Wednesday, 18 October 2017

مسلمان حکمرانوں کو چور اور لٹیرا کہنے والے منافق حضرات اس بارے میں کیا کہنا چاہیں گے

برطانیہ نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے برصغیر جیسے دنیا کے امیر ترین ملک کو لوٹ کر کس طرح اسے دنیا کا غریب ترین ملک بنا دیا؟ کس طرح فرضی قحط لا کر کروڑوں انسانوں کا قتل عام کیا گیا؟ کس طرح برصغیر میں کرپشن،بدعنوانی اور مذہبی منافرت کو فروغ دیا گیا؟کس طرح برصغیر کی عوام کو جان بوجھ کر جاہل بنایا گیا؟
برصغیر میں مسلمان اور مغل حکمرانوں کی لائی گئی اصلاحات کا برطانیہ کی طرف سے خاتمہ اور برصغیر کی اج تک چلنے والی عبرتناک تباہی
برصغیر کو دنیا کا امیر ترین ملک بنا دینے والے مسلم اور ہندوستانی حکمرانوں کو قاتل،لٹیرا اور ڈاکو کہنے والے جاہل اور کورے نام نہاد کالم نگاروں اور دانشوروں کو جواب

ایسٹ انڈیا کمپنی اگرچہ ایک تجارتی کمپنی تھی مگر ڈھائی لاکھ سپاہیوں کی ذاتی فوج رکھتی تھی۔ جہاں تجارت سے منافع ممکن نہ ہوتا وہاں فوج اسے ممکن بنا دیتی۔
جون 1757ء میں پلاسی کی جنگ میں نواب سراج الدولہ (جو فرانس کا اتحادی تھا) کو شکست دینے کے بعد کمپنی کے اعلیٰ ترین افسران نے بنگال میں یکے بعد دیگرے کئی نواب مقرر کئے اور ہر ایک سے رشوت لے کر 26 لاکھ پاونڈ بٹور لئے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوجیں اکثر مقامی حکمرانوں کو اجرت کے عوض فوجی خدمات فراہم کرتی تھیں۔ لیکن ان فوجی اخراجات سے مقامی حکمران جلد ہی کنگال ہو جاتے تھے اور اپنی حکمرانی کھو بیٹھتے تھے (جیسے اودھ)۔ اس طرح ایسٹ انڈیا کمپنی کی سلطنت وسیع ہوتی چلی گئی۔
بنگال کے قحط (1769ء - 1770ء) نے کمپنی کے افسران کو امیر بننے کا بھر پور موقع فراہم کیا۔ چاول جو ایک روپے میں 120 سیر ملتا تھا اب ایک روپے میں صرف تین سیر ملنے لگا۔ ایک جونیئر افسر نے اس طرح 60,000 پاونڈ منافع کمایا۔ Cornelius Wallard کے مطابق ہندوستان میں پچھلے دو ہزار سالوں میں 17 دفعہ قحط پڑا تھا۔ مگر ایسٹ انڈیا کمپنی کے 120 سالہ دور میں 34 دفعہ قحط پڑا۔ مغلوں کے دور حکومت میں قحط کے زمانے میں لگان (ٹیکس) کم کر دیا جاتا تھا مگر ایسٹ انڈیا کمپنی نے قحط کے زمانے میں لگان بڑھا دیا۔
Warren Hastings کے مطابق لگ بھگ ایک کروڑ افراد بھوک سے مر گئے جو کل آبادی کا ایک تہائی تھے۔ لوگ روٹی کی خاطر اپنے بچے بیچنے لگے تھے۔
برطانیہ کے ہاوس آف کامنز نے 1813ء میں Thomas Munroe (جسے 1820ء میں مدراس کا گورنر بنایا گیا) سے جاننا چاہا کہ آخر صنعتی انقلاب کے بعدبرطانیہ کے بنے ہوئے کپڑے ہندوستان میں کیوں نہیں بک رہے تو اس نے جواب دیا کہ ہندوستانی کپڑے کہیں زیادہ بہتر کوالٹی کے ہوتے ہیں۔ اس نے مزید کہا کہ میں ایک ہندوستانی شال سات سال سے استعمال کر رہا ہوں مگر وہ آج بھی نئی جیسی ہے۔ اگر کوئی مجھے یورپ کی بنی شال تحفے میں بھی دے تو میں اسے استعمال نہیں کروں گا۔
