منکرین حدیث کی طرف سے عموما یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ حدیث ہی فرقوں / مسالک/مذہبی انتشار کے وجود کی ذمہ دار ہے۔
جمع و ترتیب: اسرار احمد صدیقی
اس اعتراض کے جواب میں ہم انتہائ اختصارکے ساتھ ان چند اہم پوائنٹس پر بات کریں گے
آئمہ اربعہ کے درمیان اختلاف کی نوعیت کیا ہے؟
کیا آئمہ مجتہدین کا فروعی مسائل میں اختلاف تفرقہ بازی ہے ؟؟
کیا یہ اختلاف آپس میں جنگ وجدل وحسد وبغض کی وجہ سے ہے یا کسی اور جائز ومقبول ومعقول امور کی وجہ سے ہے ؟؟
مذاہب اربعه اور آئمہ مجتہدین اورفقہاء اسلام کے مابین مسائل میں اختلاف کی وجوہات کیا ہیں ؟
کیا اس طرح کا کوئی اختلاف صحابہ و تابعین میں بھی پایا جاتا تھا؟
اختلاف اور صحابہ :
قرآن وحدیث کے اولین مخاطب حضرات صحابہ تھے، وہ براہِ راست حضور اکرمﷺ سے فیض یافتہ تھے؛ اس لیے وہی حضرات قرآن وحدیث کی مراد کوصحیح طور پرسمجھ سکتے ہیں؛ لہٰذا ان حضرات نے جوسمجھا ہے وہ ہمارے لیے معیار اور مشعلِ راہ ہے اور قرآن ورسول کے ایک ہوتے ہوئےحضراتِ صحابہؓ کے مابین بے شمار مسائل میں اختلاف تھا، ائمہ اربعہ چونکہ ان ہی حضرات اور ان سے فیض یافتہ حضرات یعنی (تابعین) کی فہم وبصیرت پراعتماد کیا ہے اور ان ہی کے اقوال ومذاہب کواختیار کیا ہے؛ اس لیے ائمہ اربعہ کے درمیان جن مسائل میں اختلاف واقع ہوا وہ دراصل صحابہؓ کے اختلاف کی وجہ سے ہوا ہے ۔ حضورِاکرمﷺ کا ارشادِ گرامی ہے :اختلاف امتی رحمۃ۔ ترجمہ:میری امت کا اختلاف رحمت ہے۔ (تفسیرابی السعود:۲/۶۸، داراحیاء التراث العربی ، بیروت)۔حدیث پاک میں جس اختلاف کورحمت فرمایا ہے، اس کا صحیح مصداق یہی صحابہ وائمہ کا اختلاف ہے،۔صحابہ کے باہمی اختلاف کی بےشمار مثالیں حدیث کی کتابوں میں ملتی ہیں، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے صحابہؓ کے اختلاف کے چند نمونے ذکر فرماتے ہیں:
حاصل یہ ہے کہ احادیث کی بنیاد پر صحابہ کے مابین اس طرح کا اختلاف رونما ہوا؛ پھران سے تابعین نے اسی طرح حاصل کیا، اس کو یاد کیا اور سمجھا اور مختلف امور کوجمع کیا اور بعض اقوال کوبعض پرترجیح دی اور بعض کواپنی نظر میں ضعیف سمجھا؛ گرچہ وہ کبارِ صحابہؓ ہی سے مروی تھے؛ پھران سے جب ائمہ نے ان کے علوم کوحاصل کیا توانھوں نے ان سے اسی طرح اخذ کیا جس طرح ان تابعی حضرات نے حضراتِ صحابہؓ سے حاصل کیا تھا۔
آئمہ اربعہ کے درمیان اختلاف کی نوعیت:
مذاھب مُعتبرہ مذاھب أربعه یعنی مالكيہ وحنفيہ وشافعيہ وحنابلہ کے مابین عقائد وأصول الدين میں کوئی اختلاف نہیں ہے بلکہ فروعی مسائل میں ایک جُزئي اورغیرمُضراختلاف ہے اوریہ اختلاف بھی شرعی دلائل وبراہین کی بنیاد پرہے اورتاريخ الإسلام میں کبھی یہ نہیں سنا گیا کہ مذاھب أربعہ کا اختلاف محض جھگڑا ونزاع وفساد ہے۔ یہ پھرفروعی مسائل میں اختلاف صرف مذاہب اربعہ اور آئمہ مجتہدین کے مابین ہی نہیں بلکہ صحابہ کرام کے مابین بھی موجود تھا اورصحابہ کرام جودین اسلام اورقرآن وسنت کے اولین راوی وناقل وحامل جماعت ہے ہم تک سارا دین انھی مقدس ومحترم شخصیات کے واسطے سے پہنچا ہے لہذا جب ان کے مابین فروعی مسائل میں اختلاف موجود تھا تو لازم ہے کہ ان کے بعد آنے والے تابعین وتبع تابعین وعلماء امت کے درمیان بھی یہ اختلاف موجود ہو اورایسا ہی ہوا کہ بعد کے آئمہ مجتہدین وعلماء اسلام کے مابین یہ اختلاف موجود چلا آرہا ہے۔
اختلاف کے اقسام :
