ان دو جلیل القدر صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم کی ذاتی رائے ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا فرمان) سورج اور چاند کا چہرہ آسمان کی طرف اور پشت زمین کی طرف ہے تو یہ بات خود سائنس تسلیم کرتی ہے کہ ایک ہی وقت میں زمین سورج یا چاند کے ایک حصے کے سامنے ہوتی ہے جب کہ سورج اور چاند کا دوسرا حصہ جو زمین سے نظر آنے والے حصے سے دوسری طرف ہے اس کا رخ آسمانوں کی طرف ہوتا ہے۔لہذا سورج اور چاند کاایک حصہ زمین کو روشن کرتا ہے تو دوسرا حصہ خلا یا آسمان کے دوسرے حصے کو۔اس سے یہ بالکل ثابت نہیں ہوتا کہ اسلام کے مطابق سورج اور چاند کرہ نہیں بلکہ چپٹی گول تھالی یا ڈسک ہیں۔ہم نے اسلام کے اس تصور کی جو سائنسی تفصیل پیش کی ہے وہ جدید سائنس کے بالکل عین مطابق ہے۔درج ذیل وضاحت پڑھیں
"24 hours is the length of the average solar day (Synodic Day), the time it takes the earth to rotate so that (on average) it is facing the sun at the same angle. Because the time period derives from a sun-referenced rotation, not a star-referenced rotation, the same spot on the earth faces the sun at approximately the same time every solar day. (Ignoring additional changes from axial tilt and orbital eccentricity)."
https://physics.stackexchange.com/…/why-wouldnt-the-part-of…
be-facing-a
لہذا اس سائنسی وضاحت کے بعد ملحدین کا یہ اعتراض بھی بالکل غلط ہے۔
آگے ملحدین کہتے ہیں کہ اسلام نے مزید تصور یہ دیا کہ گرمیوں کے موسم میں سورج "چوتھے آسمان" میں ہوتا ہے، جبکہ سردیوں میں وہ "ساتویں آسمان" پر چلا جاتا ہے اس لیے اسکی اتنی تپش محسوس نہیں ہوتی۔
(حوالہ تفسیر القرطبی اور تفسیر ابن کثیر: عبداللہ ابن عمر نے کہا: بے شک گرمی کے موسم میں سورج چوتھے آسمان میں ہوتا ہے (اس لیے قریب ہونے کی وجہ سے جھلساتا ہے)، جبکہ سردیوں کے موسم میں یہ ساتویں آسمان پر اللہ کے عرش کے قریب چلا جاتا ہے (اور دور ہونے کی وجہ سے ٹھنڈا ہو جاتا ہے)۔ اور اگر سورج اس دنیا کے آسمان (پہلے آسمان جہاں تارے ہیں) میں آ جائے تو اس دنیا میں کوئی چیز نہ بچے)۔
جہاں تک اس تصور کی بات ہے تو تفسیر ابن کثیر میں پیش کردہ اس بات کے حوالے سے ملحدین نے جو تفصیل پیش کی ہے وہ درج ذیل ہے
وقوله تعالى { أَلَمْ تَرَوْاْ كَيْفَ خَلَقَ ٱللَّهُ سَبْعَ سَمَـٰوَٰتٍ طِبَاقاً }؟ أي واحدة فوق واحدة. وهل هذا يتلقى من جهة السمع فقط؟ أوهو من الأمور المدركة بالحس مما علم من التسيير والكسوفات فإن الكواكب السبعة السيارة يكسف بعضها بعضاً، فأدناها القمر في السماء الدنيا، وهو يكسف ما فوقه، وعطارد في الثانية، والزهرة في الثالثة، والشمس في الرابعة، والمريخ في الخامسة، والمشتري في السادسة، وزحل في السابعة، وأما بقية الكواكب وهي الثوابت، ففي فلك ثامن يسمونه فلك الثوابت، والمتشرعون منهم يقولون هو الكرسي، والفلك التاسع، وهو الأطلس والأثير عندهم الذي حركته على خلاف حركة سائر الأفلاك، وذلك أن حركته مبدأ الحركات، وهي من المغرب إلى المشرق، وسائر الأفلاك عكسه من المشرق إلى المغرب، ومعها يدور سائر الكواكب تبعاً، ولكن للسيارة حركة معاكسة لحركة أفلاكها