برطانیہ میں بنے کپڑے کو ہندوستان میں مقبول بنانے کے لیے ہندوستان کی کپڑے کی صدیوں پرانی صنعت کو بڑی بے رحمی سے تباہ کیا گیا۔ اگر کوئی جولاہا کپڑے بیچتا ہوا نظر آ جاتا تو اس کے ہاتھ کا انگوٹھا کاٹ دیا جاتا تھا تاکہ وہ زندگی بھر کپڑا نہ بن سکے۔ کسانوں کی آمدنی پر ٹیکس 66 فیصد کر دیا گیا جو مغل دور میں 40 فیصد تھا۔ روز مرہ استعمال کی عام اشیاء پر بھی ٹیکس عائد کیے گئے جن میں نمک بھی شامل تھا۔ اس سے نمک کی کھپت آدھی ہو گئی۔ نمک کم استعمال کرنے کی وجہ سے غریب لوگوں کی صحت سخت متاثر ہوئی اور ہیضے اور لو لگنے کی وجہ سے ہونے والی اموات میں بڑا اضافہ ہوا۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک ڈائریکٹر ہنری جارج ٹکر نے 1823ء میں لکھا کہ اس طرح ہندوستان کو ایک صنعتی ملک کی حیثیت سے گرا کر ایک زراعتی ملک بنا دیا گیا ہے۔ (تاکہ انگلستان کا مال ہندوستان میں بیچا جا سکے) India is thus reduced from the state of manufacturing to that of an agricultural country. (Memorials of the Indian Govt. being a selection from the papers of Henry St. George Tucker London, 1853 Page 494) [10]
1814ء سے 1835ء تک برطانیہ کے بنے کپڑے کی ہندوستان میں فروخت میں 51 گنا اضافہ ہوا جبکہ ہندوستان سے برطانیہ آنے والی درآمدات صرف چوتھائی رہ گئیں۔ اس دوران ڈھاکہ جو کپڑا سازی کا بڑا مرکز تھا اس کی آبادی دیڑھ لاکھ سے گر کر صرف بیس ہزار رہ گئی۔ گورنر جنرل ویلیم بنٹنک نے 1834ء میں اپنی رپورٹ میں لکھا کہ معاشیات کی تاریخ میں ایسی بدترین صورتحال کی مثال نہیں ملتی۔ ہندوستانی جولاہوں کی ہڈیوں سے ہندوستان کی زمین سفید ہو گئی ہے۔
نک روبنس اپنی کتاب The Corporation that Changed the World میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے بارے میں لکھتے ہیں“اس کمپنی نے معیشت کی تاریخ بالکل بدل دی۔ صدیوں سے دولت کا بہاو مغرب سے مشرق کی طرف تھا۔ روم کے عروج کے زمانے سے یورپ تجارت کے لیے ایشیا کا مرہون منت تھا اور مصالحہ، کپڑے اور نفیس اشیاء کے بدلے سونا اور چاندی ادا کرتا تھا۔ انگلینڈ کے پاس ایسا کچھ نہیں تھا جسے مشرق خریدنا پسند کرتا۔ جنگ پلاسی سے پہلے تجارتی توازن سارے ممالک کے خلاف اور بنگال کے حق میں تھا۔بنگال وہ جگہ تھی جہاں جا کر یورپ کا سونا چاندی گُم ہو جاتا تھا اور جہاں سے یورپ کا سونا چاندی واپس آنے کے امکانات صفر تھے۔ 1773ء تک سونے چاندی کے بہاو کا رخ پلٹ چکا تھا۔ 1600ء میں ہندوستان اور چین کی معیشت یورپ کی معیشت سے دوگنی تھی۔ 1874ء میں جب ایسٹ انڈیا کمپنی کا خاتمہ ہوا اس وقت یورپ کی معیشت ہندوستان اور چین کی معیشت کا دُگنا ہو چکی تھی۔ اس کمپنی نے ساری دولت لوٹ کر انڈیا کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔
اس کمپنی نے ہندوستان پر قبضہ جمانے کے لیے دو حربے استعمال کیئے۔ پہلا یہ کہ فیصلہ کرنے والوں کو رشوت سے قابو کرو اور دوسرا یہ کہ عوام کو تقسیم کرو۔(Divide and rule)
جنگ پلاسی میں فتح حاصل ہونے سے ایسٹ انڈیا کمپنی کو 25 لاکھ پاونڈ کا مال غنیمت ہاتھ لگا جبکہ لارڈ کلائیو کو دو لاکھ چونتیس ہزار پاونڈ ذاتی منافع ہوا“۔
