کھسیانا ملحد فلسفہ نوچے
ملحد سید امجد حسین کے قرآن ،اسلام اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہ جھوٹ الزامات اور ان کا تفصیلی جواب
تحریر: ڈاکٹر احید حسن
»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»
ملحد سید امجد حسین کے مطابق نضر بن حارث اپنے وقت کے قریش کے اعلیٰ ترین علمی و قابل لوگوں میں شمار ہوتا تھا اور اس نے روم و فارس،حیرہ یعنی عراق اور نجران کا سفر کرکے وہاں سے فارس کے شاہوں،رستم اور اسفند یار کے قصے سنے اور یہ دعوی کیا کہ قرآن میں مذکور قدیم اقوام کے حالات نعوذ بااللہ عجم اور دوسری کتابوں سے نقل شدہ ہیں۔ایک سوال یہ بھی ہے کہ جو علم النضر نے مختلف علاقوں کا سفر کر کے مختلف علما سے حاصل کیا ، پیغمبر اسلام کے پاس اس علم کی موجودگی کا ماخذ کیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔؟ جبکہ کی تحریر سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ النضر کے علاوہ اس علاقے میں کوئی تیسرا ماضی کے ان واقعات سے آگاہ نہ تھا۔ جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ لکھنا جانتے تھے نہ پڑھنا جانتے تھے اور نہ ہی قریش مکہ نے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ سب وحی کے علاوہ کسی دوسرے حوالے سے سیکھنے کا الزام دیا۔البتہ وہ قرآن کو نعوذ بااللہ صرف شاعری اور کاہنوں کا کلام قرار دیتے تھے۔
ملحد سید امجد حسین دعوی کرتا ہے کہ برطانوی مستشرق ڈیوڈ مارگولیتھ کے مطابق اس نے ان علاقوں میں یونان،فارس اور حیرہ کی کتابیں خرید کر ان کا مطالعہ کیا تھا۔اگر ملحد سید امجد حسین کے الزامات کی بنیاد دیکھی جائے تو اس کے الزامات مغربی مستشرقین سے چوری شدہ ہیں جن کو اس نے اپنی ذاتی تحقیق و تحریر کے طور پہ پیش کیا۔یہاں تک کہ اس ملحد کی پوسٹ کافی حد تک عربی ملحدین کی ایک ویب سائٹ http://www.alzakera.eu/music/religon/religon-0298.htm کی دانستہ یا نا دانستہ نقل ہے جس کا ترجمے کے طور پہ حوالہ اور نام دینے تک کی اس ملحد نے زحمت گوارا کرنے کی کوشش نہیں کی۔
اگر ملحد سید امجد حسین، اوپر مذکور عربی ملحدین کی ویب سائٹ اور برطانوی مستشرق ڈیوڈ مارگولیتھ کے واقعہ نضر بن حارث کے بیان کا اندازہ لگایا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس واقعے کی بنیاد کچھ ابتدائی اسلامی تاریخوں میں پیش ہونے والی انتہائی ضعیف اور ناقابل اعتبار راویوں کی روایات ہیں جن کے ضعیف ہونے میں کسی محدث کو کوئی شک نہیں۔اب ہم اس واقعے کی روایات جو مختلف تاریخی اسلامی کتابوں میں وارد ہوئی ہیں، کا جائزہ لیتے ہیں۔پہلی روایت اور اس کا عربی متن درج ذیل ہے
أخبرنا أبو عبد الرحمن محمد بن عبد الرحمن بن محبوب الدهان ، ثنا الحسين بن محمد بن هارون ، ثنا أحمد بن محمد بن نصر ، ثنا يوسف بن بلال ، ثنا محمد بن مروان ، عن الكلبي ، عن أبي صالح ، في قوله : { ومن الناس من يشتري لهو الحديث } - يعني باطل الحديث بالقرآن - ، قال ابن عباس : " وهو النضر بن الحارث بن علقمة ، يشتري أحاديث الأعاجم وصنيعهم في دهرهم ، فرواه من حديث الروم وفارس ورستم واسفنديار والقرون الماضية ، وكان يكتب الكتب من الحيرة والشام ، ويكذب بالقرآن ، فأعرض عنه فلم يؤمن به "
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی اس روایت کے مطابق نضر بن حارث نے روم و فارس،حیرہ،رستم،اسفند یار اور ماضی کے لوگوں کے قصے سیکھے اور حیرہ اور شام میں کتابیں لکھتا تھا۔یہ روایت شعب الایمان میں بیہقی سے بھی اسی سند کے ساتھ مذکور ہے۔
اگر اس روایت کی سند کا جائزہ لیا جائے تو اس روایت کی سند میں بنیادی راوی جو یہ روایت حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کر رہا ہے وہ الکلبی ہے۔عربی تفسیر ابن عباس
کا اصل نام "تنویر المقباس" ہے
واضح رہے کہ یہ تفسیر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی خود کی تحریر کردہ نہیں ہے جیسا کہ عموماً تاثر دیا جاتا ہے۔ بلکہ یہ تفسیر جمعه ابو طاہر محمد بن يعقوب الفيروز آبادى الشافعی (المتوفى : 817 ھ) کی تصنیف ہے۔ اور انہوں نے اس تفسیر کو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے منسوب کیا ہے۔امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی مشہور کتاب " الفوائد المجموعة " ( صفحہ:316) پر لکھتے ہیں :
اس تفسیر (تفسیر ابن عباس) کے راوی "الکلبی" ، "السدی" اور "مقاتل" جھوٹے راویان ہیں۔ اور ابن تیمیہ (رحمۃ اللہ) سے بھی یہی بات معروف ہے۔
امام ابو حاتم رحمۃ اللہ اپنی کتاب "الجرح و التعدیل" ، جلد اول ، صفحہ 36 پر لکھتے ہیں :
سفیان ثوری رحمۃ اللہ نے کہا کہ محمد بن السائب الکلبی اگر اس سند عن ابی صالح عن ابن عباس سے روایت کرے تو حدیث نہیں لی جائے گی کہ یہ سند جھوٹی ہے۔لہذا الکلبی اور ابی صالح کی حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی یہ روایت ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔
اب ہم دوسری روایت کا جائزہ لیتے ہیں۔اخبار المکہ للفاکہی میں یہ روایت اس طرح ہے
وحدثني حسن بن حسين الأزدي ، قال : ثنا محمد بن سهل ، قال : ثنا هشام بن الكلبي ، عن محرز بن جعفر ، عن عمرو بن أمية الضمري ، قال : ابن سهل ، وذكره الواقدي أيضا قال : " كانت قريش إنما تغني ويغنى لها النصب ، نصب الأعراب لا تعرف غير ذلك ، حتى قدم النضر بن الحارث وافدا على كسرى ، فمر على الحيرة ، فتعلم ضرب البربط ، وغنى العباد ، فعلم أهل مكة ، وفيه نزلت : { ومن الناس من يشتري لهو الحديث } " *
اس روایت کے مطابق نضر بن حارث نے کسری یعنی فارس اور حیرہ یعنی عراق کا سفر کیا اور وہاں سے گئے اور گانے کا علم سیکھ کے آیا اور مکہ والوں کو سکھایا۔
اس روایت کی سند پہ بھی غور کیا جائے تو اس کی سند میں الکلبی موجود ہے جسے محدثین رافضی اور جھوٹا راوی قرار دے چکے ہیں۔اس کے علاوہ اس روایت میں الواقدی موجود ہے۔خطیب بغدادی نے امام بخاری کا قول نقل کیا ہے کہ : " محمد بن عمر الواقدی قاضی بغداد، متروک الحدیث" یعنی الواقدی کو متروک الحدیث کہا۔جن محدثین نے الواقدی کو علم الحدیث میں ضعیف یا غیر ثقہ کہا ہے وہ یہ ہیں:
امام شافعی متوفی 204ھ۔
امام یحییٰ بن معین متوفی 233ھ۔
امام اسحاق ابن راہویہ متوفی 238ھ۔
امام احمد بن حنبل متوفی 241ھ۔
امام علی بن المدینی متوفی 241ھ۔
امام ابو عبداللہ محمد بن اسمٰعیل البخاری متوفی 256ھ۔
امام ابو زُرعہ الرازی متوفی 264ھ۔
امام ابوداود السجستانی متوفی 275ھ۔
امام ابو حاتم محمد بن ادریس الرازی متوفی 277ھ۔
امام نسائی متوفی 303ھ۔
امام ابن عدی متوفی 365ھ۔
امام دارقطنی متوفی 385ھ۔
امام ابو زکریا شرف الدین النووی متوفی 676ھ۔
امام شمس الدین الذھبی متوفی 748ھ۔
امام العلامہ ابن حجر العسقلانی متوفی 852ھ
لہذا نضر بن حارث کے حیرہ و فارس کے سفر اور وہاں سے تحصیل علم کی یہ روایت بھی ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔
https://ur.m.wikipedia.org/wiki/الواقدی
www.urdumajlis.net/threads/تفسیر-ابن-عباس-رض-کی-حقیقت.2839/
طبری میں یہ روایت اس طرح آئی ہے
حدثني محمد بن الحسين ، قال : ثنا أحمد بن المفضل ، قال : ثنا أسباط ، عن السدي ، قال : " كان النضر بن الحارث بن علقمة أخو بني عبد الدار يختلف إلى الحيرة ، فيسمع سجع أهلها وكلامهم . فلما قدم مكة ، سمع كلام النبي صلى الله عليه وسلم والقرآن ، فقال : { قد سمعنا لو نشاء لقلنا مثل هذا إن هذا إلا أساطير الأولين } يقول : أساجيع أهل الحيرة
ذكر من قال ذلك حدثنا أبو كريب ، قال : ثنا يونس بن بكير ، قال : ثنا محمد بن إسحاق ، قال : ثنا شيخ ، من أهل مصر ، قدم منذ بضع وأربعين سنة ، عن عكرمة ، عن ابن عباس قال : " كان النضر بن الحارث بن كلدة بن علقمة بن عبد مناف بن عبد الدار بن قصي من شياطين قريش ، وكان يؤذي رسول الله صلى الله عليه وسلم وينصب له العداوة ، وكان قد قدم الحيرة ، تعلم بها أحاديث ملوك فارس وأحاديث رستم وأسفنديار ، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا جلس مجلسا فذكر بالله وحدث قومه ما أصاب من قبلهم من الأمم من نقمة الله ، خلفه في مجلسه إذا قام ، ثم يقول : أنا والله يا معشر قريش أحسن حديثا منه ، فهلموا فأنا أحدثكم أحسن من حديثه ثم يحدثهم عن ملوك فارس ورستم وأسفنديار ، ثم يقول : ما محمد أحسن حديثا مني قال : فأنزل الله تبارك وتعالى في النضر ثماني آيات من القرآن قوله : { إذا تتلى عليه آياتنا قال أساطير الأولين } وكل ما ذكر فيه الأساطير في القرآن " حدثنا ابن حميد قال : ثنا سلمة ، عن ابن إسحاق قال : ثني محمد بن أبي محمد ، عن سعيد أو عكرمة ، عن ابن عباس نحوه ، إلا أنه جعل قوله : فأنزل الله في النضر ثماني آيات ، عن ابن إسحاق ، عن الكلبي ، عن أبي صالح ، عن ابن عباس * " *
http://www.eltwhed.com/vb/showthread.php?55662-%C7%E1%E4%D6%D1-%C8%E4-%C7%E1%CD%C7%D1%CB
اس روایت کے مطابق نضر بن حارث نے روم و فارس اور حیرہ کا سفر کیا اور وہاں سے ماضی کے قصے کہانیاں سن کر مکہ آیا اور ان کو قرآن کے مقابلے میں پیش کرتا تھا۔
اگر اس روایت کی سند کا جائزہ لیا جائے تو اس روایت میں السدی خواہ یہ محمد بن مروان السدی ہے یا اسماعیل بن عبدارحمن السدی دونوں کو محدثین ناقابل اعتبار قرار دے چکے ہیں۔سدی کبیر یا اسماعیل بن عبدالرحمن السدی کو تو کئی مورخین نے جھوٹا اور شتام قرار دیا ہے۔
