انگریز دور میں کس طرح مسلم تاریخ کو مسخ کیا گیا اور کس طرح مسلمان حکمرانوں کو چور اور لٹیرا بنا کر پیش کیا گیا؟ اس کے برعکس یورپ اور برطانیہ نے اپنے قبضے کے دوران کس طرح قتل و غارت اور نسل کشی کی؟
ہندوستان پر غزنویوں کے حملوں کی اصل وجہ تو ہندوستان کا راجہ جے پال خود تا اس کی سلطنت غزنویہ سے ملنی تھیں جب 976ء میں سبکتگین سلطان بنے تو جے پال نے غزنی پر حملہ کر دیا ۔ لمغان اور غزنی کے درمیان زور کا رن پڑا جے پال کو عبرت ناک شکست ہوئی ۔ صلح نامہ میں طے ہوا کہ جے پال ہاتھی ، گھوڑے اور نقد مال و زر دے گا اس کام کے لیے سلطان کے لوگ ساتھ ہوئے مگر جے پال نے بد عہدی کی اور سلطان کے لوگوں کو قیدی بنا لیا۔ اس بدعہدی کی سزاء کے لیے سلطان کی فوجوں نے چڑھائی کی جس پر جے پال نے معافی مانگی تو اسے چھوڑ دیا گیا محمود غزنوی کو بار بار ہندو راجوں کی بد عہدیوں کی سزاء دینے کے لیے ہندوستان پر حملہ کرنا پڑا ۔
محمود غزنوی نے ہندستان کو فتح کر کے یہاں اسلام کا علم لہریا اس نے مساجد تعمیر کرائیں ۔ اس کے دور میں علماء و اولیا اللہ نے تبلیغ سے ہندوستان کو نور اسلام سے بھر دیا ۔ اسی بات کی طرف اشارہ کر کے قائداعظم نے کہا تھا کہ پاکستان تو اسی روز بنا گیا تھا جب پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا۔
اور میرا ایک سوال ہے۔اگر محمود غزنوی سلطنت و شہرت اور خواہ مخواہ کی جنگوں کا اتنا بڑا طالب تھا تو اس نے آدھے ہندوستان سے جنگ اور فتح کے باوجود اپنی حکومت صرف لاہور تک کیوں رکھی حالانکہ وہ سب کو شکست دینے کے بعد اپنی حکومت آدھے ہندوستان پہ قائم رکھ سکتا تھا
یہی سب زخم تھے جن کی تکلیف آج تک ہندوئوں کو ہوتی ہے اور جب تک پاکستان رہے گا یہ تکلیف ہوتی رہے گی ۔ سلطان محمود غزنوی اگر ہندوستان نہ آتے تو کبھی یہاں توحید کے ترانے نہ ہوتے۔ اسی لیے ہندوئوں کے اندر چھپا بغض و حسد اور شرک و بت پرستی کا گند سلطان کے خلاف پراپیگنڈے کی صورت میں باہر آتا رہا ہے۔ ہندو ناشرین مسلمانوں کی دل آزاری کی غرض س ایسی کتابیں شائع کیا کرتے تھے جن میں مسلمان حکمرانوں کو نہایت مکروہ شکل میں پیش کیا جاتا تھا ۔ جب انگریزوں کے ساتھ ہند وستان میں ہندو اقتدار میں شریک ہوئے تو انہوں نے برعظیم کے تمام سرکاری سکولوں میں اریخ ہند ے نام سے ایک کتاب پرھانا شروع کی جس میں مسلمان حکمرانوں او اسلامی عہد کی تاریخ سے سخت ناانصافی سے کام لیا گیا ۔ اس کتاب میں درج ہے کہ محمد بن قاسم نے حرص و طمع کے سبب ہندوستان پر حملہ کیا، سلطان محمودغزنوی غاصب ظالم لالچی او بے انصاف بادشاہ تھا ، اورنگزیب عالمگیر تمام برائیوں کا مجسمہ تھا وہ ہندوئوں کے مندروں اور مقدس مقامات اور ان کے رسوم و رواجکا سخت دشمن تھا (ہفت روزہ نوائے وقت 1928ء ) 1924ء میں ہندی زبان کے فروغ کے لیے مہاتما گاندھی کی صدارت بھارت ہندی پرچار سبھا قائم کی گئی تھی ۔ اسی سبھا کے تحت سال میں دو مرتبہ ہندی کے امتحانات ہوئے تھے ۔ 1940ء میں اوسط درجے کے امتحان کے لیے ایک تاریخی کتاب سچی کہانیاں نصاب میں داخل کی گئیں۔
1928ء کے نوائے وقت کا کہنا ہے کہ کوئی ناپاک جھوٹ ایسا نہیں جو اس کتاب میں نہ بولا گیا ہو (پندرہ روزہ نوائے وقت 1940ئ) مشہور ہندو ناشر عطر چند کپور نے ہائی روڈر آف انڈین ہسٹری ( High Roads of Indian History) کے نام سے چھٹی جماعت کے طلباء کے لیے ایک کتاب شائع کی جس میں سلطان محمود غزنوی کی شخصیت کو مسخ کیا گیا تھا (روزنامہ زمیندار، اداریہ 7 جون 1928ء ) اسی اداریہ میں لکھا ہے کہ ایک آریہ سماجی اخبار نے سلطان محمود غزنونی کو طوائف کا بیٹا لکھ کر مسلمانوں کے جذبات کو سخت مجروع کیا ہے ۔ سلطان محمود کے اعلیٰ کردار کا اعتراف بہت سے ہندو دانشور کرنے پر مجبور ہوئے ۔چنانچہ پروفیسر سینتی کمار چیٹر جی نے لکھا محمود غزنوی کا پانے سکوں پر سنسکرت لکھوانا اس کی سیاسی ہوش مندی کا ثبوت ہے اس کی اعلیٰ دماغی اور فراخ دلی کی دلیل ہے ۔ (البیرونی ہاد گار جلد ایران سوسائٹی کلکتہ 98) ْ اس کی فوج میں ہندو سردار اور لشکری بھی تھے (تاریخ لمیس بحوالہ الیٹ ،جلد دوم ص32) ۔ محمود کے بارے میں یہ کہیں نہیں آتا کہ اُس نے ہندو کو اپنا مذہب چھوڑنے پر مجبور کیا ۔ پالٹیکس ان پری موغل ٹائمس از ڈاکٹر ایشور ٹوپاص 45-46)۔ سی وی دیدیہ نے اپنی کتاب ہسٹری آف مڈویول ہندو انڈیا ج 3 میں لکھا ہے کہ ایک انسان کی حیثیت سے وہ ایک سخت ضبط و نظم او اعلیٰ کردار کا حامل انسان تھا اس ے حملوں میں کون ریزی ہوئی قیدی غلام بنائے گئے لیکن عورتوں کی عصمت ریزی یا ان کے قتل و خون کی کوئی مثال نہیں ملتی وہ عدل پسند تھا۔الہ آباد یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ایشوری پرشاد اپنی کتاب مڈیول انڈیا میں لکھتے ہیں مسلمانوں کی نظر میں محمود غازی اور اسلام کا علمبردار تھا ۔ ہندوئوں کی نظر میں آج بھی سنگدل اور ظالم لیٹرا ہے جس نے ان کی مقدس عبادت گاہوں کو ملیامیٹ کر کے ان کے مذہبی جذبات کو صدمہ پہنچایا لیکن یاک غیر متعصب محقق اور مورخ اس کا زمانہ کی صور حال کو پیش نظر رکھ کر کچھ اور ہی فیصلہ دینے پر مجبور ہوگا بلا شک و شبہ وہ دنیا کے بہترین اور عظیم ترین حکمرانوں میں شامل کئے جانے کے لائق ہے۔
اور یہ اس قتل و غارت کی فہرست ہے جو انگریزوں، ایسٹ انڈیا کمپنی اور یورپ نے اپنے قبضے کے دوران کیے۔
فلسطین 1967-2009 3 لاکھ
عراق 1990-2009 41 لاکھ
افغانستان 2001-2009 30 سے 70 لاکھ
بنگال 1769-1770 ایک کروڑ
بنگال 1943-1945 60 سے 70 لاکھ
ہندوستان 1757-1947 ایک ارب 80 کروڑ
