Monday 17 September 2018

قرآنی علم الجنین یا ایمبریالوجی(ماں کے پیٹ میں بچے کے بننے ک سائنسی علم) کو ایک ملحدہ کا چیلنج اور اس کاجواب عقل حرام کی پوسٹ کا جواب ترتیب و تحریر۔۔احید حسن

قرآنی علم الجنین یا ایمبریالوجی(ماں کے پیٹ میں بچے کے بننے ک سائنسی علم) کو ایک ملحدہ کا چیلنج اور اس کاجواب
عقل حرام کی پوسٹ کا جواب
ترتیب و تحریر۔۔احید حسن
************************************************
قرآن اورجنینیات (Embryology) دراصل قرآن میں جدید جنینیات کے بارے میں معلومات اور انکشافات کو کہا جاتا ہے۔ قرآن کے ایک ہزار سے زیادہ آیات جدید سائنس کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہیں۔ اور اس میں بیسیوں آیات صرف جنینیات کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں۔ قرآن میں موجود جنینیات کے متعلق حقائق جدید سائنس سے مکمل مطابقت رکھتی ہے۔
قرآن کریم کی سورت المومنون کی آیات بارہ سے چودہ میں ارشاد ہے:
''اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصہ (یعنی غذا) سے بنایا۔ (۱۲) پھر ہم نے اس کو نطفہ سے بنایا جو کہ (ایک مدت معینہ تک) ایک محفوظ مقام (یعنی رحم) میں رہا۔ (۱۳) پھر ہم نے اس نطفہ کو خون کا لوتھڑا بنایا پھر ہم نے اس خون کے لوتھڑے کو (گوشت کی) بوٹی بنایا پھر ہم نے اس بوٹی (کے بعض اجزا) کو ہڈیاں بنایا پھر ہم نے ان ہڈیوں پر گوشت چڑھا دیا پھر ہم نے (اس میں روح ڈال کر) اس کو ایک دوسری ہی (طرح کی) مخلوق بنا دیا سو کیسی بڑی شان ہے الله کی جو تمام صناعوں سے بڑھ کر ہے۔ (۱۴)''
 ملحدہ کا کہنا ہے کہ میں اس متن کو چیلنج کرنا چاہتی ہوں کیونکہ اس میں نمایاں سائنسی غلطیاں ہیں۔
اس کا کہنا ہے کہ  اس میں صرف نطفے (مردانہ جنسی خلیوں / سپرمز ) کا ذکر ہے اور حمل کے ٹھہرنے یا نئی زندگی کی تخلیق میں ماں کے جنسی خلیوں (اووسائٹ ) کا کوئی ذکر نہیں . 1828ء میں اوو سائٹس کی دریافت سے قبل تک انسان کو ان کے وجود یا کردار کا کوئی علم نہیں تھا.
 ملحدہ کی خدمت میں عرض ہے کہ عربی کے لفظ سُلٰلَہ کامعنی ہے جوہر ،ست ،خلاصہ یا کسی چیز کا بہترین حصہ۔ اس بات کا بھی علم ہمیں حال ہی میں ہواہے کہ کسی انڈے کے اندر داخل ہونے والا منی کا ایک معمولی ساقطرہ یا جرثومہ ہی اسے بارآور بنانے کے لیے کافی ہے۔حالانکہ ایک مرد کئی کروڑ جرثومے پیدا کرتاہے۔ قرآن مجید نے اس بات کی کہ '' کروڑوں جرثوموں میں سے ایک جرثومہ '' کی نشاندہی لفظ سُلٰلَہ سے کی ہے۔ اسی طرح  اس بات کو بھی ہم نے حال ہی میں معلوم کیا ہے کہ عورت کے رحم کے اندر بننے والے لاکھوں انڈوںمیں سے صرف ایک انڈہ ہی بارآور ہوتاہے (ہر بالغ عورت کے مخصوص حصے میں  4 لاکھ ناپختہ انڈے موجود رہتے ہیں مگر ان میں سے صرف ایک انڈہ پختہ ہوکر اپنے مقرر ہ وقت پر نمودار ہوتاہے )۔چنانچہ اس بات کو بھی لفظ سُلٰلَہ ہی سے تعبیر کیا گیاہے یعنی لاکھوں انڈوں میں سے ایک ہی انڈے کا بارآور ہونا۔اس طرح قرآن کسی طرح مادہ انڈے کا انکار نہیں کرتا۔کسی چیز کا واضح بیان یا بالکل غیر بیان اس کا انکار نہیں ہوتا۔