ایسٹ انڈیا کمپنی (جو جوہن کمپنی کے نام سے شروع ہوئی تھی) نے ہندوستان کو تجارت کے نام پر لوٹ کر بے حساب دولت کمائی مگر ہندوستانیوں کو شدید کرب و اذیت سے دوچار کیا۔ کمپنی کی تاریخ سے یہ سبق ملتا ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں صرف تجارت نہیں چاہتیں بلکہ سیاسی طاقت بھی حاصل کرنا چاہتی ہیں۔
کارپوریشن جس نے دنیا بدل دی (The Corporation that changed the world) انگریزی زبان میں لکھی جانے والی ایک کتاب ہے جس کے مصنف نِک رابِنْسَن ہیں۔ یہ کتاب 2006ء میں چھپی تھی۔ اس میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی تاریخ اور اسکی سازشوں کا تجزیہ درج ہے۔
اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ 1600ء میں بننے والی اس تجارتی کمپنی نے آج کے دور کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ڈیزائننگ میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ مسالوں کی تجارت کے لیے بنی اس کمپنی کا اختتام سلطنت ہند کی حکمرانی پر ہوا۔ اس دوران اس کمپنی نے اپنی ہم عصر کمپنیوں کو بے پناہ تشدد، بدعنوانی اور سٹہ بازی سے حیران کر دیا۔ مصنف نے اس کتاب میں قحط، جنگ، اسٹاک بازاروں کا ڈوبنا اور اعلیٰ افسران کی باہمی چپقلشوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ مصنف کے خیال میں اس کمپنی کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ آج کی عالمی تجارت کا احتساب کتنا ضروری ہے۔
مصنف ایسٹ انڈیا کمپنی کو آج کے دور کی ملٹی نیشنل کمپنیوں جیسا کہ نیسلے کی ماں قرار دیتا ہے۔
ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1800ء میں بنگال میں زمینوں کا ٹیکس وصول کرنے کے لیے ایک نئے قانون کے تحت ایک نیا زمینداری نظام شروع کیا جو بندوبست دوامی (Permanent Settlement) کہلاتا ہے۔
اس نظام میں زمینداروں کے اختیارات میں بڑا اضافہ ہو گیا۔ ٹیکس چونکہ بڑھ گیا تھا اس لئے کسانوں پر بوجھ بھی بڑھ گیا۔ اب زمین ہر سال نیلام نہیں ہوتی تھی بلکہ جس نے ایک دفعہ زمین حاصل کر لی اب وہ اور اسکی اولادیں اس زمین کی مالک تھیں بشرطیکہ وہ ہر سال 31 دسمبر تک سورج غروب ہونے سے پہلے اگلے سال کے لیے اتنا ہی ٹیکس حکومت کے خزانے میں جمع کروا دیا کریں۔ ایک دن کی بھی دیر ہونے سے انکی زمینداری کے حقوق ضبط ہو جاتے تھے اور زمین دوبارہ نیلام ہو جاتی تھی۔ کسانوں سے وصول کی گئی رقم میں سے 89 فیصد حکومت کا حصہ ہوتی تھی اور 11 فیصد زمیندار کا۔ سیلاب، قحط یا دوسری کسی آفت کی صورت میں بھی ٹیکس کم نہیں ہوتا تھا۔
اس نظام نے ایک طرف کسان طبقے کو کچل کر رکھ دیا اور دوسری طرف حکومت کے وفادار زمینداروں کی تعداد میں بڑا اضافہ کیا۔ کسانوں کو چاول اور گندم کے بجائے نقد فصلیں (کپاس، نیل) اگانے پر مجبور کیا گیا جس کے نتیجے میں قحط کے دوران بڑے ہولناک نتائج برامد ہوئے۔ اس نظام نے ہندوستان کی صدیوں پرانی تہذیب کو شدید متاثر کیا۔