مسلمان حکمرانوں کو چور اور قاتل کہنے والے اس بارے میں کیا کہیں گے۔1857ء کی جنگ آزادی میں انگریزوں نے برصغیر کے کئ بڑے شہر جلا کر راکھ کر ڈالے۔سومنات کی جھوٹی کہانی پہ اچھلنے والے اس بارے میں منافقانہ طور پہ کیوں چپ ہیں۔
بنگال کے قحط (1769ء - 1770ء) نے برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے افسران کو امیر بننے کا بھر پور موقع فراہم کیا۔ چاول جو ایک روپے میں 120 سیر ملتا تھا اب ایک روپے میں صرف تین سیر ملنے لگا۔ ایک جونیئر افسر نے اس طرح 60,000 پاونڈ منافع کمایا۔ Cornelius Wallard کے مطابق ہندوستان میں پچھلے دو ہزار سالوں میں 17 دفعہ قحط پڑا تھا۔ مگر ایسٹ انڈیا کمپنی کے 120 سالہ دور میں 34 دفعہ قحط پڑا۔ مغلوں کے دور حکومت میں قحط کے زمانے میں لگان (ٹیکس) کم کر دیا جاتا تھا مگر ایسٹ انڈیا کمپنی نے قحط کے زمانے میں لگان بڑھا دیا۔
Warren Hastings کے مطابق لگ بھگ ایک کروڑ افراد بھوک سے مر گئے جو کل آبادی کا ایک تہائی تھے۔ لوگ روٹی کی خاطر اپنے بچے بیچنے لگے تھے
1857ء کی ناکام جنگ آزادی کے بعد انگریز دہشت پھیلانے کے لیے ہندوستانیوں کو سرعام پھانسی دیتے تھے۔برطانیہ میں بنے کپڑے کو ہندوستان میں مقبول بنانے کے لیے ہندوستان کی کپڑے کی صدیوں پرانی صنعت کو بڑی بے رحمی سے تباہ کیا گیا۔ اگر کوئی جولاہا کپڑے بیچتا ہوا نظر آ جاتا تو اس کے ہاتھ کا انگوٹھا کاٹ دیا جاتا تھا تاکہ وہ زندگی بھر کپڑا نہ بن سکے۔ کسانوں کی آمدنی پر ٹیکس 66 فیصد کر دیا گیا جو مغل دور میں 40 فیصد تھا۔ روز مرہ استعمال کی عام اشیاء پر بھی ٹیکس عائد کیے گئے جن میں نمک بھی شامل تھا۔ اس سے نمک کی کھپت آدھی ہو گئی۔ نمک کم استعمال کرنے کی وجہ سے غریب لوگوں کی صحت سخت متاثر ہوئی اور ہیضے اور لو لگنے کی وجہ سے ہونے والی اموات میں بڑا اضافہ ہوا۔
1814ء سے 1835ء تک برطانیہ کے بنے کپڑے کی ہندوستان میں فروخت میں 51 گنا اضافہ ہوا جبکہ ہندوستان سے برطانیہ آنے والی درآمدات صرف چوتھائی رہ گئیں۔ اس دوران ڈھاکہ جو کپڑا سازی کا بڑا مرکز تھا اس کی آبادی دیڑھ لاکھ سے گر کر صرف بیس ہزار رہ گئی۔ گورنر جنرل ویلیم بنٹنک نے 1834ء میں اپنی رپورٹ میں لکھا کہ معاشیات کی تاریخ میں ایسی بدترین صورتحال کی مثال نہیں ملتی۔ ہندوستانی جولاہوں کی ہڈیوں سے ہندوستان کی زمین سفید ہو گئی ہے۔
1884 میں مصور وزلی کی بنائی ہوئی ایک پینٹننگ دیکھیں نیچے۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں شکست کے بعد ہندوستانیوں کو توپ سے اُڑایا جا رہا ہے۔ خون آلودہ سفید لباس لاش کی دہشت میں اضافہ کرتا ہے۔
1857ء کی ناکام جنگ آزادی کے بعد پشاور میں باغیوں کو توپ سے اڑانے کی "تقریب"۔ چونکہ توپیں کم تھیں اور باغی زیادہ اس لئے یہ "تقریب" دو قسطوں میں انجام پائی۔