ہارون یحییٰ اپنی مایۂ نازکتاب میں لکھتے ہیں کہ ''عربی زبان میں ''سُلٰلَة''کا ترجمہ ست یا جوہر کیا گیا ہے، جس کا مطلب ہے کسی شے کا نہایت ضروری اوربہترین حصہ۔ اس کا جو بھی مفہوم لیا جائے اس کے معنی ہیں ''کسی کل کا ایک جزو'' ......مباشرت کے دوران ایک نر بیک وقت کئی کروڑکرم منوی یا جرثومے خارج کرتا ہے۔ یہ تولیدی مادہ پانچ منٹ کا مشکل سفر ماں کے جسم میں طے کرکے بیضہ تک پہنچتا ہے۔ ان کروڑوں جرثوموں میں سے صرف  1000  جرثومے بیضے تک پہنچنے میں کامیاب ہو تے ہیں۔اس بیضے کا سائز نصف نمک کے دانے کے برابر ہو تا ہے جس میں صرف ایک جرثومے کو اندر آنے دیا جاتا ہے۔ گویا انسان کا جوہر پورا مادہ منویہ نہیں ہو تا بلکہ اس کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ اس کا جو ہر بنتا ہے ''۔ اس طرح سللۃ کی تشریح میں مرد کا مادہ منویہ اور عورت کا انڈہ دونوں شامل ہیں۔قرآن پر یہ اعتراض کرنا کہ اس میں عورت کے بیضہ یا انڈے کا کوئ ذکر نہیں،بالکل غلط ہے۔
اسلام نے کبھی عورت کے نطفے یا سائنسی معنوں میں عورت کے بیضہ یا انڈے کا انکار کیا ہی نہیں ہے۔یہ حدیث پڑھیں
بَاب حَدَّثَنِي حَامِدُ بْنُ عُمَرَ عَنْ بِشْرِ بْنِ الْمُفَضَّلِ حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ حَدَّثَنَا أَنَسٌ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَلَامٍ بَلَغَهُ مَقْدَمُ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ فَأَتَاهُ يَسْأَلُهُ عَنْ أَشْيَائَ فَقَالَ إِنِّي سَائِلُکَ عَنْ ثَلَاثٍ لَا يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا نَبِيٌّ مَا أَوَّلُ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ وَمَا أَوَّلُ طَعَامٍ يَأْکُلُهُ أَهْلُ الْجَنَّةِ وَمَا بَالُ الْوَلَدِ يَنْزِعُ إِلَی أَبِيهِ أَوْ إِلَی أُمِّهِ قَالَ أَخْبَرَنِي بِهِ جِبْرِيلُ آنِفًا قَالَ ابْنُ سَلَامٍ ذَاکَ عَدُوُّ الْيَهُودِ مِنْ الْمَلَائِکَةِ قَالَ أَمَّا أَوَّلُ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ فَنَارٌ تَحْشُرُهُمْ مِنْ الْمَشْرِقِ إِلَی الْمَغْرِبِ وَأَمَّا أَوَّلُ طَعَامٍ يَأْکُلُهُ أَهْلُ الْجَنَّةِ فَزِيَادَةُ کَبِدِ الْحُوتِ وَأَمَّا الْوَلَدُ فَإِذَا سَبَقَ مَائُ الرَّجُلِ مَائَ الْمَرْأَةِ نَزَعَ الْوَلَدَ وَإِذَا سَبَقَ مَائُ الْمَرْأَةِ مَائَ الرَّجُلِ نَزَعَتْ الْوَلَدَ قَالَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّکَ رَسُولُ اللَّهِ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ الْيَهُودَ قَوْمٌ بُهُتٌ فَاسْأَلْهُمْ عَنِّي قَبْلَ أَنْ يَعْلَمُوا بِإِسْلَامِي فَجَائَتْ الْيَهُودُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ رَجُلٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ فِيکُمْ قَالُوا خَيْرُنَا وَابْنُ خَيْرِنَا وَأَفْضَلُنَا وَابْنُ أَفْضَلِنَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَسْلَمَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ قَالُوا أَعَاذَهُ اللَّهُ مِنْ ذَلِکَ فَأَعَادَ عَلَيْهِمْ فَقَالُوا مِثْلَ ذَلِکَ فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ عَبْدُ اللَّهِ فَقَالَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ قَالُوا شَرُّنَا وَابْنُ شَرِّنَا وَتَنَقَّصُوهُ قَالَ هَذَا کُنْتُ أَخَافُ يَا رَسُولَ اللَّهِ
حامد بن عمر بشر بن مفضل حمید حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ میں تشریف آوری کی خبر جب عبداللہ بن سلام کو پہنچی تو انہوں نے آکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے چند سوالات کئے اور کہا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تین ایسی باتیں دریافت کروں گا کہ جنہیں نبی کے سوائے کوئی نہیں جانتا سب سے پہلی قیامت کی علامت کیا ہے؟ اور سب سے پہلی غذا جسے اہل جنت کھائیں گے کیا ہے؟ اور کیا وجہ ہے کہ بچہ (کبھی) باپ کے مشابہ ہوتا ہے اور (کبھی) ماں کے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جبرائیل نے مجھے ابھی ان کا جواب بتلایا ہے ابن سلام نے کہا کہ وہ تو یہودیوں کے خصوصی دشمن ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کی سب سے پہلی علامت ایک آگ ہوگی جو لوگوں کو مشرق سے مغرب کی طرف لے جائے گی اور اہل جنت کی سب سے پہلی غذا مچھلی کی کلیجی کا ٹکڑا ہوگا اور رہا بچہ کا معاملہ تو جب مرد کا نطفہ عورت کے نطفہ پر غالب آ جائے تو بچہ باپ کی صورت پر ہوتا ہے اور اگر عورت کا نطفہ مرد کے نطفہ پر غالب آ جائے تو بچہ عورت کا مشابہ ہوتا ہے انہوں نے کہا أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ (پھر) کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہودی بڑی افترا پرداز قوم ہے میرے اسلام لانے کا انہیں علم ہونے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے میرے بارے میں دریافت کیجئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہود کو بلوا بھیجا جب وہ آ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ) فرمایا کہ عبداللہ بن سلام تم میں کیسے آدمی ہیں؟ انہوں نے جواب دیا ہم میں سب سے بہتر اور بہترین آدمی کے لڑکے ہم میں سب سے افضل اور افضل کے لڑکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بتاؤ تو اگر عبداللہ بن سلام مسلمان ہو جائیں تو کیا تم بھی ہو جاؤ گے؟ انہوں نے کہا اللہ انہیں اس سے محفوظ رکھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ یہی فرمایا تو انہوں نے وہی جواب دیا پھر عبداللہ بن سلام ان کے سامنے (باہر) نکل آئے اور کہا أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ تو یہودیوں نے کہا یہ ہم میں سب سے بدتر اور بدتر کی اولاد ہیں اور ان کی برائیاں بیان کرنے لگے انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھے ان سے اسی بات کا اندیشہ تھا۔
