جدید فزکس الحاد و دہریت کو کیوں رد کرتی ہے؟ سکاٹ ینگرن کے تحقیقی مکالے سے جھلکیاں
mathematical physics کے شعبے میں Heinemann پرائز یافتہ Robert Griffiths کہتے ہیں : ” جب بھی ہم کسی ملحد اور دہریے سے بحث میں مشغول ہوتے ہیں، ہمیں فلسفے کے شعبے میں جانا پڑتا ہے۔ اس کُشتی کے لیے ابھی تک فزکس کے اکھاڑے کو موثر انداز سے استعمال نہیں کیا گیا۔ ” ( ٹی۔ ایچ۔ کی کا ایک قول جس کا اردو ترجمہ ہرگز لطف نہ دے گا، درج ذیل ہے) “ ! What is mind? Never matter. What is matter? Never mind“ (T.H. Key)
بظاہراً ہم سب ہی اس پہیلی سے واقف ہیں کہ ” انڈہ پہلے تھا یا مرغی ؟ "۔ لیکن بہت کم لوگ اس بات سے آگاہ ہیں کہ خدا کے وجود کا سوال ایک حقیقی مسئلہ ہے جو مرغی اور انڈے کی اس پہیلی کو ایک سنجیدہ علمی مشاکلے میں ڈھال دیتا ہے۔ شعور (Mind) پہلے تھا یا مادہ (Matter) ؟ باالفاظِ دیگر شعور مادے کی پیداوار ہے یا مادے نے شعور سے جنم لیا ہے۔ ہماری یہ کائنات اپنی حقیقت میں مادی ہے یا غیر مادی اور شعوری ہے۔ یہ بات بہت سے لوگوں کے لیے حیرت کا باعث ہو گی کہ جدید فزکس نے بھی اس بات کا جواب دینے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ جدید فزکس اس سوال کا جو جواب دیتی ہے وہ عوام کی اکثریت کو اس بات پر مجبور کر دے گی کہ وہ کائنات کے بارے میں اپنے ادراک کی نفی کریں اور اسے از سرِ نو تشکیل دیں۔ سٹیفن سی مئیر ( اس نے کیمبرج یونیورسٹی سے History اور Philosophy Of Science میں ڈاکٹریٹ کر رکھی ہے) اپنی کتاب”Signature in the Cell ” میں لکھتے ہیں: ” قدیم یونانیوں کے دور سے ہی مغربی مفکرین کے ذہن میں ” حقیقتِ کلی” کی دو تصاویر ہیں۔ اس (حقیقت) کو جرمن میں” Weltanschauung” یا ” کلی نظریہ ” (Worldview) بھی کہتے ہیں۔ ایک ورلڈ ویو کے مطابق شعور ہی حقیقتِ کلی ہے . اس نظریے کے مطابق یا تو مادے کا صدور پہلے سے موجود شعور (Mind) سے ہوا ہے یا پیشگی قائم ” عقلِ کلی ” (Intellect) نے اس کی تشکیل کی ہے۔ حقیقت کا یہ تصور ” مثالیت ” (Idealism) کہلاتا ہے یعنی عالمِ امثال پہلے ہے اور مادہ (Matter) بعد میں ہے۔ نظریہ مثالیت مذہب اور خدا پرستی کی نظریاتی اساس ہے کہ خدا اس عالمِ امثال کا خالق یا اس کی علت (source) ہے، جس سے باقی تمام عوالم اور مادی کائنات کی تشکیل ہوئی ہے۔ دوسرے ورلڈ ویو کی پوزیشن یہ ہے کہ مادی کائنات اور ظاہری فطرت ” ہی حقیقتِ کلی ہے۔ اس نظریے کے مطابق ہر شے کا صدور مادے (Matter) یا توانائی (Energy) سے ہوا ہے۔ یہ ازلی ہے اور اس کا خود سے موجود ہونا وجوب کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسے نہ کسی علت (Source) کی حاجت ہے اور نہ کسی ایسے مصدر کی، جس نے اس کی تشکیل کی ہو۔ اس ورلڈ ویو کی رُو سے مادہ شعور پر وجودی و مکانی تقدم رکھتا ہے اور شعور مادی تعاملات اور اس کے بالواسطہ ارتقائی تغیرات کی پیداوار ہے۔ یہ ورلڈ ویو فطرت پرستی (Naturalism) یا مادیت پرستی (Materialism) کہلاتا ہے۔
ان دو نظریاتِ کلی کے علاوہ اور کوئی تیسرا موقف موجود نہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کو اس مبحث میں شامل ہونے کیلئے ان میں سے کسی ایک پوزیشن کو اختیار کرنا پڑتا ہے۔ ” میکس پلانک ( Max Planck : نوبل انعام یافتہ ماہرِ فزکس جس نے کوانٹم فزکس کی بنیاد رکھی ) کہتے ہیں : ” ایک ایسے شخص کے طور پر کہ جس نے سائنسی اصولوں کی روشنی میں بیدار مغزی اور روشن دماغی سے مادے (matter) کا مطالعہ اور تجزیہ کرنے میں اپنی پوری زندگی وقف کر دی، میں ایٹمز (Atoms) سے متعلق اپنی تحقیق کا نچوڑ ان جملوں میں بیان کر سکتا ہوں کہ دراصل مادہ (Matter) اپنا کوئی ذاتی وجود نہیں رکھتا (مادہ وجود بالذات ہرگز نہیں)۔ یہ دراصل اس قوت (force) سے جنم لیتا ہے اور تشکیل پاتا ہے، جو ایک ایٹم کے ذرات (Particles of Atom) کو تحرک بخشتی ہے اور اس ننھے ترین نظامِ شمسی یعنی ایٹم کی بقا کا سامان کرتی ہے۔ اس قوت (force) کے پیچھے ہم ایک اعلیٰ ترین شعور یا عقلِ کلی کی کارفرمائی دیکھتے ہیں۔ یہ شعور (Mind) ہی دراصل اس مایا جال کا رحمِ مادر ( Matrix of all matter) ہے۔ ” البرٹ آئن سٹائن (Albert Einstein : بیسویں صدی کا سب سے بڑا ماہرِ فزکس جسے انسانی تاریخ کا سب سے بڑا سائنسدان کہا جائے تو غلط نہ ہو گا ) یوں رقم طراز ہوتے ہیں : ” ہر وہ انسان جو سائنس کے میدان کا باقاعدہ اور ماہر کھلاڑی ہے، اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ اس کائنات کے تمام قوانینِ فطرت میں ایک اعلیٰ ترین قوت کارفرما ہے۔ ایک ایسی برتر طاقت جو انسان پر اپنا مکمل تسلط رکھتی ہے اور جس کے سامنے انسان اور اس کی تمام معمولی قوتیں ہِیچ ہیں۔
” نوبل انعام یافتہ ماہرِ فزکس Eugene Wigner کہتے ہیں : ” Quantum Mechanics کی تخلیق کے بعد سے، جب Physical Theory کی حدود Microscopic Phenomena تک وسیع ہو گئیں، شعور Consciousness کا تصور دوبارہ سے وجود کی بحثوں میں در آیا ہے۔ شعور (Consciousness) کے حوالے کے بغیر Quantum Mechanics کے اصول و قوانین کو متواتر اور بلا تضاد انداز میں وضع کرنا بالکل ناممکن ہے …… اور شعورِ کلی اپنی تمام تفصیلات اور پھیلاؤ میں ایک بدیہی حقیقت ہے۔ ” سر آرتھر ایڈنگٹن ( Sir Arthur Eddington : جو ایک عظیم ماہرِ فزکس ہیں) یوں رقم طراز ہیں: ” میری رائے میں ایک اعلی ترین شعور (Universal Mind or Logos) کا تصور سائنسی نظریے (Scientific Theory) سے ایک قرینِ قیاس استنباط ہے۔ ” (Logos کی ” کلمۃ اللہ یا اسم اللہ ” کے طور پر تعریف کی جاتی ہے۔ اسے حکمِ الہیٰ اور تخلیقی ترتیب و تسلسل کا بنیادی اصول مانا جاتا ہے۔ ) سر جیمز جینز ( Sir James Jeans : ایک عظیم ریاضی دان، ماہرِ فزکس و ماہرِ فلکیات ) اپنی کتاب ” The Mysterious Universe ” میں لکھتے ہیں: ” طبیعاتی سائنس کے ماہرین کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ سائنسی علوم کا دھارا اب غیر میکانکی حقائق کی جانب بہہ رہا ہے۔ یہ کائنات اب کسی "عظیم مشین” کی بجائے کسی اعلیٰ ترین شعور کا ایک ” بڑا خیال ” محسوس ہوتی ہے۔ ” مادے” کی سلطنت میں ” شعور ” کو اب ایک حادثاتی در انداز کے طور پر نہیں دیکھا جاتا۔ ہم اب اس جانب دھیان دے رہے ہیں کہ ہمیں مادے کی علت و حاکم کے طور پر "شعور” کو خوش آمدید کہنا چاھیے۔ ” اب اس بات میں شک کا کوئی امکان نہیں ہے کہ "مادے” یا ” شعور ” کی حاکمیت کی بحث میں جدید فزکس کس گروہ کی حامی ہے۔ جدید فزکس اب مادیت پرستی کو مکمل طور پر مسترد کر چکی ہے۔ Johns Hopkins University کے ماہرِ فزکس Richard
Conn Henry اپنی کتاب ” The ultimate cause of atheism ” میں لکھتے ہیں : ” آئزک نیوٹن یہ بات وثوق سے کہتے ہیں کہ اجسام اپنی ایک مکمل , مطلق اور آزاد حقیقت رکھتے ہیں جو ان کے اندر ہی موجود ہے۔ ” مادی اشیاء اپنے اندر اپنی کوئی مکمل، مطلق اور آزاد حقیقت نہیں رکھتے کیونکہ جدید فزکس کے مطابق مادہ ” شعور ” کے وجودی تسلط سے دستبردار ہو کر اپنی کوئی شناخت نہیں رکھتا۔ ایسی کوئی حقیقت وجود نہیں رکھتی جو اعلیٰ ترین شعور کی دست نگر نہ ہو۔ University of California سے تعلق رکھنے والے Berkeley physicist ھنری سٹیپ اپنی کتاب ” Mindful Universe ” میں لکھتے ہیں : ” عصرِ حاضر کا مروجہ اور بنیادی طبیعاتی نظریہ (Physical Theory) شعور کے فلسفے (Philosophy Of Mind) میں پائے جانے والے دعاوی کے برعکس ان نتائج تک پہنچتا ہے کہ کہ طبیعاتی سائنس کی بڑھوتری کا دروازہ ابھی بند نہیں ہوا ہے۔ لہذا شعور و عقل جیسے موضوعات پر طبیعاتی ڈسکورسز کی تمام تر تحقیق ان موضوعات کا مکمل احاطہ نہیں کرتی اور نہ ہی عقل و شعور کی تمام حرکیات کو سمجھنے اور بیان کرنے کی ذمہ داری اٹھاتی ہے۔ ” مختصراً یہ کہ کلاسیکل Quantum Mechanics کے برخلاف مروجہ Quantum Physics .کسی ایسی مادی دنیا کا تصور بھی نہیں کرتی جو انسانتی تجربات اور شعور سے الگ تھلگ رہ کر اپنی کوئی ذاتی شناخت رکھتی ہو