فإنها تسير من المغرب إلى المشرق، وكل يقطع فلكه بحسبه، فالقمر يقطع فلكه في كل شهر مرة، والشمس في كل سنة مرة، وزحل في كل ثلاثين سنة مرة، وذلك بحسب اتساع أفلاكها، وإن كانت حركة الجميع في السرعة متناسبة، هذا ملخص ما يقولونه في هذا المقام، على اختلاف بينهم في مواضع كثيرة لسنا بصدد بيانها، وإنما المقصود أن الله سبحانه وتعالى { خَلَقَ ٱللَّهُ سَبْعَ سَمَـٰوَٰتٍ طِبَاقاً وَجَعَلَ ٱلْقَمَرَ فِيهِنَّ نُوراً وَجَعَلَ ٱلشَّمْسَ سِرَاجاً } أي فاوت بينهما في الاستنارة، فجعل كلاً منهما أنموذجاً على حدة ليعرف الليل والنهار بمطلع الشمس ومغيبها، وقدر للقمر منازل وبروجاً، وفاوت نوره، فتارة يزداد حتى يتناهى، ثم يشرع في النقص حتى يستتر ليدل على مضي الشهور والأعوام، كما قال تعالى
{ هُوَ ٱلَّذِى جَعَلَ ٱلشَّمْسَ ضِيَآءً وَٱلْقَمَرَ نُوراً وَقَدَّرَهُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُواْ عَدَدَ ٱلسِّنِينَ وَٱلْحِسَابَ مَا خَلَقَ ٱللَّهُ ذَٰلِكَ إِلاَّ بِٱلْحَقِّ يُفَصِّلُ ٱلآيَـٰتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ }
يونس 5. وقوله تعالى { وَٱللَّهُ أَنبَتَكُمْ مِّنَ ٱلأَرْضِ نَبَاتاً } هذا اسم مصدر، والإتيان به ههنا أحسن، { ثُمَّ يُعِيدُكُمْ فِيهَا } أي إذا متم، { وَيُخْرِجُكُمْ إِخْرَاجاً } أي يوم القيامة يعيدكم كما بدأكم أول مرة، { وَٱللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ ٱلأَرْضَ بِسَاطاً } أي بسطها ومهدها وقررها، وثبتها بالجبال الراسيات الشم الشامخات { لِّتَسْلُكُواْ مِنْهَا سُبُلاً فِجَاجاً } أي خلقها لكم لتستقروا عليها، وتسلكوا فيها أين شئتم من نواحيها وأرجائها وأقطارها، وكل هذا مما ينبههم به نوح عليه السلام على قدرة الله وعظمته في خلق السموات والأرض، ونعمه عليهم فيما جعل لهم من المنافع السماوية والأرضية، فهو الخالق الرازق جعل السماء بناء، والأرض مهاداً، وأوسع على خلقه من رزقه، فهو الذي يجب أن يعبد ويوحد، ولا يشرك به أحد لأنه لا نظير له ولا عديل، ولا ند ولا كفء، ولا صاحبة ولا ولد، ولا وزير ولا مشير، بل هو العلي الكبير.
عربی زبان و ترجمہ سے واقف شخص یہ پڑھ کر اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ اس پوری تفصیل میں ابن کثیر نے وہ بات نہیں کی جو ملحدین اعتراض کرتے ہوئے اوپر پیش کر رہے ہیں۔ملحدین کی عادت ہے کہ عوام کو ورغلانے اور گمراہ کرنے کے لیے قرآن کی آیات اور احادیث کو نامکمل طور پہ پیش کرتے ہیں یا جان بوجھ کر ان کے غلط معنی پیش کرتے ہیں۔یہاں بھی ملحدین نے یہی چالاکی کرنے کی کوشش کی ہے۔جب کہ ابن کثیر کی پیش کردہ عربی تفصیل کے متن کو پڑھنے کے بعد بالکل واضح ہے کہ ابن کثیر نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔
اس اعتراض کا جو دوسرا حوالہ ملحدین نے پیش کیا ہے وہ تفسیر ابن قرطبی کا ہے۔اس کا عربی متن درج ذیل ہے
وحكى القشيريّ عن ابن عباس أن الشمس وجهها في السموات وقفاها في الأرض. وقيل: على العكس. وقيل لعبد الله بن عمر: ما بال الشمس تَقْلِينا أحياناً وتَبْرُد علينا أحياناً؟ فقال: إنها في الصيف في السماء الرابعة، وفي الشتاء في السماء السابعة عند عرش الرحمن، ولو كانت في السماء الدنيا لما قام لها شيء.