علماء کرام نے اسلام میں رد وقبول کے اعتبار سے اختلاف کی دو بنیادی قسمیں بیان کی ہیں ، پہلی قسم ہے اختلاف تضاد (contradiction) ، دوسری قسم ہے اختلاف تنوع (variety)۔
1۔اختلاف تضاد : تضاد لغت میں ضد کوکہتے ہیں جمع اس کی أضداد آتی ہے اور لغت میں ضِدُّ الشَيء کسی چیزکے مخالف ومُبائن اورالٹ چیزکوکہا جاتا ہے اور دو مَتضَاد چیزیں وھ ہوتی ہیں جوآپس میں جمع نہیں ہوسکتے جیسے دن اور رات یعنی دو چیزوں میں اختلاف تضاد کا مطلب یہ ہے کہ دونوں کا اجتماع ناممکن ہو ، بعض علماء نے اختلاف تضاد کی تعریف ألقَولان المُتنَافِيَان سے کی ہے ، اور پھر یہ اختلاف اصول میں ہوتا ہے اور یقینا اھل سنت کے مابین اصول دین میں کوئی اختلاف نہیں ہے لہذا یہ اختلاف مذموم و ناجائز ہے ۔ جیسا کہ أھل سنت والجماعت کا اختلاف فِرَق باطلہ وضالہ کے ساتھ اصول دین میں ۔.
2۔اختلاف تنَوُّع : تنوع کا مطلب یہ ہے کہ کوئ چیز متعدد ہو لیکن حقیقت میں متفق ہو، یعنی ہروه اختلاف جس میں کئ وجوہات جائز ہوں ، اوراس اختلاف میں مُنافات نہیں ہوتا یعنی ایک قول دوسرے کی نفي وإبطال نہیں کرتا بلکہ ہرقول دوسرے کا ایک نوع ہوتا ہے ضد نہیں ہوتا ، اوراس میں تمام اقوال صحیح ہوتے ہیں ، اور پھر یہ کئ قسم پرہوتا ہے مثلا:
ایک یہ کہ دونوں فعل اوردونوں قول جائز وحق ہوں۔ جیسا کہ قرآن کی قرأت کہ صحابہ کے مابین ان میں اختلاف ہوا ، ابن مسعود رضی اللھ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک آدمی کو قراءت کرتے ہوئے سنا حالانکہ میں نے نبی صلى الله عليه وسلم سے اس کے برخلاف پڑھتے ہوئے سنا تھا یعنی جو قراءت یہ آدمی پڑھ رہا تھا نبی صلى الله عليه وسلم سے میں نے اس طرح نہیں سنا لہذا میں نے اس کو نبی صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضرکیا اورمیں نے نبی صلى الله عليہ وسلم کو اس اختلاف کی خبردی ، پس میں نے نبی صلى الله عليه وسلم کے چہرہ ( مبارک ) پرناپسندیدگی کے آثار دیکھے ، اورنبی صلى الله عليہ وسلم نے فرمایا تم دونوں درست ہو، یعنی قراءت کی روایت میں ، علامہ طيبي رحمہ الله فرماتے ہیں کہ وه آدمی اپنی قراءت میں درست ہے اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے جو نبی صلى الله عليہ وسلم سے سنا وہ اس میں درست ہے۔رواہ البخاري
اسی طرح دو مختلف معانی کسی قول سے لیئے جائیں لیکن دونوں متضاد نہ ہوں بلکہ دونوں قول باوجود مختلف ہونے کے صحیح ہوں اوریہ اکثراختلافی مسائل میں موجود ہے اوراس طرح کا اختلاف خود رسول الله صلى الله عليه وسلم کے عہد مبارک میں واقع ہوا ہے اورآپ نے دونوں اقوال کو درست قراردیا ، مثال اس کی یہ ہے : غزوة الأحزاب : کے بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ « من كان يؤمن باللہ واليوم الآخر فلا يصلين العصر إلا في بني قريظة » (رواه البخاري ومسلم وغيرھما). یعنی جوشخص اللہ پراورآخرت کے دن پرایمان رکھتا ہے وھ عصرکی نمازنہ پڑھے مگر بَنی قریظہ میں ، اب جب غروب کا وقت قریب ہوگیا تو رسول اللھ صلى اللھ عليہ وسلم کے اس قول مبارک کے سمجھنے میں صحابہ کرام کے مابین اختلاف واقع ہوگیا ۔بعض صحابہ نے یہ سمجھا کہ مراد اس قول سے سرعت اورجلدی ہے اوراگرنمازکا وقت راستے میں آجائے تو راستے میں پڑھ لی جائے لہذا انھوں نے عصرکی نماز راستے میں ہی پڑھ لی ، لیکن بعض صحابہ نے راستے میں نماز نہیں پڑھی اوراس قول کا مطلب یہ سمجھا کہ ہم عصرکی نماز بني قريظة میں ہی پڑھیں گے اگرچہ غروب کے بعد ہی کیوں نہ ہو ، رسولُ اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے کسی ایک پر بھی انکار نہیں فرمایا بلکہ دونوں کو صحیح قرار دیا ، اوراس طرح کے اختلاف میں دونوں فریق بلاشک مُصیب اوردرست ہیں ۔