1870ء کی دہائی میں موسمی تغیر (El Niño) سے دکن کے علاقہ میں فصلیں ناکام ہو گئیں۔ اس وقت ہندوستان برطانیہ کے زیرِ تسلط تھا۔ قحط اور بھوک کی شدت ہوئی۔ اس کے باوجود برطانوی حکمران وائسرائے لیٹن نے ہندوستان سے 6.4 ملین صد الوزن گندم برطانیہ برآمد کر دی۔ نتیجتاً 12 سے 29 ملین یعنی ایک سے تین کروڑ مقامی ہندوستانی باشندے ہلاک ہو گئے، یعنی مرگ انبوہ کر دیے گئے۔
ایسٹ انڈیا کپمنی کی حکمرانی سے پہلے ہندوستان میں مغلیہ حکومت اپنی سلطنت کے مختلف علاقے ایک ایک سال کے لیے پٹے (لیز) پر دیا کرتی تھی اور ہر سال یہ علاقے نیلام ہوا کرتے تھے۔ جو سب سے زیادہ بولی لگاتا اسے ایک سال کے لیے اس علاقے کی زمینداری مل جاتی تھی۔ مغل حکمرانوں کے تربیت یافتہ دیوان نہ صرف بولی لگانے والے زمینداروں سے ٹیکس وصول کرتے تھے بلکہ اس پر بھی نظر رکھتے تھے کہ وہ رعایا کے ساتھ غیر ضروری سختی نہ برتیں۔ دیوان کو یہ اختیار ہوتا تھا کہ وہ عوامی بےچینی کی صورتحال میں زمیندار کی زمینداری ختم کر دیں۔
برطانوی ہندوستان میں بدعنوانی ایک سنگین صورت حال تھی۔انگریزوں نے ہندوستان کے بادشاہوں کو بدعنوانی کے ذریعہ انہیں اور ہندوستان کو غلام بنایا۔ اس کے بعد انہوں نے منصوبہ بند طریقے سے ہندوستان میں بدعنوانی کو فروغ دیا اور ہندوستان کو غلام بنائے رکھنے کے لیے اسے ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے رہے۔ گوکہ بھارت میں اس وقت بدعنوانی ایک اہم مسئلہ ہے، لیکن اس بدعنوانی کی ابتدا برطانوی راج ہی میں ہو چکی تھی۔
ہندوستان چھوڑتے وقت انگریزوں نے یہاں مذہبی منافرت کا بازار گرم کیا جس کے شواہد دھرمیندر گوڑ کی کتاب "میں انگریزوں کا جاسوس تھا" میں موجود ہيں۔ انہوں نے ہندوستان کو تقسیم کی آگ میں جھونکنے کی منصوبہ بندی پہلے سے بنا رکھی تھی۔ اتنی زیادہ افراتفری اس ملک میں انگریزوں کی آمد سے پہلے کبھی نہیں تھی۔ عام طور پر بدعنوانی اور غربت کی صورت حال ہندوستان میں کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔ اگر یہ کہا جائے کہ غربت، عمومی سیاست اور انتظامی بدعنوانی انگریزوں کی دین ہے، تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہوگا۔
ممبئی کے مشہور ناشر اور تاجر نارائن شان باگ بھارت کی معروف علم نواز شخصیت تھی۔ انہوں نے مشہور مورخ و مفکر ول ڈیورانٹ کی نادر کتاب "دی کیس فار انڈیا" کو دوبارہ شائع کیا۔ یہ کتاب انگریزوں کی طرف سے بھارت کی لوٹ ہی نہیں، بلکہ ہندوستان کی قدیم رسوم و روایات، علم اور کردار پر تاریخ کے سب سے بڑے حملے کے حقائق بھی بیان کرتی ہے۔ اس میں انہوں نے لکھا ہے کہ بھارت صرف ایک قوم ہی نہیں تھا، بلکہ تہذیب، ثقافت اور زبان کے حوالہ سے دنیا بھر میں خصوصی اہمیت کا حامل تھا۔ علم اور صنعت و تجارت کا ایسا کوئی میدان نہیں تھا جس میں ہندوستان نے نمایاں مقام نہ حاصل کیا ہو۔ خواہ وہ ٹیکسٹائل ہو، زیورات سازی اور جواہرات کی دریافت ہو، شاعری اور ادب کا میدان ہو، ظروف سازی اور عظیم تعمیرات کا میدان ہو یا سمندری جہاز کی تعمیر ہو، ہر میدان میں ہندوستان نے دنیا کو بیش بہا تحفے دیے۔