1857ء کی جنگ آزادی میں شکست کے بعد انگریزوں نے ہندوستانیوں کو بے دریغ قتل کیا۔بے شمارگاؤں دیہات جلا دیے اورسارے دیہاتیوں کو پھانسی دے دی۔ شہروں میں امراء کی حویلیاں بارود سے اڑا دی گئیں۔
انگلینڈ میں نئی فوجی بھرتی کے لیے ہمیشہ کی طرح اس جنگ کو بھی مذہب کا روپ دیا گیا۔ معظم پادری نے اپنے وعظ میں کہا کہ ہم نے توکافروں کو مسیحت اور شائستگی جیسی نعمت کی پیشکش کری تھی لیکن انہوں نے نہ صرف اسے ٹھکرا دیا بلکہ تشدد پر اتر آئے۔ اب تلوار نیام سے نکال لینی چاہیے اور ان سے ہزار گنا بڑا بدلہ لینا چاہیے۔ لندن کے اخبار “دا ٹائم“ میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہاں ہر درخت کی شاخ پر باغی کی لاش ہونی چاہیے۔ اور واقعی یہی کیا گیا۔ دہلی میں کوئی درخت ایسا نہ تھا جس سے کوئی لاش نہ لٹک رہی ہو۔ ایک سال تک ان لاشوں کو ہٹانے کی اجازت نہ تھی۔ کانپور میں ایک برگد کے درخت سے 150 لاشیں لٹک رہی تھیں۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران آنے والے بنگال کے قحط کے دوران جب لاکھوں لوگ برطانیہ کی لوٹ مار اور جنگی ٹیکسوں کی وجہ سے بھوکے مر چکے تھے اور مر رہے تھے، برطانیہ کے وزیر اعظم چرچل نے کہا تھا کہ مجھے ہندوستانیوں سے سخت نفرت ہے۔یہ خرگوش کی طرح بچے پیدا کرتے ہیں۔ان کو مرنے دو۔نیچے قحط سے ڈھانچے بن جانے والے لوگوں کی تصاویر دیکھیے۔
"انگریز مورخین نے عام طور پر برٹش افواج کے ان بہیمانہ مظالم کو نظرا نداز کیا ہے ۔ لیکن کچھ نے اس پر نفریں اور دکھ کا اظہار ضرور کیا ہے جو بدلے کے جذبے سے ہندوستانیوں پر کئے گئے تھے ۔ خود ہڈسن کا نام خون کا پیاسا پڑ گیا تھا ۔ نیل اس بات پر فخر کیا کرتا تھا کہ نام نہاد مقدموں کے نام پر اس نے سینکڑوں ہندوستانیوں کو پھانسی کے تختے پر چڑھایا ۔ الٰہ آباد کے آس پاس کوئی ایسا درخت نہیں بچا تھا جس سے کسی ہندوستانی کی لاش نہ لٹکائی گئی ہو۔ ہوسکتا ہے کہ انگریزوں کو غصہ زیادہ آگیا ہو۔لیکن یہی بات ہندوستانی بھی اپنے بارے میں کہا کرتے تھے ۔ اگر بہت سے ہندوستانیوں کی اس حرکت کا کوئی جواز نہیں پیش کیا جاسکتا تو یہی بات انگریزوں کے ساتھ بھی صادق آتی تھی۔ مسلمان امراء کو سور کی کھالوں میں زندہ سی دیاجاتا ۔ اور پھر زبردستی ان کے گلے میں سور کا گوشت ڈال دیا جاتا ۔ہندؤوں کو لٹکتی تلواروں کے تلے گائے کا گوشت کھانے پر مجبور کیا گیا۔ زخمی قیدیوں کو زندہ جلا دیا گیا۔ انگریز سپاہی گاؤں میں نکل جاتے اور گاؤں والوں کو پکڑ کر لاتے اور انہیں اتنی اذیت دیتے کہ آخر کار وہ مرجاتے ۔ کوئی بھی ملک یاکوئی بھی شخص اس قدر نفرت انگیز پُرتشدد کام نہیں کرسکتا ۔اس کے بعد بھی وہ اپنے کو مہذب ہونے کا دعویٰ کرتے ۔ "
مسلمان حکمرانوں کو چور،لٹیرا اور قاتل کہنے والے منافق اور دوغلے حضرات اس بارے میں کیا کہنا چاہیں گے۔
حوالہ:
https://www.geourdu.com/sultan-mahmud-ghazni-robbers-mujah…/