غور کیجئے اس حدیث میں واضح طور پر مرد عورت دونوں کے نطفے کا بیان کیا گیا ہے اور عورت کا نطفہ بیضہ یا انڈہ ہی ہے۔قرآن کا بیان اجمالی ہوتا ہے۔اگر قرآن کسی بات کا تذکرہ نہ کرے یا اسے گہرے یا استعاراتی معنوں میں استمعال کرے یا اس کا بالکل بیان نہ کرے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن نے اس کا انکار کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ ایک دوسرے مقام پر ماںباپ کے مخلوط نطفے کا ذکر بھی فرماتاہے ۔
(اِنّاخَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ ق نَّبْتَلِیْہِ فَجَعَلْنٰہُ سَمِیْعًا م بَصِیْرًا)
'' ہم نے انسان کو (مرد اور عورت کے ) ایک مخلوط نطفے سے پید اکیا تاکہ اس کا امتحان لیں اور اس غرض کے لیے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا ''
مولانا عبدالرحمان کیلانی  اس آیت کے تحت لکھتے ہیں کہ '' یعنی باپ کا نطفہ الگ تھا ،ماں کا الگ ،ان دونوں نطفوں کے ملاپ سے ماں کے رحم میں حمل قرار پایا۔ پھر ہم نے اس مخلوط نطفہ کو ایک ہی حالت میں پڑا نہیں رہنے دیا۔ ورنہ وہ وہیں گل سڑ جاتا ، بلکہ ہم اس کو الٹتے پلٹتے رہے اور رحم مادر میں اس نطفہ کو کئی اطوار سے گزار کر اسے ایک جیتا جاگتا انسان بنادیا ۔اس سے قرآن نے اشاراتی معنوں میں عورت کے نطفے کا بیان بھی کر دیا۔اس کی دوسری تشریح یہ بھی ہوسکتی ہے کہ  نطفہ اَمشاج کی اصطلا ح سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مادہ کئی رطوبات کا مرکب اور مجوعہ ہے ،اس لیے قرآن مجید نے اُسے مخلوط کہا ہے ۔ ا س امر کی تائید بھی عصرِحاضر کی سائنسی تحقیق نے کردی ہے ۔ جدید سائنسی تحقیق کے مطابق نطفہ یا Spermatic Liquid بعض رطوبات (Secretions)سے بنتاہے ،جو ان غدودوں Testicals, Seminal Vesicles,Prostate Glands, Glands of Urinary Tract سے آتی ہیں۔
عربی لفظ' سُللة' سے مراد کسی مائع کا بہترین حصہ خلاصہ یا جوہر ہے ۔ ا ب ہم جان چکے ہیں کہ زنانہ بیضے کی بار آوری (fertilization) کیلئے مرد سے خارج ہونے والے لاکھو ں کروڑوں خلیات نطفہ میں سے صرف ایک کی خلیہ نطفہ کو قرآن پاک نے سللة کہاہے۔ اب ہمیں یہ بھی پتا چل چکا ہے کہ عورت میں پیدا شدہ ہزاروں بیضوں (ovam) میں سے صرف ایک ہی بارآور ہوتاہے۔ ہزاروں میں سے اسی ایک بیضے کے لئے ( جو بارآور ہوتا ہے ) قرآن پاک نے سللة کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اس لفظ کا ایک اور مفہوم کسی مائع سے (کسی چیزکا) بڑی احتیاط سے اخراج بھی ہے۔ اس مائع سے مراد زنانہ اور مردانہ دونوں طرح کے تولیدی مائعات بھی ہیں جن میں صنفی تخم (gametes) موجود ہوتے ہیں۔ بارآوری کے مرحلے کے دورا ن نطفہ خلیہ اور بیضہ دونوں ہی اپنے اپنے ماحول سے بہ احتیاط جدا ہوتے ہیں۔