جب انگریز ہندوستان آئے تو انہوں نے اس ملک کو سیاسی اعتبار سے کمزور، لیکن اقتصادی نقطہ نظر سے انتہائی پر شوکت پایا۔ چنانچہ انگریزوں نے دھوکا دہی، بداخلاقی اور بدعنوانی کے ذریعے ریاستوں پر قبضے کیے، ظالمانہ محصول عائد کیے، کروڑوں افراد کو غربت اور بھوک کے جہنم میں ڈھکیلا اور ہندوستان کی بیشتر املاک کو لوٹ کر برطانیہ لے گئے۔ انہوں نے مدراس، کولکتہ اور ممبئی میں ہندو حکمرانوں سے تجارتی چوکیاں کرائے پر لیں اور بغیر اجازت وہاں اپنی توپیں اور فوجیں نصب کیں۔ 1756ء میں جب نواب بنگال سراج الدولہ نے اس کی مخالفت کی اور انگریزوں کے قلعہ فورٹ ولیم پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا، تو ایک سال بعد رابرٹ کلائیو نے پلاسی کی جنگ میں بنگال کو شکست دے کر اس پر قبضہ کر لیا اور ایک نواب کو دوسرے سے لڑا کر لوٹ اور رشوت ستانی کا بازار گرم رکھا۔ صرف ایک سال میں کلائیو نے 11 لاکھ 70 ہزار ڈالر کی رشوت لی اور 1 لاکھ 40 ہزار ڈالر سالانہ نذرانہ لینا شروع کیا۔ تحقیقات میں اسے مجرم پایا گیا، لیکن برطانیہ کی خدمت کے بدلے اسے معافی دے دی گئی۔ ول ڈیورانٹ لکھتے ہیں کہ بھارت سے 20 لاکھ کا سامان خرید کر برطانیہ میں ایک کروڑ میں فروخت کیا جاتا ہے۔ انگریزوں نے نواب اودھ کو اپنی ماں اور دادی کا خزانہ لوٹ کر 50 لاکھ دینے پر مجبور کیا پھر اس پر قبضہ کر لیا اور 25 لاکھ میں دوسرے نواب کو فروخت کیا۔
انگریزی زبان کو فروغ دینے اور استعمار کو مستحکم کرنے کے لئے بھارتی اسکول بند کئے گئے۔ 1911ء میں گوپال كرشن گوکھلے نے پورے ہندوستان میں ہر بچے کے لئے لازمی ابتدائی تعلیم کا بل پاس کرنے کی کوشش کی، لیکن اس کوشش کو انگریزوں نے ناکام بنا دیا۔ 1916ء میں اس بل کو دوبارہ لانے کی کوشش کی گئی، تاکہ تمام ہندوستانیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا جا سکے، لیکن اسے بھی ناکام بنا دیا گیا۔ ہندوستانی شماریات کے ڈائریکٹر جنرل سر ولیم ہنٹر نے لکھا ہے کہ بھارت میں 4 کروڑ لوگ ایسے تھے جو کبھی بھی اپنا پیٹ نہیں بھر پاتے تھے۔ بھوک اور غربت کے شکار ہندوستانی عوام جسمانی اعتبار سے کمزور ہو کر وبا کا شکار ہونے لگے۔
1901ء میں بیرون ملک سے آئے طاعون کی وجہ سے 2 لاکھ 72 ہزار ہندوستانی لقمہ اجل ہر گئے۔ 1902ء میں 50 لاکھ افراد جاں بحق ہوئے۔ 1903ء میں 8 لاکھ ہندوستانی ہلاک اور 1904ء میں 10 لاکھ بھارتی بھوک، غذائی قلت اور طاعون جیسی وبا کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔ 1918ء میں 12 کروڑ 50 لاکھ افراد بیماری کے شکار ہوئے، جن میں سے 1 کروڑ 25 لاکھ لوگوں کی موت سرکاری طور پر درج ہوئی۔ اسی طرح کام کے لئے انگریزوں کو ہندوستانیوں سے زیادہ تنخواہ دی جاتی تھی نیز قابل ہندوستانی افراد کو مناسب منصب سے بھی محروم رکھا جاتا۔
پریم چند کے ناولوں اور کہانیوں میں برطانوی راج کے وقت تعلیم اور دیگر علاقوں میں پھیلی بدعنوانی کی خاصی جھلکیاں ملتی ہیں۔ حکومت محض اخبارات و رسائل ہی کو خریدتی تھی جو سرکار انگلشیہ کی تعریف کیا کرتے تھے۔