Princeton University کے quantum physics کے ایک ماہر Freeman Dyson ھنری سٹیپ کے ان دلائل کی کچھ یوں وضاحت کرتے ہیں : ” ایٹمز (Atoms) اپنی فطرت میں عجیب و غریب ہوتے ہیں۔ یہ ایک جامد مواد (Inert Substance) کی بجائے ایک فعال کارگزار ( active agent ) کی طرح کام کرتے ہیں۔ Quantum Mechanics کے قوانین کے مطابق یہ متبادل ممکنات میں غیر متوقع انتخاب کرتے ہیں۔ یہ بھی شعور کی مانند خِلقی طور پر انتخاب کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ یہ کائنات (Universe) بھی ایک معمہ ہے۔ اس کے قوانینِ فطرت (Laws Of Nature) شعور کے پودے کی بڑھوتری کے لیے زمین زرخیز کرتے ہیں۔ مجھے خدا اور ایک اعلیٰ ترین شعور کی حامل علیم و خبیر ہستی میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا۔ جب شعور کا تصور ہمارے فہم و ادراک کی سرحد سے باہر نکل جائے تو ایک خدائی حقیقت میں ڈھل جاتا ہے۔ ” ماہرِ فزکس George Stanciu اور فلسفی Robert Augros اپنی کتاب ” The New Story Of Science ” میں اس بات کی جامع وضاحت کرتے ہیں کہ مادیت پرستوں اور فطرت پرستوں کا ورلڈ ویو کیوں اب سائنسی اور فلسفیانہ حمایت و توثیق سے محروم ہے۔ ان کی یہ وضاحت مندرجہ بالا نکات کا ابہام دور کرکے انہیں قابلِ فہم بنا دیتی ہے۔ یہ لکھتے ہیں : ” سائنس کی نئی کہانی میں یہ پوری کائنات بشمول مادہ (Matter) , توانائی (Energy) , زمان و مکان (Time and Space) محض ایک زمانی واقعہ (One-Time Event) ہے اور اس کا ایک معین آغاز ہے جب یہ پیدا ہوئی۔ کوئی وجود تو ایسا ہے جسے ازلی و ابدی (واجب الوجود) ہونا چاہیے، کیونکہ اگر کوئی وجودِ مطلق نہ ہوتا تو کسی بھی وجود کا موجود ہونا بعید از قیاس تھا، یعنی یہ بات ناممکنات میں سے ہے کہ ظواہر اور مظاہر بغیر کسی علت کے وجود میں آ جائیں۔ یہ مادی کائنات ازلی نہیں کیونکہ مادے کی تخلیق و ظہور کی بھی ایک زمانی و مکانی شروعات ہے۔ مادہ زیادہ سے زیادہ 12 ارب سے 20 ارب سال پرانا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے جو ہستی ازلی ہے وہ ہرگز مادی نہیں اور مادہ اس عظیم علت کا معلول ہے۔ وہ غیر مادی ہستی اعلیٰ ترین درجے کے شعور کی حامل ہے اور اعلی ترین شعور رکھنے والی ہستی ہی مادے کی خالق ہے۔ یہ تمام تحقیق ایک العلیم الخبیر اور الحیی و القیوم ہستی کے وجود کی جانب اشارہ کرتی ہے اور یہی وہ قادرِ مطلق ہستی ہے جسے ہم خدا کہتے ہیں۔ "
ان تمام آراء کے باوجود مادیت پرستی ابھی بھی چند علمی ڈسکورس کا ایک جزوِ لانیفک ہے، اس کی کچھ نظریاتی وجوہات ہیں مادیت پرستی کو جدید فزکس نے رد کر دیا ہے، جبکہ بائیولوجی کے اصول و مبادی ابھی بھی مادیت پرستی و فطرت پرستی کو ایک meta-narrative یا meta rationale کے طور پر قبول کرتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے ؟ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ فزکس سائنس کی وہ شاخ ہے جو سائنس کو فلسفہ اور مذہب سے جدا کرنے والی سرحد سے قریب ترین ہے۔ یہ بائیولوجی کے مقابلے میں ڈسکورسز کے اس بارڈر کے زیادہ نزدیک ہے۔ باا لفاظِ دیگر فزکس سائنس کی وہ شاخ ہے جو کائنات کی حقیقت اور وحدت کی ایک بڑی اور بنیادی ترین تصویر پیش کرتی ہے۔ Yale University کے Harold J. Morowitz نامی biophysicist اپنے ایک مقالے ” Rediscovering the Mind ” اس موضوع پر جدید فزکس اور mainstream بائیولوجی کے بنیادی اختلافات کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ” امرِ واقع یہ ہے کہ وہ بائیولوجسٹ جو کبھی فطرت کے تنظیمی ڈھانچے میں شعور کا ایک استحقاقی کردار تسلیم کرتے تھے، اب کٹھور پن کے ساتھ تیزی سے اس انداز سے مادیت پرستی کے دلدادہ ہوتے ہیں جا رہے ہیں جو کبھی انیسویں صدی عیسوی کے ماہرینِ فزکس کی روش تھی۔ اسی اثنا میں، موجودہ ماہرینِ فزکس تجرباتی ثبوتوں (Experimental Evidence) کی روشنی میں یہ بات تسلیم کرنے کی جانب تیزی سے مائل ہیں کہ کائنات کو بیان کرنے والے mechanical models کی بنسبت مادی و طبیعی وقوعات میں ایک ” اعلیٰ ترین شعور” کا ہونا زیادہ اہم اور کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ فزکس اور بائیولوجی دو ایسی برق رفتار ریل گاڑیاں بن چکی ہیں جو تیزی سے ایک دوسرے کی مخالف سمت میں دوڑ رہی ہیں اور انہیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ ان کی اپنی پٹری کے آر پار کیا چل رہا ہے۔ ” ملحد ماہرینِ حیاتیات (Atheist Biologists) مادیت پرستی/ فطرت پرستی کے نظریات سے چمٹے ہوئے ہیں جبکہ جدید فزکس بھرپور انداز سے اس کا رد کرتی ہے۔
ماہرِ فزکس Richard Conn Henry اس بات کی کچھ یوں وضاحت کرتے ہیں : ” لوگ اس کائنات کی حقیقت کے کسی ایسے تصور پر کیوں جمے ہوئے ہیں جو کسی برتر اعلیٰ ترین شعور سے بے نیاز ہے ؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اگر حقیقت کا ایسا تصور موجود نہیں ہو گا تو لازماً کسی اعلیٰ ترین شعور کا ہونا لازم آئے گا۔ اگر شعور (mind) مادے (matter) کی تخلیق نہیں ہے، بلکہ مادی حقیقت کے فریبِ نظر کا خالق ہے ( جیسا کہ امرِ واقع یہی ہے اور1925 میں کوانٹم فزکس کی دریافت کے بعد سے مادیت پرستوں پر یہ بات آشکارا ہے ) تو خدا پرستی (Theism) ہی وہ شارحِ واحد sole definer بن جائے گا جو اس دنیا میں ہمارے وجود کی عقلی تاویل کرے اور نظریہ انا پرستی (solipsism : یہ تصور کہ وجود بس وہی ہے جو حسی طور پر معلوم ہے ) یتیم ہو جائے گا۔ ” فطرت پرستی / مادیت پرستی محض ایک ملحدانہ ورلڈ ویو کی تشکیل ہی کر سکتا ہے۔ الحاد کے قیام و دوام کے لیے اس بات کا اثبات ضروری ہے کہ شعور ایک بے شعور مادے کی تخلیق ہے۔ اس لیے ایک ملحد کو جدید فزکس سے پیدا ہونے والی اس بصیرت (مادہ شعور کا معلول ہے اور شعور مادے کی علت ہے ) کو نظر انداز کرنا چاہیے اور اس سے انجان بنے رہنا چاہیے تاکہ وہ اپنے ایمانی و ایقانی نظام یعنی الحاد و دہریت کو دلائل کے میدان میں شکست و ریخت کے عمل سے بچا سکے۔ اور چونکہ مادیت پرستی / ظواہر پرستی بائیولوجی اور دیگر ڈسکورسز سے تعلق رکھنے والے ملحدوں کی جزیراتی دنیا میں ایک غالب سماجی سیاق و سباق ہے، چنانچہ اس کے بچاؤ کے لیے جدید فزکس سے اجتماعی طور پر تجاہلِ عارفانہ برتا گیا ہے۔ جیسا کہ Oxford University اور University of Massachusetts کے بائیولوجی کے پروفیسر Lynn Margulis ( انہیں سائنس کے شعبے میں امریکہ کا صدارتی تمغہِ حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا ) اپنی کتاب ” The Altenburg 16: An Expose of the Evolution Industry ” میں لکھتے ہیں : ” لوگ اور بالخصوص سائنسدان ( اگر وہ بے روزگار نہ ہوں ) تو کسی سچ یا حقیقت کے خیالی تصور کی بجائے اپنے نظریاتی قبیلے سے زیادہ وفادار ہوتے ہیں۔ یہ ایک پیشہ ورانہ خود کشی ہو گی کہ لوگ اپنے اساتذہ اور سماجی رہنماؤں سے (meta principles میں ) مستقل طور پر اختلاف کا تعلق رکھیں۔ "
یہ کہنا سادہ لوحی ہے کہ ماہرینِ حیاتیات کی صفوں میں الحاد کی روایتی اور سماجی برتری ہی وہ بنیادی عنصر ہے جو بائیولوجی کے مرکزی دھارے کو فطرت پرستی پر ایمان لانے کے لیے آمادہ رکھتا ہے۔ ماہرینِ حیاتیات حیات کے مختلف مظاہر کی وضاحت کرنے کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔ چنانچہ اگر ماہرینِ حیاتیات خدا کے وجود کا اثبات کریں گے تو انہیں یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ مظاہرِ حیات کے کئی ایسے پہلو بھی ہیں جو سائنس کی اقلیم سے ماورا ہیں۔ اس بات پر کسی کو حیرت زدہ نہیں ہونا چاہیے کہ ماہرینِ حیاتیات ایسے کسی بھی اثبات کو اپنے لیے ذلت و رسوائی سمجھتے ہیں۔ قارئین کے لیے یہ بات جاننا ناگزیر ہے کہ جو مندرجات ملحد ماہرینِ حیاتیات (atheist biologists) الحاد کے حق میں سائنسی دلائل و نتائج کے طور پر پیش کرتے ہیں، وہ دراصل الحاد کے وہ بُودے مفروضے ہیں جو فلسفیانہ بنیادوں پر تعمیر کیے گئے ہیں اور جو سائنسی تحقیقات (Scientific Inquiry) کی گردن پر اپنا پاؤں رکھ کر، اسے اپنی چھننی کے باون چھیدوں سے گزار کر اس کی صفائی کرتی ہے اور پھر تروڑ مروڑ کر انہیں پیش کرتی ہے۔ Harvard University کے ماہرِ جینیات Richard C. Lewontin نے 1997ء نے سرِ عام اس بات کا اعتراف ان الفاظ میں کیا : ” سائنسی ادارے یا scientific methods ہمیں اس بات پر ہرگز مجبور نہیں کرتے کہ ہم مظاہرِ کائنات کی مادی تشریحات و توضیحات (Material Explanations) کو مِن و عن قبول کر لیں، لیکن ہم مادی علتوں کی ایک قیاسی و بنفسہ وابستگی کے ہاتھوں مجبورِ محض ہیں اور تحقیقات و تفتیشات اور تصورات و قوانین کا ایک ایسا نظام تشکیل دینے پر ہمہ وقت راضی ہیں جو مظاہرِ حیات کی مادی تشریحات کرے، چاہے یہ تشریحات انسانی بدیہات سے کتنی ہی مختلف کیوں نہ ہوں اور ان کی پراسراریت کتنی ہی ہولناک کیوں نہ ہو۔ مادیت پرستی ہی اب حقیقت مطلق ہے، کیونکہ ہم خدا نامی کسی ہستی کو کائنات کے دروازے میں اپنا پاؤں پھنسانے کی اجازت نہیں دے سکتے.