https://ur.m.wikipedia.org/wiki/برطانوی_ایسٹ_انڈیا_کمپنی
ہندوستان پر غزنویوں کے حملوں کی اصل وجہ تو ہندوستان کا راجہ جے پال خود تا اس کی سلطنت غزنویہ سے ملنی تھیں جب 976ء میں سبکتگین سلطان بنے تو جے پال نے غزنی پر حملہ کر دیا ۔ لمغان اور غزنی کے درمیان زور کا رن پڑا جے پال کو عبرت ناک شکست ہوئی ۔ صلح نامہ میں طے ہوا کہ جے پال ہاتھی ، گھوڑے اور نقد مال و زر دے گا اس کام کے لیے سلطان کے لوگ ساتھ ہوئے مگر جے پال نے بد عہدی کی اور سلطان کے لوگوں کو قیدی بنا لیا۔ اس بدعہدی کی سزاء کے لیے سلطان کی فوجوں نے چڑھائی کی جس پر جے پال نے معافی مانگی تو اسے چھوڑ دیا گیا محمود غزنوی کو بار بار ہندو راجوں کی بد عہدیوں کی سزاء دینے کے لیے ہندوستان پر حملہ کرنا پڑا ۔
محمود غزنوی نے ہندستان کو فتح کر کے یہاں اسلام کا علم لہریا اس نے مساجد تعمیر کرائیں ۔ اس کے دور میں علماء و اولیا اللہ نے تبلیغ سے ہندوستان کو نور اسلام سے بھر دیا ۔ اسی بات کی طرف اشارہ کر کے قائداعظم نے کہا تھا کہ پاکستان تو اسی روز بنا گیا تھا جب پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا۔
اور میرا ایک سوال ہے۔اگر محمود غزنوی سلطنت و شہرت اور خواہ مخواہ کی جنگوں کا اتنا بڑا طالب تھا تو اس نے آدھے ہندوستان سے جنگ اور فتح کے باوجود اپنی حکومت صرف لاہور تک کیوں رکھی حالانکہ وہ سب کو شکست دینے کے بعد اپنی حکومت آدھے ہندوستان پہ قائم رکھ سکتا تھا
یہی سب زخم تھے جن کی تکلیف آج تک ہندوئوں کو ہوتی ہے اور جب تک پاکستان رہے گا یہ تکلیف ہوتی رہے گی ۔ سلطان محمود غزنوی اگر ہندوستان نہ آتے تو کبھی یہاں توحید کے ترانے نہ ہوتے۔ اسی لیے ہندوئوں کے اندر چھپا بغض و حسد اور شرک و بت پرستی کا گند سلطان کے خلاف پراپیگنڈے کی صورت میں باہر آتا رہا ہے۔ ہندو ناشرین مسلمانوں کی دل آزاری کی غرض س ایسی کتابیں شائع کیا کرتے تھے جن میں مسلمان حکمرانوں کو نہایت مکروہ شکل میں پیش کیا جاتا تھا ۔ جب انگریزوں کے ساتھ ہند وستان میں ہندو اقتدار میں شریک ہوئے تو انہوں نے برعظیم کے تمام سرکاری سکولوں میں اریخ ہند ے نام سے ایک کتاب پرھانا شروع کی جس میں مسلمان حکمرانوں او اسلامی عہد کی تاریخ سے سخت ناانصافی سے کام لیا گیا ۔ اس کتاب میں درج ہے کہ محمد بن قاسم نے حرص و طمع کے سبب ہندوستان پر حملہ کیا، سلطان محمودغزنوی غاصب ظالم لالچی او بے انصاف بادشاہ تھا ، اورنگزیب عالمگیر تمام برائیوں کا مجسمہ تھا وہ ہندوئوں کے مندروں اور مقدس مقامات اور ان کے رسوم و رواجکا سخت دشمن تھا (ہفت روزہ نوائے وقت 1928ء ) 1924ء میں ہندی زبان کے فروغ کے لیے مہاتما گاندھی کی صدارت بھارت ہندی پرچار سبھا قائم کی گئی تھی ۔ اسی سبھا کے تحت سال میں دو مرتبہ ہندی کے امتحانات ہوئے تھے ۔ 1940ء میں اوسط درجے کے امتحان کے لیے ایک تاریخی کتاب سچی کہانیاں نصاب میں داخل کی گئیں۔