www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/15450/10/153
اس طرح کی ایک اور روایت ہے
ذكر من قال ذلك حدثنا أبو كريب ، قال : ثنا يونس بن بكير ، قال : ثنا محمد بن إسحاق ، قال : ثنا شيخ ، من أهل مصر ، قدم منذ بضع وأربعين سنة ، عن عكرمة ، عن ابن عباس قال : " كان النضر بن الحارث بن كلدة بن علقمة بن عبد مناف بن عبد الدار بن قصي من شياطين قريش ، وكان يؤذي رسول الله صلى الله عليه وسلم وينصب له العداوة ، وكان قد قدم الحيرة ، تعلم بها أحاديث ملوك فارس وأحاديث رستم وأسفنديار ، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا جلس مجلسا فذكر بالله وحدث قومه ما أصاب من قبلهم من الأمم من نقمة الله ، خلفه في مجلسه إذا قام ، ثم يقول : أنا والله يا معشر قريش أحسن حديثا منه ، فهلموا فأنا أحدثكم أحسن من حديثه ثم يحدثهم عن ملوك فارس ورستم وأسفنديار ، ثم يقول : ما محمد أحسن حديثا مني قال : فأنزل الله تبارك وتعالى في النضر ثماني آيات من القرآن قوله : { إذا تتلى عليه آياتنا قال أساطير الأولين } وكل ما ذكر فيه الأساطير في القرآن " حدثنا ابن حميد قال : ثنا سلمة ، عن ابن إسحاق قال : ثني محمد بن أبي محمد ، عن سعيد أو عكرمة ، عن ابن عباس نحوه ، إلا أنه جعل قوله : فأنزل الله في النضر ثماني آيات ، عن ابن إسحاق ، عن الكلبي ، عن أبي صالح ، عن ابن عباس *
اس روایت کی سند کا جائزہ لیا جائے تو اس روایت کی سند میں محمد بن اسحاق ایک انتہائی ضعیف راوی ہے لہذا یہ روایت بھی ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔وقال مالك دجال من الدجاجلة
امام مالکؒ فرماتے ہیں محمد بن اسحاق دجالوں میں سے ایک دجال ہے۔
(تہذیب التہذیب ج۹ص۴۱،تذکرہ الحفاظ ج۱ ص۱۳۰)
امام مالکؒ فرماتے ہیں:۔
محمد بن إسحاق كذاب.(تاریخ بغداد ج۲ص۱۹)
محمد بن اسحاق کذاب ہے۔
2۔ علی ن المدینی، سعید قطانؒ
علي يعني ابن المدينى قال سمعت يحيى يعيى ابن سعيد القطان يقول قلت لهشام بن عروة ان ابن اسحاق يحدث عن فاطمة بنت المنذر فقال أهو كان يصل إليها؟ فقلت ليحيى كان محمد بن اسحاق بالكوفة وانت بها؟ قال نعم، قلت تركته متعمدا؟ قال نعم تركته متعمدا ولم أكتب عنه حديثا قط.(لجرح والتعدیل ج۷ص۱۹۳)
علی بن المدینی ؒ فرماتے ہیں میں نے سعید بن قطانؒ سے پوچھا محمد بن اسحاق اور آپ کو کوفہ میں رہتے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا جی ہاں ہم دونوں کوفہ میں ہوتے ہیں میں نے کہا آپ نے اس کو جان بوجھ کر چھوڑ رکھا ہے یحیی بن سعید نے کہا جی ہاں میں نے اس کو قصدا چھوڑ ا ہوا ہے اور میں نے اس سے کبھی بھی حدیث نہیں لکھی۔لہذا یہ روایت بھی ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔
اس طرح کی اور روایات درج ذیل ہیں۔
أخبرنا أحمد بن عثمان بن حكيم الأودي ، فيما كتب إلي ، ثنا أحمد بن المفضل ، عن أسباط ، عن السدي ، قال : " كان النضر بن الحارث بن علقمة من بني عبد الدار يختلف في الحيرة ، فيسمع سجع أهلها وكلامهم ، فلما قدم مكة سمع كلام النبي صلى الله عليه وسلم والقرآن فقال : { قد سمعنا لو نشاء لقلنا مثل هذا إن هذا إلا أساطير الأولين } " * حدثنا أبي ، ثنا عيسى بن جعفر ، قاضي الري ، ثنا سفيان ، عن الأعمش ، عن رجل ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس ، في قوله : " { اللهم إن كان هذا هو الحق من عندك } ، قال : هو النضر بن الحارث " * أخبرنا أحمد بن عثمان بن حكيم ، فيما كتب إلي ، ثنا أحمد بن المفضل ، ثنا أسباط ، عن السدي ، قال : " قال النضر بن الحارث : " اللهم إن كان ما يقول محمد { هو الحق من عندك فأمطر علينا حجارة من السماء } " وروي عن سعيد بن جبير مثل ذلك *
أخبرنا محمد بن علي الشيباني بالكوفة ، ثنا أحمد بن حازم الغفاري ، ثنا عبيد الله بن موسى ، عن سفيان الثوري ، عن الأعمش ، عن سعيد بن جبير ، { سأل سائل بعذاب واقع للكافرين ليس له دافع من الله ذي المعارج } ذي الدرجات { سأل سائل } قال : هو النضر بن الحارث بن كلدة قال : " اللهم إن كان هذا هو الحق من عندك ، فأمطر علينا حجارة من السماء " " هذا حديث صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه " *
اگر ان روایات کی سند پہ غور کریں تو ان کی سند میں ایک بار پھر السدی،محمد بن اسحاق،ابن ابی نجیح اور الاعمش جیسے ضعیف راوی موجود ہیں۔ابن ابی نجیح مدلس ثقہ راوی ہیں لیکن ان کی تدلیس کی وجہ سے یہ روایت ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔ابن عینیہ اور بخاری نے اسے معتزلہ قرار دیا ہے۔
https://ar.m.wikipedia.org/wiki/عبد_الله_ابن_أبي_نجيح
وہ روایات جن میں نضر بن حارث کے روم و فارس اور حیرہ کے سفر کا بیان کیا گیا ہے،حیرت انگیز طور پہ ان راویوں سے مروی ہیں جو ضعیف اور ناقابل اعتبار ہیں۔لہذا ملحدین کی طرف سے نضر بن حارث کو عالم ،فاضل اور فلسفی قرار دینا بالکل غلط ہے۔لہذاملحد سید امجد حسین کا یہ کہنا کہ نضر بن حارث کوقدیم اقوام کے وہ تمام واقعات پہلے سے پتہ تھے جو قرآن میں مذکور ہوئے ہیں بالکل غلط ہے۔دوسری دلچسپ بات یہ ہے کہ ان ضعیف روایات یا ڈیوڈ مارگولیتھ کی کتاب میں بھی کہیں پہ مذکور نہیں ہے کہ نضر بن حارث نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ماضی کے قدیم قصے چوری کرکے قرآن مین نقل کرنے کا الزام دیا تھا۔بلکہ یہ مذکور ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں قرآن پڑھ کر لوگوں کو اللہ تعالی کی طرف بلاتے تو یہ لوگوں کو فارس و روم کی کہانیاں شاعرانہ اور گیت کے انداز میں پڑھ کر لوگوں کو قرآن سننے سے روکنے کی کوشش کرتا تھا۔اب نضر بن حارث کے حوالے سے دوسری روایات کا جائزہ لیتے ہیں۔یہ روایات درج ذیل ہیں
أنا حميد ثنا النفيلي ، أنا هشيم ، أخبرنا أبو بشر ، عن سعيد بن جبير ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قتل يوم بدر ثلاثة رهط من قريش صبرا : النضر بن الحارث ، وعقبة بن أبي معيط ، والمطعم بن عدي . فلما أمر بقتل النضر ، قال المقداد : أسيري يا رسول الله ، قال : " إنه كان يقول في كتاب الله ، وفي رسوله ما كان يقول " قال ذلك مرتين ، أو ثلاثا ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " اللهم أغن المقداد من فضلك " وكان المقداد الذي أسر النضر
أخبرنا بشر بن خالد ، حدثنا أبو أسامة ، حدثنا سفيان ، عن الأعمش ، عن المنهال بن عمرو ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس ، في قوله : { سأل سائل بعذاب واقع } قال : " النضر بن الحارث بن كلدة " *
حدثنا أبي ، ثنا أبو مسلم أحمد بن أبي شعيب ، ثنا مسكين بن بكير ، عن شعبة ، عن أبي بشر ، عن سعيد بن جبير ، " { وإذا تتلى عليهم آياتنا قالوا قد سمعنا لو نشاء لقلنا مثل هذا } ، قال : هو النضر بن الحارث
حدثنا أبي ، ثنا عيسى بن جعفر ، قاضي الري ، ثنا سفيان ، عن الأعمش ، عن رجل ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس ، في قوله : " { اللهم إن كان هذا هو الحق من عندك } ، قال : هو النضر بن الحارث " * أخبرنا أحمد بن عثمان بن حكيم ، فيما كتب إلي ، ثنا أحمد بن المفضل ، ثنا أسباط ، عن السدي ، قال : " قال النضر بن الحارث : " اللهم إن كان ما يقول محمد { هو الحق من عندك فأمطر علينا حجارة من السماء } " وروي عن سعيد بن جبير مثل ذلك *
أنا حميد ثنا النفيلي ، أنا هشيم ، أخبرنا أبو بشر ، عن سعيد بن جبير ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قتل يوم بدر ثلاثة رهط من قريش صبرا : النضر بن الحارث ، وعقبة بن أبي معيط ، والمطعم بن عدي . فلما أمر بقتل النضر ، قال المقداد : أسيري يا رسول الله ، قال : " إنه كان يقول في كتاب الله ، وفي رسوله ما كان يقول " قال ذلك مرتين ، أو ثلاثا ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم :" اللهم أغن المقداد من فضلك "
یہ وہ روایات ہیں جو تقریبا صحیح راویوں سے مروی ہیں اور اس میں یہ تو مذکور ہے کہ نضر بن حارث قرآن مجید کا مذاق اڑایا کرتا تھا اور قرآن کے واقعات کو پرانے قصے کہانیاں قرار دیتا تھا لیکن یہ کہیں پہ مذکور نہیں کہ اس نے روم و فارس اور حیرہ یا نجران کا سفر کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کے واقعات دوسری کتابوں سے چوری کرنے کا الزام دیتا تھا۔نعوذ بااللہ۔صحیح راویوں کی روایات میں یہ بات بالکل مذکور نہیں۔
لہذا مستشرق ڈیوڈ مارگولیتھ اور ملحد سید امجد حسین جی طرف سے نضر بن حارث کو عالم و فلسفی قرار دینا اور یہ دعوی کرنا کہ اس نے قرآن کو نقل شدہ قرار دیا تھا،سفید جھوٹ ہے۔
دوسری بات ملحد سید امجد حسین یہ کرتا ہے کہ قریش مکہ نے نضر بن حارث اور عقبہ بن ابی معیط کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے اور نعوذ بااللہ ان کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے یثرب کے یہود کی طرف بھیجا تاکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے کے لیے ایسے سوالات بتائیں جن کا جواب الہامی کتاب کی صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ بااللہ جھوٹے ثابت ہوجائیں۔لیکن ساتھ ہی ملحد سید امجد حسین مستشرق ڈیوڈ مارگولیتھ کے حوالے سے دعوی کرتا ہے کہ یہ سوال نضر بن حارث نے خود ترتیب دیے تھے۔ہم ملحد سید امجد حسین اور ڈیوڈ مارگولیتھ کے حامیوں سے سوال کرتے ہیں کہ ہمیں صرف ایک ایسا مستند تاریخی حوالہ پیش کردیں جس سے ثابت ہوتا ہو کہ یہ سوال نضر بن حارث نے خود ترتیب دیے تھے۔جب کہ ایسا کوئی حوالہ نہیں۔یہاں ایک اور سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر نضر بن حارث روم و فارس اور حیرہ و نجران کے سفر کر چکا تھا اور اہل کتاب کی تعلیمات سے واقف تھا تو پھر کیا ضرورت پڑی تھی کہ قریش نے اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ بااللہ جھوٹا ثابت کرنے کے لیے یثرب کے یہود کی طرف بھیجا۔اس معاملے ست ظاہر ہوتا ہے کہ نضر بن حارث ان تعلیمات میں کورا تھا اور اس مقصد کے لیے اسے یثرب کے یہود پہ انحصار کرنا پڑا تھا۔