ہندوستان میں بدعنوانی کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ سلطنت مغلیہ کے عہد میں جب انگریزوں نے سرزمین ہند پر تجارتی مقاصد کے تحت قدم رکھا تو سہولتیں حاصل کرنے کے لئے ہندوستان کے امرا اور حکام کو پیسے دیا کرتے اور بادشاہوں اور ساہوکاروں کو رقم دے کر ان سے وہ سب حاصل کر لیتے تھے جو انہیں مطلوب ہوتا۔ انگریز ہندوستان کے شرفا کو رقم دے کر اپنے ہی ملک کے سے غداری کرنے پر آمادہ کرتے، کچھ راضی ہو جاتے اور کچھ انکار کرتے۔ اس بدعنوانی کا آغاز یہیں سے شروع ہوا جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔
ہندوستان کے لوگ غیر متوقع خشک سالی کے نتائج سے بخوبی واقف تھے اور اتنا اناج ذخیرہ کر کے رکھتے تھے کہ بارش نہ ہونے کے باوجود غذا کی کمی نہ ہو۔ مغلوں کے دور حکومت میں لگان (ٹیکس) 10 سے 15 فیصد ہوا کرتا تھا جسے ادا کرنے کے بعد بھی عوام کے پاس کافی غلہ بچ جاتا تھا۔ مگر 1765 ء میں معاہدہ الٰہ باد طے پایا جس کے نتیجے میں شاہ عالم ثانی نے ٹیکس وصول کرنے کے اختیارات ایسٹ انڈیا کمپنی کو بخش دیئے۔ راتوں رات ٹیکس بڑھ کر 50 فیصد ہو گیا۔ اس سے غربت میں شدید اضافہ ہوا اور آنے والے بُرے وقتوں کے لیے بچت کرنا انتہائی مشکل ہو گیا۔
Cornelius Wallard کے مطابق ہندوستان میں دو ہزار سالوں میں 17 دفعہ قحط پڑا تھا۔ مگر ایسٹ انڈیا کمپنی کے 120 سالہ دور میں 34 دفعہ قحط پڑا۔ مغلوں کے دور حکومت میں قحط کے زمانے میں لگان (ٹیکس) کم کر دیا جاتا تھا مگر ایسٹ انڈیا کمپنی نے قحط کے زمانے میں لگان بڑھا کر 60 فیصد کر دیا۔
1770-1771 ء کے قحط کے باوجود ایسٹ انڈیا کمپنی کو 1771ء میں 1768ء سے زیادہ منافع ہوا۔
1876–1878ء کے جنوبی ہندوستان کے قحط زدگان۔ انگریز اس زمانے میں بھی ہندوستان سے غلہ ایکسپورٹ کرتے رہے۔ اس قحط میں لگ بھگ 70 لاکھ لوگ مر گئے۔
"یہ بالکل واضح تھا کہ قحط سے نمٹنے کے لیے جس رقم کی ضرورت تھی وہ 1878 ء سے 1880 ء کی افغانستان سے جنگ پر خرچ ہو رہی تھی۔"
1943 ء کے بنگال کے قحط کے بارے میں ونسٹن چرچل نے کہا تھا "مجھے ہندوستانیوں سے نفرت ہے۔یہ جنگلی لوگ ہیں اور ان کا مذہب بھی جنگلی ہے۔ قحط ان کی اپنی غلطی ہے کیونکہ وہ خرگوشوں کی طرح آبادی بڑھاتے ہیں"۔ 1945ء میں چرچل کو نوبل انعام برائے امن کے لیے نامزد کیا گیا مگر اسے یہ انعام نہ مل سکا۔ اس لیے 1953 ء میں چرچل کو ادب کا نوبل انعام دیا گیا۔
Talking about the Bengal famine in 1943, Churchill said: “I hate Indians. They are a beastly people with a beastly religion. The famine was their own fault for breeding like rabbits.”
بنگال کے قحط
1770ء
1783ء
1866ء
1873ء
1892ء
1897ء
1943ء
1943-1944 ء کے بنگال کے قحط کی وجہ خراب فصل نہیں تھی۔ انگریز سارا غلہ دوسرے ممالک میں اپنی برسرپیکار فوجوں کو بھیج رہے تھے جس کی وجہ سے غلے کی قلت ہو گئی تھی۔ انگریزوں کو یہ خطرہ بھی تھا کہ جاپانی برما کی طرف سے ہندوستان میں نہ داخل ہو جائیں اس لیے انہوں نے بنگال کا سارا اناج برآمد کر دیا کہ جاپانی فوج کو غلہ نہ مل سکے۔ اس قحط میں 30 لاکھ لوگ مر گئے۔
the riches of the west were built on the graves of the East.