غور کیا جائے تو اسی قسم کا اختلاف مذاہب اربعہ اور آئمہ مجتہدین کے مابین بھی بکثرت موجود ہے، کیا کوئ عقل مند شخص مذکورہ بالا حدیث پڑھنے کے بعد یہ کہہ سکتا ہے کہ معاذاللہ یہ اختلاف تفرقہ بازی ہے ؟؟ یادرہے کہ تمام فروعی اختلافی مسائل اسی قسم کے تحت آتے ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ اختلاف جائز ومقبول ومحمود ہے اورائمہ اربعہ کا اختلاف اذان واقامت ، واستفتاح ، وتشھد ، وغیرہ کے الفاظ میں اسی طرح صلاة الخوف ، وتكبيرات العيد، وتكبيرات الجنازة ، وفاتحة خلف الامام ، رفع یدین وعدم رفع یدین ، وآمین بالجھر وغیرہ مسائل میں اختلاف اسی قبیل سے ہیں الخ
کیا یہ فروعی اختلاف کسی جنگ و جدل و نفرت کا باعث بنا؟
یہ اختلاف معاذاللہ ضد وفساد وتفرقہ بازی وبائیکاٹ نہیں تھا اس لیے اس فروعی اختلاف کے باوجود سلف صالحین وعلماء اسلام آپس میں انتہاء درجہ محبت وعقیدت رکھتے تھے اورایک دوسرے کو گمراہ اورغلط وباطل نہیں کہتے تھے۔ اس بارے میں سلف صالحین کی سیرتوں میں بے شمار واقعات ومثالیں موجود ہیں ، میں صرف ایک مثال عرض کرتا ہوں إمام مالك بن أنس رحمہ اللہ نے أھل المدينہ یعنی أولاد صحابہ سے علم حاصل کیا اوراسی علم کواپنی کتاب مُوطأ میں جمع کیا ، إمام الشافعي رحمہ اللہ نے إمام مالك بن أنس رحمہ اللھ سے شرف تلمذ حاصل کیا اوران سے علم حاصل کیا اوران کی احادیث کو روایت کیا ، لیکن اس سب کچھ کے باوجود إمام الشافعي رحمہ اللہ نے بہت سارے اجتہادی مسائل میں إمام مالك بن أنس رحمہ اللہ کی مخالفت کی ، لیکن کبھی بھی إمام مالك رحمہ اللہ کے اجتہاد کوغلط نہیں کہا بلکہ یہ فرمایا کہ ، أنا مجتھد وھو مجتھد ولكل مجتھد نصيب ، یعنی میں بھی مجتہد ہوں اور إمام مالك بھی مجتھد ہے اورہرمجتھد کا اپنا نصیب وحصہ ہے ۔اور جب إمام الشافعي رحمہ اللہ سے یہ کہا گیا کہ کیا ہم إمام مالك کے مُقلد کے پیچھے نماز پڑھ سکتے ہیں ؟؟ تو إمام الشافعي رحمہ اللہ غصہ ہوئے اور فرمایا کہ ألستُ أصلي خلف مالك ؟ کیا میں إمام مالك کے پیچھے نماز نہیں پڑھتا ؟یعنی إمام مالك تو میرے شیخ واستاذ ہیں لہذا میں ان کے پیچھے نماز پڑھتا ہوں اگرچہ میں نے بعض أمور اجتھاديہ میں ان کی مخالفت کی ہے ، مثلا إمام مالك رحمہ اللہ فاتحہ اور سورت میں بسم اللھ جھرا (اونچی آوازسے ) پڑھنے کے قائل نہیں ہیں ، لیکن إمام الشافعي رحمہ اللہ بسم اللہ جھرا پڑھنے کے قائل ہیں وغیرہ ذالک اور یہی حال دیگر تمام ائمہ مجتھدین کا ہے ، رحمھم اللہ تعالی
حضرت الامام الشيخ شاہ ولي اللہ الدھلوي رحمہ اللہ اپنی کتاب حجة اللہ البالغة میں اختلاف الصحابة في الأحكام كثير عنوان کے تحت فرماتے ہیں کہ "صحابہ وتابعین میں اور ان کے بعد کے زمانے میں بعض ایسے ہیں جونماز میں بسم اللہ جہراً پڑھتے تھے اور بعض جہراً نہیں پڑھتےتھے اور بعض نمازِ فجر میں دعائے قنوت پڑھتے تھے اور بعض نہیں پڑھتے تھے، بعض پچھنا لگانے، نکسیر پھوٹنے اور قئے کرنے کی وجہ سے وضو کرتے تھے اور بعض نہیں کرتے اور اس کوناقض وضو نہیں سمجھتے، بعض لوگ مس ذکر اور عورت کو شہوت سے ہاتھ لگانے سے وضو کرتے تھے اور بعض نہیں کرتے تھے، بعض لوگ آگ سے پکی ہوئی اشیاء کوکھانے کے بعد وضو کرتے تھے اور بعض نہیں کرتے تھے،بعض اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضو کرتے تھے اور بعض نہیں کرتے تھے"۔(حجۃ ٓللہ البالغہ، بحوالہ رحمۃ اللہ الواسعہ:۲/۷۱۴)
