ملحدین کا اسلام اور قرآن پر اعتراض کہ اسلام مکہ سے نکل کر جب مدینہ گیا تو ظالم بن گیا
تحریر اسرار احمد صدیقی
ملحدین کی جانب سے اعتراض کیا گیا ہے کہ مدینہ میں تو اسلام صبر اور بھائی چارگی کا درس دیتا تھا جبکہ مدینہ میں جاکر اسلام صرف قتل و قتال کا درس دیتا ہے
ملحدین کا یہ اعتراض جہل بغض اسلام اور کم علمی پر مبنی ہے
ملحدین نے قرآن کی مکی آیت کا جزء تو لے کر پیش کردیا لیکن ان جزئیات کے آگے پیچھے کل آیت کو پیش نہیں کیا اور نہ ہی مکمل بات پیش کی
ایک تو ان آیات میں پہلے قتل و قتال کا حکم نہیں دیا بلکہ اس سے پہلے بھی کفار کو دعوت کا حکم دیا اور اگر کہیں قتال کی نوبت آئی بھی تو فریق مخلاف پر ظلم و زیادتی سے منع کیا گیا {جسکی تفصیل مع آیات کے نیچے پیش کر رہا ہوں} بلکہ حتی المقدور کوشش کی گئی کہ کم سے کم انسانی جان کا ضیاع ہو اور فتنہ ختم ہو قرآنی آیات تو بہت ہیں اختصار کے طور پر صرف چند مدنی آیات جہاد کو پیش کرکے ملحدین کو دعوت فکر دیتا ہوں کہ قرآن کو تعصب کی عینک اتار کر پڑھو سمجھو ان شاء اللہ نور ایمان تمہارے قلوب میں بھی داخل ہوجائے گا
اختصار کے ساتھ چند آیات جہاد پیش خدمت ہے
اللہ رب العزت فرماتے ہیں
وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ لِلّٰهِ فَاِنِ انْتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ اِلَّا عَلَي الظّٰلِمِيْنَ ۔ اَلشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمٰتُ قِصَاصٌ فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ ۔ وَاَنْفِقُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ ٻوَاَحْسِنُوْا ڔ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ ۔
اور ان سے اس وقت تک جنگ جاری رکھو جب تک فتنہ بالکل ختم نہ ہوجائے اور دین اللہ کے لئے لیے خالص نہ ہوجائے۔ پس اگر وہ جنگ سے باز آجائیں تو ظالموں کے سوا کسی پر کوئی زیادتی نہ کرو حرمت والا مہینہ حرمت والے مہینہ کے مقابل ہے اور ادب رکھنے میں بدلہ ہے۔ پس جو کوئی تم پر زیادتی کرے تو تم بھی اس پر اتنی زیادتی کرو جتنی اس نے تم پر کی۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ ڈرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے رستے میں مال خرچ کرتے رہو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو اور نیکی کرتے رہو بیشک اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
اس آیت مبارکہ میں اللہ نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ اپنے دشمنوں پر ظلم نہیں کرنا
حالت جنگ میں بھی عدل کرنے اور ظلم سے بچنے کا حکم
ياَيُهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَِﷲِ شُهَدَآءَ بِالْقِسْطِ ز وَلاَ يَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰی اَلاَّ تَعْدِلُوْاط اِعْدِلُوْاقف هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰي ز وَاتَّقُوا اﷲَط اِنَّ اﷲَ خَبِيْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَo
المائدة، 5 : 8
’’اے ایمان والو! اﷲ کے لیے مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے انصاف پر مبنی گواہی دینے والے ہو جاؤ اور کسی قوم کی سخت دشمنی (بھی) تمہیں اس بات پر برانگیختہ نہ کرے کہ تم (اس سے) عدل نہ کرو۔ عدل کیا کرو (کہ) وہ پرہیزگاری سے نزدیک تر ہے، اور اﷲ سے ڈرا کرو! بے شک اﷲ تمہارے کاموں سے خوب آگاہ ہےo‘‘
لَا يَنْهٰکُمُ اﷲُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِيَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَتُقْسِطُوْا اِلَيْهِمْ ط اِنَّ اﷲَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَo
الممتحنة، 60 : 8
’’اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بے شک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہےo‘‘
اسہی طرح اللہ رب العزت مسلمانوں کو خطاب فرماتے ہیں کہ
وَقَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ ۔ وَاقْتُلُوْھُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوْھُمْ وَاَخْرِجُوْھُمْ مِّنْ حَيْثُ اَخْرَجُوْكُمْ وَالْفِتْنَةُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ وَلَا تُقٰتِلُوْھُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰى يُقٰتِلُوْكُمْ فِيْهِ فَاِنْ قٰتَلُوْكُمْ فَاقْتُلُوْھُمْ كَذٰلِكَ جَزَاءُ الْكٰفِرِيْنَ ۔ فَاِنِ انْتَهَوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ
اللہ کی راہ میں ان سے لڑو جو تم سے لڑائی کریں لیکن زیادتی نہ کرنا کیونکہ اللہ تعالیٰ زیادت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے۔ انہیں جہاں پاؤ مار ڈالو اور انہیں وہاں سے نکال دو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا اور فتنہ قتل سے بھی زیادہ سخت ہوتا ہے۔ اور مسجد حرام کے پاس ان سے لڑائی نہ کرنا جب تک کہ وہ تم سے وہاں لڑائی نہ کریں۔ پس اگر وہ تم سے لڑائی کریں تو انہیں قتل کردو کافروں کی یہی سزا ہے۔ پس اگر وہ باز آجائیں تو بیشک اللہ تعالیٰ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔
مندرجہ ذیل آیت میں بھی انہی ظالمین کفار سے لڑنے کا حکم ہے جنہوں نے مسلمانوں سے قتال کیا یا قتال کرنے کی تیاری کر رہے ہیں اور اس صورت میں بھی تاکید فرمادیا کہ
ولاتعتدوا اور زیادتی نہ کرنا
ان اللہ لایحب المعتدین، اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا
اسہی طرح اللہ تعالی کا حکم ہے
وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ لِلّٰهِ ۭ فَاِنِ انْتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ اِلَّا عَلَي الظّٰلِمِيْنَ
اور ان سے اس وقت تک جنگ جاری رکھو جب تک فتنہ بالکل ختم نہ ہوجائے اور دین اللہ کے لئے لیے خالص نہ ہوجائے۔ پس اگر وہ جنگ سے باز آجائیں تو ظالموں کے سوا کسی پر کوئی زیادتی نہ کرو
اسہی طرح اللہ کے رسول علیہ السلام نے بھی غیر محارب عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرمایا
حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پورے زمانہ اقدس میں کسی ایک غزوہ میں مسلمانوں کے ہاتھوں ایک عورت قتل ہوئی تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دورانِ جنگ غیر مسلم عورتوں اور بچوں کو قتل کرنا سختی سے منع فرما دیا۔ حدیث مبارکہ ہے:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اﷲ عنهما قَالَ: وُجِدَتِ امْرَاة مَقْتُولَة فِي بَعْضِ مَغَازِي رَسُولِ اﷲِ فَنهَی رَسُولُ اﷲِ عَنْ قَتْلِ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ.
حضرت عبد اﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی غزوہ میں ایک عورت کو دیکھا جسے قتل کردیا گیا تھا۔ اس پر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کی ممانعت فرمادی۔
بخاري، الصحيح، 3: 1098، رقم: 2852، دار ابن کثير اليمامة بيروت
مسلم، الصحيح، 3: 1364، رقم: 1744، دار احياء التراث العربي بيروت
احمد بن حنبل، المسند، 2: 22، رقم: 4739، مؤسسة قرطبة مصر
ترمذي، السنن، 4: 136، رقم: 1569، دار احياء التراث العربي بيروت
ابن ماجه، السنن، 2: 947، رقم: 2841، دار الفکر بيروت
اور لگتا ہے کہ ملحدین نے اسلامی جنگ کے احوال پڑھے ہی نہیں
کیا ملحدین کے سامنے فتح مکہ نہیں جس میں رحمت العالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سب سے بڑے دشمنوں کو عام معافی دے دی جبکہ انکا اپنا بھی یہی گمان تھا کہ ہم نے اہل اسلام پر اتنا ظلم ڈھایا آج تو مسلمان اپنا بدلہ ضرور لیں گے {تفصیل کے لئے حضرت ہندہ رضی اللہ عنہا کے ایمان لانے کا واقعے کا مطالعہ کریں}
آج تو خون ہی خون بہے گا لیکن خلاف توقع پیغمبر اسلام نے عام معافی کا اعلان کردیا
ملحدین اگر اسلام میں ہونے والی جنگوں میں ہونے والے مقتولین کی تعداد شمار کریں اور ملحدین اپنی جنگوں میں مارے جانے والوں کی تعداد کا احاطہ کریں تو ایسا اعتراض کبھی اسلام پر نہ کریں بالکل ندامت سے انکے اپنا سر جھک جائے گا کہ ملحدین اور کمیونسٹوں انسانیت کے نام پر سب سے زیادہ ظلم انسانیت پر ڈھائے میرا نہیں خیال کے اسکی تفصیل پیش کرنے کی ضرورت ہے امریکہ روس جرمنی فرانس کے حکمرانوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے کروڑوں لوگوں کا لہو چیخ چیخ کر اسکی گواہی دے رہا ہے کہ انسانیت کے سب سے بڑے دشمن اسلام پسند نہیں بلکہ غیر مسلم ہی ہیں
اس لئے ہم کہتے ہیں اسلام پر صحیح اعتراض مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے
تحریر اسرار احمد صدیقی
ملحدین کی جانب سے اعتراض کیا گیا ہے کہ مدینہ میں تو اسلام صبر اور بھائی چارگی کا درس دیتا تھا جبکہ مدینہ میں جاکر اسلام صرف قتل و قتال کا درس دیتا ہے
ملحدین کا یہ اعتراض جہل بغض اسلام اور کم علمی پر مبنی ہے
ملحدین نے قرآن کی مکی آیت کا جزء تو لے کر پیش کردیا لیکن ان جزئیات کے آگے پیچھے کل آیت کو پیش نہیں کیا اور نہ ہی مکمل بات پیش کی
ایک تو ان آیات میں پہلے قتل و قتال کا حکم نہیں دیا بلکہ اس سے پہلے بھی کفار کو دعوت کا حکم دیا اور اگر کہیں قتال کی نوبت آئی بھی تو فریق مخلاف پر ظلم و زیادتی سے منع کیا گیا {جسکی تفصیل مع آیات کے نیچے پیش کر رہا ہوں} بلکہ حتی المقدور کوشش کی گئی کہ کم سے کم انسانی جان کا ضیاع ہو اور فتنہ ختم ہو قرآنی آیات تو بہت ہیں اختصار کے طور پر صرف چند مدنی آیات جہاد کو پیش کرکے ملحدین کو دعوت فکر دیتا ہوں کہ قرآن کو تعصب کی عینک اتار کر پڑھو سمجھو ان شاء اللہ نور ایمان تمہارے قلوب میں بھی داخل ہوجائے گا
اختصار کے ساتھ چند آیات جہاد پیش خدمت ہے
اللہ رب العزت فرماتے ہیں
وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ لِلّٰهِ فَاِنِ انْتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ اِلَّا عَلَي الظّٰلِمِيْنَ ۔ اَلشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمٰتُ قِصَاصٌ فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ ۔ وَاَنْفِقُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ ٻوَاَحْسِنُوْا ڔ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ ۔
اور ان سے اس وقت تک جنگ جاری رکھو جب تک فتنہ بالکل ختم نہ ہوجائے اور دین اللہ کے لئے لیے خالص نہ ہوجائے۔ پس اگر وہ جنگ سے باز آجائیں تو ظالموں کے سوا کسی پر کوئی زیادتی نہ کرو حرمت والا مہینہ حرمت والے مہینہ کے مقابل ہے اور ادب رکھنے میں بدلہ ہے۔ پس جو کوئی تم پر زیادتی کرے تو تم بھی اس پر اتنی زیادتی کرو جتنی اس نے تم پر کی۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ ڈرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے رستے میں مال خرچ کرتے رہو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو اور نیکی کرتے رہو بیشک اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
اس آیت مبارکہ میں اللہ نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ اپنے دشمنوں پر ظلم نہیں کرنا
حالت جنگ میں بھی عدل کرنے اور ظلم سے بچنے کا حکم
ياَيُهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَِﷲِ شُهَدَآءَ بِالْقِسْطِ ز وَلاَ يَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰی اَلاَّ تَعْدِلُوْاط اِعْدِلُوْاقف هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰي ز وَاتَّقُوا اﷲَط اِنَّ اﷲَ خَبِيْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَo
المائدة، 5 : 8
’’اے ایمان والو! اﷲ کے لیے مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے انصاف پر مبنی گواہی دینے والے ہو جاؤ اور کسی قوم کی سخت دشمنی (بھی) تمہیں اس بات پر برانگیختہ نہ کرے کہ تم (اس سے) عدل نہ کرو۔ عدل کیا کرو (کہ) وہ پرہیزگاری سے نزدیک تر ہے، اور اﷲ سے ڈرا کرو! بے شک اﷲ تمہارے کاموں سے خوب آگاہ ہےo‘‘
لَا يَنْهٰکُمُ اﷲُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِيَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَتُقْسِطُوْا اِلَيْهِمْ ط اِنَّ اﷲَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَo
الممتحنة، 60 : 8
’’اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بے شک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہےo‘‘
اسہی طرح اللہ رب العزت مسلمانوں کو خطاب فرماتے ہیں کہ
وَقَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ ۔ وَاقْتُلُوْھُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوْھُمْ وَاَخْرِجُوْھُمْ مِّنْ حَيْثُ اَخْرَجُوْكُمْ وَالْفِتْنَةُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ وَلَا تُقٰتِلُوْھُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰى يُقٰتِلُوْكُمْ فِيْهِ فَاِنْ قٰتَلُوْكُمْ فَاقْتُلُوْھُمْ كَذٰلِكَ جَزَاءُ الْكٰفِرِيْنَ ۔ فَاِنِ انْتَهَوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ
اللہ کی راہ میں ان سے لڑو جو تم سے لڑائی کریں لیکن زیادتی نہ کرنا کیونکہ اللہ تعالیٰ زیادت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے۔ انہیں جہاں پاؤ مار ڈالو اور انہیں وہاں سے نکال دو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا اور فتنہ قتل سے بھی زیادہ سخت ہوتا ہے۔ اور مسجد حرام کے پاس ان سے لڑائی نہ کرنا جب تک کہ وہ تم سے وہاں لڑائی نہ کریں۔ پس اگر وہ تم سے لڑائی کریں تو انہیں قتل کردو کافروں کی یہی سزا ہے۔ پس اگر وہ باز آجائیں تو بیشک اللہ تعالیٰ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔
مندرجہ ذیل آیت میں بھی انہی ظالمین کفار سے لڑنے کا حکم ہے جنہوں نے مسلمانوں سے قتال کیا یا قتال کرنے کی تیاری کر رہے ہیں اور اس صورت میں بھی تاکید فرمادیا کہ
ولاتعتدوا اور زیادتی نہ کرنا
ان اللہ لایحب المعتدین، اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا
اسہی طرح اللہ تعالی کا حکم ہے
وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ لِلّٰهِ ۭ فَاِنِ انْتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ اِلَّا عَلَي الظّٰلِمِيْنَ
اور ان سے اس وقت تک جنگ جاری رکھو جب تک فتنہ بالکل ختم نہ ہوجائے اور دین اللہ کے لئے لیے خالص نہ ہوجائے۔ پس اگر وہ جنگ سے باز آجائیں تو ظالموں کے سوا کسی پر کوئی زیادتی نہ کرو
اسہی طرح اللہ کے رسول علیہ السلام نے بھی غیر محارب عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرمایا
حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پورے زمانہ اقدس میں کسی ایک غزوہ میں مسلمانوں کے ہاتھوں ایک عورت قتل ہوئی تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دورانِ جنگ غیر مسلم عورتوں اور بچوں کو قتل کرنا سختی سے منع فرما دیا۔ حدیث مبارکہ ہے:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اﷲ عنهما قَالَ: وُجِدَتِ امْرَاة مَقْتُولَة فِي بَعْضِ مَغَازِي رَسُولِ اﷲِ فَنهَی رَسُولُ اﷲِ عَنْ قَتْلِ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ.
حضرت عبد اﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی غزوہ میں ایک عورت کو دیکھا جسے قتل کردیا گیا تھا۔ اس پر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کی ممانعت فرمادی۔
بخاري، الصحيح، 3: 1098، رقم: 2852، دار ابن کثير اليمامة بيروت
مسلم، الصحيح، 3: 1364، رقم: 1744، دار احياء التراث العربي بيروت
احمد بن حنبل، المسند، 2: 22، رقم: 4739، مؤسسة قرطبة مصر
ترمذي، السنن، 4: 136، رقم: 1569، دار احياء التراث العربي بيروت
ابن ماجه، السنن، 2: 947، رقم: 2841، دار الفکر بيروت
اور لگتا ہے کہ ملحدین نے اسلامی جنگ کے احوال پڑھے ہی نہیں
کیا ملحدین کے سامنے فتح مکہ نہیں جس میں رحمت العالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سب سے بڑے دشمنوں کو عام معافی دے دی جبکہ انکا اپنا بھی یہی گمان تھا کہ ہم نے اہل اسلام پر اتنا ظلم ڈھایا آج تو مسلمان اپنا بدلہ ضرور لیں گے {تفصیل کے لئے حضرت ہندہ رضی اللہ عنہا کے ایمان لانے کا واقعے کا مطالعہ کریں}
آج تو خون ہی خون بہے گا لیکن خلاف توقع پیغمبر اسلام نے عام معافی کا اعلان کردیا
ملحدین اگر اسلام میں ہونے والی جنگوں میں ہونے والے مقتولین کی تعداد شمار کریں اور ملحدین اپنی جنگوں میں مارے جانے والوں کی تعداد کا احاطہ کریں تو ایسا اعتراض کبھی اسلام پر نہ کریں بالکل ندامت سے انکے اپنا سر جھک جائے گا کہ ملحدین اور کمیونسٹوں انسانیت کے نام پر سب سے زیادہ ظلم انسانیت پر ڈھائے میرا نہیں خیال کے اسکی تفصیل پیش کرنے کی ضرورت ہے امریکہ روس جرمنی فرانس کے حکمرانوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے کروڑوں لوگوں کا لہو چیخ چیخ کر اسکی گواہی دے رہا ہے کہ انسانیت کے سب سے بڑے دشمن اسلام پسند نہیں بلکہ غیر مسلم ہی ہیں
اس لئے ہم کہتے ہیں اسلام پر صحیح اعتراض مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