عربی لفظ نُطْفَہٍ اَمْشاج کامطلب، ملے ہوئے مائعات ہے، بعض مفسرین کے نزدیک ملے ہوئے مائعات سے مراد عورت یا مرد کے ( تولیدی) عامل (agent) یا مائعات ہیں۔ مردانہ اور زنانہ صنفی تخم (Gametes)کے باہم مل جانے کے بعد بننے والا جفتہ (zygote) بھی ابتداء میں نطفہ ہی رہتا ہے ۔باہم ملے ہوئے ( ہم آمیز) مائعات سے ایک اور مراد وہ مائع بھی ہو سکتاہے جس میں خلیات نطفہ تیر رہے ہوتے ہیں ۔ یہ مائع کئی طرح کی جسمانی رطوبتوں (fluids)سے مل کربنتاہے جو کئی جسمانی غدود (glands)سے خارج ہوتی ہیں۔
لہٰذہ نطفةٍ امشاج یعنی آپس میں ملے ہوئے مائعات کے ذریعے مردانہ و زنانہ صنفی مواد (تولیدی مائع یا خلیات) اور اس کے اردگرد مائعات کے کچھ حصّے کی جانب اشارہ کیاجارہا ہے۔
آگے ملحدہ نے اعتراض کیا کہ قرآن کے مطابق پہلے ہڈیاں بنتی ہیں جب کہ سائنس کے مطابق پہلے ماں کے پیٹ میں بچے کا گوشت بنتا ہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ جس آیت کو پیش کر کے اس ملحدہ نے قرآن پر اعتراض کیا ہے،خود اس آیت کے مطابق پہلے گوشت بنتا ہے لیکن یہ ملحدہ قرآن کے تعصب میں اتنی اندھی ہوگئ تھی کہ آیت میں بیان کردہ ماں کے پیٹ میں بچے کی تخلیق کے مراحل کو بھی ٹھیک سے نہ پڑھ سکی اور اچھی طرح پٹھے بغیر اعتراض داغ دیا کہ قرآن کے مطابق ماں کے پیٹ میں پہلے بچے کی ہڈیاں بنتی ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ جدید علم الجنین یا ایمبریالوجی اور قرآن دونوں کے مطابق پہلے لوتھڑا یعنی گوشت بنتا ہے اور بعد میں اس گوشت یا بوٹی کے کچھ اجزاء سے ہڈیاں بنتی ہیں۔قرآن کی آیت ملاحظہ کیجیے۔
(وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِیْنٍ  ۔ ثُمَّ جَعَلْنٰہُ نُطْفَةً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ  ۔ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَاالْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَکَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًا ق ثُمَّ اَنْشَاْنٰہُ خَلْقًا اٰخَرَ ط فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ)
'' اور ہم نے انسان کو مٹی کے سَت سے پیداکیا۔پھر ہم نے اسے ایک محفوظ مقام (رحم مادر)میں نطفہ بنا کر رکھا۔پھر نطفہ کو لوتھڑا بنایا پھر لوتھڑے کو بوٹی بنایا پھر بوٹی کو ہڈیاں بنایا پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا،پھر ہم نے اسے ایک اور ہی مخلوق بنا کر پیدا کر دیا۔ پس بڑا بابرکت ہے ،اللہ جو سب بنانے والوں سے بہتر بنانے والا ہے''۔
یہی بات سائنس کہتی ہے کہ پہلے گوشت بنتا ہے اور بعد میں اس میں ہڈیاں بنانے والے خلیے یا Osteoblasts بنتے ہیں۔اور بعد میں ان ہڈیوں پر دوبارہ  عضلات کی صورت میں گوشت چڑھایا جاتا ہے۔قرآن نے پہلا مرحلہ بیان کیا جس میں لوتھڑے یا بوٹی سے ہڈیاں بنتی ہیں جب کہ ملحدہ نے کمال چالاکی سے اسے دوسرے مرحلے پر محمول کر کے قرآن پر اعتراض کرنے کی کوشش کی۔