” Werner Heisenberg ( جسے quantum mechanics کی تخلیق پر فزکس کے نوبل انعام سے نوازا گیا ) نے خدا کے وجود پر فزکس اور بائیولوجی کی دو لختی کی بہترین انداز سے وضاحت کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں : ” نیچرل سائنسز کے گلاس کے مشروب کا پہلا گھونٹ تمہیں ملحد اور دہریہ بنا دے گا۔ لیکن جب تم ( یہ جام پیتے پیتے ) اس گلاس کے پیندے تک پہنچو گے، تو خدا وہاں تمہارا منتظر ہو گا۔ ” اس اصطلاح ” گلاس کے پیندے ” کو استعمال کرتے ہوئے Heisenberg حقیقتِ کائنات کے ان بنیادی ترین عناصر کی جانب اشارہ کر رہے ہیں جن پر فزکس تحقیق کرتی ہے۔ Kings College, London کے فلسفے کے ریٹائرڈ پروفیسر اور Council of the Royal Institute of Philosophy کے ممبر Keith Ward اپنی کتاب ” ? Is Religion Irrational ” میں لکھتے ہیں : ” مادیت پرست فلسفی کہتے ہیں کہ شعورِ کُلی مادے کی تخلیق ہے۔ لیکن افلاطون (Plato) اور مشرق و مغرب کے تمام عظیم کلاسیکل فلسفیوں کی رائے اس سے مختلف ہے۔ ( ان کے مطابق ) مادہ اپنے تمام تر ظواہر و مظاہر کے ساتھ ایک اعلیٰ ترین شعور کی تخلیق ہے۔ شعورِ کلی ایک حقیقت ہے اور اس میں تخلیقی قوت موجود ہے۔ یہ ہماری معلوم کائنات کی ضمنی پیداوار (by-product) نہیں ہے۔ اس کے بغیر ہماری پوری معلوم کائنات کا وجود ناممکن تھا۔ Quantum Physics کے ایک ماہر John von Neumann کہتے ہیں : ” تمام حقیقی اشیاء دراصل اجزائے شعور ہیں۔ ” یہ بات مادیت پرستی کی روش سے کوسوں دور ہے اور یہ جدید فزکس کے موقف کی ترجمانی کرتی ہے، نہ کہ مذہب سے متاثر کوئی نظریہ پیش کرتی ہے۔ "
ڈاکٹر عبدالسلام ( جنہیں 1979 ء میں electroweak theory پر ان کی تحقیق کے صلے میں فزکس کے شعبے میں نوبل انعام سے نوازا گیا ) اپنی ایک مقالے ” Science and Religion ” میں لکھتے ہیں : ” احساسِ تحیر اور جستجو سائنسدانوں کی ایک بزرگ و برتر ہستی (Superior Being & der Alte) کی جانب رہنمائی کرتی ہے، جسے آئن سٹائن بڑی محبت سے ” خدا ” (Deity) کہتا ہے : ایک قادرِ مطلق، العلیم و الخبیر اور تمام مخلوقات اور قوانینِ فطرت کا خالق و مالک۔ ” مشہور ماہرِ فزکس اور ریاضی دان James Clerk Maxwel ( جنہوں نے classical electromagnetic theory پیش کی اور جن کی سائنس کے لیے خدمات آئن سٹائن اور نیوٹن سے کسی طور کم نہیں ) کہتے ہیں : ” میں نے تقریباً تمام فلسفیانہ نظاموں کو اچھی طرح کھنگالا ہے اور میں اس نتیجے تک پہنچا ہوں کہ خدا کے بغیر کسی شے وجود اور اس کی فعالیت ناممکن ہے۔ ” ایک اور جگہ Maxwel لکھتے ہیں : ” مادے کے ازلی اور واجب الوجود ہونے کے دلائل فرایم کرنے میں ناکام ہے۔ ہم اپنی سائنسی فہم و ذکاء کی آخری سرحد پر پہنچ کر یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ مادہ مخلوق ہے کیونکہ اس کا ازلی و ابدی ہونا ناممکن ہے۔ ” Compton Effect کو دریافت کرنے والے نوبل انعام یافتہ ماہرِ فزکس Arthur Compton کہتے ہیں : ” میرے نزدیک ایمان اس ایقان و ادراک سے جنم لیتا ہے کہ عظیم ترین خالق نے اس کائنات کی تخلیق کی اور انسان کو پیدا کیا۔ میرے لیے اس بات پر ایمان لانا کوئی مشکل نہیں کیونکہ یہ ایک ناقابلِ تردید مسلمہ ہے کہ جہاں کوئی منصوبہ دکھائی دے گا، لازماً اس کا کوئی خالق اور منصوبہ ساز بھی ہو گا۔ خود کو آشکار کرتی یہ کائنات اس عظیم ترین کلمے کی سچائی کی شہادت دیتی ہے کہ خدا ہی ہر شے کا اول و آخر ہے۔ "
نوبل انعام یافتہ ماہرِ فزکس Max Born ( جنہوں نے Quantum Mechanics کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کیا ) کہتے ہیں : ” جو لوگ یہ کہتے ہیں سائنس انسان کو ملحد بناتی ہے، وہ اولین درجے کے بیوقوف ہیں۔ ” ایک اور جگہ پر وہ لکھتے ہیں : ” جو عقیدہ بھی خدا کے بنائے ہوئے قانونِ فطرت کو رد کرتا ہے، میرے نزدیک وہ ناقابلِ قبول ہے , کیونکہ یہ خدا کا ایک ایسا شکستہ تصور قائم کرتا ہے، جو اس کے اصل مرتبے سے کم تر ہے۔ جب خدا کہتا ہے کہ سب کچھ اس کہ دستِ قدرت میں ہے اور وہ اپنے قوانین کے ذریعے اس کائنات کا نظام چلا رہا ہے تو یقیناً ایسا ہی ہے۔ لیکن خدا اپنے بنائے ہوئے نظام کے ہاتھوں مجبور نہیں۔ انسان اپنے بنائے ہوئے نظام میں مقید ہو سکتا ہے، خدا نہیں۔ ” Lord William Kelvin ( جن کا thermodynamics میں تحقیقی کام Absolute Zero اور the Kelvin temperature scale کی تشکیل کی بنیاد بنا ) کہتے ہیں : ” جتنا سائنس کو مکمل طور پر ( اس کی اپنی شرائط کے مطابق ) پڑھا جائے گا، اتنا ہی یہ انسان کو الحاد اور دہریت سے دور لے جائے گی۔ "
نوبل انعام یافتہ ماہرِ فزکس Max Planck ( جنہوں نے Quantum Mechanics کی بنیاد رکھی اور تاریخِ انسانی کے اہم ترین ماہرینِ فزکس میں سے ایک ہیں ) اپنے 1937ء کے ایک لیکچر ” Religion and Natural Science ” میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں : ” مذہب اور سائنس دونوں کو خدا پر ایمان کی ضرورت ہے۔ مذہبی آدمی کے نزدیک خدا ازلی ہے اور ہر شے کا اول ہے، جبکہ ماہرینِ فزکس کے نزدیک خدا ابدی ہے اور ہر شے کا آخر ہے۔ اول الذکر کے نزدیک خدا ہر شے کا خالق اور اس کی بنیاد ہے اور موخرالذکر کے مطابق خدا کائنات کے بارے میں ہر generalized ورلڈ ویو کی عمارت کا تاج ہے۔ ” ایک جگہ لکھتے ہیں : ” مذہب اور سائنس کے درمیان کوئی حقیقی اختلاف موجود نہیں، کیونکہ یہ اک دوجے کا تکملہ ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک اعلیٰ ترین شعور ہی اصل ” عرض ” ہے اور یہ تمام مادے کا جوہر ہے۔ ہم اسے پسِ پشت نہیں ڈال سکتے۔ ہر وہ چیز جو ہمارا موضوعِ سخن ہے یا جو موجود ہے، اس کا صدور ایک اعلیٰ ترین شعور سے ہوا ہے۔ ” نوبل انعام یافتہ ماہرِ فزکس Paul A. M. Dirac ( جنہوں نے quantum mechanics اور quantum electrodynamics کی تشکیل کے ابتدائی مراحل میں اہم کردار ادا کیا ) رقم طراز ہوتے ہیں : ” خدا ایک عظیم نظام کو چلانے والا ایک عظیم ترین ریاضی دان ہے اور اس نے اس کائنات کو ایک اعلیٰ درجے کی ریاضی سے تخلیق کیا۔ ” Werner Heisenberg ( جنہیں Quantum
Mechanics کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرنے پر 1932ء میں فزکس کے شعبے میں نوبل انعام سے نوازا گیا، جدید سائنس میں ان کا کام تاحال بہت اہم اور relevant ہے ) لکھتے ہیں : ” جب سے گلیلیو پر چرچ کی جانب سے مقدمہ چلایا گیا اور اسے سزا دی گئی، تب سے سائنس کی تاریخ میں یہ بات بکثرت دہرائی جاتی ہے کہ کائنات کے بارے میں مذہبی اور سائنسی تعبیریں اور توضیحات باہم متصادم ہیں اور ان کی تطبیق و مصالحت تقریباً ناممکن ہے۔ اگرچہ میں اس بات کا قائل ہو چکا ہوں کہ سائنسی سچائی اپنے دائرہ کار میں ناقابلِ تردید اور اٹل ہے، لیکن یہ مذہبی ڈسکورس کو انسانی شعور کی محض ایک متروک حالت کا خطاب دے کر اسے برطرف اور رد کرنے میں کبھی بھی کامیاب نہ ہو سکی۔ یوں میں اپنی زندگی کے کئی دوراہوں پر اس بات پر مجبور ہوا کہ علم کی ان دونوں کائناتوں کے باہمی تعلق پر غور کروں، کیونکہ یہ دونوں Modes of Knowledge جس حقیقت ( خدا ) کی جانب اشارہ کرتے ہیں، میں اس کے وجود پر کبھی بھی شک کرنے کے قابل نہیں ہو سکا۔ ” عظیم ماہرِ فزکس Sir Arthur Eddington اپنے شاہکار ” The Nature of the Physical World ” میں یوں رقم طراز ہوتے ہیں : ” ہم سب جانتے ہیں کہ انسانی روح کی کچھ ایسے گوشے ہیں جو فزکس کی دنیا سے ماورا ہیں۔ انسانی روح ہمارے اردگرد مخلوقات کی پراسرار کیفیات، آرٹ کے اظہار اور حبِ الہیٰ میں پروان چڑھتی ہے اور فطری طور اپنے اندر موجود تشنگی کی تسکین کرتی ہے۔اس روحانی بالیدگی کی تصدیق خود ہمارے اندر ایک اندرونی جدوجہد کی صورت میں موجود ہے جو ہمارے شعور کے ساتھ جنم لیتی ہے یا وہ نورِ قلب جو کہیں زیادہ صاحبِ قدرت اور قادرِ مطلق ہستی سے ہم تک پہنچتا ہے۔ سائنس اس پر سوال نہیں اٹھا سکتی , کیونکہ سائنس کی اپنی جستجو کا چشمہ ایک ایسی کشمکش کے نتیجے میں پھوٹا ہے جو انسانی عقل کو اپنی تقلید کے سوا اور کوئی راستہ نہیں دیتی , ایک ایسی پیاس جسے بجھانے کے لیے انسانی عقل ناکافی ہے۔ یہ روشنی سائنس کی عقلی و عملی سرگرمیوں میں پنہاں ہو یا روح کے ماورائے فہم و مشاہدہ تجربات میں جاری ہو، یہ ہمیں آگے کی جانب مائل کرتی ہے اور ہماری فطرت میں موجزن مقصدِ حیات کا یہ سفر اس روشنی میں جاری رہتا ہے۔ ” Erwin Schroedinger کو atomic theory کی نئی productive forms دریافت کرنے کے
