Monday, 9 October 2017

قرآن مجید کی ایک آیت پر ایک ملحد کا اعتراض اور اس کا جواب

قرآن مجید کی ایک آیت پر ایک ملحد کا اعتراض اور اس کا جواب
تحریر: ڈاکٹر احید حسن
»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»
قرآن مجید کی ایک آیت ہے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَةً ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَأَطْهَرُ ۚ فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿12﴾
مومنو! جب تم پیغمبر کے کان میں کوئی بات کہو تو بات کہنے سے پہلے (مساکین کو) کچھ خیرات دے دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہت بہتر اور پاکیزگی کی بات ہے۔ اور اگر خیرات تم کو میسر نہ آئے تو خدا بخشنے والا مہربان ہے۔
ملحدین کا کہنا ہے کہ کیا یہ لازمی تھا کہ ہر شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات سے پہلے صدقہ دے؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی قیمت ادا کرنا لازمی تھا نعوذ بااللہ؟ کیا اگر اللہ تعالی نے یہ حکم نازل بھی کہا تھا تو اس پہ خود ہی پچھتا کر نعوذ بااللہ یہ حکم کیوں منسوخ کیا۔
اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو حکم دیتا ہے کہ میرے نبی سے جب تم کوئی راز کی بات کرنا چاہو تو اس سے پہلے میری راہ میں خیرات کرو تاکہ تم پاک صاف ہو جاؤ اور اس قابل بن جاؤ کہ میرے پیغمبر سے مشورہ کرسکو، ہاں اگر کوئی غریب مسکین شخص ہو تو خیر۔ اسے اللہ تعالیٰ کی بخشش اور اس کے رحم پر نظریں رکھنی چاہئیں یعنی یہ حکم صرف انہیں ہے جو مالدار ہوں ۔ پھر فرمایا شاید تمہیں اس حکم کے باقی رہ جانے کا اندیشہ تھا اور خوف تھا کہ یہ صدقہ نہ جانے کب تک واجب رہے۔ جب تم نے اسے ادا نہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی تمہیں معاف فرمایا اب تو اور مذکورہ بالا فرائض کا پوری طرح خیال رکھو، کہا جاتا ہے کہ سرگوشی سے پہلے صدقہ نکالنے کا شرف صرف حضرت علی (رض) کو حاصل ہوا پھر یہ حکم ہٹ گیا، ایک دینار دے کر آپ نے حضور سے پوشیدہ باتیں کیں دس مسائل پوچھے۔ پھر تو یہ حکم ہی ہٹ گیا۔ حضرت علی (رض) سے خود بھی یہ واقعہ بہ تفصیل مروی ہے کہ آپ نے فرمایا اس آیت پر مجھ سے پہلے کسی نے عمل کیا نہ میرے بعد کوئی عمل کرسکا، میرے پاس ایک دینار تھا جسے بھناکر میں نے دس درہم لے لئے ایک درہم اللہ کے نام پر کسی مسکین کو دیدیا پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ سے سرگوشی کی پھر تو یہ حکم اٹھ گیا تو مجھ سے پہلے بھی کسی نے اس پر عمل نہیں کیا اور نہ میرے بعد کوئی اس پر عمل کرسکتا ہے۔ پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی۔ ابن جریر میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے حضرت علی سے پوچھا کیا صدقہ کی مقدار ایک دینار مقرر کرنی چاہئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا یہ تو بہت ہوئی۔ فرمایا پھر آدھا دینار کہا ہر شخص کو اس کی بھی طاقت نہیں آپ نے فرمایا اچھا تم ہی بتاؤ کس قدر؟ فرمایا ایک جو برابر سونا آپ نے فرمایا واہ واہ تم تو بڑے ہی زاہد ہو، حضرت علی (رض) فرماتے ہیں پس میری وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس امت پر تخفیف کردی، ترمذی میں بھی یہ روایت ہے اور اسے حسن غریب کہا ہے، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں مسلمان برابر حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) سے راز داری کرنے سے پہلے صدقہ نکالا کرتے تھے لیکن زکوٰۃ کے حکم نے اسے اٹھا دیا، آپ فرماتے ہیں صحابہ نے کثرت سے سوالات کرنے شروع کردیئے جو حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) پر گراں گزرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دے کر آپ پر تخفیف کردی کیونکہ اب لوگوں نے سوالات چھوڑ دیئے، پھر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر کشادگی کردی اور اس حکم کو منسوخ کردیا، عکرمہ اور حسن بصری کا بھی یہی قول ہے کہ یہ حکم منسوخ ہے، حضرت قتادہ اور حضرت مقاتل بھی یہی فرماتے ہیں، حضرت قتادہ کا قول ہے کہ صرف دن کی چند ساعتوں تک یہ حکم رہا حضرت علی (رض) بھی یہی فرماتے ہیں کہ صرف میں ہی عمل کرسکا تھا اور دن کا تھوڑا ہی حصہ اس حکم کو نازل ہوئے تھا کہ منسوخ ہوگیا۔اس میں کہیں نہیں لکھا کہ یہ حکم شام کو ہٹایا گیا۔بلکہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے مطابق اسی دن ہی چند ساعتوں بعد یہ حکم منسوخ کر دیا گیا۔اور ایک ساعت تین گھنٹے کی ہوتی ہے۔
پتہ نہیں ملحدین کی کیا بری عادت ہے اسلام کی چھوٹی چھوٹی باتوں پہ اعتراض کی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کرنے سے پہلے صدقہ کا حکم اس لیے دیا گیا تھا کیونکہ کچھ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آداب کا خیال کیے گئے بغیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہوتے تھے۔لہذا ان کی تنبیہ کے طور پہ یہ حکم نازل کیا گیا لیکن پھر صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو آسانی دینے کی خاطر جلد ہی یہ حکم منسوخ کر دیا گیا۔اور یہ صدقہ کا حکم سب کے لیے بھی نہیں تھا بلکہ صاحب حیثیت لوگوں کے لیے تھا۔اس کے باوجود اللہ تعالی نے خود ہی فرما دیا کہ جو نہ دے سکے تو اللہ تعالی بخشنے والا مہربان ہے۔اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتنی آسانی کے بعد بھی ملحدین کی طرف سے اعتراض کی کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صدقہ لازمی قرار دیا۔
اس میں کہیں مذکور نہیں ہے کہ یہ حکم شام کو ہٹا دیا گیا لیکن یہ بات لازم ہے کہ یہ حکم تھوڑی دیر اور بعض کے بقول چند ساعتیں رہا لیکن چونکہ پڑ صحابی صدقہ کی طاقت نہیں رکھتا تھا لہذا محض تنبیہ کرنے کے بعد یہ حکم منسوخ کر دیا گیا۔لہذا اگر یہ حکم نازل کیا گیا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ لوگ تنبیہ پکڑیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آداب کا خیال کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہوں اور اگر منسوخ کیا گیا تو وہ بھی اس لئے کہ اللہ تعالی نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو تنبیہ کے بعد آسانی دینی تھی۔اس سے کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ نعوذ بااللہ اللہ تعالی نے اپنے فیصلے پہ خود ہی پچھتا کر یہ حکم منسوخ کیا۔
قرآن کی کچھ آیات نازل ہونے کے بعد کیوں منسوخ ہوتی تھی؟
اس لنک پر اس اعتراض کا تفصیلی جواب موجود ہے
http://ilhaad.com/2016/10/naskh-fil-quran-aik-jaiza/
بعض مرتبہ اللہ تعالی کسی زمانے کے حالات کے مناسب ایک شرعی حکم نافذ فرماتا ہے پھر کسی دوسرے زمانے میں اپنی حکمت بالغہ کے پیش نظر اس حکم کو ختم کرکے اس جگہ کوئی نیا حکم عطا فرمادیتا ہے اس عمل کو نسخ کہا جاتا ہے اور اس طرح جو پرانا حکم ختم کیا جاتا ہے اس کومنسوخ اور جو نیا حکم آتا ہے اسے ناسخ کہتے ہیں ۔
اللٰہ تعالٰی غلط نہیں ہوتا بلکہ انسانی ضروریات کے مطابق جو وقت کے ساتھ بدلتی ہیں احکامات میں تبدیلی کی جاتی ہے
نسخ کرنا بھی لکھا ہوا ہے لوح محفوظ میں .