سیرت ابن ہشام جلد اول میں صفحہ 187 پہ یہ تو لکھا ہے کہ نضر بن حارث قریش مکہ کو فارس کے قصے سناتا قرآن کے مقابلے میں لیکن یہ کہیں نہیں لکھا کہ اس نے روم و یونان کا سفر کیا یا یہ کہا ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واقعے روم و یونان سے نقل کیے۔لیکن ابن ہشام کی یہ بات جن حوالوں سے مروی ہے،ان کے راوی بہت ضعیف اور وہ روایات ناقابل اعتبار ہیں۔لہذا نضر بن حارث کے روم و فارس اور حیرہ و نجران کے سفر کی داستان ایک ناقابل اعتبار اور فرضی داستان ہے جسے ضعیف راویوں نے گھڑا۔
اور ہمارا سوال یہ ہے کہ نضر بن حارث جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرآن کو جھوٹا کہتا تھا وہ خود قرآن کو جھٹلانے کے لیے یہودیوں اور عیسائیوں کی منتیں کیوں کرتا پھر رہا تھا کہ او مکہ مکرمہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بحث کرکے قرآن کو غلط ثابت کر کے دکھاؤ۔وہ قرآن پہ الزام لگانے کے معاملے میں اتنا بے بس تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے کے لیے یہودیوں اور عیسائیوں کو لے آیا۔جو شخص خود مقابلہ تک نہیں کر سکتا تھا اور نہ ہی قرآن کو جھوٹ ثابت کر سکتا تھا وہ شخص کیسے ثابت کر سکتا ہے کہ قرآن نعوذ بااللہ دیگر داستانوں سے اخذ کیا گیا۔
خلاصہ یہ کہ ابن ہشام کے مطابق نضر بن حارث نے دعوی کیا کہ وہ قرآن کے مقابلے میں اپنا کلام پیش کرے گا۔آگے اس کی ابن ہشام نے تفصیل نہیں پیش کی۔اس کی تفصیل جو ڈیوڈ مارگولتھ نے اپنی کتاب Muhammad and the rise of Islam میں پیش کی ہے۔ اس کے مطابق وہ قرآن کے مقابلے میں لوگوں کو فارسی داستانوں کو شاعرانہ طرز میں پڑھتا تھا۔لیکن کسی صحیح یا کسی ضعیف حدیث میں بھی نہیں ہے کہ اس نے یہ کہا تھا بلکہ ضعیف روایات میں بھی اتنا ہی مذکور ہے کہ وہ عجمی داستانوں کو قرآن کے مقابلے میں گانوں اور شاعری کی شکل میں پڑھتا تھا۔کہ وہ قرآن کے مقابلے میں اپنا کلام پیش کرے گا۔ضعیف روایات میں بھی صرف اتنا مروی ہے کہ وہ قرآن کے مقابلے میں عجمی داستانوں کو نغمیہ طرز میں پڑھتا تھا اور یہ روایات بھی ضعیف ہونے کی وجہ سے ناقابل اعتبار ہیں۔یہ خواب ڈیوڈ مارگولیتھ اور ملحدین نے لگتا ہے افیم کے نشے میں دیکھا ہے۔ڈیوڈ مارگولیتھ کی یہ کتاب اسلام،قرآن اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہ الزامات اور ضعیف راویوں سے چوری اور نقل شدہ ہے اور اس کتاب کے تقریبا سب اعتراضات کے جوابات الحمداللہ ہم پہلے ہی دے چکے ہیں۔ابن کثیرسمیت جس بھی مفسر نے یہ واقعہ نقل کیا،اس نے انہی ضعیف روایات پہ انحصار کیا۔اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ اسلام کا اصل ماخذ قرآن اور صحیح حدیث ہیں۔تاریخ کی کتابیں اور مفسرین کی بیان کردہ اسرائیلی روایات نہیں۔
آگے ملحد سید امجد حسین کہتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریش مکہ نے اصحاب کہف کی تعداد پوچھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن میں تین یا پانچ یا سات بتائی اور نعوذ بااللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ٹھیک تعداد پتہ نہیں تھی۔تاریخ میں ایک کتاب بھی ایسی نہیں ہے جس میں یہ مذکور ہو کہ اصحاب کہف کے حالات پوچھتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی تعداد بھی پوچھی گئ تھی۔یہاں تک کہ تفسیر ابن کثیر اور تاریخ ابن کثیر،طبقات سعد،ابن ابی حاتم اورطبری جیسی کتابیں جن میں ضعیف روایات کثرت سے وارد ہیں، میں بھی یہ مذکور نہیں۔لیکن ملحدین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہ اعتراض کا بہانہ اٹھایا اور یہ دعوی کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعداد پوچھی گئ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بتانے سے قاصر رہے۔قرآن کی آیت ہے
سَيَقُوْلُوْنَ ثَلَاثَةٌ رَّابِعُهُـمْ كَلْبُهُمْۚ وَيَقُوْلُوْنَ خَـمْسَةٌ سَادِسُهُـمْ كَلْبُـهُـمْ رَجْـمًا بِالْغَيْبِ ۖ وَيَقُوْلُوْنَ سَبْعَةٌ وَّّثَامِنُـهُـمْ كَلْبُـهُـمْ ۚ قُلْ رَّبِّىٓ اَعْلَمُ بِعِدَّتِـهِـمْ مَّا يَعْلَمُهُـمْ اِلَّا قَلِيْلٌ ۗ فَلَا تُمَارِ فِـيْهِـمْ اِلَّا مِرَآءً ظَاهِرًاۖ وَّلَا تَسْتَفْتِ فِـيْهِـمْ مِّنْـهُـمْ اَحَدًا (22)
بعض کہیں گے تین ہیں چوتھا ان کا کتا ہے، اور بعض اٹکل پچو سے کہیں گے پانچ ہیں چھٹا ان کا کتا ہے، اور بعض کہیں گے سات ہیں آٹھواں ان کا کتا ہے، کہہ دو ان کی گنتی میرا رب ہی خوب جانتا ہے ان کا اصلی حال تو بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں، سو تو ان کے بارے میں سرسری گفتگو کے سوا جھگڑا نہ کر، اور ان میں سے کسی سے بھی ان کا حال دریافت نہ کر(سورہ الکہف پارہ پندرہ آیت 22)
لہذا قرآن نے اس آیت کے مطابق اصحاب کہف کی تعداد کے بارے میں موجود غلط باتوں کی تردید کی اور سات کے عدد کا ذکر کیا لیکن اس کی تردید نہیں کی۔لہذا اسی بات پہ کئی علمائے امت اور ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا اتفاق ہے کہ قرآن نے اصحاب کہف کی تعداد سات بتائی ہے اور آٹھواں ان کا کتا تھا۔لہذا ملحدین کا یہ کہنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اصحاب کہف کی صحیح تعداد بتانے سے قاصر رہے،جھوٹ اور بہتان ہے۔
مزید سید امجد حسین کہتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذوالقرنین کے بارے میں کئے گئے سوال پہ اس کی صحیح شناخت نہیں پیش کی قرآن کے مطابق نعوذ بااللہ اور اس پہ آج تک تاریخ میں شدید اختلاف ہے۔پہلی بات یہ کہ قرآن مورخین کے باہمی اختلافات کا ذمہ دار نہیں۔جس بات کی مکمل تفصیل قرآن نے ذکر نہیں کی اس بارے میں کسی مورخ کو خود سے کچھ فرض کرنے اور اس میں باہم اختلاف کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔دوسری بات یہ کہ کئ مسلم مفسرین کے مطابق ذوالقرنین زمانہ قبل از تاریخ کی شخصیت ہیں۔اگر قرآن کی طرف سے ان کی مکمل تفصیل بتا بھی دی جاتی تو اس زمانے کے باقی حالات سے واقفیت نہ ہونے کی بنیاد پہ ان کی مکمل شناخت کس طرح ہوتی۔تیسری بات یہ کہ قرآن تاریخ کی کتاب نہیں۔یہ ایمانیات کی کتاب ہے۔قرآن میں انبیاء تک کے حالات و واقعات مکمل تاریخ کے ساتھ بیان نہیں کیے گئے تو ذوالقرنین کے ہیش نہ کرنے پہ کس طرح اعتراض کیا جا سکتا ہے۔قرآن ہم سے تاریخ کا نہیں،ایمان کا تقاضا کرتا ہے اور اتنی تفصیل بیان کرتا ہے جو ہماری آخرت کی فلاح کے لیے لازمی ہے۔
آخر میں ملحد سید امجد حسین کہتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روح کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے امر ربی یعنی اللہ تعالی کا حکم قرار دیا لیکن اس کی مکمل تفصیل پیش نہیں کی۔اس پہ ہم سوال کرتے ہیں کہ کیا روح اللہ تعالی کا حکم نہیں ہے؟ کیا اس حکم کے جسم سے نکلنے کے بعد انسان اس حکم کے بغیر بےجان نہیں ہوتا؟ملحدین تو آج تک روح کے منکر آرہے تھے جب کہ اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف روح کی تصدیق کی بلکہ اسے حکم ربی قرار دیا اور اج سائنس ملحدین کی طرف سے روح کے انکار کی تردید اور مذہب کی تائید کرچکی ہے۔اس پہ ہم ایک تفصیلی پوسٹ بہت پہلے لکھ چکے ہیں جسے درج ذیل لنک پہ پڑھا جا سکتا ہے
https://m.facebook.com/groups/186560831534965?view=permalink&id=618206558370388
آخر میں ملحد سید امجد حسین نے اپنے مضمون "فلسفی قاتل کی قید میں" یہ الزام عائد کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نضر بن حارث کو بیگناہ کے طور پہ بیدردی سے قتل کرادیا۔
اور بقول اس کے نضر بن حارث کو بیدردی سے قتل کیا گیا تو خود اسی نضر بن حارث کے بیٹے فارس بن نضر بن حارث رضی اللہ تعالی عنہ نے اسلام کیوں قبول کیا۔کیونکہ اسے تو معلوم ہونا چاہئے تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ بااللہ جھوٹے اور قاتل ہیں جنہوں نے نعوذ بااللہ قرآن دوسری کتابوں سے چوری کیا لیکن خود ان کے بیٹے نے اسلام سے متاثر ہوکر اسلام قبول کیا۔
جو بندہ یہ لنکس مطالعہ کر لے گا اسے معلوم ہوجائے گا کہ اپنی پوسٹ میں نضر بن حارث کے قتل کے حوالے سے سید امجد حسین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہ کتنی بڑی الزام تراشی کی اور جھوٹ پہ مبنی باتیں کر کے عوام کو بیوقوف بنانے اور ان کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی۔میں ان لنکس سے انگلش پیراگراف پیسٹ کر رہا ہوں۔پڑھ میں ذرا۔آخر میں ان کا خلاصہ میں اپنے الفاظ میں بیان کروں گا
Al Nadr ibn al-Harith was an oppressor and tortured many Muslims in Mecca (Makkah). He persecuted Muslims. He was a criminal who had waged war against the Prophet and his community, so he was not as innocent as critics make him out to be.