صلے میں 1933 ء میں فزکس کے شعبے میں نوبل انعام سے نوازا گیا۔ وہ اپنے ایک مقالے میں لکھتے ہیں : ” سائنس ایک کھیل ہے ـــ ایک ایسا کھیل جو (علم و شعور کے ) تیز دھار چاقوؤں کی مدد سے اس کائنات کی حقیقت کے ساتھ کھیلا جاتا ہے۔ اگر ایک شخص احتیاط سے ایک تصویر کو ہزار ٹکڑوں میں کاٹ دے، تو وہ ان ٹکڑوں کو باہم جوڑ کر اس تصویر کی شکل میں یہ puzzle حل کر سکتا ہے۔ یہ سب کرنے میں چاہے وہ کامیاب ہو یا ناکام، لیکن اس کی ذہانت و فطانت بہرحال اس کام میں صرف ہوتی ہے۔ کسی سائنسی مسئلے کی رونمائی کے عمل میں، دوسرا کھلاڑی اس کائنات کا خالق و مالک خدا ہے۔ اس نے نہ صرف ان مسئلوں کو انسان کے لیے مخصوص کیا ہے بلکہ اس کھیل کو کھیلنے کے کچھ اصول و ضوابط بھی وضع کیے ہیں ـــ لیکن یہ قوانین ہم مکمل طور پر نہیں جانتے، کیونکہ ان میں سے نصف ایسے ہیں جنہیں ہمارے ( انسان کے ) لیے چھوڑا گیا ہے کہ ہم انہیں دریافت کریں یا اخذ کریں۔ یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ کتنے قوانین خدا نے مستقل طور پر وضع کیے ہیں اور کتنے ایسے ہیں جنہوں نے بظاہراً ہمارے دماغی جمود سے جنم لیا ہے , لیکن ان مسائل کا حل تب ہی ممکن ہے جب ہم اپنی عقل و خرد کی حدود و قیود سے آزاد ہوں گے۔ یہ بات اس کھیل میں دلچسپ ترین ہے۔ ” ایک جگہ Erwin Schroedinger مزید لکھتے ہیں : ” مادی اصطلاحات میں شعور کا درست ناممکن ہے۔ کیونکہ شعور بذاتِ خود ایک بنیادی کُل (Absolutely Fundamental)
ہے۔ اور دیگر غیر متعلق اصطلاحات میں اس کی شرح نہیں ہو سکتی۔ ” Harvard University کے نوبل انعام یافتہ ماہرِ حیاتیات George Wald نے biologists کی اس عام روش یعنی مادیت پرستی کو قبول کرنے کی نظریاتی وجوہات سے ہٹ کر اپنا موقف اپنایا ہے۔” Life and Mind in the Universe ” کے عنوان پر ہونے والے ایک Quantum Biology Symposium میں خطاب کرتے ہوئے George Wald نے کہا: ” مجھے بہت دیر سے اس بات کا ادراک ہوا کہ ان دونوں سوالوں ( ماخذِ شعور اور بے جان مادے سے زندگی کے نقطہِ آغاز) کی کسی نہ کسی درجے میں باہمی تطبیق کی جا سکتی تھی۔ یہ بات اس مفروضے سے منسلک ہے کہ شعور ارتقائے حیات کا شاخسانہ نہیں بلکہ ایک مایا جال (Matrix) کی شکل میں مادی حقیقت کے منبع اور شرطِ وجود کے طور پر پہلے سے موجود ہے۔ ( اس کا مطلب یہ ہے کہ ) مادی حقائق اپنی ساخت میں شعوری ہیں (مادی نہیں ) اور یہ شعور ہی ہے جس کے ذریعے اس روئے زمین پر حیات کی افزائش کرنے والی مادی کائنات کی تشکیل ہوئی ہے اور یوں ایک ایسی مخلوق (انسان) کا بھی ظہور ہوا جس نے سائنس، آرٹ اور ٹیکنالوجی کو تخلیق کیا ہے۔ ” ماہرِ فزکس، ریاضی دان اور ماہرِ فلکیات Sir James Jeans کہتے ہیں : ” زمان و مکان کی اصطلاحات میں تخلیقِ کائنات پر بحث کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی کینوس کے کنارے کھڑے ہو کر مصور اور تصویر کشی کو دریافت کرنے کی کوشش رہا ہو۔ یہ بات ہمیں ان فلسفیانہ نظاموں کے قریب کرتی ہے جو اس کائنات کو اس کے خالق کے اعلیٰ ترین شعور کا ایک خیال قرار دیتے ہیں اور یوں کائنات کی مادی تخلیق کے تمام مبحثوں کو مہمل بنا دیتے ہیں۔”
Albert Einstein کہتے ہیں : ” جتنا گہرائی میں سائنس کو پڑھتا گیا، اتنا میرا خدا پر ایمان بڑھتا گیا .” . . . . . . . . . . ” میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ خدا نے اس کائنات کو کیسے تخلیق کیا۔ مجھے عناصر کی روشنی میں مظاہر کی جانچ میں کوئی دلچسپی نہیں۔ میں ( کائنات کو چلانے کے ) خدا کے بنائے ہوئے قوانین جاننا چاہتا ہوں، باقی تمام تفصیلات جزوی اور ثانوی ہیں۔ ” James Joule نے بقائے توانائی کے کلیے (Conservation Of Energy) کی بنیاد پر حرارتی مرکبات کا پہلا قانون (First Law Of Thermodynamics) پیش کیا۔ انہوں نے Kinetic Theory of Gasses کی تشکیل میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ وہ کہتے ہیں : ” یہ بات بالکل واضح ہے کہ قوانینِ فطرت سے واقفیت دراصل اس منشائے الہیٰ اور ارادہِ خداوندی کی پہچان ہے جو ان قوانین میں جاری ہیں۔ ” Srinivasa Ramanujam کو Archimedes اور Newton کے مساوی تاریخ کے عظیم ترین ریاضی دانوں میں سے ایک گردانا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے : ” میرے نزدیک ایک تسویہ (equation) بے معنی ہے اگر وہ (قوانینِ فطرت میں جاری ) کسی ارادہِ خداوندی کی جانب اشارہ نہ کرے۔ ” Kings College, London کے فلسفے کے ریٹائرڈ پروفیسر اور Council of the Royal Institute of Philosophy کے ممبر Keith Ward اپنی کتاب ” Doubting Dawkins, Why There Almost Certainly is A God ” میں لکھتے ہیں : ” کیا ایک اعلیٰ ترین شعور حقیقت کی ایک قطعی اور ناقابلِ تخفیف صورت ہے ؟ کیا واقعی یہ حقیقت کی بنیادی خصوصیت ہے یا شعور بنیادی طور پر ارتقاء کے مادی عمل کی ایک غیر متوقع اور غیر ارادی پیداوار ہے ؟ "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ” اگر ہم فلسفے کی تاریخ پر نگاہ دوڑائیں تو یہ بات اظہر من الشمس ہو جائے گی کہ تقریباً تمام بڑے کلاسیکل فلسفی اس بات پر قریباً ایک جیسی رائے رکھتے تھے۔ افلاطون (Plato)، ارسطو (Aristotle)، اینسلم (Anselm)، ایکوائنس (Aquinas)، ڈیکارٹ (Descartes)، لیبنیز ( Leibniz)، اسپنوزا (Spinoza)، لاک (Locke)، برکلے (Berkeley)، کانٹ (Kant) اور ہیگل (Hegel) ان سب کے مطابق حقیقتِ مطلق مادی کائنات اور زمان و مکان کے ظواہر و مظاہر سے ماورا ہے اور غیر مادی اور ورائے زمان و مکان ہے۔ ” فلسفی John Locke جو تحریکِ تنویر ( Enlightenment Project ) کے ایک بہت اہم مفکر سمجھے جاتے ہیں، ان کا کہنا ہے : ” یہ تصور کرنا ناممکن ہے کہ شعور و خیالات سے عاری مادہ ایک باشعور اور ذہین و فطین وجود کو پیدا کر سکے جیسا کہ کسی شے کا خودبخود پیدا ہو جانا بھی محال ہے۔ ” Sir Isaac Newton، جنہیں تاریخ انسانی کا عظیم ترین سائنسدان مانا جاتا ہے، اپنی کتاب ” Principia ” (جسے اہم ترین سائنسی کام تسلیم کیا جاتا ہے ) میں رقم طراز ہیں : ” اندیکھی مابعدالطبیعات کی ضرورت ہمیشہ سے ہے اور ہر جگہ ہے، چاہے اس سے بہت سی علمی و عقلی موشگافیاں نہ بھی سلجھتی ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ مختلف زمانوں اور مختلف مقامات پر رچے بسے فطرت کے ان تمام تنوعات کا صدور عدم سے ہوا ہو، لیکن یہ بات ایک لازمہ ہے کہ منشائے الہیٰ اور ارادہِ خداوندی (اس سب کے پیچھے) اپنا وجود رکھتی ہے۔ ”
mathematical physics کے شعبے میں Heinemann پرائز یافتہ Robert Griffiths کہتے ہیں : ” جب بھی ہم کسی ملحد اور دہریے سے بحث میں مشغول ہوتے ہیں، ہمیں فلسفے کے شعبے میں جانا پڑتا ہے۔ اس کُشتی کے لیے ابھی تک فزکس کے اکھاڑے کو موثر انداز سے استعمال نہیں کیا گیا۔ ” ( ٹی۔ ایچ۔ کی کا ایک قول جس کا اردو ترجمہ ہرگز لطف نہ دے گا، درج ذیل ہے) “ ! What is mind? Never matter. What is matter? Never mind“ (T.H. Key)