تفسیر القرطبی کی پیش کردہ اگر تفصیل میں جائیں تو یہ بات القشیری نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالے سے کی ہے۔اب سوال یہ ہے کہ القشیری نے یہ بات اپنی تفسیر قرآن میں کی ہے یا اپنی کسی اور تصنیف میں۔اس کا القرطبی نے کوئی حوالہ نہیں دیا۔لہذا حوالہ نامکمل ہونے کی بنیاد پہ اس بات کی صداقت مشکوک ہے اور دوسری بات یہ کہ القرطبی نے یہ بات کرتے ہوئے اس کی پوری سند بھی پیش نہیں کی کہ القشیری نے یہ بات حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالے سے راویوں کے کس سلسلے کے ساتھ پیش کی ہے۔لہذا یہ روایت مرسل اور ناقابل اعتبار ہے۔اور اس مرسل اور ناقابل اعتبار حوالے کے ساتھ کیا گیا ملحدین کا اعتراض بھی غلط ہے۔
»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»
اسلام کے تصور کائنات کے حوالے سے ملحدین کے اعتراضات اور اس کے جوابات درج ذیل ہیں۔قرآن مجید کی ایک آیت ہے
اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى يُدَبِّرُ الْأَمْرَ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُم بِلِقَاءِ رَبِّكُمْ تُوقِنُونَ ( 2 ) رعد - الآية 2
خدا وہی تو ہے جس نے ستونوں کے بغیر آسمان جیسا کہ تم دیکھتے ہو (اتنے) اونچے بنائے۔ پھر عرش پر جا ٹھہرا اور سورج اور چاند کو کام میں لگا دیا۔ ہر ایک ایک میعاد معین تک گردش کر رہا ہے۔ وہی (دنیا کے) کاموں کا انتظام کرتا ہے (اس طرح) وہ اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کرتا ہے کہ تم اپنے پروردگار کے روبرو جانے کا یقین کرو
(سورہ نمبر 13 یعنی سورہ الرعد آیت نمبر 2)
جب کہ ملحد نے اس کا درج ذیل غلط ترجمہ پیش کیا ہے تاکہ قرآن پہ اعتراض پیش کیا جائے
"اسلام نے اگلا تصور یہ دیا کہ ان ساتوں آسمانوں کو نظر نہ آنے والے ستونوں نے اٹھا رکھا ہے۔ (آیت 13:2)"
اگر اوپر پیش کی گئی آیت اور اس کا اردو ترجمہ غور سے پڑھیں تو صاف ظاہر ہے کہ قرآن نے یہ کہا ہے کہ اللہ تعالی نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے کھڑا کیا ہے لیکن ملحد نے اس کا غلط ترجمہ پیش کرکے یہ کہا کہ اسلام کے مطابق آسمان ستونوں کے سہارے قائم ہیں۔ملحدین قرآن و اسلام پہ اعتراض کرنے میں اتنے اندھے ہوگئے ہیں کہ آیت کا ترجمہ بھی ٹھیک پڑھنے کی کوشش نہیں کی یا پھر جان بوجھ کر آیت کا غلط ترجمہ پیش کرکے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے
فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَـمَاوَاتٍ فِىْ يَوْمَيْنِ وَاَوْحٰى فِىْ كُلِّ سَـمَآءٍ اَمْرَهَا ۚ وَزَيَّنَّا السَّمَآءَ الـدُّنْيَا بِمَصَابِيْحَ وَحِفْظًا ۚ ذٰلِكَ تَقْدِيْـرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِـيْـمِ (12)
پھر انہیں دو دن میں سات آسمان بنا دیا اور اس نے ہر ایک آسمان میں اس کا کام القا کیا، اور ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں سے زینت دی اور اسے محفوظ بنایا، یہ زبردست جاننے والے کا کام ہے۔
جب کہ ملحدین نے اس کا
درج ذیل غلط ترجمہ پیش کیا ہے