اس کے بعد حضرت الامام الشيخ شاہ ولي اللہ الدھلوي رحمہ اللہ نے اسکی بھی وضاحت فرمائی کہ ائمہ کا یہ اختلاف اندھے تعصب کی وجہ سے نہیں تھا ( بلکہ شرعی دلیل کی بنیاد پرتھا ) لہذا باوجود اس اختلاف وہ ایک دوسرے پیچھے نمازپڑھتے تھے جیسے امام أبو حنيفة اوران کے أصحاب اورامام شافعي وغيرھم رضي اللھ عنھم مدینہ کے مالكي مذھب کے ائمہ کے پیچھے نمازپڑھتے تھے اگرچہ وہ نماز میں بسم اللہ سراً اور جھراً نہیں پڑھتے . اور ھارون الرشید نے سینگی لگانے کے بعد نماز پڑھائی اور الإمام أبو يوسف حنفی نے ان کی امامت میں نماز پڑھی اورنماز کا اعادہ نہیں کیا ، امام أحمد بن حنبل سینگی اورنکسیر آنے کے بعد وضوء کے قائل تھے ، ان سے کہا گیا کہ اگرامام کا خون نکل گیا اور وضوء نہیں کیا توآپ اس کے پیچھے نمازپڑھتے ہیں ؟؟ توفرمایا کیوں نہیں میں الإمام مالك وسعيد بن المسيب کے پیچھے نمازپڑھتا ہوں ، اور روایت کیا گیا ہے کہ امام أبويوسف وامام محمد عیدین میں ابن عباس رضی اللہ عنھما کی تکبیر کہتے تھے کیونکہ ھارون الرشيد اس تکبیر کو پسند کرتے تھے ، اورامام الشافعي رحمہ اللہ نے امام أبي حنيفة رحمہ اللھ کی مقبرہ کے قریب صبح کی نماز پڑھی تو امام أبي حنيفة رحمہ اللہ کی ادب کی وجہ سے نماز میں قنوت نہیں پڑھا،
اورامام الشافعي رحمہ اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ کئی دفعہ ہم أھلُ العراق کے مذھب کو بھی لیتے ہیں الخ حجة اللہ البالغة 1/295،296
حضرت شاہ ولي اللہ الدھلوي رحمہ اللہ نے اس باب میں ایک مستقل کتاب بنام ( ألانصاف في بيان أسباب الاختلاف ) لکھی ہے ، یہ کتاب حجم میں تو اتنی بڑی نہیں ہے لیکن معارف وحقائق سے بھرپور ہے اور تاريخ التشريع اور فقھی اختلافات کے اسباب وعلل وغیرہ مسائل پر مشتمل انتہائی اہم کتاب ہے اھل علم اس کتاب سے استفادہ کرسکتے ہیں ، اسی طرح الإمام السيوطي رحمہ اللَّہ نے اس باب میں جزيلُ المَواھب في اختلاف المَذاھب کے نام سے ایک رسالہ لکھا ہے ، اوربہت سارے علماء امت نے اس باب میں کتب ورسائل ومستقل ابحاث لکھی ہیں ،
ان سے یہ بات واضح اور روشن ہوجاتی ہے کہ ائمہ مجتھدین وسلف صالحین کے مابین فروعی واجتہادی مسائل میں اختلاف شرعی دلیل وبرہان کی بناء پرتھا ضد وتعصب وحسد ونفرت کی بنیاد پرنہیں تھا ، اورپھراس اختلاف کے باوجود وہ ایک دوسرے پر غلط وباطل ہونے کا فتوی نہیں لگاتے بلکہ آپس میں باہم شیر وشکرتھے اورایک دوسرے کے اجتہادات کا احترام کرتے تھے اور آپس میں حد درجہ احترام وعقیدت کا رشتہ رکھتے تھے اورادب واحترام کے اتنے اونچے مقام پرفائز تھے کہ بعض دفعہ دوسرے کسی مجتھد کے قول کے خاطر اپنے اجتہادی قول پرعمل بھی چھوڑ دیتے جیسا اوپر امام الشافعي رحمہ اللہ کی بات ذکرہوئی کہ انھوں نے امام اعظم أبي حنيفة رحمہ اللہ کے ادب کی وجہ سے صبح کی نماز میں قنوت نہیں پڑھا حالانکہ ان کا قول واجتہاد قنوت پڑھنے کا ہے ۔ ان اکابراعلام واسلاف امت کے اس طرح واقعات واحوال بکثرت موجود ہیں ۔
کیا آئمہ مجتہدین کا فروعی مسائل میں اختلاف تفرقہ بازی ہے ؟؟
کیا یہ اختلاف آپس میں جنگ وجدل وحسد وبغض کی وجہ سے ہے یا کسی اور جائز ومقبول ومعقول امور کی وجہ سے ہے ؟؟
مذاہب اربعه اور آئمہ مجتہدین اورفقہاء اسلام کے مابین مسائل میں اختلاف کی وجوہات کیا ہیں ؟
کیا اس طرح کا کوئی اختلاف صحابہ و تابعین میں بھی پایا جاتا تھا؟
اختلاف اور صحابہ :