پروفیسر کیتھ مور اوردیگر ماہرین کے مطابق ''علقہ '' کے مرحلے کے دوران انسانی جنین جونک کے مشابہہ ہوتاہے،کیونکہ اس مرحلہ میں انسانی جنین اپنی خوراک ماں کے خون سے حاصل کرتاہے جس طرح جونک دوسروں کا خون چوستی ہے۔ چنانچہ اس مرحلہ کے دوران خون کی ایک  بڑ ی مقدار جنین کے اندر موجود رہتی ہے اور جنین میں موجود خون تیسرے ہفتہ کے اختتام تک گردش نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس مرحلہ کے دوران جنین کی ظاہری شکل جمے ہوئے خون کے لوتھڑے یا بوٹی  سے مماثل ہوتی ہے (15دن کے جنین کا سائز تقریباً0.6 ملی میڑ ہوتاہے )۔بعد میں اس سے تشکیل پانے والی ہڈیاں بنتی ہیں اور پھر ان پر گوشت چڑھایا جاتا ہے۔
آگے ملحدہ نے اعتراض کیا ہے کہ  کچھ لوگوں کے بقول قرآن کی یہ معلومات یونانی سائنسدان کلاڈیس گیلن کے کام سے چرائی گئی ہیں ۔ ملحدین و مستشرقین جب قرآنی علم الجنین یا ایمبریالوجی کا انکار نہیں کر سکتے تو دوسرا اعتراض یہ کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ علم نعوذ بااللہ قدیم یونانی سائنسدانوں جیسا کہ ارسطو  اور جالینوس یعنی گیلن سے حاصل کیا۔یہی اعتراض اس عقل حرام ملحدہ نے بھی کیا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر مبنی کئ کتابوں کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے والا  واحد یونانی علم طب جاننے والا فرد حارث بن قلادہ تھا جو چھٹی صدی عیسوی میں قبیلہ بنو ثقیف میں پیدا ہوا۔محض ملاقات سے کس طرح یہ بات محض امکانی طور پر کی جاسکتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمبریالوجی کا یہ علم حارث سے حاصل کیا۔جب کہ وہ صرف علم طب کا ماہر تھا اور ایمبریالوجی کا نہیں۔الزام لگانے والے محض ایک شک کی بنیاد پر الزام لگاتے ہیں جس کی آج تک ان کے پاس کوئ گواہی نہیں۔دوسری بات یہ کہ حارث کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے یونانی علم طب جوندیشا پور۔۔۔Jundishapur....کے ایک فارسی کالج سے حاصل کیا جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس فارسی کالج کا وجود ہی آج تک مشکوک ہے۔یہی بات ڈیوڈ سی لنڈبرگ نے اپنی کتاب The Beginnings of Western Science, highlights the legendary status of the school میں کی ہے اور اس علاقے میں ایسے کسی کالج کا ساتویں صدی تک کوئ وجود نہیں ملتا اور خود حارث کا ایک طبیب ہونا بھی ثابت نہیں۔یہی بات پروفیسر جیراڈ ہاٹنگ نے اپنی کتاب The Development of the Biography of al-Harith ibn Kalada and the Relationship between Medicine and Islam میں کی ہے۔
 اگر یہ کہا جائے کہ یونان اور عرب کے درمیان ثقافتی رابطہ تھا اور اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نعوذ بااللہ یہ علم  اس وقت عرب میں میسر کسی  یونانی کتاب سے حاصل کیا تو یاد رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لکھنا  پڑھنا نہیں جانتے تھے۔رائے پورٹر نے خود اپنی کتاب The Greatest Benefit to Mankind: A Medical History of Humanity from Antiquity to the Present میں لکھا ہے کہ جس میں عربوں کی طب تعلیم یافتہ ہوئ۔