اس کے مطابق نضر بن حارث نے مکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو شدید اذیت کا نشانہ بنایا جس کی پاداش میں اسے قتل کیا گیا۔رہا ملحدین کا یہ اعتراض کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نضر بن حارث کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن پرانی داستانوں سے نقل کرنے کے الزام میں قتل کیا تو یہ بات کسی صحیح کیا کسی ضعیف روایت میں بھی وارد نہیں ہے۔
اس کو مسلمانوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کی توہین پہ قتل کر دیا گیا۔ملحدین دنیا میں بیگناہ ایک کروڑ انسان قتل کردیں اس پہ کچھ نہیں جب مسلمان اپنے جانی دشمن کو گرفتار کرکے قتل کریں اس پہ ملحدین کو رحم ترس یاد آتا ہے۔دنیا کا کونسا قانون ہے جو بلا وجہ اذیت اور مذہبی توہین پہ قتل کی سزا نہیں دیتا۔ ملحدین نے ایک کروڑ انسان قتل کردیے بیسویں صدی عیسوی میں۔اس پہ ملحدین نے آنکھیں موند لی ہیں جب کہ ایک جنگی مجرم کے قتل پہ ملحدین کو بڑا ترس آرہا ہے
اور یہ پڑھیں
Cherag Ali:
NADR-BIN-HARITH
Nadhr (Nazr), one of the prisoners of war, was executed after the battle of Badr for his crime of severely tormenting Moslems at Mecca. Musab has distinctly reminded him of his torturing the companions of Mohammad, so there was nothing of a cruel and vindictive spirit of the Prophet displayed towards his enemies in the execution of Nazr as it is made out by Sir W. Muir.
A Critical Exposition of the Popular Jihad (Original 1885) – Cheragh Ali page 77 – 79
اس کے مطابق بھی نضر بن حارث کو انہی وجوہات کی بنیاد پہ قتل کیا گیا جو میں نے اوپر پیش کی۔اسحاق اور ہشام تو خود ہی کہ رہے ہیں کہ یہ شخص مکہ مکرمہ میں مسلمانوں کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت پہنچایا کرتا تھا۔
غزوہ بدر میں نضر بن حارث کے غیر تصدیق شدہ قتل کے علاوہ اور کتنے قیدی تھے جن کو قتل کیا گیا۔کیا ملحدین اس کا جواب دیں گے تعداد بیان کرکے؟
بدر کے تمام قیدیوں میں سےصرف دو کو قتل کیا گیا تھا لیکن ان دو میں سے بھی نضر بن حارث کے قتل میں اختلاف ہے۔ نضر بن حارث اور عقبہ بن ابی معیط کے لیے امتیازی سلوک کے بارے میں علامہ ابن تیمیہ رقم طراز ہیں ”تمام قیدیوں میں سے ان دو کے قتل کرنے کی وجہ یہ تھی کہ یہ اپنے قول و فعل سے اللہ اور اس کے رسول ا کو ایذاء دیتے تھے جو آیات نضر کے بارے میں نازل ہوئیں وہ معروف ہیں۔اسی طرح عقبہ اپنی زبان اور ہاتھوں سے جو ایذاء دیتا تھا وہ بھی معروف ہے۔اس شخص نے مکہ میں رسول کریم ا (میرے ماں باپ آپ ا پر قربان ہوں) کا گلا اپنی چادر سے پورے زور سے دبایا۔ یہ آپ ا کو قتل کرنا چاہتا تھا ۔ اسی طرح رسول کریم ا سجدہ کی حالت میں تھے تو اس نے آپ ا کی پشت مبارک پر اونٹ کا اوجھ لاکر رکھ دیاتھا۔ (الصارم المسلول ، اردو ترجمہ ص ۲۰۳)
بہتر قیدیوں کو چھوڑ کر صرف دو کا قتل اور وہ بھی جو جنگی مجرم ہوں باقی سب معاف پھر بھی ملحدین کہتے ہیں کہ نعوذ بااللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظلم کیا
اور اب تفسیر الخازن کا حوالہ دیکھیں
نضر بن حارث جو اسلام کا سخت دشمن تھا اور چاہتا تھا کہ لوگ قرآن کی طرف متوجہ نہ ہوں اور اس سلسلے میں وہ مختلف کوششیں کرتا رہتا تھا جن میں سے ایک یہ بھی تھی کہ اس نے ایک گانے والی کنیز رکھی ہوئی تھی۔ وہ جس کو اسلام کی طرف مائل دیکھتا اس کنیز کا گانا سنواتا اور پوچھتا بتاؤ، مزہ گانے میں ہے یا قرآن کریم میں؟ اس سے اس کا مقصد یہ تھا کہ لوگ قرآن سے دور اور گانے بجانے میں لگ جائیں اور اللہ نے اس آیت کے ذریعے اس کو حرام قرار دے دیا۔
لہذا اس شخص کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو اذیت دینے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کی توہین پہ قتل کیا گیا تھا۔
قرآن کا مذاق اڑانا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو اذیت دینا دیگر کفار مکہ کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو اذیت دینے میں شریک ہونا۔اب بھی ملحد کہتے ہیں کہ وہ جنگی مجرم نہیں تھا۔
نضر بن حارث نے عقبہ بن ابی معیط کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کو اذیت دینے میں پیش پیش تھا۔علاوہ ازیں یہ وہ شخص تھا جس نے ابوجہل کے ساتھ مل کر کفار مکہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے ابھارا۔یہ کسی طرح بھی ایک عام جنگی قیدی نہیں تھا لیکن قتل میں اختلاف ہے۔
کیا قرآن کی توہین کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنا قرآن کے مقابلے میں موسیقی والی رکھنا مسلمانوں کو اذیت دینے والوں کا ساتھ دینا کفار کو مسلمانوں سے جنگ کے لیے تیار کرنا کچھ کم جرم تھے؟
ڈیوڈ مارگولیتھ کے مطابق بھی اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑانے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چیلنج کرنے پہ قتل کیا گیا تھا۔ سنن ابو داؤد اور انوال معبود سے ثابت ہے کہ نضر بن حارث مسلمانوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت دیتا تھا
موہر علی کے مطابق نضر بن حارث نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ مکرمہ میں قتل کرنے کی کوشش کی تھی اور اسے اس پاداش میں غزوہ بدر میں گرفتار کرکے قتل کیا گیا تھا۔اس کا قتل بھی ان بدترین جنگی دشمنوں کے حوالے سے ان جنگی اصولوں اور قوانین کے تحت تھا جو آج بھی جنگی قیدیوں کے حوالے سے دنیا کے ہر ملک اورجنگی قانون میں رائج ہیں۔
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Nadr_ibn_al-Harith
یہ حلف الفصول کے اس معاہدے میں پیش پیش تھا جس کے تحت بنو ہاشم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش نے ایک گھاٹی تک محدود کرکے ان کا تین سال مقاطعہ یعنی بائیکاٹ کیا۔
یہاں تک کہ اسی نضر بن حارث نے ایک بار قریش سے کہا کہ اے قریش! تمہیں اللہ تعالی نے وہ کلام دیا ہے جو تم سے پہلے کسی اور کو نہیں دیا گیا،محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم میں پیدا ہوئے اور جوان ہوئے اور تمہارے پاس یہ کلام لے آئے،تم نے کہا وہ جادوگر ہیں،ہم نے جادوگر اور ان کا کلام دیکھ رکھا ہے،تم نے کہا وہ کاہن ہیں،ہم نے کاہنوں کا کلام بھی سن رکھا ہے،تم نے کہا وہ شاعر ہیں،ہم نے شاعروں کا کلام بھی سن رکھا ہے،خدا کی قسم وہ شاعر نہیں،تم نے کہا کہ وہ مجنون ہیں،ہم نے مجنون بھی دیکھے ہیں،یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وسوسہ نہیں۔اے معشر قریش! اللہ تعالی نے تمہاری طرف ایک عظیم حکم یعنی قرآن نازل کیا ہے۔
محترم قارئین! یہ تھی نضر بن حارث کی قرآن کے مقابلے میں بے بسی۔وہ اپنے کفر پہ سختی سے قائم تھا۔لوگوں کو ہر طریقے سے قرآن سے دورکرنے کی کوشش کرتا تھا لیکن قرآن کی فصاحت و بلاغت کا قائل تھا۔خود ابن ہشام کے مطابق وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہ نازل ہونے والے کلام کے مقابلے میں قریش کو تدبر کی تلقین کیا کرتا تھا۔اگر اس کی نظر میں قرآن دوسری کتابوں سے چوری شدہ تھا تو کیا وہ یہ الفاظ قرآن کے بارے میں کہتا؟
کیا اس ساری بحث کے بعد بھی ضعیف اور انتہائی ناقابل اعتبار روایات کی بنیاد پہ ملحدین کہ سکتے ہیں کہ نضر بن حارث اپبے زمانے کا اعلی ترین فلسفی اور ماہر ثقافت تھا؟ کیا ملحدین اتنے پڑھے لکھے بھی نہیں ہے کہ عربی طبیب حارث بن کلدہ اور نضر بن حارث میں فرق نہ کر سکیں؟وہ کونسی مذہبی آزادی تھی جو بعض سوشلسٹ کمیونسٹ ملحدین کے مطابق نضر بن حارث مکہ مکرمہ میں لانا چاہتا تھا جب کہ اسی مکہ مکرمہ میں اسلام کی دعوت پہ مسلمانوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بدترین اذیت کا نشانہ بنایا گیا۔وہ کونسا ثقافتی انقلاب تھا جو نضر بن حارث مکہ مکرمہ میں لا سکتا تھا جب کہ اس کا تو فارس و روم اور حیرہ و نجران کا سفر تک کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں؟وہ کونسا فلسفہ تھا جو اس نے علم فلسفہ میں پیش کیا؟اس کے کونسے فلسفے کی بنیاد پہ ملحد سید امجد حسین نے اسے فلسفی کا لقب دے ڈالا ہے؟جاہل ملحد فلسفہ نوچے والی بات ہم نے مضمون کے عنوان میں بالکل ٹھیک کی ہے۔ اوپر کی یہ ساری بحث ظاہر کر چکی ہے کہ اسلام اور قرآن اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہ ملحدین اور مارکسسٹوں کے یہ اعتراضات ایک نفسیاتی بیماری ہیں جس میں مریض ہر بات کو دوسرے حوالوں سے براڈ کاسٹ شدہ سمجھتا ہے۔
اس ساری گفتگو سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملحدین و مستشرقین اسلام،قرآن اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہ اعتراضات اور الزامات کے لیے ضعیف روایات اور تاریخی حوالوں کو توڑ مروڑ کر اس میں جھوٹ کی آمیزش کرکے سادہ مسلمانوں اور عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جب تھوڑا علم رکھنے والے لوگ ان کو ان کے اعتراضات پہ ڈھول چٹاتے ہیں تو یہ اپنی بے عزتی اور جھوٹ پکڑے کے جانے کے ڈر سے اپنے بلاک کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔اس مضمون میں موجود بحث کے کئی عنوانات پہ ملحد سید امجد حسین سے میری مسلسل چھ گھنٹے بحث ہوئی اور اس میں میں نے اس سے کئی سوالات کیے جن کے اس ملحد نے چوبیس گھنٹے کے اندر جوابات دینے کا وعدہ کیا لیکن پھر مجھے اس سے پہلے ہی بلاک کر دیا۔درمیان میں میں مصروف رہا اور اس کا تفصیلی جواب دوسرے مضامین میں مصروفیت کی وجہ سے نہیں لکھ سکا۔اس کے بعد میں نے آپریشن ارتقائے فہم و دانش گروپ میں موجود اس کے کچھ دوستوں کے حوالے سے اسے چیلنج کیا کہ اگر وہ سچا ہے تو مجھے ان بلاک کرکے میرے سوالات کا جواب دے لیکن اپنے جھوٹ کو ثابت نہ کر پانے کی سکت پاکر اس ملحد نے آج تک مجھے اور ہمارے گروپ آپریشن ارتقائے فہم و دانش کے ہر ایڈمن کو بلاک کر رکھا ہے تاکہ ان کے جھوٹ کوئی نہ پکڑے اور ان کے الحادی چوزوں کی تربیت پہ کوئی اثر نہ پڑے۔
