Thursday, 6 September 2018

اسلام ایک ضابطہ حیات ہے

سب سے پہلے یہ سمجھیے کہ "ضابطہ حیات"کہتے کسے ہیں؟
ضابطہ عربی زبان کا لفظ ہے، جو"اصول"کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور "قانون"کے معنوں میں بھی۔خیال رہے جس وقت یہ اصول کے معنی میں ہوگا اس میں قوانین خود بخود شامل ہوں گے، اس طرح اس کے معنی میں وسعت ہوگی۔ اصول معلوم ہوں تو انتظامی قوانین بنائے اور توڑے جاسکتے ہیں۔لیکن جب یہ قانون کے معنوں میں ہوگا تو یہ صرف "انتظامی قوانین"کا احاطہ کرے گا۔
جب ہم کہتے ہیں کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ، اس کا مطلب ہوتا ہے "اسلام ایک مکمل اصول حیات ہے"اسلام زندگی کے ان اصولوں کا تعین کرتا ہے جن کے تحت قوانین بنائے جا سکتے ہیں، حالات اور زمانے کے اعتبار سے تبدیل بھی کیے جاسکتے ہیں۔
مخالفین اپنے دلائل کی ساری عمارت لفظ "ضابطہ"پر تعمیر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ "ضابطہ"کا مطلب ہے "قطعی اور حتمی قانون جو بالکل تبدیل نہ ہوسکے"اس کے بعد وہ سوالات کی بارش کردیتے ہیں
"ریاستی ڈھانچہ کیسا ہونا چاہیئے یہ اسلام میں کہاں ہے؟"
"ٹریفک کے قوانین قرآن کی کس آیت سے ثابت ہیں؟"
"کس آیت میں لکھا ہے کہ پاکستان پینل کوڈ کے تحت سزائیں دی جائیں؟"
"کس آیت میں کہا گیا ہے کہ حج کے لیے ویزہ پاسپورٹ سسٹم کی پیروی کرو"
"لال بتی پر گاڑی کو کس اسلامی حکم کے تحت روکتے ہیں"
پس ثابت ہوا کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات نہیں ہے!
یہ ہے سارا کچا چٹھہ اور یہ ہے مخالفین کی علمی سطح۔
آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ اسلام کیسے مکمل ضابطہ حیات ہے
سب سے پہلے ایک لسٹ بنائیے
جس میں انسانی زندگی کے تمام موضوعات شامل ہوں، یعنی ایک انسان کو دنیا میں کن کن معاملات میں راہنمائی کی ضرورت پیش آتی ہے۔ مثلاً روحانی راہنمائی ، جسمانی راہنمائی ، معاشی راہنمائی ، معاشرتی راہنمائی ، سیاسی راہنمائی ، ثقافتی راہنمائی ، علمی راہنمائی ، عملی راہنمائی ، جنسی راہنمائی ،ازدواجی راہنمائی وغیرہ وغیرہ ۔ اور پھر دنیا کے تمام مذاہب کو اٹھا کر اس کی تعلیمات میں سے چن چن کر ہر راہنمائی کے خانے میں ہدایات لکھتے جائیں۔اس مذہب کی ہر شعبے سے متعلقہ راہنمائی اور اصول لکھتے جائیں۔
آپ دیکھیں گے کہ اکثر مذاہب "روحانی راہنمائی"سے آگے نہ بڑھ پائیں گے۔
کچھ مذاہب روحانی اور جنسی راہنمائی تک محدود ہوں گے۔ کچھ مذاہب روحانی اور ثقافتی راہنمائی تک ہی ساتھ دیں گے،لیکن ان تمام مذاہب کے بیچ ایک ایسا مذہب ہوگا جس کے پاس انسانی زندگی کے تمام شعبوں سے متعلق واضح اصول ہوں گے، یہ مذہب "اسلام "ہے۔
یہی وجہ ہے کہ باقی مذاہب اسلام سے خار کھاتے ہیں کہ ہم اتنے قدیم مذاہب ہونے کے باوجود "مکمل ضابطہ حیات"سے محروم کیوں ہیں؟
اسلام نے ہر شعبہ ہائے زندگی سے متعلق اتنے لچکدار اصول دیئے ہیں کہ جن کے تحت دنیا کے ہر خطے کے لوگ اپنی ثقافت اور اپنے جغرافیائی ماحول کے مطابق مقامی قوانین بہت آسانی سے بنا سکتے ہیں۔مثال کے طور پر اسلام میں لباس کے متعلق یہ حکم ہرگز نہیں کہ وہ عربی چوغہ ہونا چاہیئے۔ بلکہ اسلامی اصول ملاحظہ فرمائیے۔
"لباس ایسا ہو جو ستر کو ڈھانپ لے۔۔۔ عورتیں مردوں والا لباس نہ پہنیں اور نہ مرد عورتوں والا۔۔۔ لباس نہ تو چست ہو کہ جس سے اعضا کی بناوٹ ظاہر ہو اور نہ ٹرانسپیرنٹ(Transparent) ہو جس سے اندر کے اعضا نظر آئیں"
یہ ہے "اصول"یہ ہے "ضابطہ"اب اس اصول کے مطابق آپ فوج کے لیے لباس بناؤیا پارلیمنٹ کے ارکان کے لیے، بے شک اس مخصوص لباس کو قانون کا درجہ دے دو، لیکن اصول یہی ہونا چاہیئے۔
غرض زندگی کے ہر شعبے میں اسلام آپ کو زندگی گزارنے کا کوئی نہ کوئی اصول ضرور دیتا ہے۔نہ کہ لال بتی پہ رکنے جیسے چھوٹے چھوٹے انتظامی قاعدے۔ زندگی کا شعبہ اسلامی اصول کے مطابق ہو اور انتظامی قوانین آپ اپنی مرضی اور سہولت سے طے کرسکتے ہیں۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اسلام کو ضابطہ حیات قرار دینے پر اتنا اصرار کیوں؟؟
وجہ یہ ہے کہ اسلام کا معاشرتی اور خصوصاً معاشی نظام سیکولرازم اور لبرل ازم کے راستے کی آہنی رکاوٹ ہیں۔ سیکولر اذہان چاہتے ہیں کہ سب سے پہلے مسلمانوں میں یہ تصور راسخ کیا جائے کہ اسلام بانجھ دین ہے۔ اس کے پاس معاشی اصول نہ ہونے کے برابر ہیں لہٰذا ہمارے اصولوں کے مطابق ریاستی اداروں اور انسانوں کو چلنا چاہیئے، لیکن سیکولرازم یہ نہیں جانتا کہ اسلام وہ دین ہے جو اپنے ماننے والوں کو کسی بھی شعبے میں یتیمی کا احساس نہیں دلاتا، اسلام زندگی کے ہر ہر موڑ پر ہمارا ہاتھ تھامتا ہے، ہماری راہنمائی کرتا ہے اور ہماری اسی "ضابطہ حیات"کے ذریعے "ضابطہ نجات"تک راہنمائی کردیتا ہے۔
.
ثوبان تابش

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