لئے جناب رسول اکرم نے تدریجی طور پر اصلاحی کوششیں کیں،کیوں کہ ظاہر سی بات ہے کہ جن لوگوں کی سابقہ پوری زندگی زمانہ جاہلیت میں شرکیہ اعمال وافعال سے آلودہ ہوچکی تھی،اور وہ اعمال وافعال ان کے دل ودماغ میں رچ بس گئے تھے،ایسے میں ان کو اس قسم کے اعمال وافعال سے ایک دم منع کرنا،دعوت دین کی حکمت ومصلحت اور داعیانہ طریق کار کے بالکل منافی تھا،اسی وجہ سے رسول اکرم نے بھی تدریجی طور پر صحابہ کرام کو ایسے اعمال وافعال کے بارے میں مختلف اوقات میں مختلف احکامات بتلائے۔لیکن اب جب پوری دنیا اسلام و قرآن پاک سے متعارف ہے تو اس کی ضرورت نہیں۔یہ تب تھا جب حکم ماننے والوں کے لیے نیا تھا لیکن اب نیا نہیں۔یہ بات طے ہوچکی ہے۔
ہان نہ لوح محفوظ میں لکھ دیا کہ اتنے عرصے کے لیے یہ حکم ہے اسکے بعد یہ حکم ہوگا ، یہ سب پہلے ہی لکھ دیا گیا ، ملحدین کا اعتراض بے معنی ہے ،
جیسا کہ آپ ایک ڈائیری پر پہلے ہی لکھ دیں کہ کچھ عرصہ کہ لیے میرا یہ حکم ہوگا اسکے بعد میرا یہ حکم ہوگا ، تو حکم کا تبدیل ہونا بھی تو پہلے ہی لکھ دیا آپ نے ،
اب نسخ کی ضرورت ہے بھی نہیں کیونکہ اللٰہ تعالٰی خود کہتا ہے کہ میں نے اپنا دین مکمل کر دیا جس کا مطلب ہے کہ اب اس میں مزید تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے اور یہ اسی حال میں قابل عمل ہے جس سے دین دنیا کی فلاح حاصل کی جا سکتی ہے
شاہ ولی اللہ صاحب کے بقول “نسخ”حکم کی انتہاء کا نام ہے،یہ انتہاء کئی وجہوں سے متحقق ہوتی ہے:
1- انتہاءِ علت کی وجہ سے حکم منتہی ہوجائے، جیسے کہ فتحِ مکہ کے بعد،ہجرت کا حکم منسوخ ہوگیا،اس لئے کہ اب مکہ مکرمہ فتنہ کا گھر نہیں رہا۔
2- مقصدِ اصلی کے لئے علت مظنہ باقی نہ رہے، یعنی یہ کہ اب قطعی طور پر اس بات کا گمان اور شک نہ رہے، کہ جس چیز کو مقصدِ اصلی کی حرمت کی وجہ سے حرام قرار دیا گیا تھا،وہ اس تک پہنچانے کا ذریعہ اور سبب نہ بنے،مثلا پہلے شراب کے برتنوں کو استعمال کرنا یا فائدہ اٹھانے کو بھی حرام قرار دیا گیا تھا، تاکہ اصل یعنی شراب سے بچا جائے،پھر جب مقصدِ اصلی یعنی شراب کی حرمت اس طرح مستقر ہوئی کہ لوگ اس کے قریب بھی جانا پسند نہیں کرتے تھے،تو برتنوں کی حرمت بھی ختم کردی گئی۔
3- علت بننے سے اب کوئی دوسری چیز مانع بن رہی ہو، جیسے جب اسلام اور مسلمانوں کو قوت حاصل ہوگئی،
اس سے کس طرح ثابت ہوتا ہے کہ رائے تبدیل کی گئی
اس کا ترجمہ ہے
(65) اے پیغمبر آپ لوگوں کو جہاد پر آمادہ کریں اگر ان میں بیس بھی صبر کرنے والے ہوں گے تو دو سو پر غالب آجائیں گے اور اگر سو ہوں گے تو ہزاروں کافروں پر غالب آجائیں گے اس لئے کہ کفاّر سمجھدار قوم نہیں ہیں
(66) اب اللہ نے تمہارا بار ہلکا کردیا ہے اور اس نے دیکھ لیا ہے کہ تم میں کمزوری پائی جاتی ہے تو اگرتم میں سو بھی صبر کرنے والے ہوں گے تو دو سو پر غالب آجائیں گے اور اگر ہزار ہوں گے تو بحکم خدا دو ہزار پر غالب آجائیں گے اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے
اس میں بات وہی آرہی ہے۔رائے تبدیل نہیں ہوئ بلکہ ضرورت اور کمزوری کی وجہ سے حکم تبدیل کیا گیا یہی بات میں نے اوپر کی
کہ کمزوری کی وجہ سے دگنی فوج پر غلبہ لازم قرار دیا جو کہ پہلے دس گنا پر لازم تھا۔بات تو وہی ہے کہ ضرورت اور وقت کے مطابق حکم تبدیل ہوا