اللہ تعالی ہم سب کو الحاد کی گمراہی سے بچائے اور ہمارا خاتمہ ایمان پہ فرمائے۔آمین۔
ملحد سید امجد حسین کے قرآن ،اسلام اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہ جھوٹ الزامات اور ان کا تفصیلی جواب
تحریر: ڈاکٹر احید حسن
»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»
ملحد سید امجد حسین کے مطابق نضر بن حارث اپنے وقت کے قریش کے اعلیٰ ترین علمی و قابل لوگوں میں شمار ہوتا تھا اور اس نے روم و فارس،حیرہ یعنی عراق اور نجران کا سفر کرکے وہاں سے فارس کے شاہوں،رستم اور اسفند یار کے قصے سنے اور یہ دعوی کیا کہ قرآن میں مذکور قدیم اقوام کے حالات نعوذ بااللہ عجم اور دوسری کتابوں سے نقل شدہ ہیں۔ایک سوال یہ بھی ہے کہ جو علم النضر نے مختلف علاقوں کا سفر کر کے مختلف علما سے حاصل کیا ، پیغمبر اسلام کے پاس اس علم کی موجودگی کا ماخذ کیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔؟ جبکہ کی تحریر سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ النضر کے علاوہ اس علاقے میں کوئی تیسرا ماضی کے ان واقعات سے آگاہ نہ تھا۔ جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ لکھنا جانتے تھے نہ پڑھنا جانتے تھے اور نہ ہی قریش مکہ نے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ سب وحی کے علاوہ کسی دوسرے حوالے سے سیکھنے کا الزام دیا۔البتہ وہ قرآن کو نعوذ بااللہ صرف شاعری اور کاہنوں کا کلام قرار دیتے تھے۔
ملحد سید امجد حسین دعوی کرتا ہے کہ برطانوی مستشرق ڈیوڈ مارگولیتھ کے مطابق اس نے ان علاقوں میں یونان،فارس اور حیرہ کی کتابیں خرید کر ان کا مطالعہ کیا تھا۔اگر ملحد سید امجد حسین کے الزامات کی بنیاد دیکھی جائے تو اس کے الزامات مغربی مستشرقین سے چوری شدہ ہیں جن کو اس نے اپنی ذاتی تحقیق و تحریر کے طور پہ پیش کیا۔یہاں تک کہ اس ملحد کی پوسٹ کافی حد تک عربی ملحدین کی ایک ویب سائٹ http://www.alzakera.eu/music/religon/religon-0298.htm کی دانستہ یا نا دانستہ نقل ہے جس کا ترجمے کے طور پہ حوالہ اور نام دینے تک کی اس ملحد نے زحمت گوارا کرنے کی کوشش نہیں کی۔
اگر ملحد سید امجد حسین، اوپر مذکور عربی ملحدین کی ویب سائٹ اور برطانوی مستشرق ڈیوڈ مارگولیتھ کے واقعہ نضر بن حارث کے بیان کا اندازہ لگایا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس واقعے کی بنیاد کچھ ابتدائی اسلامی تاریخوں میں پیش ہونے والی انتہائی ضعیف اور ناقابل اعتبار راویوں کی روایات ہیں جن کے ضعیف ہونے میں کسی محدث کو کوئی شک نہیں۔اب ہم اس واقعے کی روایات جو مختلف تاریخی اسلامی کتابوں میں وارد ہوئی ہیں، کا جائزہ لیتے ہیں۔پہلی روایت اور اس کا عربی متن درج ذیل ہے
أخبرنا أبو عبد الرحمن محمد بن عبد الرحمن بن محبوب الدهان ، ثنا الحسين بن محمد بن هارون ، ثنا أحمد بن محمد بن نصر ، ثنا يوسف بن بلال ، ثنا محمد بن مروان ، عن الكلبي ، عن أبي صالح ، في قوله : { ومن الناس من يشتري لهو الحديث } - يعني باطل الحديث بالقرآن - ، قال ابن عباس : " وهو النضر بن الحارث بن علقمة ، يشتري أحاديث الأعاجم وصنيعهم في دهرهم ، فرواه من حديث الروم وفارس ورستم واسفنديار والقرون الماضية ، وكان يكتب الكتب من الحيرة والشام ، ويكذب بالقرآن ، فأعرض عنه فلم يؤمن به "
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی اس روایت کے مطابق نضر بن حارث نے روم و فارس،حیرہ،رستم،اسفند یار اور ماضی کے لوگوں کے قصے سیکھے اور حیرہ اور شام میں کتابیں لکھتا تھا۔یہ روایت شعب الایمان میں بیہقی سے بھی اسی سند کے ساتھ مذکور ہے۔
اگر اس روایت کی سند کا جائزہ لیا جائے تو اس روایت کی سند میں بنیادی راوی جو یہ روایت حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کر رہا ہے وہ الکلبی ہے۔عربی تفسیر ابن عباس
کا اصل نام "تنویر المقباس" ہے
واضح رہے کہ یہ تفسیر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی خود کی تحریر کردہ نہیں ہے جیسا کہ عموماً تاثر دیا جاتا ہے۔ بلکہ یہ تفسیر جمعه ابو طاہر محمد بن يعقوب الفيروز آبادى الشافعی (المتوفى : 817 ھ) کی تصنیف ہے۔ اور انہوں نے اس تفسیر کو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے منسوب کیا ہے۔امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی مشہور کتاب " الفوائد المجموعة " ( صفحہ:316) پر لکھتے ہیں :
اس تفسیر (تفسیر ابن عباس) کے راوی "الکلبی" ، "السدی" اور "مقاتل" جھوٹے راویان ہیں۔ اور ابن تیمیہ (رحمۃ اللہ) سے بھی یہی بات معروف ہے۔
امام ابو حاتم رحمۃ اللہ اپنی کتاب "الجرح و التعدیل" ، جلد اول ، صفحہ 36 پر لکھتے ہیں :
سفیان ثوری رحمۃ اللہ نے کہا کہ محمد بن السائب الکلبی اگر اس سند عن ابی صالح عن ابن عباس سے روایت کرے تو حدیث نہیں لی جائے گی کہ یہ سند جھوٹی ہے۔لہذا الکلبی اور ابی صالح کی حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی یہ روایت ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔
اب ہم دوسری روایت کا جائزہ لیتے ہیں۔اخبار المکہ للفاکہی میں یہ روایت اس طرح ہے
وحدثني حسن بن حسين الأزدي ، قال : ثنا محمد بن سهل ، قال : ثنا هشام بن الكلبي ، عن محرز بن جعفر ، عن عمرو بن أمية الضمري ، قال : ابن سهل ، وذكره الواقدي أيضا قال : " كانت قريش إنما تغني ويغنى لها النصب ، نصب الأعراب لا تعرف غير ذلك ، حتى قدم النضر بن الحارث وافدا على كسرى ، فمر على الحيرة ، فتعلم ضرب البربط ، وغنى العباد ، فعلم أهل مكة ، وفيه نزلت : { ومن الناس من يشتري لهو الحديث } " *
اس روایت کے مطابق نضر بن حارث نے کسری یعنی فارس اور حیرہ یعنی عراق کا سفر کیا اور وہاں سے گئے اور گانے کا علم سیکھ کے آیا اور مکہ والوں کو سکھایا۔
اس روایت کی سند پہ بھی غور کیا جائے تو اس کی سند میں الکلبی موجود ہے جسے محدثین رافضی اور جھوٹا راوی قرار دے چکے ہیں۔اس کے علاوہ اس روایت میں الواقدی موجود ہے۔خطیب بغدادی نے امام بخاری کا قول نقل کیا ہے کہ : " محمد بن عمر الواقدی قاضی بغداد، متروک الحدیث" یعنی الواقدی کو متروک الحدیث کہا۔جن محدثین نے الواقدی کو علم الحدیث میں ضعیف یا غیر ثقہ کہا ہے وہ یہ ہیں:
امام شافعی متوفی 204ھ۔
امام یحییٰ بن معین متوفی 233ھ۔
امام اسحاق ابن راہویہ متوفی 238ھ۔
امام احمد بن حنبل متوفی 241ھ۔
امام علی بن المدینی متوفی 241ھ۔
امام ابو عبداللہ محمد بن اسمٰعیل البخاری متوفی 256ھ۔
امام ابو زُرعہ الرازی متوفی 264ھ۔
امام ابوداود السجستانی متوفی 275ھ۔
امام ابو حاتم محمد بن ادریس الرازی متوفی 277ھ۔
امام نسائی متوفی 303ھ۔
امام ابن عدی متوفی 365ھ۔
امام دارقطنی متوفی 385ھ۔
امام ابو زکریا شرف الدین النووی متوفی 676ھ۔
امام شمس الدین الذھبی متوفی 748ھ۔
امام العلامہ ابن حجر العسقلانی متوفی 852ھ
لہذا نضر بن حارث کے حیرہ و فارس کے سفر اور وہاں سے تحصیل علم کی یہ روایت بھی ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔
https://ur.m.wikipedia.org/wiki/الواقدی
www.urdumajlis.net/threads/تفسیر-ابن-عباس-رض-کی-حقیقت.2839/
طبری میں یہ روایت اس طرح آئی ہے
حدثني محمد بن الحسين ، قال : ثنا أحمد بن المفضل ، قال : ثنا أسباط ، عن السدي ، قال : " كان النضر بن الحارث بن علقمة أخو بني عبد الدار يختلف إلى الحيرة ، فيسمع سجع أهلها وكلامهم . فلما قدم مكة ، سمع كلام النبي صلى الله عليه وسلم والقرآن ، فقال : { قد سمعنا لو نشاء لقلنا مثل هذا إن هذا إلا أساطير الأولين } يقول : أساجيع أهل الحيرة
ذكر من قال ذلك حدثنا أبو كريب ، قال : ثنا يونس بن بكير ، قال : ثنا محمد بن إسحاق ، قال : ثنا شيخ ، من أهل مصر ، قدم منذ بضع وأربعين سنة ، عن عكرمة ، عن ابن عباس قال : " كان النضر بن الحارث بن كلدة بن علقمة بن عبد مناف بن عبد الدار بن قصي من شياطين قريش ، وكان يؤذي رسول الله صلى الله عليه وسلم وينصب له العداوة ، وكان قد قدم الحيرة ، تعلم بها أحاديث ملوك فارس وأحاديث رستم وأسفنديار ، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا جلس مجلسا فذكر بالله وحدث قومه ما أصاب من قبلهم من الأمم من نقمة الله ، خلفه في مجلسه إذا قام ، ثم يقول : أنا والله يا معشر قريش أحسن حديثا منه ، فهلموا فأنا أحدثكم أحسن من حديثه ثم يحدثهم عن ملوك فارس ورستم وأسفنديار ، ثم يقول : ما محمد أحسن حديثا مني قال : فأنزل الله تبارك وتعالى في النضر ثماني آيات من القرآن قوله : { إذا تتلى عليه آياتنا قال أساطير الأولين } وكل ما ذكر فيه الأساطير في القرآن " حدثنا ابن حميد قال : ثنا سلمة ، عن ابن إسحاق قال : ثني محمد بن أبي محمد ، عن سعيد أو عكرمة ، عن ابن عباس نحوه ، إلا أنه جعل قوله : فأنزل الله في النضر ثماني آيات ، عن ابن إسحاق ، عن الكلبي ، عن أبي صالح ، عن ابن عباس * " *
http://www.eltwhed.com/vb/showthread.php?55662-%C7%E1%E4%D6%D1-%C8%E4-%C7%E1%CD%C7%D1%CB
اس روایت کے مطابق نضر بن حارث نے روم و فارس اور حیرہ کا سفر کیا اور وہاں سے ماضی کے قصے کہانیاں سن کر مکہ آیا اور ان کو قرآن کے مقابلے میں پیش کرتا تھا۔