1928ء کے نوائے وقت کا کہنا ہے کہ کوئی ناپاک جھوٹ ایسا نہیں جو اس کتاب میں نہ بولا گیا ہو (پندرہ روزہ نوائے وقت 1940ئ) مشہور ہندو ناشر عطر چند کپور نے ہائی روڈر آف انڈین ہسٹری ( High Roads of Indian History) کے نام سے چھٹی جماعت کے طلباء کے لیے ایک کتاب شائع کی جس میں سلطان محمود غزنوی کی شخصیت کو مسخ کیا گیا تھا (روزنامہ زمیندار، اداریہ 7 جون 1928ء ) اسی اداریہ میں لکھا ہے کہ ایک آریہ سماجی اخبار نے سلطان محمود غزنونی کو طوائف کا بیٹا لکھ کر مسلمانوں کے جذبات کو سخت مجروع کیا ہے ۔ سلطان محمود کے اعلیٰ کردار کا اعتراف بہت سے ہندو دانشور کرنے پر مجبور ہوئے ۔چنانچہ پروفیسر سینتی کمار چیٹر جی نے لکھا محمود غزنوی کا پانے سکوں پر سنسکرت لکھوانا اس کی سیاسی ہوش مندی کا ثبوت ہے اس کی اعلیٰ دماغی اور فراخ دلی کی دلیل ہے ۔ (البیرونی ہاد گار جلد ایران سوسائٹی کلکتہ 98) ْ اس کی فوج میں ہندو سردار اور لشکری بھی تھے (تاریخ لمیس بحوالہ الیٹ ،جلد دوم ص32) ۔ محمود کے بارے میں یہ کہیں نہیں آتا کہ اُس نے ہندو کو اپنا مذہب چھوڑنے پر مجبور کیا ۔ پالٹیکس ان پری موغل ٹائمس از ڈاکٹر ایشور ٹوپاص 45-46)۔ سی وی دیدیہ نے اپنی کتاب ہسٹری آف مڈویول ہندو انڈیا ج 3 میں لکھا ہے کہ ایک انسان کی حیثیت سے وہ ایک سخت ضبط و نظم او اعلیٰ کردار کا حامل انسان تھا اس ے حملوں میں کون ریزی ہوئی قیدی غلام بنائے گئے لیکن عورتوں کی عصمت ریزی یا ان کے قتل و خون کی کوئی مثال نہیں ملتی وہ عدل پسند تھا۔الہ آباد یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ایشوری پرشاد اپنی کتاب مڈیول انڈیا میں لکھتے ہیں مسلمانوں کی نظر میں محمود غازی اور اسلام کا علمبردار تھا ۔ ہندوئوں کی نظر میں آج بھی سنگدل اور ظالم لیٹرا ہے جس نے ان کی مقدس عبادت گاہوں کو ملیامیٹ کر کے ان کے مذہبی جذبات کو صدمہ پہنچایا لیکن یاک غیر متعصب محقق اور مورخ اس کا زمانہ کی صور حال کو پیش نظر رکھ کر کچھ اور ہی فیصلہ دینے پر مجبور ہوگا بلا شک و شبہ وہ دنیا کے بہترین اور عظیم ترین حکمرانوں میں شامل کئے جانے کے لائق ہے۔
اور یہ اس قتل و غارت کی فہرست ہے جو انگریزوں، ایسٹ انڈیا کمپنی اور یورپ نے اپنے قبضے کے دوران کیے۔
فلسطین 1967-2009 3 لاکھ
عراق 1990-2009 41 لاکھ
افغانستان 2001-2009 30 سے 70 لاکھ
بنگال 1769-1770 ایک کروڑ
بنگال 1943-1945 60 سے 70 لاکھ
ہندوستان 1757-1947 ایک ارب 80 کروڑ
مسلمان حکمرانوں کو چور اور قاتل کہنے والے اس بارے میں کیا کہیں گے۔1857ء کی جنگ آزادی میں انگریزوں نے برصغیر کے کئ بڑے شہر جلا کر راکھ کر ڈالے۔سومنات کی جھوٹی کہانی پہ اچھلنے والے اس بارے میں منافقانہ طور پہ کیوں چپ ہیں۔