بظاہراً ہم سب ہی اس پہیلی سے واقف ہیں کہ ” انڈہ پہلے تھا یا مرغی ؟ "۔ لیکن بہت کم لوگ اس بات سے آگاہ ہیں کہ خدا کے وجود کا سوال ایک حقیقی مسئلہ ہے جو مرغی اور انڈے کی اس پہیلی کو ایک سنجیدہ علمی مشاکلے میں ڈھال دیتا ہے۔ شعور (Mind) پہلے تھا یا مادہ (Matter) ؟ باالفاظِ دیگر شعور مادے کی پیداوار ہے یا مادے نے شعور سے جنم لیا ہے۔ ہماری یہ کائنات اپنی حقیقت میں مادی ہے یا غیر مادی اور شعوری ہے۔ یہ بات بہت سے لوگوں کے لیے حیرت کا باعث ہو گی کہ جدید فزکس نے بھی اس بات کا جواب دینے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ جدید فزکس اس سوال کا جو جواب دیتی ہے وہ عوام کی اکثریت کو اس بات پر مجبور کر دے گی کہ وہ کائنات کے بارے میں اپنے ادراک کی نفی کریں اور اسے از سرِ نو تشکیل دیں۔ سٹیفن سی مئیر ( اس نے کیمبرج یونیورسٹی سے History اور Philosophy Of Science میں ڈاکٹریٹ کر رکھی ہے) اپنی کتاب”Signature in the Cell ” میں لکھتے ہیں: ” قدیم یونانیوں کے دور سے ہی مغربی مفکرین کے ذہن میں ” حقیقتِ کلی” کی دو تصاویر ہیں۔ اس (حقیقت) کو جرمن میں” Weltanschauung” یا ” کلی نظریہ ” (Worldview) بھی کہتے ہیں۔ ایک ورلڈ ویو کے مطابق شعور ہی حقیقتِ کلی ہے . اس نظریے کے مطابق یا تو مادے کا صدور پہلے سے موجود شعور (Mind) سے ہوا ہے یا پیشگی قائم ” عقلِ کلی ” (Intellect) نے اس کی تشکیل کی ہے۔ حقیقت کا یہ تصور ” مثالیت ” (Idealism) کہلاتا ہے یعنی عالمِ امثال پہلے ہے اور مادہ (Matter) بعد میں ہے۔ نظریہ مثالیت مذہب اور خدا پرستی کی نظریاتی اساس ہے کہ خدا اس عالمِ امثال کا خالق یا اس کی علت (source) ہے، جس سے باقی تمام عوالم اور مادی کائنات کی تشکیل ہوئی ہے۔ دوسرے ورلڈ ویو کی پوزیشن یہ ہے کہ مادی کائنات اور ظاہری فطرت ” ہی حقیقتِ کلی ہے۔ اس نظریے کے مطابق ہر شے کا صدور مادے (Matter) یا توانائی (Energy) سے ہوا ہے۔ یہ ازلی ہے اور اس کا خود سے موجود ہونا وجوب کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسے نہ کسی علت (Source) کی حاجت ہے اور نہ کسی ایسے مصدر کی، جس نے اس کی تشکیل کی ہو۔ اس ورلڈ ویو کی رُو سے مادہ شعور پر وجودی و مکانی تقدم رکھتا ہے اور شعور مادی تعاملات اور اس کے بالواسطہ ارتقائی تغیرات کی پیداوار ہے۔ یہ ورلڈ ویو فطرت پرستی (Naturalism) یا مادیت پرستی (Materialism) کہلاتا ہے۔
ان دو نظریاتِ کلی کے علاوہ اور کوئی تیسرا موقف موجود نہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کو اس مبحث میں شامل ہونے کیلئے ان میں سے کسی ایک پوزیشن کو اختیار کرنا پڑتا ہے۔ ” میکس پلانک ( Max Planck : نوبل انعام یافتہ ماہرِ فزکس جس نے کوانٹم فزکس کی بنیاد رکھی ) کہتے ہیں : ” ایک ایسے شخص کے طور پر کہ جس نے سائنسی اصولوں کی روشنی میں بیدار مغزی اور روشن دماغی سے مادے (matter) کا مطالعہ اور تجزیہ کرنے میں اپنی پوری زندگی وقف کر دی، میں ایٹمز (Atoms) سے متعلق اپنی تحقیق کا نچوڑ ان جملوں میں بیان کر سکتا ہوں کہ دراصل مادہ (Matter) اپنا کوئی ذاتی وجود نہیں رکھتا (مادہ وجود بالذات ہرگز نہیں)۔ یہ دراصل اس قوت (force) سے جنم لیتا ہے اور تشکیل پاتا ہے، جو ایک ایٹم کے ذرات (Particles of Atom) کو تحرک بخشتی ہے اور اس ننھے ترین نظامِ شمسی یعنی ایٹم کی بقا کا سامان کرتی ہے۔ اس قوت (force) کے پیچھے ہم ایک اعلیٰ ترین شعور یا عقلِ کلی کی کارفرمائی دیکھتے ہیں۔ یہ شعور (Mind) ہی دراصل اس مایا جال کا رحمِ مادر ( Matrix of all matter) ہے۔ ” البرٹ آئن سٹائن (Albert Einstein : بیسویں صدی کا سب سے بڑا ماہرِ فزکس جسے انسانی تاریخ کا سب سے بڑا سائنسدان کہا جائے تو غلط نہ ہو گا ) یوں رقم طراز ہوتے ہیں : ” ہر وہ انسان جو سائنس کے میدان کا باقاعدہ اور ماہر کھلاڑی ہے، اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ اس کائنات کے تمام قوانینِ فطرت میں ایک اعلیٰ ترین قوت کارفرما ہے۔ ایک ایسی برتر طاقت جو انسان پر اپنا مکمل تسلط رکھتی ہے اور جس کے سامنے انسان اور اس کی تمام معمولی قوتیں ہِیچ ہیں۔
” نوبل انعام یافتہ ماہرِ فزکس Eugene Wigner کہتے ہیں : ” Quantum Mechanics کی تخلیق کے بعد سے، جب Physical Theory کی حدود Microscopic Phenomena تک وسیع ہو گئیں، شعور Consciousness کا تصور دوبارہ سے وجود کی بحثوں میں در آیا ہے۔ شعور (Consciousness) کے حوالے کے بغیر Quantum Mechanics کے اصول و قوانین کو متواتر اور بلا تضاد انداز میں وضع کرنا بالکل ناممکن ہے …… اور شعورِ کلی اپنی تمام تفصیلات اور پھیلاؤ میں ایک بدیہی حقیقت ہے۔ ” سر آرتھر ایڈنگٹن ( Sir Arthur Eddington : جو ایک عظیم ماہرِ فزکس ہیں) یوں رقم طراز ہیں: ” میری رائے میں ایک اعلی ترین شعور (Universal Mind or Logos) کا تصور سائنسی نظریے (Scientific Theory) سے ایک قرینِ قیاس استنباط ہے۔ ” (Logos کی ” کلمۃ اللہ یا اسم اللہ ” کے طور پر تعریف کی جاتی ہے۔ اسے حکمِ الہیٰ اور تخلیقی ترتیب و تسلسل کا بنیادی اصول مانا جاتا ہے۔ ) سر جیمز جینز ( Sir James Jeans : ایک عظیم ریاضی دان، ماہرِ فزکس و ماہرِ فلکیات ) اپنی کتاب ” The Mysterious Universe ” میں لکھتے ہیں: ” طبیعاتی سائنس کے ماہرین کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ سائنسی علوم کا دھارا اب غیر میکانکی حقائق کی جانب بہہ رہا ہے۔ یہ کائنات اب کسی "عظیم مشین” کی بجائے کسی اعلیٰ ترین شعور کا ایک ” بڑا خیال ” محسوس ہوتی ہے۔ ” مادے” کی سلطنت میں ” شعور ” کو اب ایک حادثاتی در انداز کے طور پر نہیں دیکھا جاتا۔ ہم اب اس جانب دھیان دے رہے ہیں کہ ہمیں مادے کی علت و حاکم کے طور پر "شعور” کو خوش آمدید کہنا چاھیے۔ ” اب اس بات میں شک کا کوئی امکان نہیں ہے کہ "مادے” یا ” شعور ” کی حاکمیت کی بحث میں جدید فزکس کس گروہ کی حامی ہے۔ جدید فزکس اب مادیت پرستی کو مکمل طور پر مسترد کر چکی ہے۔ Johns Hopkins University کے ماہرِ فزکس Richard
Conn Henry اپنی کتاب ” The ultimate cause of atheism ” میں لکھتے ہیں : ” آئزک نیوٹن یہ بات وثوق سے کہتے ہیں کہ اجسام اپنی ایک مکمل , مطلق اور آزاد حقیقت رکھتے ہیں جو ان کے اندر ہی موجود ہے۔ ” مادی اشیاء اپنے اندر اپنی کوئی مکمل، مطلق اور آزاد حقیقت نہیں رکھتے کیونکہ جدید فزکس کے مطابق مادہ ” شعور ” کے وجودی تسلط سے دستبردار ہو کر اپنی کوئی شناخت نہیں رکھتا۔ ایسی کوئی حقیقت وجود نہیں رکھتی جو اعلیٰ ترین شعور کی دست نگر نہ ہو۔ University of California سے تعلق رکھنے والے Berkeley physicist ھنری سٹیپ اپنی کتاب ” Mindful Universe ” میں لکھتے ہیں : ” عصرِ حاضر کا مروجہ اور بنیادی طبیعاتی نظریہ (Physical Theory) شعور کے فلسفے (Philosophy Of Mind) میں پائے جانے والے دعاوی کے برعکس ان نتائج تک پہنچتا ہے کہ کہ طبیعاتی سائنس کی بڑھوتری کا دروازہ ابھی بند نہیں ہوا ہے۔ لہذا شعور و عقل جیسے موضوعات پر طبیعاتی ڈسکورسز کی تمام تر تحقیق ان موضوعات کا مکمل احاطہ نہیں کرتی اور نہ ہی عقل و شعور کی تمام حرکیات کو سمجھنے اور بیان کرنے کی ذمہ داری اٹھاتی ہے۔ ” مختصراً یہ کہ کلاسیکل Quantum Mechanics کے برخلاف مروجہ Quantum Physics .کسی ایسی مادی دنیا کا تصور بھی نہیں کرتی جو انسانتی تجربات اور شعور سے الگ تھلگ رہ کر اپنی کوئی ذاتی شناخت رکھتی ہو