اگر اس روایت کی سند کا جائزہ لیا جائے تو اس روایت میں السدی خواہ یہ محمد بن مروان السدی ہے یا اسماعیل بن عبدارحمن السدی دونوں کو محدثین ناقابل اعتبار قرار دے چکے ہیں۔سدی کبیر یا اسماعیل بن عبدالرحمن السدی کو تو کئی مورخین نے جھوٹا اور شتام قرار دیا ہے۔
www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/15450/10/153
اس طرح کی ایک اور روایت ہے
ذكر من قال ذلك حدثنا أبو كريب ، قال : ثنا يونس بن بكير ، قال : ثنا محمد بن إسحاق ، قال : ثنا شيخ ، من أهل مصر ، قدم منذ بضع وأربعين سنة ، عن عكرمة ، عن ابن عباس قال : " كان النضر بن الحارث بن كلدة بن علقمة بن عبد مناف بن عبد الدار بن قصي من شياطين قريش ، وكان يؤذي رسول الله صلى الله عليه وسلم وينصب له العداوة ، وكان قد قدم الحيرة ، تعلم بها أحاديث ملوك فارس وأحاديث رستم وأسفنديار ، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا جلس مجلسا فذكر بالله وحدث قومه ما أصاب من قبلهم من الأمم من نقمة الله ، خلفه في مجلسه إذا قام ، ثم يقول : أنا والله يا معشر قريش أحسن حديثا منه ، فهلموا فأنا أحدثكم أحسن من حديثه ثم يحدثهم عن ملوك فارس ورستم وأسفنديار ، ثم يقول : ما محمد أحسن حديثا مني قال : فأنزل الله تبارك وتعالى في النضر ثماني آيات من القرآن قوله : { إذا تتلى عليه آياتنا قال أساطير الأولين } وكل ما ذكر فيه الأساطير في القرآن " حدثنا ابن حميد قال : ثنا سلمة ، عن ابن إسحاق قال : ثني محمد بن أبي محمد ، عن سعيد أو عكرمة ، عن ابن عباس نحوه ، إلا أنه جعل قوله : فأنزل الله في النضر ثماني آيات ، عن ابن إسحاق ، عن الكلبي ، عن أبي صالح ، عن ابن عباس *
اس روایت کی سند کا جائزہ لیا جائے تو اس روایت کی سند میں محمد بن اسحاق ایک انتہائی ضعیف راوی ہے لہذا یہ روایت بھی ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔وقال مالك دجال من الدجاجلة
امام مالکؒ فرماتے ہیں محمد بن اسحاق دجالوں میں سے ایک دجال ہے۔
(تہذیب التہذیب ج۹ص۴۱،تذکرہ الحفاظ ج۱ ص۱۳۰)
امام مالکؒ فرماتے ہیں:۔
محمد بن إسحاق كذاب.(تاریخ بغداد ج۲ص۱۹)
محمد بن اسحاق کذاب ہے۔
2۔ علی ن المدینی، سعید قطانؒ
علي يعني ابن المدينى قال سمعت يحيى يعيى ابن سعيد القطان يقول قلت لهشام بن عروة ان ابن اسحاق يحدث عن فاطمة بنت المنذر فقال أهو كان يصل إليها؟ فقلت ليحيى كان محمد بن اسحاق بالكوفة وانت بها؟ قال نعم، قلت تركته متعمدا؟ قال نعم تركته متعمدا ولم أكتب عنه حديثا قط.(لجرح والتعدیل ج۷ص۱۹۳)
علی بن المدینی ؒ فرماتے ہیں میں نے سعید بن قطانؒ سے پوچھا محمد بن اسحاق اور آپ کو کوفہ میں رہتے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا جی ہاں ہم دونوں کوفہ میں ہوتے ہیں میں نے کہا آپ نے اس کو جان بوجھ کر چھوڑ رکھا ہے یحیی بن سعید نے کہا جی ہاں میں نے اس کو قصدا چھوڑ ا ہوا ہے اور میں نے اس سے کبھی بھی حدیث نہیں لکھی۔لہذا یہ روایت بھی ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔
اس طرح کی اور روایات درج ذیل ہیں۔
أخبرنا أحمد بن عثمان بن حكيم الأودي ، فيما كتب إلي ، ثنا أحمد بن المفضل ، عن أسباط ، عن السدي ، قال : " كان النضر بن الحارث بن علقمة من بني عبد الدار يختلف في الحيرة ، فيسمع سجع أهلها وكلامهم ، فلما قدم مكة سمع كلام النبي صلى الله عليه وسلم والقرآن فقال : { قد سمعنا لو نشاء لقلنا مثل هذا إن هذا إلا أساطير الأولين } " * حدثنا أبي ، ثنا عيسى بن جعفر ، قاضي الري ، ثنا سفيان ، عن الأعمش ، عن رجل ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس ، في قوله : " { اللهم إن كان هذا هو الحق من عندك } ، قال : هو النضر بن الحارث " * أخبرنا أحمد بن عثمان بن حكيم ، فيما كتب إلي ، ثنا أحمد بن المفضل ، ثنا أسباط ، عن السدي ، قال : " قال النضر بن الحارث : " اللهم إن كان ما يقول محمد { هو الحق من عندك فأمطر علينا حجارة من السماء } " وروي عن سعيد بن جبير مثل ذلك *
أخبرنا محمد بن علي الشيباني بالكوفة ، ثنا أحمد بن حازم الغفاري ، ثنا عبيد الله بن موسى ، عن سفيان الثوري ، عن الأعمش ، عن سعيد بن جبير ، { سأل سائل بعذاب واقع للكافرين ليس له دافع من الله ذي المعارج } ذي الدرجات { سأل سائل } قال : هو النضر بن الحارث بن كلدة قال : " اللهم إن كان هذا هو الحق من عندك ، فأمطر علينا حجارة من السماء " " هذا حديث صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه " *
اگر ان روایات کی سند پہ غور کریں تو ان کی سند میں ایک بار پھر السدی،محمد بن اسحاق،ابن ابی نجیح اور الاعمش جیسے ضعیف راوی موجود ہیں۔ابن ابی نجیح مدلس ثقہ راوی ہیں لیکن ان کی تدلیس کی وجہ سے یہ روایت ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔ابن عینیہ اور بخاری نے اسے معتزلہ قرار دیا ہے۔
https://ar.m.wikipedia.org/wiki/عبد_الله_ابن_أبي_نجيح
وہ روایات جن میں نضر بن حارث کے روم و فارس اور حیرہ کے سفر کا بیان کیا گیا ہے،حیرت انگیز طور پہ ان راویوں سے مروی ہیں جو ضعیف اور ناقابل اعتبار ہیں۔لہذا ملحدین کی طرف سے نضر بن حارث کو عالم ،فاضل اور فلسفی قرار دینا بالکل غلط ہے۔لہذاملحد سید امجد حسین کا یہ کہنا کہ نضر بن حارث کوقدیم اقوام کے وہ تمام واقعات پہلے سے پتہ تھے جو قرآن میں مذکور ہوئے ہیں بالکل غلط ہے۔دوسری دلچسپ بات یہ ہے کہ ان ضعیف روایات یا ڈیوڈ مارگولیتھ کی کتاب میں بھی کہیں پہ مذکور نہیں ہے کہ نضر بن حارث نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ماضی کے قدیم قصے چوری کرکے قرآن مین نقل کرنے کا الزام دیا تھا۔بلکہ یہ مذکور ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں قرآن پڑھ کر لوگوں کو اللہ تعالی کی طرف بلاتے تو یہ لوگوں کو فارس و روم کی کہانیاں شاعرانہ اور گیت کے انداز میں پڑھ کر لوگوں کو قرآن سننے سے روکنے کی کوشش کرتا تھا۔اب نضر بن حارث کے حوالے سے دوسری روایات کا جائزہ لیتے ہیں۔یہ روایات درج ذیل ہیں
أنا حميد ثنا النفيلي ، أنا هشيم ، أخبرنا أبو بشر ، عن سعيد بن جبير ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قتل يوم بدر ثلاثة رهط من قريش صبرا : النضر بن الحارث ، وعقبة بن أبي معيط ، والمطعم بن عدي . فلما أمر بقتل النضر ، قال المقداد : أسيري يا رسول الله ، قال : " إنه كان يقول في كتاب الله ، وفي رسوله ما كان يقول " قال ذلك مرتين ، أو ثلاثا ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " اللهم أغن المقداد من فضلك " وكان المقداد الذي أسر النضر
أخبرنا بشر بن خالد ، حدثنا أبو أسامة ، حدثنا سفيان ، عن الأعمش ، عن المنهال بن عمرو ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس ، في قوله : { سأل سائل بعذاب واقع } قال : " النضر بن الحارث بن كلدة " *
حدثنا أبي ، ثنا أبو مسلم أحمد بن أبي شعيب ، ثنا مسكين بن بكير ، عن شعبة ، عن أبي بشر ، عن سعيد بن جبير ، " { وإذا تتلى عليهم آياتنا قالوا قد سمعنا لو نشاء لقلنا مثل هذا } ، قال : هو النضر بن الحارث
حدثنا أبي ، ثنا عيسى بن جعفر ، قاضي الري ، ثنا سفيان ، عن الأعمش ، عن رجل ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس ، في قوله : " { اللهم إن كان هذا هو الحق من عندك } ، قال : هو النضر بن الحارث " * أخبرنا أحمد بن عثمان بن حكيم ، فيما كتب إلي ، ثنا أحمد بن المفضل ، ثنا أسباط ، عن السدي ، قال : " قال النضر بن الحارث : " اللهم إن كان ما يقول محمد { هو الحق من عندك فأمطر علينا حجارة من السماء } " وروي عن سعيد بن جبير مثل ذلك *
أنا حميد ثنا النفيلي ، أنا هشيم ، أخبرنا أبو بشر ، عن سعيد بن جبير ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قتل يوم بدر ثلاثة رهط من قريش صبرا : النضر بن الحارث ، وعقبة بن أبي معيط ، والمطعم بن عدي . فلما أمر بقتل النضر ، قال المقداد : أسيري يا رسول الله ، قال : " إنه كان يقول في كتاب الله ، وفي رسوله ما كان يقول " قال ذلك مرتين ، أو ثلاثا ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم :" اللهم أغن المقداد من فضلك "
یہ وہ روایات ہیں جو تقریبا صحیح راویوں سے مروی ہیں اور اس میں یہ تو مذکور ہے کہ نضر بن حارث قرآن مجید کا مذاق اڑایا کرتا تھا اور قرآن کے واقعات کو پرانے قصے کہانیاں قرار دیتا تھا لیکن یہ کہیں پہ مذکور نہیں کہ اس نے روم و فارس اور حیرہ یا نجران کا سفر کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کے واقعات دوسری کتابوں سے چوری کرنے کا الزام دیتا تھا۔نعوذ بااللہ۔صحیح راویوں کی روایات میں یہ بات بالکل مذکور نہیں۔
لہذا مستشرق ڈیوڈ مارگولیتھ اور ملحد سید امجد حسین جی طرف سے نضر بن حارث کو عالم و فلسفی قرار دینا اور یہ دعوی کرنا کہ اس نے قرآن کو نقل شدہ قرار دیا تھا،سفید جھوٹ ہے۔