"اسلام نے اگلا تصور دیا کہ ستارے صرف "پہلے آسمان" (جسے دنیا کا آسمان بھی کہا جاتا ہے) میں ہیں اور صرف دنیا کے آسمان کو ہی اپنی روشنی سے زینت دیتے ہیں۔ ( آیت 41:12، آیت 67:5)"
ملحدین کی عقل پر ماتم کرنا چاہیے۔اوپر پیش کردہ آیت میں قرآن نے کیا ہے کہ ہم نے آسمان دنیا یعنی پہلے آسمان کو ستاروں سے مزین کیا لیکن یہ بالکل نہیں کہا کہ ستارے صرف پہلے آسمان پہ ہیں۔دوسری بات کیا ملحدین بتا سکتے ہیں کہ سات آسمان و سات زمینوں سے کیا مراد ہے۔جب ملحدین اسلام کے مطابق اس تصور کی وضاحت ہی نہیں کر سکتے اور نہ ہی وہ ان آسمانوں کی وسعت و حدود سے واقف ہیں تو وہ کیسے کہ سکتے ہیں کہ باقی آسمانوں پہ بھی ستارے تھے جب کہ قرآن نے اس کا انکار کیا۔اور بات یہ کہ اگر قرآن نے آسمان کی تزئین کے لیے ستاروں کا ذکر آسمان دنیا کے ساتھ کیا ہے تو اس سے کہاں ثابت ہوتا ہے کہ اسلام کی نظر میں ستارے صرف پہلے آسمان پہ ہیں اور کہیں نہیں جب کہ کسی بات کے ذکر نہ کرنے کا مطلب اس کا انکار کبھی نہیں ہوتا۔
اَلَمْ تَـرَوْا كَيْفَ خَلَقَ اللّـٰهُ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا (15)
کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے سات آسمان اوپر تلے (کیسے) بنائے ہیں۔
وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِـيْهِنَّ نُـوْرًا وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا (16)
اور ان میں چاند کو چمکتا ہوا بنایا اور آفتاب کو چراغ بنا دیا۔
جب کہ ملحدین نے اس کا درج ذیل غلط ترجمہ پیش کیا ہے
" اسلام نے اگلا تصور دیا کہ ستاروں کے مقابلے میں چاند اور سورج کی روشنی ساتوں آسمانوں کو منور کرتی ہے جس میں سدرۃ المنتہیٰ اور جنت بھی شامل ہیں۔ ( سورۃ 71، آیت 15 تا 16)"
اب اگر عربی زبان اور قرآن کے ترجمے سے ذرا بھی شد بد رکھنے والا شخص اوپر پیش کردہ آیت کے عربی متن اور ترجمہ پہ غور کرے تو پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالی نے اوپر پیش کردہ آیت میں کہیں نہیں کہا کہ ستارے آسمان دنیا کے علاوہ باقی آسمانوں کو روشن نہیں کرتے۔اس آیت میں ستاروں کا ذکر ہی نہیں کیا گیا مطلق انکار تو دور کی بات۔جب کہ ملحدین نے عوام کو کافر اور بے دین کرنے کے لیے جان بوجھ کر اس آیت کا یہ غلط ترجمہ پیش کیا ہے کہ قرآن نے اس بات کا انکار کیا ہے کہ ستاروں کی روشنی آسمان دنیا کے علاوہ باقی آسمانوں کو روشن نہیں کرتی۔دوسرا اعتراض اس آیت کے حوالے سے ملحدین یہ کرتے ہیں کہ قرآن کے مطابق سورج اور چاند سات آسمانوں اور زمینوں کو روشن کرتے ہیں جن میں سدرۃ المنتہیٰ بھی شامل ہے۔صحیح مسلم شریف کی حدیث نمبر 431 کے مطابق سدرۃ المنتہیٰ چھٹے آسمان میں ہے۔ اب ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا ملحدین بتا سکتے ہیں کہ آسمان دنیا کے علاوہ باقی آسمانوں میں سورج اور چاند نہیں بلکہ سائنس ابھی تک اس بات کا تعین ہی نہیں کر سکی کہ پہلے آسمان کی وسعت اور حد کیا ہے باقی سات چھ آسمان تو دور کی بات۔قابل مشاہدہ کائنات جس کا انسان آج تک مطالعہ کر سکا ہے یا اسے بالواسطہ یا براہ راست دیکھ سکا ہے ،کی حد 45.6 بلین نوری سال ہے۔