قرآن وحدیث کے اولین مخاطب حضرات صحابہ تھے، وہ براہِ راست حضور اکرمﷺ سے فیض یافتہ تھے؛ اس لیے وہی حضرات قرآن وحدیث کی مراد کوصحیح طور پرسمجھ سکتے ہیں؛ لہٰذا ان حضرات نے جوسمجھا ہے وہ ہمارے لیے معیار اور مشعلِ راہ ہے اور قرآن ورسول کے ایک ہوتے ہوئےحضراتِ صحابہؓ کے مابین بے شمار مسائل میں اختلاف تھا، ائمہ اربعہ چونکہ ان ہی حضرات اور ان سے فیض یافتہ حضرات یعنی (تابعین) کی فہم وبصیرت پراعتماد کیا ہے اور ان ہی کے اقوال ومذاہب کواختیار کیا ہے؛ اس لیے ائمہ اربعہ کے درمیان جن مسائل میں اختلاف واقع ہوا وہ دراصل صحابہؓ کے اختلاف کی وجہ سے ہوا ہے ۔ حضورِاکرمﷺ کا ارشادِ گرامی ہے :اختلاف امتی رحمۃ۔ ترجمہ:میری امت کا اختلاف رحمت ہے۔ (تفسیرابی السعود:۲/۶۸، داراحیاء التراث العربی ، بیروت)۔حدیث پاک میں جس اختلاف کورحمت فرمایا ہے، اس کا صحیح مصداق یہی صحابہ وائمہ کا اختلاف ہے،۔صحابہ کے باہمی اختلاف کی بےشمار مثالیں حدیث کی کتابوں میں ملتی ہیں، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے صحابہؓ کے اختلاف کے چند نمونے ذکر فرماتے ہیں:
حاصل یہ ہے کہ احادیث کی بنیاد پر صحابہ کے مابین اس طرح کا اختلاف رونما ہوا؛ پھران سے تابعین نے اسی طرح حاصل کیا، اس کو یاد کیا اور سمجھا اور مختلف امور کوجمع کیا اور بعض اقوال کوبعض پرترجیح دی اور بعض کواپنی نظر میں ضعیف سمجھا؛ گرچہ وہ کبارِ صحابہؓ ہی سے مروی تھے؛ پھران سے جب ائمہ نے ان کے علوم کوحاصل کیا توانھوں نے ان سے اسی طرح اخذ کیا جس طرح ان تابعی حضرات نے حضراتِ صحابہؓ سے حاصل کیا تھا۔
آئمہ اربعہ کے درمیان اختلاف کی نوعیت:
مذاھب مُعتبرہ مذاھب أربعه یعنی مالكيہ وحنفيہ وشافعيہ وحنابلہ کے مابین عقائد وأصول الدين میں کوئی اختلاف نہیں ہے بلکہ فروعی مسائل میں ایک جُزئي اورغیرمُضراختلاف ہے اوریہ اختلاف بھی شرعی دلائل وبراہین کی بنیاد پرہے اورتاريخ الإسلام میں کبھی یہ نہیں سنا گیا کہ مذاھب أربعہ کا اختلاف محض جھگڑا ونزاع وفساد ہے۔ یہ پھرفروعی مسائل میں اختلاف صرف مذاہب اربعہ اور آئمہ مجتہدین کے مابین ہی نہیں بلکہ صحابہ کرام کے مابین بھی موجود تھا اورصحابہ کرام جودین اسلام اورقرآن وسنت کے اولین راوی وناقل وحامل جماعت ہے ہم تک سارا دین انھی مقدس ومحترم شخصیات کے واسطے سے پہنچا ہے لہذا جب ان کے مابین فروعی مسائل میں اختلاف موجود تھا تو لازم ہے کہ ان کے بعد آنے والے تابعین وتبع تابعین وعلماء امت کے درمیان بھی یہ اختلاف موجود ہو اورایسا ہی ہوا کہ بعد کے آئمہ مجتہدین وعلماء اسلام کے مابین یہ اختلاف موجود چلا آرہا ہے۔
اختلاف کے اقسام :
علماء کرام نے اسلام میں رد وقبول کے اعتبار سے اختلاف کی دو بنیادی قسمیں بیان کی ہیں ، پہلی قسم ہے اختلاف تضاد (contradiction) ، دوسری قسم ہے اختلاف تنوع (variety)۔
1۔اختلاف تضاد : تضاد لغت میں ضد کوکہتے ہیں جمع اس کی أضداد آتی ہے اور لغت میں ضِدُّ الشَيء کسی چیزکے مخالف ومُبائن اورالٹ چیزکوکہا جاتا ہے اور دو مَتضَاد چیزیں وھ ہوتی ہیں جوآپس میں جمع نہیں ہوسکتے جیسے دن اور رات یعنی دو چیزوں میں اختلاف تضاد کا مطلب یہ ہے کہ دونوں کا اجتماع ناممکن ہو ، بعض علماء نے اختلاف تضاد کی تعریف ألقَولان المُتنَافِيَان سے کی ہے ، اور پھر یہ اختلاف اصول میں ہوتا ہے اور یقینا اھل سنت کے مابین اصول دین میں کوئی اختلاف نہیں ہے لہذا یہ اختلاف مذموم و ناجائز ہے ۔ جیسا کہ أھل سنت والجماعت کا اختلاف فِرَق باطلہ وضالہ کے ساتھ اصول دین میں ۔.