ششی تھرور ہندوستان سے تعلق رکھنے والے ایک سیاستدان اور دانشور ہیں جن کا پسندیدہ مو‌ضوع ہندوستان میں نوآبادیاتی دور کا مطالعہ ہے۔ چند سال پہلے اُن کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں کی گئی تقریر بے حد مقبول ہوئی جس میں اُنہوں نے نوآبادیاتی قبضے کے دوران ہندوستان میں کئے گئے برطانوی مظالم اور استحصال کاٹھوس دلائل کے ساتھ تعارف کروایا تھا ۔ مخالفین گنگ تھے اور پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھاتھا۔ اسی سلسلے کی اگلی کڑی، حال ہی میں شائع ہونے والی اُن کی کتاب ”INGLORIOUS EMPIRE“ ہے جس میں اُنہوں نے برطانوی نوآبادیاتی دور سے متعلق بہت سے جھوٹ، مفروضوں اور خیالی کہانیوں کی حقیقت کا پردہ فاش کیا ہے جِن کے ذریعے ہندوستان اور پاکستان میں نوآبادیاتی دور کو مثالی بنا کر پیش کیا جاتا ہے، یہاں کے عوام کو اُن کے درخشاں ماضی سے کاٹا جاتا ہے اور اُن میں مایوسی، بے عملی اور مغرب سے مرعوبیت پیدا کی جاتی ہے تاکہ وہ اپنے خطے کے بہتر مستقبل کے لئے کسی بھی قسم کی اجتماعی جدوجہد سے دور رہیں۔ نوآبادیاتی دور کا مطالعہ اِس لئے بھی اہم ہے کہ اِس کے بغیر ہم اپنے موجودہ مسائل کا درست تناظر میں جائزہ لینے اور اُن کا حل نکالنے کے قابل نہیں ہوسکتے۔ یہ مضمون اِس کتاب میں پیش کئے گئے چند اہم مفروضوں کا اَحاطہ کرتا ہے۔
1857ء کی جنگ آزادی کے انتقام کے طور پہ کمپنی نے پانچ لاکھ ہندوستانیوں کو موت کے گھاٹ اتار کے مغل شہنشاہ کو رنگون میں قید کر دیا۔
برصغیر میں 1934ء میں آنے والے قحط میں
تیس لاکھ افراد ہلاک ہوئے جبکہ زندہ رہنے کے لئے گھاس اور انسانی گوشت کا سہارالینا پڑا۔
ماضی میں برطانوی راج کے دور سے پہلے، جب ملک کو قحط کا سامنا کرنا پڑتا تھا تو دیسی حکمران بڑی آفات سے نمٹنے کے لئے مفیداور بلا توقف احتیاطی تدابیر کے ساتھ تیار رہتے تھے۔
برطانوی حکومت کی آمد کے بعد، زیادہ تر قحط مون سون کی بارشوں میں تاخیر کا سبب تھے جس کی بڑی وجہ برطانوی راج کا اپنے مالی فوائد کے لئے ملک کے قدرتی وسائل کااستحصال تھا۔اس کے باوجود وہ ان افعال کے سبب ہونے والی تباہی او ر کہر کو تسلیم نہیں کرتے۔اگر کچھ ہے تو صرف یہ کہ وہ قحط کی وجہ سے بڑھنے والے ٹیکسوں کی زحمت پر کڑہتے ہیں ۔
سن سترہ سو ستر میں آنے والا سب سے پہلا قحط بہت خوفناک اور سفاکانہ تھا۔ اتنے بڑے قحط آنے کی پہلی علامات سترہ سو اُنسٹھ میں ظاہر ہوئی اور یہ قحط تیہتر تک چلا جس سے تقریبا دس لاکھ ہندوستانی اموات کا شکار ہوئے۔
جن کی تعداد دوسری عالمی جنگ کے دوران قید یہودیوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ تھی ۔ اس قحط نے بنگال کی ایک تہائی آبادی کا صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ جان فسک ، اپنی کتاب "دا ان سین ورلڈ" میں لکھتے ہیں کہ ، بنگال میں سترہ سو ستر آنے والا قحط چودہویں صدی میں یورپ کو دہشت زدہ کر دینے والے سیاہ طاعون سے کہیں زیادہ مہلک تھا۔
مغلیہ دور میں، کسانوں کو ان کی نقد فصل کے دس سے پندرہ فیصد خراج عقیدت کے طور پر پیش کر نا ہوتے تھے۔جو کہ حکمرانوں کے لئے ایک آرام دہ اور پرسکون خزانے کو اورکسانوں کے لئے مستقبل میں کاشت کے دوران موسم کی تبدیلی سے حفاظت کے ایک وسیع جال کو یقینی بناتا تھا۔
