کچھ احادیث پہ منکرین حدیث و ملحدین کا اعتراض اور اس کا جواب
تحریر: ڈاکٹر احید حسن
»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جابر رضی اللہ عنہ سے سوال کیا، کیا تم نے شادی کی؟ تو آپ نے فرمایا: ہاں، نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کنواری یا بیوہ۔ جابر ؓ نے فرمایا: بیوہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کنواری سے شادی کیوں نہیں کی۔ جس سے تم کھیلتے اور جو تمہارے ساتھ کھیلتی یا فرمایا: جس کے ساتھ تم ہنسی مذاق کرتے اور جو تمہارے ساتھ ہنسی مذاق کرتی۔ (۱) (مسلم)
امام نووی اس حدیث پر تعلیق لکھتے ہوئے فرماتے ہیں: اس حدیث سے یہ فائدہ حاصل ہوا کہ مرد کا اپنی بیوی سے کھیلنا: اس کے ساتھ پیار محبت کرنا، ہنسی مذاق کرنا شروع مطلوب اور اچھے سلوک کی علامت ہے۔ (۲) (صحیح مسلم شرح النووی ج ۴، الجزء ۱۰ ص ۵۲)
اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیوی سے کھیلنے اس کا دل بہلانے کی تلقین کی تاکہ میاں بیوی میں باہم محبت پیدا ہو اور دو افراد جن کا زندگی بھر کا جینا مرنا ساتھ ہو، نکاح جن کو محرم بنا چکا ہو،انکے لئے یہ چیز باہم محبت اور دلجوئی پیدا کرنے کے لیے کس طرح غلط کہی جاسکتی ہے اور کس طرح اس پہ اعتراض کیا جا سکتا ہے۔
لہذا وہ حدیث جس میں شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کو کسی چیز یا کوڑے سے مارنے کا کہا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مذاق تھا۔حدیث یاد نہیں۔شاید اس طرح کی کوئی حدیث ہے اور اس پہ ایک ملحد نے اعتراض کیا تھا۔اگر کسی ساتھی کو یاد ہے تو بتا دے۔
اور بیوی سے مذاق کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک نہیں کئ مثالیں موجود ہیں
ایک مرتبہ ایک ضعیف خاتون خدمت اقدس میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، میرے لیے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھ کو جنت نصیب کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ بوڑھی عورتیں جنت میں نہیں جائیں گی۔ یہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے تشریف لے گئے اور ضعیف خاتون نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ مبارک سنتے ہی رونا شروع کردیا، جب آپ نماز سے فارغ ہو کر تشریف لائے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، جب سے آپ نے فرمایا ہے کہ بوڑھی عورتیں جنت میں نہیں جائیں گی تب سے یہ بڑھیا رو رہی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس سے کہہ دو بوڑھی عورتیں جنت میں جائیں گی مگر جوان ہو کر۔
اب منکرین حدیث و ملحدین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مذاق کرنے کے بارے میں کیا کہیں گے کہ یہ بھی نہ کرتے کہ ایک بوڑھی کو مذاق میں رلا دیا جب کہ صرف مذاق کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے۔
اسی طرح منکرین حدیث و ملحدین کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دوسری خاتون کی زیادتی کی شکایت کی اور اس طرح نعوذ بااللہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے غیبت کی۔
شریعت کے مطابق کسی کی زیادتی کی شکایت کرنا غیبت نہیں ہے۔درج ذیل غیبت کی جائز صورتیں ہیں۔
· ظلم کی شکایت کرنا غیبت نہیں۔۔۔
· برائی کو روکنے کے لئے مدد طلب کرنا غیبت نہیں۔
· [اہل علم سے] فتوی طلب کرنے کے لئے کسی کا عیب بیان کرنا غیبت نہیں۔۔۔ مگر احتیاط اور افضلیت اسی میں ہے کہ وہ فتوی طلب کرتے وقت لوگوں کے نام نہ لے۔
· [اعلانیہ] برائی کرنے والوں کی برائی کا اظہار کرنا غیبت نہیں [جیسے حکمران کی برائی۔]
· مسلمانوں کی خیر خواہی کے لئے غیبت کرنا جائز ہے۔
یہ ایک شکایت تھی اور اس صورت میں یہ جائز تھی اور یہ غیبت کی جائز صورتوں میں شامل ہے
صحابہ سے غلطی ہوسکتی ہے لیکن اللہ تعالی کی طرف سے ان کی رہنمائی کی جاتی ہے۔وہ اپنی غلطی پہ قائم نہیں رہتے۔ان کو توبہ کی توفیق دی جاتی ہے۔ لہذا ان کی غلطی شریعت پہ اثر انداز نہیں ہوتی۔