دوسری بات ملحد سید امجد حسین یہ کرتا ہے کہ قریش مکہ نے نضر بن حارث اور عقبہ بن ابی معیط کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے اور نعوذ بااللہ ان کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے یثرب کے یہود کی طرف بھیجا تاکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے کے لیے ایسے سوالات بتائیں جن کا جواب الہامی کتاب کی صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ بااللہ جھوٹے ثابت ہوجائیں۔لیکن ساتھ ہی ملحد سید امجد حسین مستشرق ڈیوڈ مارگولیتھ کے حوالے سے دعوی کرتا ہے کہ یہ سوال نضر بن حارث نے خود ترتیب دیے تھے۔ہم ملحد سید امجد حسین اور ڈیوڈ مارگولیتھ کے حامیوں سے سوال کرتے ہیں کہ ہمیں صرف ایک ایسا مستند تاریخی حوالہ پیش کردیں جس سے ثابت ہوتا ہو کہ یہ سوال نضر بن حارث نے خود ترتیب دیے تھے۔جب کہ ایسا کوئی حوالہ نہیں۔یہاں ایک اور سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر نضر بن حارث روم و فارس اور حیرہ و نجران کے سفر کر چکا تھا اور اہل کتاب کی تعلیمات سے واقف تھا تو پھر کیا ضرورت پڑی تھی کہ قریش نے اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ بااللہ جھوٹا ثابت کرنے کے لیے یثرب کے یہود کی طرف بھیجا۔اس معاملے ست ظاہر ہوتا ہے کہ نضر بن حارث ان تعلیمات میں کورا تھا اور اس مقصد کے لیے اسے یثرب کے یہود پہ انحصار کرنا پڑا تھا۔
سیرت ابن ہشام جلد اول میں صفحہ 187 پہ یہ تو لکھا ہے کہ نضر بن حارث قریش مکہ کو فارس کے قصے سناتا قرآن کے مقابلے میں لیکن یہ کہیں نہیں لکھا کہ اس نے روم و یونان کا سفر کیا یا یہ کہا ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واقعے روم و یونان سے نقل کیے۔لیکن ابن ہشام کی یہ بات جن حوالوں سے مروی ہے،ان کے راوی بہت ضعیف اور وہ روایات ناقابل اعتبار ہیں۔لہذا نضر بن حارث کے روم و فارس اور حیرہ و نجران کے سفر کی داستان ایک ناقابل اعتبار اور فرضی داستان ہے جسے ضعیف راویوں نے گھڑا۔
اور ہمارا سوال یہ ہے کہ نضر بن حارث جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرآن کو جھوٹا کہتا تھا وہ خود قرآن کو جھٹلانے کے لیے یہودیوں اور عیسائیوں کی منتیں کیوں کرتا پھر رہا تھا کہ او مکہ مکرمہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بحث کرکے قرآن کو غلط ثابت کر کے دکھاؤ۔وہ قرآن پہ الزام لگانے کے معاملے میں اتنا بے بس تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے کے لیے یہودیوں اور عیسائیوں کو لے آیا۔جو شخص خود مقابلہ تک نہیں کر سکتا تھا اور نہ ہی قرآن کو جھوٹ ثابت کر سکتا تھا وہ شخص کیسے ثابت کر سکتا ہے کہ قرآن نعوذ بااللہ دیگر داستانوں سے اخذ کیا گیا۔
خلاصہ یہ کہ ابن ہشام کے مطابق نضر بن حارث نے دعوی کیا کہ وہ قرآن کے مقابلے میں اپنا کلام پیش کرے گا۔آگے اس کی ابن ہشام نے تفصیل نہیں پیش کی۔اس کی تفصیل جو ڈیوڈ مارگولتھ نے اپنی کتاب Muhammad and the rise of Islam میں پیش کی ہے۔ اس کے مطابق وہ قرآن کے مقابلے میں لوگوں کو فارسی داستانوں کو شاعرانہ طرز میں پڑھتا تھا۔لیکن کسی صحیح یا کسی ضعیف حدیث میں بھی نہیں ہے کہ اس نے یہ کہا تھا بلکہ ضعیف روایات میں بھی اتنا ہی مذکور ہے کہ وہ عجمی داستانوں کو قرآن کے مقابلے میں گانوں اور شاعری کی شکل میں پڑھتا تھا۔کہ وہ قرآن کے مقابلے میں اپنا کلام پیش کرے گا۔ضعیف روایات میں بھی صرف اتنا مروی ہے کہ وہ قرآن کے مقابلے میں عجمی داستانوں کو نغمیہ طرز میں پڑھتا تھا اور یہ روایات بھی ضعیف ہونے کی وجہ سے ناقابل اعتبار ہیں۔یہ خواب ڈیوڈ مارگولیتھ اور ملحدین نے لگتا ہے افیم کے نشے میں دیکھا ہے۔ڈیوڈ مارگولیتھ کی یہ کتاب اسلام،قرآن اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہ الزامات اور ضعیف راویوں سے چوری اور نقل شدہ ہے اور اس کتاب کے تقریبا سب اعتراضات کے جوابات الحمداللہ ہم پہلے ہی دے چکے ہیں۔ابن کثیرسمیت جس بھی مفسر نے یہ واقعہ نقل کیا،اس نے انہی ضعیف روایات پہ انحصار کیا۔اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ اسلام کا اصل ماخذ قرآن اور صحیح حدیث ہیں۔تاریخ کی کتابیں اور مفسرین کی بیان کردہ اسرائیلی روایات نہیں۔
آگے ملحد سید امجد حسین کہتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریش مکہ نے اصحاب کہف کی تعداد پوچھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن میں تین یا پانچ یا سات بتائی اور نعوذ بااللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ٹھیک تعداد پتہ نہیں تھی۔تاریخ میں ایک کتاب بھی ایسی نہیں ہے جس میں یہ مذکور ہو کہ اصحاب کہف کے حالات پوچھتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی تعداد بھی پوچھی گئ تھی۔یہاں تک کہ تفسیر ابن کثیر اور تاریخ ابن کثیر،طبقات سعد،ابن ابی حاتم اورطبری جیسی کتابیں جن میں ضعیف روایات کثرت سے وارد ہیں، میں بھی یہ مذکور نہیں۔لیکن ملحدین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہ اعتراض کا بہانہ اٹھایا اور یہ دعوی کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعداد پوچھی گئ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بتانے سے قاصر رہے۔قرآن کی آیت ہے
سَيَقُوْلُوْنَ ثَلَاثَةٌ رَّابِعُهُـمْ كَلْبُهُمْۚ وَيَقُوْلُوْنَ خَـمْسَةٌ سَادِسُهُـمْ كَلْبُـهُـمْ رَجْـمًا بِالْغَيْبِ ۖ وَيَقُوْلُوْنَ سَبْعَةٌ وَّّثَامِنُـهُـمْ كَلْبُـهُـمْ ۚ قُلْ رَّبِّىٓ اَعْلَمُ بِعِدَّتِـهِـمْ مَّا يَعْلَمُهُـمْ اِلَّا قَلِيْلٌ ۗ فَلَا تُمَارِ فِـيْهِـمْ اِلَّا مِرَآءً ظَاهِرًاۖ وَّلَا تَسْتَفْتِ فِـيْهِـمْ مِّنْـهُـمْ اَحَدًا (22)
بعض کہیں گے تین ہیں چوتھا ان کا کتا ہے، اور بعض اٹکل پچو سے کہیں گے پانچ ہیں چھٹا ان کا کتا ہے، اور بعض کہیں گے سات ہیں آٹھواں ان کا کتا ہے، کہہ دو ان کی گنتی میرا رب ہی خوب جانتا ہے ان کا اصلی حال تو بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں، سو تو ان کے بارے میں سرسری گفتگو کے سوا جھگڑا نہ کر، اور ان میں سے کسی سے بھی ان کا حال دریافت نہ کر(سورہ الکہف پارہ پندرہ آیت 22)
لہذا قرآن نے اس آیت کے مطابق اصحاب کہف کی تعداد کے بارے میں موجود غلط باتوں کی تردید کی اور سات کے عدد کا ذکر کیا لیکن اس کی تردید نہیں کی۔لہذا اسی بات پہ کئی علمائے امت اور ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا اتفاق ہے کہ قرآن نے اصحاب کہف کی تعداد سات بتائی ہے اور آٹھواں ان کا کتا تھا۔لہذا ملحدین کا یہ کہنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اصحاب کہف کی صحیح تعداد بتانے سے قاصر رہے،جھوٹ اور بہتان ہے۔
مزید سید امجد حسین کہتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذوالقرنین کے بارے میں کئے گئے سوال پہ اس کی صحیح شناخت نہیں پیش کی قرآن کے مطابق نعوذ بااللہ اور اس پہ آج تک تاریخ میں شدید اختلاف ہے۔پہلی بات یہ کہ قرآن مورخین کے باہمی اختلافات کا ذمہ دار نہیں۔جس بات کی مکمل تفصیل قرآن نے ذکر نہیں کی اس بارے میں کسی مورخ کو خود سے کچھ فرض کرنے اور اس میں باہم اختلاف کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔دوسری بات یہ کہ کئ مسلم مفسرین کے مطابق ذوالقرنین زمانہ قبل از تاریخ کی شخصیت ہیں۔اگر قرآن کی طرف سے ان کی مکمل تفصیل بتا بھی دی جاتی تو اس زمانے کے باقی حالات سے واقفیت نہ ہونے کی بنیاد پہ ان کی مکمل شناخت کس طرح ہوتی۔تیسری بات یہ کہ قرآن تاریخ کی کتاب نہیں۔یہ ایمانیات کی کتاب ہے۔قرآن میں انبیاء تک کے حالات و واقعات مکمل تاریخ کے ساتھ بیان نہیں کیے گئے تو ذوالقرنین کے ہیش نہ کرنے پہ کس طرح اعتراض کیا جا سکتا ہے۔قرآن ہم سے تاریخ کا نہیں،ایمان کا تقاضا کرتا ہے اور اتنی تفصیل بیان کرتا ہے جو ہماری آخرت کی فلاح کے لیے لازمی ہے۔
آخر میں ملحد سید امجد حسین کہتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روح کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے امر ربی یعنی اللہ تعالی کا حکم قرار دیا لیکن اس کی مکمل تفصیل پیش نہیں کی۔اس پہ ہم سوال کرتے ہیں کہ کیا روح اللہ تعالی کا حکم نہیں ہے؟ کیا اس حکم کے جسم سے نکلنے کے بعد انسان اس حکم کے بغیر بےجان نہیں ہوتا؟ملحدین تو آج تک روح کے منکر آرہے تھے جب کہ اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف روح کی تصدیق کی بلکہ اسے حکم ربی قرار دیا اور اج سائنس ملحدین کی طرف سے روح کے انکار کی تردید اور مذہب کی تائید کرچکی ہے۔اس پہ ہم ایک تفصیلی پوسٹ بہت پہلے لکھ چکے ہیں جسے درج ذیل لنک پہ پڑھا جا سکتا ہے
https://m.facebook.com/groups/186560831534965?view=permalink&id=618206558370388
آخر میں ملحد سید امجد حسین نے اپنے مضمون "فلسفی قاتل کی قید میں" یہ الزام عائد کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نضر بن حارث کو بیگناہ کے طور پہ بیدردی سے قتل کرادیا۔
اور بقول اس کے نضر بن حارث کو بیدردی سے قتل کیا گیا تو خود اسی نضر بن حارث کے بیٹے فارس بن نضر بن حارث رضی اللہ تعالی عنہ نے اسلام کیوں قبول کیا۔کیونکہ اسے تو معلوم ہونا چاہئے تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ بااللہ جھوٹے اور قاتل ہیں جنہوں نے نعوذ بااللہ قرآن دوسری کتابوں سے چوری کیا لیکن خود ان کے بیٹے نے اسلام سے متاثر ہوکر اسلام قبول کیا۔
جو بندہ یہ لنکس مطالعہ کر لے گا اسے معلوم ہوجائے گا کہ اپنی پوسٹ میں نضر بن حارث کے قتل کے حوالے سے سید امجد حسین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہ کتنی بڑی الزام تراشی کی اور جھوٹ پہ مبنی باتیں کر کے عوام کو بیوقوف بنانے اور ان کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی۔میں ان لنکس سے انگلش پیراگراف پیسٹ کر رہا ہوں۔پڑھ میں ذرا۔آخر میں ان کا خلاصہ میں اپنے الفاظ میں بیان کروں گا
Al Nadr ibn al-Harith was an oppressor and tortured many Muslims in Mecca (Makkah). He persecuted Muslims. He was a criminal who had waged war against the Prophet and his community, so he was not as innocent as critics make him out to be.