دوسری بات یہ کہ اگر یہ باتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سے سن کر یا سیکھ کر قرآن میں داخل کی تو کیا وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن اس بات پر چپ رہتے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک بات کو نشانہ تنقید بناتے تھے؟جب کہ شامی اور یونانی زبانیں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں جانتے تھے نہ ہی تاریخ میں اس بات کی کوئ عین گواہی موجود ہے۔یونانی طب کا پہلا عربی ترجمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے پچاس سال بعد ہوا۔
مزید یہ کہ قرآن کی ایمبریالوجی یونانی ایمبریالوجی سے بہت مختلف ہے۔ارسطو کے مطابق صرف مرد کا مادہ منویہ جنین یا ایمبریو بناتا ہے جب کہ قرآن و حدیث  کے مطابق اس عمل میں مرد و عورت دونوں کا نطفہ شامل ہوتا ہے۔ارسطو کے مطابق مادہ ایمبریو یا جنین ماں کے پیٹ میں بائیں طرف جب کہ نر جنین دائیں طرف پرورش پاتا ہے جب کہ قرآن ایسی کوئ بات نہیں کرتا اور نہ ہی جدید سائنس اس کو مانتی ہے۔ارسطو کے مطابق جسم کا اوپری حصہ پہلے بنتا ہے اور نیچے والا حصہ بعد میں جب کہ قرآن کے مطابق ایسا نہیں ہے۔جالینوس  مادہ منویہ کے لیے یونانی لفظ σπέρματος استعمال کرتا ہے جس کا مطلب مادہ منویہ یا semen ہے۔ جب کہ قرآن اس کے لیے نطفہ کا لفظ استعمال کرتا ہے جو اس مادہ منویہ کا الگ سے ایک جزو ہے۔جب کہ یہ باریکی جالینوس  یا گیلن بیان نہیں کرتا۔اس کے مطابق مادہ منویہ خون سے آتا ہے اور پیدائش کے وقت یہ عورت کے حیض یاماہواری کے خون سے ملتا ہے جب کہ قرآن اور جدید سائنس ایسا نہیں کہتے بلکہ قرآن و حدیث میں تو ماہواری کے دوران عورت سے مباشرت سے منع کیا گیا ہے۔قرآن جمے ہوئے خون یا لوتھڑے علق کا ذکر کرتا ہے جب کہ گیلن یا جالینوس اس کے لیے θρόμβος کا لفظ استعمال کرتا ہے جب کہ جمے ہوئے خون کے لیے یونانی لفظ αίματος ہے۔قرآن ماں کے پیٹ میں بچے کی پیدائش تین پردوں میں بیان کرتا ہے اور جنین یا ایمبریو کو جونک کی طرح قرار دیتا ہے۔جب کہ جالینوس یہ نہیں کرتا۔یہ سارے عوامل واضح کرتے ہیں کہ قرآنی ایمبریالوجی یونان سے اخذ نہیں کی گئ اور نہ ہی یہ یونانی سائنس جدید سائنس سے مطابقت رکھتی ہے۔مزید تفصیل کے لیے یہ لنک ملاحظہ فرمائیں

http://www.hamzatzortzis.com/essays-articles/prophetic-studies/did-the-prophet-muhammad-plagiarise-hellenic-embryology/
آگے ملحدہ نے یہ کہنے کی کوشش کی ہے ڈاکٹر کیتھ ایل مور  سائنسدان جنہوں نے قران کی ایمبریالوجی کی تعریف کی ہے،ان کو سعودی حکومت نے سرکاری سرپرستی اور تنخواہ کے ساتھ قرآن پاک کی ایمبریالوجی کا سائنسی ثبوت دینے کے لیے بلایا تھا جس میں ان کی ایمبریالوجی پر کتاب The developing human کا ایک اسلامی ایڈیشن اس موضوع پر شیخ عبدالمجید الزندانی کی طرف سے قرآن پاک و احادیث کے اضافے کے ساتھ سعودیہ کے مسلمان طلباء کے لیے شائع کیا گیا۔مور نے نہ صرف قرآن کی ایمبریالوجی کی تعریف کی بلکہ یہ بھی کہا کہ قرآن اپنے اس بیان سے کلام خدا معلوم ہوتا ہے کیونکہ جس زمانے میں قرآن نازل ہوا اس زمانے میں یہ باتیں کوئ نہیں جانتا تھا۔