اس سے آگے کچھ پتہ نہیں کیا ہے۔جب آج تک سات آسمانوں کی وسعت ہی نہیں طے کی جا سکی اور نہ ہی 45 بلین نوری سال سے آگے کچھ دیکھا جا سکا ہے تو ملحدین کیسے کہ سکتے ہیں کہ وہاں ان آسمانوں کے اپنے سورج اور چاند نہیں اور یہ آسمان کسی اپنے سورج اور چاند سے روشن نہیں۔قرآن نے ان آسمانوں کے جس سورج اور چاند سے روشن ہونے کا ذکر کیا ہے لازمی نہیں کہ یہ ہماری دنیا کے سورج اور چاند ہوں کیوں کہ قرآن نے اس بات کی تخصیص نہیں کی کہ یہ کون سے سورج اور چاند ہیں۔لہذا اس ساری تفصیل کے بعد کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ قرآن نے نعوذ بااللہ سائنسی طور پہ غلط کہا
آگے ملحدین کہتے ہیں کہ اسلام نے اگلا تصور دیا کہ چاند اور سورج "چپٹی گول ڈسک (Flat Round Disc)" ہیں جیسے کہ گول پلیٹ ہوتی ہے۔ جبکہ حقیقت میں سورج اور چاند گول ڈسک نہیں بلکہ گول کرہ (sphere) ہیں۔ مزید تصور یہ دیا کہ سورج اور چاند کے چہرے کا رخ آسمانوں کی طرف ہے، جبکہ انکی پیٹھ زمین کی طرف ہے۔
(حوالہ صحیح حدیث: ابن حضرت عباس سے روایت ہے کہ چاند کا چہرہ آسمان میں عرش تک ہے اور اسکی پشت زمین کی طرف ہے۔ (مستدرک الحاکم، جلد 2، صفحہ 545، دار الکتب العلمیہ بیروت
اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کی کسی آیت یا کسی حدیث میں نہیں ہے کہ سورج اور چاند چپٹی گول ڈسک ہیں تھالی کی طرح۔قرآن کی کسی آیت یا حدیث میں یہ مذکور نہیں۔ہاں اگر ملحدین یہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے قول کے مطابق(در منثور کی تفسیر میں جو ملحدین اس سلسلے میں پیش کرتے ہیں،واضح طور پر بالکل مذکور نہیں کہ یہ ان دو جلیل القدر صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم کی ذاتی رائے ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا فرمان) سورج اور چاند کا چہرہ آسمان کی طرف اور پشت زمین کی طرف ہے تو یہ بات خود سائنس تسلیم کرتی ہے کہ ایک ہی وقت میں زمین سورج یا چاند کے ایک حصے کے سامنے ہوتی ہے جب کہ سورج اور چاند کا دوسرا حصہ جو زمین سے نظر آنے والے حصے سے دوسری طرف ہے اس کا رخ آسمانوں کی طرف ہوتا ہے۔لہذا سورج اور چاند کاایک حصہ زمین کو روشن کرتا ہے تو دوسرا حصہ خلا یا آسمان کے دوسرے حصے کو۔اس سے یہ بالکل ثابت نہیں ہوتا کہ اسلام کے مطابق سورج اور چاند کرہ نہیں بلکہ چپٹی گول تھالی یا ڈسک ہیں۔ہم نے اسلام کے اس تصور کی جو سائنسی تفصیل پیش کی ہے وہ جدید سائنس کے بالکل عین مطابق ہے۔درج ذیل وضاحت پڑھیں
"24 hours is the length of the average solar day (Synodic Day), the time it takes the earth to rotate so that (on average) it is facing the sun at the same angle. Because the time period derives from a sun-referenced rotation, not a star-referenced rotation, the same spot on the earth faces the sun at approximately the same time every solar day. (Ignoring additional changes from axial tilt and orbital eccentricity)."