بنگال کے قحط (1769ء - 1770ء) نے برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے افسران کو امیر بننے کا بھر پور موقع فراہم کیا۔ چاول جو ایک روپے میں 120 سیر ملتا تھا اب ایک روپے میں صرف تین سیر ملنے لگا۔ ایک جونیئر افسر نے اس طرح 60,000 پاونڈ منافع کمایا۔ Cornelius Wallard کے مطابق ہندوستان میں پچھلے دو ہزار سالوں میں 17 دفعہ قحط پڑا تھا۔ مگر ایسٹ انڈیا کمپنی کے 120 سالہ دور میں 34 دفعہ قحط پڑا۔ مغلوں کے دور حکومت میں قحط کے زمانے میں لگان (ٹیکس) کم کر دیا جاتا تھا مگر ایسٹ انڈیا کمپنی نے قحط کے زمانے میں لگان بڑھا دیا۔
Warren Hastings کے مطابق لگ بھگ ایک کروڑ افراد بھوک سے مر گئے جو کل آبادی کا ایک تہائی تھے۔ لوگ روٹی کی خاطر اپنے بچے بیچنے لگے تھے
1857ء کی ناکام جنگ آزادی کے بعد انگریز دہشت پھیلانے کے لیے ہندوستانیوں کو سرعام پھانسی دیتے تھے۔برطانیہ میں بنے کپڑے کو ہندوستان میں مقبول بنانے کے لیے ہندوستان کی کپڑے کی صدیوں پرانی صنعت کو بڑی بے رحمی سے تباہ کیا گیا۔ اگر کوئی جولاہا کپڑے بیچتا ہوا نظر آ جاتا تو اس کے ہاتھ کا انگوٹھا کاٹ دیا جاتا تھا تاکہ وہ زندگی بھر کپڑا نہ بن سکے۔ کسانوں کی آمدنی پر ٹیکس 66 فیصد کر دیا گیا جو مغل دور میں 40 فیصد تھا۔ روز مرہ استعمال کی عام اشیاء پر بھی ٹیکس عائد کیے گئے جن میں نمک بھی شامل تھا۔ اس سے نمک کی کھپت آدھی ہو گئی۔ نمک کم استعمال کرنے کی وجہ سے غریب لوگوں کی صحت سخت متاثر ہوئی اور ہیضے اور لو لگنے کی وجہ سے ہونے والی اموات میں بڑا اضافہ ہوا۔
1814ء سے 1835ء تک برطانیہ کے بنے کپڑے کی ہندوستان میں فروخت میں 51 گنا اضافہ ہوا جبکہ ہندوستان سے برطانیہ آنے والی درآمدات صرف چوتھائی رہ گئیں۔ اس دوران ڈھاکہ جو کپڑا سازی کا بڑا مرکز تھا اس کی آبادی دیڑھ لاکھ سے گر کر صرف بیس ہزار رہ گئی۔ گورنر جنرل ویلیم بنٹنک نے 1834ء میں اپنی رپورٹ میں لکھا کہ معاشیات کی تاریخ میں ایسی بدترین صورتحال کی مثال نہیں ملتی۔ ہندوستانی جولاہوں کی ہڈیوں سے ہندوستان کی زمین سفید ہو گئی ہے۔
1884 میں مصور وزلی کی بنائی ہوئی ایک پینٹننگ دیکھیں نیچے۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں شکست کے بعد ہندوستانیوں کو توپ سے اُڑایا جا رہا ہے۔ خون آلودہ سفید لباس لاش کی دہشت میں اضافہ کرتا ہے۔
1857ء کی ناکام جنگ آزادی کے بعد پشاور میں باغیوں کو توپ سے اڑانے کی "تقریب"۔ چونکہ توپیں کم تھیں اور باغی زیادہ اس لئے یہ "تقریب" دو قسطوں میں انجام پائی۔
1857ء کی جنگ آزادی میں شکست کے بعد انگریزوں نے ہندوستانیوں کو بے دریغ قتل کیا۔بے شمارگاؤں دیہات جلا دیے اورسارے دیہاتیوں کو پھانسی دے دی۔ شہروں میں امراء کی حویلیاں بارود سے اڑا دی گئیں۔