2۔اختلاف تنَوُّع : تنوع کا مطلب یہ ہے کہ کوئ چیز متعدد ہو لیکن حقیقت میں متفق ہو، یعنی ہروه اختلاف جس میں کئ وجوہات جائز ہوں ، اوراس اختلاف میں مُنافات نہیں ہوتا یعنی ایک قول دوسرے کی نفي وإبطال نہیں کرتا بلکہ ہرقول دوسرے کا ایک نوع ہوتا ہے ضد نہیں ہوتا ، اوراس میں تمام اقوال صحیح ہوتے ہیں ، اور پھر یہ کئ قسم پرہوتا ہے مثلا:
ایک یہ کہ دونوں فعل اوردونوں قول جائز وحق ہوں۔ جیسا کہ قرآن کی قرأت کہ صحابہ کے مابین ان میں اختلاف ہوا ، ابن مسعود رضی اللھ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک آدمی کو قراءت کرتے ہوئے سنا حالانکہ میں نے نبی صلى الله عليه وسلم سے اس کے برخلاف پڑھتے ہوئے سنا تھا یعنی جو قراءت یہ آدمی پڑھ رہا تھا نبی صلى الله عليه وسلم سے میں نے اس طرح نہیں سنا لہذا میں نے اس کو نبی صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضرکیا اورمیں نے نبی صلى الله عليہ وسلم کو اس اختلاف کی خبردی ، پس میں نے نبی صلى الله عليه وسلم کے چہرہ ( مبارک ) پرناپسندیدگی کے آثار دیکھے ، اورنبی صلى الله عليہ وسلم نے فرمایا تم دونوں درست ہو، یعنی قراءت کی روایت میں ، علامہ طيبي رحمہ الله فرماتے ہیں کہ وه آدمی اپنی قراءت میں درست ہے اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے جو نبی صلى الله عليہ وسلم سے سنا وہ اس میں درست ہے۔رواہ البخاري
اسی طرح دو مختلف معانی کسی قول سے لیئے جائیں لیکن دونوں متضاد نہ ہوں بلکہ دونوں قول باوجود مختلف ہونے کے صحیح ہوں اوریہ اکثراختلافی مسائل میں موجود ہے اوراس طرح کا اختلاف خود رسول الله صلى الله عليه وسلم کے عہد مبارک میں واقع ہوا ہے اورآپ نے دونوں اقوال کو درست قراردیا ، مثال اس کی یہ ہے : غزوة الأحزاب : کے بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ « من كان يؤمن باللہ واليوم الآخر فلا يصلين العصر إلا في بني قريظة » (رواه البخاري ومسلم وغيرھما). یعنی جوشخص اللہ پراورآخرت کے دن پرایمان رکھتا ہے وھ عصرکی نمازنہ پڑھے مگر بَنی قریظہ میں ، اب جب غروب کا وقت قریب ہوگیا تو رسول اللھ صلى اللھ عليہ وسلم کے اس قول مبارک کے سمجھنے میں صحابہ کرام کے مابین اختلاف واقع ہوگیا ۔بعض صحابہ نے یہ سمجھا کہ مراد اس قول سے سرعت اورجلدی ہے اوراگرنمازکا وقت راستے میں آجائے تو راستے میں پڑھ لی جائے لہذا انھوں نے عصرکی نماز راستے میں ہی پڑھ لی ، لیکن بعض صحابہ نے راستے میں نماز نہیں پڑھی اوراس قول کا مطلب یہ سمجھا کہ ہم عصرکی نماز بني قريظة میں ہی پڑھیں گے اگرچہ غروب کے بعد ہی کیوں نہ ہو ، رسولُ اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے کسی ایک پر بھی انکار نہیں فرمایا بلکہ دونوں کو صحیح قرار دیا ، اوراس طرح کے اختلاف میں دونوں فریق بلاشک مُصیب اوردرست ہیں ۔