تحریر: ڈاکٹر احید حسن
»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جابر رضی اللہ عنہ سے سوال کیا، کیا تم نے شادی کی؟ تو آپ نے فرمایا: ہاں، نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کنواری یا بیوہ۔ جابر ؓ نے فرمایا: بیوہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کنواری سے شادی کیوں نہیں کی۔ جس سے تم کھیلتے اور جو تمہارے ساتھ کھیلتی یا فرمایا: جس کے ساتھ تم ہنسی مذاق کرتے اور جو تمہارے ساتھ ہنسی مذاق کرتی۔ (۱) (مسلم)
امام نووی اس حدیث پر تعلیق لکھتے ہوئے فرماتے ہیں: اس حدیث سے یہ فائدہ حاصل ہوا کہ مرد کا اپنی بیوی سے کھیلنا: اس کے ساتھ پیار محبت کرنا، ہنسی مذاق کرنا شروع مطلوب اور اچھے سلوک کی علامت ہے۔ (۲) (صحیح مسلم شرح النووی ج ۴، الجزء ۱۰ ص ۵۲)
اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیوی سے کھیلنے اس کا دل بہلانے کی تلقین کی تاکہ میاں بیوی میں باہم محبت پیدا ہو اور دو افراد جن کا زندگی بھر کا جینا مرنا ساتھ ہو، نکاح جن کو محرم بنا چکا ہو،انکے لئے یہ چیز باہم محبت اور دلجوئی پیدا کرنے کے لیے کس طرح غلط کہی جاسکتی ہے اور کس طرح اس پہ اعتراض کیا جا سکتا ہے۔
لہذا وہ حدیث جس میں شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کو کسی چیز یا کوڑے سے مارنے کا کہا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مذاق تھا۔حدیث یاد نہیں۔شاید اس طرح کی کوئی حدیث ہے اور اس پہ ایک ملحد نے اعتراض کیا تھا۔اگر کسی ساتھی کو یاد ہے تو بتا دے۔
اور بیوی سے مذاق کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک نہیں کئ مثالیں موجود ہیں
ایک مرتبہ ایک ضعیف خاتون خدمت اقدس میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، میرے لیے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھ کو جنت نصیب کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ بوڑھی عورتیں جنت میں نہیں جائیں گی۔ یہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے تشریف لے گئے اور ضعیف خاتون نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ مبارک سنتے ہی رونا شروع کردیا، جب آپ نماز سے فارغ ہو کر تشریف لائے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، جب سے آپ نے فرمایا ہے کہ بوڑھی عورتیں جنت میں نہیں جائیں گی تب سے یہ بڑھیا رو رہی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس سے کہہ دو بوڑھی عورتیں جنت میں جائیں گی مگر جوان ہو کر۔
اب منکرین حدیث و ملحدین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مذاق کرنے کے بارے میں کیا کہیں گے کہ یہ بھی نہ کرتے کہ ایک بوڑھی کو مذاق میں رلا دیا جب کہ صرف مذاق کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے۔
اسی طرح منکرین حدیث و ملحدین کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دوسری خاتون کی زیادتی کی شکایت کی اور اس طرح نعوذ بااللہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے غیبت کی۔
شریعت کے مطابق کسی کی زیادتی کی شکایت کرنا غیبت نہیں ہے۔درج ذیل غیبت کی جائز صورتیں ہیں۔
· ظلم کی شکایت کرنا غیبت نہیں۔۔۔
· برائی کو روکنے کے لئے مدد طلب کرنا غیبت نہیں۔
· [اہل علم سے] فتوی طلب کرنے کے لئے کسی کا عیب بیان کرنا غیبت نہیں۔۔۔ مگر احتیاط اور افضلیت اسی میں ہے کہ وہ فتوی طلب کرتے وقت لوگوں کے نام نہ لے۔
· [اعلانیہ] برائی کرنے والوں کی برائی کا اظہار کرنا غیبت نہیں [جیسے حکمران کی برائی۔]
· مسلمانوں کی خیر خواہی کے لئے غیبت کرنا جائز ہے۔
یہ ایک شکایت تھی اور اس صورت میں یہ جائز تھی اور یہ غیبت کی جائز صورتوں میں شامل ہے
صحابہ سے غلطی ہوسکتی ہے لیکن اللہ تعالی کی طرف سے ان کی رہنمائی کی جاتی ہے۔وہ اپنی غلطی پہ قائم نہیں رہتے۔ان کو توبہ کی توفیق دی جاتی ہے۔ لہذا ان کی غلطی شریعت پہ اثر انداز نہیں ہوتی۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