اس میں بات وہی آرہی ہے۔رائے تبدیل نہیں ہوئ بلکہ ضرورت اور کمزوری کی وجہ سے حکم تبدیل کیا گیا یہی بات میں نے اوپر کی۔
کہ کمزوری کی وجہ سے دگنی فوج پر غلبہ لازم قرار دیا جو کہ پہلے دس گنا پر لازم تھا۔بات تو وہی ہے کہ ضرورت اور وقت کے مطابق حکم تبدیل ہوا
اللٰہ تعالٰی کو سب پتہ ہے لیکن انسانی کمزوری اور صلاحیت بدلتی رہتی ہے۔جب صلاحیت تھی تو اس کے مطابق کام لیا اور جب کم ہوئ تو اس کے مطابق لیا۔اس میں رائے تبدیل کرنے والی کونسی بات ہے
یہ پتہ تھا نہ کہ انسان اب ایسا کر سکتا ہے تو یہ حکم یے اور جب وہ کمزور پڑا تو حکم تبدیل کر دیا کیوں کہ علم تھا کہ یہ ایسا نہیں کرسکتا۔
بالکل واقف ہے اور اس کا جواب بھی اوپر دے دیا کہ علم تھا کہ یہ ایسا کر سکتا ہے تو کرنے سے پہلے وہ حکم اتارا پھر جب وہ کمزور ہوا تو اس کے مطابق تبدیل کر دیا۔تبدیل ہماری وجہ سے ہوا
یہ بھی علم تھا کہ پہلے یہ کر سکے گا اور پھر نہیں۔اسے ہر طرح کا علم ہے۔حکم بھی اسی کے مطابق اتارا کہ اب کر سکتا ہے تو یہ حکم نہیں کر سکتا تو یہ حکم۔دونوں سے کسی طرح ثابت نہیں ہوتا کہ اسے علم نہیں ہے
آپ کے پاس کیا ثبوت ہے کہ اکٹھے ہی نازل ہوئ دونوں۔
ابن کثیر بھی یہی لکھتے ہیں کہ یہ حکم پہلے تھا پھر منسوخ ہوگیا
لیکن بشارت باقی ہے۔مستدرک حاکم میں بھی یہی لکھا یے
آپ کی بات بالکل ثابت نہیں ہوتی کہ یہ دونوں آیات ایک ہی وقت میں نازل ہوئ اور رائے کا فرق تھا
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت 66 پڑھ کر فرما یا کہ پہلا حکم منسوخ ہوگیا۔اس کا واضح مطلب ہے کہ آیت 65 اور 66 الگ الگ نازل ہوئ۔منسوخی کا مطلب ہی یہی یے کہ یک بات پہلے تھی پھر حکم بدل دیا گیا۔ایک ہی وقت میں نازل ہونے والی بات منسوخی نہیں ہوتی جب کہ یہاں ابن کثیر اور مستدرک ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالے سے منسوخی بتا رہے ہیں
اللٰہ تعالٰی نے انسان کو سہولت دی کہ دس گنا کی بجائے دگنی فوج پر غالب ہوں۔یہ آسانی ہے ارادے کی تبدیلی نہیں۔اب بھی اللٰہ تعالٰی یہی چاہتا ہے کہ دس گنا پر غالب ہوں اور ابن کثیر کہتے ہیں ک اس ک بشارت باقی ہے
ارادہ اور رائے تو اللٰہ تعالٰی کی اب بھی یہی ہے اور جو دس گنا پر غالب ہوگا اسے اجر بھی ملے گا۔لیکن دگنی فوج کا مقابلہ لازم ہے اس میں کوئ گنجائش نہیں۔اللٰہ کا ارادہ تبدیل ہوا ہی نہیں بلکہ انسان کو سہولت دی گئ
اللہ تعالی نے رائے تبدیل ہی نہیں کی۔اس کی تو اب بھی یہی منشا ہے کہ مسلم فوج اپنے سے دس گنا فوج پہ غالب ہو لیکن انسان کو اللہ تعالی کی طرف سے آزادی اور سہولت دی گئی۔
اللٰہ تعالٰی نے رائے تبدیل ہی نہیں کی۔ اس کی تو اب بھی یہی منشا یے کہ دس گنا پر غالب ہوں لیکن ہمیں سہولت دی ہماری کمزوری کی وجہ سے۔اس میں اللٰہ تعالٰی کی رائے کی تبدیلی کیسے ثابت ہوتی ہے۔بلکہ اس کا رحم ثابت ہوتا ہے۔
اگر پھر بھی کسی کو اس میں کوئ اعتراض والی بات نظر آتی ہے تو اس کی دماغی صحت پہ شک کرنا چاہیے۔
اللہ تعالی ہمیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور کفر سے ہماری حفاظت فرمائے۔ آمین
حوالہ: تفسیر ابن کثیر جلد چہارم ،سورہ المجادلہ،پارہ 28،آیت 12۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