Princeton University کے quantum physics کے ایک ماہر Freeman Dyson ھنری سٹیپ کے ان دلائل کی کچھ یوں وضاحت کرتے ہیں : ” ایٹمز (Atoms) اپنی فطرت میں عجیب و غریب ہوتے ہیں۔ یہ ایک جامد مواد (Inert Substance) کی بجائے ایک فعال کارگزار ( active agent ) کی طرح کام کرتے ہیں۔ Quantum Mechanics کے قوانین کے مطابق یہ متبادل ممکنات میں غیر متوقع انتخاب کرتے ہیں۔ یہ بھی شعور کی مانند خِلقی طور پر انتخاب کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ یہ کائنات (Universe) بھی ایک معمہ ہے۔ اس کے قوانینِ فطرت (Laws Of Nature) شعور کے پودے کی بڑھوتری کے لیے زمین زرخیز کرتے ہیں۔ مجھے خدا اور ایک اعلیٰ ترین شعور کی حامل علیم و خبیر ہستی میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا۔ جب شعور کا تصور ہمارے فہم و ادراک کی سرحد سے باہر نکل جائے تو ایک خدائی حقیقت میں ڈھل جاتا ہے۔ ” ماہرِ فزکس George Stanciu اور فلسفی Robert Augros اپنی کتاب ” The New Story Of Science ” میں اس بات کی جامع وضاحت کرتے ہیں کہ مادیت پرستوں اور فطرت پرستوں کا ورلڈ ویو کیوں اب سائنسی اور فلسفیانہ حمایت و توثیق سے محروم ہے۔ ان کی یہ وضاحت مندرجہ بالا نکات کا ابہام دور کرکے انہیں قابلِ فہم بنا دیتی ہے۔ یہ لکھتے ہیں : ” سائنس کی نئی کہانی میں یہ پوری کائنات بشمول مادہ (Matter) , توانائی (Energy) , زمان و مکان (Time and Space) محض ایک زمانی واقعہ (One-Time Event) ہے اور اس کا ایک معین آغاز ہے جب یہ پیدا ہوئی۔ کوئی وجود تو ایسا ہے جسے ازلی و ابدی (واجب الوجود) ہونا چاہیے، کیونکہ اگر کوئی وجودِ مطلق نہ ہوتا تو کسی بھی وجود کا موجود ہونا بعید از قیاس تھا، یعنی یہ بات ناممکنات میں سے ہے کہ ظواہر اور مظاہر بغیر کسی علت کے وجود میں آ جائیں۔ یہ مادی کائنات ازلی نہیں کیونکہ مادے کی تخلیق و ظہور کی بھی ایک زمانی و مکانی شروعات ہے۔ مادہ زیادہ سے زیادہ 12 ارب سے 20 ارب سال پرانا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے جو ہستی ازلی ہے وہ ہرگز مادی نہیں اور مادہ اس عظیم علت کا معلول ہے۔ وہ غیر مادی ہستی اعلیٰ ترین درجے کے شعور کی حامل ہے اور اعلی ترین شعور رکھنے والی ہستی ہی مادے کی خالق ہے۔ یہ تمام تحقیق ایک العلیم الخبیر اور الحیی و القیوم ہستی کے وجود کی جانب اشارہ کرتی ہے اور یہی وہ قادرِ مطلق ہستی ہے جسے ہم خدا کہتے ہیں۔ "
ان تمام آراء کے باوجود مادیت پرستی ابھی بھی چند علمی ڈسکورس کا ایک جزوِ لانیفک ہے، اس کی کچھ نظریاتی وجوہات ہیں مادیت پرستی کو جدید فزکس نے رد کر دیا ہے، جبکہ بائیولوجی کے اصول و مبادی ابھی بھی مادیت پرستی و فطرت پرستی کو ایک meta-narrative یا meta rationale کے طور پر قبول کرتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے ؟ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ فزکس سائنس کی وہ شاخ ہے جو سائنس کو فلسفہ اور مذہب سے جدا کرنے والی سرحد سے قریب ترین ہے۔ یہ بائیولوجی کے مقابلے میں ڈسکورسز کے اس بارڈر کے زیادہ نزدیک ہے۔ باا لفاظِ دیگر فزکس سائنس کی وہ شاخ ہے جو کائنات کی حقیقت اور وحدت کی ایک بڑی اور بنیادی ترین تصویر پیش کرتی ہے۔ Yale University کے Harold J. Morowitz نامی biophysicist اپنے ایک مقالے ” Rediscovering the Mind ” اس موضوع پر جدید فزکس اور mainstream بائیولوجی کے بنیادی اختلافات کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ” امرِ واقع یہ ہے کہ وہ بائیولوجسٹ جو کبھی فطرت کے تنظیمی ڈھانچے میں شعور کا ایک استحقاقی کردار تسلیم کرتے تھے، اب کٹھور پن کے ساتھ تیزی سے اس انداز سے مادیت پرستی کے دلدادہ ہوتے ہیں جا رہے ہیں جو کبھی انیسویں صدی عیسوی کے ماہرینِ فزکس کی روش تھی۔ اسی اثنا میں، موجودہ ماہرینِ فزکس تجرباتی ثبوتوں (Experimental Evidence) کی روشنی میں یہ بات تسلیم کرنے کی جانب تیزی سے مائل ہیں کہ کائنات کو بیان کرنے والے mechanical models کی بنسبت مادی و طبیعی وقوعات میں ایک ” اعلیٰ ترین شعور” کا ہونا زیادہ اہم اور کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ فزکس اور بائیولوجی دو ایسی برق رفتار ریل گاڑیاں بن چکی ہیں جو تیزی سے ایک دوسرے کی مخالف سمت میں دوڑ رہی ہیں اور انہیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ ان کی اپنی پٹری کے آر پار کیا چل رہا ہے۔ ” ملحد ماہرینِ حیاتیات (Atheist Biologists) مادیت پرستی/ فطرت پرستی کے نظریات سے چمٹے ہوئے ہیں جبکہ جدید فزکس بھرپور انداز سے اس کا رد کرتی ہے۔
ماہرِ فزکس Richard Conn Henry اس بات کی کچھ یوں وضاحت کرتے ہیں : ” لوگ اس کائنات کی حقیقت کے کسی ایسے تصور پر کیوں جمے ہوئے ہیں جو کسی برتر اعلیٰ ترین شعور سے بے نیاز ہے ؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اگر حقیقت کا ایسا تصور موجود نہیں ہو گا تو لازماً کسی اعلیٰ ترین شعور کا ہونا لازم آئے گا۔ اگر شعور (mind) مادے (matter) کی تخلیق نہیں ہے، بلکہ مادی حقیقت کے فریبِ نظر کا خالق ہے ( جیسا کہ امرِ واقع یہی ہے اور1925 میں کوانٹم فزکس کی دریافت کے بعد سے مادیت پرستوں پر یہ بات آشکارا ہے ) تو خدا پرستی (Theism) ہی وہ شارحِ واحد sole definer بن جائے گا جو اس دنیا میں ہمارے وجود کی عقلی تاویل کرے اور نظریہ انا پرستی (solipsism : یہ تصور کہ وجود بس وہی ہے جو حسی طور پر معلوم ہے ) یتیم ہو جائے گا۔ ” فطرت پرستی / مادیت پرستی محض ایک ملحدانہ ورلڈ ویو کی تشکیل ہی کر سکتا ہے۔ الحاد کے قیام و دوام کے لیے اس بات کا اثبات ضروری ہے کہ شعور ایک بے شعور مادے کی تخلیق ہے۔ اس لیے ایک ملحد کو جدید فزکس سے پیدا ہونے والی اس بصیرت (مادہ شعور کا معلول ہے اور شعور مادے کی علت ہے ) کو نظر انداز کرنا چاہیے اور اس سے انجان بنے رہنا چاہیے تاکہ وہ اپنے ایمانی و ایقانی نظام یعنی الحاد و دہریت کو دلائل کے میدان میں شکست و ریخت کے عمل سے بچا سکے۔ اور چونکہ مادیت پرستی / ظواہر پرستی بائیولوجی اور دیگر ڈسکورسز سے تعلق رکھنے والے ملحدوں کی جزیراتی دنیا میں ایک غالب سماجی سیاق و سباق ہے، چنانچہ اس کے بچاؤ کے لیے جدید فزکس سے اجتماعی طور پر تجاہلِ عارفانہ برتا گیا ہے۔ جیسا کہ Oxford University اور University of Massachusetts کے بائیولوجی کے پروفیسر Lynn Margulis ( انہیں سائنس کے شعبے میں امریکہ کا صدارتی تمغہِ حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا ) اپنی کتاب ” The Altenburg 16: An Expose of the Evolution Industry ” میں لکھتے ہیں : ” لوگ اور بالخصوص سائنسدان ( اگر وہ بے روزگار نہ ہوں ) تو کسی سچ یا حقیقت کے خیالی تصور کی بجائے اپنے نظریاتی قبیلے سے زیادہ وفادار ہوتے ہیں۔ یہ ایک پیشہ ورانہ خود کشی ہو گی کہ لوگ اپنے اساتذہ اور سماجی رہنماؤں سے (meta principles میں ) مستقل طور پر اختلاف کا تعلق رکھیں۔ "
یہ کہنا سادہ لوحی ہے کہ ماہرینِ حیاتیات کی صفوں میں الحاد کی روایتی اور سماجی برتری ہی وہ بنیادی عنصر ہے جو بائیولوجی کے مرکزی دھارے کو فطرت پرستی پر ایمان لانے کے لیے آمادہ رکھتا ہے۔ ماہرینِ حیاتیات حیات کے مختلف مظاہر کی وضاحت کرنے کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔ چنانچہ اگر ماہرینِ حیاتیات خدا کے وجود کا اثبات کریں گے تو انہیں یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ مظاہرِ حیات کے کئی ایسے پہلو بھی ہیں جو سائنس کی اقلیم سے ماورا ہیں۔ اس بات پر کسی کو حیرت زدہ نہیں ہونا چاہیے کہ ماہرینِ حیاتیات ایسے کسی بھی اثبات کو اپنے لیے ذلت و رسوائی سمجھتے ہیں۔ قارئین کے لیے یہ بات جاننا ناگزیر ہے کہ جو مندرجات ملحد ماہرینِ حیاتیات (atheist biologists) الحاد کے حق میں سائنسی دلائل و نتائج کے طور پر پیش کرتے ہیں، وہ دراصل الحاد کے وہ بُودے مفروضے ہیں جو فلسفیانہ بنیادوں پر تعمیر کیے گئے ہیں اور جو سائنسی تحقیقات (Scientific Inquiry) کی گردن پر اپنا پاؤں رکھ کر، اسے اپنی چھننی کے باون چھیدوں سے گزار کر اس کی صفائی کرتی ہے اور پھر تروڑ مروڑ کر انہیں پیش کرتی ہے۔ Harvard University کے ماہرِ جینیات Richard C. Lewontin نے 1997ء نے سرِ عام اس بات کا اعتراف ان الفاظ میں کیا : ” سائنسی ادارے یا scientific methods ہمیں اس بات پر ہرگز مجبور نہیں کرتے کہ ہم مظاہرِ کائنات کی مادی تشریحات و توضیحات (Material Explanations) کو مِن و عن قبول کر لیں، لیکن ہم مادی علتوں کی ایک قیاسی و بنفسہ وابستگی کے ہاتھوں مجبورِ محض ہیں اور تحقیقات و تفتیشات اور تصورات و قوانین کا ایک ایسا نظام تشکیل دینے پر ہمہ وقت راضی ہیں جو مظاہرِ حیات کی مادی تشریحات کرے، چاہے یہ تشریحات انسانی بدیہات سے کتنی ہی مختلف کیوں نہ ہوں اور ان کی پراسراریت کتنی ہی ہولناک کیوں نہ ہو۔ مادیت پرستی ہی اب حقیقت مطلق ہے، کیونکہ ہم خدا نامی کسی ہستی کو کائنات کے دروازے میں اپنا پاؤں پھنسانے کی اجازت نہیں دے سکتے.