انگلینڈ میں نئی فوجی بھرتی کے لیے ہمیشہ کی طرح اس جنگ کو بھی مذہب کا روپ دیا گیا۔ معظم پادری نے اپنے وعظ میں کہا کہ ہم نے توکافروں کو مسیحت اور شائستگی جیسی نعمت کی پیشکش کری تھی لیکن انہوں نے نہ صرف اسے ٹھکرا دیا بلکہ تشدد پر اتر آئے۔ اب تلوار نیام سے نکال لینی چاہیے اور ان سے ہزار گنا بڑا بدلہ لینا چاہیے۔ لندن کے اخبار “دا ٹائم“ میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہاں ہر درخت کی شاخ پر باغی کی لاش ہونی چاہیے۔ اور واقعی یہی کیا گیا۔ دہلی میں کوئی درخت ایسا نہ تھا جس سے کوئی لاش نہ لٹک رہی ہو۔ ایک سال تک ان لاشوں کو ہٹانے کی اجازت نہ تھی۔ کانپور میں ایک برگد کے درخت سے 150 لاشیں لٹک رہی تھیں۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران آنے والے بنگال کے قحط کے دوران جب لاکھوں لوگ برطانیہ کی لوٹ مار اور جنگی ٹیکسوں کی وجہ سے بھوکے مر چکے تھے اور مر رہے تھے، برطانیہ کے وزیر اعظم چرچل نے کہا تھا کہ مجھے ہندوستانیوں سے سخت نفرت ہے۔یہ خرگوش کی طرح بچے پیدا کرتے ہیں۔ان کو مرنے دو۔نیچے قحط سے ڈھانچے بن جانے والے لوگوں کی تصاویر دیکھیے۔
"انگریز مورخین نے عام طور پر برٹش افواج کے ان بہیمانہ مظالم کو نظرا نداز کیا ہے ۔ لیکن کچھ نے اس پر نفریں اور دکھ کا اظہار ضرور کیا ہے جو بدلے کے جذبے سے ہندوستانیوں پر کئے گئے تھے ۔ خود ہڈسن کا نام خون کا پیاسا پڑ گیا تھا ۔ نیل اس بات پر فخر کیا کرتا تھا کہ نام نہاد مقدموں کے نام پر اس نے سینکڑوں ہندوستانیوں کو پھانسی کے تختے پر چڑھایا ۔ الٰہ آباد کے آس پاس کوئی ایسا درخت نہیں بچا تھا جس سے کسی ہندوستانی کی لاش نہ لٹکائی گئی ہو۔ ہوسکتا ہے کہ انگریزوں کو غصہ زیادہ آگیا ہو۔لیکن یہی بات ہندوستانی بھی اپنے بارے میں کہا کرتے تھے ۔ اگر بہت سے ہندوستانیوں کی اس حرکت کا کوئی جواز نہیں پیش کیا جاسکتا تو یہی بات انگریزوں کے ساتھ بھی صادق آتی تھی۔ مسلمان امراء کو سور کی کھالوں میں زندہ سی دیاجاتا ۔ اور پھر زبردستی ان کے گلے میں سور کا گوشت ڈال دیا جاتا ۔ہندؤوں کو لٹکتی تلواروں کے تلے گائے کا گوشت کھانے پر مجبور کیا گیا۔ زخمی قیدیوں کو زندہ جلا دیا گیا۔ انگریز سپاہی گاؤں میں نکل جاتے اور گاؤں والوں کو پکڑ کر لاتے اور انہیں اتنی اذیت دیتے کہ آخر کار وہ مرجاتے ۔ کوئی بھی ملک یاکوئی بھی شخص اس قدر نفرت انگیز پُرتشدد کام نہیں کرسکتا ۔اس کے بعد بھی وہ اپنے کو مہذب ہونے کا دعویٰ کرتے ۔ "
مسلمان حکمرانوں کو چور،لٹیرا اور قاتل کہنے والے منافق اور دوغلے حضرات اس بارے میں کیا کہنا چاہیں گے۔
حوالہ:
https://www.geourdu.com/sultan-mahmud-ghazni-robbers-mujah…/
https://ur.m.wikipedia.org/wiki/برطانوی_ایسٹ_انڈیا_کمپنی
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