https://physics.stackexchange.com/…/why-wouldnt-the-part-of…
be-facing-a
لہذا اس سائنسی وضاحت کے بعد ملحدین کا یہ اعتراض بھی بالکل غلط ہے۔
آگے ملحدین کہتے ہیں کہ اسلام نے مزید تصور یہ دیا کہ گرمیوں کے موسم میں سورج "چوتھے آسمان" میں ہوتا ہے، جبکہ سردیوں میں وہ "ساتویں آسمان" پر چلا جاتا ہے اس لیے اسکی اتنی تپش محسوس نہیں ہوتی۔
(حوالہ تفسیر القرطبی اور تفسیر ابن کثیر: عبداللہ ابن عمر نے کہا: بے شک گرمی کے موسم میں سورج چوتھے آسمان میں ہوتا ہے (اس لیے قریب ہونے کی وجہ سے جھلساتا ہے)، جبکہ سردیوں کے موسم میں یہ ساتویں آسمان پر اللہ کے عرش کے قریب چلا جاتا ہے (اور دور ہونے کی وجہ سے ٹھنڈا ہو جاتا ہے)۔ اور اگر سورج اس دنیا کے آسمان (پہلے آسمان جہاں تارے ہیں) میں آ جائے تو اس دنیا میں کوئی چیز نہ بچے)۔
جہاں تک اس تصور کی بات ہے تو تفسیر ابن کثیر میں پیش کردہ اس بات کے حوالے سے ملحدین نے جو تفصیل پیش کی ہے وہ درج ذیل ہے
وقوله تعالى { أَلَمْ تَرَوْاْ كَيْفَ خَلَقَ ٱللَّهُ سَبْعَ سَمَـٰوَٰتٍ طِبَاقاً }؟ أي واحدة فوق واحدة. وهل هذا يتلقى من جهة السمع فقط؟ أوهو من الأمور المدركة بالحس مما علم من التسيير والكسوفات فإن الكواكب السبعة السيارة يكسف بعضها بعضاً، فأدناها القمر في السماء الدنيا، وهو يكسف ما فوقه، وعطارد في الثانية، والزهرة في الثالثة، والشمس في الرابعة، والمريخ في الخامسة، والمشتري في السادسة، وزحل في السابعة، وأما بقية الكواكب وهي الثوابت، ففي فلك ثامن يسمونه فلك الثوابت، والمتشرعون منهم يقولون هو الكرسي، والفلك التاسع، وهو الأطلس والأثير عندهم الذي حركته على خلاف حركة سائر الأفلاك، وذلك أن حركته مبدأ الحركات، وهي من المغرب إلى المشرق، وسائر الأفلاك عكسه من المشرق إلى المغرب، ومعها يدور سائر الكواكب تبعاً، ولكن للسيارة حركة معاكسة لحركة أفلاكها فإنها تسير من المغرب إلى المشرق، وكل يقطع فلكه بحسبه، فالقمر يقطع فلكه في كل شهر مرة، والشمس في كل سنة مرة، وزحل في كل ثلاثين سنة مرة، وذلك بحسب اتساع أفلاكها، وإن كانت حركة الجميع في السرعة متناسبة، هذا ملخص ما يقولونه في هذا المقام، على اختلاف بينهم في مواضع كثيرة لسنا بصدد بيانها، وإنما المقصود أن الله سبحانه وتعالى { خَلَقَ ٱللَّهُ سَبْعَ سَمَـٰوَٰتٍ طِبَاقاً وَجَعَلَ ٱلْقَمَرَ فِيهِنَّ نُوراً وَجَعَلَ ٱلشَّمْسَ سِرَاجاً } أي فاوت بينهما في الاستنارة، فجعل كلاً منهما أنموذجاً على حدة ليعرف الليل والنهار بمطلع الشمس ومغيبها، وقدر للقمر منازل وبروجاً، وفاوت نوره، فتارة يزداد حتى يتناهى، ثم يشرع في النقص حتى يستتر ليدل على مضي الشهور والأعوام، كما قال تعالى
{ هُوَ ٱلَّذِى جَعَلَ ٱلشَّمْسَ ضِيَآءً وَٱلْقَمَرَ نُوراً وَقَدَّرَهُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُواْ عَدَدَ ٱلسِّنِينَ وَٱلْحِسَابَ مَا خَلَقَ ٱللَّهُ ذَٰلِكَ إِلاَّ بِٱلْحَقِّ يُفَصِّلُ ٱلآيَـٰتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ }
يونس 5. وقوله تعالى { وَٱللَّهُ أَنبَتَكُمْ مِّنَ ٱلأَرْضِ نَبَاتاً } هذا اسم مصدر، والإتيان به ههنا أحسن، { ثُمَّ يُعِيدُكُمْ فِيهَا } أي إذا متم، { وَيُخْرِجُكُمْ إِخْرَاجاً } أي يوم القيامة يعيدكم كما بدأكم أول مرة، { وَٱللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ ٱلأَرْضَ بِسَاطاً } أي بسطها ومهدها وقررها، وثبتها بالجبال الراسيات الشم الشامخات { لِّتَسْلُكُواْ مِنْهَا سُبُلاً فِجَاجاً } أي خلقها لكم لتستقروا عليها، وتسلكوا فيها أين شئتم من نواحيها وأرجائها وأقطارها، وكل هذا مما ينبههم به نوح عليه السلام على قدرة الله وعظمته في خلق السموات والأرض، ونعمه عليهم فيما جعل لهم من المنافع السماوية والأرضية، فهو الخالق الرازق جعل السماء بناء، والأرض مهاداً، وأوسع على خلقه من رزقه، فهو الذي يجب أن يعبد ويوحد، ولا يشرك به أحد لأنه لا نظير له ولا عديل، ولا ند ولا كفء، ولا صاحبة ولا ولد، ولا وزير ولا مشير، بل هو العلي الكبير.
عربی زبان و ترجمہ سے واقف شخص یہ پڑھ کر اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ اس پوری تفصیل میں ابن کثیر نے وہ بات نہیں کی جو ملحدین اعتراض کرتے ہوئے اوپر پیش کر رہے ہیں۔ملحدین کی عادت ہے کہ عوام کو ورغلانے اور گمراہ کرنے کے لیے قرآن کی آیات اور احادیث کو نامکمل طور پہ پیش کرتے ہیں یا جان بوجھ کر ان کے غلط معنی پیش کرتے ہیں۔یہاں بھی ملحدین نے یہی چالاکی کرنے کی کوشش کی ہے۔جب کہ ابن کثیر کی پیش کردہ عربی تفصیل کے متن کو پڑھنے کے بعد بالکل واضح ہے کہ ابن کثیر نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔
اس اعتراض کا جو دوسرا حوالہ ملحدین نے پیش کیا ہے وہ تفسیر ابن قرطبی کا ہے۔اس کا عربی متن درج ذیل ہے
وحكى القشيريّ عن ابن عباس أن الشمس وجهها في السموات وقفاها في الأرض. وقيل: على العكس. وقيل لعبد الله بن عمر: ما بال الشمس تَقْلِينا أحياناً وتَبْرُد علينا أحياناً؟ فقال: إنها في الصيف في السماء الرابعة، وفي الشتاء في السماء السابعة عند عرش الرحمن، ولو كانت في السماء الدنيا لما قام لها شيء.
تفسیر القرطبی کی پیش کردہ اگر تفصیل میں جائیں تو یہ بات القشیری نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالے سے کی ہے۔اب سوال یہ ہے کہ القشیری نے یہ بات اپنی تفسیر قرآن میں کی ہے یا اپنی کسی اور تصنیف میں۔اس کا القرطبی نے کوئی حوالہ نہیں دیا۔لہذا حوالہ نامکمل ہونے کی بنیاد پہ اس بات کی صداقت مشکوک ہے اور دوسری بات یہ کہ القرطبی نے یہ بات کرتے ہوئے اس کی پوری سند بھی پیش نہیں کی کہ القشیری نے یہ بات حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالے سے راویوں کے کس سلسلے کے ساتھ پیش کی ہے۔لہذا یہ روایت مرسل اور ناقابل اعتبار ہے۔اور اس مرسل اور ناقابل اعتبار حوالے کے ساتھ کیا گیا ملحدین کا اعتراض بھی غلط ہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