” Werner Heisenberg ( جسے quantum mechanics کی تخلیق پر فزکس کے نوبل انعام سے نوازا گیا ) نے خدا کے وجود پر فزکس اور بائیولوجی کی دو لختی کی بہترین انداز سے وضاحت کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں : ” نیچرل سائنسز کے گلاس کے مشروب کا پہلا گھونٹ تمہیں ملحد اور دہریہ بنا دے گا۔ لیکن جب تم ( یہ جام پیتے پیتے ) اس گلاس کے پیندے تک پہنچو گے، تو خدا وہاں تمہارا منتظر ہو گا۔ ” اس اصطلاح ” گلاس کے پیندے ” کو استعمال کرتے ہوئے Heisenberg حقیقتِ کائنات کے ان بنیادی ترین عناصر کی جانب اشارہ کر رہے ہیں جن پر فزکس تحقیق کرتی ہے۔ Kings College, London کے فلسفے کے ریٹائرڈ پروفیسر اور Council of the Royal Institute of Philosophy کے ممبر Keith Ward اپنی کتاب ” ? Is Religion Irrational ” میں لکھتے ہیں : ” مادیت پرست فلسفی کہتے ہیں کہ شعورِ کُلی مادے کی تخلیق ہے۔ لیکن افلاطون (Plato) اور مشرق و مغرب کے تمام عظیم کلاسیکل فلسفیوں کی رائے اس سے مختلف ہے۔ ( ان کے مطابق ) مادہ اپنے تمام تر ظواہر و مظاہر کے ساتھ ایک اعلیٰ ترین شعور کی تخلیق ہے۔ شعورِ کلی ایک حقیقت ہے اور اس میں تخلیقی قوت موجود ہے۔ یہ ہماری معلوم کائنات کی ضمنی پیداوار (by-product) نہیں ہے۔ اس کے بغیر ہماری پوری معلوم کائنات کا وجود ناممکن تھا۔ Quantum Physics کے ایک ماہر John von Neumann کہتے ہیں : ” تمام حقیقی اشیاء دراصل اجزائے شعور ہیں۔ ” یہ بات مادیت پرستی کی روش سے کوسوں دور ہے اور یہ جدید فزکس کے موقف کی ترجمانی کرتی ہے، نہ کہ مذہب سے متاثر کوئی نظریہ پیش کرتی ہے۔ "
ڈاکٹر عبدالسلام ( جنہیں 1979 ء میں electroweak theory پر ان کی تحقیق کے صلے میں فزکس کے شعبے میں نوبل انعام سے نوازا گیا ) اپنی ایک مقالے ” Science and Religion ” میں لکھتے ہیں : ” احساسِ تحیر اور جستجو سائنسدانوں کی ایک بزرگ و برتر ہستی (Superior Being & der Alte) کی جانب رہنمائی کرتی ہے، جسے آئن سٹائن بڑی محبت سے ” خدا ” (Deity) کہتا ہے : ایک قادرِ مطلق، العلیم و الخبیر اور تمام مخلوقات اور قوانینِ فطرت کا خالق و مالک۔ ” مشہور ماہرِ فزکس اور ریاضی دان James Clerk Maxwel ( جنہوں نے classical electromagnetic theory پیش کی اور جن کی سائنس کے لیے خدمات آئن سٹائن اور نیوٹن سے کسی طور کم نہیں ) کہتے ہیں : ” میں نے تقریباً تمام فلسفیانہ نظاموں کو اچھی طرح کھنگالا ہے اور میں اس نتیجے تک پہنچا ہوں کہ خدا کے بغیر کسی شے وجود اور اس کی فعالیت ناممکن ہے۔ ” ایک اور جگہ Maxwel لکھتے ہیں : ” مادے کے ازلی اور واجب الوجود ہونے کے دلائل فرایم کرنے میں ناکام ہے۔ ہم اپنی سائنسی فہم و ذکاء کی آخری سرحد پر پہنچ کر یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ مادہ مخلوق ہے کیونکہ اس کا ازلی و ابدی ہونا ناممکن ہے۔ ” Compton Effect کو دریافت کرنے والے نوبل انعام یافتہ ماہرِ فزکس Arthur Compton کہتے ہیں : ” میرے نزدیک ایمان اس ایقان و ادراک سے جنم لیتا ہے کہ عظیم ترین خالق نے اس کائنات کی تخلیق کی اور انسان کو پیدا کیا۔ میرے لیے اس بات پر ایمان لانا کوئی مشکل نہیں کیونکہ یہ ایک ناقابلِ تردید مسلمہ ہے کہ جہاں کوئی منصوبہ دکھائی دے گا، لازماً اس کا کوئی خالق اور منصوبہ ساز بھی ہو گا۔ خود کو آشکار کرتی یہ کائنات اس عظیم ترین کلمے کی سچائی کی شہادت دیتی ہے کہ خدا ہی ہر شے کا اول و آخر ہے۔ "
نوبل انعام یافتہ ماہرِ فزکس Max Born ( جنہوں نے Quantum Mechanics کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کیا ) کہتے ہیں : ” جو لوگ یہ کہتے ہیں سائنس انسان کو ملحد بناتی ہے، وہ اولین درجے کے بیوقوف ہیں۔ ” ایک اور جگہ پر وہ لکھتے ہیں : ” جو عقیدہ بھی خدا کے بنائے ہوئے قانونِ فطرت کو رد کرتا ہے، میرے نزدیک وہ ناقابلِ قبول ہے , کیونکہ یہ خدا کا ایک ایسا شکستہ تصور قائم کرتا ہے، جو اس کے اصل مرتبے سے کم تر ہے۔ جب خدا کہتا ہے کہ سب کچھ اس کہ دستِ قدرت میں ہے اور وہ اپنے قوانین کے ذریعے اس کائنات کا نظام چلا رہا ہے تو یقیناً ایسا ہی ہے۔ لیکن خدا اپنے بنائے ہوئے نظام کے ہاتھوں مجبور نہیں۔ انسان اپنے بنائے ہوئے نظام میں مقید ہو سکتا ہے، خدا نہیں۔ ” Lord William Kelvin ( جن کا thermodynamics میں تحقیقی کام Absolute Zero اور the Kelvin temperature scale کی تشکیل کی بنیاد بنا ) کہتے ہیں : ” جتنا سائنس کو مکمل طور پر ( اس کی اپنی شرائط کے مطابق ) پڑھا جائے گا، اتنا ہی یہ انسان کو الحاد اور دہریت سے دور لے جائے گی۔ "
نوبل انعام یافتہ ماہرِ فزکس Max Planck ( جنہوں نے Quantum Mechanics کی بنیاد رکھی اور تاریخِ انسانی کے اہم ترین ماہرینِ فزکس میں سے ایک ہیں ) اپنے 1937ء کے ایک لیکچر ” Religion and Natural Science ” میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں : ” مذہب اور سائنس دونوں کو خدا پر ایمان کی ضرورت ہے۔ مذہبی آدمی کے نزدیک خدا ازلی ہے اور ہر شے کا اول ہے، جبکہ ماہرینِ فزکس کے نزدیک خدا ابدی ہے اور ہر شے کا آخر ہے۔ اول الذکر کے نزدیک خدا ہر شے کا خالق اور اس کی بنیاد ہے اور موخرالذکر کے مطابق خدا کائنات کے بارے میں ہر generalized ورلڈ ویو کی عمارت کا تاج ہے۔ ” ایک جگہ لکھتے ہیں : ” مذہب اور سائنس کے درمیان کوئی حقیقی اختلاف موجود نہیں، کیونکہ یہ اک دوجے کا تکملہ ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک اعلیٰ ترین شعور ہی اصل ” عرض ” ہے اور یہ تمام مادے کا جوہر ہے۔ ہم اسے پسِ پشت نہیں ڈال سکتے۔ ہر وہ چیز جو ہمارا موضوعِ سخن ہے یا جو موجود ہے، اس کا صدور ایک اعلیٰ ترین شعور سے ہوا ہے۔ ” نوبل انعام یافتہ ماہرِ فزکس Paul A. M. Dirac ( جنہوں نے quantum mechanics اور quantum electrodynamics کی تشکیل کے ابتدائی مراحل میں اہم کردار ادا کیا ) رقم طراز ہوتے ہیں : ” خدا ایک عظیم نظام کو چلانے والا ایک عظیم ترین ریاضی دان ہے اور اس نے اس کائنات کو ایک اعلیٰ درجے کی ریاضی سے تخلیق کیا۔ ” Werner Heisenberg ( جنہیں Quantum
Mechanics کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرنے پر 1932ء میں فزکس کے شعبے میں نوبل انعام سے نوازا گیا، جدید سائنس میں ان کا کام تاحال بہت اہم اور relevant ہے ) لکھتے ہیں : ” جب سے گلیلیو پر چرچ کی جانب سے مقدمہ چلایا گیا اور اسے سزا دی گئی، تب سے سائنس کی تاریخ میں یہ بات بکثرت دہرائی جاتی ہے کہ کائنات کے بارے میں مذہبی اور سائنسی تعبیریں اور توضیحات باہم متصادم ہیں اور ان کی تطبیق و مصالحت تقریباً ناممکن ہے۔ اگرچہ میں اس بات کا قائل ہو چکا ہوں کہ سائنسی سچائی اپنے دائرہ کار میں ناقابلِ تردید اور اٹل ہے، لیکن یہ مذہبی ڈسکورس کو انسانی شعور کی محض ایک متروک حالت کا خطاب دے کر اسے برطرف اور رد کرنے میں کبھی بھی کامیاب نہ ہو سکی۔ یوں میں اپنی زندگی کے کئی دوراہوں پر اس بات پر مجبور ہوا کہ علم کی ان دونوں کائناتوں کے باہمی تعلق پر غور کروں، کیونکہ یہ دونوں Modes of Knowledge جس حقیقت ( خدا ) کی جانب اشارہ کرتے ہیں، میں اس کے وجود پر کبھی بھی شک کرنے کے قابل نہیں ہو سکا۔ ” عظیم ماہرِ فزکس Sir Arthur Eddington اپنے شاہکار ” The Nature of the Physical World ” میں یوں رقم طراز ہوتے ہیں : ” ہم سب جانتے ہیں کہ انسانی روح کی کچھ ایسے گوشے ہیں جو فزکس کی دنیا سے ماورا ہیں۔ انسانی روح ہمارے اردگرد مخلوقات کی پراسرار کیفیات، آرٹ کے اظہار اور حبِ الہیٰ میں پروان چڑھتی ہے اور فطری طور اپنے اندر موجود تشنگی کی تسکین کرتی ہے۔اس روحانی بالیدگی کی تصدیق خود ہمارے اندر ایک اندرونی جدوجہد کی صورت میں موجود ہے جو ہمارے شعور کے ساتھ جنم لیتی ہے یا وہ نورِ قلب جو کہیں زیادہ صاحبِ قدرت اور قادرِ مطلق ہستی سے ہم تک پہنچتا ہے۔ سائنس اس پر سوال نہیں اٹھا سکتی , کیونکہ سائنس کی اپنی جستجو کا چشمہ ایک ایسی کشمکش کے نتیجے میں پھوٹا ہے جو انسانی عقل کو اپنی تقلید کے سوا اور کوئی راستہ نہیں دیتی , ایک ایسی پیاس جسے بجھانے کے لیے انسانی عقل ناکافی ہے۔ یہ روشنی سائنس کی عقلی و عملی سرگرمیوں میں پنہاں ہو یا روح کے ماورائے فہم و مشاہدہ تجربات میں جاری ہو، یہ ہمیں آگے کی جانب مائل کرتی ہے اور ہماری فطرت میں موجزن مقصدِ حیات کا یہ سفر اس روشنی میں جاری رہتا ہے۔ ” Erwin Schroedinger کو atomic theory کی نئی productive forms دریافت کرنے کے