اس کے مطابق نضر بن حارث نے مکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو شدید اذیت کا نشانہ بنایا جس کی پاداش میں اسے قتل کیا گیا۔رہا ملحدین کا یہ اعتراض کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نضر بن حارث کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن پرانی داستانوں سے نقل کرنے کے الزام میں قتل کیا تو یہ بات کسی صحیح کیا کسی ضعیف روایت میں بھی وارد نہیں ہے۔
اس کو مسلمانوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کی توہین پہ قتل کر دیا گیا۔ملحدین دنیا میں بیگناہ ایک کروڑ انسان قتل کردیں اس پہ کچھ نہیں جب مسلمان اپنے جانی دشمن کو گرفتار کرکے قتل کریں اس پہ ملحدین کو رحم ترس یاد آتا ہے۔دنیا کا کونسا قانون ہے جو بلا وجہ اذیت اور مذہبی توہین پہ قتل کی سزا نہیں دیتا۔ ملحدین نے ایک کروڑ انسان قتل کردیے بیسویں صدی عیسوی میں۔اس پہ ملحدین نے آنکھیں موند لی ہیں جب کہ ایک جنگی مجرم کے قتل پہ ملحدین کو بڑا ترس آرہا ہے
اور یہ پڑھیں
Cherag Ali:
NADR-BIN-HARITH
Nadhr (Nazr), one of the prisoners of war, was executed after the battle of Badr for his crime of severely tormenting Moslems at Mecca. Musab has distinctly reminded him of his torturing the companions of Mohammad, so there was nothing of a cruel and vindictive spirit of the Prophet displayed towards his enemies in the execution of Nazr as it is made out by Sir W. Muir.
A Critical Exposition of the Popular Jihad (Original 1885) – Cheragh Ali page 77 – 79
اس کے مطابق بھی نضر بن حارث کو انہی وجوہات کی بنیاد پہ قتل کیا گیا جو میں نے اوپر پیش کی۔اسحاق اور ہشام تو خود ہی کہ رہے ہیں کہ یہ شخص مکہ مکرمہ میں مسلمانوں کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت پہنچایا کرتا تھا۔
غزوہ بدر میں نضر بن حارث کے غیر تصدیق شدہ قتل کے علاوہ اور کتنے قیدی تھے جن کو قتل کیا گیا۔کیا ملحدین اس کا جواب دیں گے تعداد بیان کرکے؟
بدر کے تمام قیدیوں میں سےصرف دو کو قتل کیا گیا تھا لیکن ان دو میں سے بھی نضر بن حارث کے قتل میں اختلاف ہے۔ نضر بن حارث اور عقبہ بن ابی معیط کے لیے امتیازی سلوک کے بارے میں علامہ ابن تیمیہ رقم طراز ہیں ”تمام قیدیوں میں سے ان دو کے قتل کرنے کی وجہ یہ تھی کہ یہ اپنے قول و فعل سے اللہ اور اس کے رسول ا کو ایذاء دیتے تھے جو آیات نضر کے بارے میں نازل ہوئیں وہ معروف ہیں۔اسی طرح عقبہ اپنی زبان اور ہاتھوں سے جو ایذاء دیتا تھا وہ بھی معروف ہے۔اس شخص نے مکہ میں رسول کریم ا (میرے ماں باپ آپ ا پر قربان ہوں) کا گلا اپنی چادر سے پورے زور سے دبایا۔ یہ آپ ا کو قتل کرنا چاہتا تھا ۔ اسی طرح رسول کریم ا سجدہ کی حالت میں تھے تو اس نے آپ ا کی پشت مبارک پر اونٹ کا اوجھ لاکر رکھ دیاتھا۔ (الصارم المسلول ، اردو ترجمہ ص ۲۰۳)
بہتر قیدیوں کو چھوڑ کر صرف دو کا قتل اور وہ بھی جو جنگی مجرم ہوں باقی سب معاف پھر بھی ملحدین کہتے ہیں کہ نعوذ بااللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظلم کیا
اور اب تفسیر الخازن کا حوالہ دیکھیں
نضر بن حارث جو اسلام کا سخت دشمن تھا اور چاہتا تھا کہ لوگ قرآن کی طرف متوجہ نہ ہوں اور اس سلسلے میں وہ مختلف کوششیں کرتا رہتا تھا جن میں سے ایک یہ بھی تھی کہ اس نے ایک گانے والی کنیز رکھی ہوئی تھی۔ وہ جس کو اسلام کی طرف مائل دیکھتا اس کنیز کا گانا سنواتا اور پوچھتا بتاؤ، مزہ گانے میں ہے یا قرآن کریم میں؟ اس سے اس کا مقصد یہ تھا کہ لوگ قرآن سے دور اور گانے بجانے میں لگ جائیں اور اللہ نے اس آیت کے ذریعے اس کو حرام قرار دے دیا۔
لہذا اس شخص کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو اذیت دینے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کی توہین پہ قتل کیا گیا تھا۔
قرآن کا مذاق اڑانا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو اذیت دینا دیگر کفار مکہ کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو اذیت دینے میں شریک ہونا۔اب بھی ملحد کہتے ہیں کہ وہ جنگی مجرم نہیں تھا۔
نضر بن حارث نے عقبہ بن ابی معیط کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کو اذیت دینے میں پیش پیش تھا۔علاوہ ازیں یہ وہ شخص تھا جس نے ابوجہل کے ساتھ مل کر کفار مکہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے ابھارا۔یہ کسی طرح بھی ایک عام جنگی قیدی نہیں تھا لیکن قتل میں اختلاف ہے۔
کیا قرآن کی توہین کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنا قرآن کے مقابلے میں موسیقی والی رکھنا مسلمانوں کو اذیت دینے والوں کا ساتھ دینا کفار کو مسلمانوں سے جنگ کے لیے تیار کرنا کچھ کم جرم تھے؟
ڈیوڈ مارگولیتھ کے مطابق بھی اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑانے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چیلنج کرنے پہ قتل کیا گیا تھا۔ سنن ابو داؤد اور انوال معبود سے ثابت ہے کہ نضر بن حارث مسلمانوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت دیتا تھا
موہر علی کے مطابق نضر بن حارث نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ مکرمہ میں قتل کرنے کی کوشش کی تھی اور اسے اس پاداش میں غزوہ بدر میں گرفتار کرکے قتل کیا گیا تھا۔اس کا قتل بھی ان بدترین جنگی دشمنوں کے حوالے سے ان جنگی اصولوں اور قوانین کے تحت تھا جو آج بھی جنگی قیدیوں کے حوالے سے دنیا کے ہر ملک اورجنگی قانون میں رائج ہیں۔
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Nadr_ibn_al-Harith
یہ حلف الفصول کے اس معاہدے میں پیش پیش تھا جس کے تحت بنو ہاشم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش نے ایک گھاٹی تک محدود کرکے ان کا تین سال مقاطعہ یعنی بائیکاٹ کیا۔
یہاں تک کہ اسی نضر بن حارث نے ایک بار قریش سے کہا کہ اے قریش! تمہیں اللہ تعالی نے وہ کلام دیا ہے جو تم سے پہلے کسی اور کو نہیں دیا گیا،محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم میں پیدا ہوئے اور جوان ہوئے اور تمہارے پاس یہ کلام لے آئے،تم نے کہا وہ جادوگر ہیں،ہم نے جادوگر اور ان کا کلام دیکھ رکھا ہے،تم نے کہا وہ کاہن ہیں،ہم نے کاہنوں کا کلام بھی سن رکھا ہے،تم نے کہا وہ شاعر ہیں،ہم نے شاعروں کا کلام بھی سن رکھا ہے،خدا کی قسم وہ شاعر نہیں،تم نے کہا کہ وہ مجنون ہیں،ہم نے مجنون بھی دیکھے ہیں،یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وسوسہ نہیں۔اے معشر قریش! اللہ تعالی نے تمہاری طرف ایک عظیم حکم یعنی قرآن نازل کیا ہے۔
محترم قارئین! یہ تھی نضر بن حارث کی قرآن کے مقابلے میں بے بسی۔وہ اپنے کفر پہ سختی سے قائم تھا۔لوگوں کو ہر طریقے سے قرآن سے دورکرنے کی کوشش کرتا تھا لیکن قرآن کی فصاحت و بلاغت کا قائل تھا۔خود ابن ہشام کے مطابق وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہ نازل ہونے والے کلام کے مقابلے میں قریش کو تدبر کی تلقین کیا کرتا تھا۔اگر اس کی نظر میں قرآن دوسری کتابوں سے چوری شدہ تھا تو کیا وہ یہ الفاظ قرآن کے بارے میں کہتا؟
کیا اس ساری بحث کے بعد بھی ضعیف اور انتہائی ناقابل اعتبار روایات کی بنیاد پہ ملحدین کہ سکتے ہیں کہ نضر بن حارث اپبے زمانے کا اعلی ترین فلسفی اور ماہر ثقافت تھا؟ کیا ملحدین اتنے پڑھے لکھے بھی نہیں ہے کہ عربی طبیب حارث بن کلدہ اور نضر بن حارث میں فرق نہ کر سکیں؟وہ کونسی مذہبی آزادی تھی جو بعض سوشلسٹ کمیونسٹ ملحدین کے مطابق نضر بن حارث مکہ مکرمہ میں لانا چاہتا تھا جب کہ اسی مکہ مکرمہ میں اسلام کی دعوت پہ مسلمانوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بدترین اذیت کا نشانہ بنایا گیا۔وہ کونسا ثقافتی انقلاب تھا جو نضر بن حارث مکہ مکرمہ میں لا سکتا تھا جب کہ اس کا تو فارس و روم اور حیرہ و نجران کا سفر تک کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں؟وہ کونسا فلسفہ تھا جو اس نے علم فلسفہ میں پیش کیا؟اس کے کونسے فلسفے کی بنیاد پہ ملحد سید امجد حسین نے اسے فلسفی کا لقب دے ڈالا ہے؟جاہل ملحد فلسفہ نوچے والی بات ہم نے مضمون کے عنوان میں بالکل ٹھیک کی ہے۔ اوپر کی یہ ساری بحث ظاہر کر چکی ہے کہ اسلام اور قرآن اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہ ملحدین اور مارکسسٹوں کے یہ اعتراضات ایک نفسیاتی بیماری ہیں جس میں مریض ہر بات کو دوسرے حوالوں سے براڈ کاسٹ شدہ سمجھتا ہے۔
اس ساری گفتگو سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملحدین و مستشرقین اسلام،قرآن اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہ اعتراضات اور الزامات کے لیے ضعیف روایات اور تاریخی حوالوں کو توڑ مروڑ کر اس میں جھوٹ کی آمیزش کرکے سادہ مسلمانوں اور عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جب تھوڑا علم رکھنے والے لوگ ان کو ان کے اعتراضات پہ ڈھول چٹاتے ہیں تو یہ اپنی بے عزتی اور جھوٹ پکڑے کے جانے کے ڈر سے اپنے بلاک کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔اس مضمون میں موجود بحث کے کئی عنوانات پہ ملحد سید امجد حسین سے میری مسلسل چھ گھنٹے بحث ہوئی اور اس میں میں نے اس سے کئی سوالات کیے جن کے اس ملحد نے چوبیس گھنٹے کے اندر جوابات دینے کا وعدہ کیا لیکن پھر مجھے اس سے پہلے ہی بلاک کر دیا۔درمیان میں میں مصروف رہا اور اس کا تفصیلی جواب دوسرے مضامین میں مصروفیت کی وجہ سے نہیں لکھ سکا۔اس کے بعد میں نے آپریشن ارتقائے فہم و دانش گروپ میں موجود اس کے کچھ دوستوں کے حوالے سے اسے چیلنج کیا کہ اگر وہ سچا ہے تو مجھے ان بلاک کرکے میرے سوالات کا جواب دے لیکن اپنے جھوٹ کو ثابت نہ کر پانے کی سکت پاکر اس ملحد نے آج تک مجھے اور ہمارے گروپ آپریشن ارتقائے فہم و دانش کے ہر ایڈمن کو بلاک کر رکھا ہے تاکہ ان کے جھوٹ کوئی نہ پکڑے اور ان کے الحادی چوزوں کی تربیت پہ کوئی اثر نہ پڑے۔
اللہ تعالی ہم سب کو الحاد کی گمراہی سے بچائے اور ہمارا خاتمہ ایمان پہ فرمائے۔آمین۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