غور کیا جائے تو اسی قسم کا اختلاف مذاہب اربعہ اور آئمہ مجتہدین کے مابین بھی بکثرت موجود ہے، کیا کوئ عقل مند شخص مذکورہ بالا حدیث پڑھنے کے بعد یہ کہہ سکتا ہے کہ معاذاللہ یہ اختلاف تفرقہ بازی ہے ؟؟ یادرہے کہ تمام فروعی اختلافی مسائل اسی قسم کے تحت آتے ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ اختلاف جائز ومقبول ومحمود ہے اورائمہ اربعہ کا اختلاف اذان واقامت ، واستفتاح ، وتشھد ، وغیرہ کے الفاظ میں اسی طرح صلاة الخوف ، وتكبيرات العيد، وتكبيرات الجنازة ، وفاتحة خلف الامام ، رفع یدین وعدم رفع یدین ، وآمین بالجھر وغیرہ مسائل میں اختلاف اسی قبیل سے ہیں الخ
کیا یہ فروعی اختلاف کسی جنگ و جدل و نفرت کا باعث بنا؟
یہ اختلاف معاذاللہ ضد وفساد وتفرقہ بازی وبائیکاٹ نہیں تھا اس لیے اس فروعی اختلاف کے باوجود سلف صالحین وعلماء اسلام آپس میں انتہاء درجہ محبت وعقیدت رکھتے تھے اورایک دوسرے کو گمراہ اورغلط وباطل نہیں کہتے تھے۔ اس بارے میں سلف صالحین کی سیرتوں میں بے شمار واقعات ومثالیں موجود ہیں ، میں صرف ایک مثال عرض کرتا ہوں إمام مالك بن أنس رحمہ اللہ نے أھل المدينہ یعنی أولاد صحابہ سے علم حاصل کیا اوراسی علم کواپنی کتاب مُوطأ میں جمع کیا ، إمام الشافعي رحمہ اللہ نے إمام مالك بن أنس رحمہ اللھ سے شرف تلمذ حاصل کیا اوران سے علم حاصل کیا اوران کی احادیث کو روایت کیا ، لیکن اس سب کچھ کے باوجود إمام الشافعي رحمہ اللہ نے بہت سارے اجتہادی مسائل میں إمام مالك بن أنس رحمہ اللہ کی مخالفت کی ، لیکن کبھی بھی إمام مالك رحمہ اللہ کے اجتہاد کوغلط نہیں کہا بلکہ یہ فرمایا کہ ، أنا مجتھد وھو مجتھد ولكل مجتھد نصيب ، یعنی میں بھی مجتہد ہوں اور إمام مالك بھی مجتھد ہے اورہرمجتھد کا اپنا نصیب وحصہ ہے ۔اور جب إمام الشافعي رحمہ اللہ سے یہ کہا گیا کہ کیا ہم إمام مالك کے مُقلد کے پیچھے نماز پڑھ سکتے ہیں ؟؟ تو إمام الشافعي رحمہ اللہ غصہ ہوئے اور فرمایا کہ ألستُ أصلي خلف مالك ؟ کیا میں إمام مالك کے پیچھے نماز نہیں پڑھتا ؟یعنی إمام مالك تو میرے شیخ واستاذ ہیں لہذا میں ان کے پیچھے نماز پڑھتا ہوں اگرچہ میں نے بعض أمور اجتھاديہ میں ان کی مخالفت کی ہے ، مثلا إمام مالك رحمہ اللہ فاتحہ اور سورت میں بسم اللھ جھرا (اونچی آوازسے ) پڑھنے کے قائل نہیں ہیں ، لیکن إمام الشافعي رحمہ اللہ بسم اللہ جھرا پڑھنے کے قائل ہیں وغیرہ ذالک اور یہی حال دیگر تمام ائمہ مجتھدین کا ہے ، رحمھم اللہ تعالی
حضرت الامام الشيخ شاہ ولي اللہ الدھلوي رحمہ اللہ اپنی کتاب حجة اللہ البالغة میں اختلاف الصحابة في الأحكام كثير عنوان کے تحت فرماتے ہیں کہ "صحابہ وتابعین میں اور ان کے بعد کے زمانے میں بعض ایسے ہیں جونماز میں بسم اللہ جہراً پڑھتے تھے اور بعض جہراً نہیں پڑھتےتھے اور بعض نمازِ فجر میں دعائے قنوت پڑھتے تھے اور بعض نہیں پڑھتے تھے، بعض پچھنا لگانے، نکسیر پھوٹنے اور قئے کرنے کی وجہ سے وضو کرتے تھے اور بعض نہیں کرتے اور اس کوناقض وضو نہیں سمجھتے، بعض لوگ مس ذکر اور عورت کو شہوت سے ہاتھ لگانے سے وضو کرتے تھے اور بعض نہیں کرتے تھے، بعض لوگ آگ سے پکی ہوئی اشیاء کوکھانے کے بعد وضو کرتے تھے اور بعض نہیں کرتے تھے،بعض اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضو کرتے تھے اور بعض نہیں کرتے تھے"۔(حجۃ ٓللہ البالغہ، بحوالہ رحمۃ اللہ الواسعہ:۲/۷۱۴)