صلے میں 1933 ء میں فزکس کے شعبے میں نوبل انعام سے نوازا گیا۔ وہ اپنے ایک مقالے میں لکھتے ہیں : ” سائنس ایک کھیل ہے ـــ ایک ایسا کھیل جو (علم و شعور کے ) تیز دھار چاقوؤں کی مدد سے اس کائنات کی حقیقت کے ساتھ کھیلا جاتا ہے۔ اگر ایک شخص احتیاط سے ایک تصویر کو ہزار ٹکڑوں میں کاٹ دے، تو وہ ان ٹکڑوں کو باہم جوڑ کر اس تصویر کی شکل میں یہ puzzle حل کر سکتا ہے۔ یہ سب کرنے میں چاہے وہ کامیاب ہو یا ناکام، لیکن اس کی ذہانت و فطانت بہرحال اس کام میں صرف ہوتی ہے۔ کسی سائنسی مسئلے کی رونمائی کے عمل میں، دوسرا کھلاڑی اس کائنات کا خالق و مالک خدا ہے۔ اس نے نہ صرف ان مسئلوں کو انسان کے لیے مخصوص کیا ہے بلکہ اس کھیل کو کھیلنے کے کچھ اصول و ضوابط بھی وضع کیے ہیں ـــ لیکن یہ قوانین ہم مکمل طور پر نہیں جانتے، کیونکہ ان میں سے نصف ایسے ہیں جنہیں ہمارے ( انسان کے ) لیے چھوڑا گیا ہے کہ ہم انہیں دریافت کریں یا اخذ کریں۔ یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ کتنے قوانین خدا نے مستقل طور پر وضع کیے ہیں اور کتنے ایسے ہیں جنہوں نے بظاہراً ہمارے دماغی جمود سے جنم لیا ہے , لیکن ان مسائل کا حل تب ہی ممکن ہے جب ہم اپنی عقل و خرد کی حدود و قیود سے آزاد ہوں گے۔ یہ بات اس کھیل میں دلچسپ ترین ہے۔ ” ایک جگہ Erwin Schroedinger مزید لکھتے ہیں : ” مادی اصطلاحات میں شعور کا درست ناممکن ہے۔ کیونکہ شعور بذاتِ خود ایک بنیادی کُل (Absolutely Fundamental)
ہے۔ اور دیگر غیر متعلق اصطلاحات میں اس کی شرح نہیں ہو سکتی۔ ” Harvard University کے نوبل انعام یافتہ ماہرِ حیاتیات George Wald نے biologists کی اس عام روش یعنی مادیت پرستی کو قبول کرنے کی نظریاتی وجوہات سے ہٹ کر اپنا موقف اپنایا ہے۔” Life and Mind in the Universe ” کے عنوان پر ہونے والے ایک Quantum Biology Symposium میں خطاب کرتے ہوئے George Wald نے کہا: ” مجھے بہت دیر سے اس بات کا ادراک ہوا کہ ان دونوں سوالوں ( ماخذِ شعور اور بے جان مادے سے زندگی کے نقطہِ آغاز) کی کسی نہ کسی درجے میں باہمی تطبیق کی جا سکتی تھی۔ یہ بات اس مفروضے سے منسلک ہے کہ شعور ارتقائے حیات کا شاخسانہ نہیں بلکہ ایک مایا جال (Matrix) کی شکل میں مادی حقیقت کے منبع اور شرطِ وجود کے طور پر پہلے سے موجود ہے۔ ( اس کا مطلب یہ ہے کہ ) مادی حقائق اپنی ساخت میں شعوری ہیں (مادی نہیں ) اور یہ شعور ہی ہے جس کے ذریعے اس روئے زمین پر حیات کی افزائش کرنے والی مادی کائنات کی تشکیل ہوئی ہے اور یوں ایک ایسی مخلوق (انسان) کا بھی ظہور ہوا جس نے سائنس، آرٹ اور ٹیکنالوجی کو تخلیق کیا ہے۔ ” ماہرِ فزکس، ریاضی دان اور ماہرِ فلکیات Sir James Jeans کہتے ہیں : ” زمان و مکان کی اصطلاحات میں تخلیقِ کائنات پر بحث کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی کینوس کے کنارے کھڑے ہو کر مصور اور تصویر کشی کو دریافت کرنے کی کوشش رہا ہو۔ یہ بات ہمیں ان فلسفیانہ نظاموں کے قریب کرتی ہے جو اس کائنات کو اس کے خالق کے اعلیٰ ترین شعور کا ایک خیال قرار دیتے ہیں اور یوں کائنات کی مادی تخلیق کے تمام مبحثوں کو مہمل بنا دیتے ہیں۔”
Albert Einstein کہتے ہیں : ” جتنا گہرائی میں سائنس کو پڑھتا گیا، اتنا میرا خدا پر ایمان بڑھتا گیا .” . . . . . . . . . . ” میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ خدا نے اس کائنات کو کیسے تخلیق کیا۔ مجھے عناصر کی روشنی میں مظاہر کی جانچ میں کوئی دلچسپی نہیں۔ میں ( کائنات کو چلانے کے ) خدا کے بنائے ہوئے قوانین جاننا چاہتا ہوں، باقی تمام تفصیلات جزوی اور ثانوی ہیں۔ ” James Joule نے بقائے توانائی کے کلیے (Conservation Of Energy) کی بنیاد پر حرارتی مرکبات کا پہلا قانون (First Law Of Thermodynamics) پیش کیا۔ انہوں نے Kinetic Theory of Gasses کی تشکیل میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ وہ کہتے ہیں : ” یہ بات بالکل واضح ہے کہ قوانینِ فطرت سے واقفیت دراصل اس منشائے الہیٰ اور ارادہِ خداوندی کی پہچان ہے جو ان قوانین میں جاری ہیں۔ ” Srinivasa Ramanujam کو Archimedes اور Newton کے مساوی تاریخ کے عظیم ترین ریاضی دانوں میں سے ایک گردانا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے : ” میرے نزدیک ایک تسویہ (equation) بے معنی ہے اگر وہ (قوانینِ فطرت میں جاری ) کسی ارادہِ خداوندی کی جانب اشارہ نہ کرے۔ ” Kings College, London کے فلسفے کے ریٹائرڈ پروفیسر اور Council of the Royal Institute of Philosophy کے ممبر Keith Ward اپنی کتاب ” Doubting Dawkins, Why There Almost Certainly is A God ” میں لکھتے ہیں : ” کیا ایک اعلیٰ ترین شعور حقیقت کی ایک قطعی اور ناقابلِ تخفیف صورت ہے ؟ کیا واقعی یہ حقیقت کی بنیادی خصوصیت ہے یا شعور بنیادی طور پر ارتقاء کے مادی عمل کی ایک غیر متوقع اور غیر ارادی پیداوار ہے ؟ "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ” اگر ہم فلسفے کی تاریخ پر نگاہ دوڑائیں تو یہ بات اظہر من الشمس ہو جائے گی کہ تقریباً تمام بڑے کلاسیکل فلسفی اس بات پر قریباً ایک جیسی رائے رکھتے تھے۔ افلاطون (Plato)، ارسطو (Aristotle)، اینسلم (Anselm)، ایکوائنس (Aquinas)، ڈیکارٹ (Descartes)، لیبنیز ( Leibniz)، اسپنوزا (Spinoza)، لاک (Locke)، برکلے (Berkeley)، کانٹ (Kant) اور ہیگل (Hegel) ان سب کے مطابق حقیقتِ مطلق مادی کائنات اور زمان و مکان کے ظواہر و مظاہر سے ماورا ہے اور غیر مادی اور ورائے زمان و مکان ہے۔ ” فلسفی John Locke جو تحریکِ تنویر ( Enlightenment Project ) کے ایک بہت اہم مفکر سمجھے جاتے ہیں، ان کا کہنا ہے : ” یہ تصور کرنا ناممکن ہے کہ شعور و خیالات سے عاری مادہ ایک باشعور اور ذہین و فطین وجود کو پیدا کر سکے جیسا کہ کسی شے کا خودبخود پیدا ہو جانا بھی محال ہے۔ ” Sir Isaac Newton، جنہیں تاریخ انسانی کا عظیم ترین سائنسدان مانا جاتا ہے، اپنی کتاب ” Principia ” (جسے اہم ترین سائنسی کام تسلیم کیا جاتا ہے ) میں رقم طراز ہیں : ” اندیکھی مابعدالطبیعات کی ضرورت ہمیشہ سے ہے اور ہر جگہ ہے، چاہے اس سے بہت سی علمی و عقلی موشگافیاں نہ بھی سلجھتی ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ مختلف زمانوں اور مختلف مقامات پر رچے بسے فطرت کے ان تمام تنوعات کا صدور عدم سے ہوا ہو، لیکن یہ بات ایک لازمہ ہے کہ منشائے الہیٰ اور ارادہِ خداوندی (اس سب کے پیچھے) اپنا وجود رکھتی ہے۔ ”
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