ملحدہ نے شیخ عبدالمجید الزندانی کے بارے میں یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ ان کا تعلق اسامہ بن لادن سے تھا اور وہ دہشت گرد ہیں۔یورپ،وسط ایشیا اور چین میں کروڑوں انسانوں کا قتل کرنے والے ملحد اب فیصلہ کریں گے کہ کون دہشت گرد ہے۔سبحان للٰہ۔آپ دوسرے کے گھر آگ لگائیں اور پھر اس امید پر رہیں کہ آپ کے گھر ایک پتھر بھی نہیں آئے گا تو آپ کی عقل کی سو توپوں کی سلامی دینی چاہیے محترمہ۔
آگے محترمہ نے یہ کہا ہے کیتھ ایل مور سے جب وال سٹریٹ جرنل نے قرآن کے بارے میں پوچھنے کی کوشش کی تو انہوں نے کہا کہ یہ دس سے پندرہ سال پہلے کی بات ہے جب انہوں نے قرآن پر کام کیا۔پہلے قرآن کی ایمبریالوجی کی تعریف اور اب کیتھ ایل مور کی قرآن کے بارے میں مکمل خاموشی کی وجہ ڈاکٹر یوسف ایستیتس یہ بیان کرتے ہیں کہ ان کو امریکی خفیہ ایجنسی ایف بی آئی کی طرف سے ہراساں کیا گیا تھا کہ وہ نعوذ بااللہ ایک دہشت گرد کتاب قرآن کی تعریف کیوں کرتے ہیں۔اس کے بعد انہوں نے قرآن کے بارے میں مکمل خاموشی اختیار کر لی۔لیکن اس کے بعد بھی  انہوں نے اپنی کتاب The developing human کے آٹھویں ایڈیشن میں قرآن کی ایمبریالوجی کو  اپنی کتاب میں نہ صرف درج ذیل الفاظ میں بیان کیا بلکہ اسے High point of embryological investigation کہ کر اس کی تعریف بھی کی۔اس سے پہلے چھٹے ایڈیشن میں انہوں نے قرآن ایمبریالوجی کو یونانیوں کی طرف منسوب کرنے کی کوشش کی تھی اور اس کی جو حقیقت ہے اس کا بیان میں اوپر کر چکا ہوں۔
   مثال کے طور پر اگر مان بھی لیا جائے کہ کیتھ ایل مور نے قرآن کی تعریف نہیں کی تو کیا قرآن غلط ہوجائے گا۔قرآن کو اپنی تصدیق کے لی کسی سائنسدان کے تعریفی کلمات کی ضرورت نہیں۔یہ کتاب ہدایت ہے جو مانے گا اس کا اپنا بھلا ہے اور جو نہ مانے گا اس کے لیے اس کی اپنی جہنم ہے۔ اور بہت سے سائنسدان ویسے بھی قرآن کی تعریف کر کے مسلمان ہوچکے ہیں جن میں فرانس کے مشہور سائنسدان مورس بکالے بھی شامل ہیں۔قرآن کی تعریف کرنے والے دوسرے کئ سائنسدان بھی ہیں جن میں ڈاکٹر جیرالڈ سی گورنگر،ڈاکٹر ای مارشل جانسن،ڈاکٹر ٹی وی این پرساد نمایاں ہیں۔مزید سائنسدانوں کی فہرست طوالت کے پیش نظر اس وقت پیش نہیں کی جا رہی اور قرآن تب بھی زندہ تھا جب اسے لوگوں نے نہیں مانا تھا اور یہ آج بھی زندہ ہے جب اس کے ماننے والے کروڑوں میں ہیں۔قرآن کو سائنسدانوں اور لوگوں کی نہیں بلکہ سائنسدانوں اور لوگوں کو اپنی ہمیشہ کی فلاح کے لیے قرآن کی ضرورت ہے۔قرآن کل بھی زندہ تھا،آج بھی زندہ ہے اور ان شاء اللہ ہمیشہ زندہ رہے گا خواہ کوئ اسے مانے یا نہ مانے۔
حوالہ جات:
http://quraaninurdu.blogspot.com/2010/04/blog-post_1115.html?m=1
قرآن، بائبل اور جدید سائنس، مصنّف : ڈاکٹرمارس بوکائے، صفحہ 12
قرآن اور جدید سائنس، مصنّف : ڈاکٹرذاکر نائیک، صفحات 34
https://ur.m.wikipedia.org/wiki/قرآن_اور_جنینیات

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