اس کے بعد حضرت الامام الشيخ شاہ ولي اللہ الدھلوي رحمہ اللہ نے اسکی بھی وضاحت فرمائی کہ ائمہ کا یہ اختلاف اندھے تعصب کی وجہ سے نہیں تھا ( بلکہ شرعی دلیل کی بنیاد پرتھا ) لہذا باوجود اس اختلاف وہ ایک دوسرے پیچھے نمازپڑھتے تھے جیسے امام أبو حنيفة اوران کے أصحاب اورامام شافعي وغيرھم رضي اللھ عنھم مدینہ کے مالكي مذھب کے ائمہ کے پیچھے نمازپڑھتے تھے اگرچہ وہ نماز میں بسم اللہ سراً اور جھراً نہیں پڑھتے . اور ھارون الرشید نے سینگی لگانے کے بعد نماز پڑھائی اور الإمام أبو يوسف حنفی نے ان کی امامت میں نماز پڑھی اورنماز کا اعادہ نہیں کیا ، امام أحمد بن حنبل سینگی اورنکسیر آنے کے بعد وضوء کے قائل تھے ، ان سے کہا گیا کہ اگرامام کا خون نکل گیا اور وضوء نہیں کیا توآپ اس کے پیچھے نمازپڑھتے ہیں ؟؟ توفرمایا کیوں نہیں میں الإمام مالك وسعيد بن المسيب کے پیچھے نمازپڑھتا ہوں ، اور روایت کیا گیا ہے کہ امام أبويوسف وامام محمد عیدین میں ابن عباس رضی اللہ عنھما کی تکبیر کہتے تھے کیونکہ ھارون الرشيد اس تکبیر کو پسند کرتے تھے ، اورامام الشافعي رحمہ اللہ نے امام أبي حنيفة رحمہ اللھ کی مقبرہ کے قریب صبح کی نماز پڑھی تو امام أبي حنيفة رحمہ اللہ کی ادب کی وجہ سے نماز میں قنوت نہیں پڑھا،
اورامام الشافعي رحمہ اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ کئی دفعہ ہم أھلُ العراق کے مذھب کو بھی لیتے ہیں الخ حجة اللہ البالغة 1/295،296
حضرت شاہ ولي اللہ الدھلوي رحمہ اللہ نے اس باب میں ایک مستقل کتاب بنام ( ألانصاف في بيان أسباب الاختلاف ) لکھی ہے ، یہ کتاب حجم میں تو اتنی بڑی نہیں ہے لیکن معارف وحقائق سے بھرپور ہے اور تاريخ التشريع اور فقھی اختلافات کے اسباب وعلل وغیرہ مسائل پر مشتمل انتہائی اہم کتاب ہے اھل علم اس کتاب سے استفادہ کرسکتے ہیں ، اسی طرح الإمام السيوطي رحمہ اللَّہ نے اس باب میں جزيلُ المَواھب في اختلاف المَذاھب کے نام سے ایک رسالہ لکھا ہے ، اوربہت سارے علماء امت نے اس باب میں کتب ورسائل ومستقل ابحاث لکھی ہیں ،
ان سے یہ بات واضح اور روشن ہوجاتی ہے کہ ائمہ مجتھدین وسلف صالحین کے مابین فروعی واجتہادی مسائل میں اختلاف شرعی دلیل وبرہان کی بناء پرتھا ضد وتعصب وحسد ونفرت کی بنیاد پرنہیں تھا ، اورپھراس اختلاف کے باوجود وہ ایک دوسرے پر غلط وباطل ہونے کا فتوی نہیں لگاتے بلکہ آپس میں باہم شیر وشکرتھے اورایک دوسرے کے اجتہادات کا احترام کرتے تھے اور آپس میں حد درجہ احترام وعقیدت کا رشتہ رکھتے تھے اورادب واحترام کے اتنے اونچے مقام پرفائز تھے کہ بعض دفعہ دوسرے کسی مجتھد کے قول کے خاطر اپنے اجتہادی قول پرعمل بھی چھوڑ دیتے جیسا اوپر امام الشافعي رحمہ اللہ کی بات ذکرہوئی کہ انھوں نے امام اعظم أبي حنيفة رحمہ اللہ کے ادب کی وجہ سے صبح کی نماز میں قنوت نہیں پڑھا حالانکہ ان کا قول واجتہاد قنوت پڑھنے کا ہے ۔ ان اکابراعلام واسلاف امت کے اس طرح واقعات واحوال بکثرت موجود ہیں ۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