فصلوں کی جزوی ناکامی بھارتی کسان کی زندگی میں ایک باقاعدہ معمول بن چکا تھا. اس لیے خراج عقیدت پیش کرنے کے بعد رہ جانے والا اضافی سرمایہ ان کے ذریعہ معاش کے لئے خاصا اہم تھا. لیکن بڑھتی ہوئی ٹیکسیشن کے ساتھ، اس اضافی سرمایےمیں تیزی سے کمی واقع ہوئی۔
سترہ سو اڑسٹھ میں فصلوں کی جزوی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو مغلیہ حکمرانوں کی طرف سے بچھایا گیا حفاظتی جال موجود نہیں تھا۔
قحط کے متعلق تمام انتباہ کو ، نوآبادیاتی حکمرانوں کی طرف سے سراسر نظر انداز کیا جاتا رہا۔
مغل حکمرانوں سے قیادت سنبھالنے کے بعد برطانوی راج نے نقد فصلوں کی کاشت کے بڑے پیمانے پر احکامات جاری کئے تھے ۔ جن کو بعد میں برآمد کرنے کا ارادہ کیا گیا تھا۔
اس طرح کسانوں کو بڑھتی ہوئی دھان اور سبزیوں کی بجائےاب انڈگو، پوست اور اس جیسی دیگر اشیاء کی کاشت کاری کے لئے مجبور کیا گیا جو کے ان کے لئے مارکیٹ میں اعلی قیمت برقرار رکھ سکے نہ کہ بستی میں کھانے کی بھوک مٹانے کا باعث بن سکے۔
قحط کی صورت میں خوردنی فصلوں کا کوئی متبادل موجود نہیں تھا۔ متاثر ہ آبادی کی معاونت کے لئےکوئی اقدامات فراہم نہ کئے گئے بلکہ، جیسا کہ پہلے بیان، کیا جا چکا ہے ٹیکسیشن کی آمدنی میں قیمت میں کمی کو پورا کرنے کے لئے اضافہ کر دیا گیا ۔ اس سے زیادہ ستم ظریفی کیا ہو سکتی تھی کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے سترہ سو اڑسٹھ کے مقابلے میں سترہ سو اکہتر میں زیادہ منافع حاصل کیا۔
اگرچہ بنگال میں خوراک کی کمی کی شکار عوام ابھی تک اس بات سے بے خبر تھی کہ یہ قحط ا نگریزوں کی طرف سے منافع کے حصول کی وجہ سے قائم ہوا۔
تا ہم ہر قحط کے دوران ہونے والا قتل عام اپنے آپ میں مہلک تھا ، لیکن سترہ سو اکہتر کے بعد اُنیس سو چونتیس میں آنے والا قحط مہلک ترین تھا ، جس میں تیس لاکھ افراد ہلاک ہوئے اور دوسروں کو زندہ رہنے کے لئے گھاس اور انسانی گوشت کا سہارالینا پڑا۔
ونسٹن چرچل جس نے یورپ کو ہٹلر سے بچا لیا قحط بنگال، جو کہ ایک تہائی آبادی نگل گیا، کے بارے میں پریشان کن حد تک کٹھور خیالات کا مالک تھا اس نے طبی امداد اور خوراک کی فراہمی کا رخ یورپ کے فوجیوں کی طرف موڑ دیا جن کے پاس پہلے سے ہی اچھی امداد موجود تھی ۔
چرچل نے کہا، "قحط کی صورتِ حال سے بھارت دو چار ہع یا نہیں ، بھارتیوں کو خرگوش کی نسل کی طرح پالا جائےگا"۔ دہلی حکومت نے خوفناک تباہی کی ایک تصویر اسے ٹیلی گرام کے زریعے بھیجی. جس کے جواب میں اس نے کہا"اگر ایسا ہے تو گاندھی ابھی تک کیوں کر زندہ ہے؟"۔
یہ بات بڑے افسوس کا مقام رکھتی ہے کہ مغرب نے دولت مشرق میں قبرو ں کی تعمیر کے زریعے حاصل کی ہے ۔ آج ان قبروں میں دفن لوگوں کی یاد میں آنسو بہائیں اورمل کران لوگوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا حلف لیں جن کی آواز یں دنیا کے سامنے گھٹی ہوئی ہیں ،جن کو سننے کے لئے انکار کیا جا رہا ہے۔
آزاد ہونا ایک عظیم اعزاز ہے لیکن ایک عظیم سپر ہیرو کا کہنا ہے کہ، "عظیم آزادی کے ساتھ عظیم ذمہ داری مشروط ہے"۔
یہ بد بخت سرمایہ پرستی اور سرمایہ داری نظام اور نسلی تعصب کا عذاب ہے جو ہماری بے شعوری کی وجہ سے آج بھی قایم ہے
مسلمان حکمرانوں کو چور اور لٹیرا کہنے والے منافق حضرات اس بارے میں کیا کہنا چاہیں گے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